اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کا درس ہو رہا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں:
متن:
"قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ اللّٰہِ تَعَالٰی" (الموضوعات للصغانی، رقم الحدیث: 70) ”مؤمن کا دل خداوند تعالیٰ کا عرش ہے۔ سبحان اللّٰہ کیا ارفع مقام ہے۔ بیت ؎
ایں خانہ چہ خانہ است درو گنج نہاں است
از خواجہ بپرسید کہ ایں خانہ چہ خانہ مَست
گنج مست دریں خانہ کہ در کون نگنجد
ایں خانہ و ایں خواجہ ہمیں آں نہاں است
’’یہ گھر کیسا عالی شان گھر ہے کہ اس میں خزانہ پوشیدہ ہے، مالک سے پوچھیئے کہ یہ گھر کیسا قابلِ وقعت گھر ہے اس گھر میں ایسا خزانہ ہے کہ جو ساری کائنات میں سما نہیں سکتا یہ گھر اور اُس کا مالک دونوں نظروں سے پوشیدہ ہیں‘‘۔
تشریح:
دل کے بارے میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ ایسا چھپا ہوا خزانہ ہے کہ جب تک اس کی معرفت حاصل نہ ہو، اس وقت تک اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اور جیسا کہ اس کا مالک یعنی اللّٰہ جل شانہٗ پوشیدہ ہے، اس کو ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، اسی طرح اس دل کے بارے میں بھی انسان بات نہیں کر سکتا، اگرچہ یہ ہر ایک کے پاس ہے، لیکن فرق ہوتا ہے۔ اللّٰہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ’’یقینا اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔
اگر ہم اس کا یہی ترجمہ کافی سمجھیں، تو دل تو جانور کا بھی ہوتا ہے۔ تو کیا یہ ہم مان لیں گے کہ قرآن جانور کو بھی ہدایت دیتا ہے۔ گویا یہ کوئی عام دل نہیں ہے، بلکہ کوئی خاص دل ہے۔ تو کون سا دل ہے؟ اللّٰہ پاک ایک اور جگہ پہ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ 0 اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾ (الشعراء: 88-89)
ترجمہ: ’’جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد، ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا (اس کو نجات ملے گی)‘‘۔
اس کا مطلب ہے کہ دل کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قلبِ سلیم ہے اور ایک اس کے مقابلے میں قلبِ سقیم ہے۔ قلبِ سقیم وہ دل ہے، جو دنیاوی چیزوں سے متاثر ہے اور جو دنیا کا عاشق ہے۔ جیسے آپ ﷺنے فرمایا: ’’حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5213)
ترجمہ: ’’دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے‘‘۔
اور یہ سب عقلاء جانتے ہیں کہ محبت کی جگہ دل ہے، محبت کی کوئی اور جگہ نہیں ہوتی۔ پس یہ دنیا کی محبت بھی دل میں ہوتی ہے۔ لہٰذا جس کو جس چیز کے ساتھ محبت ہوتی ہے، وہ اس چیز کی طرف کھنچتا ہے۔ محبت ایک کشش ہے۔ اگر کسی کو دنیا کے ساتھ محبت ہے تو اس کا دل دنیا کی طرف کھنچے گا اور اگر کسی کو اللّٰہ کے ساتھ محبت ہے، تو اس کا دل اللّٰہ کی طرف کھنچے گا، یہ بالکل واضح بات ہے۔ اگر دنیا کی طرف کھنچے گا تو اگرچہ یہ بہت اعلیٰ چیز ہے، لیکن غلط استعمال ہوا۔ نتیجتاً غلط استعمال ہونے کی وجہ سے اس کی سزا ہے۔ اور سزا یہ ہے کہ چونکہ دنیا کی طرف لپکنا جانوروں والا کام ہے، لہذا اب یہ جانور بھی نہیں رہتا، بلکہ جانوروں سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللّٰہ پاک ارشاد فرماتے ہیں: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ 0 ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ﴾ (التین: 4-5)
ترجمہ: ’’ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے نچلی حالت میں کر دیتے ہیں‘‘۔
پس انسان کی جتنی بھی چیزیں ہیں، وہ سب اچھے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں۔ چاہے اس کا دماغ ہے، چاہے اس کا دل ہے، چاہے اس کے جسم کے اور اعضاء ہیں، یہ سب اعلیٰ ہیں۔ لیکن اعلیٰ چیز جب ادنیٰ کے لئے استعمال ہوتی ہے، تو اس کا مقام گر جاتا ہے، پھر اس کا مقام وہ نہیں رہتا۔ اس لئے شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ دل کو اپنی طرف کھینچنے والی چیز تجلیٔ اعظم ہے۔ لیکن اگر انسان کے اندر کچھ دنیاوی آلائشیں اور غلاظتیں ہوں، تو وہ اس کو پیچھے کر دیتی ہیں۔ اس کی مثال بالکل مقناطیس کی طرح ہے کہ اس کی طرف صحیح اور اچھا لوہا کھینچتا ہے، لیکن اگر اس کے اندر impurities ہوں، تو وہ اس کی طرف کھنچے گا۔ جتنی impurities زیادہ ہوں گی، اتنی ہی اس کی کشش کم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے دل میں جب یہ impurities آ جاتی ہیں یعنی دنیاوی آلائشیں آ جاتی ہیں، تو یہ اپنے مقام سے گر جاتا ہے۔ impurities تو میں نے ذرا ہلکا لفظ استعمال کیا ہے۔ اصل میں اور لفظ ہے، مثلاً: دو قسم کے مقناطیس ہیں، ایک مقناطیس کی طرف لوہا کھنچتا ہے، دوسرے مقناطیس کی طرف کوئی اور چیز کھینچتی ہے۔ اب اگر impurities میں اور چیزیں شامل کر دیں، تو وہ کس کی طرف کھنچے گا؟ جب تک یہ برابر ہوں گی، مقناطیس اپنی جگہ پر ہو گا، نہ آگے جائے گا، نہ پیچھے جائے گا۔ اگر ٪50 سے impurities کم ہوں گی، تو تجلیٔ اعظم کی طرف تھوڑا کھنچے گا، اسی حساب سے کھنچے گا، رفتار کم ہو جائے گی۔ لیکن کچھ کھنچے گا ضرور، کیونکہ اس طرف زیادہ ہے۔ اور اگر اس طرف زیادہ ہے، تو اس طرف زیادہ کھنچے گا۔ جیسے: کسی نے کہا کہ جس راستے پہ تم جا رہے ہو: ’’مے روی بترکستان‘‘ (ترکستان کی طرف جا رہا ہے) مکہ کی طرف نہیں جا رہا۔ یعنی اگر ہمارا دل دنیاوی محبتوں میں گرفتار ہے، تو وہ دنیا کی طرف جائے گا۔ نتیجتاً وہ اپنے مقام سے گر جائے گا۔
متن:
؎فی الجملہ ہر آن کس کہ دریں خانہ راہے یافت
سلطان زمین است و سلیمان جہاں ست
’’حاصل کلام یہ کہ جو کوئی اس گھر میں راہ پائے گا تو وہ زمین کا بادشاہ اور جہان کا سلیمان ہے‘‘۔
