اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کی تعلیم ہوتی ہے۔ آج ان شاءَ اللہ مقالاتِ قدسیہ کے پندرھویں مقالے کی تعلیم ہو گی۔
متن:
پندرھواں مقالہ
شرک خفی و شرک جلی کے بیان میں
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ: "الشِّرْکُ فِيْ اُمَّتِيْ أَخْفٰی مِنْ دَبِیْبِ النّمْلِ عَلَی الصَّفَا فِي اللَیْلَۃِ الظَّلْمَاءِ" (الجامع الصغیر للسیوطي، رقم الحدیث: 7175) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اُمت میں شرک تاریک رات میں پتھر پر چیونٹی کی چلنے کی آواز سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے“۔ پس یہ بات جان لیں کہ شرک اصل ایمان کو تو ختم نہیں کرتا مگر ایمان کے حقائق اور فوائد میں خلل اور نقصان پیدا کرتا ہے۔ خالص سونا بھی سونا ہے اور جس میں کچھ ملایا گیا ہو، وہ بھی سونا ہے، لیکن مارکیٹ میں خالص سونے کے برابر اس کی قیمت نہیں ہوتی۔ ایمان کی حقیقت توحید ہے اور توحید کی ضد شرک ہے، تم نہیں دیکھتے کہ جب تک کہ شرک کو اُٹھایا نہ جائے توحید حاصل نہیں ہوتی، جب اصل شرک اُٹھایا اور ہٹایا جائے تو توحید ظاہر ہو جاتی ہے۔ جب کسی کی خواہش ہو کہ اس کا ایمان اور توحید حقیقی اور خالص ہو جائے تو اُس کو چاہیے کہ جو میل اور آلائش ایمان کو غلیظ اور مکدر بنائے، وہ دور کرے، اور اُس کو اپنے آپ سے ساقط کرے۔ اور وہ میل اور آلائش جو ایمان کو گرد آلود بنا کر مکدر بناتی ہے، وہ شرک خفی ہے۔ شرک خفی کے معنیٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے سے نفع اور ضرر کا پہنچنا خیال کرنا ہے اور اللہ کے سوا کسی دوسرے سے خوف کرنا اور اُمید رکھنا ہے۔ اور ریاء خفی اور کبر و غرور سے حلاوت حاصل کرنا اور لوگوں کی تعریف سے خوش ہونا اور ہجو و ذم سے دل گرفتہ ہونا یہ سب شرک خفی میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے کہ ﴿وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا...﴾ (النساء: 36) ”اللہ کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ بناؤ“۔ اور اس بات کا راز کہا گیا ہے۔ رباعی
؎ نکو گوئے نکو گفتہ است در ذات
کہ التوحید اسقاط الاضافات
چرا در وحدتش پیوند جویم
توئی مطلوب و طالب چند گویم
’’ایک اچھی باتیں کہنے والے شخص نے نہایت اچھی بات فرمائی ہے کہ توحید تمام اضافی چیزوں کو ساقط کرنا ہے۔ اُس کی توحید میں کیوں پیوند تلاش کریں، اور طالب و مطلوب کا ورد کیوں کریں‘‘۔
بزرگوں نے کہا ہے کہ شرک کی دو اقسام ہیں: ایک شرک جلی اور دوسرا شرک خفی، شرک جلی تو مشہور ہیں جیسے بت پرستی، آتش پرستی اور اسی طرح خدا جو کہ عبادت کے لائق ہے، کے علاوہ کسی دوسری چیز کی عبادت کرنا شرک جلی ہے۔ اور شرک خفی رسول اللہ ﷺ کی امت میں معمول ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں اُس کا ذکر ہوا۔ اور اس کے معنیٰ یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اُس کو چیونٹی کی رفتار سے مشابہ کہا گیا ہے اور چیونٹی کی رفتار کا نہ تو احساس کیا جاتا ہے اور نہ اُس کو سنا جاتا ہے، نہ تو اس کے پاؤں کی رفتار کی آواز سنی جا سکتی ہے، اور نہ تاریک رات میں کالے پتھر پر اُس کے چلنے کی حرکت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح شرک خفی انسان میں چلتا رہتا ہے اور انسان کو اس کا پتہ نہیں چلتا، لہٰذا اُس کی تشبیہ پتھر پر چلنے سے فرمائی نہ کہ مٹی پر چلنے سے، کیونکہ مٹی پر چلنے سے کچھ نشانی باقی رہ جاتی ہے مگر پتھر پر چلنے کا کوئی اثر اور نشان باقی نہیں رہتا، چونکہ پتھر پر چلنے سے کوئی نشان نہیں رہتا اور چلنے سے کوئی خبر بھی نہیں ہوتی، اسی طرح شرک خفی انسان میں چلتا رہتا ہے اور انسان کو اس سے کچھ آگاہی نہیں ہوتی۔ اس کے بعد تاریک رات کا ذکر فرمایا، یہ اس واسطے کہ ”صفا“ کالے سیاہ پتھر کو کہتے ہیں، اور چیونٹی بھی سیاہ رنگ کی ہوتی ہے، اور رات بھی سیاہ ہوتی ہے اور سیاہی، سیاہی پر سیاہی میں نہیں دیکھی جا سکتی۔ جب شرک خفی پے در پے ہو جائے تو تاریکیاں جمع ہو جاتی ہیں، صغیرہ عمل ہوتے ہوتے کبیرہ ہو جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ ایمان یہ ہے کہ سب کچھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانا جائے اور سب کچھ اُسے دیکھنا ہے، جو کوئی دونوں جہانوں میں کسی غیر کو دیکھے گا، یہی شرک ہے۔ اور اس بات کی دلیل جناب حارث رضی اللہ عنہ ہیں کہ جب اُنہوں نے ایمان کی حقیقت کا دعویٰ کیا تو سب سے اپنے دعویٰ کے سچائی کی خاطر ما سوی اللہ سے اور غیر سے نفع کی اُمید قطع کی۔ تم نہیں دیکھتے کہ فرما دیا: "اِسْتَویٰ عِنْدِيْ ذَھَبُھَا وَفِضَّتُھَا وَحَجَرُھَا وَمَدَرُھَا" (لَمْ أَجِدْ هٰذَا الْحَدِیْثَ) کہ میرے نزدیک اس کا سونا، چاندی، پتھر اور مٹی سب مساوی اور برابر ہیں۔ تمام چیزوں میں نفع کی چیز زر و سیم یعنی سونا چاندی ہے، دنیا کی تمام اشیاء اس کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ اور حال یہ ہے کہ یہ سب اُن کے نزدیک پتھر اور مٹی کے برابر ہیں، اور نفس کا نفع اور فائدہ و لطف کھانے میں ہے، اور سو جانے میں ہے، اور فرمایا کہ "أَسْہَرْتُ لِذَالِكَ لَیْلِيْ وَاطْمَأَنَّ نَهَارِيْ" (المعجم الکبیر للطبراني، باب: الحاء، الحارث بن مالك الأنصاري، رقم الحديث: 3367) ”میں نے رات کو شب بیداری اور دن کو بھوک میں گزارہ“ اور ان سے مراد دنیا کا نفع ہے۔ اور جب دنیا کے نفع کے حصول کی تمنا چھوڑ دی، تو یہ حاضر چیز (نفع) اُن کے واسطے ایک غائب چیز ہو گئی۔ جب اُنہوں نے ایمان کے بارے میں یہ دلائل قائم کر کے دکھائے، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو فرمایا کہ "عَرَفْتَ فَالْزَمْ" (المعجم الکبیر للطبراني، باب: الحاء، الحارث بن مالك الأنصاري، رقم الحديث: 3367) تم نے رسائی حاصل کی، اب اس کو مضبوطی سے پکڑے رہنا۔ یہ راز کی بات ہے، مثنوی۔
؎ خلق تا در جہان اسباب اند
ہمہ اندر شب اند و در خواب اند
ترک تردید رخش توحید است
نقص تردید محض تجرید است
’’لوگ جب اسباب کے جہان میں ہیں، تو یہ سب لوگ رات میں اور نیند میں ڈوبے ہوئے ہیں، تردید کا ترک کرنا توحید کی سواری ہے، اور تردید میں نقصان اور کمی کرنا صرف تجرید ہے‘‘۔ (تجرید، ننگا کرنا)
