حضرت آدم علیہ السلام کی حقیقت اور اُسکے معنی کے بیان میں اور اس سلسلے میں حضرت صاحب کا علم

باب 10 ، درس 35

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مقامات اور ارشادات پر مشتمل کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ جو کہ صاحبزادہ حضرت گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تالیف کی ہے، اس سے تعلیم جاری ہے۔

متن:

اللّٰہ رب العزت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نصیحتًا فرمایا کہ "تَقَرَّبْ إِلَيَّ بِعَدَاوَۃِ نَفْسِکَ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”اپنے نفس کی مخالفت کر کے میرا تقرب اور نزدیک حاصل کرو“ یعنی اپنے نفس کی مخالفت کرنا اللّٰہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے۔

تشریح:

اس کی وجہ یہ ہے کہ نفسِ امّارہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتا ہے: ﴿وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ (یوسف: 53)

ترجمہ: ’’اور میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے، واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے، ہاں میرا رب رحم فرما دے تو بات اور ہے (کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا)‘‘۔

نفسِ امارہ کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ برائی کی طرف مائل کرنے والا ہے۔ اور برائی اللّٰہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہے۔ ریاضی کا قانون ہے کہ منفی کو جب منفی سے ضرب دیا جائے تو مثبت نتیجہ آتا ہے۔ اس قانون کے لحاظ سے اس بات کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ چونکہ نفس اللّٰہ سے دور لے جاتا ہے، تو اس دور لے جانے کی صفت کی مخالفت کر کے اللّٰہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل عام فہم بات ہے، کوئی زیادہ گہرائی کی بات نہیں ہے۔

متن:

بیت:

؎ وسوسۂ تن گذشت غلغلۂ جان رسید

مور فروشد بگور خیز سلیمان رسید

چند مخنث نژاد دعویٰ وحدت کنند

جان خدا خوان بمرد جان خدا دان رسید

دزد کہ باشد برفت شحنۂ ایمان رسید

شحنۂ کہ باشد بگو چون شہ و سلطان رسید

’’جسم و تن کے خیال و فکر اور وسوسہ کا وقت گذر گیا، اب روح کے جوش و خروش اور غلغلے کا وقت آن پہنچا۔ چیونٹی قبر میں اندر گھس گئی، اُٹھ جائیے کہ سلیمان آن پہنچے۔

تشریح:

یہ سلیمان علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ چیونٹی نے جب دوسری چیونٹیوں کو آواز دی تھی تو انہوں نے اس کو سن کر تبسم فرمایا تھا۔

متن:

چند ہیجڑے اور مخنث لوگ وحدت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ خدا خدا کرنے والا تو مر گیا اب خدا کو پہچاننے والا آں پہنچا۔ چور کی کیا حیثیت ہے اب تو ایمان کا کوتوال آن حاضر ہوا ہے، کوتوال ہی کیا ہے اعلان کیجیے کہ بادشاہ اور سطان آن پہنچا ہے‘‘۔

تشریح:

یہ وسوسۂ تن کی طرف اشارہ ہے: وسوسۂ تن گذشت غلغلۂ جان رسید۔ یعنی جسم و تن کے خیال و فکر اور وسوسہ کا وقت گزر گیا۔ یعنی جس وقت آپ تصوف کی طرف آ گئے، روحانیت کی طرف آ گئے تو آپ نے نفسانیت کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا، جب نفسانیت کو چھوڑنے کا ارادہ کیا ہے تو اب روحانیت کا جوش و خروش آگے آئے گا۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو فقط دعویٰ کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 2) یعنی جو تم کرتے نہیں ہو، اس کا دعویٰ کیوں کرتے ہو۔ آج کل چونکہ تن پرستی ہے، تو تن پرستی کے لئے، شہرت کے لئے، دنیا کے مقاصد یا مفادات کو حاصل کرنے کے لئے دین کو بھی ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ یعنی دین کا لبادہ اوڑھ کر دنیا داری کی جاتی ہے۔ چاہے وہ علمی لحاظ سے ہو کہ عالم بن کر جاہل ہو اور جہل پھیلا رہا ہو، یا وہ صوفی نہ ہو، لیکن صوفیوں کا لبادہ اوڑھ کر اپنی طرف سے باتیں بنا رہا ہو۔ اس میں پھر وہ باتیں زیادہ کی جاتی ہیں، جن کو عوام اتنا نہیں جانتے۔ ایک دفعہ ایک بادشاہ نے سائنس دانوں سے کہا کہ زمین کا مرکز معلوم کرو، اور جو زمین کا مرکز معلوم کرے گا، میں اس کو انعام دوں گا اور جو نہیں کر سکے گا، اس کو سزا بھی ہو گی۔ کوئی سامنے آنے کی جرأت نہیں کر رہا تھا۔ ایک سائنس دان آیا، اس نے کہا: میں معلوم کر لوں گا۔ انہوں نے کہا: کیسے؟ کہا: میرے ساتھ آئیں، میں آپ کو دیکھاؤں۔ اس نے پہلے سے کسی کھائی میں ایک گلہ گھاڑ رکھا تھا۔ بادشاہ کو دشوار گزار راستوں سے گزار گزار کے وہاں پہنچایا اور کہا کہ یہ زمین کا مرکز ہے۔ انہوں نے کہا: کیسے؟ کہا: جو اس کا انکار کرے، ثبوت اس کے ذمہ ہے۔ وہ ثابت کرے کہ یہ مزکر نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ کون ثابت کر سکتا ہے۔ کیونکہ واقعتاً ہر پوانٹ زمین کا مرکز ہے اور باقی زمین اس کے ارد گرد ہے، اس لئے کہ زمین گول ہے۔ ایک ہوتا ہے؛ سرکل میں گول ہونا، جو چیز سرکل میں گول ہوتی ہے، اس میں تو کوئی ایک پوانٹ ہی ہوتا ہے۔ لیکن جو چیز shape میں گول ہوتی ہے، اس کا کوئی ایک پوانٹ ہی مرکز نہیں ہوتا کیونکہ وہاں تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا۔ لہذا اگر surface کے اوپر کوئی پوانٹ لے لیں تو ہر پوانٹ کے ارد گرد باقی دنیا ہے۔ لہذا اس کو رد تو نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ایسی چیزیں جو کہ ثابت نہیں کی جا سکتیں یا جن کے بارے میں پتا نہیں کیا جا سکتا اور جن کے بارے میں کوئی ان کو نہیں پکڑ سکتا، ایسے لوگ ان میں بڑے ہی بے باک ہوتے ہیں۔ چنانچہ وحدت الوجود کی جو باتیں ہیں، ان میں بہت سے لوگوں نے شور مچایا تھا، کرتے اپنی مرضی تھے اور نام لیتے تھے وحدت الوجود کا۔ تو ’’ہیجڑوں اور مخنثوں‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے، ہیجڑوں اور مخنثوں سے مراد ہے کہ ان میں یہ ہمت نہیں ہے کہ دنیا کو چھوڑ سکیں، دنیا تو پوری ایک بلا ہے، اس کو چھوڑنا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے، اس کے لئے تو بڑے جواں مرد چاہئیں۔ کہتے ہیں کہ کسی نے کشفی صورت میں دنیا کو دیکھا تو باکرہ (کنواری) تھی۔ اس نے اس سے کہا کہ ابھی تیری شادی نہیں ہوئی؟ دنیا نے کہا: جو میری شادی کے لائق ہیں، وہ میری طرف دیکھتے بھی نہیں ہیں، اور جو میری طرف دیکھتے ہیں، وہ کسی لائق نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ معاملہ اسی طرح ہی ہے۔ بہر حال! مراد یہ ہے کہ چند ہیجڑے اور مخنث لوگ آج وحدت وحدت کی باتیں کر رہے ہیں، حالانکہ ان کو کیا پتا کہ وحدت کیا چیز ہے۔ کیونکہ یہ تو ایک کیفیت ہے اور ان کو یہ کیفیت حاصل ہی نہیں ہے۔ لہٰذا جس نے وحدت کو فلسفہ بنا لیا، وہ زندیق ہو گیا۔ یہ بات میں بہت پہلے عرض کرتا تھا۔ اور جو وحدت الوجود کی کیفیت حاصل کر لیتا ہے، وہ کچھ بن سکتا ہے۔ تو اصل بات یہی ہے کہ جو لوگ دعویٰ کرنے والے ہیں، وہ دعویٰ کے لائق نہیں ہیں۔ اسی لئے ان کو ہیجڑے اور مخنث کہا گیا ہے۔

متن:

علمائے ظاہر نے یہ سمجھا ہے کہ علم بس یہی ہے جو ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللّٰہ نے فرمایا ہے، وہ زمانے بھر کے سب سے بڑے ناسمجھ ہیں، کیونکہ ؎