اے عزیزِ من! تمہارے دل کا خزانہ تو لکھا گیا، اس موقع پر قطب عالم قدّس سرہٗ نے رمزًا ایک ارشاد فرمایا کہ "الْقَلْبُ ھُوَ الْعَرْشُ وَالصَّدْرُ ھُوَ الْکُرْسِيُّ" یعنی قلب عرش ہے اور سینہ کرسی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ اس آیت: ﴿بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَجِیْدٌ فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ﴾ (البروج: 22) ”کوئی نہیں یہ قرآن ہے بڑی شان کا، لکھا ہے لوح محفوظ میں“ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ لوحِ محفوظ مؤمن کا دل ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ یہی بات یوں فرماتے ہیں کہ "الْعَرْشُ مُحِیْطٌ عَلٰی جَمِیْعِ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جو کچھ تخلیق فرمایا ہے، عرش اُن سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے، لیکن دل عرش پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے حکایتًا حدیث منقول ہے: "مَا وَسِعَنِيْ سَمَائِيْ وَلَا أَرْضِيْ بَلْ وَسِعَنِيْ قَلْبُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ" (الزیادات علی الموضوعات للسیوطی، رقم الحدیث: 1017) کہ میں آسمانوں اور زمین میں نہیں سما سکتا، مگر مؤمن کے دل میں سما سکتا ہوں۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عرش ہمارے لائق نہ ہوا، آسمان کی قوت برداشت جواب دے گئی اور زمین ہمارے تحمل سے وا ماندہ ہو گئی، لیکن مؤمن کے دل نے مجھے قبول کیا۔ چنانچہ اے میرے عزیز! ایک دن حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ نے جناب رسول اللّٰہ ﷺ سے عرض کیا کہ "أَیْنَ اللّٰہُ تَعَالٰی؟ فَقَالَ: "فِيْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی اللّٰہ تعالیٰ کہاں ہے؟ تو جواب میں سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بندوں کے دلوں میں۔ اے عزیز! میں نے دل کی اتنی شرح بیان کی، اب دوسرا بیان سن لو۔ بعض رسالوں میں آیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نو لاکھ اسی ہزار سال تک دل کو جو کہ نور سے ہے، اپنے قبضۂ قدرت میں لے کر پرورش کرتا رہا اور اس کو کہتا رہا کہ تُو میرا عاشق ہے اور میں تیرا عاشق ہوں۔ یہ بیان بہت طویل ہے جو کہ مختصر طور پر کہا گیا۔ پس اے برادرِ عزیز! میں نے دل کے بیان کی شرح جو بیان کر دی ہے اور جو کچھ کہ میں نے اس سلسلے میں "أَلَمْ نَشْرَحْ" کردیا اور تحریر میں لے آیا، یہ اس لئے کہ تو دِل کو پالے، اور اس کے بعد روح جو کہ حق تعالیٰ کا خلیفہ ہے، اس کو پانے کی کوشش کرے۔ الغرض اے میرے عزیز! سن لو کہ اس بارے میں شیخ محمد حسین کیا فرماتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں چاہتا تھا کہ روح کی عزت کے جمالِ جہاں آرا کو عام طریق سے لوگوں کو دکھاؤں مگر شریعت کی پابندی آڑے آئی۔ میرے جنون نے حقیقت کو پوشیدہ رکھا اور چونکہ "إِنَّ اللّٰہَ غَیُّوْرٌ" ”اللّٰہ تعالیٰ بہت زیادہ غیرت والا ہے“ اللّٰہ تعالیٰ کی غیرت کی وجہ سے میں نے اپنا خیال ملتوی کر دیا۔ اگر بایزید بسطامی اور شبلی رحمۃ اللّٰہ علیہم زندہ ہوتے تو میں ان کو شرح بیان کرتا۔ جب روح کی شرح کے بیان کو قلم پہنچ جاتا تو میری دیوانگی حرکت میں آ جاتی ہے اور مقام غیرت سے غیب کے پردوں سے اس فقیر کو بطور تنبیہ یہ آواز آتی ہے کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”روح امرِ ربی میں سے ہے“ اور یہی روح کی مکمل شرح ہے۔ بیت:۔ ؎
کار تو سعیت و عالی اند راہ حقیقت
در صد ہزار سالے یک مرد راہ بین است
’’راہ حقیقت میں یہ ایک عالی اور مضبوط مقام ہے لاکھوں سالوں میں کہیں رہ شناس آدمی پیدا ہوتا ہے‘‘۔
اس کے بعد روح کا کلام لکھا جائے گا۔ روح کے قالب کی جانب اشارہ کرنا ایسا ہوگا کہ انسان کے لفظ کا اطلاق قالب کے بغیر نہیں ہوتا۔
تشریح:
حضرت نے فرمایا کہ دل عرش ہے اور سینہ کرسی ہے۔ یعنی اصل میں لوحِ محفوظ مؤمن کا دل ہے۔
متن:
رسول اللّٰہ ﷺ یہی بات یوں فرماتے ہیں کہ "الْعَرْشُ مُحِیْطٌ عَلٰی جَمِیْعِ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جو کچھ تخلیق فرمایا ہے، عرش اُن سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے، لیکن دل عرش پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے حکایتًا حدیث منقول ہے: "مَا وَسِعَنِيْ سَمَائِيْ وَلَا أَرْضِيْ بَلْ وَسِعَنِيْ قَلْبُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ" (الزیادات علی الموضوعات للسیوطی، رقم الحدیث: 1017)
تشریح:
اس چیز کو سمجھنے کے لئے بہت تفصیل کی ضرورت ہے، لہذا سب موقع پہ ہی اس کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے جمعرات کے دن شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ’’الطاف القدس‘‘ کا ہمارا جو درس ہوتا ہے، اس میں ان چیزوں کی تشریح آتی ہے۔ کیونکہ حضرت نے اس کو باقاعدہ ایک طریقہ سے شروع کیا ہے۔ جب تک ان چیزوں تک رسائی نہ ہو، یعنی جب تک مبادیات پتا نہ چلیں تحیات سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ لہذا اس کو ہم فی الحال ایسے ہی چھوڑیں گے، کیونکہ ان مبادیات کے بغیر یہ سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ لیکن بہرحال! یہ بات ضرور عرض کر سکتے ہیں کہ جب دل کا تعلق اللّٰہ کے ساتھ ہوتا ہے، تو پھر اس کا سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ اور جب دنیا کے ساتھ ہوتا ہے، تو یہ کسی شمار میں نہیں ہوتا۔ سمجھنا اس لئے مشکل ہوتا ہے کہ اللّٰہ کی ذات، اللّٰہ کی شان بہت بڑی ہے، جب اس کی نظر مؤمن کے دل پر ہوتی ہے، تو وہ معمولی چیز نہیں رہتا، پھر وہ بہت اونچی چیز بن جاتا ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے:
’’اِنَّ اللّٰہَ لَا يَنْظُرُ إِلٰى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلٰكِنْ يَّنْظُرُ إِلٰى قُلُوْبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ‘‘۔ (مسلم شریف، حدیث نمبر: 1776)
ترجمہ: ’’اللّٰہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، لیکن تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے‘‘۔
