اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں جو کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ لکھی گئی ہے، آج کل ہمارے ہاں اس سے تعلیم جاری ہے۔ چونکہ ایک تسلسل کے ساتھ درس ہو رہا ہے، تو جہاں تک ہوا تھا، وہاں سے آگے ان شاء اللّٰہ تعلیم ہو گی۔
متن:
(بس جان لیجئے کہ) جس نے اپنے رب کو پہچانا تو وہ نہیں مرتا“ اے سالک! اگر تم آج ہستی کو نیستی میں تبدیل کرو گے تو ایسے ہست ہو جاؤ گے کہ نیستی کا گرد و غبار بھی تمہاری ہستی کے خیمے کے پردوں تک نہیں پہنچے گا۔
تشریح:
اللّٰہ جل شانہ نے آزمائش کا نظام ایسا بنایا ہوا ہے کہ جو یہاں کی زندگی کے ساتھ جی لگائے گا، جو یہاں کی چیزوں کو مقصود بنائے گا، وہاں اس کو محرومی ہو گی۔ اور جو یہاں کی چیزوں سے اپنا دل ہٹا کر اللّٰہ کی طرف جائے گا اور جو اللّٰہ کے پاس ہے، وہ حاصل کرنا چاہے گا، اسے اللّٰہ جل شانہٗ وہاں کی نعمتوں سے مالا مال کر دے گا۔ آپ ﷺ نے عمر کے بالکل آخری حصے میں یعنی دنیا سے تشریف لے جانے سے کچھ دن پہلے صحابہ کرام کی محفل میں باتوں باتوں میں یہ ارشاد فرمایا کہ ایک بندے کو یہ اختیار ملا ہے کہ وہ یہاں کی چیزوں کو لینا چاہتا ہے یا جو اللّٰہ کے پاس ہے، اسے لینا چاہتا ہے، تو اس بندے نے جو اللّٰہ کے پاس ہے، اس کے بارے میں فیصلہ کر لیا ہے۔ باقی صحابہ کرام تو اس کو معمول کی بات چیت سمجھے، لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جو راز دانِ نبوت تھے، ان کو اندازہ ہو گیا، وہ رونے لگ گئے۔ ان کو پتا چل گیا کہ آپ ﷺ کا اس دنیا سے تشریف لے جانے کا وقت آ گیا ہے۔ آپ ﷺ کے آخری الفاظ بھی یہ ہیں: ’’اَللّٰهُمَّ الرَّفِيْقَ الْأَعْلٰى‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 6348)
ترجمہ: ’’اے اللّٰہ! رفیقِ اعلیٰ کے ساتھ ملا دے‘‘۔
چونکہ یہاں کی زندگی عارضی ہے، اس لئے جب تک نصیب میں ہے، ٹھیک ہے، محنت کا میدان ہے، اس لئے محنت کے لحاظ سے یہاں کی زندگی کی قدر کرنی چاہئے، کیونکہ یہاں کا ایک ایک لمحہ وہاں کے کروڑوں اربوں سالوں سے زیادہ مؤثر ہے، اس لئے اس کی قدر کرنی چاہئے۔ لیکن اس سے جی نہیں لگانا چاہئے، اس کو مقصود نہیں بنانا چاہئے۔ کیونکہ اگر کوئی اس کو مقصود بنائے گا تو وہ نقصان اٹھائے گا۔ چنانچہ یہاں یہ بات ہوئی ہے کہ جس نے اپنے رب کو پہچانا، وہ نہیں مرتا۔ کیونکہ رب کے پہچاننے سے وہ اس کا عاشق ہو جائے گا، کیونکہ اسی وقت تک بندہ اللّٰہ جل شانہٗ کی محبت سے محروم ہو سکتا ہے، جب دنیا کی محبت کی وجہ سے وہ محجوب ہے، اس کو اللّٰہ کی معرفت نہیں ہے۔ جب کسی کو اللّٰہ کی معرفت حاصل ہو جائے، تو دنیا کی کوئی چیز اللہ سے زیادہ محبوب نہیں ہو سکتی۔ تو جب انسان اللّٰہ جل شانہٗ کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کرے گا تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جائے گا۔ جس شعر کو سنتے سنتے حضرت بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ دنیا سے تشریف لے گئے تھے۔ وہ یہی تھا:
کِشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
ترجمہ: تسلیم و رضا کی تلوار سے جو شہید ہو جاتے ہیں، ان کو غیب سے نئی جان ملتی ہے۔
متن:
مگر میں نہیں سمجھتا کہ آج تم کس بات میں مصروف ہو، سچ بات تو یہ ہے کہ "یَنْبَغِيْ لِلْعَاقلِ الْکَامِلِ أَنْ یَّکُوْنَ الْیَوْمَ مَشْغُوْلًا بِمَا ھُوَ فِي الْغَدِ مَسْئُوْلًا" ”ایک کامل اور عاقل شخص کو چاہئے کہ آج اس کام میں مشغول ہو جس کام کے بارے میں کل مسئول ہو گا“۔
تشریح:
مثلاً: جب ہم دفتر میں جاتے ہیں تو ہم انہی چیزوں میں ہی مصروف ہوتے ہیں، جن چیزوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ مسئول ذمہ دار کو کہتے ہیں۔ تو جن چیزیں کے ہم ذمہ دار ہیں، انہی کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا: ’’كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهٖ‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر: 5901)
ترجمہ: ’’تم میں ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔
اسی طرح کل قیامت کے دن جن چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، انہی میں مشغول ہونا چاہئے۔ گویا کل جس میں مسئول ہوں گے، آج اسی میں مشغول ہونا چاہئے۔ یہ بہت بڑا علم ہے۔ فرمایا کہ ایک کامل اور عاقل شخص کو یہی کرنا چاہئے، یعنی یہ کامل اور عاقل شخص کا شیوا ہے۔ لہٰذا جو یہ کام کرے گا، وہ کامل اور عاقلوں والا کام کرے گا۔
متن:
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں کہیں، اُن کو کہا گیا کہ کسی مردے پر چار تکبیروں سے زائد کا حکم نہیں اور آپ نے پانچ تکبیریں پڑھیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے تو چار تکبیریں اس مردہ پر پڑھیں اور پانچویں تکبیر ان زندہ لوگوں پر پڑھی کہ یہ لوگ اس مردے سے زیادہ مردے ہیں۔ اے میرے عزیز! مرد اُس شخص کو کہتے ہیں، اور پہلے کچھ ایسے مرد تھے جن کو دوسروں کے گناہوں سے بخار آتا تھا اور اب تو اپنے گناہ سے بھی جسم گرم نہیں ہوتا۔
تشریح:
واقعی اللّٰہ کے بعض بندے ایسے تھے کہ جب ان کے سامنے کوئی جھوٹ بولتا، تو ان کو سخت بدبو آتی تھی، اور ان کے سامنے وہ نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ کوئی ایسی گندی بات اگر کسی کے منہ سے نکلتی، تو اس سے ان کو قے ہو جاتی تھی۔ آج ایسے لوگ نہیں ہیں، بلکہ آج تو خود وہ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ خود ہی گندی باتیں کر رہے ہوتے ہیں، مگر انہیں کچھ نہیں ہوتا۔
متن:
یہ ایک قدیمی رسم و رواج تھا کہ جب پھولوں یعنی بہار کا موسم آتا تھا تو لوگ لہو و لعب میں مشغول ہو کر خوشیاں مناتے تھے، اسی خیال و فکر اور ڈر کے مارے جب بہار کا موسم آتا تھا تو معروف کرخی رحمۃ اللّٰہ علیہ جو عالم طریقت کی بہار تھے، خود بیمار پڑ جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ پھر بہار کا موسم آیا، لوگ لہو و لعب اور عیش و نشاط میں زندگی ضائع کریں گے۔
ہمارے شیخ اور حضرت صاحب ایک مؤمن برحق تھے، اور مؤمنِ حقیقی میں جو صفات ہوتی ہیں وہ سب ان میں موجود تھیں۔ چنانچہ روایت ہے کہ جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے حضرت حارث رضی اللّٰہ عنہ سے پوچھا کہ "کَیْفَ أَصْبَحْتَ؟" ”تو نے کیسی رات گزار کر صُبح کی؟“ تو انہوں نے جواب دیا کہ "مُؤْمِنًا حَقًّا" ”مؤمنِ حقیقی کی طرح رات سے صُبح کی“ فرمایا کہ تمہاری اس بات کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ یعنی آپ نے استفسار فرمایا کہ "لِکُلِّ حَقٍّ حَقِیْقَۃٌ فَمَا حَقِیْقَۃُ إِیْمَانِکَ؟" ”ہر ایک سچی بات کی حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟“ حارثہ رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے ایمان کی حقیقت کی وضاحت یوں فرمائی کہ "قَدْ عَزَلْتُ نَفْسِيْ عَنِ الدُّنْیَا وَأَسْہَرْتُ لِذٰلِکَ لَیْلِيْ وَاطْمَأَنَّ نھَارِيْ وَکَأَنِّيْ أَنْظُرُ إِلٰی عَرْشِ رَبِّيْ" ”میں نے خود کو دنیا سے دور کر لیا، رات خوشی سے گزاری اور دن اطمینان سے، گویا کہ میں اپنے رب کے عرش کو دیکھ رہا ہوں“ پس وہ اپنے مقصد پر دلیل لائے اور خود یہ خیال کیا کہ میں یہ سچ بول رہا ہوں، اس لئے ان کو فرمایا گیا کہ "عَرَفْتَ فَالْزَمْ" (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 3367) یعنی تُو بات کی تہہ تک پہنچ گیا، یہی حقیقت ہے اب اس بات پر قائم رہ۔
تشریح:
حضرت حارثہ یہ بات آپ ﷺ سے کر رہے تھے، آپ ﷺ کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات کر سکتا تھا؟ وہ آپ کے سامنے ایسے ہی شاعری نہیں کر رہے تھے، بلکہ جو حقیقت تھی، وہی بیان فرما رہے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تصوف کہاں سے ہے؟ اب یہ تصوف نہیں ہے تو اور کیا چیز ہے؟ اور تصوف کس چیز کو کہتے ہیں؟ آپ ﷺ کا یہ پوچھنا کہ رات کیسے گزاری؟ یہ گویا کہ انسان کی زندگی گزارنے کے انداز کے متعلق سوال ہے۔ تو جواب یہ ملا کہ: ’’مُؤْمِنًا حَقًّا‘‘ یعنی ایک سچے اور حقیقی مومن کی طرح گزاری ہے۔ تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ ہر حق کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تیرے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ تیری بات کا کیا ثبوت ہے؟ تو کیوں اس طرح کہہ رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ: ’’قَدْ عَزَلْتُ نَفْسِيْ عَنِ الدُّنْیَا‘‘ کہ میں نے اپنے نفس کو، اپنے آپ کو دنیا سے الگ کر لیا۔ ’’وَاطْمَأَنَّ نَھَارِيْ‘‘ میرے دن بڑے سکون کے ساتھ گزرے۔ اور پھر یہ فرمایا کہ دنیا کے سونا چاندی اور پتھر میرے لئے برابر ہیں۔ فیصل آباد کے ایک ڈاکٹر صاحب ہیں، تبلیغی جماعت کے بزرگ ہیں، انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ میرے والد صاحب بہت بڑے Learned scholar تھے، یعنی ان کے پاس کئی ڈگریاں تھیں، پی ایچ ڈی تھے۔ جب ان کی موت کا وقت آیا، تو مجھ سے فرمایا کہ میری ڈگریاں لے آؤ۔ میں حیران ہو گیا کہ اس وقت ان کو ڈگریوں کی کیا سوجی! لیکن والد صاحب کا حکم تھا، تو لے آیا۔ جب میں لایا، تو چونکہ وہ فولڈ تھیں، انہوں نے ڈگریاں کھول لیں اور پھر دوبارہ فولڈ کر دیں۔ اور مجھ سے کہنے لگے کہ لے جاؤ، اب یہ میرے کسی کام کی نہیں ہیں۔ وہ یہی چیز سمجھانا چاہتے تھے کہ اب یہ میرے کسی کام کی نہیں ہیں۔ جس کو اپنی موت نظر آ رہی ہو، اپنی اگلی زندگی نظر آ رہی ہو، تو کیا وہ اس دنیا کے سونے اور پتھر میں کوئی فرق کر سکے گا؟ اس کو کیا پڑی کہ سونا سونا ہے اور پتھر پتھر ہے، اس کے لئے تو برابر ہیں، کیونکہ اس کے لئے کسی کام کے نہیں ہیں۔ یہاں جو فرمایا کہ میرے نزدیک سونا اور پتھر برابر ہیں، اس میں حضرت یہی فرمانا چاہتے تھے کہ میں موت کو گویا کہ سامنے دیکھ رہا ہوں، مجھے اپنی زندگی کی بے ثباتی کا پورا پورا یقین ہے اور میں اپنے رب کے عرش کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ مشاہدہ ہے۔ پس وہ اپنے مقصد پر دلیل لے آیا اور خود یہ خیال کیا کہ میں سچ بول رہا ہوں۔ اس لئے اس کو فرمایا گیا: ’’عَرَفْتَ فَالْزَمْ‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 3367) یعنی تُو بات کی تہہ تک پہنچ گیا، یہی حقیقت ہے۔ اب اس بات پر قائم رہ۔
یہ جو آپ ﷺ کا اور حضرت حارثہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا مکالمہ ہے، اس سے کم از کم ہمیں یہ پتا چل گیا کہ جو حضرات دنیا کی کسی چیز کو کچھ نہیں سمجھتے اور خلوت نشینی کرتے ہیں اور ان چیزوں کی پروا نہیں کرتے ہیں، ان کے اوپر جو لوگ پھبتی کستے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ اسلام میں تو رہبانیت نہیں ہے، یہ اس طرح کیوں کر رہے ہیں؟ ان کے لئے یہ کافی جواب ہے۔ کیونکہ سوال آپ ﷺ کر رہے ہیں اور جواب آپ ﷺ کو دیا جا رہا ہے اور آپ ﷺ اس پر اعلان کر رہے ہیں کہ آپ نے بالکل صحیح کہا ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا بات ہونی چاہئے؟ لہٰذا خلوت نشینی یعنی دنیا سے علیحدہ ہو جانا، یہ کوئی غلط بات نہیں ہے۔ البتہ خلوت نشینی کی اپنی اپنی صورت ہوتی ہے، بادشاہ بھی خلوت نشین ہوتا ہے، اگر وہ واقعی اللّٰہ والا اور مومن ہے۔ جیسے: سلطان شمس الدین التمش رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے یا اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے یا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے، یہ حضرات بادشاہ تھے، لیکن دنیاوی بادشاہت میں مبتلا نہیں تھے، بلکہ بادشاہت کو ایک ڈیوٹی سمجھ رہے تھے۔ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تو یہ حالت تھی کہ اپنے گھر کے اندر وہ کپڑے پہنتے تھے جو انہوں نے اپنی کمائی سے خریدے ہوتے تھے یعنی کھدر وغیرہ کے۔ اور باہر باقاعدہ سلطان کا تاج بھی تھا، دوسری چیزیں بھی تھیں۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ باہر اور کپڑے اور اندر اور کپڑے، یہ کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ باہر تو میں اپنی وردی میں بیٹھا ہوتا ہوں، یہ تو میری وردی ہے۔ جیسے سرکاری طور پر کوئی آدمی جنرل ہو اور وہ جنرل کی وردی پہن کے دفتر جا رہا ہو اور اندر فقیرانہ زندگی گزار رہا ہو، تو وہ اس وردی کے بغیر اپنے دفتر نہیں جا سکتا، وہ اس کی ڈیوٹی ہے، وہ انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کا دل ان میں لگا ہوا نہ ہو۔ یہاں ایک میجر جنرل صاحب تھے، اللّٰہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، شہید ہو گئے ہیں۔ ان کے ساتھ مجھے ایک کام تھا، میں ان کے پاس چلا گیا، میں نے ان کو ایک لیٹر دیا، جو مجھے حلیمی صاحب نے ان کے لئے دیا تھا۔ انہوں نے کہا: دفتر آ جاؤ۔ اگلے دن میں دفتر چلا گیا، دفتر میں صوفے پڑے ہوئے تھے اور کرسی بھی تھی، وہ کرسی پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں سے اٹھے اور آ کر میرے ساتھ صوفہ پہ بیٹھ گئے اور چائے وغیرہ منگوائی، اور پھر یہ comment pass کیا کہ ہم فقیر لوگ ہیں، وردی کے شوقین حضرات اور ہوتے ہیں۔ جن کے پاس اور کچھ نہیں ہوتا، وہ وردی کے شوقین ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس اور کچھ ہے ہی نہیں، صرف یہی وردی ہے۔ اب یہ بات تو کوئی بھی کر سکتا ہے، لیکن اس بات کو حقیقت کے طور پہ اپنانا، یہ ہر ایک نہیں کر سکتا۔ لیکن انہوں نے حقیقت کے طور کر لیا۔ وہ اس طرح کہ موت کا وقت ایک ایسا وقت ہوتا ہے، جو انسان کے اندرون کو ظاہر کر دیتا ہے۔ جو اس کی اصل حالت ہوتی ہے، وہ سامنے آ جاتی ہے، چاہے کوئی بھی ہو۔ یہ ایکسیڈنٹ میں شہید ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ گھر والے بھی تھے، سادہ لباس میں تھے، آرمی کی کانوائے گزر رہی تھی، بہت Severe accident ہوا، ان لوگوں کی ٹریننگ ہی ایسی ہوتی ہے کہ کہیں کوئی ایکسیڈنٹ وغیرہ ہو، تو یہ مدد کے لئے دوڑتے ہیں، لہٰذا وہ دوڑے، معلومات حاصل کرنے کے لئے ان کا شناختی کارڈ نکالا، تو پتا چلا کہ یہ جنرل ہیں، انہوں نے ان کو سلوٹ کیا۔ کیونکہ یہ بھی ان کی عادت ہے۔ تو انہوں نے کہا: یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ کوئی اس کام کا وقت ہے؟ سب کلمہ پڑھو۔ سب کو کلمہ پڑھایا اور شہید ہو گئے۔ یہ ہوتا ہے کمال! اپنی بات کو سچا کر کے دیکھایا۔ اس وقت انہوں نے اپنی جنریلی وغیرہ نہیں دکھائی۔ حالانکہ جو فوت ہونے والا ہو، اس کو لوگ کلمہ کی تلقین کرتے ہیں، انہوں نے جاتے وقت بھی جنریلی نہیں دکھائی، بلکہ سب کو کلمہ پڑھایا اور شہید ہو گئے۔ ایسے لوگ بھی اس دنیا میں ہوتے ہیں، ان کو عام طور پر لوگ نہیں جانتے، لیکن ایسے بھی دنیا میں افراد ہوتے ہیں۔
بہرحال! میں عرض کر رہا تھا کہ آپ ﷺ نے حضرت حارثہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو نے بات صحیح کی ہے، اس پر قائم رہو۔ اس سے پتا چلا کہ یہ اصل ہے، زندگی کو اس رنگ سے دیکھنا، اس رخ سے دیکھنا، یہ بنیاد ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر حذف شخص غار میں بیٹھ جائے، بے شک غار میں نہ ہو، گھر میں بیٹھا ہو، دفتر میں بیٹھا ہو، دکان میں بیٹھا ہو، لیکن ہو اللّٰہ کے ساتھ۔ دنیا کے کاموں کو محض ایک ڈیوٹی سمجھ رہا ہو۔ مثلاً: اگر آپ کی ڈیوٹی ایسی جگہ ہو، جہاں پر صوفے ہوں، آپ کو بیٹھنا پڑ رہا ہو، مثلاً: آپ کی ڈیوٹی یہ ہو کہ آپ مہمانوں کو entertain کرنا ہے، جیسے بعض لوگوں کی ایسی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ پروٹوکول آفیسر ہوتے ہیں، مہمانوں کو entertain کر رہے ہوتے ہیں۔ تو جو مہمانوں کی نشست ہو، وہیں ان کی بھی ہوتی ہے۔ جو مہمان کھاتے ہیں، ان کے ساتھ وہ بھی کھاتے ہیں۔ سب چیزیں ان کی وہی ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس کو اپنا سمجھتا ہے، لیکن بہرحال اس کو کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً: بینک ملازمین کے پاس کتنے پیسے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا وہ ان پیسوں کو اپنا سمجھتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ ان کے پاس امانت ہے، وہ ان کو اپنا نہیں کہہ سکتے۔ بس دنیا کو اسی طرح سمجھو کہ میرے پاس امانت ہے۔
