حضرت آدم علیہ السلام کی حقیقت اور اُسکے معنی کے بیان میں اور اس سلسلے میں حضرت صاحب کا علم

باب 10 ، درس 33

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کے بارے حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب یعنی حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم جاری ہے۔ حضرت فرماتے ہیں:

متن:

پس اے بھائی! عشقِ الٰہی تقسیم ہو چکا ہے، میں اس کا ایک چھوٹا سا حصہ بیان کرتا ہوں۔ عشق اہلِ جمال کے جمال کو نوازتا ہے اور عشق نے اہلِ جلال کے جلال کو نوازا، "إِذَا رَأَوُا الْجَلَالَ تَابُوْا وَإِذَا رَأَوُا الْجَمَالَ ذَابُوْا" یعنی جب جلال کو دیکھتے ہیں تو تائب ہو کر ہمہ تن مائل ہو جاتے ہیں اور جب جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں تو مشاہدۂ جمال سے پگھل جاتے ہیں۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ دو مقام جو دو تقسیموں میں بیان کئے گئے ہیں، یہ مقامات ان لوگوں کے لئے ہیں جو متوسط ہمت رکھتے ہوں۔ مگر اے میرے برادرِ عزیز! اعلیٰ ہمت رکھنے والوں کے لئے دین اور مذہب عشق ہوتا ہے، نہ تو وہ جلال کے پابند ہوتے ہیں اور نہ جمال کے، یعنی جو لوگ اُس کے عاشق ہوتے ہیں یا اُس کے معشوق ہوتے ہیں، اُن کے لئے اس کی بقا اور دیدار یا اُس کے لئے اُن کی بقا کے علاوہ کوئی دوسرا دین، مذہب اور ملت نہیں ہوتا۔ پس ایسی حالت میں جو کفر حقیقی ہوتا ہے، وہی ایمان حقیقی ہوتا ہے۔ اے بھائی! اللّٰہ تعالیٰ کا طریقہ زمینوں اور آسمانوں میں نہیں ہے، بلکہ عرش اور جنت میں بھی نہیں، بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کا طریقہ اور راستہ اُس میں ہے کہ فرماتے ہیں: ﴿وَفِيْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 21) ”اور خود تمہارے اندر (نشانیاں ہیں) سو کیا تم کو سوجھتا نہیں؟“ یعنی عرش و فرش سب کچھ تم سے پیدا کیا گیا ہے، کیونکہ یہ سب کچھ تمہارے ظاہر و باطن سے ترکیب پا گیا ہے۔ پس اے بھائی! جب تم حق کو دیکھو گے تو تم جان جاؤ گے کہ تم کتنا بڑا کارخانہ اور نگار خانہ ہو۔ بیت۔

؎ گنجے ست درین خانہ کہ در کون نگنجد

ایں خانہ و ایں خواجہ و این و آں نہاں مست

’’اس گھر میں ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جو کائنات میں نہیں سما سکتا۔ یہ گھر، یہ مالک اور یہ سب کچھ اس میں پوشیدہ ہے‘‘۔ ؎

فی الجملہ ہر آنکس کہ دریں خانہ رہے یافت

سلطان زمین است و سلیمان جہاں مست

’’حاصلِ کلام یہ کہ جو کوئی اس گھر میں راہ پائے گا تو وہ زمین کا بادشاہ اور جہاں بھر کا سلیمان ہے‘‘۔

اور ہمارے حضرت صاحب طریقِ عشق اور اسرار و رموزِ انسانی کے بارے میں مکمل معلومات اور علم رکھتے تھے۔ سمجھنے والے اس بات کو سمجھتے ہیں: "اَلْعِشْقُ ھُوَ الطَّرِیْقُ وَالرُّؤْیَۃُ ھُوَ الْجَنَّۃُ وَالْفِرَاقُ ھُوَ النَّارُ وَالْعَذَابُ" کہ راستہ اور طریقہ تو بس عشق کا طریقہ ہے، رؤیت اور دیدار جنت ہے اور فراق و جدائی کو دوزخ اور عذاب سے تعبیر کرتے ہیں۔ بیت

؎ ہر آں نقشے کہ بر صحرا نہادم

تو زیبا بین کہ من زیبا نہادم

’’جو نقش و نگار میں نے صحرا میں بنا رکھا، تو اس کو اچھا دیکھ کہ میں نے اُسے خوبصورت بنایا ہے‘‘۔

حدیث شریف میں اللّٰہ تعالیٰ سے حکایتًا بیان کیا گیا ہے کہ "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" (الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) یعنی میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے ارادہ کر کے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔ یعنی حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے غیب الغیب کے پردوں میں پردہ نشین اور مستور تھے، اور اپنے جمال سے جلال کا پردہ ابھی تک نہیں ہٹایا تھا۔ اپنے نورِ محبت کا نقشِ جمیل جو کہ نورِ محمدی سے تعبیر ہے، اس نقش کو اپنے نورِ احدیت سے وجود میں لائے۔ چنانچہ رسولِ اکرم ﷺ نے کمال فصاحت و بلاغت سے خاص و عام کے سامنے اپنی اس خلعت خاص کا ذکر اِن الفاظ میں فرمایا کہ "أَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ مِنْ فَیْضِ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 56/9، دار الفکر، بیروت) یعنی میں اللّٰہ تعالیٰ کے نور سے پیدا کیا گیا ہوں اور مؤمن میرے نور کے فیض سے تخلیق کئے گئے ہیں۔ دوسری بات اللّٰہ تعالیٰ قدیم کے دربار میں اپنی قدامت کا ذکرِ خیر ان الفاظ میں ظاہر فرماتے ہیں کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دار الفکر، بیروت) یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔ اے میرے پیارے بھائی! شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ابیات کہے ہیں، ابیات:

؎ خواجہ را گر شرح گویم بیش بود

در ہمہ چیزاں ہمہ در پیش بود

ہر دو گیتی از وجودش نام یافت

عرش نیز از نام او آرام یافت

ہم چو شبنم آمد از بحر وجود

خلق عالم از طفیلش در وجود

نور او مقصود موجودات بود

حق چو دید آن نور مطلق در وجود

آفرید از بہر او بحر وجود

بر خویش آں پاک جان را آفرید

بر او خلق جہاں را آفرید

بعد بر آں نور عالی زد علم

گشتِ عرش و کرسی و لوح و قلم

یک علم از نور پاکش عالم ست

یک علم در نیستی عالم ست

تشریح:

اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اسے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اصل میں اگر یہ باتیں سمجھ میں آ بھی رہی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا کہ سمجھ میں نہیں آ رہیں۔ کیونکہ ہر چیز کے پیچھے ایک جہاں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک آدمی کسی بند جگہ میں ہو تو وہاں سے پورا معلوم نہیں ہوتا کہ باہر کیا ہے، مگر چھیدوں سے تھوڑی تھوڑی روشنی اندر آ رہی ہوتی ہے جس سے وہ سمجھتا ہے کہ باہر دن ہے۔ اس طرح ہمیں بھی تھوڑا تھوڑا اندازہ ہو جاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہمیں بہت کچھ پتا چل گیا ہے۔ حالانکہ ابھی تو بہت کچھ مخفی ہوتا ہے۔

بہرحال! یہاں فرمایا کہ عشق دو قسموں پر ہے، اور دو طرح اس کا ظہور ہے: جلال اور جمال۔ جلال بھی اللّٰہ تعالیٰ کی صفت ہے اور جمال بھی اللّٰہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللّٰہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:

عدل کریں تے تھر تھر کنبن اُچیاں شاناں والے

فضل کریں تاں بخشے جاون میں جئے منہ کالے

یہ دو باتیں تو ہیں۔ جلال اتنا زیادہ ہے کہ اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا اور جمال اتنا زیادہ ہے کہ اس کو کوئی چھوڑ نہیں سکتا۔ جلال اس کی عظمت کی وجہ سے ہے کہ اس کے عظمت کے سامنے کوئی نہیں آ سکتا۔ اور جمال اس کی محبوبیت کے حوالے سے ہے کہ اس کی طرح کوئی اور محبوب نہیں ہو سکتا۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہم لوگ براہِ راست اللّٰہ جل شانہ کو نہیں دیکھ سکتے، اور اللّٰہ تعالیٰ کا جلال بھی صحیح معنوں میں نہیں دیکھ سکتے، ورنہ ہم زندہ ہی نہ رہیں۔ اللّٰہ جل شانہ نے قرآن میں بھی اس کا اتنا زبردست انتظام کیا ہے کہ جب بھی کوئی ایسی آیت آتی ہے، جس میں جہنم کا تذکرہ ہو تو ساتھ ہی جنت کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔ تو یہ دو شانیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اور جب بھی جنت کا تذکرہ آتا ہے تو اس کے ساتھ ہی جہنم کا تذکرہ بھی آ جاتا ہے۔ جب اچھے لوگوں کا تذکرہ آتا ہے تو ساتھ ہی دوسرے لوگوں کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ یہ جلال اور جمال والا سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ جلال کا بھی پردہ ہے، ہم اسے نہیں جان سکتے، اللّٰہ پاک نے اس کو چھپایا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ اس کو برداشت نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف جمال کو بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا، کیونکہ اللّٰہ جل شانہ کی مخلوق کو کوئی برداشت نہیں کر سکتا تو اللّٰہ تعالیٰ کو کیا کرے گا۔ کیا کوئی سورج کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے؟ تو پھر کہاں اللّٰہ تعالیٰ کا جمال کہ اس کو کوئی دیکھ سکے، یہ نا ممکن ہے۔ اسی طرح اللّٰہ جل شانہ نے ان چیزوں کے اندر بھی دونوں باتیں جمع کی ہوئی ہیں، جس کا جس رخ کی طرف رجحان ہو جائے۔

آگے فرماتے ہیں کہ اس (عشق نے اہلِ جلال کے جلال کو نوازا) یعنی اہلِ جلال نے اللّٰہ تعالیٰ کے جلال سے حصہ لیا، یعنی جلال والے حضرات میں جلال ادھر سے آتا ہے کہ چونکہ اللّٰہ جلال والے ہیں، لہٰذا صاحبِ جلال اللّٰہ والوں میں بھی جلال آ جاتا ہے، لہذا ان کا رعب ایسا ہوتا ہے کہ آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ جیسے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا رعب ایک مہینہ کی منزل تک پہنچتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے دور میں کسی ملک کے بادشاہ کی طرف سے کوئی قاصد آیا، اس نے آتے ہی اپنے علاقہ کے حساب سے پوچھا کہ بادشاہ کا محل کدھر ہے؟ اس کو بتایا گیا کہ یہاں امیر المؤمنین محل میں نہیں رہتے۔ کہا: کہاں رہتے ہیں؟ بتایا گیا کہ جائیں، دیکھیں، کسی درخت کے نیچے شاید آرام کر رہے ہوں۔ کیونکہ وہ چکر لگاتے تھے۔ جا کے دیکھا کہ واقعی ایک درخت کے سایہ کے نیچے پتھر سر کے نیچے لئے آرام سے لیٹے ہوئے ہیں۔ وہ حیران ہو گیا کہ یہ امیر المؤمنین بغیر پہرہ وغیرہ کے کیسے ٹھہرے ہوئے ہیں! جیسے ہی تھوڑا سا قریب ہوا تو تھرتھر کانپنے لگا۔ حالانکہ نہ کوئی پہرہ دار تھا، نہ کوئی اور اس طرح کی بات تھی۔ اس نے کہا کہ واقعی ان کا معاملہ بالکل ہی الگ ہے۔ چنانچہ جلال والے حضرات کو جلال سے نوازا گیا اور جمال والے حضرات کو جمال سے نوازا گیا۔ جیسے: یوسف علیہ السلام ہیں اور آپ ﷺ ہیں۔ اس طرح سے اللّٰہ تعالیٰ نے جن کو جمال والا پیدا کیا ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ان پہ جمال کا پردہ ڈالا ہے، یعنی جمال کی تجلی ڈالی ہے۔ بہرحال! جلال والوں کو جلال سے نوازا گیا اور جمال والوں کو جمال سے نوازا گیا۔

متن:

"إِذَا رَأَوُا الْجَلَالَ تَابُوْا وَإِذَا رَأَوُا الْجَمَالَ ذَابُوْا" یعنی جب جلال کو دیکھتے ہیں تو تائب ہو کر ہمہ تن مائل ہو جاتے ہیں اور جب جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں تو مشاہدۂ جمال سے پگھل جاتے ہیں۔

تشریح:

اگر دیکھا جائے تو ہمارے ذکرِ جہری میں دو طرح ذکر ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ کبھی بڑا میٹھا ہوتا ہے کہ آدمی کئے ہی جائے اور کبھی بڑا زبردست ہوتا ہے کہ دلوں کو ہلانے والا ہوتا ہے۔ چونکہ ذکر تو اللّٰہ کا ہے، لہذا اس میں کبھی جلال کا ظہور ہوتا ہے اور کبھی جمال کا ظہور ہوتا ہے۔ دونوں چیزیں اس میں چلتی ہیں۔

متن:

شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ دو مقام جو دو تقسیموں میں بیان کئے گئے ہیں، یہ مقامات ان لوگوں کے لئے ہیں جو متوسط ہمت رکھتے ہوں۔

تشریح:

ورنہ حقیقت میں جو اہل لوگ ہیں، جو ان سے آگے کے لوگ ہیں یعنی جو Third category کے لوگ ہیں، ان کا معاملہ اور ہے، ان کے لئے سب کچھ اللّٰہ ہی ہے، باقی چیزوں سے وہ متاثر نہیں ہوتے، باقی چیزوں پہ ان کی نظر ہی نہیں ہوتی۔

متن:

مگر اے میرے برادرِ عزیز! اعلیٰ ہمت رکھنے والوں کے لئے دین اور مذہب عشق ہوتا ہے، نہ تو وہ جلال کے پابند ہوتے ہیں اور نہ جمال کے، یعنی جو لوگ اُس کے عاشق ہوتے ہیں یا اُس کے معشوق ہوتے ہیں، اُن کے لئے اس کی بقا اور دیدار یا اُس کے لئے اُن کی بقا کے علاوہ کوئی دوسرا دین، مذہب اور ملت نہیں ہوتا۔

تشریح:

اصل میں لوگوں کو غلط فہمی اس لئے ہو جاتی ہے، جیسے حضرت عبد القادر جیلانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا تھا کہ بعض حضرات کا ایک مقام آتا ہے کہ ان کے سامنے یہ کائنات دستر خوان کی طرح پھیلا دی جاتی ہے اور وہ جو چاہیں، ایک جگہ سے اٹھا کے دوسری جگہ رکھ دیں، گویا کہ ان کو تصرف کی اجازت ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ اتنے با ادب ہوتے ہیں کہ وہ اللّٰہ جل شانہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ اللّٰہ کا حکم کیا ہے، اس کے مطابق وہ کرتے ہیں، وہ اپنی طرف سے بات کرتے ہی نہیں۔

