حضرت آدم علیہ السلام کی حقیقت اور اُسکے معنی کے بیان میں اور اس سلسلے میں حضرت صاحب کا علم

باب 10 ، درس 34

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ (اللّٰہ جل شانہ ان کے برکات اور فیوضات اور بھی زیادہ فرمائے) کی تعلیمات کا درس ہوتا ہے۔ اللّٰہ جل شانہٗ ان بزرگوں کے علم کا نور ہمیں بھی نصیب فرمائے۔ کچھ باتیں اس آخری مجلس میں ہوئی تھیں، جن کو میں نے معلق چھوڑ دیا تھا، کیونکہ ان کے بارے میں ذرا تحقیق کرنی ضروری تھی۔ اس لئے میں نے سوچا کہ ان کو میں دوبارہ کر لوں تاکہ وہ بات واضح ہو جائے۔

متن:

اور جناب شیخ محی الدین نے اپنے رسالے "مخصوص" میں لکھا ہے کہ احمد ﷺ کا نور عدم سے پیدا ہوا ہے۔ محمد حسین صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: "واللّٰہ اگر یہ شخص زندہ ہوتا تو اس کو کہا جاتا کہ احمد ﷺ کے نور کو عدم سے کیا نسبت ہے؟ اور مؤمنوں کا نور بھی عدم سے تعلق نہیں رکھتا، کیونکہ آپ کا نور محض وجود ہے پس وجودِ قدیم کو عدم سے نسبت دینا موزوں نہیں، پس نور احمدی اور مؤمنوں کے نور کو عدم سے کوئی نسبت نہیں"۔ اور انہی محمد حسین صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ہے کہ سال سات سو اٹھاون (758ھ) میں انتیس جمادی الأولی کو میں حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ایک کشتی میں دریائے فرات میں ہم سفر تھا اور خضرعلیہ السلام کے ساتھ نور کے بارے میں بات چل رہی تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ "خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی نُوْرَ مُحَمَّدٍ مِّنْ نُّوْرِہٖ وَصَدَّرَہٗ عَلٰی یَدِہٖ وَیَبْقٰی ذَالِکَ النُّوْرُ بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ مِائَۃَ أَلْفِ عَامٍ فَکَانَ یُلَاحِظُہٗ فِيْ کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَۃٍ سَبْعِیْنَ أَلْفَ لَحْظَۃٍ وَّ نَظْرَۃٍ وَّ یَکْسُوْہُ فِيْ کُلِّ نَظْرَۃٍ نُّوْرًا جَدِیْدًا وَّ کَرَامَۃً جَدِیْدَۃً ثُمَّ خَلَقَ مِنْھَا الْمَوْجُوْدَاتِ کُلَّھَا" کہ اللّٰہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کا نور تخلیق فرمایا اپنے نور سے، اور اس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور یہ نور اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ایک لاکھ سال تک موجود رہا اور اللّٰہ تعالیٰ ہر دن اور ہر رات میں ستر ہزار مرتبہ اسی پر نگاہ ڈالتا تھا اور ہر نگاہ پر اس کو ایک جدید نور کا لباس پہناتا تھا اور نئی عزت افزائی کرتا پھر اس سے ساری موجودات کی تخلیق فرمائی۔ اور محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ناسمجھوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ موجودات اور مخلوقات کو عدم سے پیدا کیا گیا ہے، یہ معنیٰ کبھی بھی درست نہیں کہے جا سکتے، کیونکہ ہم معدوم کو جانتے ہیں کہ معدوم اس چیز کو کہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں، اور جس چیز کا وجود ممکنات سے ہو اس کو معدوم نہیں کہنا چاہئے۔ جو کچھ کہ ممکن الوجود تھا وہ خلقت کا لباس پہن چکا۔ آفتاب یعنی سورج کی روشنی میں اشیاء ظاہرًا دیکھی جا سکتی ہیں، مگر رات کے اندھیرے میں اگر کوئی یہ کہے کہ ان اشیاء کی موجودگی نہیں تو یہ جائز بات نہیں ہے۔ ان کا وجود تو موجود ہوتا ہے مگر رات کے گھپ اندھیرے میں دکھائی نہیں دیتا۔ جس وقت سورج اپنے نور سے اس کو ظاہر کرے تو معلوم ہوا کہ عدم کوئی چیز نہیں۔ بیت۔

؎ گم شدم در خود نمے دانم کجا پیدا شدم

شبنمے بودم ز دریا غرقۂ دریا شدم

’’میں اپنے آپ میں گم ہو گیا میں نہیں جانتا کہ میں کہاں پیدا ہوا، میں دریا سے اُٹھ کر شبنم تھا اور شبنم کی طرح پھر دریا میں غرق ہو گیا‘‘۔

؎ سایۂ بودم ز ازل در زمین افتادہ خوار

راست کان خورشید پیدا گشت نا پیدا شودم

’’میں پہلے سایہ تھا اور زمین پر بے وقت پڑا تھا جب وہ سورج نمودار ہوا تو میں ناپید ہو گیا۔

حاصل کلام یہ کہ تمام مخلوقات تاریکی میں موجود تھیں، اور قدامت کی خلعت میں ملبوس تھیں، جب نورِ احمدیت نے طلوعِ وجود کا ارادہ فرمایا تو زمینوں اور آسمانوں کی موجودات نے ظہور کیا۔ اس موقع پر علماء ظاہر اس بات کو رد کرتے ہیں کہ یہ معنیٰ اگر لئے جائیں تو یہ معنیٰ موجودات کی قدامت پر دلالت کرتا ہے اور یہ بات کہنا جائز نہیں کیونکہ تمام مخلوقات حادث ہیں۔ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نکتہ جو اس کے جواب میں ہے وہ یہ ہے کہ روز اول سے بلکہ روز اول سے پہلے موجودات موجود تھیں، جیسا کہ رسول اللّٰہاللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "مَوْجُوْدَاتِيْ قَبْلَ الْأَزَلِ مَوْجُوْدَۃٌ بِالْمَوْجُوْدِ وَبَعْدَ الْأَزَلِ بِالْحَدَثِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”میری موجودات ازل سے قبل موجود کی حیثیت سے موجود تھیں اور ازل کے بعد نئی تخلیق کی حیثیت سے موجود ہیں“ بیت ؎

پیش ازاں روز کہ یاد مئی و می خانہ نہ بود

جان ما سوئے خرابات کرد سجود

’’اس دِن سے جب کہ شراب اور شراب خانے کی یاد تک نہ تھی ہماری روح شراب خانے کی جانب سجدے کر رہی تھی‘‘۔

یعنی ازل سے پہلے جان سجدے کر رہی تھی اگر ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمَوٰتِ وَالْأَرْضِ...﴾ (النور: 35)اللّٰہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے“ نہ ہوتا تو کائنات کے ذروں کا وجود بھی نہ ہوتا۔ اور اللّٰہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اور کوئی بھی اس کا فہم و ادراک نہیں رکھتا کہ ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِيْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ…﴾ (الأعراف: 172) ”اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے اُن کی اولاد کو“ اور جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فِيْ ظُلُمَاتٍ ثُمَّ رَشَّ عَلَیْھِمْ مِّنْ نُّوْرِہٖ" (العواصم من القواصم بمعناہ، رقم الصفحۃ: 21، مکتبۃ دار التراث، مصر) کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق کو ظلمت (تاریکی اندھیرے) میں پیدا کیا پھر اُس پر اپنے نور سے چھڑکاؤ کیا۔ اس کے بعد یہی معنیٰ ہے یعنی مخلوقات کا وجود تاریکی میں چھپا تھا، اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو نور الوہیت سے نزدیک کیا تو ان کا وجد بھی نور ہو گیا اور ظاہر ہوا۔ پس ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ...﴾ (النور: 35) اللّٰہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے“ یعنی آسمانوں اور زمینوں کی مخلوق اس کے نور سے ہے، اللّٰہ تعالیٰ تمام موجودات کا مصدر ہے یعنی اس کی ذات تمام موجودات کا سرمایہ اور مصدر ہے۔ یعنی "نُوْرُ اللّٰہِ وَنُوْرُہٗ مَصْدَرُ الْأَنْوَارِ" کہ اللّٰہ تعالیٰ کا نور اور اُس کا نور انوار کا مصدر ہے۔ پس منصور کے ساتھ کیا اور کس قسم کا واقعہ پیش ہوا۔ چنانچہ یہ واقعہ ہوبہو ایسا تھا کہ ایک سانپ راستے پر چلا گیا، پس نادان اور بے سمجھ لوگ سانپ کی اس لکیر کو سانپ کہتے ہیں اور اس کو مارتے اور جلاتے ہیں، حالانکہ یہ سانپ نہیں، بلکہ سانپ کے جانے کا نقش ہے یعنی لکیر ہے۔ پس یہ ”سُبْحَانِيْ“ اور ”أَنَا الْحَقُّ“ کہنا ان کا کام نہ تھا اور ان کا کام کیسے ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ لوگ جب اس دائرے میں استغراقِ روح کرتے ہیں تو یہ بھی ذات کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں تو یہ کچھ انہوں نے کہا ہے ”اُس“ سے کہا ہے، یہاں تک کہ یہ لوگ ”وہ“ ہو گئے۔ اور ایسا کہنا اور اس طرح کہنے کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جو کہ ”وہ“ ہو جاتے ہیں، اس بات کو سمجھنے والے سمجھتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک صریح لطیف بات کے طور پر فرمایا ہے کہ "مَنْ رَّاٰنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی جس نے مجھے دیکھا تو تحقیق کہ اس نے میرے رب کو دیکھا۔ یہ تو تمام صفات سے موسوم ہو گیا کہ وہ جو کہا گیا ہے کہ "إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آَدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ" (الصحیح لمسلم، کتاب البر و الصلۃ، باب: النہی عن ضرب الوجہ، رقم الحدیث: 2612) یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس ذکر شدہ صفت کے بارے میں مختلف باتیں ہیں اور جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے اس کی جانب اشارہ بھی فرمایا ہے کہ "إِنَّ الْحَقَّ یَنْطِقُ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ" (المعجم الأوسط للطبرانی بتغییر قلیل، رقم الحدیث: 3330) یعنی حق (اللّٰہ) عمر رضی اللّٰہ عنہ کی زبان پر بولتا ہے۔

