تسبیح اور ماثورہ دعاؤں اور ذکر کے بیان میں

مقالہ 16 , درس 73

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے بارے میں حضرت کے صاحبزادہ حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم ہوتی ہے۔

آج اس میں سے سولہویں مقالے سے تعلیم ہو گی۔

سولہواں مقالہ تسبیح اور ماثور دعاؤں اور ذکر کے بیان میں

متن:

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ بَارَکَ وَ سَلَّمَ: "أَفْضَلُ الْکَلَامِ أَرْبَعٌ: سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ" (مجموع الفتاوی بتغییر قلیل، الرد علی من قالوا بالذکر بلفظ الجلالۃ المفرد، رقم الصفحۃ: 229/10، مجمع الملک فھد، المدینۃ المنورۃ) وَ فِيْ رِوَایَۃٍ: "أَحَبُّ الْکَلَامِ إِلَی اللہِ أَرْبَعٌ: سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللهُ أَکْبَرُ لَآ یَضُرُّکَ بِأَیِّھِنَّ بَدَأْتَ" (الصحیح لمسلم، کتاب الآداب، باب: کراھۃ التسمیۃ بالأسماء القبیحۃ، رقم الحدیث: 2137) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بہترین کلام یہ چار کلمے ہیں: "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ" اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اللہ کو سب سے پیارا کلام یہ چار کلمے ہیں: "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ"۔ کوئی حرج نہیں جو الفاظ بھی شروع اور پہلے کہے جائیں، خواہ "سُبْحَانَ اللہِ" سے شروع کرو یا "اَلْحَمْدُ لِلہِ" وغیرہ سے۔

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ بَارَكَ وَ سَلَّمَ: "مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ فِيْ یَوْمٍ مِّائَۃَ مَرَّۃٍ حَبِطَتَ خَطَایَاہُ وَ إِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبْدَۃِ الْبَحْرِ" (سنن الترمذي بمعناہ، أبواب الدعوات، باب بلا ترجمۃ، رقم الحدیث: 3466) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے "سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ" ایک دن میں سو بار پڑھ لیا تو اُس کے گناہ سب معاف کئے جائیں گے، اگرچہ اُس کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں“۔

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِي الْمِیْزَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ" (الصحیح للبخاري بمعناہ، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ: "و نضع الموازین القسط لیوم القیامۃ"، رقم الحدیث: 7563) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ دو کلمے ہیں جو زبان سے ادا کرنے میں آسان اور ہلکے ہیں، اور میزان کی تول میں بھاری ہیں، اور دونوں کلمے اللہ تعالیٰ کو بہت پیارے ہیں، اور وہ کلمے یہ ہیں: "سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ"۔

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "اَلْحَمْدُ رَأْسُ الشُّکْرِ، مَا شَکَرَ اللہُ عَبْدًا إِلَّا بِحَمْدِہٖ" (شعب الإیمان بمعناہ، رقم الحدیث: 4085) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "اَلْحَمْدُ" شکر کا سر ہے اور جس بندہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد نہ کہی اُس نے شکر ادا نہ کیا“۔

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "أَوَّلُ مَنْ یُّدْعٰی إِلَی الْجَنَّۃِ الَّذِیْنَ یَحْمَدُوْنَ اللہَ فِي السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ" (رَوَاهُمَا البَیْھَقِيُّ فِيْ شُعَبِ الْإِیْمَانِ۔ رقم الحدیث: 4166) ”جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ سب سے پہلے جو لوگ جنت میں داخل ہونے کے لئے بلائے جائیں گے وہ وہی لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد رنج اور خوشی میں ادا کرتے رہے ہوں“۔ ان دونوں حدیثوں کو بیہقی نے شعب الإیمان میں روایت کیا ہے۔

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "مَا قَالَ عَبْدٌ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُخْلِصًا قَطُّ إِلَّا فُتِحَتْ لَہٗ أَبْوَابُ السَّمَاءِ حَتّٰی تُفْضِيَ إِلَی الْعَرْشِ مَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ" (رَوَاہُ التِرْمَذِيُّ وَ قَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔ رقم الحدیث: 3590) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بندہ اخلاص سے جب "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کہتا ہے تو آسمان کے دروازے اس کے لئے کھول دیے جاتے ہیں تاکہ عرش تک رسائی حاصل کرے، اگر وہ کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے“۔

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "لَقِیْتُ إِبْرَاھِیْمَ لَیْلَۃً اُسْرِيَ بِيْ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ! اقْرَأْ اُمَّتَکَ مِنِّيَ السَّلَامَ وَ أَخْبِرْھُمْ أَنَّ الْجَنَّۃَ طَیِّبَۃُ التُّرْبَۃِ عَذْبَۃُ الْمَاءِ وَ أَنَّھَا قِیْعَانٌ وَّ أَنَّ غِرَاسَھَا سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ" رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ إِسْنَادًا۔ (رقم الحدیث: 3462) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دیں اور اُن کو آگاہ کر دیں کہ جنت کی زمین پاکیزہ ہے، پانی شیریں ہے اور صاف میدان ہے، اور اُس کے درخت یہ کلمے ہیں کہ "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ" اس حدیث شریف کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے حسن اور غریب ہے۔ ابیات:

؎ خداوند کہ ہر چیزیکہ خواہد

ز حکمِ او نیفزاید نہ کاہد

مفرح نامہ جانہاست نامش

سرفہرستِ دیوانہاست نامش

ز نامش پُر شکر شد کامِ جانہا

ز یادش پُر گہر تیغِ زبانہا

خداوندیکہ چندانی کہ ہست است

ہمہ در جنبِ ذاتش عین پستی است

اگر بے بادِ او بوئے ست رنگ است

اگر بے ذکرِ او نامے ست ننگ است

چو ذاتش برتر است از ہر چہ دانم

چگونہ شکر ادا کردن توانم

فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ابیات فرمائے ہیں کہ وہ خداوند کہ جو چیز بھی چاہتا ہے، تو اُس کے حکم سے نہ کوئی چیز زائد ہوتی ہے، اور نہ کم۔ اس کا نام روح کو فرحت اور سرور بخشتا ہے۔ اور زبان اُس کے ذکر سے صیقل ہو جاتی ہے۔ اور اُس کا نام تمام دیوانوں کا سر فہرست ہے، روح کا حلق اُس کے نام کے ذکر سے شیرین اور اُس کی یاد سے زبان کی آب و تاب زیادہ ہو جاتی ہے۔ وہ خداوند اور مالک جس کی ہستی مسلم ہے۔ اور ساری کائنات اُس کی ذات کے مقابلے میں عین پستی میں ہیں۔ اگر اس کے بغیر کوئی خوشبو ہے تو وہ (محض) رنگ ہے۔ اگر اس کے ذکر کے بغیر کوئی نام ہے تو محض (باعثِ) عار ہے۔ جب اس کی ذات ہر اس چیز سے برتر ہے جس کا مجھے علم ہے۔ تو میں (اس کا) شکر کیسے ادا کر سکتا ہوں۔

اور شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ابیات؎

اے قادریکہ دارد کے بود تا نداشت

منشورِ امر و نہیِ تو توقیعِ لا یزال

مہرِ جلالِ ذات تو ہرگز فرد نہ رفت

در عالمِ ضمیر بدروازۂ خیال

حکمِ تو بے منازع و ملکِ تو بے شریک

وصفِ تو بے نہایت و ذاتِ تو بے زوال

وصفِ تو بلبلان نفس را بکَنَد پر

نعت تو طوطیان خرد را بسوخت بال

امر تو بے نفیر و حکم تو بے شریک

ذات تو بے فنا و بقائے تو بے زوال

در ہر دِلے کہ نیست ہوائے تو باد خون

در ہر زبان کہ نیست ثنائے تو باد لال

اے قادر و توانا خدا تمہارے امر و نہی کے منشور کی عزت و چاہ بے زوال ہے۔ تمہاری ذات کے جلال کی رفعت کا خیال بھی کسی شخص کے خیال کے دروازے سے اُس کے دل میں نہ آسکا۔ تمہارے حکم میں کسی چون و چرا کی گنجائش نہیں۔ اور تمہارا ملک بغیر کسی شریک کے ہے۔ تمہاری حمد و وصف کی کوئی انتہا نہیں اور تمہارے بقا کے لئے زوال نہیں۔ تیری توصیف جان کی بلبلوں کے پر اکھاڑ دیتی ہے۔ تیری تعریف عقل کے پرندوں کے بال جلا ڈالتی ہے۔ تیرا امر بے آواز اور تیرا حکم بلا شریک ہے۔ تیری ذات کو فنا نہیں اور تیری بقاء لا زوال ہے۔ جس دل میں تمہاری خواہش نہ ہو، وہ دل خون آلودہ ہو جائے اور جس زبان پر تمہاری یاد اور تمہارا ذکر نہ ہو، وہ گُنگ اور لال ہو جائے۔ دوسری نظم: ؎

