حضرت آدم علیہ السلام کی حقیقت اور اُسکے معنی کے بیان میں اور اس سلسلے میں حضرت صاحب کا علم

باب 10 ، درس 32

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں جو کتاب لکھی گئی ہے، یعنی ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ اس سے تعلیم شروع ہے۔ آج اس کا دسواں باب شروع ہو رہا ہے۔

متن:

دسواں باب

رموز و اسرار انسانی، تواضع وغیرہ کے بَیان میں اور حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ان کے بارے میں علم

حضرت صاحب انسان کی سیر و رموز کے بارے میں پوری معلومات رکھتے تھے اور سیرِ حال و سیرِ انسان اور مقامِ عبودیت ان کے سامنے ظاہر و عیاں ہو کر "أَلَمْ نَشْرَحْ" ہو چکے تھے۔ بیت ؎

عشق اندر فضل و علم و دفتر و اوراق نیست

ہر چہ گفت و گوے باشد آں رہ عشاق نیست

کاخ عشق اندر ازل و آن بیخ او اندر ابد

ایں شجر را تکیہ بر عرش و ثریٰ ساق نیست

عقل را معزول کردیم و ہوا را حد زدیم

ایں حلاوت لائق ایں عقل و ایں اخلاق نیست

تا تو مشتاقی بداں ایں اشتیاق تو بہ است

چوں بمعشوق آمدی پس، ہستی عشاق نیست

ترجمہ:۔ عشق (کا کاروبار)، فضیلت علم کتب خوانی یا ورق گردانی پر منحصر نہیں، عشاق کا یہ وطیرہ نہیں کہ وہ گفت و گو اور قیل و قال میں وقت ضائع کریں۔ عشق کے محل کا تعلق ازل سے اور اس کی جڑ ابد تک پھیلی ہوئی ہے کیونکہ اس درخت کا تکیہ عرش معلیٰ اور تحت الثریٰ پر نہیں۔ ہم نے عقل کو معزول کیا اور خواہشات کو دھتکار دیا۔ کیونکہ اِن اخلاق اور اس عقل کے لئے یہ حلاوت شایانِ شان نہیں۔ جب تک تو مشتاق ہے تو جان لے کہ تمہارا یہ اشتیاق اچھا ہے، جب تو معشوق کے پاس پہنچے گا تو عشاق کی ہستی باقی نہیں رہتی۔

اے برادرِ عزیز! شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ ﴿إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی﴾ (النجم: 16) ”جب چھا رہا تھا اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا“ :یہ سِدرہ ربوبیت کا درخت ہے، جس کا میوہ عشقِ ازل ہے جو کہ عبودیت کی صورت میں عیاں ہے۔ اے بھائی! محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کی باتیں قابلِ غور اور قیمتی ہیں کہ اُنہوں نے عشق کے مدرسہ میں ﴿وَعَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ (الکھف: 65) ”اور سکھلایا تھا اپنے پاس سے ایک علم“ شاگردی کی سعادت حاصل کی ہے اور ربوبیت کے شراب خانے سے اُس نے ﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29) ”اور پھونک دوں اُس میں اپنی جان سے“ شراب نوش فرمائی ہے اور احدیت کے خلعت خانہ سے عبودیت کی عبا کو پہننے کا شرف حاصل کیا ہے: ﴿وَحَمَلَھَا الْإِنْسَانُ...﴾ (الأحزاب: 72) ”اور انسان نے اُس کے اٹھانے کی ہامی بھری“ کیونکہ اے بھائی! اس کائنات میں کوئی عالم بھی عبودیت سے افضل اور برتر نہیں۔ یعنی عبودیت ایک حال ہے جو کہ ربوبیت کے جمال کے حسین چہرے سے مزین ہے۔ جیسا کہ شیخ ذو النون مصری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ہے کہ "لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ رَبِّيْ إِلَّا الْقَدَامَۃُ بِالْعُبُوْدِیَّۃِ" ”میرے اور میرے رب کے درمیان سوائے عبودیت کی قدامت کے، کچھ بھی حائل نہیں“۔ پس شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو فرمایا ہے کہ ربوبیت کے چہرے کا حسن و جمال عبودیت کے حال کے بغیر کمال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا اور عبودیت کا حال ربوبیت کے چہرے کے بغیر وجود نہیں رکھتا کہ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریٰت: 56) ”اور میں نے جو بنائے جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو“ یہ آیت دونوں جانب کی گواہی دیتی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ" (الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) یعنی میں ایک مخفی خزانہ تھا میں نے اراہ کیا کہ میں پہچانا جاؤں۔ یہ ربوبیت کا بیان ہے۔ "فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" ”پس میں نے مخلوق پیدا کی“۔

اے بھائی! یہ عشق بازی اور عاشقی کے معاملات و اسرار ہیں۔ اور ذو النون صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ "اَلْعُبُوْدِیَّۃُ بِغَیْرِ الرُّبُوْبِیَّۃِ نُقْصَانٌ وَّ زَوَالٌ وَّ الرُّبُوْبِیَّۃُ بِغَیْرِ الْعُبُوْدِیَّۃِ مُحَالٌ" یعنی بغیر ربوبیت کے عبودیت نقصان اور زوال ہے اور عبودیت کے بغیر ربوبیت محال اور ناممکن ہے۔ ﴿وَأَلْزَمُھُمْ کَلِمَۃَ التُّقْوٰی وَکَانُوْا أَحَقَّ بِھَا وَأَھْلَھَا...﴾ (الفتح: 26) ”اور قائم رکھا ان کو آداب کی بات پر، اور وہی تھے اِس کے لائق اور کام کے“ عاشق و معشوق اور عاشق مناسب اور لازم پیدا کئے گئے ہیں۔ ﴿إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ بِأَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ...﴾ (التوبة: 111) یعنی مؤمنوں کے نفوس اور اموال اللّٰہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے خریدے ہیں، لیکن دل خود اللّٰہ تعالیٰ کا ہے اس کے خریدنے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ قابل خرید و فروخت یعنی بکاؤ مال نہیں۔

تشریح:

اس دسویں باب میں حضرت نے انسانی تواضع وغیرہ کے رموز، اسرار اور ان کے متعلق حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے علم کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ انسان کے سیر الی اللّٰہ اور اس کے رموز یعنی اس کے جو اندر گہری باتیں ہیں، ان کے بارے میں پوری معلومات رکھتے تھے، اور سیرِ حال اور سیرِ انسان اور مقامِ عبدیت حضرت کے لئے بالکل واضح ہو چکے تھے، یعنی جو احوال تبدیل ہوتے ہیں اور انسان کی کیفیت جو بدلتی ہے اور انسان پر جو مقامِ عبدیت ظاہر ہوتا ہے، یہ چیزیں حضرت کے اوپر کھل چکی تھیں۔ حضرت نے کچھ اشعار لکھے ہیں، جن میں فرماتے ہیں کہ عشق کا کاروبار علم، کتب خانی اور ورق گردانی کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ یہ ذرا تفصیل طلب بات ہے۔ بعض لوگ اس پہ غور نہیں کرتے تو جلدی مچاتے ہیں، فیصلہ جلدی کر لیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ علم کی توہین ہے یا علم کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے، اسے نا سمجھنا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ علم ضروری ہے، لیکن کس کا علم؟ غیر عاشق کا علم یا عاشق کا علم؟ عاشق کا علم اس کو اللّٰہ تک پہنچاتا ہے، کیوں کہ وہ اس سے یہ جاننا چاہتا ہے کہ میرا اللّٰہ مجھ سے کس چیز پہ راضی ہو گا۔ ظاہر ہے کہ جب کسی کو یہ علم حاصل ہو گا تو وہ اسے اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچائے گا۔ اور غیرِ عاشق کا علم اس کو اپنے نفس تک پہنچاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں ایسا ہوں، میں ایسا ہوں، اور تکبر اور رعونت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور شیطان کی طرح ﴿اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ (الاعراف: 12) کہہ کر مردود ہو جاتا ہے۔ حضرات نے ارشاد فرمایا ہے کہ شیطان کے پاس تین عین تھے، ایک عین نہیں تھا، ایک عین کی کمی تھی، جس وجہ سے مارا گیا، شیطان عالم بھی تھا، عارف بھی تھا، عابد بھی تھا، عالم تو ایسا تھا کہ معلّمُ الملکوت تھا، عابد ایسا تھا کہ اس کی عبادت مشہور تھی، اور عارف اتنا تھا کہ عین اس وقت میں جب اللّٰہ جل شانہٗ کے ہاں مردود قرار دیا گیا، اس وقت بھی اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا کہ مجھے مہلت دے دے۔ اس کو پتا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی فیصلہ جذباتی نہیں ہوتا، لہٰذا عارف تھا۔ یوں تین عین اس کے پاس تھے۔ چوتھا عین نہیں تھا یعنی عاشق نہیں تھا۔ اگر عاشق ہوتا تو یہ علم اس کے کام آتا، یہ معرفت اس کے کام آتی، یہ عبادت اس کے کام آتی۔ گویا کہ عشق نے فیصلہ کر دیا کہ اس کے ساتھ کیا ہونا ہے، عشق کے نہ ہونے نے اس کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس لئے عاشق ان چیزوں سے نہیں بنتا، یہ چیزیں عشق کے تقاضوں کو پورا کر لیتی ہیں، کیونکہ عاشق کو علم کی اس لئے ضرورت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میں اللّٰہ کو راضی کرنے کے لئے کیا کروں۔ عاشق کو معرفت کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ اپنے محبوب کو پہچاننا چاہتا ہے۔ اور عاشق کو عبادت اچھی لگتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کی عبادت کر رہا ہے اور اپنے محبوب کی بندگی کر رہا ہے۔ گویا اگر کوئی عاشق ہے تو اس کے لئے یہ تینوں چیزیں مفید ہیں، بلکہ بہت اعلیٰ درجہ کی چیزیں ہیں اور اگر عاشق نہیں ہے تو یہ تینوں اس کے کام نہیں آئیں گی۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ فضیلت علم، کتب خانی یا ورق گردانی پر منحصر نہیں ہے۔ عشاق گفتگو اور قیل و قال میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ مثلاً: کوئی محبوب کسی کو کہہ دے کہ جاؤ بازار سے میرے لئے فلاں چیز لے آؤ۔ کیا وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت! اس وقت میں آپ کی خدمت میں بیٹھا ہوں اور آپ کی صحبت مجھے میسر ہے، اس سے میں کیسے دور ہو جاؤں؟ اگر وہ یہ کہے گا تو نا مراد ہو جائے گا۔ قیل و قال تو وہ کرے، جو سمجھا نہ ہو۔ البتہ جیسے میں نے عرض کیا کہ تینوں چیزیں عاشق کے لئے انتہائی مفید چیزیں ہیں، لہٰذا اگر یہ عاشق ہے تو پھر اگر قیل و قال کرے گا تو اللّٰہ پاک کے حکم کو ماننے میں کرے گا کہ میں صحیح بات کو پہنچا ہوں یا نہیں۔ اس میں نہیں کرے گا کہ میں یہ کروں یا نہ کروں۔ بلکہ اس پہ ہو گا کہ اگر رب کا حکم ہے تو یہ تلاش کرے کہ واقعی یہ رب کا حکم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر رب نے روکا ہے تو اس سے رک جائے اور اگر کرنا ہے تو کس طرح کرنا ہے، اس کی تفصیل معلوم کرنی ہے۔ گویا کہ طبعاً قیل و قال ہو گا۔ جیسا کہ علمِ معرفت اور عبادت طبعاً ہیں، اسی طرح یہ بھی طبعاً ہو گا۔ گویا اپنے محبوب یعنی اللّٰہ جل شانہٗ کو راضی کرنے کے لئے جو کام کیا جائے گا، وہ عین مطلوب ہے۔ لیکن واضح کرنے کی کوشش، آیا ایک ملازم کی طرح کی جائے گی یا محب کی طرح کی جائے گی۔ ملازم تو چند گھنٹوں کا ملازم ہوتا ہے اور کنٹریکٹ ہوتا ہے کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا۔ لہذا وہ الگ بات ہے۔ لیکن عاشق تو یہ حساب نہیں کرتا کہ کتنے گھنٹے کرنا ہے اور یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا، ابھی تو میرا ٹائم شروع نہیں ہوا۔ یہ ساری باتیں مختلف ہو جاتی ہیں۔ گویا کہ یہ mindset کی بات ہے، اگر mindset عاشق کا ہے تو پھر ساری چیزیں مختلف بن جائیں گی۔

متن:

عشاق کا یہ وطیرہ نہیں کہ وہ گفت و گو اور قیل و قال میں وقت ضائع کریں۔ عشق کے محل کا تعلق ازل سے اور اس کی جڑ ابد تک پھیلی ہوئی ہے۔

تشریح:

یعنی چونکہ اللّٰہ جل شانہٗ ازل سے ابد تک ہے، لہٰذا عشق کی بھی کوئی انتہا نہیں ہے۔

متن:

کیونکہ اس درخت کا تکیہ عرش معلیٰ اور تحت الثریٰ پر نہیں (جو مخلوقات ہیں) ہم نے عقل کو معزول کیا۔

تشریح:

یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہ عقل نہیں ہے، جو معرفت کی جڑ ہے، بلکہ وہ عقل ہے جو چونکہ، چنانچہ میں صَرف ہوتی ہے۔ یعنی جو خواہ مخواہ یہ سوچتی ہے کہ یہ کیوں ہے، یہ کیوں ہے؟ یہ تب ہوتا ہے جب انسان اپنے آپ کو دیکھتا ہو۔ جب یہ بات ہو کہ میں کر سکتا ہوں، نہیں کر سکتا، کرنا چاہئے، نہیں کرنا چاہئے، یہ ہو گا، وہ ہو گا۔ یہ ساری اُس عقل کی باتیں ہیں۔ جب یہ عقل سِر میں بدل جاتی ہے تو یہ معرفتِ حقیقی بن جاتی ہے۔ پھر اس کا کام قیل و قال نہیں ہوتا، بلکہ محبوب کی بات کو صحیح طریقے سے سمجھنا ہوتا ہے۔ اس عقل کو معزول نہیں کرتے۔ یہ جو قیل و قال اور چونکہ، چنانچہ والی عقل ہے، اس عقل کو معزول کر دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ راستے کی رکاوٹ ہے، اور راستے کی رکاوٹ کو دور کیا ہے۔

متن:

اور خواہشات کو دھتکار دیا۔

تشریح:

یعنی خواہشاتِ نفس کو دھتکارا جاتا ہے، کیوں کہ انسان کی خواہشات بھی رکاوٹ ہیں۔ اس لئے انسان کو اپنی خواہشات کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے، خواہشات کو کنٹرول کئے بغیر انسان اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی نہیں کر سکتا۔ انسان اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی تب کر سکتا ہے، جب خواہشاتِ نفس کو کنٹرول کیا جائے۔ اللّٰہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا (الشمس: 9-10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے گا۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ) میں دھنسا دے‘‘۔

یعنی جس نے اپنے نفس کو رذائل سے پاک کر لیا، وہ کامیاب ہو گیا۔ ہر رذیلہ اللّٰہ تعالیٰ سے روکتا ہے۔ لہذا نفس کے جتنے بھی رذائل ہیں، ان کو دبانا، اس رکاوٹ کو ختم کرنا ہے۔ ہر رذیلہ راستے کی رکاوٹ ہے۔ اللّٰہ پاک نے بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو جو فرمایا: ’’دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالِ‘‘۔ ’’اپنے نفس کو چھوڑ اور میرے پاس آ جا۔‘‘ یعنی تمام رکاوٹوں سے قطع نظر کر کے میری طرف آ جا اور میرا بن جا۔ بس یہی کافی ہے۔ چنانچہ انسان کا نفس رکاوٹ بنتا ہے اور اس رکاوٹ کو دور کرنا ضروری ہے۔ گویا خواہشات وہ کتّے ہیں، جو محبوب کی طرف اٹھنے والے قدموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ کچھ حقیقی حملہ کرتے ہیں جیسے تکبر ہے، کینہ ہے۔ اور کچھ صرف بھونکتے ہیں، کاٹ نہیں سکتے، جیسے وساوس۔ فرمایا کہ ان کو دھتکار دیا، ان کی پروا نہیں کی، ان کو چھوڑ دیا، ان کی طرف توجہ نہیں کی۔

متن:

کیونکہ اِن اخلاق اور اس عقل کے لئے یہ حلاوت شایانِ شان نہیں۔

تشریح:

رذائل کو دبانے سے اخلاقِ حمیدہ آتے ہیں، کیونکہ اخلاقِ ذمیمہ رذائل ہیں۔ اس لئے رذائل کو دبانے سے اخلاقِ حمیدہ وجود میں آتے ہیں۔ اور دنیاوی عقل سے اللّٰہ تعالیٰ کے فرمان کی قدر نہیں ہوتی۔ انسان کے اپنے نفس کی قدر ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بچوں کا ایکسیڈنٹ اکثر اس وقت ہوتا ہے کہ جب وہ روڈ کو کراس کرتے ہوئے رکتے نہیں، اور گاڑی کے نیچے آ جاتے ہیں۔ اور بوڑھے اکثر واپسی میں مارے جاتے ہیں، یعنی وہ ہچکچاتے ہیں، جیسے آگے ہوتے ہیں تو کچھ راستہ طے کر کے پھر واپس ہو جاتے ہیں۔ اسی میں ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے۔ دونوں قسم کے ایکسیڈنٹس میں یہ چیز دیکھی گئی ہے۔ چونکہ بچوں میں عقل نہیں ہوتی، لہذا وہ آگے جاتے ہیں اور بے احتیاطی سے مارے جاتے ہیں۔ اور بوڑھوں میں عقل ہوتی ہے، اس لئے وہ وہم میں مارے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ گزر سکتے ہوتے ہیں، لیکن ڈر جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو راستہ ڈبل سے زیادہ ہو جاتا ہے اور اسی میں مارے جاتے ہیں۔ گویا بے احتیاطی بھی ٹھیک نہیں ہے اور بہت زیادہ خیال رکھنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ اپنے آپ کا خیال رکھے گا کہ مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ چنانچہ انسان کا نفس بچے کی طرح بے پروا ہے۔ اور عقل بوڑھے کی طرح ہے۔ لہٰذا جب انسان یہ دونوں چیزیں چھوڑتا ہے تو پھر ہی بچتا ہے یعنی نہ بچوں کی طرح کام کرے اور نہ بوڑھوں کی طرح کام کرے۔

متن:

کیونکہ اِن اخلاق اور اس عقل کے لئے یہ حلاوت شایانِ شان نہیں۔ جب تک تو مشتاق ہے تو جان لے کہ تمہارا یہ اشتیاق اچھا ہے۔

تشریح:

یعنی تیرا اصل مقصود اللّٰہ کا اشتیاق ہے کہ تو اللّٰہ پاک کی طرف متوجہ ہو۔ کیونکہ تو اللّٰہ تک ایسے نہیں پہنچ سکتا، جیسے آدمی دوسری چیزوں تک پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ اللّٰہ پاک وراء الوراء ہے، کوئی physically اس کے قریب نہیں پہنچ سکتا۔ physically اللّٰہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اللّٰہ نہ ہو۔ لیکن تیرا اس تک پہنچنا اعمالِ قرب کی وجہ سے ہے۔ جب آپ اعمالِ قرب کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کے قریب پائیں گے۔ چنانچہ جب انسان مشتاق ہو تو اسی کو کہتے ہیں کہ یہ پہنچا ہوا ہے۔

متن:

جب تو معشوق کے پاس پہنچے گا تو عشاق کی ہستی باقی نہیں رہتی۔

تسریح:

ایک لفظ ہے عدم، اور ایک ہے کالعدم۔ کالعدم سے مراد یہ ہے کہ ہے تو سہی، لیکن ہے کی طرح نہیں ہے، یعنی اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح انسان موجود تو ہوتا ہے لیکن وہ اللّٰہ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہمیں Mathematics میں equation کو balance کرنے کے لئے ایک طریقہ کار بتاتے تھے کہ کسی چیز کو بہت چھوٹا کرنا ہو، یعنی معدوم کرنا ہو تو اس کے ساتھ جو چیزیں شامل ہو رہی ہوں، ان کو اتنا بڑا کر دو کہ ان کے سامنے وہ کچھ بھی نظر نہ آئیں۔ یعنی دوسرے parameter کو 10/10 سے multiply کر لیتے ہیں۔ جیسے ایک جمع تین جمع آٹھ ہے تو اس میں آٹھ بڑا ہے۔ ایک کو 10/10 سے multiply کر دو اور باقی کو نہ کرو تو پھر ایک بڑا ہے۔ لہٰذا 10/10 کے ساتھ آٹھ اور تین کی کوئی نسبت نہیں ہے، یہ کالعدم ہیں۔ موجود تو ہیں، آٹھ بھی موجود ہے، تین بھی موجود ہے، لیکن 10/10 کے سامنے کالعدم ہیں۔ چنانچہ فنائیت کالعدم ہے۔ یعنی انسان فانی ہو جاتا ہے، کچھ بھی نہیں رہتا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب عشاق معشوق تک پہنچ جائیں تو عشاق کی ہستی باقی نہیں رہتی۔ یعنی ان کے سامنے اپنے آپ کو ہیچ پاتے ہیں۔ گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی چاہت کا اتنا زیادہ سریان ہوتا ہے کہ یہ اپنی دوسری خواہشات کو ختم اور کالعدم کر دیتے ہیں۔ مثلاً: سخت بھوک لگی ہوئی ہے اور آپ کا پیپر ہے، اس میں دو سال کی محنت لگی ہوئی ہے۔ کیا خیال ہے کہ اس وقت آپ کچھ کھائیں گے؟ یعنی آپ پیپر کے لئے آ رہے ہیں اور آپ نے time manage کیا ہوا ہے کہ میں وہاں ایک گھنٹہ پہلے پہنچ کے کھانا کھا لوں گا اور یہ یہ کام کروں گا اور پھر پیپر دوں گا۔ لیکن آپ کی گاڑی بارش کی وجہ سے آہستہ ہو گئی اور آپ بالکل وقت پہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی بھوک بھی پوری طرح جوان ہے اور ٹائم بھی شروع ہو گیا۔ اب آپ کیا کریں گے؟ بس یہی کالعدم ہے۔ یعنی ایک تقاضے کے سامنے باقی سارے تقاضے ختم ہو گئے۔ یہ فنائیت ہے، جس کو لوگوں نے چیستان بنایا ہوا ہے۔ گویا ایک تقاضا ہے کہ اپنے محبوب کو راضی کرنا ہے، اس کے سامنے باقی تمام چیزیں ختم کر دے۔ ایک شخص سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی ماں جھوٹ کیوں بولتی ہے؟ پہلے اس نے کہا کہ نہیں۔ پھر کہا کہ شاید بولتی ہے۔ اس نے کہا کہ تجھے کیسے پتا چلا؟ بہت غریب لوگ تھے، ان کو کھانے کو نہیں ملتا تھا۔ کہنے لگا: جس وقت ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہماری والدہ نہیں کھاتیں، ہم کہتے ہیں اماں! تم بھی کھاؤ۔ تو کہتی ہے کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔ میرے خیال میں ان کو بھوک ہوتی ہے، لیکن جھوٹ بولتی ہے۔ یہاں بھی ممتا کے تقاضے کے سامنے اس کی اپنی بھوک ختم ہو گئی، اس کو اپنی بھوک کا احساس نہیں ہوا۔ ممتا بھی عشق کی ایک صورت ہے۔ کیونکہ اس میں بچوں کی محبت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: ’’میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بچیاں اٹھا رکھی تھیں۔ میں نے اسے تین کھجوریں کھانے کے لئے دیں۔ اس عورت نے ان میں سے ہر ایک کو ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور کو کھانے کے لئے اپنے منہ کی طرف لے گئی۔ اسی اثناء میں اس کی دونوں بیٹیوں نے اس سے کھانے کے لئے مانگا۔ وہ کھجور جسے وہ کھانا چاہ رہی تھی، اس نے اس کے دو حصے کر کے دونوں کے ما بین اسے تقسیم کر دیا۔ مجھے اس کے اس عمل نے بہت متاثر کیا۔ میں نے اس کے اس فعل کو رسول اللّٰہ ﷺ کے سامنے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی بدولت اس کے لئے جنت واجب کردی یا (فرمایا) اللّٰہ تعالیٰ نےٰ اس عمل کی وجہ سے اسے جہنم سے آزاد کردیا ہے‘‘۔ چنانچہ اگر انسان دیکھے تو ہمارے لئے زندہ مثالیں موجود ہیں کہ کیسے انسان اپنے تمام احساسات کو، تمام تقاضوں کو کسی کے لئے بھول سکتا ہے۔ تو اگر اللّٰہ کے ساتھ محبت ہو اور اس کے لئے سارے تقاضے بھول جائیں، تو کیا یہ ممکن نہیں ہے؟ یہی تقاضے بدرجہ اولیٰ اللّٰہ کے لئے بھلائے جا سکتے ہیں، کیونکہ اللّٰہ پاک کا حق سب سے زیادہ ہے۔ میرے پاس ایک کلپ آیا، جس میں ہے کہ جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میرا خاوند دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے، اگر شریعت اجازت دیتی تو میں اپنا حسن ظاہر کرتی، تو آپ حیران ہو جاتے کہ میرے ہوتے ہوئے وہ دوسری بیوی کیسے کر سکتا ہے۔ یہ بات سن کر جنید رحمۃ اللّٰہ علیہ پر اتنا اثر ہوا کہ وہ غش کھا کے گر پڑے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا: حضرت کیا ہوا؟ اس میں ایسی کیا بات تھی؟ انہوں نے کہا کہ جس وقت عورت یہ بات کہہ رہی تھی، اس وقت مجھے الہام ہو رہا تھا کہ اگر میں اپنا حسن ظاہر کر دوں تو یہ سارے لوگ تباہ اور ختم ہو جائیں۔ میں تو اس سے غش کھا کے گر پڑا۔ گویا اللّٰہ پاک نے ان پر الہام کیا کہ میرے ہوتے ہوئے کوئی دوسری کی طرف کیسے جا سکتا ہے؟ دیکھیں! یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن اللّٰہ پاک اس پر اپنے عارفین کو dose دیتے ہیں، ان کے لئے یہ ایک معرفت کی بات تھی اور لوگوں کے لئے ایک عام سا واقعہ تھا۔