(نوٹ: یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ سچی بات حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی زبان کلام کرتی ہے۔) اور یہ بات دُرست ثابت ہوئی۔

تشریح:

یہاں ایک بات عقیدے سے متعلق ہے، وہ پہلے بیان کرنی چاہئے۔ کیونکہ عقائد دین کے لئے بنیاد ہوتے ہیں۔ اللّٰہ جل شانہٗ کی تمام صفات کامل ہیں اور اللّٰہ جل شانہٗ کی ایک صفت خالق ہونا بھی ہے یعنی اللّٰہ پاک تخلیق فرمانے والے ہیں۔ اس لئے اللّٰہ جل شانہٗ نے جتنی چیزوں کو بنایا، وہ ان کے خالق ہیں۔ جب ہم نے اللّٰہ کو خالق مانا اور باقی کو مخلوق کہا، تو خالق عقیدے کے لحاظ سے قدیم ہوا اور مخلوق حادث ہو گئی، یعنی وہ بعد میں وجود میں آئی۔ اللّٰہ جل شانہٗ پہلے ہی ازل سے موجود تھا۔ اور جو بھی مخلوق اللّٰہ نے پیدا فرمائی ہے، وہ حادث ہوئی۔ کچھ پہلے آئے، کچھ بعد میں آئے۔ پہلے والے بھی حادث ہیں، لیکن پہلے آنے والے ان کے مقابلہ میں قدیم ہیں۔ یعنی وہ چونکہ ان سے پہلے آئے ہیں لہذا ان کو اِن کے مقابلہ میں قدیم کہا جائے گا۔ ذاتی طور پر قدیم تو اللّٰہ جل شانہ ہی ہے، لیکن تقابل کی صورت میں ایک دوسرے سے آگے پیچھے تو ہوتے ہیں۔ جیسے میں کہوں گا: اللّٰہ بڑے ہیں تو اللّٰہ تو واقعی بڑے ہیں، سب سے بڑے ہیں، جو بھی ہم تصور کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ بڑے ہیں، اس کی بڑائی ہماری سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی۔ لیکن میں اگر کہوں گا کہ یہ پہاڑ اس پہاڑ سے بڑا ہے، تو یہ شرک نہیں ہو گا۔ اگر میں کہوں کہ یہ پتھر اس پتھر سے بڑا ہے، تو یقیناً بڑا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس پتھر کو ہم اللّٰہ تعالیٰ سے بڑا تو نہیں کہتے۔ وہ تو پتھر ہی ہے اور مخلوق ہے۔ اسی طرح اللّٰہ جل شانہٗ کی ذات قدیم ہے اور باقی مخلوقات سارے حادث ہیں۔ لیکن یہاں جو فرمایا گیا کہ وہ قدیم تھے، تو یہ آپس میں مقابلتاً قدیم ہونے کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے میرے نور کو بنایا گیا، پھر میرے نور سے باقی تمام چیزوں کو بنایا گیا۔ چنانچہ مخلوقات میں سب سے قدیم آپ ﷺ ہوئے۔ لہذا جب آپ ﷺ کے نور کو بنایا گیا تو آپ ﷺ کے نور سے باقی ساری چیزوں کو بنایا گیا اور آپ ﷺ کے نور سے باقی ساری چیزوں کو منور بھی کر دیا گیا۔ لہذا یوں کہہ سکتے ہیں کہ تکوینی لحاظ سے بھی آپ ﷺ ذریعۂ کائنات ہیں، ذریعۂ مخلوقات ہیں، ذریعۂ موجودات ہیں اور تشریعی اعتبار سے بھی آپ ﷺ ہی ذریعۂ ہدایت ہیں۔ یہ تو ایک کتاب ہے اور یہ امتی کہہ رہے ہیں، اس لئے ان کے ساتھ تو بحث مباحثہ کر سکتے ہیں، لیکن قرآن کریم میثاقِ اول کے متعلق بتاتا ہے کہ آپ ﷺ ابھی اس دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے تو انبیاء کرام سے عہد لیا گیا تھا۔ اس میثاقِ اول کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی ذات مبارکہ تمام موجودات کی ابتدا ہے۔ اس لئے آپ ﷺ کو وہ مقام حاصل ہے، جو مخلوق میں کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اور جس کو ہم حقیقتِ محمدی کہتے ہیں، وہ یہی ہے کہ اللّٰہ نے جو بنانا چاہا، تو وہ جو بنانے کا ارادہ تھا، وہ آپ ﷺ کے ذریعے کرنا تھا۔ یہی چیز حقیقتِ محمدی کہلاتی ہے اور اس میں اللّٰہ جل شانہٗ نے جو ارادہ فرمایا، وہ اس کے مطابق ظاہر ہوا۔ اور آپ ﷺ ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ آدم علیہ السلام بھی نبی تھے، لیکن جب مسئلہ ہوا تو آدم علیہ السلام نے آپ ﷺ کے وسیلے سے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے دعا قبول فرما لی۔ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کو کیسے پتا تھا؟ فرمایا: میں نے عرش کے اوپر لکھا دیکھا تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘۔ تو میں نے سوچا کہ یہ کوئی ایسی ہستی ہے، جس کے نام کو اللّٰہ پاک نے اپنے ساتھ رکھا ہے، یہ کوئی بہت ہی زیادہ بزرگ ہستی ہے، اس لئے میں نے ان کے وسیلہ سے دعا کی۔ گویا آپ ﷺ کی ذات تمام موجودات کی اولین ہے، اور مخلوقات میں سب سے قدیم ہے۔ گویا یہاں مخلوقات کے اعتبار سے بات کی گئی ہے۔ اگر یہ مخلوقات کے اعتبار سے نہ ہوتا، تو یہ فقرہ کیوں آتا کہ ’’پیدا کیا گیا‘‘۔ اس لئے آپ ﷺ بھی مخلوق ہو گئے۔ لہٰذا مخلوق میں اگر قدیم ہونے کی بات آئے گی، تو آپ ﷺ بھی قدیم ہوں گے، اسی لئے مخلوقات میں سب سے قدیم آپ ﷺ ہیں۔ آج کل کی سائنس یہ کہتی ہے کہ روشنی خود نظر نہیں آتی، لیکن روشنی سے چیزیں نظر آتی ہیں۔ بلکہ روشنی کا ظہور بھی روشن چیزوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ مثلاً: اگر روشنی کسی چیز پہ نہ پڑے تو آپ اس کو نہیں دیکھ سکتے۔ سورج سے جو روشنی آ رہی ہے اور خلاء سے گزر رہی ہے تو اس وقت روشنی خود نظر نہیں آتی، بلکہ جب فضا میں پہنچتی ہے تو فضا کے ذرات کے ذریعے سے نظر آتی ہے، اور فضا کے ذرات کے ذریعے سے اتنی نظر آتی ہے کہ یہ جو صبحِ کاذب ہے، جس کو Zodiacal light کہتے ہیں، در اصل بین السیاراتی ذرات پہ تاروں کی جو روشنی پڑتی ہے، وہ ہمیں نظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ ایک Elliptical shape میں نظر آتی ہے، گولائی میں نظر نہیں آتی۔ جب کہ سورج کی روشنی گولائی میں نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج ایک جگہ ہے اور پھر سارا Solar system اس کے ارد گرد چکر لگا رہا ہے۔ جب سورج افق سے نیچے ہوتا ہے تو اس کی روشنی ہر طرف گولائی میں جا رہی ہوتی ہے، زمین کی طرف بھی گولائی میں آ رہی ہے۔ زمین اس میں حائل ہو جاتی ہے۔ جب زمین حائل ہوتی ہے تو سورج براہِ راست نظر نہیں آتا۔ لہذا دن تو نہیں ہوتا، لیکن جب روشنی اٹھارہ درجہ کے لگ بھگ آ جائے تو یہ روشنی اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ افق پہ نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ سورج کے ارد گرد گولائی میں موجود ہے، لہذا ہمیں افق پر وہ بالکل گولائی نظر آتی ہے، لہٰذا صبحِ صادق اس طرح نظر آتی ہے، جیسے کسی نے بہت بڑا لمبا پہیہ دبایا ہوا ہو۔ لیکن صبحِ کاذب کا معاملہ یہ ہے کہ سورج کےارد گرد بیضوی مدار کے جو سیارات ہیں، ان کے زاویے کے ترچھے پن کی وجہ سے، بین السیاراتی ذرات پر پڑنے والی تاروں کی روشنی کی چمک ہمیں مل جاتی ہے۔ اسی چمک کو ہم ایک کی صورت میں ایک لمبوتری روشنی دیکھتے ہیں، یہی صبحِ کاذب ہوتی ہے۔ اس کا چونکہ سورج کی روشنی سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہذا یہ نمازوں کے اوقات کے لئے مدار نہیں ہے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے سورج کی روشنی کے ساتھ نمازوں کی اوقات کا تعلق باندھا ہے۔ گویا سورج کی روشنی تو کیا، تاروں کی روشنی بھی سیاراتی ذرات کے ذریعے سے نظر آتی ہے۔ کیونکہ ویسے تو تارے اپنے طور پر نظر آتے ہیں، لیکن ان کی روشنی نظر نہیں آتی۔ جب وہ افق کے قریب ہو جاتے ہیں تو نظر آنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اللّٰہ جل شانہٗ نے زمین و آسمان کو منور کیا: ﴿اَللہُ نُوْرُ السَّمَوٰتِ وَالْأَرْضِ...﴾ (النور: 35) تو یہ اللّٰہ کی پہچان کا ذریعہ بھی ہے۔ کیونکہ ساری کائنات کو اللّٰہ تعالیٰ نے منور کیا ہوا ہے، لہذا یہ اللّٰہ تعالیٰ کی پہچان کا بھی ذریعہ ہے۔ لیکن اللّٰہ پاک نے پوری کائنات کو آپ ﷺ کے نور سے پیدا فرمایا اور اللّٰہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات سے آپ ﷺ کے نور کو پیدا فرمایا ہے۔ تکوینی طور پر بھی آپ ﷺ تمام کائنات کے پیدا ہونے کا ذریعہ ہیں، اور ہدایت کا بھی ذریعہ یہی ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ نسبت ہو۔ اس لئے اگر کسی کی آپ ﷺ کے ساتھ نسبت کمزور ہو جائے تو اس کا ایمان کمزور ہو جاتا ہے اور اگر ختم ہو جائے تو انسان کافر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفر نے پورا زور لگایا ہے اور ان کی پوری محنت یہی ہے کہ ہمارا آپ ﷺ کے ساتھ تعلق کمزور ہو جائے۔ میرے خیال میں سب کو یہ بات سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ اس سے مخلوق کی قدامت مراد ہے کہ مخلوق میں سب سے زیادہ قدیم آپ ﷺ ہیں، پھر اس کے بعد باقی ترتیب بنی ہے۔