عشق را بو حنیفہ درس نہ گفت

شافعی را درو روایت نیست

حنبل از سیر عشق بے خبر ست

مالک را درو روایت نیست

تشریح:

یہ اس طرف اشارہ نہیں ہے کہ ان کے پاس یہ چیزیں ہیں ہی نہیں۔ یہ تو ان حضرات پہ بہت بڑا بہتان ہو گا، جنہوں نے یہ لکھا ہے۔ اصل میں یہ اس کے حوالے سے بات کرتے ہی نہیں تھے۔ بلکہ جس وجہ سے وہ مشہور ہیں، وہ علمِ ظاہر تھا۔ یقیناً انہوں نے علمِ ظاہر میں بہت بڑی خدمات انجام دی ہیں، لیکن یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جو علمِ ظاہر والے علمِ باطن کو کچھ نہیں سمجھتے، یہ ان کو بتانے کی بات ہے۔ اور جو علمِ ظاہر والے علمِ باطن بھی رکھتے ہیں، ان کے لئے تو یہ بات ہے ہی نہیں۔ کیونکہ ان کی دو حیثیتیں ہیں: علم ظاہر کے لحاظ سے ان کی علمِ ظاہر کی حیثیت ہے اور علمِ باطن کے لحاظ سے علمِ باطن کی حیثیت ہے۔ بہت سارے حضرات ایسے ہیں جو صوفیاء تھے، لیکن علماء مشہور ہوئے، جن میں چاروں ائمہ حضرات بھی ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ یہ ما شاء اللّٰہ بڑے صوفیا تھے، کوئی چھوٹے صوفی نہیں تھے۔ بلکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تو باقاعدہ نعمانیہ سلسلہ ہے، اور ہم بھی اس سلسلہ میں ہیں۔ آپ حضرات حیران ہوں گے کہ ہم اس سلسلہ میں کیسے ہیں! کیونکہ شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس سلسلہ کے امین تھے، یعنی یہ سلسلہ وہاں تک پہنچا تھا اور وہ ہمارے سلسلہ میں بھی ہیں۔ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے اوپر چودہ سلسلہ جمع ہوئے تھے، ان میں سے ایک نعمانی سلسلہ بھی ہے۔ تو اس لحاظ سے ہم بھی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سلسلہ میں ہیں۔ اس طرح امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سلسلہ میں بھی ہیں۔ وہ ایسے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت صدر الدین مرغشی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خلیفہ ہیں، اور حضرت صدر الدین مرغشی رحمۃ اللّٰہ علیہ مشائخِ چشت میں سے ہیں۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’مشائخِ چشت‘‘ میں حضرت کا تذکرہ ہے۔ یہ وہ بزرگ ہیں، جن کے سامنے جنت موت کے وقت سجا کے پیش کی گئی تھی، تو انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا: یا اللّٰہ! اگر یہ میری ساری عمر کا حاصل ہے تو میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی۔ چنانچہ وہ Third category میں تھے۔ تو پھر ان کے سامنے سے جنت کو ہٹا دیا گیا اور پھر ان پہ تجلی ہوئی اور اسی میں فوت ہو گئے۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ گویا کہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پیر بھائی تھے۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پیر بھائی ہیں۔ یہ دونوں امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خلفاء ہیں۔ البتہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو حضرت انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے بھی خلافت حاصل تھی، بلکہ تین حضرات سے خلافت حاصل تھی۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت امام مالک اور جنید بغدادی رحمہما اللہ سے ایک درجہ اوپر یعنی صحابی سے خلافت حاصل تھی۔ ۔ بہرحال! یہ مشائخ بھی تھے، لیکن ان کی مشیخت ظاہر نہیں ہوئی، اسے انہوں نے ذرا low profile پہ رکھا تھا۔ لیکن ان کا علم بڑا ظاہر تھا، اپنے وقت کے امام تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ صوفی تھے، تبھی تو ان کو ان کے استاد صوفی کہتے تھے۔ یحییٰ بن معین رحمۃ اللّٰہ علیہ بڑے محدث گزرے ہیں بکہ ائمۂ اسماء الرجال میں سے ہیں۔ یعنی ان کا فتویٰ حدیث پہ نہیں، محدثین پہ چلتا تھا اور یہ محدثین کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ ٹھیک نہیں اور یہ ٹھیک ہے، یہ ثقہ ہے، یہ کذاب ہے۔ وغیرہ ذلک۔ حضرت یحییٰ بن معین رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ، دونوں حدیث میں ایک استاد کے شاگرد ہیں۔ لیکن تصوف میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پیر بھائی ہیں اور اتنے واضح تھے کہ استاد بھی ان کو صوفی کہہ کے پکارتے تھے، گویا اپنے وقت کے صوفی تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ بشر حافی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مجلس میں جایا کرتے تھے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ حضرت! آپ کیوں ان کی مجلس میں جاتے ہیں؟ آپ تو خود امامِ وقت ہیں۔ انہوں نے یہ جواب دیا کہ میں اس لئے ان کی خدمت میں جاتا ہوں کہ میں عالم بالقرآن ہوں گا، یہ عارف باللّٰہ ہیں۔ اور اپنے بیٹے سے فرمایا تھا کہ ہر شخص اپنے فائدے کے لئے کوئی کام کرتا ہے، میں ان کی مجلس میں اس لئے جاتا ہوں کہ مجھے وہاں جا کر عمل کی توفیق ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہ حضرات بڑے اللّٰہ والے تھے، مشائخ تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اس چیز کو آگے نہیں بڑھایا، بلکہ انہوں نے ظاہر علم کو آگے بڑھایا ہے۔ لہٰذا یہاں یہ اشعار اس معنی میں ہیں کہ انہوں نے یہ کام نہیں کیا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس کے اہل نہیں تھے یا وہ یہ کر نہیں سکتے تھے۔ ان اشعار کا مطلب یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے عشق کا درس نہیں دیا۔ امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کی روایت نہیں کی۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ عشق کے رموز و اسرار سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ ان کا اپنا خیال ہے اور امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کی کوئی روایت نہیں کی۔ یہ روایت والی بات تو کم از کم صحیح ہے، کیونکہ ان حضرات نے اس طرف توجہ نہیں فرمائی۔ کوئی حکمت ہو گی، اور یقیناً حکمت یہی ہے کہ کوئی شخص اتنا بڑا کام فل ٹائم ہی کر سکتا ہے، پارٹ ٹائم نہیں کر سکتا۔ اس لئے یا یہ کرتے یا وہ کرتے۔ جیسے: مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے مفتی تھے، اکابرینِ افتاء میں سے تھے۔ پہلے یہ شیخ جلال الدین بلخی کے نام سے جانے جاتے تھے، مولانا رومی کے نام سے تو بعد میں مشہور ہوئے۔ چنانچہ لوگ ان کو مفتی سمجھتے ہی نہیں تھے، حالانکہ فتویٰ کا کام آخر عمر تک جاری رکھے ہوئے تھے، جب فوت ہوئے تو اس وقت آخری عمر میں بھی ایک فتویٰ پر دستخط کئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کا فتویٰ اتنا مشہور نہیں ہوا۔ ان کی مثنوی نے ان کے اس رنگ کو زیادہ دکھا دیا۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔ سبحان اللّٰہ! اسی طرح امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے عالم تھے، ان کا ابتدائی دور سارا کا سارا علمی ہے، تصوف کی طرف تو بعد میں آئے ہیں۔ اور پھر ایسے آئے کہ وہ رخ پیچھے ہو گیا۔ انہوں نے جو اتنی ساری کتابیں لکھی ہیں، ان میں زیادہ تر مشہور کتابیں تصوف کے رخ پہ ہیں۔ اور حضرت امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اگر سلوک کا ترجمان کہیں، تو بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ جتنا انہوں نے سلوک کو بیان کیا ہے، اتنا شاید ہی کسی نے بیان کیا ہو۔ احیاء العلوم میں اور دوسری کتابوں میں انہوں نے تصوف کو بہت زیادہ بیان کیا ہے۔ گویا یہ سلوک کے بڑے ماہرین میں سے تھے۔ چنانچہ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ’’خطبات الاحکام‘‘ میں جو باون خطباتِ جمعہ ہیں، وہ سب حضرت امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’تبلیغِ دین‘‘ سے لئے گئے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس میں خود فرمایا ہے۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ فنِ سلوک کے امام تھے اور حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ جذب کے ترجمان ہیں۔ یعنی جذب کو حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بہت بیان کیا ہے۔ اور ان دنوں حضرات کا دور قریب قریب تھے۔ بہرحال! بعض حضرات تصوف میں مشہور ہوئے اور بعض علمی رنگ میں مشہور ہوئے، لیکن یہ دونوں چیزوں کے جامع تھے۔

متن:

حضرت صاحب شیخ رحمکار رحمۃ اللّٰہ علیہ معرفتِ حق کا ایک آئینہ تھے اور لوگ جو کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ارادت کو پیر کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے وہ یہی بات کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ نے اللّٰہ تعالیٰ کو مصطفیٰ ﷺ کی جان پاک سے حاصل کیا اور اسی مفہوم کے ذریعے اوامر و نواہی کی معرفت اُن کے دل مبارک پر القا ہوئی۔ پس رسول پاک ﷺ کی روح مبارک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے لئے ایک آئینہ تھی جس میں اُنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھا۔ یہی معنیٰ اس بات سے لازم ہوتا ہے کہ کہا جائے کہ خدا پیر کی جان میں ہے۔

تشریح:

اصل میں یہ ساری باتیں اعتباری ہیں، تصوف کی باتیں اکثر اعتباری ہوتی ہیں، اسی لئے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ در اصل اعتباری چیز اور ہوتی ہے۔ اعتباری یا جس کو ہم relevant کہتے ہیں، اعتباری چیز کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی اصل چیز کے پاس ایک دوسری چیز ایک اعتبار سے لے آئیں۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا جو پہلا مکتوب شریف ہے، جس میں انہوں نے عورتوں کے بارے میں بات کی تھی کہ میں ان سے بڑا مرغوب ہوا کہ اللّٰہ جل شانہ کی طرف ان میں بعض چیزوں کا ظہور ہوا ہے۔ اس پر تشریح کرنے والے نے ایک حدیث شریف بیان کی تھی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تین چیزیں زیادہ پسند ہیں: عورتیں، عطر اور نماز۔ اور نماز کو اللّٰہ تعالیٰ نے میرے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا ہے۔ اس پر کسی نے اعتراض کیا تھا کہ انہوں نے یہ باتیں کیوں کی ہیں؟ مجھ سے انہوں نے یہ بات پوچھی، تو میں نے اس کا جواب دیا تھا۔ اس کو ذرا سن لیں:

جو لوگ عورتوں کی محبت پر سیخ پا ہو رہے ہیں، وہ دو غلطیاں کر رہے ہیں: ایک تو یہ کہ وہ انبیاء اور اولیاء کو اپنے اوپر قیاس کر رہے ہیں، اور عورتوں کے بارے جو ہماری سوچ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی سوچ بھی ویسی ہی ہو گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی حکمتوں کا ادراک نہیں کر پا رہے۔ یہ تو حدیث شریف کی بات تھی۔ قرآن کی بھی سن لیں: ﴿هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرہ: 187) دوسری آیت ہے: ﴿جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا (الفرقان: 47) اور تیسری آیت ہے: ﴿وَلِبَاسُ التَّقْوٰى (الاعراف: 26) پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ تمھارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ ہم نے رات کو لباس بنا دیا اور تیسری آیت میں تقویٰ کو لباس کہا گیا ہے۔ اب ایک با حیا شخص کے لئے لباس سے بڑھ کر کیا چیز ہو گی؟ عورتیں اگر مرد کے لئے لباس ہیں، تو کیا وہ ان کے تقویٰ کی حفاظت نہیں کریں گی؟ لہٰذا عورت عفت کا ذریعہ ہے۔ اور دوسری آیت میں ہے کہ لباس آرام کا قرینہ ہے۔ ﴿جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا (الفرقان: 47)۔ آرام کرنا کام کرنے کے لئے کتنا ضروری ہے؟ عورت اور مرد کو اللّٰہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ ان میں ایک دوسرے کی زندگی کو با آرام، فرحت بخش اور با حیا بناتا ہے، اگر جائز طریقے سے ہو۔ اور انبیاء اور اولیاء کے بارے میں نا جائز کا تصور کتنا گندہ ہے؟ اس لئے پاک لوگ تو ایسا نہیں کر سکتے۔ البتہ گندے لوگوں کو دیکھ کر پاک لوگوں کے بارے میں وہی رائے نہیں قائم کی جا سکتی۔ باقی! حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو بات کی ہے، وہ حضرت کا ایک حال ہے، جو وہ اپنے شیخ کو بتا رہے ہیں کہ اسمِ ظاہر کا ظہور اس ذریعے سے ہوا ہے، یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے عورت کے ذریعے اپنی صفتِ ظاہرۃ کو ظاہر کیا ہے کہ اس کے اندر مرد کے لئے کیسی طلب رکھی ہے جو کہ تینوں لطائف یعنی نفس، قلب اور عقل کو متاثر کر لیتی ہے۔ یعنی تینوں پر اس کا اثر ہے۔ یہ اصل میں اس تجلی کا اثر ہے، جو کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لباس اور سارے اعضاء پہ ڈالی ہے۔ پس حضرت اس تجلی کا ذکر کر رہے ہیں، جو عورتوں پہ ڈالی گئی ہے۔ وہ تو عورت کا ذکر نہیں کر رہے۔ عورت سے ایک عام آدمی کے متاثر ہونے میں اور عارف کے متاثر ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ عام آدمی کے لئے آزمائش ہے اور عارف کے لئے معرفتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اسی چیز کو نہ سمجھنے سے بعض لوگوں کو مسئلہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ایسے لوگ خود جانتے نہیں اور جو جانتے ہیں، ان کی مانتے نہیں۔ بہر حال! یہ ساری اعتباری باتیں ہیں۔ ہر آیت کی تفسیر کریں گے، تو علیحدہ علیحدہ ہے، لیکن جب آپ ان کو آپس میں لنک کرتے ہیں، تو ایک کا اعتبار دوسرے کے ساتھ ہے۔ اور وہ اعتبار لباس کا ہے کہ عورت لباس ہے مرد کے لئے اور مرد عورت کا لباس ہے۔ اور پھر لیل (رات) کو بھی لباس کہا گیا ہے، یہ بھی تو اعتبار ہی ہے۔ اور لباس تقویٰ کو بھی کہا گیا ہے۔ گویا اس چیز نے تینوں کو اعتباری طور پر لنک کر دیا ہے۔ اس سے ہم ایک اور نتیجہ نکال لیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ صوفیاء کرام چونکہ معرفت کے ساتھ deal کرتے ہیں یعنی چیزوں کی معرفت بیان کرتے ہیں، اس کے لئے اس چیز کی بہت ضرورت ہے۔ اور اگر کسی نے اس پہ مزید مطالعہ کرنا ہو تو شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتابیں اس کے لئے بہت اکسیر ہیں۔ کیونکہ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اعتباری باتوں پہ بہت کام کیا ہے۔ اور ان باتوں پہ معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اور حضرت نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ سب کے لئے ضروری نہیں ہے، لیکن جو کر سکتے ہیں، ان کے لئے بہت مفید ہے۔ اور جو نہیں کر سکتے، ان کے لئے معاف ہے کیونکہ ان کی اس حوالے سے استعداد ہی نہیں ہے۔ مثلاً: اگر کوئی بیس کلو وزن اٹھا سکتا ہے، دوسرا دس کلو وزن اٹھا سکتا ہے، تو اگر کام کی ضرورت پڑ گئی تو دس کلو والے کو تو نہیں کہا جائے گا کہ آپ بیس کلو وزن اٹھاؤ۔ کیونکہ اس کی استعداد ہی نہیں ہے، اس لئے اس سے مطالبہ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ اگر اس بات کو دیکھا جائے تو صوفیاء پہ کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ لیکن اس اعتباری چیز کو نہ جاننے کی وجہ سے لوگ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے متعلق جو بات کی گئی ہے، وہ بھی ایک اعتباری بات ہے۔ اس میں بھی direct بات نہیں ہے۔ اعتباری بات ہے، اسی وجہ سے ممکن ہے کہ لوگ پریشان ہو سکتے ہوں۔ تو یہاں جو کہا گیا ہے: ’’اللّٰہ تعالیٰ کی ارادت کو پیر کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے‘‘۔ یہ بھی ایک اعتباری بات ہے، کیونکہ حقیقی معنوں میں اللّٰہ جل شانہٗ کو دیکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ﴿لَنْ تَرٰٮنِیْ﴾ (الاعراف: 143)

