اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کے بارے میں بات چل رہی ہے اور ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے نواں باب ہو رہا ہے۔ آدم علیہ السلام کی حقیقت اور اس کے معنی کے بارے میں فرماتے ہیں:
متن:
’’اس راستے پر عقل کے سہارے نہ جا، کیونکہ عقل اس راستے میں گدھے کی طرح کیچڑ میں پھنسی ہوئی ہوتی ہے‘‘۔
تشریح:
اصل میں عقل کا اپنا ایک میدان ہے، عقل کی ہم برائی نہیں کر سکتے، کیونکہ عقل اللّٰہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، لیکن ہر چیز کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ ایک بچے کے اوپر اگر آپ ایک پہلوان کے برابر بوجھ لاد دیں تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔ اسی طرح سے اگر آپ عقل سے وہ چیز سمجھنا چاہیں جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہے، جس کا درجہ عقل سے اوپر ہے، تو وہ ان چیزوں کو نہیں سمجھے گی۔ لہٰذا روحانیت کے راستہ میں ہم عقل کے ذریعے نہیں آگے جا سکتے، البتہ عقل اگر سِر میں بدل جائے تو پھر بات بن جاتی ہے، لیکن اس کے لئے اپنی محنت ہے۔ عام عقل ان تمام چیزوں کو نہیں جانتی۔ عقل ظاہری چیزوں کا فیصلہ کرتی ہے۔ مثلاً ہماری آنکھیں ہیں، کان ہیں، زبان ہے۔ آنکھ دیکھنے کے لئے ہے، کان سننے کے لئے ہے اور زبان چکھنے کے لئے ہے۔ اگر میں آنکھ سے چکھنے کا کام لوں تو نہیں ہو گا، حالانکہ آنکھ ضرورت ہے، میں آنکھ کی برائی نہیں کر سکتا، لیکن اگر میں آنکھ کو چکھنے کے لئے استعمال کروں گا تو میری آنکھ کام نہیں کرے گی۔ ایسے ہی زبان کو میں دیکھنے کے لئے استعمال کروں گا تو زبان کام نہیں کرے گی۔ اسی طرح اگر میں کان کو بولنے کے لئے استعمال کرنا چاہوں گا تو یہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہر چیز کا اپنا ایک میدان ہوتا ہے، ہر چیز کا ذریعہ ہوتا ہے، اس کے ذریعہ سے ہی ہم لوگ اس کام کو کر سکتے ہیں۔ چنانچہ روحانیت میں ہم عقل کے راستے سے نہیں جا سکتے۔ اسی طرح ایمان بالغیب کا معاملہ بھی عقل سے سمجھ میں نہیں آتا، وہ بھی ایمان سے ہی سمجھ میں آتا ہے۔ لہذا ہر چیز کی اپنی ایک حد ہے، وہ اس حد میں رہنی چاہیے۔
متن:
اب یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ”غیری“ میں ”یاء“ جو ہے، وہ یائے نسبت ہے یعنی مطلب یہ ہے: "لَا أُعَرِّفُھُمْ غَیْرَ أَحِبَّائِيْ" یعنی اللّٰہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو پہچانتا ہے اور اپنے دوستوں سے بھی اُن کی شناسائی کراتا ہے، "یَعْرِفُھُمْ غَیْرِيْ" سے مُراد یہ ہے۔ اور اگر اس ”یاء“ کو یائے نسبت نہ کہیں تو مشائخ کرام کے قول کی مخالفت لازم آتی ہے۔ چنانچہ بایزید قدّس سرُّہ العزیز فرماتے ہیں کہ میں نے تین سو اولیائے کرام کے ساتھ ملاقات کی، اُس کے بعد قطب جناب شیخ قطب الدین بختیار اویسی قدّس سرُّہ العزیز کے حلقہ ارادت میں شامل ہوا، اسی طرح ہر ایک نے ایسے ہی روایت کی ہے۔ چنانچہ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ میں نے تین سو بیاسی ولی، قطب الاقطاب، افرادِ کامل اور اقطابِ حقیقت کو دریافت کیا ہے اور مجذوب حضرات اتنے کہ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے۔ پس معلوم ہوا کہ غیری کی ”یا“ یائے نسبت ہے۔