متن:

بیت ؎

ہاتفی اے حریم خاص الخاص

ہر کہ او از بندگی خواہد خلاص

محو گردد عقل تکلیفش بہم

ترک آں ایں ہر دو بس درندِ قدم

گفت یا رب من ترا خواہم مدام

عقل و تکلیفم نہ شاید و السّلام

بی صفت گشتم و گشتم بے جہت

عارفم اما ندارم معرفت

گر تو می بینی کسے را آں زمان

نیستم من ہست آن شاہ جہان

می ندانم تو منی یا من توئی

محو گشتم در تو و گم شد دوئی

گفتم اکنوں مے ندانم کیستم

بندہ بارے نیستم پس چیستم

’’خاص الخاص حریم سے یہ ندا آئی کہ جو کوئی بندگی سے رہائی چاہتا ہے تو اس کی عقل اور تکلیف (مکلف ہونا) دونوں محو ہو جاتے ہیں، ہر دونوں (یعنی عقل و تکلیف) کو چھوڑ کر اُن پر پاؤں رکھو، ایسا شخص کہتا ہے کہ اے خدا میں آپ ہی کو چاہتا ہوں، مجھے عقل اور تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں۔ میری کوئی صفت نہیں کہ مجھے اس سے پہچانا جائے اور میری کوئی سمت نہیں جہاں مجھے تلاش کیا جائے، میں ایک ایسا عارف ہوں جو کہ معرفت نہیں جانتا۔ اگر تو میری صورت میں کسی کو دیکھ پائے تو یاد رکھو کہ وہ میں نہیں ہوں بلکہ وہ جہان کا بادشاہ ہے اب مجھے یہ شعور تک نہیں کہ ”تو“ ”میں“ یا ”میں“ ”تم“ ہوں۔ میں تم میں کلیتًا محو ہو گیا اور دوئی درمیان سے اُٹھ کر محو ہو گئی، اس حالت کے پہنچنے پر میں نے کہا کہ میں یہ نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔ ہاں اگر میں بندہ نہیں ہوں تو پھر میں کیا چیز ہوں۔

دیگر اشعار

؎ از شراب شوقِ گشتم مست او

مستی ما گم اندر ہست او

بود ما در بود او نابود شد

ہر چہ در غیرش بداں مردود شد

چوں مجرد گشتم از مستی تمام

نے وجود ماندا اینجا و نہ نام

زاں شدم پرواز سوئے لا مکان

دیدم آنجا عیشہا و بس عیان

خویش را دیدم ہمہ نابود خویش

یا فتم سر رشتۂ مقصود خویش

چوں شدہ فانی محمد از وجود

غیر او دیدی کہ دیگر کس نہ بود

ترجمہ:۔ میں شوق و محبت کی شراب کے پینے کی وجہ سے اُس کا والہ و شیدا اور مست ہو گیا اور ہستی میں میری مستی گم ہو گئی۔ ہمارا ہونا (وجود) اُس کے (ہونے) وجود میں گم اور ناپید ہو گیا۔ اور جو کچھ اس کے سوا تھا وہ سب رد ہوا۔ اور جب میں مستی میں سے بالکل مجرد ہوا، تو نہ میرا وجود باقی رہا اور نہ نام و نشان اور اسی وجہ سے میں نے لامکان کی طرف پرواز کی۔ وہاں میں نے ظاہر و عیاں طور پر عیش دیکھے، میں نے اپنے کو بالکل نابود اور محو دیکھا اور اسی وجہ سے میں نے اپنا مقصود پایا۔ جب محمد رسول اللّٰہ ﷺ اپنے وجود سے فانی ہو گیا تو پھر تم نے دیکھا کہ اور کوئی بھی نہ تھا