متن:

اے برادرِ عزیز! شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ ﴿إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی﴾ (النجم: 16) ”جب چھا رہا تھا اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا“ :یہ سِدرہ ربوبیت کا درخت ہے، جس کا میوہ عشقِ ازل ہے جو کہ عبودیت کی صورت میں عیاں ہے۔

تشریح:

یعنی بیری کے درخت پہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے تجلی ہو رہی تھی اور اس تجلی کی وجہ سے جو چیز وجود میں آ رہی تھی، وہ عشقِ ازل ہے، اور اس کا اثر عبودیت ہوتا ہے۔ اور بندہ اللّٰہ کی محبت میں جو بندگی کرتا ہے، وہ عبدیت ہے۔

متن:

اے بھائی! محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کی باتیں قابلِ غور اور قیمتی ہیں کہ اُنہوں نے عشق کے مدرسہ میں ﴿وَعَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ (الکھف: 65)

تشریح:

اللّٰہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا کہ ہم نے ان کو اپنی طرف سے ایک خاص علم سیکھایا تھا۔ ایسے ہی اپنے عارفین کو اللّٰہ تعالیٰ اپنی طرف سے کچھ سیکھاتے ہیں، جس کو علمِ لدنی کہتے ہیں۔

متن:

اور ربوبیت کے شراب خانے سے اُس نے ﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29)

تشریح:

یعنی ساتھ ساتھ قرآن پاک کے لطائف بیان کئے ہیں۔ اس کو ہم تفسیر نہیں کہتے ہیں، کیونکہ تفسیر میں اور لطائف میں فرق ہوتا ہے۔ (الحمد للہ ایک بڑا عجیب علم اللّٰہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔) علمِ شریعت کی طرف رہنمائی کرنے والی قرآن کی باتیں تفسیر کہلاتی ہیں۔ اور لطائف حقائق کی طرف رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی حقائق بھی قرآن ہی میں ہیں، ان کی طرف لوگ اشارے پاتے ہیں۔ محققین ان اشاروں کو سمجھ لیتے ہیں۔ جیسے مفسرین تفسیر کو سمجھ لیتے ہیں۔ یہ بات مجھے اس وجہ سے یاد آ گئی کہ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک دفعہ سورۂ شمس کی تفسیر کی، لیکن ساتھ ساتھ کچھ لطائف اور نکات بھی بیان فرمائے۔ اور فرمایا یہ تفسیر نہیں ہے، لطائف ہیں۔ اسی طرح حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی لطائف بیان فرماتے تھے۔ اسی طرح یہاں ساتھ ساتھ یہ لطائف بیان فرما رہے ہیں، تفسیر نہیں ہے۔ اس کی تفسیر تو اور ہے۔ اسی سے بعض لوگ غلط مطلب بھی لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کہاں سے ثابت ہے؟ کون سی باتیں کر رہے ہیں؟ یہ تو ہم نے کسی تفسیر کی کتاب میں نہیں پڑھا۔ آپ نے تفسیر کی کتابوں میں نہیں پڑھی ہوں گی، لطائف کی کتابوں میں پڑھ لیں۔ جس طرح تفسیر ضرورت ہے، اس طرح حقائق بھی ضرورت ہیں۔ آپ اسے تفسیر کی کتابوں میں نہیں پڑھ سکتے، بلکہ لطائف کی کتابوں میں پڑھیں۔

متن:

﴿إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی﴾ (النجم: 16) ”جب چھا رہا تھا اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا“ :یہ سِدرہ ربوبیت کا درخت ہے، جس کا میوہ عشقِ ازل ہے جو کہ عبودیت کی صورت میں عیاں ہے۔

تشریح:

یہ اس آیت کا لطیفہ اور نکتہ ہے۔

متن:

اے بھائی! محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کی باتیں قابلِ غور اور قیمتی ہیں کہ اُنہوں نے عشق کے مدرسہ میں ﴿وَعَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ (الکھف: 65)

تشریح:

کیونکہ عاشق کا عشق کے ذریعے سے اللّٰہ کے ساتھ جو قلبی تعلق ہوتا ہے، اس کی ذریعے سے کچھ علم آتا ہے اور وہ علمِ لدنی ہوتا ہے۔ اور وہ علمِ لدنی لطائف کی طرف جاتا ہے۔ ہمارے زیارت کاکا صاحب میں ایک مجذوب نما بزرگ تھے، دستار استاد ان کا نام تھا اور حافظِ قرآن تھے، قرآن پڑھتے تھے، لیکن عالم نہیں تھے۔ جس وقت جلال میں آ جاتے تو شروع ہو جاتے، قرآن پاک سے عجیب و غریب معارف ثابت کرتے کہ اللّٰہ نے یہ کہا ہے، اللّٰہ نے یہ کہا ہے۔ قرآن کی آیات پڑھتے اور ساتھ معارف بیان کرتے۔ بڑے بڑے علماء سن کر حیران ہو جاتے۔ زیارت کاکا صاحب میں بڑے علماء تھے، دیوبند کے مشائخ، علماء اور اساتذہ تھے۔ جیسے یوسف صاحب کے والد حضرت مولانا عبد الحق نافع صاحب۔ یہ بات یوسف صاحب نے مجھے سنائی کہ میرے والد صاحب حیران ہو کر ان کو دیکھتے کہ یہ کہاں سے کہہ رہا ہے۔ اور ان کی باتوں کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ لہٰذا ان کے اوپر لطائف کا ورود ہو رہا تھا اور ایسے لوگوں کو فائدہ ملتا ہے۔ چنانچہ مولانا عبد الحئ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جس وقت جلال میں آ جاتے، تو سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے ہی خلیفہ کے پیچھے بالکل خاموش کھڑے ہو جاتے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ حضرت کیا وجہ ہے کہ جب مولانا عبد الحئ صاحب غصہ میں آ جاتے ہیں تو آپ ان کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں؟ فرمایا: چونکہ ان کا غصہ اللّٰہ کے لئے ہوتا ہے تو اس وقت اللّٰہ کی خاص رحمت برس رہی ہوتی ہے، میں پیچھے کھڑا ہو جاتا ہوں کہ مجھے بھی اس میں حصہ مل جائے۔ لہٰذا عارفین کو پتا ہوتا ہے کہ کس وقت کون سی چیز اتر رہی ہے، عام لوگ اس کو نہیں جانتے، لہذا وہ ناقدرے ہوتے ہیں اور محروم رہ جاتے ہیں اور عارفین لے لیتے ہیں۔ مولانا غلام محمد صاحب، جو حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مرید تھے اور ہمارے حضرت کے پیر بھائی تھے، انہوں نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مرض الموت کا بالکل آخری وقت تھا تو حضرت کی عیادت کے لئے ایک نقشبندی بزرگ تشریف لائے۔ کہتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ بیٹھے بات چیت کر رہے تھے اور اچانک مراقب ہو گئے۔ میں حیران ہوا کہ کمال کی بات ہے، یہ کوئی اخلاق ہے؟ اگر آپ نے مراقبہ کرنا تھا تو مجھے بتا دیتے، میں چلا جاتا، آپ مراقبہ کر لیتے۔ یہ کیا ہوا کہ میرے ساتھ بات کر رہے ہیں اور اچانک مراقب ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ میرے دل میں ذرا کھوٹ سی آئی کہ یہ تو ٹھیک نہیں کیا۔ بعد میں میں نے ان سے پوچھا کہ حضرت! اگر آپ نے مراقبہ کرنا تھا تو مجھے بتا دیتے، میں کوئی منع تو نہ کرتا۔ آپ میرے ساتھ بات کرتے کرتے اچانک مراقب ہو گئے، یہ آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت غلطی ہو گئی، معاف کیجئے گا، مجھے اندازہ ہی نہیں تھا، اس وقت مجھے آپ کی موجودگی کا خیال نہیں آیا۔ اور کہا کہ مجھے اس وقت الہام ہوا کہ سید صاحب کی طرف نہیں دیکھ رہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس وقت چارپائی پہ لیٹے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے حضرت کی طرف دیکھا تو حضرت کے سینہ پر انوارات کی بارش ہو رہی تھی۔ میں یک دم مراقب ہو گیا کہ میں بھی اس میں سے کچھ حصہ لے لوں۔ اس لئے مجھے آپ کو اطلاع دینے کا وقت ہی نہیں ملا، میں آپ کو بھول گیا۔ جیسے اپنے مطلب کے وقت انسان بھول جاتا ہے، پتا نہیں ہوتا کہ میں کسی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں۔ بہرحال! جب کوئی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو، تو اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ آتا ہے، وہ علم کی صورت میں بھی آ سکتا ہے، وہ الہام کی صورت میں بھی آ سکتا ہے، وہ انوارات کی صورت میں بھی آ سکتا ہے۔ الغرض! کوئی بھی فیض ہو سکتا ہے۔ اس میں ہم کچھ کہہ نہیں سکتے، یہ حالات پر منحصر ہے۔ بہرحال! جب یہ ہو تو اس کو جاننے والے لوگ ایسے موقعوں کی تاک میں ہوتے ہیں اور وہ لے لیتے ہیں۔ اور جو نہیں جانتے، وہ اس وقت بھی رہ جاتے ہیں۔ اور آگے فرمایا: اور ربوبیت کے شراب خانے سے اُس نے ﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29) یعنی اللّٰہ پاک رب ہیں، تو اللّٰہ کے عشق میں جو جان مل رہی ہے، اس کے اندر محبت کے راستے سے روح پھونکی جا رہی ہے۔ چنانچہ اسی طرف ﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (الحجر: 29) میں اشارہ کیا ہے۔