سُبْحَانَ مَنْ یَّرٰی أَثَرَ النَّمْلِ فِی الصَّفَا

سُبْحَانَ مَنْ یَّسْبَحَہُ الطَّیْرُ فِی الْھَوَاءِ

رَبُّ البَرِیّۃِ وَ حَمْدٌ عَزَّ شَانُہٗ

ذُو الطَّوْلِ وَ الْمَعَارِجِ وَ الْمَجْدِ وَ الثَّنَاءِ

قیّوم و لا یزال و خداوندِ لم یزل

دارائے بندہ پرور و دادار رہنما

تنہائش دلیل بر آثار صنع اوست

کز خار گل برآید و از گل روید گیاہ

در ہیچ ذرہ نیست کہ آثار صنع نیست

فِیْ غَایَۃِ الْوَضَاحَةِ کَالشَّمْسِ فِی الضُّحٰی

کس را بقائے سرمد و ملک دوام نیست

ملک و بقا تراست لَکَ الْمُلْکُ وَ الْبَقَا

کس درخور ثنا و سزاوار حمد نیست

حمد و ثنا تراست لَکَ الْحَمْدُ وَ الثَّنَا

امر تو بے تفسیر و حکم تو بے شریک

ملک تو بے زوال و بقائے تو بے فنا

در حضرت قبول تو اُفتادگان بلند

بر آستان حشمت تو خسروان گدا

اُس ذات کے لئے پاکی اور برتری ہے، جو کہ چیونٹی کی رفتار کو کالے پتھر پر دیکھتی ہے۔ اور پرندے ہوا میں اُس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ تمام جہان کا پالنہار ہے۔ اُس کی شان بہت بلند ہے۔ اور بڑی شان و شوکت عزت بڑائی اور ثناء کا مالک ہے۔ وہ قیوم ہے۔ اُس کے لئے زوال نہیں۔ اور ایسا مالک اور خداوند ہے جو کہ زوال نا اشنا ہے۔ بندہ پرور مالک اور راستہ بتانے والا آقا ہے۔ اُس کی تنہائی اور ایک ہونا اُس صفت پر دلیل ہے، کہ کانٹوں سے پھول اُگاتا ہے، اور مٹی سے گھاس۔ کوئی ذرہ بھی ایسا نہیں جس میں اُس کی کاریگری کی شان نہ ہو۔ اور یہ شان ایسی واضح ہے، جیسا کہ سورج دن کے وقت نمایاں ہوتا ہے۔ کسی کے لئے دوام اور ہمیشہ کی بقا نہیں۔ ملک اور بقا صرف تمہارے لئے ہے۔ تیرے لئے ملک اور بقا مسلم ہے، کوئی بھی حمد و ثنا کے قابل نہیں۔ حمد اور ثناء تیرے لئے ہے، حمد اور ثنا بس تیرے ہی لئے ہے۔ تیرے حکم میں کسی تفسیر و تبدل کا امکان نہیں۔ اور تیرے احکام میں کسی کی شرکت کا شائبہ تک نہیں۔ تیری بادشاہی کو زوال نہیں اور تیری بقا کو فنا نہیں۔ جو لوگ کہ گرے پڑے ہوئے ہوں، وہ تیرے دربار میں قابل قبول ہیں، اور تیری حشمت و جلال کے دروازے پر بادشاہ بھی گدا ہوتے ہیں۔

فِي التَّوْحِیْدِ: "تَبَارَکَ رَبُّنَا عَنْ کُلِّ شِبْہٍ وَّ عَنْ مِّثْلٍ وَّ عَنْ کُفُوٍ وَّ کَیْفٍ" توحید کے بارے میں ہے: ”ہمارا رب ہر مشابہت سے برتر ہے اور ہر مثل مانند سے بالا ہے“ اوپر نیچے، دائیں بائیں، آگے پیچھے، بالا و تحت سے ماوراء ہے۔ نہ اُس کی کوئی حد ہے نہ تالیف و نظم یا تفریق۔

؎ لَہٗ ذَاتٌ یُّخَالِفُ کُلَّ ذَاتٍ

لَہُ وَصْفٌ یُّخَالِفُ کُلَّ وَصْفٍ

”اُس کی ایک ذات ہے جو کہ ہر ذات سے جدا ہے۔ اور اُس کی صفت ہے جو کہ ہر صفت سے جدا ہے

"وَ أَیْضًا فِیْہِ" یعنی توحید کے بارے میں:

خداوند جہاں و نور جان ست

پدید آرندۂ جان و جہان است

ز ملک او سر موئے است عقبیٰ

ز جود او سر کوئے است دنیا

ز وصفش عقل سرگردان بماند

ز ذاتش چشم جان حیران بماند

زہے صنع نہاں و آشکارا

کہ کس را جز خموشی نیست یارا

چو نتوانی بذات او رسیدن

قناعت بہ جمال صنع دیدن

ز خاکے معنی آدم برآرد

ز بادے عیسٰی مریم نگارد

ز تخمے باغ را پیرایہ سازد

ز برگ اطلسی را مایہ سازد

زہے فیض و حضور نور آں ذات

کہ بر ہر ذرہ مے تابد ز ذرات

توئی سر جملہ لکن بے اشارہ

توئی کلی و لکن بے عیارہ

اضافات است در راہ گرفتہ

گہے حضرت گہے درگہ گرفتہ

نکو گوئے نگو گفتہ ست در ذات

کہ اَلتَّوْحِیْدُ إِسْقَاطُ الْإِضَافَاتِ

خدا تعالیٰ جہاں کا بادشاہ اور روح کا نور ہے۔ اور جان و جہان کا پیدا کرنے والا ہے۔ عقبیٰ اُس کے ملک سے بال کا ایک سِر ہے۔ اور اُس کے جود و کرم سے دنیا ایک گلی کا سِرا ہے۔ اس کی صفت سے عقل سرگرداں ہو جاتی ہے، اور اُس کی ذات کو سمجھنے سے روح کی آنکھ حیران ہو جاتی ہے۔ اُس کی صفت اتنی پوشیدہ اور اشکارا و عیان نظر آتی ہے کہ خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، جب اُس کی ذات تک نہیں پہنچا جا سکتا تو اُس کی صفت کی جمال و حسن کو دیکھنے پر قناعت کرنی چاہئے۔ مٹی سے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ اور ہوا سے عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق فرمایا۔ تخم کے ایک دانے سے باغ کو آراستہ کیا۔ اور اطلسی رنگ کے پتوں سے باغ کا سرمایہ بنایا۔ اُس ذات کے فیوض سے ہر ذرہ تابندہ ہے۔ تم تمام اشیاء کا آغاز اور ابتدائیہ ہو، مگر تم کو اشارہ نہیں کیا جا سکتا اور تم کُل ہو مگر تمہارا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اِضافتیں نا مکمل ہیں کبھی حضوری حاصل ہوتی ہے اور کبھی دروازے پر پڑے رہتے ہیں۔ ایک اچھی بات کہنے والے شخص نے کیا اچھی بات کہی ہے۔ کہ اَلتَّوْحِیْدُ إِسْقَاطُ الْإِضَافَاتِ، توحید یہ ہے کہ تمام اضافی اشیاء اور اضافتوں کو ساقط کیا جائے۔ توحید کے بارے میں:

؎ چوں نسیم عنایتش بوزید

بر دِل سالکان راہ ہُدٰی

نار نمرود شد بہار خلیل

آب دریا وقایۂ موسیٰ

جب اُس کی عنایتوں کی خوشگوار ہوا چلتی ہے۔ تو سالکوں کو ہدایت کا راستہ دکھلایا جاتا ہے۔ اُس کے عنایت و کرم کی وجہ سے نمرود کی آگ خلیل اللہ علیہ السلام پر باغ و بہار بن گئی، اور دریا کا موجزن پانی موسٰی علیہ السلام کی حفاظت کا سبب اور پناہ گاہ ہوئی۔

محمد عطار نیشا پوری کہتے ہیں:

سبحان خالقے کہ صفاتش ز کبریا

بر خاک عجز می فگند عقل انبیاء

گر صد ہزار قرن ہمہ خلق کائنات

فکرت کند بہ معرفت ذات آں خدا

آخر بعجز معترف آیند کاے اِلہ

دانستہ شد کہ ہیچ ندانستہ ایم ما

سبحان قادرے کہ بر آیئنہ وجود

بنگاشت از دو صرف دو گیتی کما یشاء

چوں ہیچ جائے نیست کہ او نیست جملہ اوست

چوں جملہ اوست کیستی آخر تو بے نوا

اُس خالق کے لئے پاکی اور بڑائی ہے، جس کی عظمت اور کبریائی کے سامنے پیغمبروں کی عقل بھی خاک پر پڑی ہے۔ اگر تمام کائنات کی مخلوق کئی قرنوں تک سوچ کر اللہ تعالیٰ کی معرفت ذات میں تفکر کریں تو آخر کار عاجز ہو کر یہ اعتراف کریں گے کہ اے خدا ہم تو اتنا سمجھے کہ ہم کچھ نہ سمجھ پائے۔ پاکی ہے اُس قادر و توانا ذات کے لئے کہ اس صفحۂ کائنات پر دو حرفوں (کُن) کے کہنے سے دونوں جہانوں کو ایسا پیدا فرمایا جیسا کہ اُس کی مرضی تھی۔ جب کوئی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں وہ موجود نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ ”وہ“ ہے، جب سب کچھ ”وہ“ ہے تو آخر اے بے نوا تو کون ہے؟

"أَیْضًا فِیْہِ" توحید کے بارے میں:

با وجود سمات نقص جہات

کے تواں گفت نعت ذات و صفات

او ازاں برتر است و والا تر

کہ بوصفش نطق زنند بشر

اطراف و اجانب کی روشوں اور راستوں کو دیکھتے ہوئے ذات و صفات کی تعریف نہیں کی جا سکتی، انسان کی زبان جو کچھ کہ کہہ سکے، اللہ تعالیٰ کی صفات و ذات اُس سے بالا و برتر ہے۔ (اس لئے اُس کی کما حقہ تعریف حمد و ثناء اور نعت نہیں کہی جا سکتی)

تشریح:

جب لوگ یہ باتیں کرتے ہیں، تو وہ ان کا اثر محسوس نہیں کرتے، لیکن اہلِ قلوب کے لئے ان میں سب کچھ ہوتا ہے۔ آج کا یہ مقالہ ’’تسبیح اور ماثور دعاؤں اور ذکر کے بیان‘‘ کے بارے میں ہے۔ سب سے پہلے حضرت نے ایک حدیث شریف بیان فرمائی ہے، جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بہترین کلمات یہ چار کلمے ہیں: ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘۔ ان کلمات میں ذرا غور کریں کہ ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کی جاتی ہے کہ وہ ہر عیب سے پاک ہے۔ اس تک ہمارا تصور نہیں پہنچ سکتا۔ جیسے اللہ کی شان ہے، وہ ویسے ہی ہے۔ یہاں ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ سے ابتدا ہوتی ہے کہ جو تمام مخلوقات کی صفات ہیں، اللہ تعالی اس طرح صفات والے نہیں ہیں، بلکہ اللہ جلَّ شانہ کی ذات وراءُ الوراء ہے، تمام آلائشوں، عیوب اور سوچ کی رسائی سے پاک ہے۔ اور پھر ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ میں اللہ جلَّ شانہ کی تعریف اور حمد ہے۔ جو عارف ہوتا ہے، وہ صرف اللہ ہی کو دیکھتا ہے۔ یعنی اللہ ہی سے سب کچھ کو دیکھتا ہے، لہٰذا وہ یہی کہے گا کہ سرداری بھی اللہ کے لئے ہے۔ کیوں کہ باقی سارے کے سارے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اور جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، وہ صرف اس کی منشاء، اس کی اجازت اور اس کے کرنے سے کرتے ہیں، وہ خود کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جب بھی کسی کی تعریف کی جائے گی، تو وہ تعریف بھی اللہ جلَّ شانہ کے لئے ہو گی۔ لہٰذا اگر کوئی تعریف ہے، جس کو تعریف کہتے ہیں، تو وہ اللہ کے لئے ہے۔ ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہ‘‘ کلمۂ توحید ہے اور پوری کائنات کی جڑ ہے، جس پہ سب کچھ قائم ہے۔ اور ’’اَللہُ أَکْبَرُ‘‘ میں اللہ جلَّ شانہ کی بڑائی ہے۔ اس ترتیب سے جب ہم یہ پڑھتے ہیں، تو یہ بات ہماری سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اللہ جلَّ شانہ کی ذات کے ساتھ وابستگی بھی خیر ہے۔ اور طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرے، اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے، اللہ پاک کی توحید بیان کرے اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرے۔ گویا ہمیں ایک ترتیب مل جاتی ہے کہ ہم جب بھی اللہ کے بارے میں بات کریں، تو اس میں اللہ تعالیٰ کی پاکی کا، اللہ تعالیٰ کی تعریف کا، اللہ تعالیٰ کی توحید کا اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا خصوصی تذکرہ ہو۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اللہ کو سب سے پیارے یہ چار کلمے ہیں: ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘۔ کوئی حرج نہیں کہ جو الفاظ بھی شروع میں اور پہلے کہے جائیں۔ کیونکہ اللہ پاک کی تعریف جس طریقے سے بھی کی جائے، ٹھیک ہے، اس میں کمی نہیں کرنی چاہئے۔ چاہے کوئی ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ سے شروع کرے یا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ فِيْ یَوْمٍ مِّائَۃَ مَرَّۃٍ حَبِطَتْ خَطَایَاہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدَۃِ الْبَحْرِ" (سنن الترمذي بمعناہ، أبواب الدعوات، باب بلا ترجمۃ، رقم الحدیث: 3466)

ترجمہ: ’’جس نے ’’سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کسی دن میں سو مرتبہ کہا، تو اس کی ساری خطائیں معاف ہو جائیں گی، چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں‘‘۔

یہ متفق علیہ روایت ہے۔ اور بخاری شریف کی آخری حدیث شریف ہے، جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِي الْمِیْزَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ‘‘ (الصحیح للبخاري بمعناہ، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ: "ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ"، رقم الحدیث: 7563)

یہاں پر بھی وہی کلمات ہیں، البتہ ان کی تعریف اس انداز میں کی کہ دو کلمے ہیں، جو زبان پہ ہلکے ہیں، میزان میں بھاری ہیں اور اللہ پاک کو بڑے پیارے ہیں۔ وہ کلمے ہیں: ’’سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ‘‘۔ یہ متفق علیہ روایت ہے۔

متن:

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "اَلْحَمْدُ رَأْسُ الشُّکْرِ، مَا شَکَرَ اللہُ عَبْدًا إِلَّا بِحَمْدِہٖ" (شعب الإیمان بمعناہ، رقم الحدیث: 4085) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "اَلْحَمْدُ" شکر کا سر ہے اور جس بندہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد نہ کہی اُس نے شکر ادا نہ کیا“۔

تشریح:

شکر کس کو کہتے ہیں؟ مثلاً: انسانوں کے ساتھ بھی جب ہمارا کبھی واسطہ ہو اور ہم کسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں، تو اس کی ترتیب یہی ہوتی ہے کہ اس نے جو چیز دی ہوتی ہے، پہلے اس کی تعریف کرتے ہیں، پھر دینے والے کی تعریف کرتے ہیں اور دینے والے کی مرضی کے مطابق اس کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً: اگر کسی نے آپ کو کوئی خوب صورت اور قیمتی شال دی۔ مگر آپ اس سے لیتے وقت اپنی زبان سے اس چیز کے بارے میں بھی کچھ نہ کہیں اور دینے والے کے بارے میں بھی کچھ نہ کہیں، بلکہ اس کے سامنے اس سے اپنے بوٹوں کی صفائی کر لیں، تو وہ کیا کرے گا؟ چاہے تو وہ اسی وقت ہی آپ سے واپس لے لے اور پھر چند سنائے کہ تو اس کے قابل ہی نہیں ہے۔ کیا یہ اس استعمال کے لئے تھی! اور چاہے تو واپس نہ لے، لیکن آئندہ آپ کو کچھ بھی نہ دے، آپ کو مردود کر دے کہ یہ تو کوئی چیز دینے کے قابل ہی نہیں ہے۔ اسی طرح سے جب کوئی بندہ اللہ جل شانہ کی کسی نعمت کو دیکھے، تو سب سے پہلے تو اس نعمت کو جان لے اور اس کی تعریف کرے اور نعمت دینے والی کی تعریف کرے۔ اور پھر اس کو اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرے۔ مثلاً: مجھے اللہ نے صحت دی ہے، تو میں مانوں کہ یہ نعمت ہے۔ یہ ماننا اس کی تعریف ہے۔ کیونکہ بہت سارے لوگ اس چیز کو نعمت سمجھتے ہی نہیں۔ جب ان سے وہ نعمت چھین لی جاتی ہے، تو پھر کہتے ہیں کہ یہ چیز تو ایسی تھی۔ جب تک ان کے پاس ہوتی ہے اور ان کے اوپر کوئی مصیبت نہیں آئی، ان سے وہ چیز ہٹی نہیں، تو اس کا اقرار ہی نہیں کرتے۔ بہت کم ایسے لوگ ہوں گے، جو اپنی صحت کے بارے میں اقرار کرتے ہوں کہ یہ اللہ پاک نے نعمت دی ہے۔ اگرچہ theoretically کہہ دیں گے، لیکن وہ ایک صرف بات ہوتی ہے، ان کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ ہمیں اللہ پاک نے صحت کی کتنی نعمتیں دی ہیں۔ مگر عارفین ہمیشہ شکر کرتے ہیں۔ جیسے: حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جب اچانک کوئی پیسہ مل جاتا ہے، تو اس پہ تو لوگ شکر کرتے ہیں، لیکن جو تنخواہ ہر مہینہ ملا کرتی ہے، اس پر شکر نہیں کرتے۔ یہ بات بالکل پکی ہے۔ اور فرمایا کہ جو پیسہ اچانک مل جائے، تو ممکن ہے کہ اس کے لئے اس کے پاس کوئی فوراً مصرف نہ ہو، اور شاید اس کی اتنی قدر بھی نہ کرے۔ لیکن تنخواہ useful اس کے لئے ہوتی ہے کہ انسان باقاعدہ پلاننگ کر سکتا ہے، اس کے مطابق اپنا ایک نظام بنا لیتا ہے، اپنا معیار بنا لیتا ہے۔ تو جو زیادہ تعریف کے قابل چیز تھی اور شکر کے قابل چیز تھی، اس کی طرف لوگوں کا ذہن بھی نہیں جاتا۔ اللہ جل شانہ نے ایک نظام بنایا ہے، اس نظام کو سمجھنے کے لئے معرفت کی ضرورت ہے۔ مثلاً: اللہ پاک کا یہ نظام ہے کہ جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اس کو بہت زیادہ مقدار میں پیدا کیا ہے۔ پھر جو اس سے کم ضرورت کی چیز ہے، وہ اس سے کم پیدا کی ہے۔ پھر جو اس سے کم ضرورت کی چیز ہے، وہ اس سے بھی کم پیدا کی ہے۔ مثلاً: ہمیں ہوا کی بہت ضرورت ہے، اتنی ضرورت ہے کہ اس کے بغیر ہم چند لمحے بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ اگر ہوا بالکل ختم ہو جائے، تو چند لمحے بھی انسان زندہ نہ رہے۔ لیکن یہ اتنی وافر ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر اس کی قیمت ہوتی، تو غریب لوگ کتنے پریشان ہوتے۔ حالانکہ معاملہ یہ ہے کہ بعض دفعہ تو غریب لوگوں کو یہ نسبتاً زیادہ بہتر ملتی ہے اور مال دار لوگوں کو بہتر نہیں ملتی۔ غریب لوگ کھلے میدانوں میں، کھیتوں میں ہوتے ہیں، تو ان کی آب و ہوا زیادہ فریش ہوتی ہے اور اس کے اندر آگسیجن کی مقدار اتنی ہوتی ہے، جتنی کہ قدرتی ہونی چاہئے۔ اور مال دار لوگ جو AC میں رہتے ہیں، ان کو وہ چیز دستیاب نہیں ہوتی۔ تو مال دار لوگ اس سے محروم ہیں۔ اللہ پاک نے ہوا کو اتنا زیادہ وافر پیدا کیا کہ اس کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ اتنی جبری نعمت ہے کہ اس کو آپ نکال بھی نہیں سکتے۔ ہوا کو کسی جگہ سے نکالنا سب سے مشکل کام ہے۔ کیونکہ یہ ہر چیز کی ضرورت ہے، لہٰذا اس کو کوئی نکال نہیں سکتا۔ vaccum generate کرنا بہت مشکل کام ہے۔ کیونکہ اگر آپ ہوا کو نکالیں گے، تو دوسری طرف سے آ جائے گی۔ جیسے: اگر آپ بوتل کو خالی کرتے ہیں، تو اس کو کسی angel پہ کرنا پڑتا ہے، تب بوتل سے پانی نکلے گا، ورنہ وہ راستہ روک دے گا۔ ہوا اندر جائے گی اور وہ چیز باہر آئے گی، تو راستہ ہی بلاک ہو جائے گا۔ کسی angel پہ کر کے ہوا کے لئے راستہ چھوڑو گے، تو پھر ہی آپ اس سے کسی چیز کو باہر نکال سکتے ہیں، ورنہ نہیں نکال سکتے۔ جیسے فارسی کی ضرب المثل ہے: ’’خانۂ خالی را دیو می گیرد‘‘۔ یعنی جو گھر خالی ہوتا ہے، اس میں جن آ جاتے ہیں۔ ہوا بھی اس طرح ہی ہے، کہتی ہے کہ جو چیز خالی ہو گی، وہ میری ہے۔ کوئی اور اس میں نہیں آ سکتا۔ آپ خالی کرتے جائیں گے، تو ہوا کے لئے راستہ چھوڑنا پڑے گا، ورنہ وہ چیز باہر نہیں جائے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اتنا زبردست نظام ہے۔ اس کے بعد جو بہت ضروری چیز ہے، وہ پانی ہے۔ فرمایا: ﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ﴾ (الانبیاء: 30)