رسول اللہ ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے، کہ "لَا رَاحَۃَ لِمُؤْمِنٍ دُوْنَ لِقَاءِ اللہِ تَعَالٰی" (سلسلۃ الأحاديث الضعيفۃ، رقم الحديث: 663) وَالْمَوْتُ دُوْنَ لِقَاءِ اللہِ تَعَالٰی رَاحَۃُ الْمُؤْمِنِ" (لَمْ أَجِدْ هٰذَا الْجُزْءَ مِنَ الْحَدِیْثِ) ”مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کے دیدار کے علاوہ کوئی خوشی نہیں، اور دیدار کے بغیر موت مؤمن کے لیے راحت ہے“۔ یہ معاملہ اُس وقت ہوتا ہے کہ ایمان ایک حقیقت بن جائے اور ایمان حقیقت تب ہو جاتا ہے کہ جب دُنیا کے علائق سے قطع تعلق کیا جائے۔ اگر دنیا میں اُس کی صفت یہ ہو جائے تو دنیا اس کے لیے قیامت کی صفت کی ہو جائے، جیسا کہ حضرت حارث رضی اللہ عنہ کے لیے ہو گئی تھی۔ جو کوئی تجرید کی تلاش کرتا ہو تو اُس کو شرک کے ساقط کرنے کے بغیر حاصل نہیں کر سکے گا، اور یہ ساقط کرنا علائق سے قطع تعلق کرنا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی سے خوف کھائے یا غیر اللہ سے اُمید رکھے، اگرچہ اُس کو حقیقی شرک تو لاحق نہیں مگر یہ خوف و امید کھانا اور رکھنا بھی شرک ہے۔ اور دیگر صفتوں میں بھی اس پر قیاس کر دینا۔
یہ بات اچھی جاننی چاہیے کہ جو کوئی اپنے آپ کو عبادت میں واصل سمجھے یا گناہوں میں اپنے آپ کو جدا اور علیحدہ سمجھے، اگر یہ وصل اور جدائی غیر حق کی جانب سے سمجھے تو یہ شرک ہے۔ حاصل یہ کہ جس وقت بندے کا ایمان متحقق نہ ہو جائے اور اُس کی صفات اس طرح کی نہ ہو جائیں کہ "کُلُّھَا مِنَ الْحَقِّ وَبِالْحَقِّ وَلِلْحَقِّ وَإِلَی الْحَقِّ مِلْکًا" ”سب کچھ حق سے ہے، حق پر ہے، حق کے لیے ہے اور ملکیت کے لحاظ سے حق کی طرف ہے“۔ یعنی ہر صورت میں حق کی ملکیت ہے اور اُس کا رجوع بھی حق کی جانب ہے۔ جب اُس کی یہ صفات ہو جائیں، تو اُس کا ایمان ثابت اور متحقق ہو جاتا ہے۔
تشریح:
یہ پندرھواں مقالہ آج شروع ہوا ہے۔ اس میں شرکِ خفی اور شرکِ جلی کے بارے میں بیان ہے۔ یہ بہت اہم موضوع ہے، کیونکہ یہ ایسی چیز ہے، جس میں بظاہر کچھ عمل نہیں ہے، لیکن سارے اعمال کا مدار اسی پر ہے۔ نہ اس میں سجدے ہیں، نہ اس میں پیسے خرچ کرنے ہیں، نہ اس میں سفر کرنا ہے، نہ اس میں لڑنا ہے، نہ اس میں کھڑا ہونا ہے، نہ اس میں بیٹھنا ہے، نہ اس میں بولنا ہے، کچھ بھی نہیں کرنا۔ یہ بالکل عقیدے کی طرح ہے کہ اس میں عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ کیونکہ عقیدے میں آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا ہوتا، لیکن ساری چیزیں اس کے اوپر منحصر ہیں۔ اگر عقیدہ میں شرک ہے، تو سارے کے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے، کیونکہ اللہ پاک ہر چیز کو معاف کرتے ہیں، لیکن شرک کو معاف نہیں فرماتے۔ اور عقیدۂِ توحید میں سارے اعمال کو تولا جائے گا، اور اسی حساب سے فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی طرح شرکِ خفی کا بھی یہی معاملہ ہے کہ سارے اعمال کا دار و مدار اس پر ہے۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)
ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔
نیت ایک ایسی چیز ہے، جس کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا؛ لہٰذا دوسرا آدمی اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ کچھ کہے گا، تو ظن کی بنیاد پر کہے گا، یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ عقیدہ کے بارے میں بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر کسی نے زبان سے کوئی بات نہ کی ہو، تو اس کے بارے میں حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ دل کا معاملہ تو اللہ کے پاس ہے، انسان معلوم نہیں کر سکتا۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس کے اثرات ہوتے ہیں اور اثرات سے ظن قائم ہوتا ہے یعنی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کا خیال یہ ہے، لیکن اس ظن کو ظن ہی سمجھنا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس پہ حتمی حکم تب لگایا جائے گا، جب اس کا یقینی طور پر پتا چلے گا اور یقینی طور پر علم فی الحال اللہ پاک کے پاس ہی ہے اور موت کے بعد پھر دوسرے لوگوں کو بھی پتا چل جائے گا۔ لیکن شرکِ خفی ایسی چیز ہے کہ انسان کو خود بھی اس کا پتا آسانی سے نہیں لگتا۔ اس لئے فرمایا کہ شرکِ خفی کی مثال ایسی ہے کہ جیسے تاریک رات میں کالے پتھر پر کوئی چیونٹی چلے جو کہ خود بھی کالی ہوتی ہے۔ تو نہ اس کے چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے، کیونکہ چیونٹی کی کیا آواز ہو گی، اور نہ اس کو دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ کالی رات میں کالے پتھر پر کالی چیونٹی کیسے نظر آئے، ظلمات پہ ظلمات ہیں۔ لہٰذا شرکِ خفی کا پتا اپنے آپ کو بھی نہیں چلتا۔ اپنے آپ کو اس کا پتا چلنے کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے یعنی کچھ ایسے کام کرنے ہوتے ہیں، جن سے آنکھوں کے وہ پردے ہٹ جائیں، جن کی وجہ سے یہ چیزیں مخفی ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ پتا چلنے لگتا ہے اور توبہ کی توفیق ہونے لگتی ہے۔ جب تک پتا نہیں چلا، اس وقت تک توبہ کرنی چاہئے کہ اے اللہ! میرے جتنے بھی ظاہری اور باطنی گناہ ہیں، ان سے میں توبہ کرتا ہوں۔ یوں کرتے رہنا چاہئے۔ لیکن پتا اس وقت چلے گا، جب یہ آنکھیں بینا ہو جائیں، یعنی دل بیدار ہو جائے۔ تب انسان کو پتا چلتا ہے۔ لیکن موجود تو ہوتا ہے۔ تو جو اتنی باریک چیز اور اتنی خطر ناک چیز ہے، اس کا علاج بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ یہ اتنی خطر ناک چیز ہے کہ جیسے بہت چھوٹا سانپ ہو اور خطر ناک ہو، تو اس سے بچنا بڑا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ بڑا سانپ تو دور سے نظر آ جاتا ہے۔ لیکن چھوٹے سانپ کے آپ قریب جائیں گے، تو آپ کو پتا چلے گا۔ لہٰذا ان چیزوں میں انسان کو بہت زیادہ alert رہنا چاہئے، بہت زیادہ اپنے آپ کو ان سے بچنانا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہے کیا چیز؟ تو یہ وہ معرفت ہے، جس کے ذریعے سے انسان جب ہر چیز میں اللہ جَلَّ شانہ کے حکم کا عمل دخل جاری و ساری دیکھتا ہے، تو اس کا شرحِ صدر بلکہ بالکل معاملہ واضح ہو جاتا ہے، تو اس وقت اس کو اپنے اعمال کے بارے میں پتا چلتا رہتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں اور میرا عمل کیسا ہونا چاہئے۔ مثلاً: میں تلاوت کر رہا ہوں اور تلاوت اس لئے کر رہا ہوں کہ لوگ مجھے اچھا قاری کہیں۔ تو تلاوت کرنا بہت اچھا عمل ہے، لیکن یہ نیت رکھنا کہ لوگ مجھے اچھا قاری کہیں، بہت برا عمل ہے۔ تو اس برے عمل نے اس اچھے عمل کو کھا لیا۔