ترجمہ: ’’تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکو گے‘‘۔

چنانچہ اس دنیا میں حقیقی معنوں میں تو اللّٰہ کو ان آنکھوں سے دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ جیسے حدیث شریف میں بھی آیا ہے: ’’أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 50) یعنی دیکھنے کی طرح کی کیفیت حاصل ہو سکتی ہے کہ جیسے دیکھنے سے جو کیفیت حاصل ہو سکتی ہے، وہ بن دیکھے اگر کوئی حاصل کر لے کسی وجہ سے، تو یہ وہ چیز ہے۔ اگر پیر کامل ہو اور مرید طالب ہو تو اس کے لئے پیر ایسا ہی ہو جائے گا۔ یعنی شیخ کی معرفت منتقل ہو جاتی ہے، (اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بڑی اچھی بات آ گئی ہے) کہ شیخ کی معرفت اس کے مرید کے لئے آئینہ ہے، مرید اس معرفت کو دیکھ لیتا ہے اور اس سے لے لیتا ہے۔ اور اس پیر نے یہ معرفت اپنے پیر سے لی ہے، اور اس پیر نے آگے اپنے پیر سے لی ہے اور پھر اس نے اپنے پیر سے لی ہے، یوں اوپر جاتے جاتے آپ ﷺ تک سلسلہ پہنچ جاتا ہے۔ جب آپ ﷺ سے لی ہے تو اس پہ کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا آپ ﷺ کو جو معرفت حاصل تھی، وہ صحابہ کرام کو منتقل ہو گئی، صحابہ کرام سے تابعین کو منتقل ہو گئی، تابعین سے تبع تابعین کو منتقل ہو گئی، پھر اس کے بعد افراد سے افراد کو منتقل ہوتی رہی، یعنی سلسلے بن گئے۔ یہی وہ چیز ہے، جو ہمارے آٹھ اصولوں میں چوتھے نمبر پر ہے، جسے ہم کہتے ہیں کہ ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ کی صحبت تک پہنچتا ہو۔ کیونکہ وہ وہی معرفت حاصل کر رہا ہے، وہ معرفت کتابوں سے حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ کیفیت کتابوں سے حاصل نہیں ہو سکتی، یہ نا ممکن ہے۔ کیفیت صاحبِ کیفیت سے حاصل ہو گی، حال صاحبِ حال سے حاصل ہو گا۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہی بات فرمائی ہے:

؎ قال را بگذار مرد حال شو

پیشِ مردِ کاملے پامال شو

یعنی قال کو ایک طرف رکھ دو۔ گویا فرما رہے ہیں کہ میں جو بات کر رہا ہوں، یہ قال کی بات ہے ہی نہیں، یہ حال کی بات ہے۔ پس اس حال کو حاصل کر لو۔ لیکن حال کیسے حاصل ہو گا؟ کتابوں سے حاصل نہیں ہو گا۔ اس کے لئے صاحبِ حال مردِ کامل بزرگ کے سامنے اپنے آپ کو پامال کر دو۔ پامال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے حجت بازی نہ کرو، اگر حجت بازی کرو گے تو محروم ہو جاؤ گے، کیونکہ جو کوئی حجت بازی کرے گا، وہ محروم ہو جاتا ہے۔ یہی بنیادی بات ہے۔ شیخ کی بات کی بعض دفعہ دو حیثیتیں ہوتی ہیں: ایک حیثیت استاد کی ہوتی ہے اور اس کی بات ایک علمی بات ہوتی ہے۔ جیسے: ابھی میں درس دے رہا ہوں، تو اس وقت میری حیثیت شیخ کی نہیں ہے، بلکہ استاد کی ہے، لہذا ایسے حضرات بھی بیٹھے ہوں گے، جو مجھ سے بیعت نہیں ہوں گے۔ ان کو بھی تو میں پڑھا رہا ہوں، ان کے لئے میں ایک ہی رخ سے یعنی استاد کی حیثیت سے ہوں گا۔ پس ان پر وہ قوانین لاگو نہیں ہوں گے، جو شیخ اور مرید کے ہیں، لہذا اس میں سوال کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ علمی چیز ہے۔ لیکن اگر میں کسی کو کوئی ثوابی کی بجائے اصلاحی وظیفہ بتا دوں تو وہ مجھے یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے یہ نہ دو، یہ دے دو۔ اگر وہ یہ کہے گا تو محروم ہو جائے گا۔ اس لئے اس کی اجازت نہیں ہے۔ علمی حوالے سے سوال پوچھنے کی اجازت ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، بالخصوص جب شیخ خود کہتا ہو کہ سوال کرو۔ پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ جو عمل کرنے کو بتایا جائے، اس میں اشکالات نہ کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ خود اپنے طور پر نہیں کہتا۔ میرے ساتھ تو اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں، اس لئے میں ڈرتا ہوں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کسی کو میں نے ایک وظیفہ بتایا، پھر میں نے سوچا کہ یہ میں نے کیا کہا تھا؟ اور میں اس کو تبدیل کرنے لگا، چونکہ وہ اللّٰہ کے ناموں کا وظیفہ تھا، جیسے ہی میں تبدیل کرنے لگا تو میں اللّٰہ کے نام بھول گیا۔ فوراً میں نے توبہ کی، میں نے کہا: بس ٹھیک ہے، آپ کے لئے یہی ہے۔ بس زبان پر یہ آ گیا، اس میں کیا ہو سکتا ہے، آدمی اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے۔ ایک بات پکے طور پہ ذہن میں رکھیں کہ دیتا خدا ہے، انسان نہیں دے سکتا، اس کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کوئی ذریعہ بناتا ہے۔ اور اس چیز کے لئے ذریعہ شیخ ہے۔ جب شیخ کے سامنے آپ بیٹھے ہیں، شیخ کے قلب پر ایک بات آ گئی کہ آپ یہ کرو، تو یہ بات شیخ نے اپنے طرف سے تھوڑا کہی ہے۔ یہ تو اس کے دل پہ وارد ہو گئی ہے۔ جب وارد ہوئی، تو اس میں تو اس کا بھی اختیار نہیں ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک خاتون مجھے ٹیلی فون کرتی تھی، اور دفتر کے ٹیلی فون پہ میں تنگ ہوتا تھا، کیونکہ دفتر میں دفتر کا وقت ہوتا ہے، ٹیلی فون کا وقت تو نہیں ہوتا۔ دفتر کوئی خانقاہ تو نہیں ہے۔ اس لئے میں تنگ ہوتا تھا اور چاہتا تھا کہ دفتر میں کوئی ٹیلی فون نہ کرے۔ لیکن بعض لوگ نا سمجھ ہوتے تھے یا پہلی پہلی دفعہ ہوتا تھا، تو ان کو میں بتا دیتا تھا کہ آئندہ نہ کرنا۔ وہ خاتون چونکہ ایک بینک منیجر تھی، اس نے بینک منیجری سے اس لئے استعفیٰ دیا تھا کہ بینک بینک ہے، گویا اس نے اپنے نفس پہ بڑا مجاہدہ کیا تھا۔ اس لئے اس وجہ سے میں ان کا regard کرتا تھا، جب اس کا ٹیلی فون آتا تو اگرچہ دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ ٹیلی فون کرے، لیکن جب فون کر لیتی تھی تو میں جواب دے دیتا تھا، کیونکہ اس نے بڑی قربانی کی تھی۔ ایک دن اس نے مجھے فون کیا اور کہتی ہے کہ میں نے خواب دیکھا ہے، خواب میں یہ دیکھتی ہوں کہ میں نے آپ کو دفتر فون کیا تو آپ نے مجھے سخت ڈانٹا کہ کیا میں تمہارے لئے دفتر میں بیٹھا ہوں، خبر دار! جو تو نے آئندہ ٹیلی فون کیا۔ جو دوسرے لوگوں کے فون کا وقت ہے، اسی میں ٹیلی فون کرو، اب ٹیلی فون نہ کرنا۔ میں نے اسے کہا کہ او ہو! انہوں نے کہا: کیا ہوا؟ میں نے کہا: فیصلہ ہو گیا۔ پھر میں نے کہا: خواب میں شیخ سلسلہ ہوتا ہے۔ کیونکہ مجھے تو پتا ہی نہیں ہے، میں نے آپ کو نہیں کہا ہے، تو کس نے کہا؟ وہ کون ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ سلسلہ ہے۔ کیونکہ خواب میں شیخ سلسلہ ہوتا ہے۔ پس جب سلسلہ کی طرف سے instruction آ گئی، تو اب میرے بس میں نہیں ہے اس کو change کرنا، میں اس کو change نہیں کر سکتا، اب تو یہ کرنا پڑے گا، اس لئے آپ مجھے دفتر میں ٹیلی فون نہ کیا کریں۔ وہ بیچاری بڑی پریشان ہو گئی کہ یہ کیا ہو گیا۔ ان دنوں عشاء کے بعد نو بجے ٹیلی فون کرنے کا وقت تھا، میں نے کہا کہ نو بجے ٹیلی فون کرنا۔ اس نے نو بجے ٹیلی فون کیا، حسبِ عادت اس نے لمبا ٹیلی فون کیا، اس کی عادت تھی لمبا ٹیلی فون کرنے کی۔ لیکن اس کی بہن مجھ سے پہلے سے بیعت تھی، وہ بڑا مختصر فون کرتی، بس کام کی بات کرتی تھی اور فون بند کر دیتی۔ اس کو میں نے کہا: تم اپنی بہن سے پوچھو کہ ٹیلی فون کس طرح کیا جاتا ہے؟ گویا میں نے direct اس کو نہیں کہا۔ اس نے بہن کو ٹیلی فون کیا۔ اس کی بہن نے تھوڑی دیر بعد مجھے فون کیا کہ شاہ صاحب! اس نے کہا ہے کہ میں اس کو بتاؤں کہ میں ٹیلی فون کس طرح کروں؟ میں اس کو کیا کہوں؟ میں نے کہا: آپ جب فون کرتی ہیں، تو لمبا فون کرتی ہیں یا مختصر کرتی ہیں؟ کہتی ہے: میں تو مختصر کرتی ہوں۔ میں نے کہا کہ یہی اس کو سیکھا دیں۔ خیر! اس نے اسے سیکھا دیا، مگر اس کے بعد بھی عادت سے مجبور ہو کر اس سے فون تھوڑا سا لمبا ہو ہی جاتا تھا۔ تو اس کو میں نے تین منٹ دیئے کہ تین منٹ میں آپ نے بات پوری کرنی ہے، اس سے پہلے آپ نے فون بند کرنا ہے، ورنہ بند ہو جائے گا۔ جیسے ہی تین منٹ پورے ہوتے، تو میں کہہ دیتا: السلام علیکم۔ لیکن ابھی تک وہ فون کرتی ہے، تو اپنی عادت سے مجبور ہے، لیکن کم از کم کسی نہ کسی درجہ میں محتاط ہو گئی ہے کہ وہ اب سمیٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تربیت ایسے ہی ہوتی ہے۔ بہرحال! یہ میں نے تو اس کو نہیں کہا تھا، پس یہ باتیں منجانب اللّٰہ ہوتی ہیں، اس میں شیخ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ سب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا گیا ہے:

گفتۂ او گفتۂ اللّٰہ بود

گرچہ از حلقومِ عبد اللّٰہ بود

بہرحال! یہی بات ہے کہ شیخ مرید کے لئے آئینہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی حدیث شریف سے ثابت ہے: ’’المُؤْمِنُ مِرْآةُ المُؤْمِنِ‘‘ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 4918)

ترجمہ: ’’مومن مومن کا آئینہ ہے‘‘۔

کیا خیال ہے کہ شیخ مومن نہیں ہو گا؟ اگر مومن نہیں ہے، تو بیعت کیوں کی ہے؟ مومن تو کم از کم ہو گا ہے۔ ان شاء اللّٰہ۔

متن:

"تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذَالِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا" اے بھائی! اگر کوئی کہے کہ میں نے خود اپنے آپ کو دیکھا تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ آئینہ کے درمیان ہو۔ یہاں یہ بھی لازم ہے کہ صانع اپنی صنعت میں ہو لیکن صانع کے بغیر صنعت کا موجود ہونا بھی محال ہے۔ جو کوئی صنعت پر نظر رکھے تو وہ جانتا ہے کہ اس صنعت کا صانع ضرور ہے یہ جاننا صانع کو صنعت میں دیکھنے سے ہوتا ہے۔

تشریح:

یعنی مصنوع مظہر ہے۔ اس لئے اللّٰہ تعالیٰ مخلوق میں بعض چیزوں کا بعض لوگوں کو مظہر بنا لیتے ہیں، مثلاً: اللّٰہ تعالیٰ علم کا کوئی مظہر بنا لیتا ہے، ہدایت کا کوئی مظہر بنا لیتا ہے۔ پس اللّٰہ تعالیٰ انسانوں میں سے کسی کو کسی چیز کا مظہر لیتا ہے، جس سے اس صفت کی تجلی ہوتی ہے۔ اور پھر اس صفت کے ذریعے سے انسان اللّٰہ تعالیٰ کو پہچان سکتا ہے۔

متن:

در ہر چہ نگہ کنم ترا مے بینم

’’جس چیز پر بھی نظر ڈالتا ہوں تو میں تجھے دیکھتا ہوں‘‘۔

تشریح:

جدھر دیکھتا ہوں، ادھر تو ہی تو ہے۔

متن:

اس طرح پیر کی روح میں خدا کا دیکھنا معمول کی بات ہے۔ اور ہمارے شیخ صاحب کا دیگر قابل عزت مقام عبودیت کی حدود کا مراقبہ ہے کہ اس کے ذریعے ربوبیت کے حقوق کی حفاظت فرماتے تھے اگر کوئی سالک اپنے دل میں یہ بات لائے کہ تمام دنیا میں مجھ سے زیادہ بُرا کوئی نہیں تو اُس کو متکبر اور مغرور کہتے ہیں، کیونکہ حقیقت میں یہ سب کچھ ایک دعویٰ ہے۔ سبحان اللّٰہ! وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسکین اور بے چارہ کہتے ہیں، وہ بھی سزا سے بچ نہیں سکتے، تو رہا وہ طبقہ جو کہ نخوت، غرور اور فخر کا دعویٰ کرتے ہیں تو اندازہ کیجیے کہ اُن کا کیا حال ہو گا؟

تشریح:

سائنس کے اندر ایسی مثالیں موجود ہیں، جس کو ہم Complete burning کہتے ہیں یعنی شمع کا وہ حصہ جہاں سب سے زیادہ گرمی ہو۔ Metalic thermometer کو اگر شعلے میں رکھیں تو اس میں temperature کم ہوتا ہے۔ اور تھوڑا سا اوپر، جہاں شعلہ نظر نہیں آتا، سب سے زیادہ heat وہاں پر ہوتی ہے، temperature وہاں زیادہ ہوتا ہے۔ وہاں کیوں زیادہ ہوتا ہے؟ نظر تو نہیں آتا۔ در اصل جہاں شعلہ نظر آ رہا ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ Complete burning یہاں پر نہیں ہے، کیونکہ یہاں پر کچھ چیزیں ابھی جلنے سے رہ گئی ہیں اور وہ جو رہ گئی ہیں، وہی اس heat کو ظاہر کرنے والی ہیں۔ لہذا جہاں بالکل سارے ذرے جل چکے ہوں گے، وہاں نظر کچھ نہیں آئے گا۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ بہت ساری جگہوں پہ کچھ نظر نہیں آتا، لیکن ہر جگہ تو اتنی گرم نہیں ہوتی۔ یعنی شمع کے اوپر تھوڑے سے فاصلے پر کچھ نظر نہیں آتا کہ یہاں کچھ ہے، اور وہ جگہ گرم ہوتی ہے۔ لیکن اس سے تھوڑا سا اوپر تو بالکل کچھ ہی نہیں ہے۔ چنانچہ نظر نہ آنا؛ یہ بھی دلیل نہیں ہے کہ اس کو یہ چیز حاصل ہے اور نظر آنا بھی دلیل نہیں ہے کہ وہاں maximum ہے۔ پس ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جن میں نظر نہیں آتا، ان میں امکان ہے اور جن میں نظر آتا ہے، ان میں امکان نہیں ہے۔ یعنی جن میں نظر آتا ہے، ان میں مکمل کا امکان نہیں ہے۔ لیکن جن میں نظر نہیں آتا، تو ان میں جتنے بھی ہیں، ان میں کسی کسی میں ہو گا، ممکن ہے کہ دو تین میں ہو۔ یہی بات میں نے حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کی تھی۔ ان سے میں ہر قسم کی بات کر لیتا تھا۔ الحمد للہ! حضرت نے خود ہی بے تکلفی رکھی ہوئی تھی۔ حضرت اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے، بالکل اپنے آپ کو چھپایا ہوا تھا۔ ایک دن میں نے کہا کہ حضرت! ایک بات عرض کروں؟ فرمایا: بتاؤ۔ میں نے کہا: آپ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے۔ فرمایا: میں کیا ہوں؟ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے، اس میں سمجھنے والی کیا بات ہے؟ میں نے کہا کہ آپ حضرات سے سنا ہے کہ جو اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، ان میں کچھ ہونے کا امکان ہے۔ اور جو اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ میں کچھ ہوں، ان میں بالکل ہی امکان نہیں ہے۔ آپ تو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے۔ حضرت مسکرائے اور فرمایا: تو نے تو میرے ساتھ وہی حرکت کی ہے، جو حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ قوم والوں نے کی تھی کہ وہ آئے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ خدا ہیں۔ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بہت جلال میں آئے اور لوگوں سے کہا کہ لکڑیاں لے آؤ اور گڑھے بنا کر ان کے اندر آگ جلا دو، اور ان کو اس میں جلا دو۔ ان لوگوں نے کہا کہ حضرت! اب تو ہمیں یقین ہو گیا کہ آپ ہی خدا ہیں۔ پوچھا: وہ کیسے؟ کہنے لگے: یہ حدیث ہے کہ آگ کی سزا صرف خدا ہی دے سکتا ہے، کوئی اور نہیں دے سکتا۔