فائدہ:
شیخ محمد حلیم صاحب کا قول صحیح ہے، جیسا کہ کہتے ہیں اور ضربُ المثل ہے کہ ''ولی را ولی مے شناسد''، یعنی ایک ولی کو دوسرا ولی ہی پہچانتا ہے۔ اے محبوب! یہ تیسری جماعت اللّٰہ تعالیٰ کا مطلوب و محبوب ہے، اور یہ اہلِ حقیقت ہیں اور ان کا خطاب ”رجالُ اللّٰہ“ ہے۔ اور یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اختیاری موت قبول کی ہے کہ "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذکرہ علی القاری في الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 539، و قال: ہو من کلام الصوفیۃ) ”مرجاؤ، اُس دن سے قبل کہ تم مر جاؤ“ یعنی اپنی زندگی کے دوران ہی میں موت اختیار کرو تاکہ اضطراری موت سے چھٹکارا اور نجات حاصل کر سکو۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللّٰہ جل شانہٗ کو اپنا بنا لیتے ہیں۔ ’’مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ‘‘ لہٰذا وہ پھر اللّٰہ کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب اللّٰہ کی نظر سے دیکھتے ہیں تو وہ اللّٰہ ہی کا دیکھنا ہوتا ہے، یعنی ان کا دیکھنا اللّٰہ کا دیکھنا ہے۔ اسی طرح وہ اللّٰہ والوں کو نظر آ سکتے ہیں، لیکن ان کے علاوہ کسی کو نظر نہیں آ سکتے۔ ’’ولی را ولی مے شناسد‘‘ کہ ولی ولی کو پہچانتا ہے۔ "یَعْرِفُھُمْ غَیْرِيْ" میں ’’میرے غیر‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ولی نہیں ہیں، جو اس مقام پہ نہیں ہیں وہ نہیں جان سکتے۔
"مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذکرہ علی القاری في الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 539، و قال: ہو من کلام الصوفیۃ) ’’مر جاؤ اس سے پہلے کہ تم مر جاؤ‘‘۔ ایک اضطراری موت ہوتی ہے اور ایک اختیاری موت ہوتی ہے۔ اضطراری موت اسے کہتے ہیں کہ جب انسان اللّٰہ کے حکم سے، بغیر اپنی خواہش کے، بغیر اپنے اختیار کو استعمال کیے، سب کچھ چھوڑ دیتا ہے تو یہ اضطراری موت ہے۔ یہ سب کو کرنا ہو گا۔ اور جو اپنی زندگی میں سب کچھ چھوڑ دے تو یہ اختیاری موت ہے۔ یعنی جب انسان اختیاری موت اختیار کرتا ہے تو اضطراری موت کی تکلیف سے بچ جاتا ہے۔ کیونکہ ان چیزوں کو چھوڑنا تو پڑے گا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہم جماعت میں چل رہے تھے، اس دوران پندرویں شعبان آ گئی، چونکہ اس دن نفلی روزہ رکھنا ثواب کا کام ہے، اس لئے ہم نفلی روزہ رکھنا چاہتے تھے، سحری کے لئے اٹھے، ہمارے امیر صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ کسی نے کہا کہ روزہ لمبا ہو گا۔ امیر صاحب نے کہا کہ پندرہ دن کے بعد تو رکھنا ہی رکھنا ہے۔ یعنی پندرہ دن کے بعد جو رمضان شریف آ رہا ہے پھر تو رکھنا ہی رکھنا ہے، ابھی سے رکھ لو۔ اسی طرح یہ بات بھی ہے کہ: "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" ’’مر جاؤ اس سے پہلے کہ تم مر جاؤ‘‘۔ کیونکہ مرنا تو ہے، یہ تو نہیں کہ موت سے بچ جائیں۔ اگر ساری چیزیں موت کے وقت چھوڑنی ہیں تو اس سے پہلے چھوڑ دو۔ اگر پہلے چھوڑ دیں تو اصل موت کے وقت پر چیزوں کو چھوڑنا مشکل نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ کام آپ پہلے ہی کر چکے ہوں گے۔ اس سے یہی مراد ہے۔ بہر حال اضطراری موت کی جگہ اگر کسی نے اختیاری موت کو قبول کیا ہو تو اس کے لئے اضطراری موت آسان ہو جاتی ہے۔
