اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے معارف ان کے صاحبزادہ حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے پڑھے جا رہے ہیں۔ ایک شعر سے آج ابتدا ہو رہی ہے۔
متن:
گر نگاہ فقر خواہی اے پسر
از خود و جملہ جہاں اندر گذر
ایں کلاہ بے بہر است اے شاہ پسر
گر دهندت تا تو مے نازی بسر
’’اگر تم فقیر کی نگاہ چاہتے ہو تو اے برخوردار! اپنے آپ اور تمام جہان کو چھوڑ کر اس سے آگے گزر جاؤ، یہ تاج انمول ھے۔ اے شہزادے! اگر تمہیں دیں تو تم ناز سے زندگی گذارو گے‘‘۔
اور دوسری منزل یہ ہے کہ اس توبہ کے بعد زہد اختیار کرو، زہد کی حقیقت یہ ہے کہ موت سے پہلے اپنے اختیار سے اپنے آپ کو اور اپنے مقصود کو چھوڑ کر آؤ، کیونکہ موت کے بعد تو اضطرارًا تم خود (بخود مجبوراً) ایسا کرو گے، اور وہ ترک و خروج عند اللّٰہ ضروری ہے اور اس کا کوئی حساب بھی نہیں کیونکہ وہ اضطراری ہوتا ہے، پس تم ایسا زہد اختیار کرو کہ تمام درجات اور دنیاوی لذتوں کو چھوڑ کر پسِ پشت ڈالو، اور اگر یہ سب کچھ تمہیں دے دیں تو آنکھ اُٹھا کر بھی اس کو نہ دیکھو، کیونکہ "اَلدُّنْیَا حَرَامٌ عَلٰی أَھْلِ الْآخِرَۃِ وَالْآخِرَۃُ حَرَامٌ عَلٰی أَھْلِ دُنْیَا وَھُمَا حَرَامَانِ عَلٰی أَھْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی" ”دنیا آخرت والوں کے لئے حرام ہے اور آخرت دنیا والوں کے لئے حرام ہے اور یہ دونوں یعنی دنیا اور آخرت اہلُ اللّٰہ کے لئے حرام ہیں“ اور اے میرے محبوب! اِن حرام اشیاء میں حرام کیا ہے؟ تو جان لو کہ ان میں دنیا اور عقبیٰ کی لذت حرام ہے، اِن کی خدمت کرنا حرام نہیں، خدمت کرنے میں خدمت کرنے کے علاوہ محبت کرنا نہیں ہوتا، اور حرام صرف غیر اللّٰہ کی محبت ہے، خواہ وہ دنیا کی محبت ہو یا عقبیٰ کی۔ پس اے محبوب! محبوبِ ازلی نے یہ خدمت گذاری کا کام اپنے خاص محبوبوں کے لئے مقرر فرمایا ہے، پس حرام یہ ہو گا کہ محبوبِ ازلی کے بغیر کسی دوسرے کے ساتھ محبت کی جائے، خدمت کرنا حرام نہیں، لوگوں نے یہ فرض کیا ہے کہ اگر خدمت بھی حرام گردانی جائے تو ہم مفلس، قلاش اور محتاج ہو جائیں گے، پس حرام سے مُراد محبتِ باطنی ہے کیونکہ دل اور باطن میں دنیا اور عقبیٰ کی محبت اور لطف اندوزی کی طلب منع ہے۔ ہاں اگر ظاہری طور پر ہزاروں سال بھی خدمت میں مشغول رہو اور تمہارے دل میں بھی غیر اللّٰہ کی محبت نہیں تو اُس وقت یہ خدمت حرام نہ ہو گی، اس بات پر ٹھنڈے دل سے غور کرو۔
تشریح:
یہ بہت گہرا مضمون ہے۔ یہ فقر کے متعلق ہے۔ پہلے حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے زہد اور عشق کے بارے میں بڑی تفصیل سے بات ہوئی تھی، اس میں یہ بات آئی ہے کہ فقر دو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے: زہد اور عشق۔ یعنی انسان دل سے اللّٰہ تعالیٰ پر عاشق ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کے لئے دو جہاں کی ساری محبتوں کو ترک کرنے پہ تیار ہو، اس کو زہد کہتے ہیں۔ گویا کہ جب تک انسان مکلف ہے دنیا میں دو ہی مسائل ہیں: ایک یہ کہ دل کسی غیر اللّٰہ کے ساتھ پھنسا نہ ہو، غیر اللّٰہ سے مراد یہ ہے کہ غیر اللّٰہ کی محبت نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ نفس تابع دار ہو، اللّٰہ جل شانہ کا حکم ماننے سے انکار نہ کرے۔ نفس اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے سے انکار تب تک کرتا ہے کہ جب تک نفس کی خواہش کو دبایا نہ گیا ہو اور وہ خود سر ہو، وہ اپنی خواہش کو کسی کے لئے بھی ترک کرنا نہ جانتا ہو، یہ زہد کی ضد ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان اپنے نفس کو ہر حال میں قابو کرنا سیکھ لے، پھر خدمت گزاری کے لئے اگر اس کو کچھ خوراک دے دے، کچھ آرام دے دے، تو یہ جرم نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو assignment ہے، ایک کام ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ فقر دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ایک زہد، جس کا تعلق نفس کے ساتھ ہے۔ اور دوسرا عشق، جس کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ لہذا دل میں غیر اللّٰہ کی محبت نہ ہو اور نفس کی خواہشات کی پروا نہ ہو۔
متن:
گر نگاہ فقر خواہی اے پسر
از خود و جملہ جہاں اندر گذر
ایں کلاہ بے بہر است اے شاہ پسر
گر دهندت تا تو مے نازی بسر
’’اگر تم فقیر کی نگاہ چاہتے ہو تو اے برخوردار! اپنے آپ اور تمام جہان کو چھوڑ کر اس سے آگے گزر جاؤ۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ نہ تو اپنے نفس کو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی میں مداخلت کے قابل سمجھو اور نہ کسی اور کے نفس کو اس قابل سمجھو کہ اس کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کو چھوڑا جائے۔ ’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِيْ مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 3696)
ترجمہ: ’’خالق کی معصیت میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے‘‘۔
اس میں دونوں چیزیں شامل ہیں، یعنی اپنے نفس کی ایسی اطاعت کہ جس میں خالق کی نا فرمانی ہو، یا کسی اور کی اطاعت، چاہے وہ والد ہے، چاہے وہ والدہ ہے، چاہے بیٹا ہے، چاہے بیٹی ہے، چاہے بیوی ہے، چاہے پڑوسی ہے، چاہے بادشاہ ہے، چاہے کوئی بھی ہو، لیکن اس کی اطاعت کے لئے اللّٰہ پاک کی اطاعت کو نہ چھوڑا جائے۔ priority اس طرح سیٹ ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کو بہرحال پورا ہونا چاہئے، اس میں کسی کو بھی رکاوٹ نہ ڈالنے دی جائے۔
متن:
اور دوسری منزل یہ ہے کہ اس توبہ کے بعد زہد اختیار کرو، زہد کی حقیقت یہ ہے کہ موت سے پہلے اپنے اختیار سے اپنے آپ کو اور اپنے مقصود کو چھوڑ کر آؤ،
تشریح:
یہاں ایک روایت بتا رہے ہیں: ’’اَلدُّنْیَا حَرَامٌ عَلٰی أَھْلِ الْاٰخِرَۃِ وَالْاٰخِرَۃُ حَرَامٌ عَلٰی أَھْلِ دُنْیَا وَھُمَا حَرَامَانِ عَلٰی أَھْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی‘‘ ’’دنیا حرام ہے آخرت والوں پر اور آخرت حرام ہے دنیا والوں پر اور یہ دونوں اہل اللّٰہ پہ حرام ہیں‘‘۔ یہ بہت عجیب بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ (جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ) غیر اللّٰہ کی طلب دنیا ہے۔ اور جو آخرت کے طالب ہیں، وہ جب دنیا کی طلب کریں گے تو ان کے اوپر آخرت حرام ہو جائے گی، اور جو آخرت کو طلب کریں گے اور دنیا کو چھوڑ دیں گے، تو ان کے اوپر دنیا حرام ہو جائے گی، اور یہ دونوں اللّٰہ کے عاشقوں پہ حرام ہیں، یعنی جو اللّٰہ کے عاشق ہیں، وہ ان دونوں کی طلب نہیں کر سکتے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ جیسے یہاں دنیا میں ایک ہے نفس کی خواہش کی وجہ سے کھانا، دوسرا ہے اللّٰہ کا حکم سمجھ کر کھانا، دونوں میں فرق ہے۔ نفس کی خواہش سمجھ کے کھانا دنیا ہے اور اللّٰہ کا حکم سمجھ کر کھانا؛ یہ اللّٰہ کا حکم ہے، اس میں اللّٰہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک ہے جنت کا خود طالب ہونا، اور دوسرا ہے اللّٰہ کے لئے جنت کو طلب کرنا کہ اللّٰہ چاہتا ہے کہ ہم طلب کریں۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ یعنی اللّٰہ جل شانہ ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم جنت طلب کریں، اللّٰہ چاہتے ہیں کہ ہم اس سے مانگیں، اللّٰہ چاہتے ہیں کہ ہم اس سے عافیت طلب کریں۔ یہ باتیں آپ حضرات کو شاید مبالغہ نظر آئیں گی، لیکن یہ بالکل حق ہے۔ جس پر گزر جاتی ہے، اس کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ بالکل حق ہے۔ کیونکہ جو لوگ خالصتاً لوجہ اللّٰہ جنت کو چاہتے ہیں، ان کا حال اور ہوتا ہے، دل ان کا جنت میں نہیں لگا ہوتا، ان کا دل اللّٰہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر وہ جنت کو طلب کرتے ہیں۔ کیونکہ اللّٰہ پاک نے حکم دیا ہے۔ اور جو خالصتاً جنت کو طلب کرتے ہیں، وہ ایک قسم کی تجارت کر رہے ہیں۔ کیونکہ ایک تو اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھ رہے ہیں، دوسرا اپنے اعمال کو کچھ قابل رہے ہیں۔ جن کے دل کے اوپر اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت چھائی ہوئی ہوتی ہے، وہ اپنے کسی عمل کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ ہم اس پر کوئی چیز مانگیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے اعمال کو خراب ہی کیا ہے، ہم اس پر کیا مانگیں۔ ہاں جب وہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر مانگتے ہیں تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے اور اس میں بات بھی اور ہوتی ہے۔ یہاں بھی وہی بات ہے کہ ’’وَھُمَا حَرَامَانِ عَلٰی أَھْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی‘‘ کہ یہ دونوں حرام ہیں اہل اللّٰہ پر۔ اور جو انسان کھانا اس لئے کھاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے اندر کوئی رکاوٹ نہ آ جائے، کپڑے اس لئے پہنتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم پورا ہو جائے، شادی اس لئے کرتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت نہ ہو، سنت پوری ہو جائے۔ اسی طرح ہر ہر چیز کے متعلق ہمیں ہمارے دین نے ایک مکمل ضابطۂ حیات دیا ہے۔ لہٰذا اس کے لئے ہمیں کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اللّٰہ پاک نے سارا کچھ ہمیں تیار دیا ہوا ہے۔ چنانچہ اگر اس طریقے سے کریں گے تو دل اس کے ساتھ ملوث نہیں ہو گا۔ مجھے پورا واقعہ تو یاد نہیں ہے، لیکن میں اس کا لبِ لباب بتا دیتا ہوں۔ ایک بزرگ نے دوسرے بزرگ کو تحفہ بھیجا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کبھی میں بیوی سے ملا ہوں، اگر میں نے کبھی کھانا کھایا ہو، اگر میں کبھی سویا ہوں، تو یوں ہو جائے۔ پیغام لے جانے والا بھی بڑا حیران تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ادھر بیوی اچھل پڑی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، کیا میں حرام سے لائی ہوں۔ انہوں نے فرمایا: خدا کی بندی! سمجھتی کیوں نہیں ہو؟ میں ایک دن بھی اپنی خواہشِ نفس کو پورا کرنے کے لئے تیرے پاس نہیں آیا، میں تو اللّٰہ تعالیٰ کا حکم پورا کرنے کے لئے تیرے پاس آیا ہوں۔ اسی طرح میں نے کبھی اس لئے کھانا نہیں کھایا کہ میرا نفس خواہش کرتا ہے، بلکہ اس لئے کھایا ہے کہ یہ اللّٰہ پاک کا حکم ہے۔ میں کبھی اس لئے نہیں سویا ہوں کہ میرا نفس خواہش کرتا ہے، بلکہ میں اس لئے سویا ہوں کہ اللّٰہ کا حکم ہے، سنت ہے۔ چنانچہ ان ساری چیزوں میں عمل میں کوئی فرق نہیں ہوتا، صرف نیت کا فرق ہوتا ہے۔ ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)
ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔
اس لئے نیت ہی بدلنی ہوتی ہے، لیکن نیت بدلنے کے لئے دل بدلنا ہوتا ہے۔ جب تک دل نہیں بدلتا نیت نہیں بدل سکتی، اور جب تک نیت نہیں بدلتی، اعمال صحیح نہیں ہو سکتے۔ یہی بنیادی چیز ہے۔ جیسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے منقول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کے سامنے اس کائنات کو اس طرح سجا دیتے ہیں، جیسے کسی کے سامنے دستر خوان پڑا ہوتا ہے کہ جہاں سے کوئی چیز اٹھانا چاہیں، اٹھا لیں۔ جہاں کوئی چیز رکھنا چاہیں، رکھیں۔ لیکن وہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں کہ اللّٰہ کا کیا ارادہ ہے۔ تو کوئی فرق نہیں ہوا، پہلے بھی اللّٰہ کا ارادہ چل رہا تھا، اب بھی اللّٰہ کا ارادہ چل رہا ہے۔ لیکن یہ ولی اللّٰہ بن گیا ہے۔ فرق کچھ بھی نہیں پڑا۔ دنیا اسی طرح ہے، جس جگہ پر پہلے تھی، ویسے ہی ہے۔ لیکن ان کا مقام اللّٰہ تعالیٰ نے بڑھا دیا کہ ان کو اختیار دے دیا کہ تم جو کچھ کرو، کر سکتے ہو۔ یہاں بھی یہی چیز ہے کہ فرق کچھ بھی نہیں پڑتا، انسان کھاتا بھی ہے، پیتا بھی ہے، سوتا بھی ہے، شادی بھی کرتا ہے۔ کافروں کو بھی یہی اعتراض ہوتا تھا کہ یہ کیسے پیغمبر ہیں، جو کھاتے بھی ہیں، سوتے بھی ہیں، بازاروں میں بھی چلتے ہیں۔ اللّٰہ پاک نے قرآن میں یہ ذکر کیا ہے۔ لہٰذا اس سے فرق نہیں پڑتا، فرق دل کا ہے۔ کیونکہ محبت کی جگہ دل ہے اور مشقت کی جگہ نفس ہے۔ مشقت کے لئے جب نفس تیار ہو جائے تو اس کو زہد کہتے ہیں۔ اور جب اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہو جائے تو یہ عشقِ الٰہی ہے۔ یہ دونوں چیزیں مل کر فقر بن جاتا ہے۔ تو فقر کیا ہے؟ (عجیب بات اللّٰہ تعالیٰ نے دل میں ڈالی ہے) فقر ہے؛ اپنے آپ سے نکل جانا۔ کیونکہ نفس بھی ہمارا ہے، رکاوٹ ڈالتا ہے، اگر میں اپنے آپ سے نکل جاؤں گا تو اس کی بات کب مانوں گا؟ کیونکہ میں اس کا غلام تو نہیں ہوں۔ ہمارے دل کے اندر اللّٰہ کے علاوہ اور کوئی نہ ہو، خود میں بھی نہ ہوں، جب یہ دونوں چیزیں انسان کی اپنی نہ رہیں تو یہ فقر ہے۔ بڑے اللّٰہ والے اپنے آپ کو فقیر کہتے ہیں، جن میں بڑے بڑے مال دار بھی ہوتے ہیں۔ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کیسے فقیر ہیں۔ کیونکہ اکثر لوگوں نے فقیر اسے سمجھا ہوتا ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، اکثر لوگوں نے فقیر اس کو سمجھا ہوتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے، لیکن اس طرح نہیں جس طرح لوگ سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ اس طرح کہ ان کے دل میں کسی چیز کا خیال نہ ہو۔ گویا غیر اللّٰہ سے ان کا دل خالی ہو۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا ہاتھ غیر اللّٰہ سے خالی ہو۔ ہاتھ کا تو حکم ہی نہیں ہے، ہاتھ کا تو اثر ہی نہیں پڑتا۔ آپ کے ہاتھ میں چاہے پوری سلطنت ہو۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ میں پوری سلطنت تھی۔ کیا وہ اس مقام پہ نہیں تھے؟ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا اور وہ دنیا دار ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ انسان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے اور وہ دنیا دار نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ معاملہ دل کا ہے۔ اس لئے اپنا دل بدلنا چاہئے۔