حضرت نے مجھے فرمایا کہ تو نے میرے ساتھ وہی حرکت کی ہے کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں، اسی کو تو دلیل پکڑ رہا ہے۔ بہرحال! اس بات میں شک بھی نہیں ہے کہ یہ حضرات اپنے آپ کو چھپاتے ہیں، لیکن یہ الگ بات ہے کہ جن کے پاس ہوتا ہے، جاننے والے جان لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ

مردِ حقانی کی پیشانی کا نور

کب چھپا رہتا ہے پیشِ ذی شعور

یعنی جو جاننے والے ہوتے ہیں، ان کو تو پتا چل جاتا ہے کہ کس کے اندر کیا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ تھے ’’مولانا خیر محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ‘‘، بڑے صاحبِ کشف بزرگ تھے، اب فوت ہو گئے ہیں۔ وہ تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ حضرت سے ملنے کے لئے گئے تھے۔ حضرت ان دنوں نشتر آباد میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ چونکہ ڈاکٹر ارشد صاحب کے ساتھ گئے تھے تو ڈاکٹر ارشد صاحب ان کے لئے موٹر سائیکل پہ انتظار کر رہے تھے کہ آئیں اور بیٹھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آتے نہیں ہو؟ کہا: آتا ہوں۔ کافی دیر کھڑے رہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ آخر کیوں نہیں آتے ہو؟ وہ مسلسل حضرت کے گھر کی طرف دیکھ رہے تھے، تو کہا کہ آپ دیوار کی طرف دیکھ رہے ہیں، کیا وجہ ہے؟ کہتے ہیں کہ میں حیران ہوں کہ آج کل کے دور میں بھی اتنا بڑا بزرگ ہو سکتا ہے۔ لیکن ان کو دیکھیں تو بالکل ایسا تھا کہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ میرے ساتھ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں گئے تھے، جب ہم واپس آ رہے تھے، تو انہوں نے مولانا صاحب کے ساتھ بڑی لجاجت سے کہا کہ مولانا صاحب! معاف کیجئے گا، میں دیہاتی آدمی ہوں، ہمیں ادب کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔ اگر کوئی بات ایسی ہو چکی ہو تو معاف کرنا۔ مولانا صاحب مسکرائے اور کچھ نہیں فرمایا۔ کیونکہ مولانا صاحب کو تو پتا تھا۔ بہرحال! ایسا ہوتا ہے کہ بعض حضرات کو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ صفت عطا کی ہوتی ہے۔

متن:

مقام عبودیت کی حدود کا مراقبہ ہے کہ اس کے ذریعے ربوبیت کے حقوق کی حفاظت فرماتے تھے اگر کوئی سالک اپنے دل میں یہ بات لائے

مسیح قدمان فرماتے ہیں کہ اگر تُو مسجد میں گوشہ نشین ہو جائے تو حق کے ساتھ ہو گا اور اگر باغ میں بیٹھ جائے تو اس کے حق کے ساتھ ہو گے اور اگر گرجے میں بیٹھ جاؤ تو اس شخص سے بہتر ہو جو کہ مسجد میں بیٹھا ہو مگر اس کے ساتھ نہ ہو (یعنی دل کہیں اور ہو)۔ اور علماء فرماتے ہیں کہ خدا کا راستہ بھی عجیب راستہ ہے کہ وجود کا ساز و سامان رکھتے ہوئے اس راہ پر قدم نہیں بڑھایا جاتا۔ سبحان اللّٰہ! مشکل راستہ ہے اور عجیب دربار ہے کہ اس راہ میں چلنے والے مسافر کی ذات خود اپنی حائل ہوتی ہے،

تشریح:

یعنی انسان خود حائل ہوتا ہے اور وہی اس کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ میں آج کل کے سائنسی دور کے لحاظ سے مثال دیتا ہوں۔ یہ جو warhead کو لے جانے والے راکٹ ہوتے ہیں، ان میں جوSolid bases ہوتے ہیں، ان کی کئی stages ہوتی ہیں، جب اس کی ایک stage بالکل burning ہو جائے تو راکٹ اس کو پھینک دیتے ہیں، پھر اس کے بعد دوسری شروع ہو جاتی ہے تو اس کو پھینک دیتے ہیں، پھر اسی طرح تیسری stages آ جاتی ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اب وہ liability بن گئی۔ اب تو اس کو صرف carry کرنا ہے، اس کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ اس سے جو فائدہ اٹھانا تھا، وہ اٹھا لیا ہے۔ باقی تو صرف وزن ہی ہے، تو وہ بلا وجہ وزن کو کیوں لے جائے گا، اس کی سپیڈ پہ اثر پڑے گا۔ اس لئے وہ اس کو پھینکتا جاتا ہے، پھینکتا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارا نفس بھی حائل ہے۔ لہذا آگے وہی بڑھ سکتا ہے، جو نفس کے ثقل سے اپنے آپ کو چھڑا سکے۔ مگر اپنے آپ کو نفس کے ثقل سے کیسے چھڑائے گا؟ اکثر میں غبارے کی مثال دیتا ہوں کہ غبارے میں Hydrogen gas ڈالتے ہیں تو اس سے غبارہ اوپر اٹھتا ہے، وہ غبارہ کوئی بھی وزنی چیز اوپر لے جانا چاہتا ہے، اس غبارے کی اڑان دو چیزوں پر منحصر ہے۔ ایک Hydrogen gas پر اور دوسرا اس وزن پر۔ اس وزن کو کم کرنے سے اس کی اڑان زیادہ ہو گی اور زیادہ کرنے سے اس کی اڑان کم ہو گی۔ Hydrogen gas زیادہ بھرنے سے اس کی اڑان زیادہ ہو گی اور کم کرنے سے کم ہو گی۔ لہذا اگر کوئی شخص غبارے کو زیادہ اونچا اڑانا چاہتا ہے یا زیادہ دیر تک اڑانا چاہتا ہے تو وہ ایک تو Hydrogen gas زیادہ کرے گا اور دوسرا چیز کے وزن کو کم کرے گا۔ اگر صرف چیز کے وزن کو کم کرتا ہے، تو بھی اڑانے میں فائدہ ہے، لیکن آدھا فائدہ ہے۔ اور اگر صرف Hydrogen gas کو بڑھاتا ہے تو بھی اس میں فائدہ ہے، لیکن آدھا فائدہ ہے۔ اور اگر Hydrogen gas کو بھی زیادہ کرتا ہے اور وزن کو بھی کم کرتا ہے تو پورا فائدہ ہو گا۔ یہی تصوف کا بنیادی اصول ہے۔ تصوف میں بھی ایک روحانیت ہے اور ایک نفسانیت ہے۔ روحانیت کو بڑھانا ہوتا ہے اور نفسانیت کو کم کرنا ہوتا ہے۔ روحانیت بڑھتی ہے ذکر اذکار سے، مراقبات سے۔ اور نفسانیت مجاہدات اور ریاضتوں وغیرہ سے کم ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی صرف ذکر اذکار کرتا ہے اور ریاضت اور مجاہدات اور ان تمام چیزوں کو نہیں کرتا، تو اس کے لئے رکاوٹ تو ہو گی۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے یہ کچھ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ یہاں جو فرمایا کہ انسان خود اپنے آپ کے لئے حائل ہے۔ اس کا یہی مطلب ہے۔

متن:

اس راہ میں چلنے والے مسافر کی ذات خود اپنی حائل ہوتی ہے، ہاں ایک بات سنو کہ جب صاحب قاب و قوسین، مقام قاب و قوسین سے واپس تشریف لائے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ان سے سوال کیا کہ اے رسول اللّٰہ! ﷺ جہاں سے آپ تشریف لا رہے ہیں وہاں آپ ﷺ نے کیا ملاحظہ فرمایا؟ جناب سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی! اِس سوال کرنے کی کیا تُک ہے کہ محمد ﷺ بھی محمد ﷺ سے یہی سوال پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا؟ سمجھنے والے سمجھتے ہیں۔ بیت ؎

نخشبی راز وصل دوست مپرس

بو العجب عاشقے کہ او گوید

آنکہ از خویش بے خبر باشد

خبر دیگراں کجا گوید

’’نخشبی سے تم وصال دوست کے بارے میں کچھ نہ پوچھو وہ عجیب قسم کا عاشق ہے کہ وہ کہتا ہے جو کوئی اپنے آپ سے آگاہ نہ ہو وہ دوسرے لوگوں کے بارے میں کیا کہے گا‘‘۔

اور ہمارے شیخ المشائخ حضرت صاحب قدس سرہٗ العزیز بہت زیادہ متواضع تھے اور کبر و غرور سے بالکل خالی اور دور تھے، پس جو کوئی یہ بات جانے کہ ان کی ابتدا کیا تھی، درمیانی عمر کا کیا ہو گا، اور انجام کار کیا ہونے والا ہے تو یاد رکھئے کہ بغیر متواضع ہونے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