اور اسی وجہ سے رسول اللّٰہ ﷺ نے بطور رمز فرمایا ہے: "مَنْ رَّاٰنِيْ فَقَدْ رَأَی الْحَقَّ" (الصحیح للبخاری، کتاب التعبیر، باب: من رأی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المنام، رقم الحدیث: 6996) کہ جس نے مجھے دیکھا تو اس نے حق دیکھا۔ پس حدیث اور قرآن کریم کی اس آیت کہ ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ...﴾ (النساء: 85) یعنی جس نے رسول اللّٰہ ﷺ کی اطاعت کی تو تحقیق اس نے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور اللّٰہ جل جلالہٗ کی محبت والوں کے لئے اسی میں ایک رمز ہے اور یہ اس حقیقت کی جانب بھی ایک اشارہ ہے کہ "وَالشَّوْقُ إِلٰی لِقَاءِ إِخْوَانِيْ" یعنی بھائیوں کی ملاقات کے لئے شوق ہے۔ اور بھائی کون ہیں اس کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ "اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ" (الصحیح للبخاری، کتاب المظالم و الغصب، باب: لا یظلم المسلم المسلم و یسلمہ، رقم الحدیث: 2442) یعنی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اور محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم خود کو نور (روشنی) میں دیکھتے ہیں کہ "اَلْمُؤْمِنُ مِرْاٰۃُ الْمُؤْمِنِ" (سنن أبی داوٗد، کتاب الأدب، باب: في النصیحۃ و الحیاطۃ، رقم الحدیث: 4918) ”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئینہ ہے“ اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے آپ کو ہم میں مشاہدہ کرتا ہے۔ پس اے محبوب! وہ عبودیت کی وجہ سے مؤمن ہے اور ہم ربوبیت کے مؤمن ہیں۔ پس ہم اور وہ جل شانہٗ دونوں مؤمن ہیں۔ پس اگر تم چاہتے ہو کہ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کی باتوں کی طلمساتی زبان کو سمجھ پاؤ تو چاہئے کہ اس مقام تک رسائی حاصل کرو کہ نہ تو مسلمان ہو اور نہ کافر۔ اور یہ کہ سلامتی اور اہل سلامت سے بالکل جدا ہو کر "لِيْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ" (المقاصد الحسنہ، رقم الحدیث: 926) ”میرا اللّٰہ کے ہاں ایک وقت ہے کہ جس میں نہ کسی پیغمبر کی گنجائش ہے اور نہ کسی مقرب فرشتے کی“ کے مقام عالی میں مقیم ہو کر رہو۔ پس اے محبوب! اللّٰہ تعالیٰ کے محبوبوں کی جماعت اپنے محبوب کو خود اپنے آپ میں تلاش کرتی ہے۔ پس وہ لازمًا اس کو خود اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور عاشق و سالک لوگ اللّٰہ تعالیٰ کو اسی کے ذریعے تلاش کرتے ہیں تو لازمی طور پر اُس کو اسی میں پاتے ہیں اور اسی سے دیکھتے ہیں، جیسا کہ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کا قول ہے کہ "رَأَیْتُ رَبِّيْ بِرَبِّيْ" یعنی میں نے اپنے رب کو رب کے ذریعے دیکھا۔ اور انجیل کا قول ہے کہ "لَا یَدْخُلُ مَلَکُوْتَ السَّمَاءِ مَنْ لَّا یُوْلَدُ مَرَّتَیْنِ" یعنی آسمانوں کے عالم ملکوت میں وہ شخص داخل نہیں ہو سکتا جس کی دو دفعہ ولادت نہ ہوئی ہو۔ یعنی یہ کہا کہ جب تک تمہاری ولادت نہ ہو جائے تو اس مقام عالی تک نہیں پہنچ سکتے۔ یعنی جب تمہاری ولادت اپنی ماں سے ہو جائے تو اس مقام عالی تک نہیں پہنچ سکتے، یعنی جب تمہاری ولادت اپنی ماں سے ہو جائے تو تم یہ جہاں اور اپنے آپ کو دیکھ پاؤ گے اور جب اپنے آپ سے جنم حاصل کرو گے تو اپنے آپ اور اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھ لو گے۔ اور اللّٰہ رب العزت نے کس قدر لطیف اشارہ اور خبر عطا فرمائی ہے: ﴿رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ...﴾ (المؤمن: 11) ”اے رب ہمارے! تو موت دے چکا ہمیں دو بار اور زندگی دے چکا ہمیں دو بار“ پس اے میرے محبوب! جسم و قالب کی اس موت کے علاوہ ایک دوسری موت بھی جان لے اور جسم و قالب کی اس زندگی کے سوا ایک دوسری زندگی بھی جان و مان لے۔ دوسرا اگر تم چاہتے ہو کہ معنوی زندگی اور موت کیا ہیں تو معلمِ انسانیت جناب محمد ﷺ کے ارشادات گرامی کی طرف کان لگا کر سنو کہ اپنی دُعا میں ارشاد فرماتے ہیں: "اَللّٰھُمَّ بِکَ أَحْیٰی وَبِکَ أَمُوْتُ" (الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب: ما یقول إذا نام، رقم الحدیث: 6312) ”اے میرے اللّٰہ میں تجھ ہی سے جیتا ہوں اور تجھ ہی سے مرتا ہوں“ یعنی تم سے زندہ ہوں اور تم سے مرتا ہوں۔ پس اس سے مرنا اور جینا کیسا اور کس طرح ہوتا ہے، یہ حالات عاشقوں کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں جانتا۔ یہ بات صرف وہ لوگ جانتے ہیں کہ معشوقوں کے بغیر زندگی کیسے ہوتی ہے، جدائی اور فراق موت ہوا کرتے ہیں اور زندگی وصال و قرب کا نام ہے۔ "لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ" (الصحیح لابن حبان، کتاب التاریخ، باب: بدء الخلق، رقم الحدیث: 6213) ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ؟“۔ اور مولانا محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بحر المعانی میں تحریر فرمایا ہے کہ شاہدانِ نبوت درجات میں شاہدانِ ولایت سے افضل ہیں، اور اس پر تمام مشائخ کرام رحمہھم اللّٰہ کا اتفاق ہے لیکن رسولِ اکرم ﷺ کی امت مرحومہ میں سے بعض اولیاء جو کہ رسالت مآب کے مقام قربت میں ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے انبیاء پر فضیلت رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس فریق عالی کے بارے میں زبان رسالت یہ اشارہ فرما چکی ہے کہ "إِنَّ رَجُلًا مِّنْ اُمَّتِيْ فِيْ لَیْلَۃِ الْمِعْرَاجِ رَأَیْتُہٗ فِيْ مَقَامِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی میری امت میں سے ایک شخص معراج کی رات کو میرے مقام پر تھے۔ اس سے اولیاء کی قربت اور نزدیکی رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ اور ان کے مدارجِ عالیہ معلوم ہوتے ہیں۔ پس اللّٰہ تعالیٰ کی رؤیت اور دیدار کے درجاتِ علیا جو رسول اکرم ﷺ کو حاصل ہیں، وہ کسی پیغمبر کو بھی حاصل نہیں۔ اور اس بارے میں وہ لطیف رمز بھی دیکھیے کہ فرما گئے ہیں: "لِيْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِيْ فِیْہِ مَلَکٌ وَّ لَا نَبِيٌّ مَّرْسَلٌ" (المقاصد الحسنہ، رقم الحدیث: 926) کہ مجھے اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے لمحات حاصل اور میسر ہیں کہ اُن میں کسی مقرب فرشتے یا کسی نبی مرسل کی گنجائش نہیں۔ ان ارشادات گرامی کے وقت "لَا نَبِيٌّ" تو فرما گئے۔ مگر "لَا وَلِيٌّ" نہیں فرمایا، کیونکہ ان کے لئے ہر لحظہ مشاہدے کے (جو کہ ان کا رب العزت سے کلام ہوتا ہے) جدا جدا مقامات ہوتے ہیں، اور اسی مفہوم کے ادا کرنے کے سلسلے میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اظہار فرمایا ہے اور اپنے رسالہ میں تحریر فرمایا ہے کہ "یَرَاہُ الْمُؤْمِنُوْنَ فِي الْآخِرَۃِ کَمَا یَرَاہُ الْأَنْبِیَاءُ فِي الدُّنْیَا وَیَرَاہُ الْأَنْبِیَاءُ فِي الْآخِرَۃِ کَمَا یَرَاہُ النَّبِيُّ ﷺ فِي الدُّنْیَا وَھُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِيْ لَا یَشْتَرِکُ فِیْہِ لَہٗ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ وَالرُّسُلِ وَالْأَوْلِیَاءِ" اللّٰہ تعالیٰ کو آخرت میں مؤمن لوگ اس طرح دیکھیں گے جیسا کہ دنیا میں رسول اللّٰہ ﷺ اس کو دیکھا کرتے تھے اور وہ مقام محمود ہے جس میں آپ ﷺ کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں، نہ تو نبی نہ رسول اور نہ کوئی ولی“۔