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے ایک ہم عمر شخص نے پوچھا کہ حضرت! کیا وجہ ہے، آپ بھی وہی کام کرتے ہیں، جو ہم کرتے ہیں۔ نمازیں آپ بھی پڑھتے ہیں، دوسرے بھی پڑھتے ہیں، اسی طرح روزے آپ رکھتے ہیں، تو ہم بھی رکھتے ہیں، قرآن کی تلاوت آپ بھی کرتے ہیں، ہم بھی کرتے ہیں، زکوٰۃ آپ بھی دیتے ہیں، ہم بھی دیتے ہیں۔ کوئی مختلف چیز ہم نے آپ سے ہوتی نہیں دیکھی۔ لیکن آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں، کیا فرق ہے؟ چونکہ ایسے حضرات امانت دار ہوتے ہیں، جب اس قسم کا سوال کیا جاتا ہے، تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ میں کیسے ہوں۔ وہ صحیح بات بتا دیتے ہیں۔ تو حضرت نے فرمایا: اس لئے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ آپ کا نفس کھا جاتا ہے، کچھ باقی نہیں رہتا۔ نفس ایسے کھا جاتا ہے کہ مثلاً: میں تلاوت کر رہا ہوں اور یہ سوچ کے کر رہا ہوں کہ لوگ مجھے اچھا قاری کہہ دیں۔ میں نمازی ہوں، تو لوگ مجھے نمازی کہہ دیں، میں حاجی ہوں، تو لوگ مجھے حاجی کہہ دیں۔ میں خیرات کر رہا ہوں، تو لوگ مجھے سخی کہہ دیں۔ میں جہاد کر رہا ہوں، تو لوگ مجھے بہادر کہہ دیں۔ یہ ساری باتیں نیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اور نیت اس لئے ہے کہ وہ مخلوق کے سامنے جو کچھ کر رہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں، تو گویا وہ لوگوں کو کچھ سمجھ رہا ہے۔ اگر لوگوں کو مؤثریت کے لحاظ سے کچھ نہ سمجھتا، تو پھر کیوں اس طرح کرتا۔ مجھے حضرت نے ایک دفعہ فرمایا کہ کبھی یہ سوچا ہے کہ چٹائیاں مجھے دیکھ رہی ہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: لوگوں کو چٹائیاں سمجھو، جیسے چٹائی کے بارے میں آپ کا تصور نہیں بنتا کہ یہ مجھے دیکھ رہی ہیں، اسی طرح لوگوں کو بھی چٹائیاں سمجھو۔ واقعتاً جب لوگوں کے بارے میں انسان کا یہ نظریہ قائم ہو جاتا ہے کہ نہ یہ مجھے کچھ دے سکتے ہیں اور نہ مجھ سے کچھ لے سکتے ہیں، تو انسان کبھی دکھاوا نہیں کرتا۔ اور آپ ﷺ نے یہی بات انتہائی وثوق کے ساتھ ایک صحابی کو فرمائی تھی کہ اے معاذ! یاد رکھ، اگر سارے لوگ جمع ہو جائیں کہ تجھے کچھ نفع پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ نفع پہنچانے کا نہ ہو، تو سارے مل کر بھی تجھے نفع نہیں پہنچا سکتے اور اگر یہ سارے لوگ جمع ہو جائیں کہ تجھ سے کوئی چیز چھین لیں یا تجھے کوئی نقصان پہنچائیں اور اللہ کا ارادہ نہ ہو، تو یہ سارے لوگ مل کر بھی ایسا نہیں کر سکتے۔ اب ظاہری اسباب اور نظر آتے ہیں یعنی ظاہری نقشے کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہ ظاہری نقشے اصل میں نظر کا دھوکہ ہے۔ نظر کا دھوکہ اس لئے ہے کہ اللہ کا حکم اس کے پیچھے ہے اور یہ چیزیں اس کے سامنے ہیں۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کہ کوئی چیز ہم Remote control سے چلاتے ہیں اور کسی اور کو یہ پتا نہ ہو کہ یہ Remote control سے چل رہی ہے۔ اس کے سامنے کبھی اس طرح ہو، کبھی اس طرح ہو، تو وہ کہتا ہے کہ یہ کیوں اس طرح کر رہا ہے۔ چونکہ پیچھے جو چیز ہے یعنی Remote control وہ اس کو نظر نہیں آ رہا۔ اگر اس کو پیچھے والی چیز نظر آ جائے، تو باقی چیزوں سے نظر ہٹ جائے گی، اور وہ اسی پر توجہ رکھے گا۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عجیب مثال دی ہے۔ کیا عجیب بات ہے، ان حضرات کو اللہ تعالیٰ نے کیسا عجیب طریقہ سیکھایا۔ حضرت نے فرمایا: کتا بھی یہ جانتا ہے کہ جو کوئی اس کے اوپر پتھر پھینکتا ہے، تو وہ پتھر پہ حملہ نہیں کرتا، بلکہ پتھر پھینکنے والے پر حملہ کرتا ہے۔ حالانکہ لگ تو اس کو پتھر رہا ہے۔ اسی طرح یہ جو ہم نقشوں کو دیکھتے ہیں، نقشوں سے ہوتا ہوا سمجھتے ہیں، یہی معرفت کی کمی ہے۔ اگر اس کی معرفت حاصل ہو جائے، تو یہ ظاہری نقشے ہیں، پیچھے جو حکم ہے، اصل میں تو وہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کا حکم سمجھ کر اسباب کو اختیار کرنا تو بندگی اور عاجزی ہے، اور اس سے بزرگی کی جڑ کٹتی ہے۔ چنانچہ اسباب کو اللہ کا حکم سمجھ کر اختیار کرنا، یہ ضروری ہے۔ لیکن ان اسباب کو مؤثر حقیقی سمجھنا، یہ الحاد و شرک ہے۔ یہ جو اتنا تعلق ہے، اس کو سامنے رکھنا اور ہر چیز میں اس کو دھیان میں رکھنا واقعتاً ایک مشکل کام ہے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے جو ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارا سارا کچھ تمہارا نفس کھا جاتا ہے، حج کر لیا، تو نفس نے خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے لوگ حاجی کہیں۔ لہٰذا اگر حاجی کہلانے کے لئے کیا، تو نفس نے حج کو کھا لیا۔ نفس نے نماز کو کھا لیا۔ نفس نے ذکر کو کھا لیا۔ نفس نے قرآن کی تلاوت کو کھا لیا۔ یوں سب چیزوں کو نفس کھا رہا ہے، ہمارے پاس کیا بچتا ہے، کچھ بھی نہیں بچا۔ اور پھر ہم اپنی اس ظاہری عبادت کو دیکھ کر اور اس کی حقیقت کو چھوڑ کر اس پہ بزرگی کا دعویٰ بھی کر لیں، تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ظلمات در ظلمات ہوں گی۔ اور یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے نکلنے کے لئے ہمارے پاس کوئی نظام ہونا چاہئے، تاکہ ہم لوگ اس کے نقصان سے بچ جائیں۔
متن:
شرک اصل ایمان کو تو ختم نہیں کرتا مگر ایمان کے حقائق اور فوائد میں خلل اور نقصان پیدا کرتا ہے۔ خالص سونا بھی سونا ہے اور جس میں کچھ ملایا گیا ہو، وہ بھی سونا ہے،
تشریح:
یعنی جس میں کچھ ملایا گیا ہو، ہم اس کو بھی سونا ہی کہتے ہیں۔ لیکن جب آپ اس کو مارکیٹ میں لے جاتے ہیں، تو وہ اس کا اندازہ لگاتے ہیں کہ اس میں کتنی کھوٹ ہے، ان کے پاس طریقہ ہوتا ہے۔ اس کھوٹ کے برابر اس کی قیمت میں کمی کی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر اس میں شرکِ خفی ہو، تو یہ کھوٹ ہے، لہٰذا کھوٹ کے مطابق ہی معاملہ کیا جائے گا۔ میرا ذہن ایک اور طرف منتقل ہو گیا ہے۔ ایک شخص ہے، جو کسی پیر سے بیعت ہوا، وہ پیر صحیح ہے، مثلاً: اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ بھی صحیح ہے، لوگ بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں، مگر اس مرید کے اپنے کچھ خیالات ہیں، جن پہ وہ کوئی compromise نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ یہ تو ایسا ہونا چاہئے، اس میں تو میں کسی کی نہیں مانوں گا، باقی جو چیزیں بھی پیر صاحب بتائیں گے، وہ میں مانوں گا۔ اور چونکہ فتنہ کا دور ہے، لہٰذا پیر اس کے لئے تیار ہو جاتا ہے، بلکہ اس پر بھی تیار ہو جاتا ہے کہ اس کا ایمان تو بچا رہے گا، یہ بھی بڑی بات ہے کہ آج کل کے دور میں ایمان بچ جائے۔ اس لئے بیعت کر لیا اور شرائط مان لیں۔ یہ باتیں میں آپ کو نہیں بتاؤں ان سے میں آپ کو نہیں روکوں گا۔ یہ کھوٹ ہے کیونکہ پہلے سے ہی برا ارادہ ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس چیز کے بارے میں تو میں ہی جانتا ہوں، باقی چیزیں آپ جانیں۔ یہی کھوٹ ہے۔ لہٰذا اس کی اتنی ہی اصلاح ہو گی، جتنی اس کی اصلی نیت ہے۔ اور وہ والا حصہ اس کے درمیان سے رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کو سب چیزوں میں کارساز سمجھا اور اللہ ہی کے لئے سب کچھ کیا، تو آپ کو پورا پورا اجر مل گیا۔ اور اگر آپ نے کچھ کچھ کیا، تو معاملہ کچھ گڑ بڑ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خالص نیت نصیب فرمائے۔
متن:
ایمان کی حقیقت توحید ہے اور توحید کی ضد شرک ہے،
تشریح:
یہاں توحید سے مراد توحیدِ افعالی ہے۔ ایک توحید عقیدہ کے متعلق ہے، جس میں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ آتا ہے، یعنی اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے۔ اس لئے عبادت میں کسی کو شریک کرنا جلی شرک ہے۔ لیکن توحیدِ افعالی میں یہی چیز سامنے آتی ہے، اور اس کی ضد شرک ہے۔ جب انسان کہتا ہے کہ سب کچھ اللہ کرتا ہے، تو یہ کہنا ہے۔ اور جب وہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ اللہ کرتا ہے، تو وہ سمجھنا ہے۔ کہنے سے وہ بچ گیا اور سمجھنے سے وہ تر گیا۔ یعنی اس کا ایمان یہ کہنے سے بچ گیا کہ سب کچھ اللہ کرتا ہے۔ لیکن اب اگر اس نے یہ سمجھا بھی کہ اللہ سب کچھ کرتا ہے، تو پھر وہ تر گیا، پھر اس کو اس کی برکات ملیں گی۔ جتنا جتنا اس کا اس میں قصور ہے، اعمال کے لحاظ سے اتنا ہی مسئلہ خراب ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ بڑے بڑے توحید کا دعویٰ کرنے والے توحیدِ افعالی میں رہ جاتے ہیں۔ بظاہر بڑا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ ہی سے سب کچھ ہوتا ہے۔ لیکن جب کرنے کا وقت آ جاتا ہے، تو کہتے ہیں کہ بس کچھ کرنا پڑتا ہے، کیا کریں، یہ بات ہے، یہ بات ہے۔ اسی میں ہی سارا معاملہ گول مول ہو جاتا ہے۔ پس دعویٰ اور ہے اور عمل اور ہے۔ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف: 2)
ترجمہ: ’’تم ایسی بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں؟‘‘۔
متن:
تم نہیں دیکھتے کہ جب تک کہ شرک کو اُٹھایا نہ جائے توحید حاصل نہیں ہوتی،
تشریح:
کیونکہ شرک توحید کی ضد ہے۔ جیسے روشنی تاریکی کی ضد ہے، لہٰذا تاریکی جائے گی، تو روشنی آئے گی۔ روشنی آئے گی، تو تاریکی جائے گی۔
متن:
جب اصل شرک اُٹھایا اور ہٹایا جائے تو توحید ظاہر ہو جاتی ہے۔ جب کسی کی خواہش ہو کہ اس کا ایمان اور توحید حقیقی اور خالص ہو جائے تو اُس کو چاہیے کہ جو میل اور آلائش ایمان کو غلیظ اور مکدر بنائے، وہ دور کرے، اور اُس کو اپنے آپ سے ساقط کرے۔ اور وہ میل اور آلائش جو ایمان کو گرد آلود بنا کر مکدر بناتی ہے، وہ شرک خفی ہے۔ شرک خفی کے معنیٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے سے نفع اور ضرر کا پہنچنا خیال کرنا ہے۔
تشریح:
ترمذی شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث شریف مروی ہے، جس میں بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو بڑی مشکل سے بیان کیا تھا، بار بار غشی طاری ہو جاتی تھی۔ اس حدیث شریف میں ہے کہ سب سے پہلے جن لوگوں کو دوزخ میں ڈالا جائے گا، ان میں ایک عالم ہو گا، ایک سخی ہو گا اور ایک شہید ہو گا۔ اب یہ کتنے بڑے لوگ ہیں کہ ایک عالم ہے۔ جس کا بہت رتبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (الزمر: 9)
ترجمہ: ’’کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے، سب برابر ہیں؟‘‘۔
اللہ پاک نے اتنا بڑا status دے دیا۔ اور یہی سخی کا معاملہ ہے، صدقہ کے کتنے فضائل ہیں۔ اسی طرح شہید کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ﴾ (البقرہ: 154)
ترجمہ: ’’اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں، ان کو مردہ نہ کہو‘‘۔
ان تینوں لوگوں کے بڑے مقامات ہیں۔ جب اتنے بڑے مقامات والوں کا ایسا حشر ہو گا، تو باقیوں کا کیا حال ہو گا۔ اور وجہ صرف یہ ہو گی کہ اللہ پاک عالم سے پوچھے گا کہ میں نے تجھے علم دیا تھا، تو نے اس کا کیا کیا؟ وہ وہی بات کہے گا، جو لوگوں کے سامنے کہتا تھا۔ حالانکہ جب معاملہ اللہ کے ساتھ ہو، تو بات اور ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز نہیں چھپائی جا سکتی۔ تو وہ کہے گا: یا اللہ! میں نے تیرے لئے علم حاصل کیا اور تیرے لئے شب و روز پھیلاتا رہا۔ اللہ پاک فرمائیں گے کہ نہیں، بلکہ اس لئے حاصل کیا کہ لوگ تجھے عالم کہیں۔ سو کہا گیا۔ اب کیا چاہتے ہو۔ فرشتے بھی اس پر یہی گواہی دیں گے۔ اور اس کو دوزخ میں گرا دیا جائے گا۔ پھر اس کے بعد سخی کی باری آئے گی۔ سخی سے بھی پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے مال دیا تھا، تو نے اس کا کیا کیا؟ وہ کہے گا: یا اللہ! میں تو شب و روز تیرے راستے میں خرچ کرتا رہا۔ اللہ پاک فرمائیں گے کہ میرے لئے نہیں، بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے سخی کہیں۔ سو کہا گیا۔ اب کیا لینا ہے۔ فرشتے بھی گواہی دیں گے۔ اس کو بھی دوزخ میں گرا دیا جائے گا۔ پھر شہید کی باری آئے گی۔ شہید سے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے تجھے جان دی، تو نے اس کا کیا کیا؟ وہ کہے گا: یا اللہ! میں نے تیرے واسطے جان قربان کی۔ فرمایا جائے گا کہ میرے لئے نہیں، بلکہ اس لئے کہ تجھے بہادر کہا جائے۔ سو کہا گیا۔ اب کیا چاہتے ہو۔ اس کو بھی دوزخ میں گرا دیا جائے گا۔ اسی طرح حدیث پاک میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے، یہاں تک کہ اس سے ان چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کتنا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا“۔ یہ بنیادی سوالات ہیں، جو سب سے ہوں گے۔ جب اتنے بڑے لوگوں کا یہ حال ہے، تو باقی لوگوں کا کیا حال ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث شریف کو روایت کرنے میں بڑی مشکل محسوس کر رہے تھے۔ بہر حال! شرکِ خفی اگرچہ کافر تو نہیں بناتا، اس سے کوئی کافر تو نہیں ہوتا، لیکن اعمال ختم ہو جاتے ہیں یا بہت کم رہ جاتے ہیں۔
متن:
اور اللہ کے سوا کسی دوسرے سے خوف کرنا اور اُمید رکھنا ہے۔
تشریح:
لوگوں سے خوف بھی نہیں رکھنا چاہئے، لوگوں سے امید بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ مثلاً: کاروبار کرنے والا اگر لوگوں سے تعلق اس لئے بناتا ہے کہ لوگ مجھے دیں گے، تو وہ ان کے ساتھ دھوکہ کرے گا، کسی طریقے سے ان سے ہتھیائے گا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو گا، تو کاروبار جائز طریقے سے کرے گا اور سمجھے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا، تو مل جائے گا، نہیں ڈالے گا، تو نہیں ملے گا۔ اور دفتر میں جو ملازم پیشہ لوگ ہوتے ہیں، ان کو بھی ہر وقت باس اور اللہ؛ دونوں کے درمیان معاملہ کرنا ہوتا ہے۔ باس کے جائز حقوق کو ماننا بالکل ٹھیک ہے، لیکن جب نا جائز بات آ جاتی ہے، تو پھر مقابلہ شروع ہو جاتا ہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ اس وقت اگر اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو لے لیا، تو کامیاب ہو گیا اور اگر باس کے حکم کو لے لیا، تو نا کام ہو گیا۔ یہ معاملہ چلتا رہتا ہے۔ ایک دفعہ ہمارے استاد ڈاکٹر انعام الرحمٰن صاحب (اللہ تعالیٰ انہیں بہت اچھی حالت میں رکھے) بڑے شفیق استاد ہیں۔ میں چونکہ Back bencher تھا، اکثر پیچھے بیٹھتا تھا، بس عادت تھی۔ Cost Economics کی calculation کر رہا تھا۔ کیونکہ انجیئرنگ میں calculations ہوتی ہیں۔ تو Cost Economics کی بات چل رہی تھی۔ اس میں سود بھی ہوتا ہے، باقی چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ انہوں نے میری طرف رخ کر کے کہا کہ یہ جائز ہے؟ میں نے کہا: جائز نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ ہمیں تو کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا: پھر پوچھا کیوں ہے؟ بس وہ امتحان میں ڈال رہے تھے اور امتحان ہی ہوتا ہے۔ نہ پوچھتے، تو میں خاموش تھا۔ لیکن اگر پوچھا ہے، تو مجبوری ہے، پھر تو بیان کرنا ہے۔ اسی طرح سکریٹری نے پوچھا کہ اگر reactor میں آپ کی ڈیوٹی لگ جائے اور وہاں نماز کا وقت آ جائے، تو آپ کیا کریں گے؟ میں نے کہا: نماز پڑھوں گا۔ کہتے ہیں کہ آپ reactor کو چھوڑ دیں گے؟ میں نے کہا: آپ عجیب بات کر رہے ہیں، ٹرک ڈرائیور جب بھی لمبے سفر پہ جاتا ہے، تو دو ڈرائیور ہوتے ہیں، کوئی بیمار ہو سکتا ہے، اس کو نیند آ سکتی ہے، تو reactor جیسی sensitive چیز کو ایک آدمی پہ چھوڑ دیا جائے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اور کچھ نہیں، تو کسی کو toilet کی ضرورت پڑ جائے، تو کیا کرے گا؟ ظاہر ہے کہ وہ جائے گا۔ اگر toilet کے لئے جا سکتا ہے، تو نماز کے لئے کیوں نہیں جا سکتا۔ یہ ساری اصولی باتیں ہیں۔ لیکن لوگ امتحان میں ڈالتے ہیں، گویا کہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مخلص ہے یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلص ہے۔ ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ کتنا ظلم ہے، کتنی بڑی جسارت ہے۔ ایک دوست نے مجھے واٹس ایپ کیا۔ وہ بڑا اصولی آدمی ہے، اس کے باس اس سے ناراض ہوئے تھے، پروموشن میں مشکل تھی، یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، ایسا ہوتا رہتا ہے۔ کیونکہ اسی کے ذریعے سے لوگ کماتے بھی ہیں۔ تو اس کو اس کے ایک جونیئر colleague نے ایک تمثیل کے طور پر ایک لطیفہ سنایا کہ ایک باس اپنے subordinates کے ساتھ کھڑے تھے، باس نے تالاب میں پتھر پھینکا اور پتھر ڈوب گیا، اس نے اپنے subordinates سے پوچھا کہ یہ کیوں ڈوب گیا ہے؟ سب نے کہا کہ پتھر بھاری تھا، اس لئے ڈوب گیا۔ وہاں سپیشل قسم کا ایک خوشامدی تھا۔ جیسے دفتروں میں بعض سپیشل قسم کے خوشامدی لوگ رکھے ہوتے ہیں۔ اس سے پوچھا کہ کیوں پتھر ڈوبا؟ اس نے کہا کہ جو آپ کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، وہ ڈوب گیا۔ اس نے یہ واٹس ایپ اس کو کیا کہ تمہارے ساتھ جو یہ ہو رہا ہے، اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ تو باس کا خیال نہیں رکھتا۔ اس نے وہ مجھے بھیج دیا۔ میں نے کہا کہ ہاں اس کو جواب دو، اور اسی واٹس ایپ گروپ میں جواب دو تاکہ سب لوگ دیکھ لیں۔ اور اس کو یہ جواب دو کہ آخرت میں ساری حقیقت کھل جائے گی، نفس چونکہ بھاری ہے، لہٰذا جس نے اپنے نفس کا علاج نہیں کیا، نفس کی بات مانی، وہ ڈوب گیا۔ اور ایسے ہی ہونا ہے کہ جس کا نفس بھاری ہو گا، وہ ڈوب جائے گا۔ واقعتاً ظاہری نقشوں سے لوگ متاثر ہو کر پیچھے والی کہانی بھول جاتے ہیں، یہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامۃ: 20-21)
ترجمہ: ’’خبر دار (اے کافرو!) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو‘‘۔
اور ایک جگہ اور وضاحت کے ساتھ فرمایا: ﴿بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى﴾ (الاعلیٰ: 16-17)
ترجمہ: ’’لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔ حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے‘‘۔