متن:

”اور پھونک دوں اُس میں اپنی جان سے“ شراب نوش فرمائی ہے اور احدیت کے خلعت خانہ سے عبودیت کی عبا کو پہننے کا شرف حاصل کیا ہے۔

تشریح:

احدیت کے خلعت خانہ سے، یعنی اللّٰہ جل شانہٗ کا جو احدیت کا خلعت خانہ ہے، اس سے بندگی کی خصوصی کیفیت حاصل کی ہے۔ ہر ایک کی بندگی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کی بندگی ایک الگ بندگی ہے، اس لئے ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ میں ’’عَبْدُہٗ‘‘ فرمایا گیا ہے۔ گویا ہم عبد ہیں اور آپ ﷺ عَبْدُہٗ ہیں۔ لہٰذا ہماری بات اور ہے اور آپ ﷺ کی بات اور ہے۔ جس کی جس درجے کی عبدیت ہوتی ہے، اس کو احدیت کے خلعت خانہ سے اتنا ہی ملتا ہے۔

متن:

﴿وَحَمَلَھَا الْإِنْسَانُ...﴾ (الأحزاب: 72) ”اور انسان نے اُس کے اٹھانے کی ہامی بھری“ کیونکہ اے بھائی! اس کائنات میں کوئی عالم بھی عبودیت سے افضل اور برتر نہیں۔

تشریح:

عبودیت انتہائی اونچا مقام ہے، جس کو اللّٰہ تعالیٰ عبودیت سے نواز دے، اس کو سب کچھ نوازا گیا، اس کے اندر سب کچھ ہے۔

متن:

یعنی عبودیت ایک حال ہے جو کہ ربوبیت کے جمال کے حسین چہرے سے مزین ہے۔

تشریح:

یعنی رب پالنے والا اور عبد بندگی کرنے والا، بندگی ربوبیت کی معرفت کا نتیجہ ہے۔ جب انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہ بندگی صحیح کر سکتا ہے، پھر اس کو بندگی کا سلیقہ آ جاتا ہے۔ یعنی سلیقہ بھی عطا فرمایا جاتا ہے، یہ بھی علمِ لدنی میں سے ہے۔ یہ بھی کتابوں میں نہیں ہوتا۔ اس لئے صحابہ کرام کو اگرچہ کچھ سورۂ حجرات میں instructions ملی تھیں کہ یہ کرو، یہ کرو۔ باقی سب کچھ علمِ لدنی سے حاصل ہوا تھا۔ جیسے حضرت سہیل رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ (جو اس وقت مسلمان نہیں تھے، بعد میں مسلمان ہوئے) کفار کی طرف سے قاصد کے طور پر گئے تھے تو انہوں نے واپس جا کر جو رپورٹ پیش کی تھی، اس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ میں نے قیصر و کسریٰ وغیرہ کے دربار دیکھے ہیں، لیکن کسی بادشاہ کی رعایا اس کی ایسی خدمت نہیں کرتی، اس کے ساتھ ایسی محبت نہیں کرتی، اس کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھتی، جو محمد ﷺ کے ساتھ ان کے ساتھی کر رہے تھے۔ اور کہا کہ محمد ﷺ کے وضو کا پانی ان کے صحابہ نیچے نہیں گرنے دیتے تھے۔ اور ان کی تھوک مبارک کو بھی وہ زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے، اپنے چہروں پہ مل لیتے تھے۔ یہ چیز کہاں پر سیکھائی گئی، پہلے کہاں تھی؟ در اصل یہ وہی چیز ہے جیسے کہا گیا ہے کہ محبت تجھے اپنے آداب خود ہی سیکھا دے گی۔ یعنی جن کو محبت ہوتی ہے، ان کو یہ سارے آداب معلوم ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ محبت کی وجہ سے محبوب کو ناراض نہیں کرنا چاہتے، اس لئے ان کے سمجھنے کا پورا سسٹم ایک ہی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ میرا محبوب کیا چاہتا ہے۔ اور جب معاملہ اللّٰہ کے ساتھ ہو اور اللّٰہ جل شانہٗ کے ساتھ اس کی محبت اور شوق ایک حد تک پہنچ جائے، تو پھر اس کو سیراب کرنا بھی خدا کا کام ہے، یعنی اس کے تقاضے کو پورا کرنا بھی خدا ہی کا کام ہے۔ لہٰذا اس کو اللّٰہ ہی کے ہاں سے کچھ چیزیں سیکھائی جاتی ہیں۔ اور جو ادب اللّٰہ کے ہاں سے سیکھایا گیا ہے، وہ کتابوں میں تو نہیں ہو گا۔ کتابوں میں تو عام لوگوں کے لئے ہو گا۔ اور جو خاص لوگوں کے لئے ہے، وہ ان کو ان کے سینوں میں عطا کیا جاتا ہے۔ جیسے: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ لیں۔ آپ ﷺ نے چندے کے لئے فرمایا، تو سب لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق لے آئے۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت میرے حالات اچھے تھے، اس لئے میں نے گھر کی ساری چیزوں کو نصف نصف کر دیا اور نصف آپ ﷺ کی خدمت میں لے آیا اور نصف گھر چھوڑ دیا۔ گویا انصاف کر دیا، کیونکہ انصاف نصف نصف کرنے کو کہتے ہیں۔ انصاف کر دیا یعنی نصف نصف کر دیا کہ ان کا حق بھی نہ مارا جائے اور میں وہاں پر بھی لے جاؤں۔ فرمایا: پھر میں نے سوچا کہ آج میں ابو بکر (رضی اللہ عنہ) سے آگے بڑھ جاؤں گا، آج میری باری ہے۔ ان کا آپس میں ایسا مقابلہ ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ گھر کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جتنا لایا ہوں، اتنا گھر چھوڑا ہے۔ فرمایا: اچھی بات ہے۔ اور قبول فرما لیا۔ پھر ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ آئے، انہوں نے پورے گھر میں جھاڑو دیا اور جو کچھ تھا، وہ سب لے آئے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بس اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ یہ وہ چیز ہے، جو عشق کے مدرسہ میں ہی مل سکتی ہے، اس کو حاصل کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس وقت وہ بات کون سی category میں ڈالی گئی، یہ تو اللّٰہ کو پتا ہے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ لیکن جواب کیا تھا؟ ہر ایک کا جواب اپنا اپنا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا جواب یہی تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ قبول فرما لیا۔ پتا چلا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا جواب بھی ٹھیک تھا۔ چنانچہ ہر ایک کو اپنے مقام کے حساب سے ملتا ہے۔

متن:

ربوبیت کے چہرے کا حسن و جمال عبودیت کے حال کے بغیر کمال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔

تشریح:

جیسے فرمایا: ’’کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ‘‘ (الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253)

ترجمہ: ’’میں گنجِ مخفی تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں‘‘۔

گویا عبودیت اللّٰہ تعالیٰ کی پہچان ہے۔ یعنی مشیتِ الہیٰ کی تکمیل کا ذریعہ عبودیت نے بننا تھا، کیونکہ اللّٰہ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، جب پہچانے گئے تو اس سے عبودیت وجود میں آ گئی۔ گویا اس کا نتیجہ عبودیت تھا۔ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریٰت: 56)

ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔

’’لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ میں لطیفہ کے طور پہ’’لِیَعْرِفُوْنِ‘‘ بھی شامل ہے کیونکہ ’’لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ معرفت کے مطابق ہوتا ہے، جس کی جتنی معرفت ہوتی ہے، اتنی ہی اس کی بندگی ہوتی ہے۔ معرفت پہلے آتی ہے اور اس کی تکمیل بعد میں ہوتی ہے۔ لہٰذا جس کی سادہ معرفت ہو، وہ کہتا ہے کہ اللّٰہ ایک ہے اور اللّٰہ میرا رب ہے۔ بس یہ صرف کہنے کی حد تک ہی بات کرتا ہے۔ اس کو عبادت کہا جا سکتا ہے۔ اور جس کی معرفت حقیقی ہو، وہ حقیقت کی بات کرتا ہے۔ چنانچہ معرفت کے بقدر ہی انسان عبادت کرتا ہے، جس کی جتنی معرفت ہوتی ہے، وہ اس کی بقدر عبادت کرتا ہے۔

متن:

”اور میں نے جو بنائے جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو“ یہ آیت دونوں جانب کی گواہی دیتی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ" (الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) یعنی میں ایک مخفی خزانہ تھا میں نے اراہ کیا کہ میں پہچانا جاؤں۔ یہ ربوبیت کا بیان ہے۔ "فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" ”پس میں نے مخلوق پیدا کی“۔

تشریح:

یعنی مخلوق کو پیدا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میں پہچانا جاؤں۔ اس کو اگر ذرا آیتِ کریمہ کے ساتھ ملائیں، تو لطائف سامنے آتے ہیں۔ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریٰت: 56)

ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘

اور فرمایا: ’’کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ‘‘ یعنی جب میں نے چاہا کہ میں نے پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو پیدا کر دیا۔ گویا کنزِ مخفی کا نتیجہ مخلوق کی پیدائش تھی اور مخلوق کی پیدائش عبادت کے لئے تھی۔ پھر کنزِ مخفی کا نتیجہ عبادت تھی۔ یہ لطائف ہی تو ہیں۔

متن:

اے بھائی! یہ عشق بازی اور عاشقی کے معاملات و اسرار ہیں۔ اور ذو النون صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ "اَلْعُبُوْدِیَّۃُ بِغَیْرِ الرُّبُوْبِیَّۃِ نُقْصَانٌ۔

تشریح:

یعنی اگر کسی کو ربوبیت کی معرفت نہیں ہے اور وہ عبودیت کر رہا ہے، عبادت یعنی بندگی کر رہا ہے تو اس میں نقصان ہے، وہ نقصان نہیں ہے۔ اس میں بقدرِ معرفت کمی ہے، اور یہ کمی بندگی میں بھی آ جائے گی۔ ’’وَزَوَالٌ‘‘ کا یہی مطلب ہے۔ ’’وَالرُّبُوْبِیَّۃُ بِغَیْرِ الْعُبُوْدِیَّۃِ مَحَالٌ‘‘ اور ربوبیت وہی پہچان کے ساتھ ہے۔ رب کا معنیٰ ہے؛ پالنے والا۔ آخر کسی کو پالا ہے، لہٰذا کسی چیز کا وجود ہو گا، کوئی مخلوق ہو گی، جس کو پالے گا۔ مخلوق نہیں ہو گی، تو ربوبیت نہیں ہو گی۔ لہٰذا ربوبیت مخلوق کی پیدائش کے بغیر محال تھی، تو اللّٰہ جل شانہٗ نے اس کو پیدا فرما دیا۔ میں اس لئے اکثر کہتا ہوں کہ جلدی نہیں مچانی چاہئے، کیونکہ اگر آپ اس کے اوپر سے ایسے ہی گزر جاتے، تو آپ کے تصور میں یہی آتا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، کون سی باتیں کر رہے ہیں؟

متن:

عبودیت کے بغیر ربوبیت محال اور ناممکن ہے۔ ﴿وَأَلْزَمُھُمْ کَلِمَۃَ التُّقْوٰی وَکَانُوْا أَحَقَّ بِھَا وَأَھْلَھَا...﴾ (الفتح: 26) ”اور قائم رکھا ان کو آداب کی بات پر، اور وہی تھے اِس کے لائق اور کام کے“ عاشق و معشوق اور عاشق مناسب اور لازم پیدا کئے گئے ہیں۔ ﴿إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ بِأَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ...﴾ (التوبة: 111) یعنی مؤمنوں کے نفوس اور اموال اللّٰہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے خریدے ہیں، لیکن دل خود اللّٰہ تعالیٰ کا ہے اس کے خریدنے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ قابل خرید و فروخت یعنی بکاؤ مال نہیں۔

تشریح:

دل خود اللّٰہ تعالیٰ کا ہے، اس لئے حیا کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسی کو دو، کسی اور کو نہ دو، یہ بکاؤ چیز نہیں ہے۔ کیونکہ ایک چیز اگر کسی ایک کی ہے اور آپ نے دوسرے کو دے دی تو آپ نے اپنا نقصان کر لیا۔ اس لئے دل اللّٰہ ہی کا ہے اور اللّٰہ ہی کو دینا ہے۔

متن:

اے بھائی! جیسا کہ ربوبیت کی کوئی قیمت نہیں، عبودیت کا بھی کوئی مول نہیں اور جو بیع اپنے مقابلے اور بدلے میں رقم اور قیمت نہیں رکھتی وہ بیع بیع نہیں بلکہ وہ غبن فاحش ہے، اور سخت ظلم ہے۔ اگر دل آئینہ الٰہی کے مقابل نہ ہوتا تو "مَا لِلتُّرَابِ وَرَبِّ الْأَرْبَابِ" ”چہ نسبت خاک را با عالم پاک“ کبھی بھی درست نہیں ہوتا۔ ﴿ظَلُوْمًا جَھُوْلًا﴾ (الأحزاب: 72) میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔

تشریح:

اس آیت کی تفسیر میں لوگ حیران ہو جاتے ہیں کہ: ﴿وَحَمَلَھَا الْإِنْسَانُ...﴾ (الأحزاب: 72) کہ انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ پھر اس کو ﴿ظَلُوْمًا جَھُوْلًا﴾ (الأحزاب: 72) کیوں کہا گیا؟ اس پر بڑی باتیں ہیں، وہ باتیں تفسیر کی ہیں۔ ان باتوں کو لطائف کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی حقیقت کی پہچان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ساتھ لطائف بھی ہو جائیں، تو وہ تفسیر بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اگر صرف تفسیر کے انداز میں ان کو سمجھایا جائے، تو بڑا مشکل ہے۔ کیونکہ جو چیزیں اللّٰہ تعالیٰ نے Fill in the blanks کے طور پہ چھوڑی ہیں، تو Fill in the blanks کہاں سے ہو گا؟ انہی لطائف سے ہی ہو گا۔ یہاں بھی یہی والی بات ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ بِأَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ...﴾ (التوبة: 111)

ترجمہ: ’’واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات کے بدلے خرید لئے ہیں کہ جنت انہی کی ہے‘‘۔