متن:
ہر آں کہ در بنازد ہر دو عالم
نگردد حریم خاص مجرم
’’جو کوئی دونوں جہان اس محبت کے کھیل میں ہار نہ جائے تو وہ حریم خاص کا مجرم نہیں بن سکتا‘‘۔
اس ہارنے اور ہاتھ سے دینے کا مطلب دِلی محبت کرنا ہے، دِل میں ان کی (یعنی دُنیا اور عقبیٰ ہر دو کی) محبت کو جگہ نہ دو کیونکہ "وَھُمَا حَرَامَانِ عَلٰی أَھْلِ اللّٰہِ" کہ یہ دونوں اہل اللّٰہ پر حرام ہیں۔
تیسری منزل توکّل ہے، اور توکّل کی حقیقت یہ ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے اختیار سے اسباب و ذرائع کی طرف نگاہ کرنے سے باز آجاؤ،
تشریح:
جیسے ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘۔ اضطراری طور پر تو ہو گا ہی، لیکن مرنے سے پہلے اختیاری طور پر اسباب و ذرائع کی طرف نگاہ نہ ہو، بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف نگاہ ہو۔ یعنی اگر اللّٰہ تعالیٰ کسی طریقے سے آپ کو کوئی پیغام دے دے کہ کھاؤ نہیں، میں تمہیں ویسے ہی پال لوں گا، تمہیں ویسے ہی سیر کر دیتا ہوں، تو بس آدمی تیار ہو۔ کھانے کی طرف نظر نہ ہو۔ ہاں البتہ اگر اللّٰہ کا حکم اس طرح ہے کہ تم کھاؤ، اس لئے کہ عبادت کی طاقت حاصل کرو، اور یہ چیز میں نے اس کے ساتھ رکھی ہے، چنانچہ جب وہ عبادت کے لئے کھائے گا تو وہ کھانا اس کے نفس کے لئے نہیں ہو گا۔ چنانچہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ اسباب پہ نظر نہ ہو۔ اسباب اختیار کرنا اور چیز ہے، اسباب پہ نظر ہونا اور چیز ہے۔ دونوں جگہ پر انسان مجبور ہوتا ہے، ایک جگہ مجبوری یہ ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر کام ہی نہیں ہو سکتا، یہ بھی مجبور ہے۔ دوسری جگہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہو، اس کے مانے کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ یعنی اللّٰہ کے حکم کے سامنے اپنے آپ کو مجبور سمجھنا اور اسباب سے اپنے آپ کو مجبور سمجھنا۔ دونوں جگہ مجبور ہے، لیکن ایک کا مجبور ہونا الگ ہے، دوسرے کا مجبور ہونا الگ ہے۔
متن:
اپنے اختیار سے اسباب و ذرائع کی طرف نگاہ کرنے سے باز آجاؤ، کیونکہ مرنے کے بعد تو اضطرارًا تمام متعلقاتِ اسباب و ذرائع سے دست کشی اختیار کرو گے، بعد از موت کی دست کشی اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں کسی کھاتے میں شمار نہیں ہو گی، یعنی اسباب و ذرائع سے وہ لا تعلقی اور دست کشی جو کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کے محض فضل و کرم کے ناطے کرو گے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ﴾ (التوبہ: 129) ”اگر یہ روگردانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللّٰہ تعالیٰ کافی ہے، اُس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں اس پر تکیہ و توکل کرتا ہوں، اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے“۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ میرا تعلق ان اسباب کے ساتھ اور ان کے ماننے سے نہیں ہے، میرا تعلق کسی کام کے ہونے سے نہیں ہے۔ میرا کام تو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ جیسے تمام انبیاء کرام ایک بات فرمایا کرتے تھے: ﴿اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ﴾ (السبا: 47)
ترجمہ: ’’میرا اجر تو اللہ کے سوا کسی کے ذمے نہیں ہے‘‘۔
یعنی اللّٰہ ہی میرا اجر دے گا، مجھے اس کے ساتھ واسطہ ہے، میرا کسی اور کے ساتھ واسطہ ہی نہیں ہے۔
متن:
اے میرے عزیز! چوتھی منزل قناعت ہے، قناعت کی حقیقت یہ ہے کہ دوست کے سوا ہر کسی سے جدائی اختیار کرو، یعنی کسی کے ساتھ بھی باطنی محبت نہ کرو، نہ بیویوں کے ساتھ اور نہ بچوں کے ساتھ اور نہ کسی غیر کے ساتھ۔ یعنی باطن اور دل میں جیتے جی اپنے محبوب (اللّٰہ تعالیٰ) کے سوا کسی دوسرے کو جگہ نا دو،
تشریح:
اصل میں محبت کا مفہوم یہ ہے کہ محبت میں محبوب کے لئے باقی چیزیں قربان کی جاتی ہیں۔ چنانچہ جس میں اللّٰہ کی محبت ہو گی تو اللّٰہ کی محبت میں سب غیر اللّٰہ کی محبت قربان کرنی پڑے گی۔ ہاں! اللّٰہ کے لئے محبت اور چیز ہے، وہ تو آپ ﷺ نے مانگی ہے: ’’اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُّحِبُّكَ وَحُبّاً يُّبَلِّغُنِيْ حُبَّكَ‘‘۔
ترجمہ: ’’اے اللّٰہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ہر اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور ہر اس عمل کی محبت مانگتا ہوں جو تیری محبت تک مجھے پہنچائے‘‘۔
لہٰذا یہ تو مطلوب ہے اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ البتہ فی نفسہٖ اللّٰہ کے علاوہ اور کوئی محبت نہ ہو، یعنی باقی محبتیں طبعاً ہوں اور اللّٰہ کی محبت اصلاً ہو۔ لہٰذا بیوی کے ساتھ محبت اگر عصمت کے لئے ہے تو یہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہوا۔ جب اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہوا تو اس پہ ثواب ملے گا۔ لیکن پتا اس وقت چلے گا کہ جب بیوی اللّٰہ کے کسی حکم کے درمیان آئے گی۔ اس وقت آپ کو ذرا بھر بھی اس طرف میلان نہ ہو کہ وہ آپ کو مجبور کر سکے اور آپ کو اللّٰہ تعالیٰ سے ہٹا دے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی بالکل خالصتاً لوجہ اللّٰہ انسان اس وقت اس سے اپنا رخ پھیر سکے کہ یہ معاملہ نہیں چل سکتا۔ چاہے اس کو حکمتاً نہ کہے، بعض دفعہ حکمتاً نہیں کہنا ہوتا، لیکن دل سے انسان کا یہی جذبہ ہو کہ یہ معاملہ نہیں چلے گا اور اس میں کوئی اور بات نہیں چلے گی۔
متن:
ورنہ موت کے بعد تو ظاہر ہے کہ قناعت کرو گے، جو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک کسی شمار میں نہیں۔
؎ معاذ اللّٰہ کہ من زیں پس بر اغیار بنشینم
مرا چوں گل بدست آمد چرا با خار بنشینم
چہ باشد به ازیں دولت کہ من در خواب مے جستم
چرا لب بستہ بر دریا چو تو بیمار نشینم