پس اے میرے پیارے! جب اللّٰہ تعالیٰ کی قربت بعض اولیاء اللّٰہ کو حاصل ہو جائے تو اس وقت ان کو معلوم ہو جائے گا کہ قربت میں کس قدر تخصیص ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تمنا کو معلوم کر کے خیال میں لاؤ کہ یہ بات کسی دوسرے کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ اور جو کچھ سلف صالحین نے معلوم کیا ہے وہ اس کی کیفیت تاڑ گئے ہیں اور بانجھ عقل سے یہ راز پوشیدہ ہیں۔ "إِعْلَمْ أَنَّ تِلْکَ الْوِلَایَۃَ مَخْصُوْصَۃٌ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَبِمُحَمِّدٍ النَّبِيِّ وَلِھٰذَا قَالَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلامُ یَا لَیْتَنِيْ کُنْتُ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ قَالَ وَاللّٰہِ لِأَنَّھَا لَا یَحْصُلُ لِيْ إِلّا بِمُتَابَعَتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کمَاَ قَالَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیْقُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَنَّ نُزُوْلَ عِیْسٰی عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ السَّمَاءِ الرَّابِعَۃِ إِلَی الْأَرْضِ لِأَجْلِ تِلْکَ الْوِلَایَۃِ الَّتِیْ ھِيَ مُعَایَنَۃُ الْحَقِّ بِمُتَابَعَۃِ النَّبِيِّ کَمَا قَالَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ" ”یہ بات خوب جان لو کہ یہ ولایت خاص محمد رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ کاش محمد رسول اللّٰہ ﷺ کی امت مرحومہ سے ہوتا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ خدا کی قسم یہ درجۂ ولایت مجھے محمد رسول اللّٰہ ﷺ کے متابعت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چوتھے آسمان سے زمین پر تشریف آوری اسی ولایت کے حصول کی خاطر ہے جو کہ معائنہ حق اور متابعت نبی ﷺ کی برکت سے حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تمنا کی کہ اے اللّٰہ! مجھے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت میں سے بنا“۔ پس یہ سب کچھ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تمنا محمد رسول اللّٰہ ﷺ کی ولایت کے لئے ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ "اَلْوِلَایَۃُ مِنِّيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی ولایت مجھ سے ہے۔ اے میرے پیارے! تم کبھی یہ گمان نہ کرنا کہ میں اولیاء کو انبیاء پر افضل کر رہا ہوں، ایسا نہیں ہے، لیکن قربت مشاہدہ میں یہ ایک خاص مقام پر دیکھے جاتے ہیں اور اسی کے بارے میں رسول اللّٰہ ﷺ نے اطلاع فرمائی ہے

تشریح:

اخیر میں بات صاف کر دی۔ اصل میں یہ جتنی بھی باتیں حضرت فرما رہے ہیں، کچھ وجوہات کی وجہ سے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ عقل اللّٰہ جل شانہٗ کا ادراک نہیں کر سکتی، یہ نا ممکن ہے۔ لیکن عشق کر لیتا ہے، لیکن چونکہ عشق کا نام ہی جذب ہے، اس لئے جب عشق اپنا ادراک بیان کرتا ہے تو وہ عاشق کو تو سمجھ آ سکتا ہے، غیر عاشق کو سمجھ نہیں آئے گا۔ کیونکہ عقل تو اس کو نہیں سمجھ کر سکتی۔ تو وہ جو آپ کو الفاظ ایسے محسوس ہو رہے ہیں کہ جیسے یہ سمجھ میں آنے والے نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان کو عقل کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، عشق کی آنکھ سے نہیں دیکھ رہے۔ اگر ہم اس کو عشق کی آنکھ سے دیکھیں تو ساری باتیں سمجھ میں آ جائیں۔ مثلاً: عقل میں فنائیت نہیں ہو سکتی اور عشق کا پہلا قدم ہی فنائیت کا ہے۔ عشق میں اپنے آپ کو مٹانا ہے، عقل میں اپنے آپ کو بچانا ہے۔ جب عشق میں اپنے آپ کو مٹانا ہے، تو جب عاشق اللّٰہ جل شانہ کی طرف دیکھتا ہے تو کیا اس کو اپنا آپ نظر آئے گا؟ اس کو اپنا آپ نظر نہیں آئے گا۔ جب اپنا آپ نظر نہیں آئے گا تو وہ یہی کہے گا، جو ہم نے کہا ہے۔ دوسری طرف (یہ بات اچھی طرح سن لو، کہ) اللّٰہ جل شانہ کبھی بھی اپنا ہاتھ نیچے نہیں کرتے، اس کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے۔ اللّٰہ کا ہاتھ ہمیشہ اوپر ہوتا ہے، جیسے حدیثِ قدسی ہے کہ جو میری طرف ایک بالشت آتا ہے تو میری رحمت اس کی طرف دو بالشت جاتی ہے، جب کوئی میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے تو میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے اور جب کوئی میری طرف چل کر آتا ہے تو میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ پس جو انسان اپنے آپ کو اللّٰہ جل شانہٗ کی محبت میں فنا کرے گا تو اللّٰہ اس کے ساتھ کیا کرے گا؟ لہٰذا جو شخص اپنے آپ کو فنا کر دیتا ہے تو اللّٰہ جل شانہ اس کو اپنا بنا لیتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اپنے آپ کو اس کے ذریعے سے ظاہر کر دیتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسے ہی ظاہر ہو جاتا ہے، جیسے عام انسان ہوتا ہے۔ لیکن اس کی روحانیت کی پرواز اتنی ہو جاتی ہے کہ پھر وہ نہیں بولتا، اللّٰہ بولتے ہیں۔