اس سے یہ بھی پتا چلا کہ عام لوگوں کے لئے تو یہی بات ہے کہ بس جنت کے بدلے میں ان کی جانیں خرید لی گئی تھیں، اس لئے جو اعمال کریں گے، ان کے مقابلہ میں جنت ہو گی۔ یعنی جن کی نیت جنت کی ہے، جو Second category میں ہیں، ان کے لئے یہی بات کافی ہے۔ اور جو Third category میں ہیں یعنی جو جنت کے لئے کام نہیں کر رہے، بلکہ محض اللّٰہ کے لئے کر رہے ہیں، جن کا مطلوب جنت بھی نہیں ہے، ان کا مطلوب اللّٰہ ہے، ان کو جنت تو ملے گی ہی۔ اس پر میں کافی کچھ عرض کر چکا ہوں، جیسے دیدارِ الہی کا معاملہ ہے کہ جنت میں جب انسان کو اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ عطا فرمائیں گے، تو وہ نعمتوں میں اتنے منہمک ہوں گے کہ ان کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو نہیں ملی۔ پھر اللّٰہ کی طرف سے پوچھا جائے گا کہ کوئی اور چیز چاہئے؟ جنتی حیران ہو جائیں گے کہ کون سی چیز نہیں ملی، جو ہم مانگیں! وہ اس وقت علماء سے پوچھیں گے تو علماء بتائیں گے کہ دیدار الہی ابھی ہونا ہے، وہ ابھی نہیں ملا۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ ان کو دیدار نصیب فرمائیں گے۔ جب اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا، تو سب جنتی کہیں گے کہ ابھی تک ہمیں کیا ملا تھا؟ اور وہ سب کچھ بھول جائیں گے۔ اس وقت ان کی معرفت تیسری کیٹگری کی ہو گی۔ تو جو لوگ پہلے سے تیسری کیٹگری میں ہیں، جب تک ان کو وہ چیز نہیں ملے گی، وہ دوسری نعمتوں کی طرف دھیان ہی نہیں کریں گے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوں گے، جن میں حور و قصور کی بات نہیں ہو گی، بلکہ وہاں: ’’اَرِنِیْ، اَرِنِیْ‘‘ کی باتیں ہوں گی۔ یہ لوگ تیسری کیٹگری کے ہوں گے۔

متن:

جیسا کہ ربوبیت کی کوئی قیمت نہیں، عبودیت کا بھی کوئی مول نہیں اور جو بیع اپنے مقابلے اور بدلے میں رقم اور قیمت نہیں رکھتی وہ بیع بیع نہیں بلکہ وہ غبن فاحش ہے،

تشریح:

یعنی میں کیا عبودیت طلب کر سکتا ہوں؟ اس کے لئے کچھ طلب کروں گا، تو غبن ہو گا۔

متن:

اگر دل آئینہ الٰہی کے مقابل نہ ہوتا تو "مَا لِلتُّرَابِ وَرَبِّ الْأَرْبَابِ" ”چہ نسبت خاک را با عالم پاک“ کبھی بھی درست نہیں ہوتا۔ ﴿ظَلُوْمًا جَھُوْلًا﴾ (الأحزاب: 72) میں (یہی بات ہے) اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے نے عبودیت کے نقطے کو محبت سے فروخت کیا، جب بیع مکمل ہوئی تو عبودیت کا نقطہ، ربوبیت سے واصل ہوا۔ اور اے برادرِ عزیز! جب ربوبیت کا نور عبودیت کے نور پر غالب ہو جائے تو نورِ عبودیت مغلوب ہو جاتا ہے، اور کبھی نورِ ربوبیت نورِ عبودیت پر نوازش کرتا ہے اور اس کو قربت کا شرف عطا کرتا ہے اور کبھی معشوق کا نور عاشق کے نور پر غلبہ کرتا ہے اور کبھی عاشق کے نور کو قرب وصال سے نوازتا ہے۔ مطلب یہ کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ معراج کی رات کو میں اللّٰہ تعالیٰ کو نہ دیکھ سکا، کیونکہ اس کے نور نے غلبہ کیا تھا "فَرَأَیْتُ فِرَاشًا مِّنَ الذَّهَبِ حَالَ بَیْنِيْ وَبَیْنَہٗ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی میں نے سونے کے ایک پتنگے کو دیکھا جو کہ میرے اور اِس کے درمیان حائل ہوا تھا۔ یعنی دید در میت کا وہ حائل جو فرمایا گیا ہے، وہ انسانیت تھی۔ لیکن یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نور الٰہی کی شمع کے لئے انسان کا دل ایک پروانہ ہے۔ ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنٰی فَأَوْحٰی إِلٰی عَبْدِہٖ مَا أَوْحٰی (النجم: 8-10) ”پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا، پھر رہ گیا فرق دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی نزدیک پھر حکم بھیجا اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر“۔

رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی قدرت کا ہاتھ میرے کندھوں پر تھا، اور جب اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں پر رکھا تو "فَعَرَفْتُ مَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب میں جان پہچان گیا۔ پس اے بھائی! یہ آیتِ شریفہ اس بات پر صریح دلالت کرتی ہے کہ عشقِ الٰہی جانِ مقدس کے ساتھ کیا تعلق رکھتا ہے، لیکن ظاہر بین لوگ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، کیونکہ راز کی بات ہر کسی کو نہیں کہی جاتی۔ اور ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنٰی﴾ (النجم: 9) فرمایا گیا ہے یہاں اپنے عشق اور محبوب کی جان کے تعلق کا بیان ہے۔ اور ﴿إِلٰی عَبْدِہٖ﴾ فرما کر کس انداز سے اس کی نشاندھی سے ذرا سا پردہ سرکایا ہے۔

اے میرے پیارے بھائی! اگر مقدس جان کی رسول اکرم ﷺ میں شائستگی نہ ہوتی تو اس قوم میں شور و غوغا نہ پڑ جاتا؟ عشق ایک بادشاہ ہے جس محل و مقام میں چاہتا ہے وہاں جلوہ آرا ہو جاتا ہے۔ اور ابدی عشق نے مقدس جان کے ساتھ پوشیدہ طور پر عقد باندھا ہے، جس سے عشق کے سوا کوئی بھی آگاہ نہیں، کیونکہ عشق ایک ایسا مقام ہے کہ عاشق و معشوق ہر دو کو اِس کی خبر و اطلاع نہیں، نہ تو معشوق کو آگاہی ہوتی ہے اور نہ عاشق کو۔ پس عشقِ الٰہی جانِ قدسی کے ساتھ ہوتا ہے اور جانِ قدسی کا عشق انوارِ الٰہی سے۔ ان باتوں پر خوب غور و فکر کرو اور سوچ لو کہ میں کیا لکھ رہا ہوں۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وہ مجھے اپنی قربت کی سعادت عطا کرتا ہے تو اس کے نور میں مَیں اپنے آپ کو دیکھ لیتا ہوں کہ "رَاٰی قَلْبِيْ رَبِّيْ" یعنی میرے دل نے اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھ لیا۔ اولیاء اللّٰہ کے سردار حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ اس حالت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں کہ "مَا نَظَرْتُ شَیْئًا إِلَّا رَأَیْتُ اللّٰہَ فِیْہِ" (العقیدۃ الاسلامیۃ علی ضوء مدرسۃ أهل البیت بمعناه، و ھو من کتب الشیعۃ، رقم الصفحۃ: 137) یعنی میں جس چیز کو بھی دیکھتا ہوں اُس میں اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھ پاتا ہوں۔ اور اس بات کی گواہی قرآن کریم نے یوں دی ہے کہ ﴿أَلَمْ تَرَ إِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ...﴾ (الفرقان: 45) ”تو نے نہیں دیکھا اپنے رب کی طرف کیسے دراز کیا سائے کو“ اور جب اللّٰہ تعالیٰ اپنے آپ کو ہمارے دل کے آئینے میں دیکھ لیتا ہے تو اس کی عبادت اور بیان یہ ہوتی ہے: ﴿أَلَمْ یَعْلَمْ بِأَنَّ اللّٰہَ یَرٰی﴾ (العلق: 14) ”یہ نہ جانا کہ اللّٰہ تعالیٰ دیکھتا ہے“ اے برادر! اگر محمد حسین (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا یہ قول تمہاری روح کی شایان نہ ہو تو اللّٰہ تعالیٰ اس بھائی کی باتوں کو جانتا ہے کہ اس کے یہ کلمات دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتے، کیونکہ دونوں جہان بہت مختصر ہیں۔ پس اے بھائی! یہ بات تو واضح ہے کہ سورج کو چراغ سے نہیں پہچانا جاتا جیسا کہ اس فقیر نے کہا ہے کہ "لَا یَعْرِفُ الْحَقَّ إِلَّا الْحَقُّ" یعنی حق کو حق کے سوا کوئی نہیں پہچانتا۔ ''ولی راوی سے شناسد'' اور حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "عَرَفْتُ رَبِّيْ بِرَبِّيْ" (روح البیان، بلا نسبۃ إلی أحد، رقم الصفحۃ: 65/3، دار الفکر، بیروت) یعنی میں نے اپنے رب کو اپنے رب سے جانا۔

تشریح:

یعنی اللّٰہ کو کوئی نہیں جان سکتا ہے، کیوں کہ اللّٰہ وراء الوراء ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کو انسان اتنا ہی جانتا ہے، جتنا اللّٰہ تعالیٰ اپنے جاننے کی توفیق دیتا ہے، جتنی اس کی طرف سے عنایت ہو، وہ اتنا ہی جان سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں جان سکتا۔ اسی لئے فرمایا: ’’عَرَفْتُ رَبِّيْ بِرَبِّيْ‘‘ یعنی میں نے اپنے رب کو رب سے جانا۔