’’خدا کی پناہ! اگر آج دِن کے بعد میں اغیار کے ساتھ بیٹھوں، جب مجھے پھول کی صحبت نصیب ہوتی ہے میں کانٹے کی قریب کیوں پھٹکوں، اس سے زیادہ نعمت کیا ہو گی کہ میں اس کو اپنی نیندوں میں تلاش کرتا تھا، اب بیمار کی طرح لب دریا کیوں ’’تشنہ لب‘‘ اور لب بستہ رہ بیٹھوں‘‘۔
پانچویں منزل اے میرے دوست عزلت ہے، عزلت کی حقیقت یہ ہے کہ جیتے جی غیر اللّٰہ سے اپنے باطن کو بند رکھو، کیونکہ موت کے بعد باطن کا دروازہ غیر اللّٰہ سے بند رکھنے کی کوئی قیمت اور شمار نہیں۔ پس اے برادرِ عزیز! عزلت دو قِسم کی ہوتی ہے: ایک عزلتِ زنانہ، اور دوسری قسم عزلتِ مردانہ، پس عزلتِ زنانہ یہ ہے کہ اپنے اعضاء کو صومعہ میں بند کر کے رکھو اور دِل محلات میں اٹکا رہے، ایسی عزلت و تنہائی کسی کام کی نہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی وقعت نہیں۔ اور مردانہ عزلت یہ ہے کہ ظاہر میں لوگوں کے ساتھ مجلس آرائی کرتے رہو اور لوگوں سے محوِ کلام رہو مگر باطن کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ باندھے رکھو، یہی مردوں کی عزلت ہے۔
تشریح:
یعنی لوگوں کے درمیان ہو کر ان کا نہ ہونا، ان سے جدا رہنا۔ اس کو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ ’’خلوت در انجمن‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی لوگوں کے درمیان ہو کر بھی لوگوں میں نہ ہو۔ ان کو لوگوں کا پتا بھی نہ لگے۔ حضرت بابا زکریا ملتانی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک دفعہ محفلِ سماع میں تھے۔ در اصل لوگوں نے سماع کا غلط مطلب لے لیا ہے، اصل میں سماع کہتے ہیں عارفانہ کلام کو جو کسی عارف کی زبان پر عارفین کے درمیان ہوا کرتا تھا۔ یہی محفلِ سماع ہوتی تھی۔ تو حضرت کے ہاں محفلِ سماع ہوئی، جتنے بھی حضرات وہاں موجود تھے سب محوِ سماع تھے اور حضرت مراقبہ میں تھے۔ پوری رات گزر گئی، حضرت کو پتا بھی نہیں چلا کہ محفل سماع ہوئی ہے۔ صبح جب ان سے کہا گیا کہ حضرت رات محفلِ سماع تھی، اس کے لئے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرنا ہے۔ انہوں نے کہا: اچھا! محفل سماع تھی؟ یعنی ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ رات محفلِ سماع ہوئی ہے۔ حالانکہ ادھر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ مقام ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتا، وہ تو استغراق کی حالت میں تھے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس وقت بھی دل ان کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک دفعہ اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہے تھے، حضرت کا انداز یہ تھا کہ ما شاء اللّٰہ مرنجان مرنج طبیعت کے بزرگ تھے، لطائف اور اشعار اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں ہوتی رہتی تھیں، راستہ بھر یہ باتیں ہوتی رہیں۔ جب منزل پہ پہنچے تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا آپ میں سے کسی کو غفلت ہوئی تھی؟ سب نے کہا: حضرت ہمیں تو ہوئی تھی۔ فرمایا: الحمد للہ مجھے نہیں ہوئی۔ حالانکہ سب کو ہنسا رہے تھے، لیکن ان کو غفلت نہیں ہوئی۔ لہٰذا انسان اس طرح کر لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طبیعت بھی ایسی ہی تھی۔ ڈاکٹر فدا صاحب کی شادی تھی تو ہم وہاں گئے تھے، حضرت جہاں بھی ہوتے، حضرت کے مریدین حضرات مجلس میں بیٹھے ہوتے تھے تو گپ شپ، لطائف اور ان تمام چیزوں کا ماحول گرم ہوتا تھا۔ ہمارے ساتھ ایک ساتھی تھے ڈاکٹر حمزہ خان صاحب، جو بڑے نقاد طبیعت کے تھے۔ جب وہ باہر آئے تو کہتے ہیں: یہ کوئی پیر ہے؟ کوئی اس طرح کرتا ہے، ہر وقت لطیفے! خود بھی ہنستا ہے اور دوسروں کو لطیفے سناتا ہے اور ہنساتا ہے، یہ کوئی طریقہ ہے، پیر اس طرح ہوتا ہے؟ میں نے کہا: حمزہ خان! تھوڑا حوصلہ کرو۔ اس طرح نہیں بات کرتے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ حمزہ خان یاد رکھو! جتنے بھی لوگ حضرت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، یہ سب کھاتے پیتے لوگ ہیں اور یہ دنیا کی ہر بد معاشی کر سکتے ہیں۔ آپ ان کے برابر کے لوگوں کو دیکھو کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اگر حضرت نے چند لطائف سنا کر ان کو ان تمام چیزوں سے بچا لیا تو بتاؤ یہ اچھا کیا ہے یا برا کیا ہے؟ اگر یہ یہاں نہ ہوتے تو جو کچھ باقی لوگ کر رہے ہیں یہ بھی اگر وہ کچھ کر رہے ہوتے تو وہ اچھا تھا یا یہاں رہ کر اچھے ہیں؟ بات ان کی سمجھ میں آ گئی، کچھ کہا نہیں، خاموش ہو گئے۔ اور پھر دوسرا یہ ہوا کہ جب ہم واپس آ رہے تھے تو بغیر کسی معقول وجہ کے عصر کی نماز قضا ہو گئی۔ پھر میں نے کہا کہ دیکھو! بزرگوں کی بے ادبی کی فوری سزا ملی۔ حالانکہ بڑے پکے نمازی تھے، اور اتنا جلدی سزا ملی۔ یہ میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ جن کی assignment یہی ہو کہ لوگوں کو ان کے حالات کے مطابق، ان کے مزاجوں کے مطابق اللّٰہ کی طرف لانا ہے تو وہ اپنی assignment پہ کام کر رہے ہیں۔ ان کے لئے تو وہ assignment ہے۔ وہ تو خود اپنے نفس کے لئے نہیں کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے لئے غفلت نہیں ہوئی۔ وہ تو ہر ہر چیز کو نوٹ کر رہا ہے کہ یہ ہونا چاہئے، یہ ہونا چاہئے، اور باقاعدہ اس ترتیب سے چل رہا ہے۔ لہذا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوا، ان کو غفلت نہیں ہوئی۔ غفلت تو ان کو ہوئی جو ان چیزوں کو نہیں جانتے ہیں اور وہ دنیاوی چیزوں میں پڑ گئے ہیں، اس کی طرف ذہن چلا گیا اور اللّٰہ تعالیٰ سے ہٹ گئے، ذکر اللّٰہ کی طرف نہیں گئے۔ لہٰذا ایسے حضرات بھی ہوتے ہیں جو بادشاہِ وقت کے پاس ہوتے ہیں، لیکن اہل اللّٰہ ہوتے ہیں۔ اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا، لیکن دنیا دار ہوتے ہیں، اور پکے دنیا دار ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ چیزوں پر منحصر نہیں ہے۔ چیزوں کے آنے اور جانے پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ دل کی حالت پر ہے کہ اس کا دل کدھر ہے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک موقع پہ فرمایا تھا کہ یہ توکل تو ہر ایک کر سکتا ہے کہ جیب میں کچھ نہ ہو اور کہے کہ اللّٰہ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ لیکن جس کا بینک اکاؤنٹ روپیوں سے بھرا ہوا ہو، اور وہ کہے کہ اللّٰہ کرے گا تو ہو جائے گا، نہیں چاہے گا تو نہیں ہو گا۔ یہ توکل ہے۔ یہاں پر بھی یہی فرمایا کہ مردانہ عزلت یہ ہے کہ:
بیت؎
1؎ دوستان تعلق باطن زمن برفت
من درمیان جمع و دل من بسوئے دوست
’’اے دوست مجھ سے باطن کا تعلق چھوٹ گیا میں تو لوگوں کی جھمگٹ میں ہوں، اور میرا دل دوست کی جانب مائل ہے‘‘۔