چنانچہ اس کی نظر دلوں پر ہوتی ہے۔ دل پر جب نظر ہوتی ہے، تو دل میں اگر محبتِ الہی کا داعیہ ہے، تو ایسی صورت میں اللّٰہ جل شانہٗ کا قانون ہے کہ وہ اتنا واپس نہیں کرتے جتنا کہ ہماری طرف سے جاتا ہے، بلکہ اس سے زیادہ بھیجتے ہیں۔ اللّٰہ پاک نے فرمایا ہے کہ جب کوئی میری طرف ایک بالشت آتا ہے، تو میری رحمت اس کی طرف دو بالشت جاتی ہے۔ کوئی میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے، تو میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے۔ کوئی میری طرف چل کے آتا ہے، تو میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ جو ہماری طرف سے بھیجا گیا ہو، اللّٰہ جل شانہٗ اتنا ہی نہیں دیتے، بلکہ وہاں سے زیادہ ہی ہو گا۔ چنانچہ ہمارے دل میں ایک محبتِ الہی کا داعیہ ہے، وہ اللّٰہ پاک نے دیکھ لیا، اس کے جواب میں اللّٰہ جل شانہٗ جب محبت کی نگاہ سے دیکھیں گے، تو ہم اس کا کیا حساب کر سکیں گے؟ اس کا کوئی حساب نہیں کیا جا سکتا۔ بس یہی بنیادی بات ہے کہ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ انسان کا دل اللّٰہ کا عرش ہے، یہ اس صورت میں ہے کہ جس وقت انسان کا دل اللّٰہ کا بن جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تجلی گاہِ حق ہو جاتا ہے، اس پہ اللّٰہ جل شانہٗ کی تجلی مسلسل آ رہی ہوتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ دل کو جو تجاذب ہوتا ہے، وہ تجلیٔ اعظم کی طرف ہوتا ہے۔ اور تجلیٔ اعظم اللّٰہ پاک کی تجلی ہے، جب تجلیٔ اعظم کی طرف اس کا تجاذب ہو گا، تو اگر اس کے ساتھ ملے گا، تو کیسے ہو گا؟ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی حساب تو نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر اپنی کثافتوں کی وجہ سے پیچھے رہ گیا، تو جتنا پیچھے رہ گیا، اس قدر وہ اپنے مقام سے گر جائے گا۔ چنانچہ انسان کو اپنے دل کا خیال رکھنا چاہئے، اپنے دل کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے نقشبندی سلسلہ میں اس کا بڑا اہتمام ہے، ہر وقت اپنے دل کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک عجیب بات یاد آ گئی۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰہ تعالیٰ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرح بڑی شان دی تھی، دنیاوی بھی اور آخرت کی بھی۔ ایک دفعہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ تشریف فرما تھے، کسی نے اطلاع کر دی کہ حضرت! جو جہاز آ رہا تھا، وہ غرق ہو گیا۔ حضرت نے اپنے سینے کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: الحمد للہ۔ اس کے تھوڑی دیر بعد وہ صاحب پھر آئے اور کہا کہ غلطی ہو گئی، معافی چاہتا ہوں، وہ خبر غلط تھی، وہ کسی اور کا جہاز تھا۔ آپ کا جہاز صحیح سالم آ رہا ہے۔ پھر حضرت اپنے سینے کی طرف مراقب ہوئے اور پھر فرمایا: الحمد للہ۔ جو مریدین حضرات موجود تھے، انہوں نے کہا: حضرت! آپ نے دو متضادُ النوع حالات پہ الحمد للہ کہا ہے۔ اگر ایک الحمد للہ صحیح ہے، تو دوسرا غلط ہو گا۔ یہ کیسی بات ہے؟ حضرت نے فرمایا: بتائیں! میں نے الحمد للہ کس چیز پہ کہا ہے؟ مریدین نے کہا: جہاز کے ڈوبنے پر یا جہاز کے پانے پر؟ فرمایا: نہیں۔ نہ میں نے جہاز کے ڈوبنے پر الحمد للہ کہا ہے، نہ جہاز کے پانے پہ کہا ہے۔ میں نے تو اپنے دل کی طرف غور سے دیکھا کہ کیا اس کی وجہ سے اللّٰہ کے ساتھ تعلق میں کوئی فرق پڑا ہے۔ میں نے دل کی طرف دیکھا، تو پتا چلا کہ کچھ بھی فرق نہیں پڑا تھا۔ میں نے کہا: الحمد للہ۔ پھر اس کے بعد جب اطلاع آئی کہ آپ کا جہاز مل گیا۔ تو یہ ایک اور دنیاوی چیز تھی۔ وہ دنیاوی نقصان تھا، یہ دنیاوی فائدہ تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ آیا اس بات کے سننے سے میرے دل پہ کچھ فرق پڑا ہے؟ جب میں نے دیکھا کہ کوئی فرق نہیں پڑا، تو میں نے کہا: الحمد للہ۔ اس کو نگہداشت کہتے ہیں، یعنی ہر وقت ہمارے دل کا معاملہ اللّٰہ کے ساتھ کیسا ہے۔ یہ اصل بات ہے۔ پس اگر ہمارا دل اللّٰہ کے ساتھ مانوس ہے، اللّٰہ کی طرف متوجہ ہے اور اللّٰہ سے راضی ہے۔ بلکہ ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ اگر آپ معلوم کرنا چاہیں کہ اللّٰہ آپ سے راضی ہے یا نہیں، تو آپ ذرا اپنے اندر غور کر لو کہ آپ اللّٰہ سے راضی ہو یا نہیں۔ اگر تم اللّٰہ سے راضی ہو، تو اللّٰہ تم سے راضی ہے اور وہی قانون جو تھوڑی دیر پہلے میں نے بیان کر دیا کہ اللّٰہ جل شانہ کبھی اپنے ہاتھ کو نیچے نہیں ہونے دیتے، اوپر ہی رکھتے ہیں۔ لہذا اگر ہم اللّٰہ تعالیٰ سے راضی ہیں، تو اللّٰہ جل شانہ بھی ہم سے راضی ہوتے ہیں۔ اگر ہم اللّٰہ پاک کے ساتھ محبت کرتے ہیں، تو اللّٰہ تعالیٰ بھی ہم سے محبت کرتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم اپنی خواہشات کو اللّٰہ کے لئے مٹا دیتے ہیں، تو اللّٰہ تعالیٰ ساری چیزوں کو ہماری خواہشات کے مطابق کر دیتا ہے۔ لیکن یہ چیزیں ہیں مشکل۔ الفاظ کی حد تک آسان ہیں، لیکن حقیقت میں ان کو پانا بہت مشکل ہے۔ اس پہ بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے، بہت زیادہ محنت کی جاتی ہے۔ مثلاً: اگر میں کسی بھی چیز کے بارے میں بتاؤں کہ اس طرح کیا جائے گا، اس طرح کیا جائے گا، تو پانچ منٹ میں یہ بات ختم کر لوں گا۔ لیکن ہونے میں ممکن ہے کہ دس سال لگ جائیں۔ حضرت مجددِ ملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جب میں کسی کو دیکھتا ہوں کہ نماز نہیں پڑھتا، تو مجھے اتنی زیادہ فکر نہیں ہوتی، کیونکہ مجھے پتا ہے کہ اگر ابھی اس نے نمازی ہونے کی ڈھان لی، تو پانچ منٹ میں نمازی بن سکتا ہے، لیکن اگر میں کسی کو دیکھتا ہوں کہ اس میں تکبر ہے، تو میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے کہ ابھی اگر یہ کام شروع بھی کر لے گا، تکبر دور کرنا شروع بھی کر لے گا، تو تکبر کو نکالتے نکالتے اس کو برسوں لگ جائیں گے۔ مثلاً: مجلس میں دو حضرات آتے ہیں، ایک بڑا متشرع ہے، نمازی ہے، تسبیح ساتھ ہے، ذاکر ہے۔ دوسرا آدمی فاسق و فاجر ہے، لیکن بصیرت کی نگاہ سے ان کو دیکھیں تو جو متشرع ہے، اس میں تکبر ہے اور جو فاسق و فاجر ہے، وہ متکبر نہیں ہے۔ اب بتائیے! کون سا زیادہ خطرے میں ہے؟ متکبر زیادہ خطرہ میں ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ لوگ جب اہلِ بصیرت کے حالات دیکھتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ فلاں کے ساتھ تو ایسا برتاؤ کیا، حالانکہ وہ تو ایسا نہیں تھا، اور دوسرے کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا۔ حالانکہ یہ جو سوچا گیا کہ میرے ساتھ ایسا برتاؤ کیوں کیا گیا ہے، یہ بھی تو تکبر ہے۔ یہی عمل تو تکبر کو ثابت کر رہا ہے۔ کیونکہ جو اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے، اسی کو ایسا لگتا ہے۔ دوسرا تو پہلے سے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا، اس میں تو یہ چیزیں ہیں ہی نہیں۔ بہت سارے لوگوں کو اس راستے میں اسی نے نقصان پہنچایا ہے۔ اور یہ دل کی ایک عقل ہے، جس کے ذریعے سے یہ سارا کچھ ہوتا ہے، لیکن اس عقل تک رسائی کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ کیونکہ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ آپ ہاتھ سے بٹن دبا دیں اور کام ہو جائے، بلکہ اس کے لئے آپ سارے indirect طریقے استعمال کرتے ہیں اور اس ذریعے سے آپ پہنچتے ہیں۔