میں ذرا سخت لفظ کہہ رہا ہوں لیکن بہرحال مجبوری ہے، کیا کریں، بغیر اس کے بات سمجھ نہیں آئے گی۔ ہم perverted لوگ ہیں، دنیا کی محبت میں perverted ہیں اور دنیا کی چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ہمیں اونچی والی سوچ سمجھ ہی نہیں آ سکتی۔ یہ ہماری range سے باہر ہے۔ مثلاً: یہاں اگر کسی کو اختیار مل جائے تو وہ اختیار کیسے استعمال کرتا ہے؟ اللّٰہ کی مرضی کے لئے استعمال کرتا ہے؟ اور تو چھوڑیں، حکومت تو بڑی دور کی بات ہے، حکومت تو کسی کسی کو ملتی ہے۔ ہر مسجد میں دو چیزیں ہوتی ہیں، کمیٹی ہوتی ہے، امام ہوتا ہے۔ اگر امام مضبوط ہے اور کمیٹی کمزور ہے تو ظالم امام ہوتا ہے، اور اگر کمیٹی مضبوط ہے اور امام کمزور ہے تو ظالم کمیٹی ہوتی ہے۔ انصاف پہ کوئی نہیں چلتا، الا ما شاء اللّٰہ۔ یہ میں نے آپ کو بڑی مقدس جگہ کی بات بتائی ہے۔ اور یہ چیز Under observation ہے۔ جو اختیار جس کو مل جائے، اس کے بعد کا ذرا سوچ لیں کہ کیا ہو گا۔ سکولوں میں کیا ہو گا، کالجوں میں کیا ہو گا، دفتروں میں کیا ہو گا۔ وہ تو پھر ہم خود ہی طے کر لیں کہ کیا کیا ہو گا۔ گویا ہم ظلم کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر ہمیں اختیار ملتا ہے تو وہ اختیار ہم اپنے نفس کے لئے exercise کرتے ہیں، کیونکہ ہمارا حاکم نفس ہے۔ لہٰذا اگر ہم کسی چیز پر حاکم ہو جائیں تو نفس ہمارے اوپر حاکم، ہم لوگوں پہ حاکم۔ ہم یہی چکر چلاتے ہیں اور اس کو اپنے نفس کی حکمرانی میں لے آتے ہیں، جو ہمارا نفس چاہتا ہے، اس کے مطابق کرتے ہیں۔ ایسی ایسی فضول باتیں مشہور ہیں۔ اور وہ غلط نہیں ہیں، مثلاً: کسی آدمی کو اس لئے مار دیا کہ اس نے موچھیں بڑی کیوں رکھی ہیں، اس نے مجھے سلام کیوں نہیں کیا۔ بس ایسی ایسی باتیں ہیں۔ خدا کے بندے! تم خدا نہیں ہو کہ تمہارے سامنے کوئی دم نہ مارے۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جن کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا ہے، تمہیں کیا اختیار ہے کہ تم ان کو غلام بناؤ۔ جہاں بھی کسی کو اختیار ملتا ہے، وہ باقی لوگوں کو غلام سمجھتا ہے، غلاموں کی طرح سلوک کرتا ہے۔ یہ خطر ناک بات ہے۔ بہرحال! شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا اختیار تو اتنا مل جاتا ہے کہ جو کرنا چاہے وہ کرے، لیکن اس کے ساتھ اس کو اللّٰہ کا تعلق اتنا حاصل ہو جاتا ہے (تبھی تو اختیار ملتا ہے) کہ وہ اللّٰہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرتا، لہذا نتیجہ وہی رہتا ہے، نتیجے پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی وجہ سے لوگوں کو پتا نہیں چلتا، کیونکہ لوگوں کے سامنے نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ بات میں نے آپ کو اس لئے بتائی ہے کہ جن لوگوں کے لئے سب کچھ اللّٰہ ہوتے ہیں، باقی چیزیں کچھ نہیں ہوتی ہیں، وہ اللّٰہ کے لئے خوش ہوتے ہیں، اللّٰہ کے لئے خفا ہوتے ہیں، اللّٰہ کے لئے کرتے ہیں، اللّٰہ کے لئے چھوڑتے ہیں۔ لہٰذا بظاہر تو شریعت ہی نظر آئے گی، اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جیسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ وہ چیزوں کو ادھر سے اٹھا کے ادھر رکھ سکتا ہے۔ یہ تکوین کی بات ہے۔ اور یہ تشریع کی بات ہے۔ دونوں جگہوں پہ بات ایک ہی چلتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اللّٰہ کے ہو جاتے ہیں تو ان کا ہر کام اللّٰہ کا ہو جاتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان کی چاہت اللّٰہ کی چاہت ہو جاتی ہے۔ حدیث شریف میں اس قسم کی بات آئی ہے، افسوس یہ ہے کہ ہم لوگ غور نہیں کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعے سے ترقی کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ اللّٰہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے۔ میں اس کا پیر بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔ میں اس کی نظر بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے۔ یعنی اس میں دو طرح کی بات ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: یہ مفعول کی طرح بھی ہو جاتا ہے، فاعل کی طرح بھی ہو جاتا ہے۔ فاعل کی طرح اس طرح بن جاتا ہے کہ لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو یہ چاہتا ہے، اللّٰہ وہی کرتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ جو اللّٰہ چاہتا ہے، وہ یہ کرتا ہے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے جس کو دیکھنا چاہتا ہے، وہ اسی کو دیکھتا ہے۔ یعنی جس کی طرف اللّٰہ دیکھنا چاہتا ہے، اس کی طرف وہ مائل ہے، گویا اس کی ہر چیز اللّٰہ کے تابع ہو جاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ ان کی ہر چیز اللّٰہ کے لئے بن جاتی ہے، لہذا چیزوں میں فرق نہیں آتا، چیزیں وہی ہوتی ہیں، البتہ دل کا معاملہ ہوتا ہے اور دل اللّٰہ کے ساتھ ہے۔ پتا اس وقت چلتا ہے کہ کون سی کیٹیگری میں ہے، اور وہ اللّٰہ کو پتا ہوتا ہے۔ عام لوگوں کو تو بالکل عام طریقے سے نظر آئے گا، عام لوگوں کو فرق نظر نہیں آئے گا۔ لیکن یہ جو اس کا قلبی تعلق ہے کہ وہ ساری چیزوں کو اللّٰہ کے لئے چھوڑ سکتا ہے اور کسی بھی کام کو اللّٰہ کے لئے کر سکتا ہے۔ گویا یوں سمجھ لیجئے کہ فی الاصل کوئی کام اس کا مطلوب نہیں ہے، اللّٰہ کی رضا ہی اس کا مطلوب ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس کو جس حالت میں ڈال دے، اس حالت پہ راضی ہوتا ہے۔ وہی بہلول رحمۃ اللّٰہ علیہ والی بات ہے۔ اور یہ فرمایا کہ نہ جلال کے پابند ہوتے ہیں، نہ جمال کے۔

متن:

یعنی جو لوگ اُس کے عاشق ہوتے ہیں یا اُس کے معشوق ہوتے ہیں، اُن کے لئے اس کی بقا اور دیدار یا اُس کے لئے اُن کی بقا کے علاوہ کوئی دوسرا دین، مذہب اور ملت نہیں ہوتا۔ پس ایسی حالت میں جو کفر حقیقی ہوتا ہے،

تشریح:

یعنی تمام چیزوں سے منکر ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت امیر خسرو رحمۃ اللّٰہ علیہ کا کلام ہے:

؎ کافر عشقم مسلمانی مرا در کار نیست

اور وہی ایمان حقیقی ہوتا ہے۔ یعنی چونکہ وہ صرف ایک کے لئے تمام چیزوں کو چھوڑ چکا ہوتا ہے، لہٰذا وہی اس کا ایمان ہے۔

متن:

اے بھائی! اللّٰہ تعالیٰ کا طریقہ زمینوں اور آسمانوں میں نہیں ہے بلکہ عرش اور جنت میں بھی نہیں، بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کا طریقہ اور راستہ اُس میں ہے کہ فرماتے ہیں: ﴿وَفِيْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 21) ”اور خود تمہارے اندر (نشانیاں ہیں) سو کیا تم کو سوجھتا نہیں؟“ یعنی عرش و فرش سب کچھ تم سے پیدا کیا گیا ہے، کیونکہ یہ سب کچھ تمہارے ظاہر و باطن سے ترکیب پا گیا ہے۔ پس اے بھائی! جب تم حق کو دیکھو گے تو تم جان جاؤ گے کہ تم کتنا بڑا کارخانہ اور نگار خانہ ہو۔

تشریح:

واقعتاً اگر ہم دیکھیں تو مسلمان کا دل بہت بڑا خزانہ ہے۔ جتنا جتنا اس کا قرب اللّٰہ کے ساتھ ہوتا جائے گا، اس کا دل مزید وسیع ہوتا جائے گا اور پوری کائنات کو سما جائے گا۔ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس پر کلام کیا ہے، چنانچہ نفسِ کلیہ، تجلیٔ اعظم وغیرہ، یہ ساری باتیں اسی کے متعلق ہیں۔ جیسے فرمایا کہ: جب وہ اس مقام پہ بیٹھ کے دیکھتا ہے تو پوری کائنات کو اپنے اندر دیکھتا ہے۔ جیسے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم اپنی جانوں کے اندر غور نہیں کرتے؟ ہماری ایک ایک چیز کے اندر اللّٰہ پاک نے عرفان کے اتنے راستے بنائے ہوئے ہیں، بتائے ہوئے ہیں، دیکھائے ہوئے ہیں کہ ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس وقت ہماری صورتحال یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ الحمد للہ! اللّٰہ پاک نے ہمیں ایمان کی روشنی دی ہے، لیکن ہم احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں اور دوسروں کے اوپر ہماری نظر ہے کہ ان کے پاس ہم سے کچھ اچھی چیز ہے۔ اور جس بنیاد پر احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں، وہ ایسی چیزیں ہیں کہ کوئی بھی صاحبِ عرفان ان کی طرف ذرا بھر بھی التفات نہیں کرے گا۔ مثلاً: دنیا کی چیزوں کے بارے میں حدیثِ قدسی ہے کہ جو کچھ آسمان اور زمین اور اس کے درمیان ہے، اگر اللّٰہ کے نزدیک کچھ بھی حقیقت رکھتا، تو اللّٰہ کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پینے دیتا۔ لہٰذا ان چیزوں کی کیا حیثیت ہے۔ تو ہم کن چیزوں کی وجہ سے ان سے متاثر ہیں؟ ظاہر ہے کہ آخرت کی چیزوں کی وجہ سے متاثر نہیں ہیں، بلکہ دنیا کی چیزوں سے متاثر ہیں۔ چنانچہ اصل ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم لوگ دنیا کی چیزوں کو اتنا اہم سمجھتے ہیں کہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں کہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ حالانکہ ہمارے پاس ایمان کی روشنی ہے۔ یہ میں نے کیوں کہا؟ یہ اپنی نظر کی کوتاہی کا کہا کہ ہماری نظر اتنی کوتاہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر ایمان بھی نظر نہیں آ رہا۔ لہٰذا اپنے اندر جو جہان ہے، وہ کیسے نظر آئے گا؟ یعنی ایمان کی دولت کو بھی اگر ہم sense نہیں کر پا رہے کہ ہمارے اندر اللّٰہ تعالیٰ نے ایمان رکھا ہوا ہے، ایمان کتنی بڑی چیز ہے، اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی کوئی value نہیں ہے۔ اگر وہ ہم نہیں دیکھ پا رہے، اس کی وجہ سے ہماری احساسِ کمتری نہیں ٹوٹ رہی تو پھر یہ جو اللّٰہ پاک فرماتے ہیں کہ تمہارے اندر تو پورا جہان ہے، یہ کیسے نظر آئے گا؟ نظر نہ آنا یہ اس چیز کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ اگر ہماری معرفت کی آنکھ اندھی ہو تو نظر نہیں آئے گا۔ لیکن جیسے جیسے ہماری معرفت کی آنکھ کھلے گی، اتنا اتنا ہمارے اندر آئے گا۔ اللّٰہ پاک فرماتے ہیں: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم: 41)

ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا‘‘۔

یہ قرآن کی آیت ہے۔ اگر لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فساد برپا ہو سکتا ہے تو لوگوں کے اعمال کی وجہ سے اس کا توڑ بھی تو ہو گا۔ جیسے probe ہوتا ہے۔ مثلاً: ہم اگر کسی ایسی فیکٹری میں جہاں بڑی بڑی heavy چیزیں بنتی ہیں۔ وہاں ایک تو probe ہوتے ہیں، جن سے چھوٹے سے sample بنا لیتے ہیں، اور اس پہ probe پھیر رہے ہوتے ہیں اور ادھر بڑی cutting ہو رہی ہوتی ہے، یعنی ادھر بڑا cutter اسی طریقے سے cutting کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ایک depth ہے تو میں نے probe کو اس depth سے گزارا، تو ادھر بہت بڑا depth آ رہا ہو گا۔ تو یہ جو یہاں تھوڑی سی cutting ہو رہی ہے، یہ اصل میں اس cutting کے لئے instruction کا کام دیتا ہے کہ اس طرح کاٹو۔ جیسے: ہم سٹیرنگ تھوڑی سی move کرتے ہیں تو ادھر wheel کو حکم مل جاتا ہے، کیا سٹیرنگ میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ wheel کو موڑتا ہے؟ پاور سٹیرنگ تو صرف ایک سمت متعین کر کے دیتا ہے کہ ہم نے اس طرف موڑ دیا اور اس Hydrolic system کو instruction دے دیا کہ وہ wheels کو اس طرف موڑ دے۔ اسی طرح سے ہمارے جو اندر کے اعمال ہیں، پوری کائنات کے اندر اسی طرح ہو رہا ہے۔ یہی وہ جو چیز ہے، جو لوگ نہیں جانتے۔ اور سمجھتے ہیں کہ بھائی ہم کچھ ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ایک واقعہ ہے، جو میں صرف بطورِ مثال کے عرض کرتا ہوں، و اللّٰہ اعلم صحیح ہے یا غلط ہے۔ ایک بادشاہ کہیں جا رہا تھا، کسی باغ میں تھوڑا سا بیٹھ گیا، مالی نے اس کو ایک انار سے پورا گلاس بھر کے دے دیا۔ جو اسے بڑا میٹھا، بڑا زبردست ٹھنڈا لگا۔ اس نے سوچا کہ یہ تو بہت اچھا ہے، اس پہ ٹیکس لگانا چاہئے، اس سے تو بڑی آمدنی ہو گی۔ واپسی پہ جب اس کو انار کا جوس پیش کیا تو انار سے آدھا گلاس بھی نہیں بھرا۔ اس نے مالی سے کہا کہ پہلے تو اس سے پورا گلاس بھر گیا تھا، اب آدھا بھی نہیں ہوا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت کچھ کہہ نہیں سکتا، باغ تو وہی ہے۔ اگر بادشاہ سلامت کے دل میں کوئی بات آئی ہو تو علیحدہ بات ہے۔ ایسا ہوتا ہے۔ انسان کے اندر بہت کچھ ہے، نظرِ بد، حسد اور دعا، یہ ساری چیزیں کیا ہیں؟ ہم لوگ نہیں جانتے کہ ان سے کیا کیا ہوتا ہے۔ بہت کچھ ہوتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ جب فوت ہو گئی، تو اللّٰہ پاک نے فرمایا: اب ذرا احتیاط سے چلا کرو کیونکہ اب دعا کرنے والے وہ ہاتھ نہیں رہے جو آپ کے لئے اٹھ رہے تھے۔ بظاہر وہ ہاتھ بہت چھوٹے سے ہوں گے، بوڑھی ماں کے ہاتھ کتنے طاقت ور ہوں گے؟ لیکن اللّٰہ کے ہاں اس پہ بہت بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ اسی طرح نظرِ بد سے پتا نہیں کیا کچھ ہو جاتا ہے، آدمی کو حیرت ہوتی ہے، لیکن بظاہر کچھ بھی نظر نہیں آتا، بظاہر تو کچھ بھی نہیں ہوا، آخر نظر لگ گئی تو کیا ہوا؟ کوئی چیز محسوس نہیں ہوئی، کوئی شعلہ نہیں لپکا، اس طرح کچھ بھی نہیں ہوا۔ اور نقصان اتنا زبردست کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ مجھے خود ایک صاحب نے اپنی بات بتائی کہ میری نظر لگتی ہے، میں اس سے بڑا تنگ ہوں، میں کیا کروں؟ کہتے ہیں: کار مجھے بہت پسند ہے، کوئی اچھی کاریں ہوں تو ان کی طرف میری نظر جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک کار کھڑی تھی، وہ مجھے بہت خوبصورت لگی، تو میں نے اس کو ذرا دیکھا، پھر میں چلا گیا۔ جب میں نماز پڑھ کے واپس آ رہا تھا، تو دیکھا کہ وہ بیچارے بہت پریشان ہیں۔ میں نے کہا: کیا ہوا؟ کہتے ہیں کہ کھڑے کھڑے اس کا excel ٹوٹ گیا۔ حالانکہ کبھی بھی گاڑی کا کھڑے کھڑے excel نہیں ٹوٹتا۔ اس طرح بہت کچھ ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان کا جسم بھی ایک خزانہ ہے، ایک پوری کائنات ہے۔ لیکن ہم لوگ اس کو جانتے نہیں۔ آگے حضرت یہی فرما رہے ہیں:

متن:

کیونکہ سب کچھ تمہارے ظاہر و باطن سے ترکیب پا گیا ہے۔ پس اے بھائی! جب تم حق کو دیکھو گے تو تم جان جاؤ گے کہ تم کتنا بڑا کارخانہ اور نگار خانہ ہو۔ بیت۔

؎ گنجے ست درین خانہ کہ در کون نگنجد

ایں خانہ و ایں خواجہ و این و آں نہاں مست

’’اس گھر میں ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جو کائنات میں نہیں سما سکتا۔ یہ گھر، یہ مالک اور یہ سب کچھ اس میں پوشیدہ ہے‘‘۔ ؎

فی الجملہ ہر آنکس کہ دریں خانہ رہے یافت

سلطان زمین است و سلیمان جہاں مست

’’حاصلِ کلام یہ کہ جو کوئی اس گھر میں راہ پائے گا تو وہ زمین کا بادشاہ اور جہاں بھر کا سلیمان ہے‘‘۔

اور ہمارے حضرت صاحب طریق عشق اور اسرار و رموزِ انسانی کے بارے میں مکمل معلومات اور علم رکھتے تھے۔ سمجھنے والے اس بات کو سمجھتے ہیں: "اَلْعِشْقُ ھُوَ الطَّرِیْقُ وَالرُّؤْیَۃُ ھُوَ الْجَنَّۃُ وَالْفِرَاقُ ھُوَ النَّارُ وَالْعَذَابُ" کہ راستہ اور طریقہ تو بس عشق کا طریقہ ہے، (اَلْعِشْقُ ھُوَ الطَّرِیْقُ یعنی اصل تو یہی ہے) رؤیت اور دیدار جنت ہے۔ (یعنی عاشق کی جنت اللّٰہ کا دیدار ہے) اور فراق و جدائی کو دوزخ اور عذاب سے تعبیر کرتے ہیں۔

بیت

؎ ہر آں نقشے کہ بر صحرا نہادم

تو زیبا بین کہ من زیبا نہادم

’’جو نقش و نگار میں نے صحرا میں بنا رکھا تو اس کو اچھا دیکھ کہ میں نے اُسے خوبصورت بنایا ہے‘‘۔

حدیث شریف میں اللّٰہ تعالیٰ سے حکایتًا بیان کیا گیا ہے کہ "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" (الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) یعنی میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے ارادہ کر کے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔

تشریح:

یہ ایک حدیث قدسی ہے، اس میں بہت کچھ ہے۔ ایک بات اس سے یہ سامنے آتی ہے کہ معرفتِ الہیٰ عینِ منشاءِ الہیٰ ہے۔ اللّٰہ پاک جب چاہتے ہیں کہ میں پہچانا جاؤں تو جو کوئی کوشش کرے کہ اللّٰہ تعالیٰ کو پہچانے تو وہ وہی کام کر رہا ہے، جو اللّٰہ چاہتا ہے۔ لہذا اس کا اجر کیا ہو گا؟ اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ بھائی یہ کون سی باتیں کر رہے ہیں، ان کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے نہ ہماری نماز ٹھیک ہو رہی ہے، نہ اس سے ہمارے دوسرے اعمال ٹھیک ہو رہے ہیں۔ کیوں نہیں ٹھیک ہو رہے؟ ٹھیک ہو رہے ہیں، لیکن آپ کو پتا نہیں ہے۔ آپ کی ہر چیز اس سے ٹھیک ہو رہی ہے۔ کیسے ٹھیک ہو رہی ہے؟ مثلاً: جب آپ کسی کو پہچانتے ہیں، جیسے کوئی شخص آپ کو ملا اور آپ نے ویسے اس پہ ترس کھایا کہ مسافر ہے، اس کو میں چائے پلاتا ہوں۔ اس کی طرف آپ کی توجہ بس اتنی ہی ہو گی کہ آپ ایک مسافر کو چائے پلا دیں۔ لیکن اگر یک دم آپ کو پتا چل گیا کہ یہ وزیرِ اعظم ہے، ویسے آیا ہوا ہے، میں نے نہیں پہچانا تھا۔ پھر اس کے ساتھ کیا کریں گے؟ ایک دفعہ نواز شریف ایک دفعہ مانسہرہ کی طرف جا رہے تھے تو راستے میں کسی ٹیلی فون exchange کا افتتاح ہونا تھا۔ ( یہ ان کے پچھلے دور کی بات ہے) ان سے request کی گئی کہ سر پہلی کال آپ کریں۔ بہرحال! وہ تیار ہو گئے، ان کے لئے کیا مشکل تھا؟ انہوں نے کوئی نمبر ملایا تو کہیں گھنٹی بجی۔ جس صاحب نے فون اٹھایا، اس نے پوچھا: کون؟ کہا: نواز شریف۔ اس نے کہا: کون سا نواز شریف؟ کہا: وزیرِ اعظم۔ پہلے تو بڑا حیران ہو گیا کہ بھائی یہ کیا ہے۔ پھر کہا کہ وہی نواز شریف بات کر رہے ہوں، جو وزیر اعظم ہے؟ اب یہ دنیا کی بات ہے، لیکن لوگ حیران ہو جاتے ہیں اور سٹپٹا جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ کو معرفت ہو گئی کہ میں جو نماز پڑھ رہا ہوں، یہ میں اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہوں، اور اللّٰہ کیا ہے۔ تو جتنی اس وقت آپ کی معرفت ہو گی، اس کے مطابق آپ کی نماز ہو گی۔ اگر آپ کی معرفت زیادہ ہو گی تو اس نماز کے اندر بڑی depth ہو گی، استحضارِ الہیٰ چاہے جلال کے ذریعے سے ہو چاہے جمال کے ذریعے سے ہو، لیکن بہرحال depth بہت زیادہ ہو گی۔ اس لئے فرمایا کہ جس کی عقل نہیں، اس کا دین نہیں۔ یہاں عقل سے مراد معرفت ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ہر عمل کا اجر بقدرِ عقل ملے گا۔ یہاں بھی معرفت مراد ہے کہ جس کی معرفت زیادہ ہو گی، اس کا اجر زیادہ ہو گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ عارف آدمی کی دو رکعت نماز غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ معرفت کے ساتھ پڑھ رہا ہے۔

متن:

یعنی حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے غیب الغیب کے پردوں میں پردہ نشین اور مستور تھے، اور اپنے جمال سے جلال کا پردہ ابھی تک نہیں ہٹایا تھا۔ اپنے نورِ محبت کا نقش جمیل جو کہ نورِ محمدی سے تعبیر ہے، اس نقش کو اپنے نورِ احدیت سے وجود میں لائے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے کمال فصاحت و بلاغت سے خاص و عام کے سامنے اپنی اس خلعت خاص کا ذکر اِن الفاظ میں فرمایا کہ "أَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ مِنْ فَیْضِ نُوْرِيْ" میں اللّٰہ تعالیٰ کے نور سے پیدا کیا گیا ہوں اور مؤمن میرے نور کے فیض سے تخلیق کئے گئے ہیں۔ دوسری بات اللّٰہ تعالیٰ قدیم کے دربار میں اپنی قدامت کا ذکرِ خیر ان الفاظ میں ظاہر فرماتے ہیں کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دار الفکر، بیروت) یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔ اے میرے پیارے بھائی! شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ابیات کہے ہیں، ابیات:

؎ خواجہ را گر شرح گویم بیش بود

در ہمہ چیزاں ہمہ در پیش بود

’’اگر میں خواجہ (کونین ﷺ) کے حالات کی شرح بیان کروں تو وہ سب سے پہلے تھا اور تمام کائنات میں سے وہ مقدم تھا، دونوں جہانوں نے اس کے وجودِ اقدس سے نام پایا اور اس کے مبارک نام کی وجہ سے عرشِ بریں کو آرام و سکون ہوا، بحرِ وجود سے شبنم کی طرح نمودار ہوا، اور دنیا کی مخلوق نے اسی کے طفیل سے وجود پایا۔ اس کا نور موجودات کا مقصد تھا، حق نے وہ نور مطلق وجود میں دیکھا، اس لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے لئے بحر و بر وجود کی تخلیق فرمائی، اس روحِ پاک کو جانِ آفرین نے اپنے لئے پیدا کیا اور پھر اس کے لئے سارا جہان پیدا کیا۔

تشریح:

یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنے لئے پیدا کیا اور باقی سارے جہان کو آپ ﷺ کے لئے پیدا کیا۔

متن:

جب اس نورِ عالی کی خلعت فرمائی گئی تو پھر عرش و کرسی اور لوح و قلم پیدا کئے گئے، ساری دنیا اُس کے نور پاک کی وجہ سے موجود ہے اگر آپ نہ ہوتے تو عالم کچھ بھی نہ ہوتا‘‘۔

پس اے محبوب! کونین کا مقصود آں جناب ﷺ کا وجودِ مسعود ہے اور موحدین کا ایمان آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چاند جیسے چہرۂ انور سے ہے۔ اس بات کی مثال جناب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی وہ حدیث مبارک ہے: "عَنْ أَبِيْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ أَیْنَ إِیْمَانُنَا؟ فَقَالَ: "بِمُشَاھَدَۃِ وَجْھِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”سیدنا ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے جناب سرورِ عالم ﷺ سے پوچھا کہ ہمارا ایمان کہاں (ہوتا ہے؟) رسول اللّٰہ ﷺ نے واپسی جوابًا ارشاد فرمایا کہ تمہارا ایمان میرے چہرے کو دیکھنے سے ہے“۔

تشریح:

میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ آپ ﷺ کے صحابہ آپ ﷺ کو دیکھ رہے تھے اور حسّی طور پر دیکھ رہے تھے۔ اور ہم ایمانی طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جتنا جتنا ہمارا ایمانی طور پر دیکھنا کامل ہو گا، اتنا اتنا وہ ایمان جو آپ ﷺ پر ایمان لانے سے متعلق ہے، اتنا ہی وہ ایمان مضبوط ہو گا۔ ہمارے ایمانی دیکھنے سے مراد آپ ﷺ کی معرفت ہے، جو ہمارے ایمان کے ذریعے سے ہے۔ گویا کہ آپ ﷺ کے ساتھ ہمارا جتنا عقلی تعلق ہے، اتنا ہی ہمارا باقی ایمانوں کے ساتھ تعلق ہو گا۔ یعنی جتنا جتنا ہمارا عقلی ایمان آپ ﷺ پر مضبوط ہو گا، اتنے اتنے باقی ایمان ہمارے مضبوط ہوں گے۔ کیونکہ باقی ایمانوں کے لئے ذریعہ آپ ﷺ پر ایمان ہے۔ ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے لئے اور دیگر صحابہ کرام کے لئے یہ براہِ راست تھا کہ آپ ﷺ کے چہرے کو دیکھنا ہوتا تھا۔ کیونکہ وہ دیکھ سکتے تھے، ہم نہیں دیکھ سکتے۔ تبھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ لوگ تو میرے بھائی ہو۔ لیکن ایمان ان کا عجیب ہے جو میرے بعد آئیں گے، جنہوں نے مجھے نہیں دیکھا ہو گا۔ گویا ہم لوگ آپ ﷺ کو ایمان کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جتنا جتنا ہمارا ایمان کی نگاہوں کے ساتھ آپ ﷺ کو دیکھنا کامل ہو گا، اتنے اتنے ہمارے باقی ایمان کامل ہوں گے۔ اس چیز کو شیطان خوب جانتا ہے، نتیجتاً شیطان کی کافروں کے ذریعے سے پوری کوشش ہے کہ ہمارے آپ ﷺ کے ساتھ اس ایمانی اعتقاد کو کمزور کر دے۔ لہذا وہ مسلسل اس پر attempt کر رہے ہیں کہ کسی طریقے سے آپ ﷺ کے ساتھ ہمارا ایمانی اعتقاد کم ہو جائے۔ کیونکہ باقی سارے ایمان اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ گیا تو سب گئے۔ پوری کوشش ان کی یہی ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ ہمارا جو ایمانی تعلق ہے، اعتقاد ہے، وہ ٹھیک نہ رہے۔

متن:

پس اے محبوب! کونین کا مقصود آں جناب ﷺ کا وجودِ مسعود ہے اور موحدین کا ایمان آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چاند جیسے چہرۂ انور سے ہے۔ اس بات کی مثال جناب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی وہ حدیث مبارک ہے: "عَنْ أَبِيْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ! أَیْنَ إِیْمَانُنَا؟ فَقَالَ: "بِمُشَاھَدَۃِ وَجْھِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”سیدنا ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے جناب سرورِ عالم ﷺ سے پوچھا کہ ہمارا ایمان کہاں (ہوتا ہے؟) رسول اللّٰہ ﷺ نے واپسی جوابًا ارشاد فرمایا کہ تمہارا ایمان میرے چہرے کو دیکھنے سے ہے“ اور تمام کافروں کا کفر آپ ﷺ کے کالے گیسوؤں سے ہے۔ ﴿وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشٰی وَالنَّھَارِ إِذَا تَجَلّٰی﴾ (اللیل: 1) ”قسم رات کی جب چھا جائے اور دن کی جب روشن ہو“ اس معنیٰ کا سِر اور رمز ہے: ﴿وَھُوَ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّ مِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ وَّاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ (التغابن: 2) ”وہی ہے جس نے تم کو بنایا، پھر کوئی تم میں منکر ہے اور کوئی تم میں ایماندار، اور اللّٰہ تعالیٰ جو تم کرتے ہو، دیکھتا ہے“۔ اور اہلُ اللّٰہ کا گوہر جو کہ موجودات کا مصدر ہے، ارادت اور محبت کی کیمیا گری کے کام میں اِس بات کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیں جو کہ ابھی ابھی اوپر ذکر ہوئی۔ اور یہ بات بھی محمد حسین صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمائی ہے کہ عربی زبان میں خلقت تین معنوں میں آتا ہے: ایک کا معنیٰ ہے؛ پیدا کرنا، وجود میں لانا، آفرینش۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے: ﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الۡأَرۡضِ جَمِیْعࣰا…﴾ (البقرۃ: 29) ”وہ اللّٰہ جس نے تمہارے واسطے پیدا کیا جو کچھ کہ زمین میں ہے سب کا سب“ دوسرا تقدیر کے معنیٰ میں ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: ﴿وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرۃ: 284) ”اور اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے“ تیسرا معنیٰ ظہور ہے، جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے حکایتًا بیان کیا گیا ہے: "إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ" (الصحیح لمسلم، کتاب البر و الصلۃ، باب: النہی عن ضرب الوجہ، رقم الحدیث: 2612) کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر بنایا ہے۔ اس معنیٰ کے لحاظ سے ظہور اور وجود میں لانا مراد ہے۔ اور نورِ احمد ﷺ کی نور احدیت سے خلقت ہوئی ہے۔ اور جناب شیخ محی الدین نے اپنے رسالے "مخصوص" میں لکھا ہے کہ احمد ﷺ کا نور عدم سے پیدا ہوا ہے۔ محمد حسین صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: "واللّٰہ اگر یہ شخص زندہ ہوتا تو اس کو کہا جاتا کہ احمد ﷺ کے نور کو عدم سے کیا نسبت ہے؟ اور مؤمنوں کا نور بھی عدم سے تعلق نہیں رکھتا، کیونکہ آپ کا نور محض وجود ہے پس وجودِ قدیم کو عدم سے نسبت دینا موزوں نہیں، پس نورِ احمدی اور مؤمنوں کے نور کو عدم سے کوئی نسبت نہیں"۔ اور انہی محمد حسین صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ہے کہ سال سات سو اٹھاون (758ھ) میں انتیس جمادی الأولی کو میں حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ایک کشتی میں دریائے فرات میں ہم سفر تھا اور خضر علیہ السلام کے ساتھ نور کے بارے میں بات چل رہی تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ "خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی نُوْرَ مُحَمَّدٍ مِّنْ نُّوْرِہٖ وَصَدَّرَہٗ عَلٰی یَدِہٖ وَیَبْقٰی ذَالِکَ النُّوْرُ بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ مِائَۃَ أَلْفِ عَامٍ فَکَانَ یُلَاحِظُہٗ فِيْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ سَبْعِیْنَ أَلْفَ لَحْظَۃٍ وَّنَظْرَۃٍ وَّیَکْسُوْہُ فِيْ کُلِّ نَظْرَۃٍ نُّوْرًا جَدِیْدًا وَّکَرَامَۃً جَدِیْدَۃً ثُمَّ خَلَقَ مِنْھَا الْمَوْجُوْدَاتِ کُلَّھَا" کہ اللّٰہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کا نور تخلیق فرمایا اپنے نور سے، اور اس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور یہ نور اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ایک لاکھ سال تک موجود رہا اور اللّٰہ تعالیٰ ہر دن اور ہر رات میں ستر ہزار مرتبہ اسی پر نگاہ ڈالتا تھا اور ہر نگاہ پر اس کو ایک جدید نور کا لباس پہناتا تھا اور نئی عزت افزائی کرتا پھر اس سے ساری موجودات کی تخلیق فرمائی۔ اور محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ناسمجھوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ موجودات اور مخلوقات کو عدم سے پیدا کیا گیا ہے، یہ معنیٰ کبھی بھی درست نہیں کہے جا سکتے، کیونکہ ہم معدوم کو جانتے ہیں کہ معدوم اس چیز کو کہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں، اور جس چیز کا وجود ممکنات سے ہو اس کو معدوم نہیں کہنا چاہئے۔ جو کچھ کہ ممکن الوجود تھا وہ خلقت کا لباس پہن چکا۔ آفتاب یعنی سورج کی روشنی میں اشیاء ظاہرًا دیکھی جا سکتی ہیں، مگر رات کے اندھیرے میں اگر کوئی یہ کہے کہ ان اشیاء کی موجودگی نہیں تو یہ جائز بات نہیں ہے۔ ان کا وجود تو موجود ہوتا ہے مگر رات کے گھپ اندھیرے میں دکھائی نہیں دیتا۔ جس وقت سورج اپنے نور سے اس کو ظاہر کرے تو معلوم ہوا کہ عدم کوئی چیز نہیں۔ بیت۔

؎ گم شدم در خود نمے دانم کجا پیدا شدم

شبنمے بودم ز دریا غرقۂ دریا شدم

’’میں اپنے آپ میں گم ہو گیا میں نہیں جانتا کہ میں کہاں پیدا ہوا، میں دریا سے اُٹھ کر شبنم تھا اور شبنم کی طرح پھر دریا میں غرق ہو گیا‘‘۔

؎ سایۂ بودم ز ازل در زمین افتادہ خوار

راست کان خورشید پیدا گشت نا پیدا شودم

’’میں پہلے سایہ تھا اور زمین پر بے وقت پڑا تھا جب وہ سورج نمودار ہوا تو میں ناپید ہو گیا۔

حاصلِ کلام یہ کہ تمام مخلوقات تاریکی میں موجود تھیں، اور قدامت کی خلعت میں ملبوس تھیں، جب نورِ احمدیت نے طلوعِ وجود کا ارادہ فرمایا تو زمینوں اور آسمانوں کی موجودات نے ظہور کیا۔ اس موقع پر علماءِ ظاہر اس بات کو رد کرتے ہیں کہ یہ معنیٰ اگر لئے جائیں تو یہ معنیٰ موجودات کی قدامت پر دلالت کرتا ہے اور یہ بات کہنا جائز نہیں کیونکہ تمام مخلوقات حادث ہیں۔ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نکتہ جو اس کے جواب میں ہے، وہ یہ ہے کہ روزِ اول سے بلکہ روزِ اول سے پہلے موجودات موجود تھیں، جیسا کہ رسول اللّٰہاللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "مَوْجُوْدَاتِيْ قَبْلَ الْأَزَلِ مَوْجُوْدَۃٌ بِالْمَوْجُوْدِ وَبَعْدَ الْأَزَلِ بِالْحَدَثِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”میری موجودات ازل سے قبل موجود کی حیثیت سے موجود تھیں اور ازل کے بعد نئی تخلیق کی حیثیت سے موجود ہیں“ بیت ؎

پیش ازاں روز کہ یاد مئی و می خانہ نہ بود

جان ما سوئے خرابات کرد سجود

’’اس دِن سے جب کہ شراب اور شراب خانے کی یاد تک نہ تھی ہماری روح شراب خانے کی جانب سجدے کر رہی تھی‘‘۔

یعنی ازل سے پہلے جان سجدے کر رہی تھی اگر ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمَوٰتِ وَالْأَرْضِ...﴾ (النور: 35)اللّٰہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے“ نہ ہوتا تو کائنات کے ذروں کا وجود بھی نہ ہوتا۔ اور اللّٰہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اور کوئی بھی اس کا فہم و ادراک نہیں رکھتا کہ ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِيْ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ…﴾ (الأعراف: 172) ”اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے اُن کی اولاد کو“ اور جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فِيْ ظُلُمَاتٍ ثُمَّ رَشَّ عَلَیْھِمْ مِّنْ نُّوْرِہٖ" (العواصم من القواصم بمعناہ، رقم الصفحۃ: 21، مکتبۃ دار التراث، مصر) کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق کو ظلمت (تاریکی اندھیرے) میں پیدا کیا پھر اُس پر اپنے نور سے چھڑکاؤ کیا۔ اس کے بعد یہی معنیٰ ہے یعنی مخلوقات کا وجود تاریکی میں چھپا تھا، اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو نورِ الوہیت سے نزدیک کیا تو ان کا وجد بھی نور ہو گیا اور ظاہر ہوا۔ پس ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ...﴾ (النور: 35) اللّٰہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے“۔

تشریح:

﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ...﴾ (النور: 35) اس کے بارے میں مفسرین ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ پوری کائنات کا نور ہے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرح تو کسی چیز کی نسبت نہیں کی جا سکتی۔ وہ تو ﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ (الشوریٰ: 11) ہے، لہٰذا نور بھی اس کی طرح نہیں ہے۔ البتہ یہ بات کی جا سکتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے اس کائنات کو منور کر دیا ہے۔ کیونکہ نور کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ نور منور کرتا ہے۔ مثلاً: ایک بلب ہے، اُس بلب نے پورے علاقہ کو روشن کر دیا۔ اس کو ہم کہیں گے کہ یہاں کا نور ہے۔ اسی طرح اللّٰہ جل شانہ نے اپنی ذات سے اس پوری کائنات کو روشن کیا۔ جب اللّٰہ نے اس ساری کائنات کو روشن کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پہلے سے موجود تھا۔ یہاں پر حضرت اس سے یہی مراد لینا چاہتے ہیں۔ بہرحال! ہم تو کہتے ہیں، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ اللّٰہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ کیا ہے۔ کیونکہ اپنی اپنی معرفت کے مطابق کلام کرنا چاہئے۔ چنانچہ جتنی ہماری معرفت ہے، ہم تو کہیں گے کہ اللّٰہ نے اس کو پیدا کیا ہے۔ لیکن کیسے پیدا کیا؟ ہمیں نہیں معلوم کہ کیسے پیدا کیا۔ جس کو جتنا معلوم ہے، وہ اتنی ہی بات کر سکتا ہے۔ یہ حضرات چونکہ زیادہ جانتے ہیں، لہذا زیادہ بات کر سکتے ہیں۔ اور ہم کم جانتے ہیں، اس لئے ہم کم بات کر سکتے ہیں۔ ہم کہیں گے کہ اللّٰہ نے پیدا کیا۔ اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اللّٰہ پاک نے پیدا کیا ہے۔ جو پہلے موجود تھا، اس کو ظاہر کیا، وہ بھی۔ یا پہلے نہیں تھا، اس کو بنا دیا، پھر بھی۔ یہ ساری باتیں قرآن کی تشریح پہ پوری اترتی ہیں۔ لہذا جو جتنی معرفت رکھتا ہے، اتنی ہی وہ بات کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے کوئی بات کریں گے تو اس میں ہم پکڑے جائیں گے۔ اس لئے ہم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کر سکتے۔ تشریح ہمارے ذمہ ہے، ہم تشریح کر سکتے ہیں کہ حضرت کیا فرمانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے عرض کیا کہ ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ...﴾ (النور: 35) سے حضرت یہ مراد لینا چاہتے ہیں کہ چونکہ پہلے سے ساری چیزیں موجود تھیں، ان کو منور کر دیا گیا۔ اس قسم کے کلامی موضوعات میں انسان کو جتنی چیز سمجھ آئے، اس کا ادراک کرتا ہے اور جتنی چیز سمجھ نہ آئے، اس کو اللّٰہ پہ چھوڑتا ہے۔ یہ محفوظ راستہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کو اللّٰہ پہ چھوڑتا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی یہی کیا تھا کہ یا اللّٰہ! جتنا میں سمجھنے کی کوشش کر سکتا تھا، میں نے کی، اتنی بات مجھے معلوم ہوئی ہے، حقیقت کیا ہے، یہ تو ہی جانتا ہے۔ جب اتنے بڑے بزرگ، عالم، محقق اور متکلم یہ کہتے ہیں تو ہم بھی یہی کہیں گے۔ چنانچہ ہم کہیں گے کہ دلائل ان کے بھی ہیں، دلائل کسی اور کے بھی ہوں گے۔ لیکن ہم لوگ درمیان میں نہیں آتے، ہم کہتے ہیں کہ جس کی جتنی معرفت ہے، اتنا اس کا کلام ہے۔ یہ محفوظ راستہ ہے۔

متن:

یعنی آسمانوں اور زمینوں کی مخلوق اس کے نور سے ہے، اللّٰہ تعالیٰ تمام موجودات کا مصدر ہے یعنی اس کی ذات تمام موجودات کا سرمایہ اور مصدر ہے۔ یعنی "نُوْرُ اللّٰہِ وَنُوْرُہٗ مَصْدَرُ الْأَنْوَارِ" کہ اللّٰہ تعالیٰ کا نور اور اُس کا نور انوار کا مصدر ہے۔ پس منصور کے ساتھ کیا اور کس قسم کا واقعہ پیش ہوا۔ چنانچہ یہ واقعہ ہو بہو ایسا تھا کہ ایک سانپ راستے پر چلا گیا، پس نادان اور بے سمجھ لوگ سانپ کی اس لکیر کو سانپ کہتے ہیں اور اس کو مارتے اور جلاتے ہیں، حالانکہ یہ سانپ نہیں، بلکہ سانپ کے جانے کا نقش ہے یعنی لکیر ہے۔ پس یہ ”سُبْحَانِيْ“ اور ”أَنَا الْحَقُّ“ کہنا ان کا کام نہ تھا اور ان کا کام کیسے ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ لوگ جب اس دائرے میں استغراقِ روح کرتے ہیں تو یہ بھی ذات کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں تو یہ کچھ انہوں نے کہا ہے ”اُس“ سے کہا ہے، یہاں تک کہ یہ لوگ ”وہ“ ہو گئے۔ اور ایسا کہنا اور اس طرح کہنے کو وہ لوگ سمجھتے ہیں، جو کہ ”وہ“ ہو جاتے ہیں۔

تشریح:

پہلے اس کی کافی تشریح ہو چکی ہے۔ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی اس کی تشریح کی ہے کہ وہ اس وقت جو کلام کرتے ہیں، وہ کلام اپنے ساتھ نہیں کرتے، بلکہ وہ سارے کے سارے اس نظام کا حصہ ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ جب ہم اس لحاظ سے بات کرتے ہیں کہ ’’اَنَا الْحَقُّ‘‘۔ اس حق سے مراد یہی ہے کہ اللّٰہ حق ہے۔ اور اللّٰہ تو حق ہے۔ یعنی وہ خود چونکہ معدوم ہو گیا، اس کا وجود ختم ہو گیا۔ جب وہ ختم ہو گیا تو صرف اللّٰہ باقی ہے، جب اللّٰہ ہی باقی ہے تو وہ یہی کہے گا؟ لہٰذا وہ اس لحاظ سے بات کرتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی بات کی ہے۔ صرف سن لیں، تشریح اگلے درس میں ان شاء اللّٰہ۔ حضرت ’’الطاف القدس‘‘ میں فرماتے ہیں:

باوجود اس کے لطافت در لطافت ہے اور بساطت در بساطت ہے، جو چیز رنگین بناتی ہے، اس سے آزاد ہے۔ اگر بالفرض عقل اس کی طرف قصد کرے تو اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی، اور سوائے حیرت کے اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، لیکن اہلِ ذوق حاصلِ ذوق کے ساتھ بطریقِ حضور الشئی لذاتہ بذاتہ فی ذاتہ، اس کا ادراک کرتے ہیں اور اس کا رنگ ان کی عقلوں پر پڑتا ہے اور بھینگے شخص کی طرح، جو اپنے بھینگے پن پر مطلع ہے، کسی نہ کسی طرح لوگ بھی حقیقت کو جانتے ہیں اور نا آشنا کے ساتھ آشنا ہو جاتے ہیں۔ جس قافلہ میں وہ ہے، میں جانتا ہوں کہ میں اس تک نہیں پہنچ سکتا، میرے لئے بس یہی ہے کہ میرے کانوں تک گھنٹی کی آواز پہنچتی ہے۔

یعنی میں ایسا ہوں نہیں، لیکن ان کو جان گیا ہوں کہ وہ کیا ہیں اور کیا سمجھتے ہیں۔ جیسے ’’وَلَسْتُ مِنْھُمْ‘‘ فرمایا ہے۔ بس ہم بھی یہی بات کرتے ہیں کہ اصل میں جن کا یہ مقام ہوتا ہے، وہ اگر کہیں، تو ان کو ہم غلط نہ کہیں۔ لیکن ہم اس طرح نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ہمارا یہ مقام نہیں ہے۔ ہم وہی کہہ رہے ہیں جو ہم جانتے ہیں، جتنا ہم جانتے ہیں، اتنا ہی کہہ دیں۔ یہی صداقت ہے۔ کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر تم کوئی بات سنو اور بغیر تحقیق کے آگے کر دو تو وہ جھوٹ ہو گا۔ لہٰذا جھوٹ سے بچنے کے لئے یہی طریقہ ہے کہ اتنا ہی کرو، جتنا کہ آپ جانتے ہیں۔ بہرحال! آدمی اتنی ہی بات آگے کر سکتا ہے، جتنا کہ وہ سمجھ جائے۔ اس سے زیادہ کی بات انسان نہ کرے، اسی میں خیر ہے۔ ’’وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ‘‘ اور بھی بہت ساری باتیں ہیں، صرف یہی نہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