لہٰذا یہ چیز ہوتی رہتی ہے۔ یہ ہمارے ہر ہر لمحہ ہر ہر کام میں ہر ہر جگہ پہ ہو رہا ہوتا ہے۔ بس ہم لوگ اپنے اوپر اگر چیک لگا لیں کہ میرا کون سا ایسا کام ہے، جو میں اس اصول کے خلاف کر رہا ہوں اور عاجلہ کو ترجیح دے رہا ہوں، تو بہت ساری چیزیں نظر آ جائیں گی۔ اس قسم کے حالات واضح ہو جائیں گے۔ عاجلہ کا اثر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آجلہ نظر نہیں آتی، اس کا پتا نہیں چلتا۔ آجلہ کو دیکھنے کے لئے دل کی آنکھوں کو کھولنا پڑتا ہے، کیونکہ ظاہری آنکھوں سے عاجلہ ہی نظر آئے گی۔ کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا وَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا٘ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَاؕ اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ﴾ (الأعراف: 179)
ترجمہ: ’’ان کے پاس دل ہیں، جن سے وہ سمجھتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں، جن سے وہ دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں، جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔
اگر دیکھا جائے، تو انسان کی روح اور جانور کی روح میں فرق ہے۔ انسان کی روح یعنی قلب کی آنکھیں اگر کسی کی بیدار ہو جائیں، تو وہ ایسی چیزیں دیکھتی ہیں، جو یہ آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ لہٰذا اس کے فیصلے مختلف ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کسی نے اتنی محنت نہیں کی اور اس کو وہ چیز نظر نہیں آتی، تو اس کو جو نظر آتا ہے، وہ اسی کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔ چنانچہ ان آنکھوں کے مطابق تو وہ سود (فائدہ) مند ہے، لیکن اُن (دل کی) آنکھوں کے مطابق نقصان دہ ہے۔ اس لئے اگر وہ آنکھیں نہیں کھلی ہیں، تو ان آنکھوں سے جو نظر آئے گا، وہ اسی کے مطابق کرے گا۔ دھوکہ دینا، جھوٹ بولنا، یہ ظاہری آنکھوں کی نظر سے تو مفید ہے۔ جس وجہ سے وہ یہ کر رہا ہے، اور اس میں اس کو فائدہ نظر آتا ہے۔ لیکن جھوٹ اس لئے بول رہا ہے کہ میں لوگوں کی ملامت سے بچوں، یا لوگوں میں میری وقعت پیدا ہو جائے۔ لوگوں سے متاثر ہو کر لوگ جھوٹ بولتے ہیں، لیکن اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں: ﴿فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ﴾ (آل عمران: 61)
ترجمہ: ’’اور جو جھوٹے ہوں، ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں‘‘۔
یہ اللہ کی لعنت اس کو نظر نہیں آ رہی، لوگوں کی ملامت نظر آ رہی ہے، لہٰذا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اسی طرح خیانت بھی اسی قبیل سے ہے۔ یہ سب کچھ ہم ایک ہی ترازو میں لا سکتے ہیں کہ ہم یہ دیکھیں کہ اللہ جل شانہ کس چیز کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ نظامِ ہدایت موجود ہے، لیکن اس سے استفادہ کے لئے تین چیزوں پہ محنت ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ اپنے دل سے دنیا کی محبت نکالیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے نفس کو مشقت کا عادی بنائیں، اس کو نفسِ مطمئنہ بنائیں۔ تیسری چیز یہ ہے کہ ذکر و فکر کے ذریعے سے اپنی عقل کو جِلا بخشیں۔ جب یہ ہو جائے گا، تو پھر سوچ بھی صحیح ہو جائے گی، صحیح محبت ہو جائے گی، صحیح نفرت ہو جائے گی، اور نفس اللہ کے ہر حکم کے لئے تیار ہو گا۔ گویا کہ دل کی آنکھیں بھی بیدار ہو جائیں گی اور نفس اللہ کا حکم ماننے کے لئے بھی تیار ہو جائے گا اور انسان صحیح طریقے سے سوچ بھی سکے گا، آزادانہ سوچ سکے گا۔ اس وقت انسان نفس کا غلام ہو کر سوچ رہا ہے۔ ایک تو پورے عالم کا ایک نفس کلیہ ہے، جیسے اس دنیا کا نفس آج کل امریکہ ہے۔ تو جو لوگ امریکہ کے غلام ہو کر سوچتے ہیں، تو وہ صحیح بات نہیں سوچ سکتے۔ جو امریکہ کے غلام ہو کر سوچیں گے، وہ اپنے ملک کے لئے صحیح بات نہیں سوچ سکتے۔ نتیجتاً عقل ہر آدمی میں موجود ہے، مگر اس کو صحیح استعمال نہیں کرتا۔ جیسے یہ جو ختم نبوت کے سلسلہ میں مسئلہ ہوا کہ اتنی خاموشی کے ساتھ اور ایسی technique کے ساتھ دجل کیا گیا کہ انسان بے حد حیران ہو جاتا ہے۔ ایک تو حلف نامہ کو اقرار نامہ میں بدل دیا اور اس کے قانونی لوازمات پر اثر انداز ہوئے اور پھر ان قانونی شقوں کو ہٹا دیا گیا، جو اس کی support میں تھیں۔ ایک اور چیز یہ کی گئی کہ اس میں آپ ﷺ کے نام محمد ﷺ کو ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ نبی پاک کا لفظ لکھا گیا۔ چونکہ آپ ﷺ یعنی محمد تو ایک declared بات ہے، لیکن نبی ایک عام لفظ ہے، جیسے مرزا، قادیانیوں کے نزدیک نبی ہے۔ گویا بالکل راستہ دے دیا گیا۔ تو یہ دجالی دور ہے۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ حکومت، حزبِ اختلاف اور پارلیمنٹری کمیٹی؛ ان سب کے نوے اجلاس ہوئے، ان اجلاسوں کی چھلنی سے یہ چیز گزری ہے۔ اور سب سے منظور ہو کر اوپر چلا گیا۔ سمجھ میں نہیں آتی کہ کیسے نظر نہیں آیا۔ لیکن اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُؕ وَاللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ﴾ (آل عمران: 54)
ترجمہ: ’’اور ان کافروں نے ( عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف) خفیہ تدبیر کی، اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے‘‘۔
تو انہوں نے صاف صاف مکر کیا۔ لیکن اللہ جل شانہ نے جیسے اردوان کو بچانا تھا، تو ایک عیسائی رپورٹر استعمال ہو گیا، جس نے ان سے موبائل پر انٹرویو لیا اور اس کو ٹی وی پر نشر کر دیا، تو وہ سب نے دیکھا اور باہر آ گئے، یوں ان کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ سب اپنی اپنی جگہ پہ بیٹھ جاؤ۔ اسی طرح ختم نبوت کا یہ معاملہ بھی سوشل میڈیا پر آ گیا اور آناً فاناً جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا، اور سازشیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور ہر ایک نے اپنے آپ کو بچانے میں ہی عافیت سمجھی اور پھر بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور الحمد للہ اس پہ متفق بھی ہو گئے اور پھر وہ ترمیم بھی آ گئی اور ترمیم منظور بھی ہو گئی۔ یوں اللہ پاک نے ان کی ساری سکیم فیل کر دی۔ اس لئے کہتے ہیں کہ بعض دفعہ شر میں خیر ہوتی ہے۔ تو اس شر میں یہ خیر نظر آتی ہے کہ میسج چلا گیا کہ اگر اتنی سی بات بھی مخفی طریقے سے کی جائے ، تو وہ امت کو قابلِ قبول نہیں ہے۔ تو جو اصل بات ہے، اس کو تبدیل کرنے میں کیا صورتِ حال بنے گی، اس کا تو کوئی سوچے ہی نہ، وہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اس پہ تو لوگ کٹ جائیں گے۔ یہ بہت بڑا میسج چلا گیا اور الحمد للہ یہ favour کی بات ہو گئی۔ ﴿وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُؕ وَاللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ﴾ (آل عمران: 54) ورنہ سازشیوں نے بہت بڑی سازش کی تھی، سازش کی حد کر دی تھی۔ یہاں تک کہ اس میں محمد (ﷺ) کے نام کی جگہ نبی پاک (ﷺ) کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ ہر طرح سے تیاریاں کی گئی تھیں۔ یہ کوئی Clerical mistake نہیں ہے، deliberately ہے اور اس طریقے سے ہے، جیسے انعامی بونڈ ہے، کہ انعامی بونڈ میں جوا بھی ہے اور سود بھی ہے۔ لیکن نہ لوگ اس کو جوا سمجھتے ہیں، نہ اس کو سود سمجھتے ہیں۔ میں سٹوڈنٹس کو پڑھا رہا تھا، تو میں نے پوچھا کہ انعامی بونڈ کیسا ہے؟ کہتے ہیں: اس میں کیا حرج ہے، اس میں یہی ہوتا ہے کہ اگر آپ پیسے لینا چاہیں، تو پیسے پورے مل جاتے ہیں، باقی تو انعام ہوتا ہے اور انعام تو جائز چیز ہے۔ میں نے کہا: میں ابھی آپ کو سمجھاؤں گا، تو ان شاء اللہ آپ پانچ منٹ میں خود کہیں گے کہ یہ سود بھی ہے، جوا بھی ہے۔ میں نے بورڈ کے اوپر سمجایا۔ میں نے کہا کہ مثلاً: ایک لاکھ لوگ سود کا انعامی بونڈ لے لیں، تو ایک کروڑ روپے جمع ہو جائیں گے۔ اب ایک کروڑ پہ آپ 10% سود لگا دیں، تو وہ دس لاکھ ہو گیا۔ اس دس لاکھ کو اگر آپ برابر برابر سب پر تقسیم کریں، تو کیا ہو گا؟ کہتا ہے: سود۔ میں نے کہا: اگر یہی دس لاکھ روپے آپ قرعہ اندازی کے ساتھ تقسیم کر لیں کہ جس کا پہلا نمبر آئے، اس کو ایک لاکھ ملے گا اور اس کے بعد جو تین دوسرے نمبر پہ آئیں، ان کو دس دس ہزار روپے ملیں گے۔ اور جو ان کے بعد آئیں، ان کو اتنے اتنے ملیں گے۔ تو یہ کیا ہو گا؟ کہتے ہیں: جوا ہو گا۔ میں نے کہا: اب بتاؤ، کیا یہ جائز ہے؟ سود تو اس وجہ سے ہے کہ آپ Fixed amount تقسیم کر رہے ہیں، اور چونکہ قرعہ اندازی سے تقسیم کر رہے ہیں، لہٰذا جوا بھی ہوا اور سود بھی ہوا۔ اور آدمی نہ اس کو جوا سمجھتا ہے اور نہ سود سمجھتا ہے۔ اس کو دجل کہتے ہیں۔ آج کل کا دور دجل اور فریب کا دور ہے۔ لہٰذا دجل اور فریب سے بچنا بہت ضروری ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: ’’لَا یَخْدَعُ وَلَا یُخْدَعُ‘‘ کہ نہ وہ دھوکہ دیتا ہے اور نہ دھوکہ کھاتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ دھوکہ نہیں دیتا یعنی دیانت دار ہے اور دھوکہ نہیں کھاتا یعنی عقل مند ہے، اس کو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ انہوں نے اپنے آپ کو چھپانے کے لئے کہا کہ میرا نام عبد اللہ ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اس آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر جتنے بھی لوگ ہیں، سب عبد اللہ ہیں۔ مجھے وہ نام بتاؤ، جو آپ کی ماں نے رکھا ہے۔ پس عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دھوکہ دینا نا ممکن بات تھی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ دور اندیشی ان کی اولاد میں بھی چل رہی ہے۔ جتنے بھی مجددین ہیں، سب ان کی اولاد سے ہیں۔ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ سادات میں سے ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ ہونا پڑے گا۔ وقت کے تقاضوں کو جاننا، وقت کے حالات کی پہچان اور دشمنوں کے ارادوں کا ادراک اس وقت بہت ضروری ہے۔ ورنہ پھر یہ ہو گا کہ پانی سر سے گزر گیا ہو گا اور آپ ہاتھ ملتے رہیں گے کہ اوہ! یہ کیا ہو گیا، یہ کیا ہو گیا۔ تو یہ کیا ہو گیا والی بات سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وقت پہ الرٹ رہو، تاکہ کوئی دھوکہ نہ دے سکے۔ اس لئے ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہئے، جو وقت کی نبض کو تھامے ہوئے ہوں اور ان کو ہر وقت پتا چلتا ہو کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اور اس کے لحاظ سے انسان عمل کرے۔ آج کل کے دور کے لحاظ سے یہ بہت بڑی بات ہے۔
متن:
’’ایک اچھی باتیں کہنے والے شخص نے نہایت اچھی بات فرمائی ہے کہ توحید تمام اضافی چیزوں کو ساقط کرنا ہے۔ اُس کی توحید میں کیوں پیوند تلاش کریں، اور طالب و مطلوب کا ورد کیوں کریں‘‘۔
بزرگوں نے کہا ہے کہ شرک کی دو اقسام ہیں: ایک شرک جلی اور دوسرا شرک خفی، شرک جلی تو مشہور ہیں جیسے بت پرستی، آتش پرستی اور اسی طرح خدا جو کہ عبادت کے لائق ہے، کے علاوہ کسی دوسری چیز کی عبادت کرنا شرک جلی ہے۔ اور شرک خفی رسول اللہ ﷺ کی امت میں معمول ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں اُس کا ذکر ہوا۔ اور اس کے معنیٰ یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اُس کو چیونٹی کی رفتار سے مشابہ کہا گیا ہے اور چیونٹی کی رفتار کا نہ تو احساس کیا جاتا ہے اور نہ اُس کو سنا جاتا ہے، نہ تو اس کے پاؤں کی رفتار کی آواز سنی جا سکتی ہے، اور نہ تاریک رات میں کالے پتھر پر اُس کے چلنے کی حرکت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح شرک خفی انسان میں چلتا رہتا ہے اور انسان کو اس کا پتہ نہیں چلتا، لہٰذا اُس کی تشبیہ پتھر پر چلنے سے فرمائی نہ کہ مٹی پر چلنے سے، کیونکہ مٹی پر چلنے سے کچھ نشانی باقی رہ جاتی ہے مگر پتھر پر چلنے کا کوئی اثر اور نشان باقی نہیں رہتا، چونکہ پتھر پر چلنے سے کوئی نشان نہیں رہتا اور چلنے سے کوئی خبر بھی نہیں ہوتی، اسی طرح شرک خفی انسان میں چلتا رہتا ہے اور انسان کو اس سے کچھ آگاہی نہیں ہوتی۔ اس کے بعد تاریک رات کا ذکر فرمایا، یہ اس واسطے کہ ”صفا“ کالے سیاہ پتھر کو کہتے ہیں، اور چیونٹی بھی سیاہ رنگ کی ہوتی ہے، اور رات بھی سیاہ ہوتی ہے اور سیاہی، سیاہی پر سیاہی میں نہیں دیکھی جا سکتی۔ جب شرک خفی پے در پے ہو جائے تو تاریکیاں جمع ہو جاتی ہیں، صغیرہ عمل ہوتے ہوتے کبیرہ ہو جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ ایمان یہ ہے کہ سب کچھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانا جائے اور سب کچھ اُسے دیکھنا ہے، جو کوئی دونوں جہانوں میں کسی غیر کو دیکھے گا، یہی شرک ہے۔
تشریح:
دونوں جہانوں کی بات کی ہے۔ گویا جو دونوں جہانوں میں کسی غیر کو دیکھے گا، تو یہی شرکِ خفی ہے۔