ترجمہ: ’’اور پانی سے ہر جاندار چیز پیدا کی ہے‘‘۔

یعنی ہر چیز پانی کی وجہ سے زندہ ہے۔ یہی وجہ ہے اکثر پانی کی قیمت بھی نہیں ہوتی، اکثر مفت ہوتا ہے۔ اور اگر کہیں قیمت ہوتی بھی ہے، تو باقی چیزوں کے مقابلہ میں تھوڑی ہوتی ہے۔ اگر یہ لوگ Oxygen اور Hydrogen ملاکر پانی بناتے، تو کتنا بن سکتا تھا؟ بڑا مشکل تھا۔ لیکن اللہ پاک نے اتنا وافر پانی پیدا کیا کہ زمین پر خشکی سے زیادہ پانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ایسا انتظام کیا ہے۔

تیسری چیز جو انسان کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ غلہ ہے۔ چاہے چاول ہے، چاہے گندم ہے، چاہے مکئی ہے۔ یہ چیزیں پانی کے بعد سستی ہیں۔ کیونکہ بہت مقدار میں ہیں۔ باقی چیزیں جس رفتار سے مہنگی ہوتی ہیں، یہ چیزیں اتنی رفتار سے مہنگی نہیں ہوتیں۔ یہ اللہ پاک نے نظام بنایا ہے۔ پھر ان کے بعد باقی چیزیں ہیں، جیسے: آلو ہے یا سبزیاں ہیں۔ پس جو چیز جتنی جتنی کم مقدار میں ضرورت ہے، وہ اس لحاظ سے مہنگی ہے۔ حتیٰ کہ ہیرے اور جواہرات سب سے زیادہ مہنگے ہیں۔ عمر بھر بھی آپ ان کو نہ دیکھیں، تو آپ کو کوئی نقصان نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ نے یہ نظام ایسا بنایا ہے۔ لہٰذا عارف تو بے ساختہ شکر کرے گا اور کہے گا کہ اللہ پاک نے میرے لئے کیسے انتظامات کئے ہیں۔ لیکن عوام کی اس طرف کوئی سوچ نہیں جاتی۔ کتنی چیزیں اللہ پاک نے ہمیں وافر دی ہیں اور ہماری ضروریات پوری کی ہیں۔ اگر آپ صرف خشک روٹی کھا لیں اور پانی پی لیں، تو آپ کا گزارہ ہو سکتا ہے، تبھی تو ہم زندہ ہیں۔ اس کا اللہ پاک نے یہ انتظام کیا ہوا ہے۔ بعینہ اسی طرح شریعت میں بھی جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے، اس کو بہت آسان کیا ہے۔ اتنا آسان کیا ہے کہ اس کے لئے نہ وضو کی پابندی ہے، نہ جگہ کی پابندی ہے، نہ مخصوص کپڑوں کی پابندی ہے، نہ کچھ اور پابندیاں ہیں۔ حتیٰ کہ جنابت کی حالت میں بھی اور حیض و نفاس کی حالت میں بھی کر سکتے ہیں۔ وہ ہے؛ اللہ کا ذکر۔ حالانکہ دیکھا جائے، تو ہم اللہ کا نام لینے کے قابل نہیں ہیں۔ کہاں اللہ جل شانہ اور کہاں ہم لوگ! لیکن اللہ پاک نے اپنے عظیم نام کو اتنا آسان کر دیا کہ ہر حالت میں لیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو مخبرِ صادق ﷺ نے اس انداز میں بیان فرمایا کہ جو ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا، ان کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ اللہ کی نظر میں ذکر کرنے والا زندوں میں ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردوں میں ہے۔ اس کے باوجود یہ دیکھ لیں کہ ہم کتنا ذکر کرتے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم اپنی روحانیت کا کتنا خیال رکھتے ہیں اور اپنی جسمانیت کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اگر دل اللہ کے شکر اور حمد میں بھرا ہو، اس بات کا احساس ہو، اور نعمتوں کو خوب استعمال کرے، لیکن ان کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر، اللہ جل شانہ کی محبت ہمارے دل میں ہو اور اس کا ہم شکر کر رہے ہوں، تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پروا نہیں کہ تمہیں غریب کر دے۔ اس لئے ایک روایت میں آتا ہے کہ جو نرم نرم بستروں پہ ذکر کرتے ہیں، اللہ اُن کے درجات جنت میں بلند کر دیتا ہے۔ کیوں کہ اللہ جل شانہ کے لئے کیا مشکل ہے۔ سلیمان علیہ السلام کو بادشاہی دی، پھر بھی وہ پیغمبر ہیں۔ اسی طرح داؤد علیہ السلام کو بھی بادشاہت دی، پھر بھی وہ پیغمبر ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غنی بنا دیا، پھر بھی وہ خلیفۂ راشد ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ نعمتوں کا شکر اور نعمتوں کا احساس اللہ جل شانہ کے ہاں ان نعمتوں کی قدر دانی ہے۔ اور اس کے ہوتے ہوئے نعمتیں نقصان نہیں دیتیں۔ یہ اتنا زبردست نظام ہے کہ چونکہ یہ نقصان نہیں دیتیں، لہٰذا جو اللہ پاک کا شکر کرتا ہے، اس کے لئے نعمت اور بڑھا دیتے ہیں۔ شکر کرنے والے کی نعمتوں کو اور بڑھانا؛ یہ اس نعمت کی پسندیدگی ہے کہ اللہ پاک پسند کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ نعمتیں ہوں۔ جیسے فرمایا: ﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ (ابراھیم: 7)

ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا، تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔

لیکن اس کے بعد آتا ہے: ﴿وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم: 7)

ترجمہ: ’’اور اگر تم نے نا شکری کی، تو یقین جانو کہ میرا عذاب بڑا سخت ہے‘‘۔

چنانچہ جہاں کہیں خوشحالی ہے، وہاں زیادہ مسئلہ ہے۔ شیطان ایسا ظالم ہے، ایسا غافل کرتا ہے کہ جہاں خوشحالی ہے، وہاں زیادہ مسئلہ ہے۔ بظاہر صبر مشکل نظر آتا ہے، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ شکر مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے شکر کرنے والے کم ہیں اور صبر کرنے والے زیادہ ہیں۔ چنانچہ اہلِ نعمت شکر نہیں کرتے اور اہلِ مصیبت میں سے بہت سارے لوگ صبر کرتے ہیں۔ یہ الٹی منطق ہے۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ صبر زیادہ مشکل تھا کہ صبر میں کمی کا امکان زیادہ تھا۔ لیکن یہاں الٹی بات ہے۔ لہٰذا اب صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے معرفت۔ اگر معرفت ہو، تو انسان شکر بھی کرے گا اور صبر بھی کرے گا۔ جو جو نعمتیں اس کو ملیں گی، ان پر اللہ تعالیٰ کا مشکور ہو گا۔ پس انسان کو یہ معرفت حاصل کرنی چاہئے اور ہر وقت اس کا استحضار ہونا چاہئے۔ اور اس چیز کو پیدا کرنے کے لئے ذکر ہے۔ کیونکہ جو ہر وقت ذکر کرتا ہے، اس کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا استحضار ہو گا، اور جب ہر وقت اللہ تعالیٰ کا استحضار ہو گا، تو اس کو ہر وقت کی نعمتوں کا بھی پتا ہو گا۔ اس لئے وہ شکر بھی کرے گا اور صبر بھی کرے گا۔ اسی وجہ ذکر تمام چیزوں کی جان ہے۔ یہاں پر بھی یہی فرمایا:

متن:

"اَلْحَمْدُ" شکر کا سر ہے اور جس بندہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد نہ کہی اُس نے شکر ادا نہ کیا“۔ (اور آپ ﷺ نے فرمایا) أَوَّلُ مَنْ یُّدْعٰی إِلَی الْجَنَّۃِ الَّذِیْنَ یَحْمَدُوْنَ اللہَ فِي السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ" (رَوَاهُمَا البَیْھَقِيُّ فِيْ شُعَبِ الْإِیْمَانِ۔ رقم الحدیث: 4166) ”جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ سب سے پہلے جو لوگ جنت میں داخل ہونے کے لئے بلائے جائیں گے وہ وہی لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد رنج اور خوشی میں ادا کرتے رہے ہوں“۔

تشریح:

ایک تو زبان سے کہنا ہے کہ یا اللہ! تیرا شکر ہے۔ اور ایک ہے کیفیتِ شکر میں رہنا۔ کیفیتِ شکر میں رہنا بے تعداد ہے، اس کی تعداد نہیں ہوتی۔ سائنس کی زبان میں ایک کو continuous اور دوسرے کو کہتے ہیں۔ جب آپ تعداد کے ساتھ کرتے ہیں، تو وہ ہے۔ کیونکہ ایک پھر دو، پھر چار اس طرح ہوتا ہے۔ اور کیفیتِ شکر مسلسل ہے، کیونکہ کیفیتِ شکر والا ہر آن شکر میں ہے۔ جیسے ایک ساتھی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا کھانے کے دوران ذکر کر سکتا ہوں؟ میں نے کہا تھا کہ کھانے کے دوران شکر کی کیفیت پیدا کریں، یہی ذکر ہے۔ جب آپ کھانا شروع کریں، تو بسم اللہ سے شروع کریں کہ ’’بِسْمِ اللہِ وَعَلیٰ بَرَکَۃِ اللہِ‘‘۔ یہ استحضار ہے کہ اللہ نے تجھے دیا اور اللہ کے نام سے تو اس کو شروع کر رہا ہے۔ اور اللہ پاک کے پاس برکت بھی ہے۔ ان چیزوں کا اقرار کر کے آپ نے کام شروع کیا ہے اور پھر کیفیتِ شکر کے ساتھ کھانا کھاتے جاؤ۔ اس میں کچھ بولنا نہیں ہے، صرف کیفیت ہے۔ اور جب کھانا پورا کر لو، تو سنت سمجھ کر یہ دعا پڑھیں: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِيْنَ‘‘۔ تو انسان ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کرے۔ میں جب دیکھتا ہوں، تو اللہ کی نعمتیں استعمال کر رہا ہوں۔ میں جب سنتا ہوں، تو اللہ کی نعمتیں استعمال کر رہا ہوں۔ میں جب بولتا ہوں، تو اللہ کی نعمتیں استعمال کر رہا ہوں۔ میں جب سوچتا ہوں، تو اللہ کی نعمتیں استعمال کر رہا ہوں۔ یہاں تک کہ بیتُ الخلاء میں جاتا ہوں، تو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے آسانی ہوتی ہے۔ جیسے دعا ہے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَذْھَبَ عَنِّی الْأَذٰى وَعَافَانِیْ‘‘ اسی طرح ہر چیز اور ہر وقت اللہ کی نعمتیں ہیں۔ ہر موقع محل کی آپ ﷺ کی دعاؤں میں غور کریں، تو ہر دعا کے اندر نعمت کا ادراک اور ذکر ہے۔ جیسے آئینہ کو دیکھ کر یہ دعا کرنی چاہے: ’’اَللّٰهُمَّ أَنْتَ حَسَّنْتَ خَلْقِيْ فَحَسِّنْ خُلُقِيْ‘‘ ’’اے اللہ! تو نے جس طرح میری صورت اچھی بنائی ہے، اسی طرح میرے اخلاق کو بھی اچھا کر دے‘‘۔ یہ کیسی پیاری دعا ہے۔ ظاہر تو نظر آتا ہے، مگر اندر تو نظر نہیں آ سکتا۔ تو جو نظر آتا ہے، اس کو وسیلہ بنا دیا اس کا جو نظر نہیں آتا۔ سوائے رسول اللہ کے اتنی حکمت کوئی نہیں کر سکتا۔ میں تو کہتا ہوں کہ ان دعاؤں میں معرفت کے سمندر ہیں۔ ان دعاؤں کے اندر انسان کو غور کرنا چاہئے۔ ہر دعا کے اندر معرفت ہے۔ جب کسی کے ہاں کھانا کھاتا ہے، تو کہتا ہے: ’’اَللّٰھُمَّ اَطْعِمْ مَنْ اَطْعَمَنِْي وَاسْقِ مَنْ سَقَانِیْ‘‘۔ چونکہ جو انسان کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ اس دعا میں انسان کا شکر ہے۔ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کا شکر بھی کرتا ہے۔ در اصل! یہ ساری کی ساری کیفیات ہیں اور ان کیفیات کے اظہار کے لئے الفاظ ہیں۔ جب انحطاط کا دور آتا ہے، تو کیفیات رخصت ہوتی جاتی ہیں اور الفاظ باقی رہتے ہیں۔ اور جب مزید انحطاط آتا ہے، تو الفاظ بھی چلے جاتے ہیں۔ اور جب مزید انحطاط آتا ہے، تو پھر دوسرے الفاظ آ جاتے ہیں، جو ان کی ضد ہوتے ہیں۔ اس وقت تقریباً یہی صورتِ حال ہے اور تقریباً انحطاط ہے۔ اندازہ کریں کہ کھانا کھاتے ہیں، تو میوزک بج رہا ہوتا ہے۔ ’’نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکَ‘‘ کھلم کھلا کفرانِ نعمت ہے کہ یہ جو نعمت مجھے ملی ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور شیطان کو خوش کیا جاتا ہے۔ اور روز بروز نافرمانی میں مزید اضافے ہوتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں الحمد للہ ہم نے اپنے علاقوں میں دیکھا تھا، ابھی بھی بعض گاؤں میں ہوتا ہے، اگرچہ گاؤں میں بھی یہ چیزیں گھس گئی ہیں۔ پہلے جب لوگ کھانا کھاتے تھے، تو اکثر دو چارپائیاں ملی ہوتی تھیں اور درمیان میں بہت بڑا تھال ہوتا تھا، تھال کے اندر کھانا ہوتا تھا، چارپائیوں پر تین تین افراد بیٹھے ہوتے تھے، یعنی چھ افراد ایک تھال سے کھاتے تھے۔ اور بعض جگہوں پہ یہ ہوتا تھا کہ دستر خواں بچھا ہوا تھا اور ڈونگوں میں چیزیں پڑی ہوتی تھیں اور رکابیاں پڑی ہوتی تھیں۔ ان ڈونگوں سے ضرورت کے مطابق چیزیں لی جاتی تھیں۔ اور اس طرح لوگ کھاتے تھے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! سنت تو ایک تھال میں اکٹھا کھانے کی ہے، آپ علیحدہ علیحدہ کیوں دیتے ہیں؟ حضرت عارف باللہ تھے، فرمایا: اصل میں اب لوگ وہ نہیں رہے، حقوق کا خیال نہیں رکھتے، اب جب اکٹھا کھاتے ہیں، تو دوسرے کا حصہ کھانے کی نیت ہو جاتی ہے۔ اس لئے کھانے سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ اس لئے میں ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ رکھتا ہوں، تاکہ اپنا اپنا حصہ ڈالیں اور اسے کھائیں۔ کسی اور کے حصے پہ نظر نہ ہو۔ گویا یہ علیحدہ علیحدہ کھانے کا دور آ گیا۔ اس کے بعد پھر بوفے سسٹم آ گیا۔ بوفے سسٹم کے بارے میں ہوٹل میں کیٹرنگ کا کام کرنے والوں سے پوچھیں، وہ تین گنا چارج کرتے ہیں۔ اور اگر دستر خوان والا نظام ہو، تو سستا پڑتا ہے۔ کیونکہ بوفے سسٹم میں ان کو پتا ہوتا ہے کہ اس میں کھانا بہت ضائع ہوتا ہے۔ لوگ بہت ڈالتے ہیں اور پھر کھا نہیں سکتے اور ضائع کر دیتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ میوزک کا جو سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ کول ڈرنک اور اس قسم کی چیزیں ساتھ شروع ہو گئیں۔ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا نظام غیر قدرتی ہوتا جا رہا ہے۔ چونکہ اسلام دینِ فطرت ہے، لہٰذا جو بھی غیر قدرتی چیز ہو گی، وہ اسلام سے دور لے جائے گی۔ نتیجتاً لوگ پریشانی میں مبتلا ہوں گے۔ اس لئے اللہ جل شانہ کا پسندیدہ نظام سنت ہے۔ سنت طریقہ کے مطابق عمل کرنا، سنت کے مطابق چلنا، سارا کچھ سنت کے مطابق کرنا، یہ اللہ کو پسند ہے۔ لیکن سنت طریقوں کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔ باقاعدہ سماج اس کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر کوئی سنت طریقوں کو اختیار کرتا ہے، تو اس کی بڑی مخالفت ہوتی ہے۔ مخالفت اپنے اندر سے ہوتی ہے، اس طرح نہیں کہتے ہیں کہ ہمیں سنت نہیں چاہئے۔ بلکہ اس کے لئے کوئی پلان بنا لیتے ہیں اور ہوتی مخالفت ہے۔ اور یہ ہماری شامت ہے کہ شیطان کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں اور اپنے فائدے اور نقصان کو نہیں جانتے۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو خوشحالی کی حالت میں بھی اور تکلیف کی حالت میں بھی اللہ پاک کی حمد کرتے ہیں، وہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے کے لئے بلائے جائیں گے۔