بیت
؎ خرد مند او بود کہ در ہمہ کار
گہے باگل نشیند گاہ با خار
’’وہ شخص عقل مند ہوتا ہے کہ ہر کام میں کبھی گل کے ساتھ ہم نشین ہوتا ہے اور کبھی کانٹے کے ساتھ‘‘۔
اور اس قسم کی عزلت کسی پیرِ کامل کی صحبت اور تربیت کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔ پس اے بھائی! تربیت دینے والا پیر بھی ایک حاذق طبیب کی طرح ہوتا ہے کہ جب تک مریض کو پرہیز نہ بتلائے اور اسہال کے بعد مناسب غذا نہ دے جس سے وہ قوت حاصل کرے۔ اسی طرح عاشقوں کے لئے عزلت پرہیز کی مانند ہے اور ان کے لئے اسہال وغیرہ یہی ہے کہ ہمیشہ خلا و ملا یعنی خلوت اور جلوت میں اپنے محبوب کے حضور میں رہیں کہ "أَبْدَانُھُمْ فِي الدُّنْیَا وَقُلُوْبُھُمْ فِي الْآخِرَۃِ مَعَ اللّٰہِ تَعَالٰی" یعنی ان کے بدن دنیا میں اور ان کے دل آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔
ابیات:۔ زخم خوردم روز و شب عمرے دراں
تا بصد زاری دوش کردند باز
تا نیابد درد ایں کارت پدید
قصہ ایں درد نتوانی شنید
گر شود ایں درد دامن گیر تو
برکشید سر بسر زنجیر تو
’’میں اس بات کے بارے میں عمر بھر زخم کھاتا رہا یہاں تک کہ بہت منت سماجت کے بعد اس کا دروازہ کھول دیا گیا، جب تک تم اِس کام کے درد کو محسوس نہ کرو گے تو اس درد کی کہانی نہیں سنو گے، اگر تم کو یہ درد حاصل ہو جائے تو تمہاری زنجیریں تمام کی تمام کھول دی جائیں گی‘‘۔
تشریح:
دیکھیں! ذکر چھٹی منزل ہے، اس سے پہلے پانچ منزلیں ہیں۔ اور آج کل صرف اسی کو سمجھا جاتا ہے، اس کے علاوہ باقی چیزوں کو نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب نہیں ہے، حضرت نے تو یہ لکھا ہے۔ لیکن باقی بزرگوں کے ہاں بھی یہی ہے کہ یہ چھٹے نمبر پہ ہے۔
متن:
چھٹی منزل ذکر ہے، ذکر دمِ واپسیں سے قبل غیر کی یاری سے اپنے اختیار اور مرضی سے ہاتھ کھینچنا ہے، کیونکہ موت کے بعد ذِکر غیر سے پہلو تہی اضطراری ہوتی ہے۔ ﴿وَاذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیْتَ...﴾ (الکهف: 24) ”جب تمہیں بھول ہو جائے تو اپنے رب کو یاد کرو“ اے میرے برادرِ عزیز! ذکر مرکب ہے نفی و اثبات سے، اور نفی ''لَآ إِلٰہَ'' ہے جو کہ نفسِ امّارہ کی مُراد ہے، شہوتِ حیوانی اور اخلاقی ذمیمہ ظلمانی مثلاً کبر، بخل، غرور، حسد، حرص اور ریا کاری وغیرہ سے عذر کرنا ہے۔ ان صفات میں سے ہر ایک صفت روح کے لئے ایک قید ہے۔
تشریح:
یہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی اور حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی، دونوں باتیں اکٹھی ہو گئیں۔ ایسے اکٹھی ہوئیں کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا تھا کہ جب کوئی مقامِ قلب میں پہنچ جائے تو اس وقت نفس اور روح آپس میں جڑے ہوتے ہیں، ان کو علیحدہ کرنا ہوتا ہے۔ علیحدہ کرنے سے مراد کہ آزادی دلوانی ہوتی ہے۔ جتنی ظلماتی چیزیں بتائی ہیں، وہ سب روح کے لئے قید ہیں، انہوں نے روح کو پکڑا ہوا ہے، روح کو اوپر نہیں جانتے دیتے۔ چنانچہ حضرت نے جو دس مقامات بتائے ہیں وہ تفصیل کے ساتھ طے کرنے پڑیں گے، اس کے بعد روح آزاد ہو گی، جب تک روح آزاد نہیں ہے، مقصد حاصل نہیں ہے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں، اللّٰہ تعالیٰ ہمیں معاف کرے۔ ہم بہت جلدی بھول جاتے ہیں۔ مثلاً کوئی تبلیغ میں آیا تو اس کے لئے تبلیغ سب کچھ ہے، باقی سب کو بھول گیا۔ کوئی مدرسہ میں بیٹھا ہے تو مدرسہ یاد ہے، باقی سب کچھ ختم۔ کوئی سیاست میں چلا گیا تو سیاست یاد ہے باقی سب کچھ ختم۔ کوئی خانقاہوں میں بیٹھ گیا تو خانقاہ یاد ہے، باقی سب کچھ ختم۔ الغرض سب اپنے اپنے خول میں بند ہیں۔ کہتے ہیں جو کام ہم کر رہے ہیں سب سے بڑا کام وہی ہے۔ تو یہ اپنے خول میں بند ہونا ہوا۔ اب خانقاہوں میں بھی یہ صورتحال ہے کہ اصل چیزیں ہٹتی جا رہی تھیں۔ کیسے ہٹتی جا رہی تھیں؟ مثلاً یہاں ساری ترتیب بنائی گئی ہے کہ اس ترتیب کے ساتھ چلنا ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے کیا کیا؟ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا سلسلہ چونکہ سہروردی تھا تو باقی سلاسل میں ابتدا میں نفس کی اصلاح کی جاتی تھی، پھر دل کی اصلاح ہوتی تھی۔ اسی لئے یہاں چھٹا نمبر دیا گیا ہے۔ چنانچہ پہلے نفس کی اصلاح بتائی گئی ہے تاکہ نفس دب جائے اور روح اس سے آزاد ہو جائے۔ پھر جب روح آزاد ہو جائے گی تو آپ کا ذکر آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دے گا۔ بصورتِ دیگر جب روح نفس کا پابند ہو گا تو وہ ادھر ہی چک چک کرتا رہے گا اور وہ آگے جا نہیں سکتا۔ جیسے کوئی انجن چلائے اور انجن سے پاور فل کوئی چیز اس کو پکڑے ہوئے ہو اور اسے جانے نہ دے، تو انجن اپنی جگہ پہ کھڑا ہو گا، وہ چل نہیں سکے گا۔ انجن تب چل سکے گا جب اس کو آزادی دو۔ جب وہ آزاد ہو جائے گا تو اس کے اندر جتنی بھی طاقت ہو گی، اس کے حساب سے وہ آگے جائے گا۔ لیکن اس چیز کی طرف دھیان بالکل نہیں ہے۔ اس لئے اس چیز کو دوبارہ سامنے لانا بہت ضروری ہے۔
متن:
ان صفات میں سے ہر ایک صفت روح کے لئے ایک قید ہے اور دل کے لئے بیماری ہے، اور دل اللّٰہ تعالیٰ کا محل ہے اور آفتاب فردانیت کا مطلع انوار ہے، یہ نفی اُس کو حدوثِ ظلمانی سے صاف کرتی ہے۔ اس نفی کے بعد اثبات ''إِلَّا اللّٰہُ'' ہے، جس کے ذریعے دل اخلاقِ ذمیمہ سے سلامتی حاصل کرتا ہے اور زندگی کو حیاتِ طیبہ بناتا ہے اور نورِ وحدت کے جلال و جمال کے ذریعہ ان اخلاقِ ذمیمہ کی تاریکیاں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں، اور اس کے بعد روح کا سلطان جو کہ اللّٰہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے، اپنے جمال و کمال کی جلوہ آرائیوں سے مزین ہو کر تم کو اپنے جلوے مشاہدہ کرائے گا۔
تشریح:
روح کو خلیفہ قرار دیا گیا۔ ﴿وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً﴾ (البقرۃ: 30) اور روح نفس کی قید کے اندر ہے، جب وہ نفس کی قید سے چھوٹے گی تو یہ خلیفۃ اللّٰہ ہو جائے گی۔ جب یہ خلیفۃ اللّٰہ ہو جائے گی تو اس کے بعد مشاہدات ہوں گے۔ مشاہدات اس کی پرواز کے مطابق ہوں گے، جتنی اس کی پرواز ہو گی، اس کے حساب سے مشاہدات ہوں گے۔
متن:
اور اے میرے محبوب! تمہارے جسم کی زمین کو ہدایت کے انوار اور جمال و کمال کی روشنی سے منور کرائے گا اور تمہارا جسم عزت کے سورج کی روشنی میں متلاشئ حق ہو جائے گا اور ما سویٰ اللّٰہ کا غبار اس روشنی میں تمہارے جسم سے کافور ہو جائے گا اور مذکورہ جمال ذاکر کے عین باطن میں ظاہر ہو جائے گا اور ''ھُوَ'' کا اشارہ تمہارے دل میں مضبوط اور محکم ہو جائے گا۔
تشریح:
اصل میں ’’ھُوْ‘‘ اسمِ اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اشارہ میں کوئی اور چیز مانع نہیں ہے۔ جب آپ ’’اَللّٰہ‘‘ کہتے ہیں تو اس میں اسم مانع ہے۔ کیونکہ پہلے اسم آئے گا، اس کے بعد ذات آئے گی۔ اور ’’ھُوْ‘‘ کا تو کوئی وجود نہیں ہے، یہ تو محض اشارہ ہے۔ اس لئے اگر آپ اس لائن میں لگ گئے تو آپ ’’ھُوْ‘‘ سے سیدھا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف جائیں گے، کوئی اور چیز ہو گی ہی نہیں۔ ’’ھُوْ‘‘ سے آپ کو ’’ھُوْ‘‘ یاد نہیں آئے گا۔ ’’اَللّٰہ‘‘ سے آپ کو لفظِ اللّٰہ یاد آ سکتا ہے۔ کیونکہ ’’ھُوْ‘‘ کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ تصورِ ذات بحت ہے۔ ذات بحت سے مراد یہ ہے کہ خالصتاً کسی اور ملاوٹ سے بالکل فارغ ہو، بس اللّٰہ کا تصور ہو، جس میں نہ نور کا تصور ہے، نہ زمان کا تصور ہے، نہ مکان کا تصور ہے، نہ کسی سمت کا تصور ہے۔ ان تمام چیزوں سے وراء خالصتاً اللّٰہ کا تصور، تصورِ ذاتِ بحت کہلاتا ہے۔
متن:
ابیات
؎ تاکہ باشد یاد غیرے در حساب
ذکر مولیٰ از تو باشد در حجاب
گر شوی چوں خاک در رہ پائمال
تا ابد جان را بدست آری کمال
تا بود یک ذرہ از ہستی بجائے
کفر باشد گرانی در عشق پائے
تا توئی خویشی عدد بینی ہمہ
چوں توئی فانی احد بینی ہمہ
’’اگر تمہارے حساب میں غیر اللّٰہ کی یاد ہو تو مولیٰ کا ذکر تم سے پردے میں ہو گا،
تشریح:
یعنی اگر تجھے غیر اللّٰہ یاد ہے تو مولیٰ تمہیں یاد نہیں ہو گا۔ یعنی اگر آپ پردے کو دیکھ رہے ہیں تو آپ پردے سے پیچھے والی چیز تو نہیں دیکھ رہے۔ پردے کو دیکھنا غیر اللّٰہ کو دیکھنا ہے اور جو کچھ پردہ کے پیچھے ہے اس کو تو آپ نہیں دیکھ سکتے۔
متن:
(اگر تمام دنیا تمہارے ثواب سے بھرپور ہو گی تُو جب تک موجود ہو، اپنے آپ کو فانی نہ کرو، تو یہ سب تمہارے لئے باعثِ عذاب ہو گا
تشریح:
یعنی اگر تو نے اپنا حصہ اس میں رکھا ہے۔ حضرت مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک دفعہ بڑی عجیب بات بتائی تھی۔ فرمایا: فقہ کے قانون کے مطابق کتے کا شکار اس وقت جائز ہوتا ہے جب وہ شکار میں سے خود کچھ نہ کھائے۔ اگر اس نے اس میں سے خود تھوڑا سا حصہ بھی کھایا تو شکار حرام ہو گیا۔ اس میں سے وہ نہیں کھا سکتا۔ شکار کو مالک کے پاس لے آئے، پھر وہ بے شک اس سے کاٹ کر اس کو دے دے۔ یہ پھر اس کا کام ہے، لیکن کتا اپنی طرف سے کچھ نہیں کھائے گا، کھائے گا تو شکار حرام ہو جائے گا۔ فرمایا اگر کسی کتے نے غلطی سے شکار میں سے کچھ کھایا تو وہ disqualified ہو گیا، اب اس کا شکار حرام ہو گا، اس کتے کو دوبارہ training دینی پڑے گی، اور تین دفعہ اس کو کم از کم ٹیسٹ کرنا پڑے گا۔ جب وہ تین دفعہ ٹیسٹ میں پاس ہو جائے کہ اب وہ خود اس میں سے نہیں کھاتا تو اس کے بعد اس کا شکار پھر دوبارہ جائز ہو جائے گا۔ اسی طرح فرمایا جو اللّٰہ کا کام کرتے ہیں، وہ بھی اس میں اپنا حصہ نہ رکھیں، پھر وہ ٹھیک رہے گا۔ اگر اس نے اپنے نفس کا کچھ حصہ رکھا تو سارا گیا۔ یہاں بھی یہی بات فرما رہے ہیں۔ کتنی زبردست بات ہے۔
متن:
(اگر تمام دنیا تمہارے ثواب سے بھرپور ہو گی (یعنی آپ نے اتنا کام کیا ہو گا) تُو جب تک موجود ہو، اپنے آپ کو فانی نہ کرو، تو یہ سب تمہارے لئے باعثِ عذاب ہو گا۔
تشریح:
کیونکہ تم مجرم ہو گے، تم نے نفس کے لئے کیا ہو گا، اور غصب کر رہے ہو گے۔ ایک دفعہ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ایک صاحب نے کہا کہ آپ مجھے خلافت دے دیں۔ بڑے عجیب عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: خلافت میں تو نہیں دیتا اور اگر میں دینے لگوں تو غاصب ہوں گا، یہ تو غصب ہے، کیونکہ یہ اللّٰہ کی چیز ہے، میں اللّٰہ کی چیز پہ کیسے قبضہ کر سکتا ہوں۔ یہ بڑی زبردست بات ہے۔ چنانچہ اگر ہم نے درمیان میں اپنے نفس کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی بات کو چھوڑ دیا تو سب کچھ ختم۔
متن:
جب تک تم میں ہستی (یا انانیت) کا ایک ذرہ بھی موجود ہو گا تو تمہارے لئے عشق کی راہ میں قدم رکھنا کُفر ہے جب تک تم اپنے آپ کو دیکھو گے تو تم عدد (کثرت) دیکھو گے اور جب تم اپنے آپ کو فانی تصور کرو گے تو ہر سِمت احد احد دیکھو گے‘‘۔ (غیر اللّٰہ کو خواہ وہ تمہاری ذات ہو یا اور کوئی چیز کو فنا اور محو کرنے سے ”وہ“ مل جاتا ہے)
تشریح:
یعنی تمام چیزوں کو فنا کرنا ہوتا ہے، ایک ایک کر کے فنا کرنا ہوتا ہے۔ یعنی اس میں تمام چیزوں سے اپنے آپ کو خالص کرنا ہے۔
متن:
ساتویں منزل توجہ ہے، اور اے بھائی! توجہ کی حقیقت خدائے بے نیاز کی جانب موت سے قبل رُخ کرنا ہے، جب کہ تو موت کے بعد اضطرارًا خواہی نخواہی توجہ کرے گا، مگر وہ توجہ کام کی نہیں اور وہ کسی شمار کی نہیں۔ پس اے پیارے بھائی! ہمت کو بلند رکھو اور حق تعالیٰ کے ما سوا کسی کو مطلوب و محبوب بنا کر اس کی جانب التفات نہ کرو، حتی کہ اگر انبیاء کا مقام بھی تمہیں پیش کیا جائے تو بھی آنکھ اُٹھا کر اس کی طرف توجہ نہ کرو اور خدا تعالیٰ کے سوا باطن میں کسی چیز میں بھی مشغول نہ ہو۔
تشریح:
میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ خلافت کا یہ جو بت ہے، جو اکثر سالکین کے دل میں بیٹھا ہوتا ہے، جب تک اس کو دل سے نہیں نکالے گا کچھ بھی نہیں ملے گا۔ جیسے یہاں فرمایا: ’’انبیاء کا مقام‘‘۔ اب کوئی نبی تو نہیں بن سکتا، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن آج کل جو کچھ مل سکتا ہے، وہ یہ خلافت ہی ہے۔ لہٰذا اگر آپ نے اپنے لئے کوئی چیز بنا لی کہ یہ چاہئے۔ تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کو نکالو۔ وہ تمہارے لئے بت ہے۔ ایک دفعہ ایک بزرگ کے پاس کوئی شخص تربیت کے لئے آیا، اس کو فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ حضرت نے ساری کوششیں کیں، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ انہوں نے اس کو بلایا اور پوچھا کہ تم کس نیت سے میرے پاس آئے ہو؟ کیا نیت ہے تمہاری؟ وہ کہتا ہے کہ حضرت میں جب آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ ما شاء اللّٰہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، اگر میں بھی آپ جیسا ہوں گا تو میں بھی اس طرح کام کروں گا، مجھے اس کا بڑا شوق ہے۔ حضرت نے فرمایا اوہ ہو! یہ مسئلہ ہے، پیر بننا چاہتا ہے۔ یہ تیرے لئے بت ہے، جب تک یہ بت دل سے نہیں نکالے گا اس وقت تک تو ایک قدم بھی آگے نہیں جائے گا۔ اس کو دل سے نکال۔ اس سے توبہ کرائی۔ جب اس نے توبہ کی تو پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو راستہ دیا۔ چنانچہ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اس چیز سے انسان اپنے اپ کو کس طرح بچائے۔
متن:
خدا اُس شخص کو بایزید جیسی ہمت دے جس نے بایزید سے کہا کہ اے بایزید! میں تجھے محمد رسول اللّٰہ ﷺ بناؤں گا۔ بایزید نے جواب دیا کہ اے بارِ خدایا! محمد ﷺ تو تمہارا ایک ہے۔ فرمان آیا کہ میں تمہیں ایسے عالم میں بھیجوں گا کہ اس دنیا میں آدم، نوح، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام کو مبعوث کروں گا اور تم پر نبوت ختم کروں گا۔ بایزید نے کہا کہ مجھے آپ کے سوا کچھ نہیں چاہئے۔ حکم صادر ہوا کہ اے بایزید! تم میرے قرب میں رہا کرو۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں سن نو سو اسی (980ء) میں بلخ میں تھا
تشریح:
میں اس کو تلاش کر رہا تھا کہ حضرت کب آئے تھے۔ 980 عیسوی میں آئے تو یہ کافی Early stage میں ہیں۔
متن:
اور میں نے تمام علوی اور سفلی جہانوں کو اپنے لئے تلخ بنا رکھا تھا، اچانک آدھی رات کو میرے کان میں آواز آئی کہ اے فقیر! میں تجھ کو مقامِ نبوت تک ترقی دیتا ہوں کہ نبوت تم پر ختم کرا دوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ اے میرے خدا! ختم الرسل تو جناب محمد رسول اللّٰہ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے اور یہ کم ترین فقیر تو اُن کے دربار کے کُتوں میں سے ہے۔ "ثُمَّ قُلْتُ أَنَا مَشْغُوْلٌ بِکَ وَأَنْتَ مَقْصُوْدِیْ فَلَیْسَ لِیْ مَقْصُوْدٌ سِوَاکَ فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَا مَحْبُوْبُ أَنْتَ مَشْغُوْلٌ بِیْ وَأَنَا مَشْغُوْلٌ بِکَ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَا نِہَایَۃَ لَہٗ حَیْثُ خَاطَبَنِیْ بِہٰذَا الْخِطَابِ" ”پھر میں نے عرض کیا کہ میں تیرے ساتھ محبت کرتا ہوں اور تو ہی میرا مقصود ہے، تیرے سوا میرا کوئی مقصد نہیں۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اے میرے محبوب! تم میرے ساتھ محبت کرتے ہو اور میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ پس حمد و ثنا ہے اللّٰہ جلّ شانہٗ کے لئے جس کی کوئی نہایت اور انتہا نہیں کہ اس نے مجھ سے یہ خطاب فرمایا“۔ اے بھائی! جب کوئی درویش مقامِ کبریا کو پہنچتا ہے تو اس درویش کو انبیاء علیہم السلام کا مقام پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہ اس لئے کہ اس کا امتحان لیا جاتا ہے کہ وہ عالی ہمت ہے یا کہ پست ہمت۔ اگر پست ہمت ہو اور اس ترقی مقامات کی طرف دھیان کرے اور دِل میں اس مقامِ رفیع کی تمنا کرے تو فوراً اس موجودہ مقام سے بھی گرا دیا جاتا ہے اور اس کی حالت اُلٹ جاتی ہے۔ پس اے میرے محبوب! جو لوگ نبوت کے خادموں کی قطار میں ہوں اُن کو مسندِ نبوت سے کیا واسطہ کہ اُس کی خواہش کریں۔
تشریح:
غالباً ہزارہ کے سائیڈ کے کوئی بزرگ تھے، انہوں نے اپنے خادم کو کسی کام کے لئے بھیجا، وہاں تو پہاڑ پر چڑھنا پھر اترنا اور پھر چڑھنا پڑتا ہے۔ وہ وہاں ایک پہاڑ سے نیچے اتر رہا تھا تو ایک شخص نے اس کو آواز دی کہ میں خضر ہوں، آؤ مجھ سے ملو۔ انہوں نے سنی ان سنی کر دی۔ انہوں نے پھر کہا بھائی مجھ سے ملنے کے لئے تو لوگ بیتاب ہوتے ہیں، جہاں بھی میں ان کو ملتا ہوں وہ بڑے شوق سے ملتے ہیں۔ تم کیوں نہیں ملتے؟ انہوں نے بغیر پیچھے دیکھے کہا کہ میرا خضر اُدھر ہے، جہاں میں جا رہا ہوں۔ جب وہاں گئے تو ان کے شیخ کو پہلے سے اطلاع ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا: آفرین، آپ جیت گئے۔ یہی امتحان تھا کہ کسی اور کی طرف دیکھتا ہے یا نہیں دیکھتا۔ یہی بنیادی بات ہے۔ توحیدِ مطلب بھی اس سلسلہ کی کڑی ہے۔ جس میں توحیدِ مطلب نہیں ہوتی وہ رہ جاتا ہے، کبھی امتحان ہو جائے تو امتحان میں فیل ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بڑے لوگوں کے تو بڑے امتحان ہوتے ہیں اور چھوٹے لوگوں کے چھوٹے امتحان ہوتے ہیں۔ اُن کا امتحان اُس طرح لیا گیا، اِن کا امتحان اِس طرح لیا گیا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا حال ہے۔
متن:
بیت
؎ من از جام محبت مست گردم
دو عالم پیش من گشت ست پستم
ندارم لاف فرزندی دریں راہ
منم خاک درش ہستم و ہستم
’’میں محبت کے جام سے مست ہوا ہوں، میرے سامنے دونوں جہانوں کی رفعتیں پست ہیں، میں اس راستے میں فرزندی (وارث ہونے) کی ڈینگ نہیں مارتا، میں اُس کے دروازے کی مٹی کے برابر ہوں اور (یہ بات تاکیدًا اور مکررًا کہتا ہوں کہ میں اس کے کوچے کی مٹی) ہوں‘‘۔
آٹھویں منزل صبر ہے، اور صبر کی حقیقت یہ ہے کہ دونوں جہانوں کے لطف انگیزیوں اور لذتوں سے اپنے ظاہر و باطن کی آنکھیں بند کر لی جائیں اور مرنے سے پہلے محبت پر ثابت قدم رہا جائے کیونکہ مرنے کے بعد تو یہ سب کچھ اضطراری طور پر کیا جاتا ہے۔ پس اے برادرِ عزیز! صبر اختیار کرو تاکہ اُس کے نورِ مقدس میں گم ہو جاؤ۔ بیت
؎ در نور مقدس چوں گشتم پنھان
و از حد مکان گذشتم اے جان جہَان
در مسند عشق و مقرب گشتم
اندر رہ من نہ ایں ماند و نہ آن
’’میں جب مقدس نور میں پوشیدہ ہو گیا اور اے میرے پیارے! میں مکان کی حدود سے آگے نکل گیا اس کے عشق کی مسند پر مقرب بن گیا میرے راستے میں نہ یہ رہا اور نہ وہ‘‘۔
نویں منزل مراقبہ ہے، اور اے برادرِ عزیز! مراقبے کی حقیقت یہ ہے کہ ظاہر و باطن کی آنکھ کو محبوب و مطلوب پر جمائے رکھو اور موت سے قبل اپنی حرکات و سکنات کو اپنے محبوب و مطلوب کے لئے وقف رکھو، کیونکہ مرنے کے بعد یہ سب کچھ تو اضطراری طور پر ہو گا جو کسی شمار میں نہیں۔ اور اے میرے پیارے! مراقبہ یہ ہے کہ تصفیۂ قلب اور تزکیہ نفس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے مواہب و عطایا کے دروازوں کے کھلنے کا انتظار کیا جائے اور اللّٰہ کریم کے نہ ختم ہونے والے لطف و کرم کی نسیمِ خوشگوار کے جھونکوں کے انتظار میں رہا جائے اور موت کے میدان میں جوان مردوں کی طرح ہمت کا قدم بڑھایا جائے، احدیت کے سمندر میں غوطہ کھا کر اپنی زندگی کے پروانے کو جمالِ احمدیت کی شمع پر جلا دیا جائے اور اسی شمع کی روشنی میں فراق و جدائی کی منازل کو طے کیا جائے اور حجاب کی بدبختی کی گڈری کو پس پشت ڈال کر اپنے آپ کو اُس کے حوالے کیا جائے، اور مجاہدوں کی بساط کو طے کر کے مردہ دِل کو مشاہدات کے انوار سے زندہ کر دیا جائے اور نفس کی سیّئات اور برائیوں کو حسنات اور نیکیوں میں تبدیل کیا جائے۔ ﴿اُوْلٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئَاتِھِمْ حَسَنَاتٍ...﴾ (الفرقان: 70) ”یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی بدیوں کو اللّٰہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے“
تشریح:
کیسے اللّٰہ تعالیٰ سئیات کو حسنات سے بدلتے ہیں؟ مثلاً میں ایک عمل کر رہا ہوں، میری قلبی کدورتوں کی وجہ سے وہ عمل اس قابل نہیں ہے کہ اس کو قبول کیا جائے۔ جب میری قلبی کدورتوں کی وجہ سے وہ عمل قابل قبول نہیں ہے تو اس پر میں ندامت کے آنسو بہا کر کہوں کہ یا اللّٰہ! یہ اس قابل تو نہیں کہ تیری بارگاہ میں قبول کیا جائے، لیکن میں تو یہی کر سکتا ہوں، تو اس کو ہی قبول فرما لے اور مجھے معاف کر دے۔ جب یہ کیفیت بدل جاتی ہے تو اللّٰہ جل شانہ چونکہ صمد ہے، غنی ہے، اس کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، ہر چیز اس کی اپنی ہے، تو اللّٰہ تعالیٰ اس ناقص چیز کو بھی کامل کے درجہ میں قبول فرما لیتا ہے۔ جب کامل کے درجہ میں قبول ہو گیا تو حسنات بن گئیں۔ جب کہ پہلے سئیات تھیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللّٰہ من ذلک میں گناہ کرنا شروع کر لوں کہ اللّٰہ تعالیٰ پھر اس کو نیکی میں بدل دے گا۔ جس نے ایسا کرنا شروع کیا وہ مردود ہو گیا۔ وہ تو پورے نظامِ نبوت کو ختم کر رہا ہے۔ ہاں البتہ یہ بات ہے کہ اپنی حسنات کے اندر کی سیاہی کو ہم دیکھ سکیں۔ جیسے ہماری نماز ہے، جیسے ہمارا روزہ ہے، جیسے ہماری زکوٰۃ ہے، جیسے ہمارا حج ہے، جیسے ہمارا ادھر بیٹھنا ہے، جیسے ہمارا بولنا ہے، جیسا ہمارا سننا ہے۔ ان ساری چیزوں میں سئیات ہی سئیات ہیں، ہم ان کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ جب انسان ندامت کے ساتھ ان اعمال کو پیش کرے گا، اور کسی حالت میں بھی چھوڑے گا نہیں، لیکن اس پہ شرمائے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کے حضور کے پیش کرنے کے قابل نہیں سمجھے گا، تو اس سے اللّٰہ تعالیٰ کی نظرِ کرم کی برکت سے یہ سئیات حسنات میں بدل جاتی ہیں۔
متن:
”یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی بدیوں کو اللّٰہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے“ اور اس کے بعد اپنے آپ کو پاک دامنی اور عصمت کے حصار میں محفوظ رکھو، تاکہ جمال و جلال کے خورشید نورانی کو ازل و قدم کے صحرا میں جلوہ گر ہوتے دیکھو اور آسمان و زمین اور جسم و قالب کی تاریکیوں سے مکمل نجات حاصل کرو۔ ﴿ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الحدید: 21) ”یہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے اُسی پر اپنا فضل کرتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ بہت زیادہ فضل کرنے والا ہے“
نظم
ہر کہ با او ہم دم و ہم خود براست
یکدم از ملک دو عالم برتر است
با خدائے خویش دائم در حضور
چوں شود دِل تنگ با آں شمع نور
گر تو خواہی تا شوی از اہل راز
تا ابد منگر بسوئے ہیچ باز
زانکہ ہر جائے نظر خواہی فگند
اے کہ از جملہ نفوری ارجمند!
ہر کہ را آئینہ گر در بادشاہ
کفر باشد گر کُند با خود نگاہ
گر گدائی او ترا شاہت کند
ورنہ آگاہی و آگاہت کند
’’جو کوئی اس کے ساتھ ہمدم و ہمراز ہو، تو وہ دونوں جہانوں کی حکومت سے بالا و برتر ہے، ہمیشہ اپنے خدا کی حضور میں رہتا ہے اور اس نورانی شمع سے کس طرح دل تنگ اور سیر ہو جائے گا، اگر تم چاہتے ہو کہ تم اہل راز میں سے ہو جاؤ تو تمہیں چاہئے کہ ابد تک کسی دوسرے کی جانب نگاہ اُٹھا کر نہ دیکھو،
تشریح:
میں آپ کو ایک بڑی عجیب بات بتاتا ہوں ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں معاف کرے اور ثابت قدمی کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ایک ملفوظ ہے۔ فرمایا: وہ دوست دوستی کے قابل نہیں جو دوست کے راز کو راز نہ رکھ سکے۔ اس پر میں نے غور کیا تو اس میں یہ بات سامنے آئی کہ اللّٰہ پاک نے کسی کو اپنا رازدان بنا لیا یعنی کوئی خاص راز اس تک پہنچا دیا۔ اب یہ دوسرے کو وہ راز اسی صورت میں بتائے گا کہ جب وہ اس کی نظر میں با وقعت ہو گا کہ مجھے بھی اللّٰہ نے یہی بات بتائی ہے۔ جب ایسا کرے گا تو گویا اس کی نظر اللّٰہ سے ہٹ کے دوسرے پہ گئی ہے۔
متن:
(اگر تم سب سے متنفر ہو تو تم نیک بخت ہو)۔ اور ہر جگہ تم نظر ڈالتے ہو تو سب سے نفرت کر کے اُسی ایک کے ہو جاؤ، بادشاہ جس کے لئے خود آئینہ بن جائے تو اس کے بعد اگر وہ اپنے آپ کو دیکھنا چاہے تو یہ کفر کی بات ہے۔ (اگر تم اس کے ہو جاؤ، تو) اگر تم فقیر و گدا بھی ہو تو وہ تم کو بادشاہ اور شہنشاہ بنا ڈالے گا اور اگر تم کو کچھ خبر نہ ہو تو وہ تم کو خبر دار کرے گا‘‘۔
دسویں منزل رضا ہے، اور رضا کی حقیقت یہ ہے کہ موت سے قبل اپنے محبوب کے راستے کو برضا و خواہش اختیار کیا جائے، کیونکہ موت کے بعد خواہی نخواہی یہی اختیار کرنا پڑتا ہے، اور اپنے محبوب کی رضا جوئی سالکوں کے لئے بلند ترین مقام ہوتا ہے۔ اس مقام میں ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک منفرد اور مخصوص مقام رکھتے تھے اور اپنے خدا سے عظیم فضل و احسان اور نوازش سے نوازے گئے تھے اور رضا جوئی کے کام میں ثابت قدم تھے، لیکن مبتدی سالک مقام مسکنت و حقارت میں ہوتا ہے۔ پس اے میرے عزیز بھائی! جو شخص اپنی مُراد و مقصود کا طالب ہو اُس کو چاہئے کہ اپنے آپ کو درمیان سے اٹھائے اور اپنے بڑے اور عظیم کام کو عظیم ترین ہستی کے سُپرد کرے، اِس کے نتیجے میں وہ بے انتہا بخشش پائے گا اور مقامِ کبریائی میں باریاب ہو جائے گا۔ اے میرے محبوب بھائی! جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے اللّٰہ کی جانب سے حکایت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ "مَنْ شَغَلَہٗ ذِکْرِيْ عَنْ مَسْئَالَتِيْ أَعْطَیْتُہٗ أَفْضَلَ مَا اُعْطِي السَّائِلِیْنَ" (شرح الزرقانی علی الموطأ، کتاب القرآن، باب: ما جاء في الدعاء، رقم الصفحۃ: 51/2، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، قاہرۃ) یعنی جس کسی نے میرا ذکر جاری رکھتے ہوئے مجھ سے سوال نہ کیا تو میں اُس کو دیگر سائلین سے بہتر عطا کرتا ہوں اور وہ آدمی جو کہ سوال اور طلب کے میدان اور صحرا میں گم گشتہ راہ پھر رہا ہو، وہ اس آدمی کے برابر کیسے ہو سکتا ہے جو کہ راضی برضا ہو اور سوال و طلب سے ماوراء ہو اور خود بینی خود غرضی اور کیسے، کیوں اور کیوں کر کے چکر سے دور ہو، تم کو چاہئے کہ اس پر اچھی طرح سے غور کرو۔ بیت۔
؎ تو نکردی ہیچ کم چیزے مگو
و آنکہ جوئی نیست آن چیزے مگوئی
آنچہ گوئی آنچہ جوئی ہم توئی
خویش را بشناس صد چنداں توئی
’’تم کچھ بھی نہ کہو تم سے کچھ بھی کم نہیں ہو گا۔ اور جو تم تلاش کرتے ہو، یہ نہ کہو کہ وہ نہیں ہے جو کچھ تم کہتے ہو یا ڈھونڈتے ہو وہ تم ہی ہو۔ اپنے آپ کو پہچان لو کہ تم اُس سے سو گنا زیادہ ہو‘‘۔
یہ اشعار شیخ محمد حسین صاحب نے فرمائے ہیں۔
اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو ان بزرگوں کی برکات سے یہ کیفیات نصیب فرما دے اور ہماری زندگی کو مقبول زندگیوں میں شامل فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