؎ ایں امانت چند روزہ نزدِ ما ست
در حقيقت مالک ہر شے خدا ست
یعنی میرے پاس تو صرف چند روز کی بادشاہی ہے، چند روز کی دنیا ہے، چند روز کا کام ہے۔ اصل میں تو میرے ساتھ کچھ بھی نہیں ہے۔ اصل مالک اللّٰہ جل شانہ کی ذات ہے۔ ہم سب کی زبان پر یہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اصل یہ ہے کہ یہ بات دل میں اتر جائے کہ میری کوئی چیز نہیں ہے، سب اللّٰہ کی ہے۔
متن:
ہمارے حضرت صاحب دنیا کی محبت کو چھوڑ چکے تھے، اپنے ایک مرید کو اپنی زبان مبارک سے حلفیہ فرمایا تھا کہ سُرخ طلا یعنی سونا اور چاندی اور پتھر کی وقعت میرے دل میں ایک جیسی ہے۔ ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ مقام عبودیت تک رسائی حاصل فرما چکے تھے، اُنہیں یقین کامل اور صداقت قلبی حاصل ہو گئی تھی، حقیقت کی راہ ان پر کھل گئی تھی، وہ عشق و محبت کی بلندیوں کے شہباز تھے۔ اہل دانش فرماتے ہیں کہ "اَلْعُبُوْدِیَّۃُ ثَلٰثَۃُ أَشْیَاءٍ: مَنْعُ النَّفْسِ عَنْ ھَوَاھَا وَزَجْرُھَا عَمَّا نَہَاھَا وَالطَّاعَۃُ فِيْ أَمْرِ مَوْلَاہَا وَمَنْ فَعَلَ ھٰذَہِ الْأَشْیَاءَ نَادٰی مُنَادٍ کُلَّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَۃٍ أَنْتَ حُرٌّ فِي الدَّارَیْنِ" ”عبودیت تین چیزوں پر مشتمل ہے: نفس کو خواہشات سے منع کرنا، اور جس سے چیز سے منع ہوا ہے اس سے جان بچا کے رہنا، اور اپنے مولیٰ کی حکم کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنا۔ جو کوئی یہ تینوں کام سر انجام دے تو ہر دن رات ایک آواز دینے والا اس کو پکارا کرتا ہے کہ تم دونوں جہانوں میں ”حُر“ یعنی آزاد ہو“۔
تشریح:
آزاد ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہاں پر نفس سے آزاد ہو اور وہاں پر تکلیفوں سے، قید سے آزاد ہو۔ جیسے حدیث شریف میں ہے: ’’اَلدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ‘‘ (مسلم شریف، حدیث نمبر: 7606)
ترجمہ: ’’دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے‘‘۔
اگر کوئی اس کو پڑھ لے گا، تو کہے گا کہ یہ تو اس حدیث شریف کے خلاف ہے۔ حالانکہ اس حدیث شریف کے خلاف نہیں ہے، بلکہ اس حدیث شریف کے مطابق ہے۔ وہ اس طرح کہ دنیا مومن کے لئے اس لئے قید خانہ ہے کہ وہ نفس سے آزاد ہے۔ اگر وہ نفس کا قید ہو، تو وہ دنیا میں آزاد ہے کہ جو نفس چاہتا ہے، وہ کرتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ دو قیدوں میں سے ایک قید لینی ہوتی ہے، یا نفس کی قید ہے یا دنیا کی قید ہے۔ اگر نفس کی قید ہے، تو دنیا سے آزاد ہے اور اگر نفس سے آزاد ہے، تو دنیا کی قید ہے۔ چنانچہ یہاں یہ دنیا کے حساب سے فرمایا گیا ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے، لیکن یہاں نفس سے آزاد فرمایا ہے۔ جو آدمی نفس سے آزاد ہو گیا، وہ اصل میں آزاد ہے۔ کسی شاعر نے بڑا اچھا کہا ہے:
؎ وہ ایک سجدہ، جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یعنی اگر ایک آدمی ایک ذات کو سجدہ کرتا ہے تو اصل میں وہ تمام معبودوں سے اپنے آپ کو چھڑا لیتا ہے، ورنہ پھر پتا نہیں کہ کیا کیا کرتا ہے، ہر ایک کو معبود بنا لیتا ہے، یہ نفس بھی معبود بن جاتا ہے۔
متن:
ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ بندگی کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہر حالت میں خداوندِ کریم کو اپنا مالک و خداوند سمجھا کرو۔ اور اپنے آپ کو ہر وقت اس کا بندہ تصور کرو، یہی بندگی ہے۔
تشریح:
یعنی جس وقت ہم اللّٰہ تعالیٰ کو مالک سمجھیں گے، تو ہم اس کے بندے ہیں۔ اور اگر بندگی سے آزاد سمجھا، تو گویا کہ اس کو مالک نہیں سمجھ رہے۔ گویا دونوں باتیں اکٹھی ہیں۔
متن:
عبودیت کے میدان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر کسی نے قدم نہیں رکھا ہے، کیوں کہ انہوں نے علی الاعلان کہا کہ ﴿إِنِّيْ عَبْدُ اللّٰہِ...﴾ (مریم: 30) ”میں اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ ہوں“ مگر یاد رکھیے کہ بندہ ہونا علیحدہ بات ہے، اور بندگی کرنا ایک جدا بات ہے۔ اگر بندہ ہونا اور بندگی کرنا ایک بات ہوتی تو کبھی بھی شیطان ایسا شرمندہ، لعنتی اور رو سیاہ نہ ہو جاتا۔ جو کوئی بندگی کرنے میں چست اور چابکدست ہو تو حضرت عزرائیل علیہ السلام بھی اس کے فرمانبردار بن جاتے ہیں جیسا کہ "خیر نساج" کے قصہ میں ذکر ہوا ہے کہ عزرائیل علیہ السلام اُس کی روح قبض کرنے کے لئے تشریف لائے، اس نے کہا کہ اے عزرائیل علیہ السلام مجھے ذرا مہلت دیجیے تاکہ میں نماز ادا کروں، ایسا نہ ہو کہ میری نماز فوت ہو جائے، میری روح کا قبض ہونا آپ کے لئے فوت نہیں ہو سکتا۔ عزرائیل علیہ السلام کو الہام ہوا کہ "یَا عِزْرَائِیْلُ أَمْھِلْہُ" ”اے عزائیل! آپ اس کو مہلت دیجیے“ پس عزرائیل علیہ السلام نے اس کو مہلت دی، اُس نے نماز پڑھی اُس کے بعد اُس کی روح قبض کی۔ پس ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ عبودیت اور صدق و یقین کے میدان کے شہسوار تھے، وہ صاحبان یقین جن کا یقین مکمل اور عقیدہ پختہ تھا، فرماتے ہیں: "اَلْیَقِیْنُ رُؤْیَۃُ الْعَیَانِ بِنُوْرِ الْإِیْمَانِ وَالْإِیْمَانُ مُشَاھَدَۃُ الْغُیُوْبِ بِکَشْفِ الْقُلُوْبِ وَمُلَاحَظَۃُ الْأَسْرَارِ بِمُخَاطَبَۃِ الْأَفَکَارِ" یعنی یقین یہ ہے کہ کھلے طور پر ایمان کے نور سے دیکھا جائے، اور ایمان یہ ہے کہ غیب کی چیزوں کو دلوں کے کشف سے دیکھا جائے اور اسرار کو افکار کی توجہ سے دیکھا جائے۔ حضرت جُنید بغدادی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں: "مَنْ لَّمْ یَصِلْ عِلْمُہٗ بِالْیَقِیْنِ وَیَقِیْنُہٗ بِالْخَوْفِ وَخَوْفُہٗ بِالْعَمَلِ وَعَمَلُہٗ بِالْوَرَعِ و وَرَعُہٗ بِالْإِخْلَاصِ وَإِخْلَاصُہٗ بِالْمُشَاھَدَۃِ فَھُوَ مِنَ الْھَالِکِیْنَ" ”جس شخص کا علم یقین کے ساتھ نہ مل جائے اور اس کا یقین خوف کے ساتھ اور خوف عمل کے ساتھ اور عمل ورع اور تقویٰ کے ساتھ اور اس کا ورع اخلاص کے ساتھ اور اخلاص مشاہدہ کے ساتھ نہ مل جائے، تو وہ شخص ہلاک ہونے والوں میں سے ہے“۔
تشریح:
ہر ایک چیز صحیح ہے، سرحدیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ اس طرح کہ اگر علم ہو اور یقین نہ ہو، تو علم بے کار ہو جاتا ہے۔ اگر یقین ہو، لیکن اس سے خوف وجود میں نہ آئے، تو اس کا یقین بھی صحیح نہیں۔ اگر خوف ہو، لیکن اس سے عمل وجود میں نہ آئے، تو وہ خوف صحیح نہیں ہے۔ اور اگر عمل ہو، لیکن اس میں ورع اور تقویٰ نہ ہو، تو وہ عمل صحیح نہیں ہے۔ اور اگر ورع ہو، لیکن اس میں اخلاص نہ ہو، تو اس کا ورع صحیح نہیں ہے۔ اور اگر اخلاص ہو، مگر اس میں مشاہدہ نہ ہو، تو یہ ہو نہیں سکتا۔ لہذا اس کا اخلاص بھی صحیح نہیں ہے۔ گویا یہ ساری چیزیں آپس میں connected ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ اگر یہ نہ ہو تو ’’فَھُوَ مِنَ الْھَالِکِیْنَ‘‘ کہ وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہے۔
متن:
”جس شخص کا علم یقین کے ساتھ نہ مل جائے اور اس کا یقین خوف کے ساتھ اور خوف عمل کے ساتھ اور عمل ورع اور تقویٰ کے ساتھ اور اس کا ورع اخلاص کے ساتھ اور اخلاص مشاہدہ کے ساتھ نہ مل جائے، تو وہ شخص ہلاک ہونے والوں میں سے ہے“۔ اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ و آلہٖ و بارک و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ امت کے بارے میں اکثر خوف ان کے ضعفِ یقین کے بارے میں ہے۔ اور بزرگوں کا یہ مقولہ بہت مشہور ہے کہ یقین واثق سے بہتر کوئی دولت نہیں۔
تشریح:
یہاں پر ایمان کا نہیں فرمایا کہ ایمان کا خوف ہے۔ ان کا ایمان ہے۔ اور چونکہ ایمان غیب پر ہوتا ہے، لہٰذا ان کا ایمان بالغیب تو ہے۔ در اصل یہاں یقین کے بارے میں فرمایا ہے۔ یقین کون سی چیز ہے؟ یقین یہ ہے کہ جب کسی کا ایمان اس کی عقل کو یقین پر لے آئے تو اس کو یقین کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح نفس باغی ہے، اسی طرح عقل بھی بہت زیادہ کٹ حجتی کرنے والی ہے۔ یعنی نفس بغاوت کرنے والا ہے اور عقل کٹ حجتی کرنے والی ہے، اشکالات کرنے والی ہے، اور وساوس وغیرہ بھی عقل لاتی ہے۔ اب اگر کسی کا ایمان اس کی عقل کو convinced نہ کرے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو یقین حاصل نہیں ہوا۔ اگر اس کے ایمان نے یقین کی صورت اختیار نہیں کی، تو ایمان ہو گا، لیکن عمل وجود میں نہیں آئے گا۔ اگر اعمالِ صالحہ ایمان کے ساتھ ہی فطری طور ہر حاصل ہو جاتے، تو پھر ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ کے بعد ﴿وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾ نہ ہوتا۔ کیونکہ ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ کافی ہوتا۔ ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ کے ساتھ ﴿وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اعمالِ صالحہ کے لئے کچھ اور کرنا پڑے گا۔ یعنی یقین بہتر بنانا پڑے گا۔ یقین بنانے کے لئے یقین بنانے کی محنت ہے۔ اور وہ دو طریقوں سے ہے۔ اس میں دو طریقے slip ہونے کے ہوتے ہیں، انسان اس slip سے بچ جائے، تو یقین حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ دو طریقے یہ ہیں: ایک نفس کو آزاد چھوڑنا ہے، اور دوسرا یہ ہے کہ انسان دنیا کی محبت میں گرفتار ہو۔ گویا ایک دل کی بات ہے اور دوسری نفس کی بات ہے۔ اگر دل سے دنیا کی محبت نہ نکالی جائے اور نفس کو قابو نہ کیا جائے، تو یقین نہیں آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل میں دنیا کی جو محبت ہے، وہ عقل پہ چھا جائے گی۔ مثلاً: آپ نے کہہ بھی دیا کہ اللّٰہ سب کچھ کرنے والا ہے، لیکن دنیا کی محبت یہ کہے گی کہ کہیں یہ نہ ہو جائے، کہیں یہ نہ ہو جائے، ان باتوں سے یقین چلا جائے گا۔ پس یقین بنانے کے لئے ہمیں یہ دو محنتیں کرنی ہوں گی۔ ایک محنت یہ ہے کہ دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا اور دوسری یہ کہ نفس کو مجاہدہ سے قابو کرنا۔ نفس چونکہ باغی ہے، لہٰذا جب آپ مجاہدہ کرتے ہیں، تو اس سے نفس قابو میں آتا جاتا ہے۔ لیکن اس میں تدریج کا طریقہ ضروری ہے۔ ایک دن میں یہ نہیں ہو سکتا۔ جو مشائخ تدریج اختیار نہیں کرتے، کام ان کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے۔ اس لئے تدریج ضروری ہے، یعنی آہستہ آہستہ کرنا ہوتا ہے۔ یہی بات اگر سمجھ میں آ جائے کہ آہستہ آہستہ نفس کے اوپر قابو کر لو مجاہدات کے ذریعے سے، اور آہستہ آہستہ ذکر کے ذریعے سے اور مراقبات کے ذریعے سے دل سے دنیا کی محبت نکالو، تو ان چیزوں سے ما شاء اللّٰہ آہستہ آہستہ آپ مطلوبہ صورت کے اوپر آ جائیں گے اور آپ کو واقعی یقین حاصل ہو جائے گا۔ پھر یہ نہیں ہو گا کہ آپ کھوکھلی بات کریں۔ بات میں کھوکھلا پن نہیں رہے گا، بلکہ اس کے اندر اعتماد آ جائے گا۔ جیسے صحابہ کرام کے اندر اعتماد تھا، ان میں ڈگمگانے والی بات نہیں تھی، وہ پورے اعتماد کے ساتھ بات کرتے تھے کہ تمہیں جتنی شراب محبوب ہے، ہمیں اس سے بھی زیادہ موت محبوب ہے۔ یہ بات یہاں کا ہمارا کوئی شاعر بھی کہہ سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ حقیقت نہیں ہوتی۔ صحابہ کرام کے ساتھ حقیقت تھی۔ انہوں نے اپنے عمل سے اس کو ثابت کیا کہ یہ حقیقت ہے۔ اس لئے تین چیزوں کو قابو کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ جو آپ ﷺ نے فرمایا ہے، یہ ہمارے لئے بہت بڑی دلیل ہے۔ اسی وجہ سے آج کل لطیفۂ عقل پہ محنت بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ یقین لطیفۂ عقل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ یہ محنت اس لئے ہے، تاکہ ہم جو یقین کی کیفیت میں نہیں ہیں، یقین کی حقیقت کو پا لیں۔ اسی لئے بزرگوں کا یہ مقولہ بہت مشہور ہے کہ یقینِ واثق سے بہتر کوئی دولت نہیں۔
یقینِ محکم عملِ پیہم محبتِ فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
دیکھیں! اس میں بھی تین لطیفے ہیں: یقینِ محکم، یہ عقل کا لطیفہ ہے۔ عملِ پیہم، یہ نفس کا لطیفہ ہے۔ محبتِ فاتحِ عالم، یہ قلب کا لطیفہ ہے۔ اور یہ تینوں ذرائع ہیں۔
اب ان شاء اللّٰہ العزیز گیارواں باب شروع ہو رہا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی جملہ برکات عطا فرمائے۔ حضرت کی برکت سے یہ نعمتیں مل رہی ہیں۔
متن:
گیارھواں باب
قلب و روح کے بیان میں، اور اس سلسلے میں ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم
ہمارے حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ قلب و روح کی معرفت میں مکمل علم رکھتے تھے جب لوگوں نے سرور دو عالم ﷺ سے روح کے بارے میں سوال کیا کہ ﴿وَیَسْئَلْوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ...﴾ (الإسراء: 85) ”وہ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے اور سوالات کرتے ہیں“ تو رسول اللّٰہ ﷺ جانتے تھے اور چاہتے تھے کہ روح کے بارے میں اپنی زبان ترجمانِ حقیقت سے گوہرِ معانی کی گوہر افشانی فرمائیں، اسی وقت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے کہ رب بے نیاز نہیں چاہتے کہ عشق و محبت کا یہ راز کوچہ و بازار میں رسوا ہو۔
تشریح:
یعنی اس کو لوگوں کا کھیل نہیں بنانا چاہتے۔
متن:
فرمان صادر ہوا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ…﴾ (الإسراء: 85) ”ان کو فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے“ (بس یہ امر ہے) رسول اللّٰہ ﷺ کو پوری طرح سے روح کی معرفت حاصل تھی، چونکہ اس کا بیان کرنا قابلِ بیان نہ تھا، اس لئے حکم صادر ہوا کہ یہ ہمارے حوالے کیجیے۔ پس اے بھائی! جب طالب مطلوب اور محبوب کے مقام پر آ جائے تو معرفتِ روح کلی طور پر اُس پر منکشف اور ظاہر ہو جاتی ہے۔
تشریح:
(سبحان اللّٰہ! اللّٰہ تعالیٰ نے عجیب علم بھیج دیا ہے) سائنس کے اندر ایک لفظ ہے؛ resonance ۔resonance اسے کہتے ہیں کہ جس وقت دو چیزوں کی frequency ایک ہو جائے، یعنی Critical frequency آ جائے، تو resonance occur ہو جاتا ہے، یعنی جس frequency پہ چل رہا ہے، اس کے multiple آ جائے Two lim, Three lim آ جائے، تو وہ بہت بڑے amplitude کے ساتھ flactuate کرتا ہے۔ ہم کثیف ہیں اور روح لطیف ہے۔ ہم اپنے نفس کی خواہشات کی وجہ سے کثیف ہیں۔ چونکہ روح لطیف ہے، لہٰذا کثیف کا لطیف کے ساتھ کوئی parameter set نہیں ہو رہا۔ نتیجتاً ان پہ روح نہیں کھلے گی۔ جس وقت انسان نفسانیت کے دائرے سے نکل رہا ہو گا، کثافت سے لطافت کی طرف جا رہا ہو گا، تو جس وقت comparable لطافت اس کو حاصل ہو جائے گی، تو وہ روح کی frequency پہ آ جائے گا۔ جب روح کی frequency پہ آ جائے گا، تو روح خود ہی اپنے آپ کو دکھا دے گی کہ وہ کیا چیز ہے۔ اسی کو روحانیت کہتے ہیں۔ آج کل لوگوں نے روحانیت عملیات کو سمجھ لیا ہے۔ جو عملیات کا ماہر ہو، وہ اپنے ساتھ لکھتا ہے: ماہرِ روحانی امور یا ماہرِ روحانیت۔ حالانکہ وہ ماہرِ نفسانیت ہے۔ اس کا روحانیت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ وہ خود پیسے کے لئے بیٹھا ہوا ہے۔ روحانیت کدھر سے آئی۔ وہ پیسے کے لئے جھوٹ بھی بولتا ہے، پیسے کے لئے فراڈ بھی کرتا ہے۔ آج کل کے عاملین زیادہ تر یہی کرتے ہیں۔ لہٰذا روحانیت کہاں سے آ گئی۔ روحانیت اس وقت آتی ہے، جب روح کے comparable لیول پہ آ جائے، پھر روحانیت کا مفہوم کھلتا ہے، پھر روحانیت کی سمجھ آتی ہے۔ یہاں پر یہی بات ہے۔ آگے فرمایا:
متن:
پس اے بھائی! جب طالب مطلوب اور محبوب کے مقام پر آ جائے تو معرفتِ روح کلی طور پر اُس پر منکشف اور ظاہر ہو جاتی ہے۔
تشریح:
اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔
متن:
اور وہ رسول اکرم ﷺ کے مقام کو پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: "إِنِّيْ عَرَفْتُ رِجَالًا مِّنْ اُمَّتِيْ فِيْ لَیْلَۃِ الْمِعْرَاجِ مَقَامُھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ تَعَالٰی مَقَامِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) کہ میں نے معراج کی رات کو ایسے لوگ دیکھے جن کا مقام اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک میرے مقام جیسا ہے۔
تشریح:
جیسا ہے، یعنی برابر نہیں ہے۔ کیونکہ جیسا تو ہو سکتا ہے، برابر نہیں ہو سکتا۔
متن:
ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو مقامِ روح بالکل منکشف ہوا تھا، مگر تحریر میں نہیں لایا جا سکتا، اور اب اس کی مزید وضاحت کی جائے گی۔ پس اے بھائی! جب تمہارا نفس علم الیقین (جو کہ لکھا جائے گا) کے مقام سے قلب کے مقام کو آئے اور اس کے بعد دل بھی علم الیقین کے مقام سے عین الیقین کے اتھا سمندر میں آ جائے
تشریح:
عینُ الیقین سے مراد یہ ہے کہ مثلاً: ایک شخص ہے، جس کو صرف قرآن کے ذریعے سے پتا چلا، حدیث شریف کے ذریعے سے پتا چلا۔ یہ اس کو علمُ الیقین مل گیا۔ پھر اس نے قران اور حدیث پہ عمل شروع کر دیا اور اس عمل کے ذریعے سے اس پہ چیزیں کھلتی گئیں اور وہ چیزیں نظر آنے لگیں۔ نظر آنے سے مراد یہ ہے کہ بالکل ان کو محسوس ہونے لگا کہ یہ تو ہو رہا ہے۔ جو قرآن میں لکھا ہے، بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جو حدیث میں لکھا ہے، بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یعنی وہ صرف علم نہیں ہے، بلکہ اس کو محسوس ہونے لگا۔ تو یہ عینُ الیقین ہے۔
متن:
اور اس سمندر میں سے حق الیقین کے موتی حاصل کریں۔
تشریح:
حقُ الیقین سے مراد یہ ہے کہ بالکل ایسے ہو، جیسے قرآن کریم اس پر ہی نازل ہوا ہو۔ اور قرآن تو خود سب بتا رہا ہے۔ یہ حقُ الیقین کی کیفیت ہو جاتی ہے۔ اور جس وقت یہ کیفیت آ جائے، تو کیا ہو گا؟ یہی آگے بتایا ہے:
متن:
ان ابیات پر غور کرنا چاہئے تاکہ اس کا مفہوم واضح ہو جائے۔
؎ آنچہ من در کوئی جانان یافتم
کمترین از چیز های جان یافتم
چوں در افتادم به پندار بقاء
در بقاء خود را پریشان یافتم
چوں فرو رفتم به دریائے فنا
در فنا در فراوان یافتم
تا نہ پنداری کہ ایں دریائے ژرف
نیست دشواری من آسان یافتم
’’میں نے اپنے محبوب کو جو کچھ پایا، میں نے اور چیزوں میں ایسی روح نہیں پائی۔ جب میں بقاء کے خیال میں پڑ گیا، تو بقاء میں‘ میں نے اپنے آپ کو پریشان پایا اُور جب میں فنا کے دریا میں غوطہ زن ہوا، تو بہت زیادہ تعداد میں موتی پا لئے‘‘۔
یہ خیال نہ کرو کہ یہ گہرا اور اتھاہ سمندر دشوار نہیں اور میں نے اس کو آسانی سے پایا۔
مطلب یہ کہ جب یقین کے موتی تمہیں ہاتھ آئیں گے تو تمہارا دل مقامِ روح میں آ جائے گا۔
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیق کے مطابق جب انسان ذکر و مراقبہ کرتا ہے، تو اس پہ اللّٰہ جل شانہ چیزیں کھولتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ وہ مقامِ قلب میں آ جاتا ہے۔ پھر مقامِ قلب میں نفس اور روح آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی نفس نے روح کو پکڑا ہوا ہے، لہذا روح اوپر جانا چاہتی ہے اور نفس اس کو چھوڑ نہیں رہا۔ ایسی صورت میں سالک کو ریاضت اور مجاہدہ کے ساتھ روح کو نفس سے چھڑوانا ہوتا ہے۔ جب وہ اس میں کامیاب ہو جائے، تو قلب مقامِ روح میں چلا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ روح بن جاتی ہے۔ نیز نفس مقامِ عبدیت پہ چلا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ بندگی اختیار کر لیتا ہے، بات ماننے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت میں روح کو اللّٰہ جل شانہ کا جو قرب حاصل ہوتا ہے، تو چونکہ قلب روح بن چکا ہوتا ہے، لہٰذا وہ برزخ بن جاتا ہے۔ پھر وہ روح کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ سے لیتا ہے اور نفس کے ذریعے سے لوگوں کو دیتا ہے۔
متن:
اور اس کے بعد تمہاری روح ﴿مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) کے مقام تک رسائی حاصل کرے گی اور تمہیں عبودیتِ کاملہ نصیب ہو گی اور ربانیت ہاتھ آئے گی۔ ابوبکر دقاق رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ "اَلْفَرْقُ بَیْنِيْ وَبَیْنَ اللّٰہِ عُبُوْدِیَّۃٌ" یعنی میرے اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان فرق عبودیت ہے۔ پس اس مقام میں شیخ محمد حسین فرماتے ہیں کہ علماء کا خیال ہے کہ ہم بغیر قلب و روح کے ہیں جن کی ماہیت ہمیں معلوم نہیں، اور وہ کوئی چیز نہیں، لیکن آپ یہ جان لیں کہ جب آپ روح کے گوہر تک رسائی حاصل کریں گے، پس ہر گھڑی آپ کو صفتوں میں سے ایک صفت دکھائی جائے گی، یعنی آپ کی روح کی ستر ہزار صورتیں ہیں، اِن تمام شکلوں پر آپ اشکال دیکھیں گے، اور آپ خیال کریں گے کہ یہ وہ ہے مگر یہ وہی نہیں ہو گا بلکہ اس کی تجلیات ہوں گی۔ (اس کو تجلی کہتے ہیں۔)
بیت۔
؎ پرتو از عکس تو گر اُفتد روئے خاک
گردد از ہر ذرہ پیدا صد ہزاراں آفتاب
’’اگر آپ کا عکس مٹی پر پڑ جائے تو مٹی کے ہر ذرے سے لاکھوں سورج پیدا ہو جائیں گے‘‘۔
اے بھائی! تمام صورتوں کی تشریح کرنا شریعت میں قابل بیان نہیں۔ بیت۔
؎ در پردۂ شریعت اندر حجاب علم
شریعت بس بزرگ حکایت اگر کنم
’’شریعت علم کے پردوں اور حجابوں میں ایک بڑا راز ہے اگر میں اس کی تشریح کروں‘‘ (اور ان باتوں کے لئے ایک عمر چاہئے کہ انسان اس کو سمجھ پائے)
پس اے بھائی! جب تمہارے قالب اور جسم میں ”توئی“ (تو ہے) کی آمیزش کی گئی ہے اور تُو درحقیقت وہ لطیفہ ہے جو کہ حاصل قلب ہوتا ہے لیکن قلب لطیف ہے اور عالم علوی سے ہے، اور تمہارا قالب اور جسم کثیف ہے جو کہ عالم سفلی سے ہے۔ پس اے میرے عزیز! قلب اور قالب کے درمیان کوئی الفت اور مناسبت نہیں اور نہ ہو گی لیکن قلب اور قالب کے درمیان کوئی رابطہ یا واسطہ ہونا چاہئے تاکہ ان کے درمیان الفت قائم ہو۔ ﴿أَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ…﴾ (الأنفال: 24) ”اللّٰہ تعالیٰ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے“ قلب اور قالب کے درمیان، درمیانی واسطہ ہوتا ہے یہاں تک کہ دل کا جو حصہ ہوتا ہے اس لطیفہ کو بتاتے ہیں، اور وہ لطیفہ قالب کو بتاتے ہیں۔ اے عزیز! اگر قلب کو مجرد طور پر قالب میں سما اور جما دیتے تو قلب ہرگز قالب کے ساتھ قرار و اُنس کے ساتھ مربوط نہ ہو سکتا تھا، یعنی قالب نور میں پگھل جاتا۔ خود فرماتے ہیں کہ ﴿فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ…﴾ (الزمر: 22) ”وہ اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے نور پر ہے“ اگر تُو اچھی طرح خیال کرے تو یہ لطیفہ آدمی کی حقیقت ہے۔ (یہ لطیفہ جوارح ہے۔) پس اے محبوب! اس حقیقت قالب اور قلب کے درمیان واسطہ اور حائل کرنا، اس کی مثال ایسی ہے کہ قلب جبروتی ہے اور قالب مَلکی ہے، اور ملک و جبروت میں چاہئے کہ ملکوت جبروت کی زبان کا ترجمان ہو یعنی یہ ایسی بات ہے کہ ایک عجمی زبان بولنے والا عربی زبان نہیں سمجھتا، مگر وہ تب سمجھتا ہے کہ کوئی ایسا ترجمان درمیان میں ہو جو کہ عربی بھی سمجھے اور عجمی بھی سمجھے، یعنی کہ وہ عربی بھی ہو اور عجمی بھی ہو۔ پس اے بھائی! یہ بات معلوم ہو گئی کہ اِن ظاہری حواس خمسہ (پانچ خواص) کے علاوہ پانچ حواس معنوی و باطنی بھی ہیں جو کہ سب تمہاری سرشت میں رکھے گئے ہیں جو کہ مشاہدے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ پس اے عزیز! تم قلب ہو اور یہ لطیف فطرت اور سرشت جس کا ذکر کیا گیا، نفسِ قلبی اور روحی ہے۔ اے بھائی! رسول اللّٰہ ﷺ ایک طبیب حاذق تھے، وہ مصالح اور مفاسد پر کڑی نظر رکھتے تھے، اُنہیں اس کی ضرورت تھی، ان کو فرمان خداوندی ہوا کہ ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ...﴾ (الإسراء: 85) ”کہیئے کہ روح امر ربی میں سے ہے“ رسول اللّٰہ ﷺ نے ہر حال میں اِس کے اسرار کو ظاہر نہ ہونے دیا، وہ جانتے تھے کہ میری امت میں اس کے بارے تھوڑا سال حال اُن لوگوں کو بتایا جائے گا جو اس کے اہل ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ، اس آیت: ﴿أَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ...﴾ (البقرۃ: 248) ”آئے تمہارے پاس ایک صندوق کہ جس میں تسلی خاطر ہے تمہارے رب کی طرف سے“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ وہ سکینہ ہے جو کہ انبیاء علیہم السلام کے دِل کے تابوت میں اس جگہ تھا۔ پس اے عزیز بھائی! اس مقام پر "بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ" (الصحیح لمسلم، کتاب القدر، باب: تصریف اللّٰہ تعالٰی القلوب کیف شاء، رقم الحدیث: 2654) ”مؤمن کا دل اللّٰہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے“ کی طلب کر (یعنی دلِ مؤمن کی طلب کرو) تاکہ اللّٰہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان مقام پائے۔ اس مقام پر شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر "إِصْبَعَیْنِ" (دو انگلیوں) کے معنیٰ سے پردہ اٹھاؤں تو تمام لوگ شفا یاب ہو جائیں گے۔
آپ تھوڑی سی بات سن لیجیے کہ دل منظرِ الٰہی ہے، پس دل نگاہ و نظر کے لائق و اہل ہے، کیونکہ فرمایا گیا ہے: "إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ" (الصحیح لمسلم، کتاب البر و الصلۃ، باب: تحریم ظلم المسلم، رقم الحدیث: 2564) کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کی نگاہ و نظر تمہارے دلوں اور تمہارے احوال پر ہوتی ہے۔ جب دل اللّٰہ تعالیٰ کا منظر اور مرکز نگاہ و نظر ہوا تو جب تمہارا قالب اور جسم بھی دِل کی طرح ہو جائیں تو وہ بھی منظر الٰہی ہو جائیں گے۔
تشریح:
یعنی درمیان کا یہ سفر طے کرنا پڑے گا۔
متن:
اِس بات میں نکتہ یہ ہے کہ سالکوں کے دل مواصلت اور موانست کی تکالیف اپنے حصّہ میں برداشت کرتے ہیں، اور ان کے دل دوسرے عالم میں اور دو انگلیوں کے درمیان گردش کرتے ہیں۔ اور "إِصْبَعَیْنِ" (انگلیوں) سے مُراد یہی دو مقام (یعنی محبوب کے دل کی سکونت) ہیں، اور وہ دو انگلیاں ان کے دل کے سکون کا مقام ہیں۔ اور رسول اللّٰہ ﷺ نے اس لئے ”ہوا“ کے بارے میں بطور رمز بیان فرمایا ہے کہ "لَا تَسُبُّوا الرِّیْحَ…" (مسند الإمام أحمد، رقم الحدیث: 7407) "فَإِنَّھَا مِنْ نَّفْسِ الرَّحْمٰنِ" (لم أجد هٰذا الجزء من الحدیث) یعنی ہوا کو گالی نہ دو کہ یہ رحمٰن کے نفس سے ہے۔ یہ ہوا محبوبوں کے دلوں کو پھراتی ہے اور رحمٰن کون ہے؟ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہٰ: 5) ”وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا“ اور اے عزیزِ من اگر رحمان اپنا جمال اپنی مخلوق کو دکھاتا تو سب کو روشن اور منور کرتا کہ "قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ اللّٰہِ تَعَالٰی" (الموضوعات للصغانی، رقم الحدیث: 70) ”مؤمن کا دل خداوند تعالیٰ کا عرش ہے۔ سبحان اللّٰہ کیا ارفع مقام ہے۔ بیت ؎
ایں خانہ چہ خانہ است درو گنج نہاں است
از خواجہ بپرسید کہ ایں خانہ چہ خانہ مَست
گنج مست دریں خانہ کہ در کون نگنجد
ایں خانہ و ایں خواجہ ہمیں آں نہاں است
’’یہ گھر کیسا عالی شان گھر ہے کہ اس میں خزانہ پوشیدہ ہے، مالک سے پوچھیئے کہ یہ گھر کیسا قابلِ وقعت گھر ہے اس گھر میں ایسا خزانہ ہے کہ جو ساری کائنات میں سما نہیں سکتا یہ گھر اور اُس کا مالک دونوں نظروں سے پوشیدہ ہیں‘‘۔
تشریح:
اصل میں انسان کو اللّٰہ نے اپنا خلیفہ بنانے کا ارادہ بنایا: ﴿وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً﴾ (البقرہ: 30)
ترجمہ: ’’اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔
فرشتوں کو بات سمجھ نہیں آئی، ان کی نظر ان لوگوں پہ پڑ گئی، جو زمین میں فساد کریں گے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کیسے ہو گا؟ حالانکہ یہ یوں ہے، اور رب کے ذکر کے لئے ہم موجود ہیں۔ اللّٰہ پاک نے اس وقت وہ تفصیلات تو ان کو نہیں بتائیں، لیکن حاکمانہ طور پہ فرمایا: ﴿اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرہ: 30)
ترجمہ: ’’میں وہ باتیں جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے‘‘۔
بس بات ختم ہو گئی۔ جب ان کو اس بارے میں اللّٰہ پاک کے جلال کا پتا چل گیا، تو فوراً surrender کر لیا: ﴿قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ﴾ (البقرہ: 32)
ترجمہ: ’’وہ بول اٹھے کہ آپ ہی کی ذات پاک ہے۔ جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے، اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے۔ حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں‘‘۔
جب انہوں نے بات مان لی، تو اللّٰہ پاک نے حکیمانہ طور پر اس چیز کو ظاہر کر دیا۔ اس سے پتا چلا کہ جو آدمی surrender کر لے، اس پہ یہ چیزیں کھولی جائیں گی۔ اور جو آدمی surrender نہیں کرتا، اس پہ یہ چیزیں نہیں کھولی جاتیں۔ وہاں پھر حکومت چلائی جاتی ہیں اور اس کو ڈنڈے سے سیدھا کیا جاتا ہے۔ بہرحال! پھر اللّٰہ پاک نے حکیمانہ طور پہ کچھ باتیں دونوں کے سامنے کر دیں، جس میں علم تھا، جس کی استعداد انسانوں کو دی گئی ہے اور فرشتوں کو نہیں دی گئی ہے، جو کہ خلافت کے لئے ضروری ہے۔ وہ چیزیں اللّٰہ جل شانہ نے دونوں کو بتا دیں، اور پھر آدم علیہ السلام سے سوال کیا تو انہوں نے جوابات دے دیئے۔ فرشتوں سے بھی سوال کیا، مگر وہ جوابات نہیں دے سکے۔ اصل میں فرشتے اللّٰہ جل شانہٗ کے جلال و جمال کے مشاہدہ میں اتنے مستغرق ہیں کہ وہ ان باتوں پہ دھیان نہیں کر سکتے۔ وہ بس حکم کے غلام ہیں، جو کہا گیا، اس کے مطابق چل پڑتے ہیں۔ اور انسان سے چونکہ کام لینا تھا، اس لئے اس کے اندر یہ استعداد رکھی کہ وہ سوچ سکتا ہے، غور کر سکتا ہے، فیصلہ کر سکتا ہے۔ دونوں صورتیں ممکن ہیں۔ صحیح بھی سوچے گا، غلط بھی سوچے گا، صحیح غور بھی کرے گا، غلط غور بھی کرے گا۔ صحیح لوگ اس مقام پہ پہنچ جائیں گے، جس کے لئے انسان کو بنایا گیا ہے اور غلط لوگ اپنے آپ کو ضائع کر دیں گے اور اس کی سزا پائیں گے۔ چنانچہ اللّٰہ جل شانہٗ نے انسان کے اندر یہ صفات رکھی ہیں۔ لیکن وہ صفات کن چیزوں میں جکڑی ہوئی ہیں؟ وہ خزانہ کہاں ہے؟ اس خزانہ کی دریافت کے لئے، اس خزانہ کی معلومات کے لئے، انسان کو تین چیزوں پر محنت کرنی ہے: اول اپنے نفس کو قابو کرنا ہے، تاکہ وہ ان لوگوں میں نہ آئے جو محرومین ہوں گے۔ دوسرا اپنے دل پر محنت کرنی ہے، تاکہ وہ لطافت حاصل کر سکے، جو اس کے لئے ضروری ہے۔ تیسرا اپنی عقل پہ محنت کرنی ہے، تاکہ اسے وہ سمجھ اور فکر حاصل ہو جائے، جو اس کے لئے ضروری ہے۔ جب یہ محنت جد و جہد کے ساتھ جاری رہے گی، تو پھر اللّٰہ جل شانہٗ وہ خزانہ اس کو دیکھا دیتے ہیں، جس کے لئے اللّٰہ پاک نے اس کو پیدا کیا ہے۔ بس وہی معرفت ہے، وہی مشاہدہ ہے۔ مجاہدہ کے ساتھ مشاہدہ ہے۔ انسان جب تک نفس میں بندھا ہوا ہے، اس وقت تک وہ محجوب ہے۔ اس وقت تک اس کو پتا نہیں چل سکتا، اپنے آپ کا بھی پتا نہیں چل سکتا، دوسروں کا کیا پتا کرے گا۔ اس وقت یورپ کے اندر کم از کم غیر مسلموں کا جو لائف سٹائل ہے، کیا وہ انسانوں کا سٹائل ہے یا جانوروں کا ہے؟ بالکل سو فیصد جانوروں کا ہے۔ وہ انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ تو کیا خلیفہ فی الارض ہونے کے مستحق ہو جائیں گے؟ چونکہ وہ لوگ اپنے نفس کی وجہ سے اتنے محجوب ہیں، کہ ان کو سوائے کھانے پینے، عیش و عشرت اور آزادی کے کوئی اور چیز نظر ہی نہیں آتی۔ حتیٰ کہ کل ہی کسی نے مجھے ایک کلپ بھیجا ہے، اس کلپ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر سترہ سال کی ایک لڑکی شادی کرنا چاہے، تو وہ معیوب ہے، وہ نہیں کر سکتی۔ اور پندرہ سال کی لڑکی بوائے فرینڈ رکھ سکتی ہے، وہ معیوب نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شادی پہ اعتراض ہے، جنسی اختلاط پہ اعتراض نہیں ہے۔ اب بتائیے! عقل کدھر ہے؟ عقل تو گئی، ان کی عقل ختم ہو گئی ہے، ان کی عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ ان باتوں پہ سوچنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ جب آپ ان سے بات کریں گے، ان کا interior ذہن مان رہا ہو گا، لیکن ان کا تاثر آپ ان کے چہروں سے دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے وہ repel کر رہے ہیں کہ نہیں، نہیں۔ حالانکہ اندر سے مان رہے ہوتے ہیں، ان کو پتا لگ رہا ہوتا ہے۔ میں نے ان لوگوں کے ساتھ باتیں کی ہیں، ان کو پتا چل رہا ہوتا ہے، لیکن وہ reaction بھی نظر آتا ہے کہ نہیں، نہیں۔ مسلسل یہی چیز ہوتی ہے۔ ان کی زندگی اس چیز سے عبارت ہے۔ وہ جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا معاملہ اتنا خطر ناک ہے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں۔ جب ہم جرمنی میں تھے، جس گھر میں ہم تھے، وہ چوتھی منزل پہ تھا۔ چوتھی منزل کے لئے 72 سیڑھیاں ہیں، روزانہ کئی بار چڑھنا اترنا آسان تو نہیں تھا۔ ہم کوشش میں تھے کہ کسی گراؤنڈ فلور پہ چلے جائیں۔ عرب حضرات کے ذریعے سے الحمد للہ کام ہو گیا اور جگہ مل گئی۔ وہاں تین اپارٹمنٹ تھے، ایک ان کا تھا، ایک ہمارا ہو گیا اور ایک کسی جرمن عورت کا تھا۔ اسی طرح ہر منزل پہ تین اپارٹمنٹ تھے۔ ابھی ہم نے شفٹنگ کرنی تھی کہ وہ عرب ساتھی مجھے بتانے لگے کہ شبیر صاحب! آپ کو گراونڈ فلور پہ جگہ تو مل گئی، لیکن یہ عورت بڑی شیطان ہے، بہت تنگ کرتی ہے، آپ کو بھی تنگ کرے گی۔ میں نے کہا: ان شاء اللّٰہ مجھے تنگ نہیں کرے گی۔ وہ بڑے حیران ہو گئے کہ آپ کے پاس کون سی گیدڑ سنگی ہے کہ آپ کو تنگ نہیں کرے گی؟ خیر! جب ہم آگئے، تو چار پانچ دن ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ہی نہیں ہوا، وہ اپنے وقت پہ آتی جاتی، ہم اپنے وقت پہ آتے جاتے۔ لہذا کوئی درمیان میں interaction نہیں ہوئی۔ پھر وہ آئی، چونکہ کوئی رابطہ نہیں تھا، کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ میں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ایک کیک بنا دو۔ میرے ساتھ چھوٹی بچی تھی، اس وقت اس کی عمر تین، ساڑھے تین سال تھی۔ بچی کو میں نے کہا کہ جا کر گھنٹی بجا دو، اور جب وہ باہر آ جائے، تو اس کو کہو: شینک۔ (شینک وہ تحفہ کو کہتے ہیں) جیسے ہی اس نے گھنٹی بجائی، چونکہ وہ بچی چھوٹی سی تھی، تو اس نے کیک کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا۔ جب وہ باہر آئی، تو بچی نے کہا: شینک۔ وہ اتنی خوش ہو گئی کہ جیسے ناچنے کے لئے تیار ہو۔ اس نے سامنے دیکھا، تو ہم کھڑے تھے۔ اس نے کہا: یہ آپ کی بچی ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ مجھے کہنے لگی کہ تھوڑی دیر کے لئے یہ بچی دے سکتے ہو؟ میں نے کہا: جی بالکل۔ اور مجھ سے کہا کہ میں ضرور یہ کھاتی، لیکن میرا معدہ خراب ہے، لہذا یہ میں نہیں کھا سکتی۔ لیکن اس کے پاس جتنے کھلونے تھے، آگے پیچھے سارے جمع کر کے اس کے سامنے کر دیئے اور گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ اس کے ساتھ رہی۔ پھر اس نے بچی ہمارے حوالے کر دی، اور کہا کہ کبھی کبھی مجھے دے دیا کرو۔ مجھے پتا تھا کہ اس عورت کے بچے اٹھارہ سال کے ہو گئے، تو اس سے چلے گئے ہیں۔ اب اس کے پاس کوئی نہیں تھا، اکیلی تھی۔ یہی اس کی زندگی کا ناسور ہے۔ وہاں فیملی لائف نہیں ہے، فیملی لائف بالکل تباہ ہے۔ اس چیز سے بالکل ٹوٹ چکے ہیں۔ مجھے پتا تھا کہ یہ اس کی دکھتی رگ ہے، لہٰذا جب میں نے اس کو یہ کہا، تو وہ ہماری خادمہ بن گئی۔ وہ عرب ساتھی مجھے کہتے کہ یہ آپ نے اس پہ کون سا جادو کیا ہے؟ میں نے کہا: کوئی جادو نہیں کیا۔ اس بیچاری کی زندگی اجیرن ہے، بے حد تنہائی ہے۔ جیسے Michael jackson کتنا مشہور تھا، کتنے لوگ اس کے fans تھے، سارا کچھ تھا، لیکن وہ خود کہتا تھا کہ سب سے زیادہ تنہا دنیا میں میں ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو اس بات کا احساس تھا کہ لوگ اپنے آپ کو خوش کرنے کے لئے میرے پاس آتے ہیں، وہ میری خوشی کے لئے نہیں آتے۔ یہ میری مصیبتوں کو نہیں بانٹ سکتے، یہ تو صرف اپنے آپ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان کے لئے ایک کھلونا ہوں، میری حیثیت ایک کھلونے کی ہے، اس سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ بات اس پہ کھل چکی تھی، لہذا وہ کہتا تھا کہ میں دنیا میں سب سے زیادہ تنہا آدمی ہوں۔ یہ صرف Michael Jackson کا واقعہ نہیں ہے یا یہ صرف اس عورت کا واقعہ نہیں ہے۔ وہاں معاملہ ہی ایسا ہے۔ یہ میں اس لئے میں کہتا ہوں کہ اللّٰہ پاک نے ہمیں جو مسلمان بنایا ہے، ایمان کی جو دولت دی ہے، اس پہ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہئے۔ یہ بہت بڑی دولت ہے، جو اللّٰہ نے ہمیں دی ہے۔ گویا ایک barrier ہم cross کر چکے ہیں اور وہ barrier ایمان ہے۔ الحمد للہ اب ہم ان choosen لوگوں میں ہیں کہ اگر ہم قلب، روح اور نفس کے اوپر وہ محنت کر لیں، جو ہمیں مقامِ انسانیت تک لے جائے۔ جیسے فرمایا: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ﴾ (التین: 4) اور ہم اپنے رب کو پہچانیں۔ ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَهٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُٗ‘‘ (المقاصد الحسنۃ للسخاوی، ج 2، ص 78) یعنی اپنے آپ کو پہچان کر اپنے رب کو پہنچاننے لگیں اور پھر ہمارا قلب روح بن جائے اور نفس اللّٰہ کا بندہ بن جائے اور اللّٰہ پاک ہمیں خلافت کی ہدایت کی سند عطا فرما دے، تو بس یہی ہمارا کام ہے کہ ہم لوگ اپنی فطرت کو جانیں، اپنے آپ کو جانیں۔ جس کام کے لئے اللّٰہ نے ہمیں بنایا ہے، وہ کام کریں، اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ ہمارا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔ جو دو سال بعد آیا ہو، اس نے دو سال کا زمانہ ضائع کر دیا، وہ اب نہیں آ سکتا۔ اگرچہ توبہ کر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لیکن وہ جو دو سال میں نیکیاں کرنی تھیں، وہ وقت تو نہیں آ سکتا، وہ وقت تو چلا گیا۔ اللّٰہ ہم سب کو بچائے۔ کسی وقت کوئی گناہ میں مشغول ہے، تو وہ دو نقصان کر رہا ہے، ایک اس وقت وہ جو نیکی کر سکتا تھا، وہ نہیں کر رہا اور دوسرا وہ گناہ کر رہا ہے۔ توبہ سے وہ منفی والا کام تو ختم ہو جائے گا، زیرو پہ آ جائے گا، مگر زیرو سے plus پر آنے کا موقع یعنی وہ جو نیکی کر سکتا تھا، وہ تو ختم ہو گیا ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اپنے دل کو سنبھالو، اپنے نفس کو train کرو اور اپنی عقل کو فہیم بنا لو۔ حضرت شیخ عبد الواحد بن زید رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ’’عوارفُ المعارف‘‘ میں نقل کیا ہے کہ جب نفس قابو میں ہو، عقل فہیمِ سنت ہو اور دل صحیح کی طرف جا رہا ہو، تو یہی مطلوب ہے۔ پس ہمیں بھی ان چیزوں پہ محنت کرنی چاہئے کہ ہم جو اپنے وقت کو ضائع کر رہے ہیں، اس سے ہمیں اپنے آپ کو نکالنا چاہئے۔ میں آپ کو ایک اور بڑی خوش خبری سناتا ہوں۔ اللّٰہ پاک کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا ہے، لیکن ہمارے سامنے بزرگوں کی جو کتابیں رکھی ہوئی ہیں، یہ اتنی بڑی دولت ہے کہ ہم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ یہ وہ بزرگ ہیں، جنہوں نے الحمد للہ پوری زندگی اللّٰہ کے راستے میں گزاری ہے، محنت کی ہے، اور ان مقامات تک پہنچے ہیں کہ اللّٰہ پاک نے ان پر یہ چیزیں کھولی ہیں۔ اور ہم صرف ان کی کتابیں پڑھ کر یہ چیزیں حاصل کر لیں، تو کتنی بڑی نعمت ہے۔ جس طرح ایمان کے لئے ہم نے کوئی محنت نہیں کی ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان عطا فرمایا ہے، اسی طرح اس کے لئے بھی ہم نے محنت تو نہیں کی، صرف کتاب ہی پڑھ رہے ہیں اور اللّٰہ پاک حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے افکار عطا فرما رہے ہیں، حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے افکار عطا فرما رہے ہیں، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے افکار عطا فرما رہے ہیں اور شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے افکار عطا فرما رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی باتیں نہیں ہیں۔ آج کل کے دور میں اللّٰہ جل شانہٗ نے ہمیں ان نعمتوں سے جو سرفراز فرمایا، اس پر بہت شکر ادا کرنا چاہئے اور شکر سے نعمتیں بڑھتی ہیں۔ میں آپ کو ایک صاف بات بتاؤں۔ بہت سارے ساتھی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کبھی کبھی مجھ سے کہتے ہیں کہ جی میں آپ کی مجلس میں آؤں گا۔ گویا میرے اوپر احسان کر رہے ہیں۔ بھائی! کس کے لئے آؤ گے؟ میرے لئے آؤ گے؟ میرے لئے تو نہیں آؤ گے، اپنے لئے آؤ گے۔ یقیناً ہم رکاوٹ نہیں بنیں گے، اور ہمارے اندر یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ کم از کم ہم رکاوٹ نہ بنیں، لیکن کیا ہم آپ کی منت کریں گے کہ آپ آ جائیں۔ ہماری یہ ڈیوٹی نہیں ہے کہ منت کریں کہ آپ آ جائیں۔ ہاں! اللّٰہ کا شکر ہے، اگر اللّٰہ پاک نے یہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور یہاں بزرگوں کی تعلیمات بیان کی جا رہی ہیں اور اس سے اللّٰہ پاک کی جو نعمتیں وابستہ ہیں، وہ تقسیم ہو رہی ہیں، وہ ہم بھی حاصل کر رہے ہیں۔
؎ صدائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے
چنانچہ جو حضرات بھی تشریف لانا چاہیں، وہ تشریف لا سکتے ہیں اور اس میں شامل ہو سکتے ہیں، اس سے حاصل کر سکتے ہیں۔ پس کم از کم ہم رکاوٹ نہ بنیں، لیکن قسمت اپنی اپنی ہے۔ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ پشاور یونیورسٹی میں بیٹھے تھے، پشاور یونیورسٹی میں بہت سارے لوگ تھے، ہزاروں لوگ تھے، لیکن ان سے فیض جتنوں نے حاصل کیا، وہ ہزاروں میں تو نہیں تھے، وہ چند خوش نصیب ہی تھے، جنہوں نے حضرت سے فیض حاصل کیا۔ بعض دوسرے حضرات نے ان کو اچھا آدمی سمجھا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، یہ بھی نعمت تھی، کیونکہ مخالفین بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کو اچھا آدمی سمجھنے سے وہ چیزیں تو ان کو حاصل نہیں ہو سکتی تھیں، جب تک کہ وہ ان کے پاس آتے نا۔ لہٰذا یہ حضرات الحمد للہ ہمارے لئے بہت بڑی نعمت ہیں۔ ہمیں ان حضرات کی قدر کرنی چاہئے۔ در اصل معمولی معمولی چیزوں کی وجہ سے لوگ محروم ہو جاتے ہیں، اس سلسلے میں انسان بہت کمزور ہے۔ حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں میں اکثر اپنے رشتہ داروں کو بتایا کرتا تھا۔ حضرت بہت بڑے آدمی تھے، بہت بڑے اللّٰہ والے تھے، ایک عارف ان کو دیکھنے کے لئے آئے تھے۔ جب وہ عارف باہر آئے، تو مسلسل دیوار کو دیکھ رہے تھے۔ جو صاحب ان کو لے کر گئے تھے، وہ ان سے کہتے ہیں کہ جانا نہیں ہے؟ کہتے ہیں: جاتا ہوں۔ پھر انہوں نے کہا: آخر کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے: میں حیران ہوں کہ آج کل کے دور میں بھی کوئی اتنا بڑا بزرگ ہو سکتا ہے؟ چنانچہ جو جانتے تھے، ان کے یہ خیالات تھے، لیکن اپنے رشتہ داروں کا حال یہ تھا کہ جب حضرت فوت ہوئے، تو میں جنازہ پہ جا رہا تھا، ہمارے ایک کزن بھی ساتھ تھے، (وہ بھی فوت ہو چکے ہیں) وہ کہنے لگے کہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئے، کسی کو کچھ نہیں دیا۔ میں نے کہا: یہ نہ کہو، میں نے آپ لوگوں کو کہا تھا کہ ان کے پاس ہے، اس وقت آپ لوگوں کو بات سمجھ نہیں آئی۔ کوئی کہتا تھا: ڈائجسٹ پڑھنے والا ہے۔ کوئی کیا کہتا تھا، کوئی کیا کہتا تھا۔ اس وقت آپ لوگ اعتراض پہ اعتراض کر رہے تھے، اب بھگتو۔ وہ تو اپنی زندگی گزار کے چلے گئے، جنہوں نے لینا تھا، انہوں نے لے لیا۔ جو نہیں لے سکا، تو نہیں لے سکا۔ لوگ بس اعتراض کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، حالانکہ ڈائجسٹ میں ہر چیز تو غلط نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت فالج کے مریض تھے، وہ چل پھر نہیں سکتے تھے، آخر انہوں نے مطالعہ تو کرنا تھا۔ وہ عالم بھی تھے، اچھی بری چیز کو جانتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ حضرت اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، شاید اسی لئے حضرت نے ڈائجسٹ اپنے ساتھ رکھا ہو۔ مجھے کسی رشتہ دار نے کہا کہ حضرت ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔ میں حضرت کے ساتھ بہت بے تکلف تھا، میں نے کہا: حضرت! آپ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں؟ فرمایا: ’’یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ کسی کے گھر گیا ہوں، وہاں ٹیلی ویژن ہو اور میں اس سے اٹھ نہ سکا ہوں، کیونکہ معذور آدمی ہوں، جہاں بیٹھ جاتا ہوں، وہاں سے پھر اٹھ نہیں سکتا، بہرحال! اٹھنا میرے لئے آسان نہیں ہے، لیکن اپنے گھر میں تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ آپ کی پھوپھی نے کئی بار کہا ہے کہ بچوں کو اس کی ضرورت ہے، ادھر ادھر چلے جاتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ میں تو معذور ہوں، کچھ نہیں کر سکتا، اپنے عصا سے اس کا شیشہ توڑ سکتا ہوں، بار بار توڑوں گا، آپ لاتی رہیں گی، میں توڑتا رہوں گا‘‘۔ دیکھیں! لوگ کیا تصور کر رہے تھے اور حقیقت میں کیا بات تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگ تو بس اعتراض ہی کرتے ہیں، معمولی سی بات ہو گی، لیکن لوگوں کے لئے حجاب بن جاتی ہے۔ جب کہ آدمی سمجھتا ہے کہ ٹھیک ہے۔ خدا کے بندو! ایسے نہ کرو۔ مجھے کسی نے کہا فلاں آدمی اس طرح کرتا ہے، اس طرح کرتا ہے۔ میں نے کہا: میں نے اس کو بزرگ مانا ہے، پیغمبر تو نہیں مانا۔ وہ پیغمبر تو نہیں ہے، پیغمبر معصوم عن الخطا ہوتے ہیں۔ عام انسان تو معصوم نہیں ہوتے۔ اگر میں ان کو پیغمبر مانتا، تو آپ اعتراض کرتے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ یہ دیکھے۔ پچاس فیصد سے زیادہ پر Passing marks ہیں۔
﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ 0 فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ﴾ (القارعۃ: 6-7)
ترجمہ: ’’اب جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے، تو وہ من پسند زندگی میں ہو گا‘‘۔
’’ثَقُلَتْ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جن کا نیکیوں کا پلڑا اس کی برائیوں سے بھاری ہو جائے، یعنی 51 فیصد والا پچاس فیصد سے زیادہ ہو گیا، لہٰذا وہ پاس ہو گیا۔ اب اللّٰہ تعالیٰ تو اس کے ساتھ یہ معاملہ کرتے ہیں، لیکن تم کہتے ہو کہ جب تک سو فیصد نہیں لو گے، اس وقت تک میرے پاس نہ آنا۔ لہٰذا خود کو ہی نقصان دو گے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