تشریح:

یہ بالکل آسان بات ہے، اس میں کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ ایک معرفت ایسی ہوتی ہے، جو صرف صحیح طریقے سے سوچنے سے بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ اور ایک معرفت وہ ہوتی ہے، جس کے لئے کچھ رکاوٹوں کو دور کرنا پڑتا ہے، پھر سمجھ میں آتی ہے۔ جیسے نفسانی رکاوٹوں کو دور کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کچھ معرفت ایسی ہوتی ہے، جو محض سوچ اور تفکر سے بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ جیسے: ﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ (آل عمران: 190)

ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔

اس لئے یہ معرفت تو تفکر یعنی ذکر و فکر سے حاصل ہو جاتی ہے۔ اس میں ذرا سوچیں، حضرت نے بڑی عجیب بات فرمائی ہے۔ فرمایا: جو اپنی ابتدا کو جانتے ہیں۔ قرآن نے بھی اس کی مثال دی ہے کہ انسان گندے قطرے سے پیدا ہوئے ہیں، پھر درمیان میں ہماری کیا حالت ہے اور پھر اخیر میں کیا حالت ہو گی۔ یہ سب قرآن نے بتایا ہے۔ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ سے کسی نے کسی موقع پہ کہا کہ تم مجھے نہیں جانتے کہ میں کیا ہوں؟ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بالکل جانتا ہوں، تم پہلے گندگی کا قطرہ تھے، اب گندگی کا ڈول ہو، پھر گندگی کا ڈھیر ہو گے۔ ان میں سے کون سی بات غلط ہے؟ کیسے گندگی کے ڈول ہیں؟ اس وقت میرے جسم سے جو چیزیں نکل رہی ہیں، ان میں سب سے زیادہ پاک تھوک ہے، اس سے زیادہ پاک چیز کوئی نہیں ہے۔ جتنی چیزیں نکل رہی ہیں، وہ سب تھوک سے زیادہ گندی ہیں۔ مثلاً: پسینے سے بدبو بھی آتی ہے۔ پیشاب کی تو بات ہی اور ہے، بول و براز، خون، یہ سب نجس چیزیں ہیں۔ پس سب سے زیادہ پاک چیز تھوک ہے۔ کیا کوئی اپنا تھوک چاٹ سکتا ہے؟ اپنا تھوک بھی کوئی نہیں چاٹ سکتا۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ انسان گندگی کا ڈول ہے یا نہیں ہے۔ ہمارے اوپر صرف چمڑہ ہے، اس نے اندر کی ساری گندگی چھپائی ہوئی ہے، ورنہ اس سے جو بھی چیز باہر آئے گی، وہ گند ہی ہو گا۔ تو یہ ہماری درمیانی صورت ہے اور ہماری پہلی صورت گندگی کا قطرہ ہونا ہے، اور آخری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی مر جائے، تو جو بعض لوگ محبت میں کہتے ہیں کہ ابھی نہ دفن کرو، ابھی نہ دفن کرو، پھر بعد میں جب تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے تو مولویوں کے پیچھے بھاگتے ہیں کہ جلدی جنازہ پڑھو، جلدی دفن کرنا چاہئے، کیونکہ ایک سسٹم ہے، وہ انتظار تو نہیں کرے گا۔ جسم میں تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پس انسان کی تین حالتیں ہیں: ایک ماضی کی، ایک حال کی اور ایک مستقبل کی۔ ماضی ان کا گندگی کا قطرہ ہے۔ حال گندگی کا ڈول ہے اور مستقبل گندگی کا ڈھیر ہے۔ کیا اس بات کی calculation کے لئے Super computer چاہئے؟ یہ بالکل واضح بات ہے، اس میں کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک نفسانیت موجود ہے، تو یہ باتیں اِس کان سے سنیں اور اُس کان سے اڑا دیں۔ آخر شاہ ابو سعید رحمۃ اللّٰہ علیہ کو یہ بات مسلسل ریاضتوں اور مجاہدوں کے بعد کیوں سمجھ میں آئی کہ صاحبزادگی کیا چیز ہوتی ہے۔ وہ کیا چیز تھی؟ مسئلہ کیا تھا؟ یہی نفس ہی تھا، اور کچھ نہیں تھا۔ کیا ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ صاحبزادگی کچھ بھی نہیں ہوتی؟ معلوم تھا۔ جیسے ڈاکٹر کا بیٹا اگر ڈاکٹر نہ بنے، تو وہ ڈاکٹر نہیں ہوتا۔ انجینئر کا بیٹا اگر انجینئر نہ بنے، تو وہ انجینئر نہیں ہوتا۔ سائنس دان کا بیٹا ضروری نہیں کہ سائنسدان ہو۔ اسی طرح متقی کا بیٹا اگر تقویٰ حاصل نہیں کرتا، تو ضروری نہیں ہے کہ وہ متقی ہو۔ اگر اس نے تقویٰ حاصل نہیں کیا، تو کیا ولی بن سکتا ہے؟ تقویٰ کے لئے ولایت شرط ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس بارے میں فرمایا ہے: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ 0 الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ (یونس: 62-63)

ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں، ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کئے رہے‘‘۔

پس ولایت کے لئے تقویٰ شرط ہے، لہذا ولایت کے لئے تقویٰ حاصل کرنا پڑے گا۔ اگر والد کے پاس تقویٰ تھا اور اس کے بیٹے کے پاس تقویٰ نہیں ہے تو کیا وہ ولی بن سکتا ہے؟ یہی بات آپ ﷺ نے اپنی بیٹی کو سیکھائی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ بیٹی! اس پہ نہ رہنا کہ تو میری بیٹی ہے، خود عمل کرنا پڑے گا۔ یہ بہت بڑی بات ہے جو آپ ﷺ نے اپنی بیٹی سے فرمائی ہے۔ اللّٰہ کرے کہ سمجھ میں آ جائے۔ اور حسن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بھی فرمایا ہے کہ سادات کا جو مقام ہے، وہ دنیا میں ہے، آخرت میں تو عمل ہے۔ دنیا میں مقام سے انکار نہیں ہے۔ بلکہ دنیا دو طرح کا مقام ہے، یعنی اللّٰہ نے وجاہت بھی دی ہے، چاہے کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن دی تو ہے۔ اور اگر حق کی طرف آنا چاہیں، تو مدد بھی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے، لیکن جو نہیں آئے گا تو صرف سید ہونے پہ نجات نہیں ہے۔ ورنہ یہود ’’مَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ‘‘ نہ ہوتے۔ آخر وہ بھی تو پیغمبروں کی اولاد ہیں، اور ان کو بھی یہ غلطی لگی تھی۔ بس یہی بنیادی چیز ہے، اس کو سمجھنا پڑے گا، اس کے لئے ساری محنت ہے۔ جیسے شاہ ابو سعید رحمۃ اللّٰہ علیہ کو جو اتنی مشقت کرنا پڑی تھی، وہ صرف اسی نکتہ کو سمجھنے کے لئے تھی کہ صاحبزادگی کچھ بھی نہیں ہے۔ اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے کتنا عرصہ مسلسل ان کو آگ جھونکنا پڑی۔ اس سے پتا چلا کہ یہ چیز باتوں سے حاصل نہیں ہوتی۔ اگر باتوں سے حاصل ہوتی، تو شیخ جلال رحمۃ اللّٰہ علیہ صرف پندرہ منٹ میں ساری چیزیں سمجھا دیتے کہ صاحبزادگی کچھ نہیں ہوتی، عمل ضروری ہوتا ہے۔ بلکہ ان کو فوراً فرمایا کہ ان کپڑوں میں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ پوچھا: حضرت کون سے کپڑوں میں حاصل ہوتا ہے؟ فرمایا: خادموں کے کپڑوں میں حاصل ہوتا ہے۔ بس پہن لئے۔ چونکہ اخلاص تو تھا۔ پھر فرمایا: بس تم آگ جھونکو، تمہارا یہی کام ہے۔ وقت پہ کھانا ملے گا اور نماز بھی پڑھو گے، آرام کے وقت میں آرام کرو گے، باقی ملنے جلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بس تمہارا اب یہی کام ہے۔ اتنا بڑا پتھر شیخ جلال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے سینے پہ رکھا۔ ہم تو شاہ ابو سعید رحمۃ اللّٰہ علیہ کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کتنا برداشت کیا۔ لیکن ہم شیخ جلال رحمۃ اللّٰہ علیہ کی برداشت کو نہیں دیکھ رہے کہ انہوں نے کتنا برداشت کیا۔ کیونکہ اپنے محبوب شیخ کے صاحبزادہ کو اس طرح کہنا کوئی آسان بات ہے؟ اس سے پہلے شیخ جلال رحمۃ اللّٰہ علیہ کا عمل یہ تھا کہ ان کی دعوتیں کر رہے تھے، ان کا استقبال کر رہے تھے، یہ سب کچھ کر رہے تھے۔ وہ ان کے دل کی آواز تھی۔ لیکن جس وقت ذمہ داری پڑ گئی تو کیا ہوا۔ مثلاً: ڈاکٹر اگر اپنے بیٹے کا علاج کرے گا تو کیا خیال ہے کہ اس کے ساتھ مروت کر سکتا ہے؟ اپنے بیٹے کے ساتھ بھی مروت نہیں کر سکتا، انجکشن لگانا ہو گا، تو کیسے لگائے گا؟ جیسے آپ کے دوست آپ کی والدہ کو جو انجکشن لگا رہے تھے، تو گھبرا گئے تھے، وہ کیوں گھبرا گئے تھے؟ دوستی تھی، اسی لئے گھبرا گئے تھے، ورنہ کسی اور کے لئے نہ گھبراتے۔ حالانکہ اس میں نقصان تھا۔ چنانچہ مروت میں انسان مارا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت شاہ جلال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر ان سے مشقت کروائی، کوئی آسان بات نہیں ہے۔ حضرت مہمند بابا جی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس جب ہم ڈاکٹر ارشد کے ساتھ گئے تھے تو انہوں نے ہمیں نصیحت کی تھی اور فرمایا: اپنے شیخ کے سامنے سید نہ بنو، ان کو پتا ہوتا ہے۔ تو یہ سمجھانا ضروری ہے، ورنہ واقعتاً انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے۔ جب یہ چیز نکل جاتی ہے، تو پھر فائدہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