متن:

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: "مَا قَالَ عَبْدٌ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُخْلِصًا قَطُّ إِلَّا فُتِحَتْ لَہٗ أَبْوَابُ السَّمَاءِ حَتّٰی تُفْضِيَ إِلَی الْعَرْشِ مَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ" رَوَاہُ التِرْمَذِيُّ وَ قَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔ (رقم الحدیث: 3590) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بندہ اخلاص سے جب "لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کہتا ہے تو آسمان کے دروازے اس کے لئے کھول دیے جاتے ہیں تاکہ عرش تک رسائی حاصل کرے، اگر وہ کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے“۔

تشریح:

’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہ‘‘ کی تو بہت فضیلتیں ہیں، جو مختلف احادیث شریفہ میں بیان کی گئی ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ہے: ’’اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 3383)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! مجھے ایسی چیز بتا، جس سے تیری یاد کروں اور تجھ سے دُعا کیا کروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ! ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہ‘‘ پڑھا کر۔ جناب موسی علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے رب! اسے تو تیرے سب بندے پڑھتے ہیں۔ فرمایا: اے موسیٰ! سوائے میرے اگر ساتوں آسمان اور ان کے باشندے اور ساتوں زمینیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے پلڑے میں صرف ’’لَآ اِلٰہ اِلَّا ﷲ‘‘ رکھ دیا جائے، تو ’’لَآ اِلٰہ اِلَّا ﷲ‘‘ والا پلڑا بھاری ہو گا۔‘‘ (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 1936)

اصل میں ذکر جتنا زیادہ ہو جاتا ہے، وافر ہو جاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وجہ سے ہوتا ہے، کیونکہ اس کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن لوگ پھر اس کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ عموماً لوگوں کے ذہنوں سے وافر چیز کی قدر نکل جاتی ہے، چاہے وہ کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہو۔ کسی کے دس بچے ہوں اور کسی کا کوئی بھی نہ ہو، تو جس کا کوئی نہیں ہوتا، وہ مانگتا رہتا ہے کہ کوئی ایک بھی مل جائے۔ اور جس کے دس ہیں، وہ پروا ہی نہیں کرتا، اس کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ پس انسان کو نعمتوں کا ادراک ہونا چاہئے اور نعمتوں کے ادراک کے لئے انسان کو کسی نہ کسی درجہ کی معرفت حاصل ہونی چاہئے۔ ورنہ بغیر معرفت کے نعمتوں کا ادراک نہیں ہوتا۔

متن:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دیں اور اُن کو آگاہ کر دیں کہ جنت کی زمین پاکیزہ ہے، پانی شیریں ہے اور صاف میدان ہے، اور اُس کے درخت یہ کلمے ہیں کہ "سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ

تشریح:

یہ جو تیسرا کلمہ ہے، یہ بہت ہی اونچے درجے کا ہے۔ اس لئے تقریباً سارے مشائخ کے ہاں یہ معمول ہے کہ اس کو ثوابی ذکر کے طور پر دیتے ہیں۔ علاجی ذکر میں ’’لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہ‘‘ اور ’’اَللہ‘‘ سب سلاسل میں معمول ہے اور تمام سلسلوں میں مشائخ کے ہاں یہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار کا بھی معمول ہے۔ کیونکہ یہ بنیادی ضرورت ہے۔ سو کی تعداد ہمارے مشائخ کے ہاں چلی آ رہی ہے۔ کوئی صبح شام کرواتے ہیں اور کوئی ایک دفعہ کرواتے ہیں، لیکن بہر حال! ہے سب کے نزدیک۔ تبلیغی جماعت والے ساتھیوں کو بھی بتایا جاتا ہے، کرتے ہیں یا نہیں کرتے، وہ علیحدہ بات ہے، لیکن بتایا یہی جاتا ہے کہ صبح شام تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ کر لیا کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت بڑا ذکر ہے۔ چنانچہ صلوٰۃُ التسبیح میں یہی ذکر کرایا جاتا ہے تین سو دفعہ۔ اس لئے یہ بہت اونچا ذکر ہے۔ ہمارے ہاں جو ذکر دیا جاتا ہے یعنی تیسرے کلمہ کا پہلا حصہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘ تین سو دفعہ اور ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ دو سو دفعہ دیا جاتا ہے۔ تو حفاظت کے نقطۂ نظر سے ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ کے اپنے فضائل بہت زیادہ ہیں۔ جب الہامی طور پر یہ وظیفہ ملا تھا، تو ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں کہیں پر بیان کر رہا تھا، تو ایک ساتھی آئے، چھوٹا سا کمرہ تھا، جس میں بیان ہو رہا تھا۔ جیسے وہ داخل ہوئے، تو خدا کی شان! اس وقت عاملوں کے خلاف میری زبان کھل گئی اور میں نے خوب عاملوں خبر لی کہ عامل ایسے ہوتے ہیں، ایسے ہوتے ہیں، بس کوئی حال طاری ہو گیا۔ وہ بیچارہ کسی سے سن سنا کے اپنے خیال میں مجھے عامل سمجھ کے آیا تھا۔ جب کہ اِدھر میں عاملوں پہ برس رہا تھا۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ میں اِن کو عامل سمجھ رہا تھا اور یہ عاملوں کے خلاف ہیں۔ خیر! بیان ختم ہونے کے بعد جب لوگ ملے، تو وہ بھی ملا۔ مجھے کہتا ہے کہ شاہ صاحب! دماغ تو ٹھیک ہو گیا ہے، اب میں کیا کروں؟ میں نے کہا کہ آپ ذکر کریں۔ کہتا ہے کہ کون سا ذکر کروں؟ تو میں نے اس کو یہی ذکر بتایا یعنی ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘ تین سو دفعہ اور ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ دو سو دفعہ۔ وہ چلا گیا۔ تقریباً دو ہفتہ کے بعد آیا، تو بیعت ہو گیا۔ پھر اس کے بعد چلا گیا۔ پھر چالیس دن کے بعد آیا۔ جیسے میں چالیس دن کا ذکر دیتا ہوں، تو اس کے بعد وہ آیا۔ کہتا ہے کہ میں نے سینتیسویں دن خواب دیکھا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ جب چالیس دن پورے ہو جائیں گے، تو آپ کو بتاؤں گا۔ میں نے کہا کہ بتاؤ، کیا خواب ہے؟ کہتا ہے کہ میں خواب دیکھتا ہوں کہ آپ کسی جگہ نماز پڑھا رہے ہیں، نماز میں ہم بھی ہیں۔ نماز کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ جو لوگ آپ کے پیچھے نماز پڑھ چکے ہوتے ہیں، ان کے اوپر روشنی ہے، باقی جگہوں پہ روشنی نہیں ہے۔ پھر کہتا ہے کہ آپ ﷺ تشریف لاتے ہیں، تو آپ ﷺ ہماری طرف خوشبو پھینکتے ہیں، اس سے منظر بدل جاتا ہے، جیسے جنت کا منظر ہو جاتا ہے۔ پھر آسمان سے خوشبو برستی ہے۔ اور پھر آپ ﷺ ہمیں ایک رکعت کی صلوٰۃُ التسبیح کا طریقہ سکھا دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ میرے لئے بہت اہم خواب ہے۔ اس میں میرے لئے میسج ہے۔ تو اس نے لکھ کر دے دیا۔ میں نے کہا کہ اب اس کی تعبیر سن لو۔ خواب میں روشنی ہدایت ہے اور خوشبو رحمت ہے۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’نشرُ الطیب فی ذکر الحبیب‘‘ ہے۔ اور ذکرُ الحبیب درود پاک ہے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ چونکہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ روشنی ان لوگوں پہ ہے، جو ہمارے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی ہمارے سلسلہ کے اندر آتا ہے، تو ان شاء اللہ اس کو ہدایت ملے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا، الحمد للہ۔ اور ہمارے سلسلہ کا چونکہ درود شریف کے ساتھ خاص تعلق ہے، شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے سے اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے سے۔ کیونکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’نشرُ الطیب فی ذکر الحبیب‘‘ لکھی ہے اور حضرت شیخُ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے فضائلِ درود شریف لکھی ہے۔ یہ دونوں مشائخ بہت زیادہ درود پاک سے شغف رکھتے تھے۔ اور حضرات میں بھی یہ چیز تھی، لیکن ان میں بالخصوص یہ چیز نمایاں تھی۔ اس لئے یہ برکت ہمارے سلسلہ میں دونوں جگہوں سے آئی ہوئی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کی طرف سے یہ جو تحفہ آیا ہے، یہ اسی کی برکت ہے۔ اور پھر جو آسمان سے خوشبو کی بارش ہے۔ یہ تائیدِ الہی ہے۔ اور جو آخری بات ہے کہ آپ ﷺ نے صلوٰۃُ التسبیح کی ایک رکعت کا طریقہ سکھایا ہے۔ تو ایک رکعت ہی سیکھنی ہوتی ہے، باقی تو اسی طرح ہوتی ہیں۔ کیونکہ صلوٰۃُ التسبیح جب ایک رکعت سیکھ لی، تو باقی اسی طرح پڑھنی ہوتی ہیں۔ گویا پوری صلوٰۃُ التسبیح سکھائی۔ اور یہ ذکر ہم نے صلوٰۃُ التسبیح سے لیا ہے کہ تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘۔ اور خواب سے یہ ثابت ہو گیا ہے یہ بہت اہم وظیفہ ہے۔ واقعتاً ہم نے دیکھا ہے کہ اگر کسی نے یہ وظیفہ صحیح معنوں میں کیا، تو اس کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ یہ ہمارے سلسلے کا Nux Vomica ہے۔ Nux Vomica ہومیو پیتھی کی دوائی ہے، جو وہ ابتدا ہی سے دیتے ہیں، تاکہ باقی چیزوں کا اثر کاٹ دے۔ اسی طرح یہ ہمارے سلسلے کی Nux Vomica ہے، یہاں سے ابتدا ہوتی ہے۔ مرد اور عورت دونوں اس میں شریک ہیں۔ پھر اس کے بعد مردوں کا الگ ذکر ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک ساتھی ہیں، ان کو میں نے اجازت دی تھی، جیسے ہی ان کو اجازت دی، تو ان کے کزن ان کے پیچھے پڑ گئے کہ ہم نے آپ سے بیعت ہونا ہے۔ وہ بڑے شرمیلے بزرگ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نہیں! تم شاہ صاحب سے بیعت ہو جاؤ۔ انہوں نے کہا: میں شاہ صاحب سے بیعت نہیں ہوں گا، مجھے مناسبت آپ کے ساتھ ہے۔ انہوں نے مجھے فون کیا، میں نے کہا: میں نے تمہیں بیعت کی اجازت کس لئے دی ہے، بیعت کرو۔ خیر! انہوں نے بیعت کر لیا۔ اور اس کو یہی وظیفہ دیا، جو ہم نے ان کو دیا تھا۔ جب اس کا یہ وظیفہ مکمل ہو گیا، تو اس نے بھی خواب دیکھا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک مسجد ہے اور مسجد سے باہر ایک بزرگ تشریف لاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آؤ، میں تمہیں بزرگوں کے ساتھ ملاؤں۔ ان کو اندر لے جاتے ہیں، مسجد میں بہت سارے بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ شاہ صاحب اور فلاں صاحب بھی آئے ہوئے ہیں؟ کہا: ہاں! آئے ہوئے ہیں، وہ وضو کر کے آ رہے ہیں۔ جب وہ آ گئے، تو کہتے ہیں کہ باقی بزرگ حلقہ کی صورت میں ان کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ وہ جو بزرگ مجھے اندر لائے تھے، وہ مجھے ایک ایک بزرگ سے ملا رہے تھے کہ یہ فلاں صاحب ہیں اور فلاں صاحب کے ذریعے سے ہمارے سلسلہ میں آئے ہیں۔ جب انہوں نے مجھے بتایا، تو میں نے کہا کہ یہ ہمارے سلسلہ کے بزرگ تھے اور وہ اپنے سلسلے کا تعارف کروا رہے تھے۔ واقعتاً اس وظیفہ کے اندر بہت جان ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو چیز آسانی سے مل جائے، اس کی لوگ قدر نہیں کرتے۔ کوئی خصوصی چیز ہی چاہتے ہیں۔ ہم اور کیا خصوصی چیز دیں۔ خصوصی تو یہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ پاک نے فرما دیا تھا، تو ہم کون ہیں۔ فریدُ الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم تو معرفت کے ایک کوچے میں پھرے ہیں، جب کہ فریدُ الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ معرفت کے پورے شہر میں پھرے ہیں۔ آگے فرماتے ہیں:

متن:

ابیات:

؎ خداوند کہ ہر چیزیکہ خواہد

ز حکمِ او نیفزاید نہ کاہد

مفرح نامہ جانہاست نامش

سرفہرستِ دیوانہاست نامش

ز نامش پُر شکر شد کامِ جانہا

ز یادش پُر گہر تیغِ زبانہا

خداوندیکہ چندانی کہ ہست است

ہمہ در جنبِ ذاتش عین پستی است

اگر بے بادِ او بوئے ست رنگ است

اگر بے ذکرِ او نامے ست ننگ است

چو ذاتش برتر است از ہر چہ دانم

چگونہ شکر ادا کردن توانم

وہ خداوند کہ جو چیز بھی چاہتا ہے، تو اُس کے حکم سے نہ کوئی چیز زائد ہوتی ہے، اور نہ کم۔ (بس اسی کے مطابق ہوتا ہے) اس کا نام روح کو فرحت اور سرور بخشتا ہے۔

تشریح:

یعنی روح کا ذکر کے ساتھ بہت زیادہ تعلق ہے۔

متن:

اور زبان اُس کے ذکر سے صیقل ہو جاتی ہے۔ (یعنی صاف ہو جاتی ہے) اور اُس کا نام تمام دیوانوں کا سر فہرست ہے،

تشریح:

یعنی ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے سب شروع ہوتے ہیں۔

متن:

روح کا حلق اُس کے نام کے ذکر سے شیرین اور اُس کی یاد سے زبان کی آب و تاب زیادہ ہو جاتی ہے۔ وہ خداوند اور مالک جس کی ہستی مسلم ہے۔ اور ساری کائنات اُس کی ذات کے مقابلے میں عین پستی میں ہیں۔

تشریح:

یہ وہی بات ہے، جو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی کہ معدومات موجودات بنتے ہیں اس کی تجلی سے۔ تجلی آتی ہے تنزل سے اور موجودات آتے ہیں عروج سے۔ اور ان کو یہ عروج اس تنزل سے حاصل ہوتا ہے۔ تو اللہ کی شان کی کیا بات ہے! لہٰذا کائنات پستی میں تو ہے۔ کیونکہ جس طرف تنزل ہوتا ہے، وہ پستی ہوتی ہے۔ گویا ساری کائنات اس کی ذات کے سامنے پستی میں ہے۔

متن:

اور شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ابیات؎

اے قادریکہ دارد کے بود تا نداشت

منشورِ امر و نہیِ تو توقیعِ لا یزال

مہرِ جلالِ ذات تو ہرگز فرد نہ رفت

در عالمِ ضمیر بدروازۂ خیال

حکمِ تو بے منازع و ملکِ تو بے شریک

وصفِ تو بے نہایت و ذاتِ تو بے زوال

وصفِ تو بلبلان نفس را بکَنَد پر

نعت تو طوطیان خرد را بسوخت بال

امر تو بے نفیر و حکم تو بے شریک

ذات تو بے فنا و بقائے تو بے زوال

در ہر دِلے کہ نیست ہوائے تو باد خون

در ہر زبان کہ نیست ثنائے تو باد لال

اے قادر و توانا خدا تمہارے امر و نہی کے منشور کی عزت و چاہ بے زوال ہے۔ تمہاری ذات کے جلال کی رفعت کا خیال بھی کسی شخص کے خیال کے دروازے سے اُس کے دل میں نہ آسکا۔

تشریح:

یعنی جو بھی ہم تعریف کر رہے ہیں اور جتنی بھی تعریف کر لیں، یہ پوری نہیں ہو سکتی۔ اللہ پاک نے خود فرمایا ہے:

﴿وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ (لقمان: 27)

ترجمہ: ’’اور زمین میں جتنے درخت ہیں، اگر وہ قلم بن جائیں، اور یہ جو سمندر ہے، اس کے علاوہ سات سمندر اس کے ساتھ اور مل جائیں (اور وہ روشنائی بن کر اللہ کی صفات لکھیں) تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک ہے‘‘۔

متن:

تمہارے حکم میں کسی چون و چرا کی گنجائش نہیں۔ اور تمہارا ملک بغیر کسی شریک کے ہے۔ تمہاری حمد و وصف کی کوئی انتہا نہیں اور تمہارے بقا کے لئے زوال نہیں۔

جس دل میں تمہاری خواہش نہ ہو، وہ دل خون آلودہ ہو جائے اور جس زبان پر تمہاری یاد اور تمہارا ذکر نہ ہو، وہ گُنگ اور لال ہو جائے۔ دوسری نظم: ؎