بہر حال! میں عرض کر رہا تھا کہ حضرت نے فرمایا کہ جس وقت روح تک میری بات آ جاتی ہے، وہاں پر میرا معاملہ گڑبڑ ہو جاتا ہے، میں اپنے آپ میں نہیں رہتا۔ کیونکہ روح در اصل قلب کی ملاءِ اعلیٰ تک پرواز ہے۔ جب اس کی پرواز ملاءِ اعلیٰ تک ہو جائے، تو وہ پھر روح بن جاتا ہے اور پھر وہاں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ سارے انبیاء، سارے اولیاء اور سارے بڑے بڑے حضرات ’’حظیرۃ القدس‘‘ میں ہیں، تو ہم وہاں کی کیا باتیں کریں گے۔ اسی لئے حضرت نے فرمایا کہ جب روح کے ساتھ میرے معاملہ کی بات آ جاتی ہے، تو میں گھبرا جاتا ہوں، پھر میں اپنے آپ میں نہیں رہتا۔ لیکن جب میں کچھ کرنے لگتا ہوں، تو گویا کہ اس کی طرف سے الہام ہوتا ہے: ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ﴾ (الإسراء: 85) کہ بس یہ چیز اتنے تک رکھو۔ اس پہ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے زبردست کلام فرمایا ہے کہ یہ جو ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ﴾ ہے، اس کو بعض لوگ underestimate کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ روح پہ بات کرنے سے روک دیا گیا ہے، حالانکہ روکا نہیں گیا ہے۔ جیسے: اگر کوئی بات کسی چیز کا بہت اعلیٰ راز ہو، تو کیا میں سب کے سامنے بیان کر سکتا ہوں؟ سب کے سامنے تو نہیں بیان کر سکتا، بیان کروں گا، تو مجرم ہو جاؤں گا۔ جیسے: خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو دوست کے راز کو راز نہیں رکھ سکتا، وہ دوستی کے قابل نہیں ہے۔ در اصل یہ بات یہود کے متعلق ہے، کیونکہ یہود نے سوال کیا تھا کہ روح کیا ہے؟ (یہ بہت عجیب نکتہ ہے) تو اللّٰہ پاک کی طرف سے جواب آیا کہ ان کو کہہ دو کہ روح اللّٰہ کا امر ہے، تمہیں اس کا بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ان کے لئے تو یہ بات صحیح ہے۔ یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ روح اللّٰہ کا امر ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، کیونکہ یہ عالمِ امر میں سے ہے۔ اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس کا بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے، لیکن اللّٰہ پاک اگر کسی کو علم دے دیں، تو اس کی بات الگ ہے۔ کیونکہ جس کو اللّٰہ پاک دے دیں، تو وہ اللّٰہ کی مرضی ہے۔ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس سے یہی نکتہ لیا ہے۔ پھر انہوں نے روح پر بات کی ہے کہ روح کے اجزا کیا ہیں۔ اسی طرح اس بارے میں جو باتیں ابھی ابھی ہوئی ہیں، وہ ساری باتیں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہیں۔ اس کے اوپر پورا chapter ہے۔ لیکن عوام کے سامنے اس کو نہیں بیان کرنا ہوتا۔
ہماری غزل ’’محبت کی دنیا‘‘ کا ایک شعر ہے:
نہ چھیڑو دل کے نغمے رکو اب
دبی ہی رہے بہتر آواز تمہاری
صحیح بات ہے کہ میں سوچتا تھا کہ میں نے ایسا شعر کیوں کہا ہے، جس کا مطلب مجھے معلوم نہیں ہے۔ بس کہہ دیا، لیکن مطلب معلوم نہیں ہے۔ پھر مطلب اس طرح معلوم ہوا کہ جب میں مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مثنوی شریف کا درس دے رہا تھا، تو وہاں پر بالکل یہی بات ہو رہی تھی تو حضرت نے فرمایا کہ بس یہاں رکو، اس سے زیادہ بات نہ کرو۔ اگر اس کی کوئی مخالفت کرے گا، تو اس پہ وبال آئے گا، بس اتنی بات کافی ہے۔ کیونکہ اگر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اتنے عالی ارشادات کا ذکر ہو اور پھر اس کا لوگ مذاق اڑائیں، تو کتنی خطر ناک بات ہے۔ جیسے تھوڑی دیر پہلے فرمایا ہے: ’’إِنَّ اللّٰہَ غَیُّوْرٌ‘‘ ”اللّٰہ تعالیٰ بہت زیادہ غیرت والا ہے“۔ لہذا اگر بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور شبلی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہوتے، تو میں ان کے سامنے بات کر لیتا، لیکن چونکہ وہ حضرات نہیں ہیں، لہذا اب میں عام لوگوں کے سامنے بات نہیں کر سکتا۔
متن:
بیت:۔ ؎
کار تو سعیت و عالی اند راہ حقیقت
در صد ہزار سالے یک مرد راہ بین است
’’راہ حقیقت میں یہ ایک عالی اور مضبوط مقام ہے لاکھوں سالوں میں کہیں رہ شناس آدمی پیدا ہوتا ہے‘‘۔
تشریح:
اصل میں کافی ساری چیزیں ہیں۔ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ کچھ میں صلاحیت نہیں ہوتی، لیکن کوشش کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں میں صلاحیت ہوتی ہے، لیکن کوشش نہیں کرتے۔ اب یہ دو چیزیں کسی ایک میں یکجا ہو جائیں، اس کے لئے بہت عرصہ لگتا ہے، کیونکہ جو کوشش کرتا ہے، اس کے سامنے رکاوٹیں آتی ہیں۔ تو جو بعض لوگ کوششیں کرتے ہیں، ان رکاوٹوں کی وجہ سے وہ بھی راستے میں رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کا بھی معاملہ اس طرح ہو جاتا ہے۔ فرمایا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہزار سال گزر گئے، امت پر ایک مشکل گھڑی آ گئی، اتنی مشکل گھڑی آ گئی کہ اکبر کے دور میں اسلامی سلطنت کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے جانے کی چند گھنٹوں کی دیر تھی۔ دو بزرگوں نے اس کا بیڑا اٹھایا اور اللّٰہ کے فضل و کرم سے اللّٰہ کی تائید ان کے ساتھ شامل ہوئی اور الحمد للہ ہندوستان الحاد کے ہاتھ میں جانے سے بچ گیا۔ بڑے بڑے لوگ پھسل گئے تھے یا مارے گئے تھے جو دین پہ چلے یا ملک بدر کر دیئے گئے۔ ایک سلیم چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ، جن کا اکبر خود بڑا مداح تھا اور دوسرے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ سلیم چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک ایسا کام کیا، جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔ ہم لوگ اس سے سیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے مُلّا دوپیازہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نام سنا ہو گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ میں اس کے ساتھ رحمۃ اللّٰہ علیہ کہتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سلیم چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خاص آدمی تھے۔ چونکہ ان کے دربار میں اس موضوع پر کوئی سنجیدہ آدمی نہیں ٹھہر سکتا تھا، حضرت نے ان کو اس لئے منتخب کیا کہ یہ ہر قسم کے ماحول کے مطابق کوئی joke کی بات کہتے دیتے تھے اور ذہین بہت زیادہ تھے، کوئی ان کو قابو میں نہیں لا سکتا تھا۔ تو یہ joker کے طور پہ وہاں رہتے تھے اور اپنے مسلک کی بھی حفاظت کرتے تھے، اور حالات کا بھی پتا چلتا تھا۔ آپ اندازہ کریں کہ ایک دن یہ گئے، تو اکبر نے ان سے کہا مُلّا! تم لیٹ آئے ہو، عہدے تو تقسیم ہو گئے ہیں۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکْ، اکبر خود حضور بن گیا اور اس کے جو درباری تھے، ان میں کوئی ابو بکر، کوئی عمر، کوئی عثمان، کوئی علی، وغیرَ ذٰلک۔ اور کہا کہ تم بتاؤ! تم کون سا عہدہ لینا چاہتے ہو؟ عہدے تو سارے تقسیم ہو گئے ہیں۔ مُلّا دو پیازہ اتنے ہوشیار تھے، یہ بات کوئی فطین آدمی ہی کر سکتا ہے۔ کہا کہ میں تم لوگوں کا ابو جہل ہوں گا، تمہیں گالیاں دوں گا۔ اپنے آپ کو بچایا بھی کہ تم لوگوں کا ابو جہل ہوں گا۔ منفی ضرب منفی، مساوی جمع۔ تو جب انہوں نے خود کو جاہلوں کا جاہل کہا، تو گویا وہ ان کو بھی جاہل کہہ رہے تھے۔ اس لئے کہا کہ میں تم لوگوں کا ابو جہل ہوں گا، تمہیں گالیاں دوں گا۔ اور پھر گالیاں دینا شروع کر دیں۔ ان کی پگڑی ذرا normal ہوتی تھی، ایک دفعہ یہ آئے، تو درباری ان کو ذرا نیچا دیکھانے کے لئے اپنی پگڑیاں بڑی خوبصورت بنوا کر لائے تھے اور بادشاہ سے کہا کہ ان کو پگڑی باندھنا بھی نہیں آتی۔ بادشاہ نے کہا: مُلّا! یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ تمہیں پگڑی بھی نہیں باندھنا آتی۔ انہوں نے چھٹ سے اپنی پگڑی کھولی اور پھر دوبارہ باندھ لی اور کہا کہ دیکھو! میں تو اس طرح باندھتا ہوں، ان سے کہیں کہ یہ بھی کھول کے دوبارہ باندھیں۔ جب کوئی نہیں باندھ سکا، تو کہا کہ یہ اپنی بیویوں سے پگڑی بندھوا کے لاتے ہیں۔ بہر حال! ان کے بڑے واقعات ہیں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بیربل وغیرہ نے سازش کی کہ ایک دفعہ اکبر کے منہ سے یہ کہلوا لیں کہ میں ہندو ہوں، تو بس حکومت بغیر کسی لڑائی کے ہندوؤں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ انہوں نے اس کے لئے ناٹک رچایا، کسی جوگی کو بلایا۔ وہ خشک زمین پر غوطہ لگاتا اور غائب ہو جاتا اور پھر دوسری جگہ سے نکلتا، جیسے پانی سے نکلتے ہیں۔ اس طرح کئی بار کرتا رہا۔ اکبر اس سے بڑا متاثر ہو گیا۔ مُلّا دو پیادہ نے جب یہ حالت دیکھی، تو چونکہ ان کے بس کی بات نہیں تھی، تو انہوں نے فوراً جا کر سلیم چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں عرض کی کہ حضرت! آپ ہی کچھ کر سکتے ہیں، میرے بس میں نہیں ہے، اب یہ معاملہ ہونے والا ہے۔ حضرت جلدی جلدی آ گئے، حضرت کو کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ لہذا وہ اندر چلے آئے اور اکبر سے کہا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: حضرت! آئیں، آپ بھی دیکھیں۔ عجیب بات ہو رہی ہے، یہ شخص زمین میں غوطہ لگا لیتا ہے اور پھر نکل آتا ہے، یہ کیسی عجیب بات ہے۔ حضرت نے کہا: اچھا ایسا کرتے ہیں؟ چلو کر کے دکھاؤ۔ بادشاہ نے کہا: غوطہ لگاؤ۔ اس نے غوطہ لگایا، تو اسی جگہ پہ حضرت کھڑے ہو گئے، اور فرمایا: قیامت تک یہ نہیں نکل سکتا، بس ختم ہو گیا۔ اس کے بعد وہ نہیں نکل سکا اور تباہ ہو گیا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی یہی کیا کہ انہوں نے جھونپڑی میں اپنی خانقاہ شروع کی اور کام شروع کر دیا اور حضرت کے کام کی نوعیت اس طرح تھی کہ انہوں نے عوام پہ محنت نہیں کی، بلکہ خواص پہ محنت کی۔ اپنے دور کے خواص پر محنت کی۔ جو مؤثر لوگ تھے، جو کام کر سکتے تھے، ان کے ساتھ رابطے کئے۔ چنانچے اکبر کے پچاس فیصد سے زیادہ درباری حضرت کے معتقد ہو گئے تھے یا ان سے بیعت ہو گئے تھے۔ ابو الفضل فیضی بھی حضرت کے پاس جایا کرتے تھے، ظاہر ہے کہ معتقد نہیں تھے، شرارت کے لئے جاتے تھے۔ لیکن ان کے ہاں جاتے تھے۔ بہرحال! اللّٰہ کا شکر ہے کہ ان کی زندگی میں تو ایسا نہیں ہو سکا، اس کے بعد ان حضرات کو موقع مل گیا۔ جو پچاس فیصد سے زیادہ درباری ہیں، ان کی کوششوں سے خرم بادشاہ نہیں بن سکے، جہانگیر کو بادشاہ بنا دیا گیا، جو اسلامی ذہن کے قریب تھے۔ سلیم چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی دعا سے پیدا ہوئے تھے۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نظام کے مطابق ہم چلیں گے، تو اللّٰہ جل شانہٗ پورا انتظام فرما دیتے ہیں۔
بہر حال! نسان روح کے مقام پر چلا جاتا ہے، تو اس کی پرواز بہت اونچی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ قلب جب تک مقامِ روح تک نہیں گیا، تو اپنی جگہ پر ہے۔ لیکن جس وقت یہ مقامِ روح میں چلا جاتا ہے، تب اس کا کنکشن اوپر ملاءِ اعلیٰ تک چلا جاتا ہے اور تجلیِٔ اعظم کی طرف اس کی کشش ہے۔ اگر اس کو تجلیِٔ اعظم کی طرف کشش ہے اور وہ ادھر سے اسے ملنا شروع ہو گیا، تو پھر ادھر سے ساری چیزوں کے ساتھ وہ connect ہو جاتا ہے۔ جو بھی خیر کے ذرائع ہیں، ان سب کے ساتھ connect ہو جاتا ہے اور اس کا معاملہ بہت زیادہ اونچا شروع ہو جاتا ہے۔
متن:
لیکن ایک دوسری جماعت جو کہ علماءِ ظاہر بین ہیں، قالب کو بھی انسان سمجھتے ہیں اور روح کو بھی، لیکن جو لوگ خصوصیت کے مئے کدہ سے جام نوش کر چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان خطابات کا مقصود جان کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور روح کے بغیر آدمی کی کچھ حقیقت نہیں۔ مثلًا اگر کہا جائے کہ فلاں شخص عالم ہے، جاہل، قادر، عاجز، سخی، کنجوس، مؤمن یا کافر ہے تو یہ تمام اوصاف جان یعنی روح کے ہیں (یہ قالب کے اوصاف نہیں ہیں) اور اُس کی تعریف ہے، اور یہ بات کسی طرح بھی موزوں نہیں کہ قالب اور جسم کو ان صفتوں سے یاد کیا جائے لیکن مجازی طریقے سے قالب پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے،
تشریح:
کیونکہ باطن کی پہچان اس کے ظاہر سے ہوتی ہے، لہذا ظاہر کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ ابھی میں شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول پڑھ رہا تھا، اس میں حضرت نے بڑا عجیب اور لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے۔ فرمایا: بعض لوگ باطن پر اتنا فریفتہ ہو گئے کہ وہ ظاہر کو کچھ نہیں سمجھتے، یہ ان کی غلطی ہے۔ خواجہ نقشبند رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ہرگز یہ منشاء نہیں تھا، بلکہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللّٰہ علیہ نے صرف اتنا فرمایا ہے کہ ظاہر پہ اتنی محنت کی جائے جتنی سنت ہے، اس سے زیادہ نہیں، اس کو سنت پہ لایا جائے، یہی کافی ہے۔ یعنی ان سے سنت اعمال کروائے جائیں۔ باطن پہ تو بڑی محنت ہے، کیونکہ معرفت کی کوئی حد نہیں ہے، اس لئے باطن پر بہت محنت کریں، لیکن ظاہر میں آپ سنت تک رہیں، اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے فرمایا کہ لوگوں نے اس سے یہ سمجھا کہ شاید ظاہر پر محنت ہے ہی نہیں۔ ایک اور بات بھی حضرت نے فرمائی ہے۔ ان شاء اللہ، حضرت کی برکت سے بہت ساری چیزیں آسان ہو جائیں گی۔ حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ متقدمین، جن میں صحابہ بھی شامل ہیں، ان کا لطیفۂ جوارح زیادہ فعال تھا، اور وہ ظاہر کے اعمال زیادہ کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ظاہر کے اعمال اگر صحیح طریقے سے کئے جائیں، تو باطن اس کے ساتھ خود ہی آ جاتا ہے۔ مثلاً: اگر آپ نماز صحیح پڑھ لیں تو: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ’’بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘۔
پس نماز کے اندر ذکر بھی ہے، نماز کے اندر سجدہ بھی ہے، نماز کے اندر رکوع بھی ہے، نماز کے اندر قرات بھی ہے، نماز کے اندر نیت بھی ہے۔ اگر یہ ساری چیزیں صحیح ہو جائیں، تو آپ کا مقام کہاں پہنچے گا۔ بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ باطن کی درستگی کے بعد ہمارا ظاہر ایسا ہو جاتا ہے، جیسا پہلے والوں کا ظاہر تھا، اس کے بقدر کچھ نہ کچھ بن جاتا ہے۔ لہذا اگر پہلے کسی کا ظاہر بنا ہوا تھا، تو ان کو کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کا ظاہر بنا ہوا تھا۔ پس ان کے ظاہر کے بنے ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ وہ تمام چیزیں خود بخود شامل تھیں۔ جیسے: ﴿كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرہ: 183)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو‘‘۔
روزہ ایک ظاہر چیز ہے، لیکن جب صحیح طرح روزہ رکھتے ہیں، تو آپ کو تقویٰ حاصل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ باطن کی محنت اور تقویٰ دل کا فعل ہے، لہٰذا اگر تقویٰ آپ کو روزہ سے حاصل ہو جاتا ہے تو اور آپ کو کیا چاہئے۔ اس وجہ سے دو گروہ بن گئے ہیں: ایک گروہ وہ ہے جو ان متقدمین کے مقامات کو اپنے اوپر منطبق سمجھ کر ظاہر کو کافی سمجھتے ہیں اور باطن کی طرف نہیں دیکھتے۔ وہ بھی غلطی پر ہیں، کیونکہ ان کا باطن ان کے باطن کی طرح نہیں ہے۔ ان کا ظاہر ان کے ظاہر کی طرح نہیں ہے، لہذا خسارے میں چلے جاتے ہیں، نقصان میں چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ، جو باطن کے دلائل سے متاثر ہو کر ظاہر کو بالکل بھول جاتے ہیں، گویا کہ اپنی اصل کو بھول گئے، لہذا وہ بھی خسارے میں ہیں۔ یہ بنیادی باتیں ہیں، اللّٰہ تعالیٰ ان حضرات کو بلند درجات نصیب فرمائے۔ ان حضرات نے یہ ساری چیزیں بیان فرمائی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم ان کو پڑھتے نہیں ہیں۔ آج کل پوری دنیا میں کتنے لوگ ہیں، جو شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتابیں پڑھتے ہیں؟ جن کتابوں میں ساری چیزیں موجود ہیں۔ اب کتابوں میں تو آ گئیں، لیکن کوئی اس کو پڑھے گا تو فائدہ اٹھائے گا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے مکتوب شریف میں حقیقتِ جذب و سلوک میں ایک بہت بڑی غلطی سے سب کو بچایا ہے۔ وہ غلطی یہ ہے کہ جب انسان حالتِ جذب کو حاصل کر لے، یعنی دل کو جذب حاصل ہو جائے اور آگے جو اسے کام کرنا ہے یعنی سلوک کو طے کرنا ہے، جیسے نقشبندیہ حضرات کا طریقہ ہے کہ پہلے جذب ہے پھر سلوک ہے، یہ مجذوب سالک ہوتے ہیں۔ دوسرے حضرات سالک مجذوب ہوتے ہیں۔ تو جو سلوک طے کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے اللّٰہ پاک ان کو جذب نصیب فرما دیتے ہیں، لہٰذا ان کا کام تو پورا ہو گیا۔ لیکن جو مجذوب بن گئے اور آگے سلوک طے نہیں کیا اور اسی پہ ہی اکتفا کر گئے۔ ان کے بارے میں حضرت نے فرمایا یہ مجذوب سالک نہیں بنے، مجذوب متمکن بن گئے۔ مجذوب متمکن ہونے کی وجہ سے نہ خود پہنچے، نہ دوسروں کو پہنچا سکتے ہیں۔ غلطی میں پڑ گئے، نقصان میں پڑ گئے۔ حالانکہ طریقہ تو صحیح تھا۔ مثلاً: اگر آپ لاہور جا رہے ہوں اور گوجر خان کی طرف جا رہے ہوں، تو میں آپ کو نہیں روکوں گا کیونکہ آپ بالکل صحیح جا رہے ہیں، لیکن اگر گوجر خان پر آپ رک جائیں اور کہیں کہ لاہور پہنچ گیا ہوں، تو یہی کہا جائے گا کہ خدا کے بندے! کیا کر رہے ہو؟ ابھی تو کافی راستہ باقی ہے، ابھی اور آگے بڑھو، ابھی لاہور نہیں پہنچے۔ چنانچہ اگر کسی کو گوجر خان لاہور جیسا نظر آ جائے، تو وہ بیچارہ مارا گیا۔ حضرت نے ابتدا میں باقاعدہ اس کی مثال دی ہے کہ کوئی شخص خانہ کعبہ کی طرف جا رہا ہے اور راستے میں کوئی مکان خانہ کعبہ جیسا دیکھ کر سمجھے کہ یہ خانہ کعبہ ہے اور ادھر ہی بیٹھ جائے، تو وہ بیچارہ محروم ہو گیا۔ کچھ بھی نہیں حاصل نہیں کیا۔ ایک دوسرا شخص ہے، جو خانہ کعبہ نہیں گیا، نہ روانہ ہوا، لیکن جانتا ہے کہ خانہ کعبہ کدھر ہے۔ ایک تیسرا آدمی ہے جو چل پڑا، وہ ابھی خانہ کعبہ نہیں پہنچا، لیکن اپنی اس منزل کو خانہ کعبہ نہیں کہا، یہ ابھی راستے میں ہے، لیکن محفوظ ہے، کبھی پہنچ جائے گا، ان شاء اللّٰہ۔ اور ایک چوتھا آدمی ہے جو خانہ کعبہ پہنچ گیا۔ اصل میں یہی واصل ہے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ مجذوب سالک تب کامل ہوتا ہے، جب وہ سلوک کا حصہ بھی طے کر لے۔ سلوک طے کرنے کے لئے کچھ مقامات ہیں۔ حضرت نے دس مقامات بیان فرمائے ہیں۔ ان دس مقامات کو باقاعدہ تفصیل کے ساتھ طے کرنا ہوتا ہے۔ اگر آج کل دیکھا جائے، تو نقشبندی سلسلہ کے سالکین ان چیزوں سے بالکل نا واقف ہیں۔ بعضوں سے آپ پوچھ لیں، تو انہیں ان کا نام بھی معلوم نہیں ہو گا کہ کیا طے کرنا ہے، بالکل معلوم بھی نہیں ہو گا۔ اور تو چھوڑو، مراقبات میں بھی صرف الفاظ پہ زور ہے، الفاظ پہ اتنا زور ہے کہ فارسی کے الفاظ بھی تبدیل نہیں کر رہے۔ مثلاً: ’’فیض آمدن‘‘ کو اسی طرح دہراتے ہیں۔ خدا کے بندو! اس طرح دہرانے سے مراقبہ تھوڑا ہو گیا۔ یہ تو حالت ہے، الفاظ اس حالت کو بیان کر رہے ہیں۔ الفاظ سے حالت نہیں ہے، حالت کو بیان کرنے کے لئے الفاظ ہیں۔ اب آج کل مسئلہ یہ ہے کہ دھڑا دھڑ نظام چل رہے ہیں۔ کمال کی بات ہے کہ اتنی بات بھی نہیں کر رہے کہ ایک جگہ پر دو راہا ہے، یعنی اس طرف بھی جا سکتے ہیں، اُس طرف بھی جا سکتے ہیں، اس کو بھی اس کے ساتھ شامل کیا گیا کہ دونوں کر لو۔ حالانکہ اگر راستے میں دو راہا آ جائے کہ ایک طرف موٹر وے ہے، دوسری طرف جی ٹی روڈ ہے، تو کیا کوئی اس طرح کرتا ہے کہ موٹر وے سے جا کے پھر واپس آ کر دوسری طرف جائے؟ لیکن دل کے متعلق تو اس طرح کرتے ہیں کہ دونوں کو جمع کرتے ہیں اور نفس کی اصلاح کو بالکل بھول گئے۔ اللّٰہ بچائے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اس کا رونا رو چکے ہیں۔ اگر نہیں معلوم تو حضرت کا مکتوب نمبر 287 غور سے پڑھو، اس میں پوری تفصیل موجود ہے۔ اور یہ اپنے دور کی بات فرما رہے ہیں اور اپنے بھائی کو لکھ رہے ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ لوگ جذب و سلوک کے اندر غلطیاں کر رہے ہیں، میرا دل چاہ رہا ہے کہ ان کے بارے میں کچھ بات کروں، اس لئے آپ کو لکھ رہا ہوں۔ تقریباً 29 صفحات کا مکتوب ہے۔ بہر حال! بات لمبی ہو گئی۔ مقصود یہ تھا کہ لوگ مقصود کو نہیں جانتے، وہ بیچارے رہ جاتے ہیں۔
متن:
وہ جانتے ہیں کہ ان خطابات کا مقصود جان کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور روح کے بغیر آدمی کی کچھ حقیقت نہیں۔ مثلًا اگر کہا جائے کہ فلاں شخص عالم ہے، جاہل، قادر، عاجز، سخی، کنجوس، مؤمن یا کافر ہے تو یہ تمام اوصاف جان یعنی روح کے ہیں اور اُس کی تعریف ہے، اور یہ بات کسی طرح بھی موزوں نہیں کہ قالب اور جسم کو ان صفتوں سے یاد کیا جائے لیکن مجازی طریقے سے قالب پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے،
تشریح:
مثلاً: میں کہوں گا کہ فلاں عالم ہے۔ تو یہ میں اس کے ظاہر کی طرف اشارہ کروں گا، حالانکہ اصل میں تو روح کی حامل ہے۔
متن:
لیکن لفظ انسان اور آدمی وغیرہ قالب کے لئے مجاز کے طریقے سے بھی بولے جاتے ہیں جیسا کہ "زَیْدٌ فَقِیْرٌ" یا "طَوِیْلٌ" یا "سَمِیْعٌ" یا بہرا؛ یہ سب قالب پر اطلاق کرتے ہیں، لیکن کافری، مسلمانی، سخاوت، بخل، علم اور جہالت؛ یہ سب جان و روح کے ساتھ مخصوص ہیں،
تشریح:
بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ موت کے اِس طرف جو چیزیں ہیں، وہ قالب کی ہیں اور موت سے اُس طرف جو چیزیں ہیں، وہ سب روح کی ہیں۔ کیونکہ ادھر روح نے جانا ہے، ادھر جسم نے تو نہیں جانا ہے۔ اس لئے روح اپنی ساری چیزیں لے جائے گی۔
متن:
قالب کا ان میں کوئی حصہ نہیں، لیکن کوتاہی، طوالت، اندھا پن، بہرا پن، گونگا پن؛ یہ سب قالب کے لئے ہیں اور روح کا ان میں کوئی حصہ نہیں۔ پس قالب پر ان کا اطلاق مجازًا اور جان پر ان کا اطلاق حقیقی ہوتا ہے۔ عین القضاۃ ہمدانی قدّس سرہٗ العزیز کے رسالے میں آتا ہے کہ روحیں چار ہیں: ایک ناصیہ، دوسری متحرکہ، تیسری ناطقہ اور چوتھی قدسی ہے۔ ناصیہ انسان ہے اور دیگر تمام حیوانات و نباتات میں خواہ وہ رحمِ مادر میں ہوں یا باہر مشترک ہیں، پرورش اور نشوونما میں یہ روح مخلوق ہے ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا…﴾ (السجدۃ: 4) ”اس نے آسمانوں اور زمینوں کو بنایا ہے اور جو کچھ اِن کے درمیان ہے“ روحِ متحرکہ انسان اور دیگر حیوانات میں مشترک ہے، نباتات اس میں شامل نہیں، اور اس کو روح حیوانی کہتے ہیں کیونکہ تمام حیوانات کی حرکات اس روح کی وجہ سے ہیں، یہ روح بھی مخلوق ہے اور یہ دونوں روحیں عناصر کی تاثیر سے وجود پذیر ہیں۔ اور روحِ ناطقہ کا تعلق خاص انسان کے ساتھ ہے،
تشریح:
جس کو حضرت نے ’’نفسِ ناطقہ‘‘ فرمایا ہے۔
متن:
یہ حیوانات اور نباتات میں نہیں اور اس کو روح انسانی کہتے ہیں اور یہ عالَمِ امر سے ہے، عناصر کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی۔ ﴿وَقُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) سے یہ ثابت ہے، لیکن روحِ قدسی انبیاء اور خاص اولیاء کرام کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کو سکینہ بھی کہتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿فَأَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِم...﴾ (الفتح: 18) ”ہم نے ان پر سکینہ نازل کی“ اس پر دلالت کرتا ہے۔ اور اس روح کو منفوخ بھی کہتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29) ”اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی“ اس بات پر شاہد ہے۔ اور انبیاء علیہم السلام اور خاص اولیاء کرام کی کرامات اور معجزات درجاتِ فہم معانی باطنہ و مکاشفات خرق عادات احیاء و اموات وغیرہ اسی روح کی تاثیر سے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں میں یہ روح نہیں ہوتی اور "اَلرُّوْحُ عَالِمٌ بِمَا کَانَ وَبِمَا یَکُوْنُ" ”یہ روح اُس چیز پر عالم ہوتی ہے کہ جو کچھ ہو گیا ہو یا جو کچھ ہونے والا ہے“ یہ روح قدس کی صفت ہے لیکن یہ امداد الٰہی کا فیض ہے، یعنی اللّٰہ کا نور ہے اور یہ اثرِ ذات کہلاتا ہے اور یہ مذکورہ ارواح کو مدد پہنچاتا ہے۔ انبیاء کرام اور اولیاء اللّٰہ میں خاص الخاص اولیاء جو کہ معانی کے ادراک اور حقائق کی سمجھ اور اشیاء کی معرفت رکھتے ہیں، سب اسی روح قدسی کے طفیل کرتے ہیں۔ "سرُ اللّٰہ" نام کی ایک کتاب میں روح کی معرفت تین قسم پر ہے: عام، خاص اور اخص۔ عام روح کے وجود کی تاثیر کو جانتا ہے، خاص اس کے اثر، خاصیت کو اور حرکات کا شناسا ہوتا ہے، اور اخص یا خاص الخاص روح کی ذات کا مکاشفہ دیکھتا ہے۔ اُس کی تمثیل تا جزو کو دیکھتا ہے اگر کوئی شخص روح کو دیکھے تو وہ اس کا عاشق ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ خدا کی صورت اور حسن کی ترجمان ہے اور اس کی آنکھوں میں وہ نور ہے جس کو زوال نہیں اور اس کے کان میں گوشوارۂ سبوحی ہے اور اُس کے وجود پر الوہیت کا لباس ہے، شاہدِ حق یعنی اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھنے والی ہے، جو کچھ کہ عالم الوہیت میں ہے، وہ اس کی روح میں ہویدا ہے۔ اور اس عکس کو ہر کوئی نہیں سمجھتا مگر جس کو اللّٰہ تعالیٰ سمجھانا چاہے وہ سمجھ جاتے ہیں۔