گفتۂ او گفتۂ اللّٰہ بود

گرچہ از حلقومِ عبد اللّٰہ بود

یعنی اس کا بولنا اللّٰہ کا بولنا ہوتا ہے، اگرچہ عبد اللّٰہ یعنی انسان کی زبان سے ادا ہو رہا ہو۔ چنانچہ ’’اَنا الْحَقْ‘‘ اور ’’سُبْحَانَ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ‘‘ وغیرہ، یہ ان کے قول نہیں تھے، کیونکہ اس وقت وہ تھے ہی نہیں، انہوں نے تو اپنے آپ کو فنا کیا تھا۔ لہٰذا ’’اَنا الْحَقْ‘‘ خدا کہہ رہا تھا، جب خدا کہہ رہا تھا تو گویا ان کی طرف سے کہا ہی نہیں گیا۔ ہاں ان کی زبان سے جاری ہوا۔ چونکہ زبان مخلوق کی ہے، تو ہم اس کو خدا نہیں کہیں گے۔ لیکن چونکہ اس کا بول بھی ادھر سے آیا ہے، لہٰذا اس پر بھی ہم الزام نہیں لگائیں گے۔ البتہ اس کو خدا بھی نہیں کہیں گے۔ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو درخت سے آواز آ رہی تھی، لیکن موسیٰ علیہ السلام درخت کو خدا نہیں سمجھ رہے تھے، لیکن اس کلام کو کلامِ الہی سمجھ رہے تھے کہ باقاعدہ مکالمہ ہوا تھا۔ کیونکہ اس وقت جبرائیل علیہ السلام درمیان میں نہیں تھے۔ بہرحال! وہ اسے اللّٰہ کا کلام سمجھ رہے تھے، لیکن اس درخت کو خدا نہیں سمجھ رہے تھے۔ اسی طرح اسے بھی اللّٰہ کا کلام سمجھیں۔ پھر فنائیت کے مختلف درجات ہیں۔ شہود کی کیفیت کے ساتھ فنائیت ختم ہو جاتی ہے، یعنی وحدت الشہود سے وحدت الوجود ختم ہوتی ہے۔ وحدت الشہود میں علم وجود میں آ جاتا ہے، علم سامنے ہو جاتا ہے۔ اس لئے جب انسان وحدت الشہود میں آتا ہے یعنی جب وحدت الوجود کی کیفیت وحدت الشہود میں بدل جاتی ہے تو وہ ساری باتیں سمجھتا ہے، مخلوق اور خالق کے فرق کو سمجھتا ہے۔ لہذا وہ جو بات بھی کرتا ہے، صحو کے عالم میں کرتا ہے، سکر کی حالت میں نہیں کرتا۔ لیکن وحدت الوجود میں وہ سکر کی حالت میں ہوتا ہے، اس وقت اس کی بات اور ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسے حضرات نے جو بات کی تھی، بعد میں اس بات کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا۔ جیسے میں نے کہا کہ مختلف درجات ہوتے ہیں، جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک بزرگ کا ذکر کیا ہے کہ ایک عورت ان کے پاس آئی اور ان سے درخواست کی کہ میرے بیٹے کی آنکھوں پہ ہاتھ پھیر دیں، تاکہ یہ اچھا ہو جائے، یہ مادر زاد اندھا ہے۔ وہ بزرگ اس وقت کیفیتِ عبدیت میں تھے، انہوں نے کہا کہ میں کوئی موسیٰ عیسیٰ ہوں کہ میں یہ کرتا ہوں۔ وہ عورت روتی ہوئی واپس چلی گئی۔ اتنے میں حضرت کو ان الفاظ میں الہام ہو گیا کہ ’’عیسیٰ کون؟ موسیٰ کون؟ یہ تو میں کرتا ہوں‘‘۔ اب یہ الفاظ آپ ﷺ کے کسی امتی کے تو نہیں ہو سکتے۔ اگر ان فقروں کو الہام نہ سمجھا جائے تو تینوں فقرے کفریہ ہو جائیں گے۔ چونکہ یہ الہام تھا اور الہام کے ساتھ ہر ولی کو محبت ہوتی ہے، کیونکہ وہ اللّٰہ کی طرف سے ہوتا ہے، لہٰذا وہ عالمِ شوق اور محبت میں اس وقت کیفیتِ وجد میں آ گئے اور اس عورت کے پیچھے چل پڑے، دوڑ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے: ’’عیسیٰ کون؟ موسیٰ کون؟ یہ تو میں کرتا ہوں‘‘۔ اور اس بچے کے چہرے پہ ہاتھ پھیرنے لگے، جس سے اس کی آنکھیں اچھی ہو گئیں۔ یاد رکھئے! اولیاء اللّٰہ کی کرامات اکثر عروج کی حالت میں ہوتی ہیں، نزول کی حالت میں نہیں ہوتیں۔ اگر یہ بات آپ سمجھ چکے ہیں، تو چونکہ اس ولی کو اس وقت عروج تھا، وہ اپنے آپ میں نہیں تھے، لہذا وہ یہی کہہ رہے تھے کہ موسیٰ کون؟ عیسیٰ کون؟ یہ تو میں کرتا ہوں۔ اگر تھوڑا سا بھی اپنا احساس ہوتا تو ایسا نہ کہتے۔ اس وقت الہام کے شوق میں اپنے آپ سے نکل گئے تھے۔ بعد میں لوگوں نے ان کو کہا کہ حضرت! یہ آپ کیا کہہ رہے تھے؟ کہا: میں کیا کہہ رہا تھا؟ بتایا گیا کہ آپ یوں کہہ رہے تھے۔ تو کہنے لگے: اوہ ہو! ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔ وہ تو اصل میں الہام کے الفاظ تھے، میں دہرا رہا تھا، میں تو نہیں کہہ رہا تھا۔ اب اگر اس شخص کی یہ بات کوئی نہ سنے کہ میں الہام سے کہہ رہا تھا، تو ان کے اوپر بھی وہی فتویٰ لگ جائے گا، جو ابنِ منصور پہ لگا تھا۔ اب موسیٰ کون؟ عیسیٰ کون؟ یہ تو میں کرتا ہوں، یہ الفاظ اللّٰہ کے ہوئے، کیونکہ اللّٰہ ہی سب کچھ کرتے ہیں۔ لوگ جلدی کر لیتے ہیں، گہرائی میں نہیں جاتے، معاملہ اسی میں گڑبڑ ہو جاتا ہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے مواعظ میں بیان فرمایا کہ ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور مسلسل یہ کہے جا رہے تھے کہ نہ تو میرا خدا، نہ میں تیرا بندہ، میں تیری بات کیوں مانوں؟ سب لوگ غصے ہو گئے، کوئی اس پہ تھوک رہا ہے، کوئی اس پہ ٹماٹر پھینک رہا تھا، کوئی اس کو گالیاں دے رہا تھا کہ عجیب زندیق آدمی ہے، کیا کہہ رہا ہے! ایک بزرگ آئے اور کھڑے ہو کر غور سے سننے لگے کہ یہ کہتا کیا ہے۔ انہوں نے تھوڑا دور کھڑے ہو کر ان کو آواز دی شاہ صاحب! یہ آپ کس کو کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور کہا کہ ایک عقل مند سے ملاقات ہو گئی۔ اور فرمایا یہ میں اپنے نفس سے کہہ رہا ہوں کہ نہ تو میرا خدا، نہ میں تیرا بندہ، پھر میں تیری بات کیوں مانوں؟ انہوں نے کہا: شاہ صاحب! بات تو آپ کی بالکل صحیح ہے، لیکن جگہ آپ نے غلط منتخب کی ہے۔ اگر آپ اپنے گھر کے اندر یہ بات کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، اور یہ بہتر ہو گا، لوگ فتنے میں نہیں پڑیں گے۔ انہوں نے کہا: عقل مند کی بات ماننی چاہئے، اپنی چادر کندھے پہ ڈالی اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ چنانچہ لوگ جلدی کر لیتے ہیں۔ ایک بار امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ جو شخص یہ کہے، یہ کہے، یہ کہے۔ وہ کیسا ہے؟ شاگردوں نے کہا: حضرت! اس کے کفر میں کیا شک ہے؟ حضرت نے ان باتوں کی تاویل کی کہ اگر وہ اس وجہ سے کہہ رہا ہے، اگر وہ اس وجہ سے کہہ رہا ہے، اگر وہ اس وجہ سے کہہ رہا ہے، سب کی تاویل بتائی۔ شاگردوں نے کہا: پھر تو وہ کافر نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اسی لئے گڑبڑ کرتے ہیں کہ ہم جلدی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اس دن جب ساری بات سمجھ میں نہیں آئی، تو میں نے ٹائم لے لیا، اور میں نے سوچا کہ میں اس پر غور کروں گا۔ لہٰذا یہ بات میری سمجھ میں آ گئی۔ اگر میں اس وقت اس پر کوئی comment کرتا کہ یہ کیا باتیں کی ہیں، تو اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا۔ بہرحال! جلدی نہیں مچانی چاہئے، ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ اس پہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ وحدت الوجود کی صورت میں جو شخص بات کر رہا ہوتا ہے، وہ بات اور ہوتی ہے اور پھر وحدت الشہود کی صورت میں جو بات کر رہا ہوتا ہے، وہ بات اور ہوتی ہے۔ عشاق اپنی بات کو پیچھے کر دیتے ہیں اور اپنے عشق کی بات کو آگے کر دیتے ہیں۔ یہاں پر بھی اسی وجہ سے اس طرح ہوا ہے۔ یہاں جو یہ باتیں فرمائی ہیں کہ:

متن:

”اے رب ہمارے! تو موت دے چکا ہمیں دو بار اور زندگی دے چکا ہمیں دو بار“ (اس سے حضرت نے یہ استدلال کیا ہے کہ) جسم و قالب کی اس زندگی کے سوا ایک دوسری زندگی بھی جان و مان لے۔

تشریح:

حضرت نے بڑی تفصیل کے ساتھ یہ بات فرمائی ہے کہ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ ولی نبی سے افضل ہے۔ یہ بات حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی بڑی تفصیل سے کی ہے۔ لیکن انہوں نے یہ اور رنگ میں کی ہے۔ حضرت نے محمدی مشرب والوں اور باقی انبیاء کے مشرب والوں کے بارے فرمایا ہے کہ محمدی مشرب والوں کو تجلی ذاتی ہوتی ہے اور باقی کو تجلی صفاتی ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے یہ فرمایا کہ تجلی صفاتی والوں کے لئے پردہ ہوتا ہے اور تجلی ذاتی والوں کے لئے پردہ نہیں ہوتا۔ آخر میں حضرت نے بھی یہ بات صاف فرمائی ہے، فرمایا: یہ نہ کہنا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ محمدی مشرب والے اولیاء انبیاء سے افضل ہیں۔ کیونکہ جن کا پردہ ہے، اگر وہ ان کے بہت قریب ہوں، اور جن کا پردہ نہیں ہے، مگر وہ دور ہوں، تو یہ کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ انبیاء قریب ہیں اور اولیاء دور ہیں۔ لیکن محمدیُ المشرب ہونے کی وجہ سے ذاتی تجلی میں پردہ نہیں ہوتا اور صفاتی تجلی ہونے کی وجہ سے پردہ ہوتا ہے۔

متن:

اور اسی کے بارے میں رسول اللّٰہ ﷺ نے اطلاع فرمائی ہے کہ "رَاٰھُمُ اللّٰہُ فِيْ مَقَامِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث)۔ کہ اِن کو اللّٰہ تعالیٰ نے میرے مقام پر دیکھا اور یہ بھی فرمایا کہ "اَلْوِلَایَۃُ مِنِّيْ"۔

شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے مکتوب میں فرمایا ہے کہ عشق کے سلسلے میں عاشق کا کمال اس میں ہے کہ معشوق کو بھلا بیٹھے، کیونکہ عاشق کی زندگی تو عشق کے ساتھ اور عشق کی طفیل ہے، نہ کہ معشوق کی وجہ سے۔ خدا کی قسم! اگر موسیٰ علیہ السلام اس معنیٰ سے آگاہ ہوتے تو کبھی بھی "رَبِّ أَرِنِيْ..." (الأعراف: 143) ”اے میرے رب! مجھے اپنے آپ کو دکھا دے“ نہ کہتے۔ اور اس بات کی اطلاع رسول اللّٰہ ﷺ، حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ اور ان کے چند جرعہ نوش ارادت مندوں کے سوا کسی کو نہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "لِيْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِيْ فِیْہِ مَلَکٌ مُّقَرَّبٌ وَّ لَا نَبِيٌّ مُّرْسَلٌ" (المقاصد الحسنہ، رقم الحدیث: 926) یعنی مجھے اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ایک خاص وقت حاصل ہے کہ اس میں کسی مقرب فرشتے اور کسی نبی مرسل کی بھی کوئی راہ یا گنجائش نہیں اور پھر یہ فرمایا کہ "إِنِّيْ عَرَفْتُ رِجَالًا فِيْ لَیْلَۃِ الْمِعْرَاجِ مَنْزِلَتُھُمْ مَّنْزِلَتِيْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی میں نے شب معراج ایسے آدمیوں کو پہچانا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک اُن کی منزلت میرے برابر تھی۔ آپ ﷺ اس بارے میں ایسی وضاحت فرما چکے ہیں۔ پس اے میرے پیارے! پورے غور و فکر سے کام لو کہ مقام ولایت کتنا بلند اور ارفع مقام ہے، لیکن مطلق فضیلت اہل نبوت کے لئے ہے۔ مطلب یہ کہ نبوت کی یہ فضیلت اُس وقت ہے کہ نبوت اور ولایت دو شخصوں میں جمع ہو، لیکن جب نبوت اور ولایت ایک ذات میں جمع ہوں تو تمام مشائخ کے نزدیک ولایت نبوت سے افضل ہے، اور اسی وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ "اَلْوِلَایَۃُ أَفْضَلُ مِنَ النُّبُوَّۃِ لِأَنَّ الْوِلَایَۃَ عِنْدَھُمْ عِبَارَۃٌ عَنْ شُھُوْدِ الْحَقِّ وَالنُّبُوَّۃُ عِبَارَۃٌ عَنْ دَعْوَۃِ الْحَقِّ إِلَی الْخَلْقِ" یعنی ولایت نبوت سے افضل ہے کیونکہ ان کے نزدیک ولایت سے مراد شہودِ حق ہے اور نبوت مخلوق کو خالق کی طرف دعوت دینے کو کہا جاتا ہے۔ پس اے محبوب! اللّٰہ تعالیٰ کے عاشق متنوع اور مختلف قسم کے ہوتے ہیں، ان میں سے بعض کی اساس حقیقت پر ہوتی ہے اور وہ کائنات کو اس کے تمام لذائذ کے ساتھ ٹھوکر مارتے ہیں، اس کو رد کرتے ہیں اور اس سے محبت کفر سمجھتے ہیں۔ پس ان کا دل مفتی ہے اور اس کی بنیاد رسول اللّٰہ ﷺ کا یہ قول ہے کہ آپ نے فرمایا: "کُلُّ مُجْتَھِدٍ مُّصِیْبٌ، قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْاِجْتِھَادُ؟ قَالَ: "اَلْاِجْتِھَادُ رَأْیُ الْقَلْبِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”ہر مجتھد اصابتِ رائے کا مالک ہوتا ہے، لوگوں نے پوچھا کہ اے رسول اللّٰہ ﷺ الاجتھاد کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ الاجتھاد دل کی رائے کو کہتے ہیں“۔ لیکن اے پیارے! یہ بات ضروری ہے کہ دل کو چاہئے کہ وہ روح کی طرح ہو جائے، نہ کہ دل نفسِ امارہ بن جائے پھر تو نفس کی مخالفت کرنا ایک فریضہ ہے۔

تشریح:

اس میں کئی باتیں صاف فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت کی یہ رائے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی رائے کے مطابق نہیں ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ نبی کی نبوت بھی نبوت کی ولایت سے افضل ہے۔ اس پر حضرت کا پورا ایک مکتوب ہے۔ لیکن ان کو جس نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ اور ہے اور یہ جس نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ اور ہے، یعنی نقطۂ نظر کا فرق ہے۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ یہ اجتہاد ہے اور اجتہاد میں جو شخص مصیب (اصابتِ رائے کا مالک) ہوتا ہے، وہ اللّٰہ کے نزدیک مقبول ہوتا ہے۔ مجتہد مخطی کو ایک اجر اور مجتہد مصیب کو دو اجر ملتے ہیں۔ لہذا اس مسئلہ میں اگر کشفی طور پر، ظنی طور پر بھی آپس میں اجتہاد میں اختلاف ہو جائے تو کسی کو ایک اجر ملتا ہے اور کسی کو دو اجر ملتے ہیں۔ لہذا حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ نبی چونکہ اپنی رائے پہ نہیں چلتا اور اللّٰہ جل شانہ نے چونکہ ان کو مخلوق کی طرف بھیجا ہوتا ہے، لہٰذا وہ مخلوق میں کام کرنے کے ذریعے سے اللّٰہ کے اندر مشغول ہوتے ہیں۔ یعنی وہ جو مخلوق کی طرف دیکتھے ہیں، وہ بھی اللّٰہ کے لئے دیکھتے ہیں، اس وقت بھی وہ اللّٰہ ہی کے ہوتے ہیں، وہ اللّٰہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہوتے۔ لہذا ان کی نبوت ولایت سے افضل ہے۔ کیونکہ مخلوق سے نظر ہٹا کر اللّٰہ کی طرف دیکھنا، اتنا مشکل نہیں ہے جتنا کہ مخلوق کے اندر رہ کر اللّٰہ کی طرف دیکھنا مشکل ہے۔ لیکن ان حضرات کی رائے یہ ہے کہ جس وقت اللّٰہ کا تعلق خالصتاً اس کیفیت کے ساتھ حاصل ہو جائے کہ اس میں کوئی اور غیر نہ ہو تو وہ اس حالت سے جب وہ مخلوق کی طرف بھی متوجہ ہوں، افضل ہے۔ لہذا وہ اس کو اس رنگ میں دیکھتے ہیں۔ یعنی یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب وہ بالکل اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ چنانچہ نبوت اور ولایت کے دونوں مقامات میں سے نبی کا وہ وقت جس میں وہ صرف اللّٰہ کی طرف متوجہ ہے، وہ اس وقت سے افضل ہے جس میں وہ مخلوق کی طرف بھی متوجہ ہے۔ یہ حضرات اس بنیاد پہ کہہ رہے ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اللّٰہ کی طرف خالصتاً دیکھنے سے جو طاقت حاصل ہوتی ہے، وہ مخلوق کی طرف توجہ کے وقت استعمال ہوتی ہے۔ اس لئے یہ دونوں باتیں اجتہادی ہیں۔ پس جس کا جو بھی اجتہاد ہے، وہ اس میں مصیب ہے، اس میں ہم فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اگرچہ مجھے کسی کا بھی اجتہاد زیادہ اچھا لگے گا تو میں ان کے ساتھ ہو جاؤں گا، اور میری بات بھی اجتہادی ہو گی، کیونکہ میں ان کی رائے کو لے رہا ہوں گا۔ لیکن میں ان میں سے کسی کو غلط نہیں کہہ سکتا۔ جیسے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مقلد ہوں، لیکن امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بھی اتنا ہی بڑا ولیُ اللّٰہ مانتا ہوں۔ حالانکہ ان کا آپس میں اختلاف ہے اور بہت سخت اختلاف ہے۔ یہاں تک اختلاف ہے کہ ایک فاتحہ خلف الامام کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے اس کو حرام کہتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے نزدیک امام کے پیچھے جہر کی صورت میں حرام ہے، نہیں پڑھنا چاہئے۔ بہرحال! اتنا اختلاف ہونے کے باوجود بھی ہم دونوں کو اولیاء مانتے ہیں۔ کیونکہ یہ فیصلہ ہم نے نہیں کرنا، اللّٰہ تعالیٰ نے کرنا ہے۔ لہذا ہم دونوں کو ولیُ اللّٰہ مانتے ہیں۔ کیا خیال ہے کہ مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، ان دونوں کو ولی نہیں مان سکتے؟ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی رائے اپنے طور پہ بڑی وزنی ہے اور ان کی رائے اپنے طور پہ بڑی وزنی ہے۔ لہذا فیصلہ کرنے والے ہم کون ہیں؟ دونوں اپنی اپنی رائے پہ قائم ہیں۔ اور یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں ہے کہ جس میں ہمیں فیصلہ کرنا پڑے۔ فیصلہ تو اس صورت میں ہوتا ہے کہ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ میں سے کوئی ایک رائے لینی پڑتی ہے۔ کیونکہ نماز تو سب نے پڑھنی ہوتی ہے، لہذا یا تو فاتحہ خلف الامام ہو گی یا نہیں ہو گی، دونوں میں سے ایک ہی کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لہذا ہم اس صورت میں پکے حنفی بن جاتے ہیں اور شافعی نہیں ہوتے۔ لیکن امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بھی حق پر سمجھتے ہیں۔ مگر یہاں پر تو ہمیں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، کیوں کہ ہم سے کسی نے نہیں پوچھا کہ ولی افضل ہے یا نبی افضل ہے۔ اس لئے ہمیں تو کچھ کرنا نہیں ہے۔ لہذا ہم اپنے آپ کو کیوں اس میں الجھائیں۔ ہم ہر ایک بزرگ کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ یہی ہمارے لئے صحیح طریقہ ہے۔ یہاں دوسری زبردست بات فرمائی ہے کہ: آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اجتہاد دل کی رائے کو کہتے ہیں“۔ ایک دفعہ میں نے یہ بیان کیا تھا، لیکن اس وقت میں صرف اصول کی بنیاد پر یہ بات سمجھا رہا تھا۔ اب تو ما شاء اللّٰہ مجھے اپنے بزرگوں کی ایک تائید بھی مل گئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ’’میرا دل یہ کہتا ہے‘‘۔ آج کل کے دور میں ان کا نفس یہ کہتا ہے۔ کیونکہ شرحِ صدر ان کا ہوتا ہے، جن کا دل صاف ہو، جن کا دل دنیا کی محبت سے پاک ہو۔ اور جن کا دل نفس زدہ ہے، نفسِ امّارہ کا مارا ہوا ہے، وہ اپنے نفس کو اپنے دل میں دیکھتے ہیں۔ جیسے مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ نفس اور روح مقامِ قلب میں دونوں اکٹھے ہیں۔ جب اکٹھے ہیں، تو وہ اپنے نفس کو دل میں دیکھتے ہیں۔ لہٰذا بات ان کے نفس کی ہوتی ہے، لیکن سمجھتے ہیں کہ میرا دل یہ کہتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ایسے لوگوں کے پیچھے چلنا ضروری ہے، جن کا دل بات کرتا ہے، جن کا نفس بات نہ کرے۔ ورنہ وہ نفس کے شکار ہو جائیں گے۔ ایک دفعہ بیان میں میں نے عرض بھی کیا تھا کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ: ’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ‘‘ یعنی اپنے دل سے پوچھو، یہاں تک کہ لوگ فتویٰ دیں تو بھی اپنے دل سے پوچھو۔ یہ کن سے کہا گیا ہے؟ آج کل کے لوگوں کو نہیں کہا گیا، بلکہ صحابہ کرام سے فرمایا گیا ہے۔ آج کل کے لوگ اگر اس بات پر عمل کر لیں تو سارے مفتی حضرات کے فتوے ختم ہو جائیں گے۔ ہر آدمی کہے گا کہ میرا دل یہ کہتا ہے، بس ٹھیک ہے۔ کون عمل کروائے گا۔ اس لئے ان تمام چیزوں کو بڑی عقل مندی سے سمجھنا پڑتا ہے۔ یہ جو غیر مقلد گڑبڑ کرتے ہیں، اس میں یہی تو مسئلہ ہے کہ وہ ظاہر پہ فیصلہ کرتے ہیں، وہ اس چیز کی گہرائی میں نہیں جاتے۔ نتیجتاً اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اب اگر اسی بات کو ظاہری طور پر لیں تو آج کل کیا ہو گا؟ وہ آج کل یہی کر رہے ہیں، اپنی رائے پہ چلتے ہیں، اپنی مرضی پہ چلتے ہیں اور کسی کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اور کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کون ہے؟ امام شافعی کون ہے؟ یہ کون ہے؟ یہ کون ہے؟ نتیجتاً وہ کہاں پہنچ گئے؟ ان کے ہاں ایسی ایسی گندی باتیں ہیں کہ میں آپ کو کیا بتاؤں۔ زبان پہ لاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے، میں نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ دھڑلے سے کہتے ہیں۔