سُبْحَانَ مَنْ یَّرٰی أَثَرَ النَّمْلِ فِی الصَّفَا

سُبْحَانَ مَنْ یَّسْبَحَہُ الطَّیْرُ فِی الْھَوَاءِ

رَبُّ البَرِیّۃِ وَ حَمْدٌ عَزَّ شَانُہٗ

ذُو الطَّوْلِ وَ الْمَعَارِجِ وَ الْمَجْدِ وَ الثَّنَاءِ

قیّوم و لا یزال و خداوندِ لم یزل

دارائے بندہ پرور و دادار رہنما

تنہائش دلیل بر آثار صنع اوست

کز خار گل برآید و از گل روید گیاہ

در ہیچ ذرہ نیست کہ آثار صنع نیست

فِیْ غَایَۃِ الْوَضَاحَةِ کَالشَّمْسِ فِی الضُّحٰی

کس را بقائے سرمد و ملک دوام نیست

ملک و بقا تراست لَکَ الْمُلْکُ وَ الْبَقَا

کس درخور ثنا و سزاوار حمد نیست

حمد و ثنا تراست لَکَ الْحَمْدُ وَ الثَّنَا

امر تو بے تفسیر و حکم تو بے شریک

ملک تو بے زوال و بقائے تو بے فنا

در حضرت قبول تو اُفتادگان بلند

بر آستان حشمت تو خسروان گدا

اُس ذات کے لئے پاکی اور برتری ہے، جو کہ چیونٹی کی رفتار کو کالے پتھر پر دیکھتی ہے۔ (یہ قرآن پاک کی طرف اشارہ ہے) اور پرندے ہوا میں اُس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ تمام جہان کا پالنہار ہے۔ اُس کی شان بہت بلند ہے۔ اور بڑی شان و شوکت عزت بڑائی اور ثناء کا مالک ہے۔ وہ قیوم ہے۔ اُس کے لئے زوال نہیں۔ اور ایسا مالک اور خداوند ہے جو کہ زوال نا اشنا ہے۔ بندہ پرور مالک اور راستہ بتانے والا آقا ہے۔ اُس کی تنہائی اور ایک ہونا اُس صفت پر دلیل ہے، کہ کانٹوں سے پھول اُگاتا ہے، اور مٹی سے گھاس۔ کوئی ذرہ بھی ایسا نہیں جس میں اُس کی کاریگری کی شان نہ ہو۔ اور یہ شان ایسی واضح ہے، جیسا کہ سورج دن کے وقت نمایاں ہوتا ہے۔ کسی کے لئے دوام اور ہمیشہ کی بقا نہیں۔ ملک اور بقا صرف تمہارے لئے ہے۔ تیرے لئے ملک اور بقا مسلم ہے، کوئی بھی حمد و ثنا کے قابل نہیں۔ حمد اور ثناء تیرے لئے ہے، حمد اور ثنا بس تیرے ہی لئے ہے۔ تیرے حکم میں کسی تفسیر و تبدل کا امکان نہیں۔ اور تیرے احکام میں کسی کی شرکت کا شائبہ تک نہیں۔ تیری بادشاہی کو زوال نہیں اور تیری بقا کو فنا نہیں۔ جو لوگ کہ گرے پڑے ہوئے ہوں، وہ تیرے دربار میں قابل قبول ہیں، اور تیری حشمت و جلال کے دروازے پر بادشاہ بھی گدا ہوتے ہیں۔

فِي التَّوْحِیْدِ: "تَبَارَکَ رَبُّنَا عَنْ کُلِّ شِبْہٍ وَّ عَنْ مِّثْلٍ وَّ عَنْ کُفُوٍ وَّ کَیْفٍ" توحید کے بارے میں ہے: ”ہمارا رب ہر مشابہت سے برتر ہے اور ہر مثل مانند سے بالا ہے“ اوپر نیچے، دائیں بائیں، آگے پیچھے، بالا و تحت سے ماوراء ہے۔ نہ اُس کی کوئی حد ہے نہ تالیف و نظم یا تفریق۔

؎ لَہٗ ذَاتٌ یُّخَالِفُ کُلَّ ذَاتٍ

لَہُ وَصْفٌ یُّخَالِفُ کُلَّ وَصْفٍ

”اُس کی ایک ذات ہے جو کہ ہر ذات سے جدا ہے۔ اور اُس کی صفت ہے جو کہ ہر صفت سے جدا ہے

خداوند جہاں و نور جان ست

پدید آرندۂ جان و جہان است

ز ملک او سر موئے است عقبیٰ

ز جود او سر کوئے است دنیا

ز وصفش عقل سرگردان بماند

ز ذاتش چشم جان حیران بماند

زہے صنع نہاں و آشکارا

کہ کس را جز خموشی نیست یارا

چو نتوانی بذات او رسیدن

قناعت بہ جمال صنع دیدن

ز خاکے معنی آدم برآرد

ز بادے عیسٰی مریم نگارد

ز تخمے باغ را پیرایہ سازد

ز برگ اطلسی را مایہ سازد

زہے فیض و حضور نور آں ذات

کہ بر ہر ذرہ مے تابد ز ذرات

توئی سر جملہ لکن بے اشارہ

توئی کلی و لکن بے عیارہ

اضافات است در راہ گرفتہ

گہے حضرت گہے درگہ گرفتہ

نکو گوئے نگو گفتہ ست در ذات

کہ اَلتَّوْحِیْدُ إِسْقَاطُ الْإِضَافَاتِ

خدا تعالیٰ جہاں کا بادشاہ اور روح کا نور ہے۔ اور جان و جہان کا پیدا کرنے والا ہے۔ عقبیٰ اُس کے ملک سے بال کا ایک سِر ہے۔ اور اُس کے جود و کرم سے دنیا ایک گلی کا سِرا ہے۔ اس کی صفت سے عقل سرگرداں ہو جاتی ہے، اور اُس کی ذات کو سمجھنے سے روح کی آنکھ حیران ہو جاتی ہے۔ اُس کی صفت اتنی پوشیدہ اور اشکارا و عیان نظر آتی ہے کہ خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، جب اُس کی ذات تک نہیں پہنچا جا سکتا تو اُس کی صفت کی جمال و حسن کو دیکھنے پر قناعت کرنی چاہئے۔ مٹی سے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ اور ہوا سے عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق فرمایا۔ تخم کے ایک دانے سے باغ کو آراستہ کیا۔ اور اطلسی رنگ کے پتوں سے باغ کا سرمایہ بنایا۔ اُس ذات کے فیوض سے ہر ذرہ تابندہ ہے۔ تم تمام اشیاء کا آغاز اور ابتدائیہ ہو، مگر تم کو اشارہ نہیں کیا جا سکتا اور تم کُل ہو مگر تمہارا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اِضافتیں نا مکمل ہیں کبھی حضوری حاصل ہوتی ہے اور کبھی دروازے پر پڑے رہتے ہیں۔ ایک اچھی بات کہنے والے شخص نے کیا اچھی بات کہی ہے۔ کہ اَلتَّوْحِیْدُ إِسْقَاطُ الْإِضَافَاتِ، توحید یہ ہے کہ تمام اضافی اشیاء اور اضافتوں کو ساقط کیا جائے۔ توحید کے بارے میں:

؎ چوں نسیم عنایتش بوزید

بر دِل سالکان راہ ہُدٰی

نار نمرود شد بہار خلیل

آب دریا وقایۂ موسیٰ

جب اُس کی عنایتوں کی خوشگوار ہوا چلتی ہے۔ تو سالکوں کو ہدایت کا راستہ دکھلایا جاتا ہے۔ اُس کے عنایت و کرم کی وجہ سے نمرود کی آگ خلیل اللہ علیہ السلام پر باغ و بہار بن گئی، اور دریا کا موجزن پانی موسٰی علیہ السلام کی حفاظت کا سبب اور پناہ گاہ ہوئی۔

محمد عطار نیشا پوری کہتے ہیں:

سبحان خالقے کہ صفاتش ز کبریا

بر خاک عجز می فگند عقل انبیاء

گر صد ہزار قرن ہمہ خلق کائنات

فکرت کند بہ معرفت ذات آں خدا

آخر بعجز معترف آیند کاے اِلہ

دانستہ شد کہ ہیچ ندانستہ ایم ما

سبحان قادرے کہ بر آیئنہ وجود

بنگاشت از دو صرف دو گیتی کما یشاء

چوں ہیچ جائے نیست کہ او نیست جملہ اوست

چوں جملہ اوست کیستی آخر تو بے نوا

اُس خالق کے لئے پاکی اور بڑائی ہے، جس کی عظمت اور کبریائی کے سامنے پیغمبروں کی عقل بھی خاک پر پڑی ہے۔ اگر تمام کائنات کی مخلوق کئی قرنوں تک سوچ کر اللہ تعالیٰ کی معرفت ذات میں تفکر کریں تو آخر کار عاجز ہو کر یہ اعتراف کریں گے کہ اے خدا ہم تو اتنا سمجھے کہ ہم کچھ نہ سمجھ پائے۔ پاکی ہے اُس قادر و توانا ذات کے لئے کہ اس صفحۂ کائنات پر دو حرفوں (کُن) کے کہنے سے دونوں جہانوں کو ایسا پیدا فرمایا جیسا کہ اُس کی مرضی تھی۔ جب کوئی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں وہ موجود نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ ”وہ“ ہے، جب سب کچھ ”وہ“ ہے تو آخر اے بے نوا تو کون ہے؟

"أَیْضًا فِیْہِ" توحید کے بارے میں:

با وجود سمات نقص جہات

کے تواں گفت نعت ذات و صفات

او ازاں برتر است و والا تر

کہ بوصفش نطق زنند بشر

اطراف و اجانب کی روشوں اور راستوں کو دیکھتے ہوئے ذات و صفات کی تعریف نہیں کی جا سکتی، انسان کی زبان جو کچھ کہ کہہ سکے، اللہ تعالیٰ کی صفات و ذات اُس سے بالا و برتر ہے۔ (اس لئے اُس کی کما حقہ تعریف حمد و ثناء اور نعت نہیں کہی جا سکتی)

اللہ جلَّ شانہ ہم سب کو اپنی معرفت نصیب فرما دے اور جیسے اللہ جلَّ شانہ چاہتے ہوں، اس طریقے سے ہم زندگی گزاریں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