متن:

انجام کار کیا ہونے والا ہے تو یاد رکھئے کہ بغیر متواضع ہونے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ متواضع وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو مٹی کے برابر سمجھے، پس خاکی مرد وہ ہے جو اپنے جسم اور مٹی کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہونے دیں۔ بزرگوں سے روایت ہے کہ درویش کی مثال زمین کی طرح ہے، اچھی اور بری چیز جو بھی ہو اس میں جمع ہوتی ہے "وَقَدْ کَانَ قَوْمٌ مِّنْ أَصْحَابِ الصُّفَّۃِ یَکْرَھُوْنَ أَنْ یَّجْعَلُوْا بَیْنَھُمْ وَبَیْنَ التُّرَابِ حَائِلًا" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی اصحابِ صُفہ میں ایک جماعت ایسی تھی جو اپنے جسم اور مٹی کے درمیان کسی دوسری چیز کا حائل ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔

تشریح:

یعنی مٹی پہ لیٹے ہوتے تھے۔ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ جب مٹی پہ سو رہے تھے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’قُمْ یَآ اَبَا تُرَابٍ‘‘ ’’اے مٹی کے باپ اٹھ جا‘‘۔ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو ’’ابو تراب‘‘ کا لفظ بہت پسند تھا۔

متن:

یہ لوگ جو آج نفیس اور عمدہ فرشوں اور قالینوں پر نشست جماتے ہیں، میں نہیں جانتا کہ کل وہ کس مسند پر بیٹھیں گے۔ اور وہ لوگ جو آج کے دن رنگین لباس زیب تن کرتے ہیں، معلوم نہیں کہ کل قیامت کے دن ان کو کونسا لباس پہنایا جائے گا۔ اے میرے عزیز! جو کوئی عالم ظاہر میں ایک لباس پہنے تو وہ پوشیدہ اور مستور ہو جاتا ہے، اور جو کوئی عالم باطن میں دو لباس پہنے تو وہ ننگا ہو جاتا ہے۔ بیت ؎

نخشبی زاں پیاز گندہ شود

کہ چوں سوسَن ندارد از یک پوش

’’اے نخشبی! پیاز اس وجہ سے گندہ ہو جاتا ہے کہ سوسن کی طرح ایک لباس نہیں رکھتا‘‘۔

جس کے دو کرتے ہوں اصحابِ دین کے نزدیک وہی ننگا ہوتا ہے۔ طالبِ حق کو چاہئے کہ اپنے نفس کو پہچانے اور اس کا مخالف ہو جائے۔ نفس کی مثال ایک مریض شخص جیسی ہے اگر اس کو اس کی خواہش کے مطابق دیا جائے تو یہ اُس کے لئے زہر قاتل ہے،

یہ اس کے لئے دوائی اور علاج نہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ نفس کی خواہشات کو ترک کیا جائے تاکہ نفسِ مطمئنہ کی صفت سے موصوف ہو جائے کہ نفسِ مطمئنہ کا اطمینان اور قرار اللّٰہ تعالیٰ کی طاعت ہے۔ اور خلافِ امر نہ کوئی کام کیا جائے اور نہ کسی کام کی طلب کی جائے۔

یہ بات جان لو کہ نفس کی تین قسمیں ہیں: ایک کو نفس مطمئنہ کہتے ہیں، "وَھِيَ الَّتِيَ اطْمَأَنَّتْ بِطَاعَۃِ اللّٰہِ لَا یَطْلُبُ مُخَالفَۃَ أَمْرِہٖ" ”اور نفس مطمئنہ وہ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی طاعت پر مطمئن ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کے اوامر کے خلاف عمل نہ کرے" اور دوسری قسم کو نفسِ لوامہ کہتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو گناہ اور معصیت کے کام پر ملامت کرے۔ اور تیسری قسم کو امارہ کہتے ہیں، "وَھِيَ الَّتِيْ تَأْمُرُ بِالسُّوْءِ وَتَدْعُوْ إِلَی الْمَہَالِکِ" یعنی یہ وہ قسم ہے جو کہ برائی کا حکم دے اور ہلاکت خیز کاموں کے کرنے کی دعوت دے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ ایک چوتھا نفس بھی ہے جس کو نفس مُلہمہ کہتے ہیں، ﴿فَأَلْہَمَہَا فُجُوْرَھَا﴾ (الشمس: 8) (قرآن سے دلیل دی ہے) اُس کے بارے میں ہے۔

ہمارے شیخ رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمیشہ دردِ محبت میں ڈوبے رہتے تھے، اور عشقِ الست کے پیالے سے مست رہا کرتے تھے، پس جو کوئی محبوب کی یاد میں مستغرق ہو وہ زندہ ہے، اگرچہ وہ مر کیوں نہ جائے۔ اور جو کوئی محبوب کی یاد سے بے بہرہ ہو وہ مُردہ ہے، اگرچہ ظاہری طور پر اس میں زندگی ہو۔ عبد اللّٰہ مصری رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک مردہ کو غسل دینے کا میں نے ارادہ کیا جب میں نے اس کا ازار بند کھولنا چاہا تو اس مردے نے دونوں ہاتھوں سے اُس کو پکڑ لیا اور کھولنے نہ دیا، میں نے متعجب ہو کر کہا "اَلْحَیٰوۃُ بَعْدَ الْمَمَاتِ؟" ”موت کے بعد زندگی؟“ گھر کے ایک کونے سے آواز آئی: "أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَمُوْتُ" ”کیا تم نہیں جانتے کہ جس نے اپنے رب کو پہچانا تو وہ نہیں مرتا“ اے سالک! اگر تم آج ہستی کو نیستی میں تبدیل کرو گے تو ایسے ہست ہو جاؤ گے کہ نیستی کا گرد و غبار بھی تمہاری ہستی کے خیمے کے پردوں تک نہیں پہنچے گا۔

تشریح:

ایک بات یاد رکھئے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (البقرہ: 154)

ترجمہ: ’’اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں، ان کو مردہ نہ کہو۔ در اصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا‘‘۔

جو تلوار سے شہید ہو گئے ان کا تو سب کو پتا ہے، لیکن جن پہ اندر ہی اندر تلواریں پڑ رہی تھیں اور اس وجہ سے وہ شہید ہو گئے، ان کی بات کیا ہو گی! جیسے: حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس شعر کو سنتے سنتے فوت ہو گئے تھے:

؎ گشتگانِ خنجرِ تسلیم را

ہر زماں از غیب جانِ دیگرست

یعنی جو عشق کی تلوار سے ماریں جائیں، ان کو ہر وقت ایک نئی جان ملتی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اللّٰہ کے راستے میں اللّٰہ کے لئے نفس کی مخالفت کرے اور فنا فی النفس کا مرتبہ حاصل کر لے تو اس نے زندگی میں اپنے آپ کو ہلاک کر دیا، وہ چلتی پھرتی لاش ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے چلتی پھرتی لاش کو دیکھنا ہو تو ابو بکر کو دیکھ لے۔ گویا یہ چیز ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو بھی ایسی کیفیات نصیب فرمائے، اللّٰہ جل شانہ اپنا تعلق خاص عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