متن:

جو شخص حاملِ عشق نہ ہو وہ اس راستے کا مسافر ہی نہیں۔ عاشق تو عشق کے سہارے پہنچ سکتا ہے اور معشوق کو اپنے عشق کے اندازے کے مطابق دیکھ لیتا ہے۔

تشریح:

یوں کہہ سکتے ہیں کہ عشق اس کے اندر معرفت کا نور بھر دیتا ہے۔ جتنی معرفت اس میں آ سکتی ہے، اس معرفت کے بقدر وہ اپنے رب کو دیکھ لیتا ہے۔

متن:

جتنا اور جس حد تک عاشق کے عشق میں زیادہ کمال ہو، اس قدر معشوق کے حسن و جمال میں زیادہ حسن و جمال معائنہ کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پوشیدہ آتا ہے اور پوشیدہ باہر نکل جاتا ہے مگر عاشق و معشوق کو خبر بھی نہیں ہوتی۔

اب یہ بات جان لو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے عشق کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک حصہ رسول اللّٰہ ﷺ کو عطا فرمایا گیا ہے اور ایک حصہ ابلیس علیہ اللعنۃ کو دیا گیا ہے۔ پس رسول اللّٰہ ﷺ نے اپنی قسم مؤمنوں کو بخش دی ہے اور جمال و حُسن کا شور و غوغا اِن میں بھر دیا ہے۔ اور محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مقام پر ایک راز تھا جو میں نے چھپا کر چھوڑ دیا، اگر لکھا جاتا ہے تو دونوں جہان زیر و زبر ہو جاتے۔ پس اے بھائی! ان سب باتوں کا مقصود اور مطلب یہ ہے کہ عشقِ الٰہی کی تو تقسیم ہو چکی ہے لیکن عشقِ عبودیت اُس نے تمام قبضہ میں کیا ہے کہ ﴿إِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرہ: 20) ”بے شک اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے“ میری بات کو تم سوچ کر جان سکو گے، اِس کو دریافت کرو گے اور پھر اِس کو پا لو گے۔ پس اے بھائی! عشق الٰہی تقسیم ہو چکا ہے، میں اس کا ایک چھوٹا سا حصہ بیان کرتا ہوں۔ عشق اہلِ جمال کے جمال کو نوازتا ہے اور عشق نے اہل جلال کے جلال کو نوازا، "إِذَا رَأَوُا الْجَلَالَ تَابُوْا وَإِذَا رَأَوُا الْجَمَالَ ذَابُوْا" یعنی جب جلال کو دیکھتے ہیں تو تائب ہو کر ہمہ تن مائل ہو جائے ہیں اور جب جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں تو مشاہدۂ جمال سے پگھل جاتے ہیں۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ دو مقام جو دو تقسیموں میں بیان کئے گئے ہیں، یہ مقامات ان لوگوں کے لئے ہیں جو متوسط ہمت رکھتے ہوں۔ مگر اے میرے برادرِ عزیز! اعلیٰ ہمت رکھنے والوں کے لئے دین اور مذہب عشق ہوتا ہے، نہ تو وہ جلال کے پابند ہوتے ہیں اور نہ جمال کے، یعنی جو لوگ اُس کے عاشق ہوتے ہیں یا اُس کے معشوق ہوتے ہیں، اُن کے لئے اس کی بقا اور دیدار یا اُس کے لئے اُن کی بقا کے علاوہ کوئی دوسرا دین، مذہب اور ملت نہیں ہوتا۔ پس ایسی حالت میں جو کفر حقیقی ہوتا ہے، وہی ایمان حقیقی ہوتا ہے۔

تشریح:

کافر حقیقی سے مراد یہ ہے کہ اس نے تمام چیزوں کو چھوڑ دیا ہوتا ہے۔ اس سے مراد اصطلاحی کافر نہیں ہے۔ کافر انکار کرنے والوں کو کہتے ہیں، لہٰذا جس نے غیر کا انکار کر دیا، وہ کافرِ غیر ہو گیا۔ امیر خسرو رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو کہا تھا: ’’کافر عشقم مسلمانی مرا در کار نیست‘‘ اس میں اسی طرف اشارہ ہے۔

متن:

اے بھائی! اللّٰہ تعالیٰ کا طریقہ زمینوں اور آسمانوں میں نہیں ہے بلکہ عرش اور جنت میں بھی نہیں، بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کا طریقہ اور راستہ اُس میں ہے کہ فرماتے ہیں: ﴿وَفِيْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 21) ”اور خود تمہارے اندر (نشانیاں ہیں) سو کیا تم کو سوجھتا نہیں؟“ یعنی عرش و فرش سب کچھ تم سے پیدا کیا گیا ہے، کیونکہ یہ سب کچھ تمہارے ظاہر و باطن سے ترکیب پا گیا ہے۔ پس اے بھائی! جب تم حق کو دیکھو گے تو تم جان جاؤ گے کہ تم کتنا بڑا کارخانہ اور نگار خانہ ہو۔

تشریح:

﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم: 41)

ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا‘‘۔

چنانچہ لوگ جو اعمال کرتے ہیں، وہ اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلوں کو لاتے ہیں۔ اچھے اعمال اچھے فیصلوں کو لاتے ہیں اور برے اعمال تباہی و بربادی کو لاتے ہیں۔ گویا کہ ہمارے ہی تمام اعمال کے مطابق سب فیصلے ہو رہے ہیں۔ جیسے شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے نفسِ کلیہ پر سب چیزوں کی بنیاد رکھی ہے کہ یہ نفس کلیہ بھی اسی طرح ہی ہے جس طرح انسان ہے، یعنی اس میں عقل بھی ہے باقی ساری چیزیں ہیں، اسی طرح یہ ساری چیزیں نفسِ کلیہ میں بھی ہیں۔ انسان کو اللّٰہ جل شانہٗ نے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے، مخلوقات بے شمار ہیں، جو اللّٰہ نہیں ہے، وہ سب مخلوق ہے، وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ تو اشرف المخلوقات انسان ہے یعنی تمام مخلوقات میں اشرف انسان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو اختیار بھی دیا گیا ہے، اس کو مجبور بھی کیا گیا ہے، حالات میں باندھ بھی دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ مطالبہ بھی ہے اور مطالبے کو پورا کرنے کا اختیار بھی دیا ہوا ہے۔ جبکہ باقی مخلوقات جو کچھ کر رہی ہیں، وہ جبراً کر رہی ہیں۔ جب انسان مر جائے گا تو اس کا یہ اختیار سلب ہو جائے گا۔ پھر اس کے کسی عمل کا وہ مقام نہیں ہو گا، جو اختیار کے ساتھ ہے۔ چنانچہ زمین و آسمان جو کچھ کر رہے ہیں، وہ مجبور ہو کے کر رہے ہیں، لہذا ان کے عمل کی کوئی value نہیں ہے۔ اور انسان جو کچھ کر رہا ہے، اس کی value ہے۔ فوت شدہ لوگوں کی طرف سے زندہ لوگوں کی جانب اگر کوئی بات آتی، تو وہ یہ آتی کہ اے خدا کے بندو! تمہیں جو موقع ملا ہے، تمہیں اس کی قدر نہیں ہے۔ تم ایک دفعہ سبحان اللّٰہ کہتے ہو تو کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہو اور خدا نخواستہ گناہ کرتے ہو تو کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہو۔ تمہیں اللّٰہ پاک نے اتنا بڑا موقع دیا ہے، تم اس کو ضائع کر رہے ہو، اور ہم لوگ جس حالت پر بھی ہیں، بس اسی حالت پر ہیں۔ یہ چیز انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے سے ہے کہ انسان کو اللّٰہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اشرف المخلوقات کا یہ تاج اس کو حقیقی معنوں میں تب پہنایا جائے گا یا یہ تب اس کا اہل ہو گا کہ جب یہ اپنے مقام کو پہچانے گا۔ اور جب یہ اپنے مقام کو پہچانے گا، تو اپنے رب کو پہچانے گا۔ ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘۔ اور جب یہ اپنے رب کو پہچانے گا تو اس کے ساتھ محبت کرے گا اور اس کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ عشق ہو گا۔ جب اس کے ساتھ عشق ہو گا، تو عبودیت کا ظہور ہو گا اور جب عبودیت کا ظہور ہو گا، تو اللّٰہ کا محبوب ہو جائے گا۔ یہ ساری باتیں آپس میں interrelated ہیں۔ لہذا اسی کی بنیاد پر ہمیں محنت کرنی چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