قاری عبد الحمید صاحب نے یہ بات بتائی ایک دفعہ ایک غیر مقلد نماز پڑھا رہے تھے، میں نے کہا کہ یہاں اتنے غیر مقلد کہاں سے آ گئے؟ ایک صاحب نے مجھے کہا کہ یہ سارے طلاقی ہیں، انہوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دی تھی، اور کوئی ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا، تو یہاں فتووں کے ڈھیر لگائے ہوئے ہیں۔ بس انہوں نے فتویٰ دے دیا کہ تمہاری بیوی کو طلاق نہیں ہوئی، وہ تمہارے لئے حلال ہے۔ یہ اس وجہ سے یہاں آئے ہیں اور یہ غیر مقلد ہو گئے ہیں۔ لہٰذا یہاں بھی نفس کی بات آ گئی۔ شریعت ان کو کہتی ہے کہ ذرا سوچ کے صحیح طریقے سے طلاق دو۔ اللّٰہ نہ کرے، اگر طلاق دینی ہو تو شرعی طریقے سے دو۔ شرعی طریقے سے اس طرح ہوتی ہے کہ ایک طلاق دو، طہر کی حالت میں دو، پھر انتظار کرو، پھر دوسرے طہر میں دو، پھر تیسرے میں دو۔ یہ صحیح طریقہ ہے۔ اس میں آپ کو سوچنے کا بھی موقع مل جائے گا، ان کو بھی سوچنے کا موقع مل جائے گا، آپس میں جمع ہونے کا راستہ بھی مل جائے گا۔ آج کل تو غصہ میں ڈز ڈز ڈز، تین فائر کر لیتے ہیں، اس کے بعد پھر مفتیوں کے پیچھے پھرتے ہیں۔ پھر جب ان کو اس قسم کا کوئی مفتی مل جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے۔ اور ساری عمر زنا کرتے ہیں۔ اللّٰہ بچائے۔ یہ میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ اگر آج کل ہم نے اپنے ایسے دل کو مفتی سمجھ لیا، جو کہ نفس کے حوالہ ہے۔ تو ہمارا حشر یہی ہو گا۔ لہذا ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو کہتے ہیں کہ یا تو خود بینا ہو جاؤ یا کسی بینا کے پیچھے چلو۔ یعنی دو صورتیں ممکن ہیں، اگر خود تمہاری آنکھوں میں روشنی نہیں ہے تو کسی ایسے شخص کے اوپر ہاتھ رکھو جو روشنی والا ہو، جو آنکھ والا ہو۔ بس یہی کر سکتے ہو۔ اسی وجہ سے آج کل ہمارا یہ حال ہے۔ آگے فرماتے ہیں:

متن:

پھر تو نفس کی مخالفت کرنا ایک فریضہ ہے۔ اللّٰہ رب العزت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نصیحتًا فرمایا کہ "تَقَرَّبْ إِلَيَّ بِعَدَاوَۃِ نَفْسِکَ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”اپنے نفس کی مخالفت کر کے میرا تقرب اور نزدیک حاصل کرو“ یعنی اپنے نفس کی مخالفت کرنا اللّٰہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے۔ بیت:

؎ وسوسۂ تن گذشت غلغلۂ جان رسید

مور فروشد بگور خیز سلیمان رسید

چند مخنث نژاد دعویٰ وحدت کنند

جان خدا خوان بمرد جان خدا دان رسید

دزد کہ باشد برفت شحنۂ ایمان رسید

شحنۂ کہ باشد بگو چون شہ و سلطان رسید

’’جسم و تن کے خیال و فکر اور وسوسہ کا وقت گذر گیا، اب روح کے جوش و خروش اور غلغلے کا وقت آن پہنچا۔ چیونٹی قبر میں اندر گھس گئی، اُٹھ جائیے کہ سلیمان آن پہنچے۔ چند ہیجڑے اور مخنث لوگ وحدت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ (یعنی جو نفس کی وجہ سے اپنی طرف سے کرتے ہیں) خدا خدا کرنے والا تو مر گیا اب خدا کو پہچاننے والا آں پہنچا۔ چور کی کیا حیثیت ہے اب تو ایمان کا کوتوال آن حاضر ہوا ہے، کوتوال ہی کیا ہے اعلان کیجیے کہ بادشاہ اور سطان آن پہنچا ہے‘‘۔

علمائے ظاہر نے یہ سمجھا ہے کہ علم بس یہی ہے جو ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللّٰہ نے فرمایا ہے، وہ زمانے بھر کے سب سے بڑے ناسمجھ ہیں، کیونکہ ؎

عشق را بو حنیفہ درس نہ گفت

شافعی را درو روایت نیست

حنبل از سیر عشق بے خبر ست

مالک را درو روایت نیست

’’امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے عشق کا درس نہ دیا۔ امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کی روایت نہیں کی۔ امام حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ عشق کے رُموز و اسرار سے آگاہ نہیں اور امام مالک نے رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کی کوئی روایت نہیں کی‘‘۔

حضرت صاحب شیخ رحمکار رحمۃ اللّٰہ علیہ معرفتِ حق کا ایک آئینہ تھے اور لوگ جو کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی ارادت کو پیر کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے وہ یہی بات کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ نے اللّٰہ تعالیٰ کو مصطفیٰ ﷺ کی جان پاک سے حاصل کیا اور اسی مفہوم کے ذریعے اوامر و نواہی کی معرفت اُن کے دل مبارک پر القا ہوئی۔ پس رسول پاک ﷺ کی روح مبارک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے لئے ایک آئینہ تھی جس میں اُنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھا۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