متن:
اور اس بات کی دلیل جناب حارث رضی اللہ عنہ ہیں کہ جب اُنہوں نے ایمان کی حقیقت کا دعویٰ کیا تو سب سے اپنے دعویٰ کے سچائی کی خاطر ما سوی اللہ سے اور غیر سے نفع کی اُمید قطع کی۔ تم نہیں دیکھتے کہ فرما دیا: "اِسْتَویٰ عِنْدِيْ ذَھَبُھَا وَفِضَّتُھَا وَحَجَرُھَا وَمَدَرُھَا" (لَمْ أَجِدْ هٰذَا الْحَدِیْثَ) کہ میرے نزدیک اس کا سونا، چاندی، پتھر اور مٹی سب مساوی اور برابر ہیں۔ تمام چیزوں میں نفع کی چیز زر و سیم یعنی سونا چاندی ہے، دنیا کی تمام اشیاء اس کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ اور حال یہ ہے کہ یہ سب اُن کے نزدیک پتھر اور مٹی کے برابر ہیں،
تشریح:
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے، ایک شخص ہے، جو رشوت نہیں لیتا، نیک آدمی ہے۔ اس کو مثلاً: ایک ہزار روپے کی آفر ہوتی ہے، تو وہ کہتا ہے کہ نہیں، نہیں، میں رشوت نہیں لیتا۔ پانچ ہزار کی آفر ہوتی ہے، تو وہ کہتا ہے کہ نہیں، نہیں، میں رشوت نہیں لیتا۔ دس ہزار کی آفر ہوتی ہے، تو وہ کہتا ہے کہ نہیں، نہیں، میں رشوت نہیں لیتا۔ جب پانچ لاکھ تک بات پہنچ جاتی ہے، تو تھوڑا سا ڈگمگانے لگتا ہے کہ یہ تو اتنی رقم ہے، اور سوچنے لگتا ہے، خاموش ہو جاتا ہے۔ نہیں نہیں والی بات چھوٹ جاتی ہے۔ اس کے بعد رقم مزید بڑھائی جاتی ہے۔ تو کہتا ہے: بعد میں دیکھیں گے۔ گویا راستہ دے دیتا ہے۔ چنانچہ جس level پہ انسان کا ایمان ہوتا ہے، اسی کے مطابق اس کا معاملہ چلتا ہے۔ جب تک یہ unlimited نہیں ہے، اس وقت تک انسان خطرہ میں ہے۔ اور یہ unlimited تب ہوتا ہے کہ جب انسان غیر اللہ سے مکمل رابطہ کاٹ کر اللہ کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ 0 اور 1 میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ جب وہ غیر اللہ سے 0 کی نسبت ہو گئی، تو آپ 0 پہ اللہ کے لئے کیا کریں گے۔ بس یہی بنیادی بات ہے۔ جب تک انسان یہ نہیں کر سکتا، تو کھوٹ کی proportion موجود ہے۔ لہٰذا جس حد تک کھوٹ ہے، اس حد تک مسئلہ ہے۔
متن:
اور حال یہ ہے کہ یہ سب اُن کے نزدیک پتھر اور مٹی کے برابر ہیں، اور نفس کا نفع اور فائدہ و لطف کھانے میں ہے، اور سو جانے میں ہے،
تشریح:
یعنی انسان کے نفس کی خواہشات میں سونا اور کھانا پینا، یہ بہت بڑے مسائل ہیں۔
متن:
”میں نے رات کو شب بیداری اور دن کو بھوک میں گزارہ“ اور ان سے مراد دنیا کا نفع ہے۔ اور جب دنیا کے نفع کے حصول کی تمنا چھوڑ دی، تو یہ حاضر چیز (نفع) اُن کے واسطے ایک غائب چیز ہو گئی۔ جب اُنہوں نے ایمان کے بارے میں یہ دلائل قائم کر کے دکھائے، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو فرمایا کہ "عَرَفْتَ فَالْزَمْ" (المعجم الکبیر للطبراني، باب: الحاء، الحارث بن مالك الأنصاري، رقم الحديث: 3367) تم نے رسائی حاصل کی، اب اس کو مضبوطی سے پکڑے رہنا۔ یہ راز کی بات ہے،
’’لوگ جب اسباب کے جہان میں ہیں، تو یہ سب لوگ رات میں اور نیند میں ڈوبے ہوئے ہیں، تردید کا ترک کرنا توحید کی سواری ہے، اور تردید میں نقصان اور کمی کرنا صرف تجرید ہے‘‘۔ (تجرید، ننگا کرنا)
رسول اللہ ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے، کہ "لَا رَاحَۃَ لِمُؤْمِنٍ دُوْنَ لِقَاءِ اللہِ تَعَالٰی" (سلسلۃ الأحاديث الضعيفۃ، رقم الحديث: 663) وَالْمَوْتُ دُوْنَ لِقَاءِ اللہِ تَعَالٰی رَاحَۃُ الْمُؤْمِنِ" (لَمْ أَجِدْ هٰذَا الْجُزْءَ مِنَ الْحَدِیْثِ) ”مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کے دیدار کے علاوہ کوئی خوشی نہیں، اور دیدار کے بغیر موت مؤمن کے لیے راحت ہے“۔ یہ معاملہ اُس وقت ہوتا ہے کہ ایمان ایک حقیقت بن جائے اور ایمان حقیقت تب ہو جاتا ہے کہ جب دُنیا کے علائق سے قطع تعلق کیا جائے۔ اگر دنیا میں اُس کی صفت یہ ہو جائے تو دنیا اس کے لیے قیامت کی صفت کی ہو جائے، جیسا کہ حضرت حارث رضی اللہ عنہ کے لیے ہو گئی تھی۔
تشریح:
تجرید و تفریط، یعنی انسان اپنے آپ کو غیرُ اللہ سے مسلسل کاٹتا رہتا ہے۔ جیسے میں نے آپ کو اس کی مثال دی تھی کہ آپ کسی خاص target کی طرف جا رہے ہیں، مثلاً: لاہور جا رہے ہیں، تو لاہور جاتے ہوئے آپ گوجر خان جانے والے راستہ کو چھوڑ دیں گے، پشاور جانے والا راستہ چھوڑ دیں گے، ایبٹ آباد جانے والا راستہ چھوڑ دیں گے، اور لاہور کے راستہ پہ گامزن ہو جائیں گے۔ جہاں جہاں درمیان میں دوسرے راستے آتے جائیں گے، آپ ان کو چھوڑتے جائیں گے۔ حتیٰ کہ جب لاہور پہنچ جائیں گے، تو لاہور میں آپ ایک خاص locality کی طرف جائیں گے، باقی تمام locality کے راستے چھوڑتے جائیں گے۔ جب اس locality پہ پہنچ جائیں گے، تو اس طرف جانے والی سٹریٹ کی طرف جائیں گے اور باقی تمام سٹریٹس کو چھوڑ دیں گے۔ تو جب اس سٹریٹ میں داخل ہوں گے، تو تمام گھروں کو چھوڑیں گے، صرف ایک گھر کی طرف جائیں گے۔ جب اس گھر کی طرف جائیں گے، تو وہاں جس سے ملنا ہے، اس کے کمرے میں جائیں گے، اور پھر اس کمرے میں جتنے بھی لوگ ہوں گے، ان کو چھوڑ کر پھر آپ اس شخص سے ملتے ہیں۔ اسی طرح غیرُ اللہ سے مسلسل کاٹتے کاٹتے آپ ایک اصل کی طرف جاتے ہیں۔ یہی تجرید و تفریط ہے۔
متن:
پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی سے خوف کھائے یا غیر اللہ سے اُمید رکھے، اگرچہ اُس کو حقیقی شرک تو لاحق نہیں مگر یہ خوف و امید کھانا اور رکھنا بھی شرک ہے۔ اور دیگر صفتوں میں بھی اس پر قیاس کر دینا۔
یہ بات اچھی جاننی چاہیے کہ جو کوئی اپنے آپ کو عبادت میں واصل سمجھے یا گناہوں میں اپنے آپ کو جدا اور علیحدہ سمجھے، اگر یہ وصل اور جدائی غیر حق کی جانب سے سمجھے تو یہ شرک ہے۔ حاصل یہ کہ جس وقت بندے کا ایمان متحقق نہ ہو جائے اور اُس کی صفات اس طرح کی نہ ہو جائیں کہ "کُلُّھَا مِنَ الْحَقِّ وَبِالْحَقِّ وَلِلْحَقِّ وَإِلَی الْحَقِّ مِلْکًا" ”سب کچھ حق سے ہے، حق پر ہے، حق کے لیے ہے اور ملکیت کے لحاظ سے حق کی طرف ہے“۔
تشریح:
’’حَقْ حَقْ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو سوچنا چاہئے۔
یعنی ہر صورت میں حق کی ملکیت ہے اور اُس کا رجوع بھی حق کی جانب ہے۔ جب اُس کی یہ صفات ہو جائیں، تو اُس کا ایمان ثابت اور متحقق ہو جاتا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