تشریح:
اگر تجلیِٔ روح ہو جائے، تو انسان کو بڑا شک پڑ سکتا ہے، اس کو وہ تجلیِٔ ذات سمجھ لیتے ہیں، کیونکہ روح کو اللّٰہ تعالیٰ نے خاص صفات سے نوازا ہے۔ تھوڑا سا نچلے level سے بات شروع ہو جائے، تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ ہندو مختلف چیزوں کو سجدہ کیوں کرتے ہیں؟ جو بھی چیز دیکھتے ہیں، اس میں اگر کوئی عجیب چیز نظر آ جائے جو تھوڑی سی مختلف ہو، تو وہ ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہے اور پھر اس کو سجدے کرتے ہیں۔ وہ تو خیر مشرک ہیں اور بہت ہی غبی ہیں، جو اس چیز کو بھی نہیں سمجھتے، لیکن جو مومن ہیں، مشرک نہیں ہیں، وہ جب مکاشفات میں چلے جائیں، تو اس وقت ان کو بڑے ہی شیخِ کامل کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کو سنبھالے۔ کیونکہ یہ عجائبات ہیں۔ جیسے: ایک شخص رشوت نہیں لیتا، آپ اس کو ہزار روپے آفر کرتے ہیں، نہیں لیتا۔ پانچ ہزار آفر کرتے ہیں، نہیں لیتا۔ پچاس ہزار آفر کرتے ہیں، نہیں لیتا۔ لاکھ آفر کرتے ہیں، نہیں لیتا۔ بڑھتے بڑھتے پانچ لاکھ ہو جاتا ہے، یہاں سے وہ ہلنا شروع ہو جاتا ہے۔ کہتا ہے کہ اچھا اچھا، بعد میں بات کریں گے۔ گویا جب آپ اس کی range میں آ گئے، تو وہ ہلنا شروع ہو جائے گا، اور ایسی حالت میں وہ رشوت میں جا سکتا ہے۔ مگر ہندو لوگ تو ابتدا ہی سے ایسے ہیں، وہ تو غبی ہیں، لیکن جو حضرات مکاشفات میں چلے جاتے ہیں اور ساتھ معرفت نہ ہو، تو وہ پھنس جاتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی اس پہ گفتگو فرمائی ہے۔ مکاشفات اور معرفت دو چیزیں ہیں۔ مکاشفات غلط بھی نہیں ہیں، لیکن سارے صحیح بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ مکاشفہ میں آپ کو کوئی چیز نظر آتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہم اس کو سمجھ بھی رہے ہوں۔ مثلاً: آپ چاند کو دیکھنے کی کوشش کر رہے ہوں اور دور کسی درخت پہ سورج کی روشنی اس طرف سے پڑ رہی ہے اور اس پر کوئی ٹیڑھی سی ٹہنی ہے، جو آپ کو چاند جیسی دکھائی دے اور آپ کہیں کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے۔ مکاشفہ بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ یعنی آپ نے دیکھنے میں غلطی نہیں کی، بلکہ سمجھنے میں غلطی کی۔ معرفت کا تعلق سمجھنے سے ہے۔ لہذا اگر معرفت نہ ہو، تو مکاشفہ میں غلطی ہو سکتی ہے۔ ہمارے بعض ساتھیوں کو ہوئی تھی، اور بڑی سخت ہوئی تھی، اللّٰہ پاک نے ان کو بچا لیا۔ لہذا یہ جو کشفوں کے پیچھے لوگ پڑتے ہیں، یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ کشف مقصود نہیں ہے۔ معرفت حاصل کرو۔ کیونکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کو تھوڑی سی یکسوئی ہو جائے، تو ان کو کشف شروع ہو جاتا ہے۔ مجنونوں کو کشف ہوتا ہے، پاگلوں کو کشف ہوتا ہے۔ لہٰذا کشف کوئی مستند چیز نہیں ہے۔ ہاں جن کو معرفت بھی حاصل ہو، کشف بھی ہو، تو سبحان اللّٰہ!۔ وہ چیزوں کو دیکھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں، لہذا ان کے پاس جو علم آتا ہے، وہ دوسروں کے پاس نہیں ہوتا۔ جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ، شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اور ان جیسے اکابر کے پاس کشف بھی تھا اور معرفت بھی تھی، لہذا ان کو دھوکہ نہیں ہوا۔ لیکن اگر کشف تو ہو، لیکن معرفت نہ ہو تو نقصان ہو جاتا ہے۔ یہاں یہی بات فرمائی ہے کہ انسان روح کو تجلیِٔ ذات سمجھ سکتا ہے۔
متن:
عام لوگوں میں یہ روح نہیں ہوتی اور "اَلرُّوْحُ عَالِمٌ بِمَا کَانَ وَبِمَا یَکُوْنُ" ”یہ روح اُس چیز پر عالم ہوتی ہے کہ جو کچھ ہو گیا ہو یا جو کچھ ہونے والا ہے“ یہ روح قدس کی صفت ہے لیکن یہ امداد الٰہی کا فیض ہے، یعنی اللّٰہ کا نور ہے اور یہ اثرِ ذات کہلاتا ہے اور یہ مذکورہ ارواح کو مدد پہنچاتا ہے۔ انبیاء کرام اور اولیاء اللّٰہ میں خاص الخاص اولیاء جو کہ معانی کے ادراک اور حقائق کی سمجھ اور اشیاء کی معرفت رکھتے ہیں، سب اسی روح قدسی کے طفیل کرتے ہیں۔ "سرُ اللّٰہ" نام کی ایک کتاب میں روح کی معرفت تین قسم پر ہے: عام، خاص اور اخص۔ عام روح کے وجود کی تاثیر کو جانتا ہے، خاص اس کے اثر، خاصیت کو اور حرکات کا شناسا ہوتا ہے، اور اخص یا خاص الخاص روح کی ذات کا مکاشفہ دیکھتا ہے۔ اُس کی تمثیل تا جزو کو دیکھتا ہے اگر کوئی شخص روح کو دیکھے تو وہ اس کا عاشق ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ خدا کی صورت اور حسن کی ترجمان ہے اور اس کی آنکھوں میں وہ نور ہے جس کو زوال نہیں اور اس کے کان میں گوشوارۂ سبوحی ہے اور اُس کے وجود پر الوہیت کا لباس ہے، شاہدِ حق یعنی اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھنے والی ہے، جو کچھ کہ عالم الوہیت میں ہے، وہ اس کی روح میں ہویدا ہے۔ اور اس عکس کو ہر کوئی نہیں سمجھتا مگر جس کو اللّٰہ تعالیٰ سمجھانا چاہے وہ سمجھ جاتے ہیں۔
تشریح:
حجرِ بحت روح میں ایک آئینہ ہوتا ہے، جس میں ذاتِ بحت کی تجلی آتی ہے۔ پس جو دیکھتا ہے، وہ اصل میں اس کو دیکھتا ہے اور اس کو ذاتِ بحت سمجھتا ہے۔ اسی کو تصورِ ذاتِ بحت کہتے ہیں۔ جب کہ اللّٰہ کو تو کوئی نہیں دیکھ سکتا، کیونکہ ان آنکھوں سے انسان اللّٰہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں! جیسا کہ آپ ﷺ نے کیفیتِ احسان کے بارے میں فرمایا: ’’أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 50) کہ جیسے تم خدا کو دیکھ رہے ہو۔ لہٰذا جیسے والی بات ہو سکتی ہے۔ لیکن دیکھنا ممکن نہیں ہے۔
یہ جو ہمارے ہاں اصلاحی ذکر کرایا جاتا ہے، یہ چاروں سلسلوں کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل لوگ سلسلوں کی تنقیص اور پتا نہیں کیا کیا کرتے ہیں، اس لئے سارے سلسلوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