متن:
اور اے عزیز! اس سے قبل میں نے حدیث شریف کی شرح بیان کی تھی، مگر اس حدیث کے اسرار و رموز یہاں بیان کروں گا۔ پس اے میرے عزیز! اگر تم اختیاری موت کو اختیار اور قبول کرو گے، تو اضطراری موت سے نجات پاؤ گے، کیونکہ موت ایک دفعہ ہے، دوبارہ کوئی جواز نہیں رکھتی۔ اور علمائے ظاہر جو دو موت ﴿أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ...﴾ (الغافر: 11) کہتے ہیں یعنی دو موت ہیں، ایک موت کو ظاہر کی موت کہتے ہیں اور دوسری موت منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد کی موت کہتے ہیں۔ اور تفسیرِ محمد حسین میں دو موتوں سے مراد ایک عدم ہے یعنی جو کہ تاحالِ ظہور نہیں ہوا، عدمِ ظہور اور عدم بھی موت ہے اور دوم ضروری موت ہے۔ پس وہ موت جو کہ ظہور سے پہلے تھی، وہ تو گذر گئی اور ضروری موت باقی رہ گئی۔ پھر جب تم اے میرے عزیز! "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذکرہ علی القاری في الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 539، و قال: ہو من کلام الصوفیۃ) ”مرنے سے پہلے مر جاؤ“ کے حکم کے تحت اختیاری موت اختیار کرو، یعنی اپنی تمام حرکات و سکناتِ دنیاوی سے قطع تعلقی اپنی لازمی اور ضروری موت سے قبل اختیار کرو، پس تمہاری دوسری یہی اختیاری موت ہو گی اور ضروری موت سے نجات حاصل کر لو گے۔ جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اَلْمُؤْمِنُ حَيٌّ فِي الدَّارَیْنِ" (روح البیان، رقم الصفحة، 139/2، دار الفکر، بیروت) یعنی مؤمن دونوں جہانوں میں زندہ ہوتا ہے۔ پس اے عزیز! موت اختیاری والے کو موت اضطراری موزوں نہیں، کیوں کہ موت تو ایک ہی ہے۔ شیخ محمد حسین فرماتے ہیں اس بات کے بارے میں بہت سے مدارج اور معارج میرے سینے کے کتب خانے میں موجود ہیں، لیکن ناداں اور بے عقل عالموں کے ہاتھوں میں نے تحریر نہیں کی کہ ان کے تصور میں یہ باتیں نہیں آتیں اور وہ اس کو تناسخ اور آواگون سمجھتے ہیں۔
تشریح:
یعنی موت کے وقت انسان جو چیزیں اضطراری طور پر چھوڑ دیتا ہے، اگر وہ اختیاری طور پر پہلے ہی چھوڑ دے، تو اس کے لئے تو وہ موت اور یہ موت برابر ہو گئیں، لہٰذا وہ موت اس کے لئے مشکل نہیں رہے گی۔ اضطراری موت کے بعد عمل نہیں ہے اور اختیاری موت کے بعد عمل ہو گا۔ لہٰذا دارین والی بات اس میں آ جائے گی کہ موت کے بعد عمل والی زندگی اس کو مل جائے گی، یعنی اس میں بھی یہ زندہ ہے اور بعد میں بھی۔ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ مومن دونوں جہانوں میں زندہ ہوتا ہے۔
متن:
بیت
؎ ایں نیست تناسخ سخن وحدت و خوب است
کز خویش روی قلزم زخار بر آمد
گر شمس فروشد بغروب و نہ فنا شد
از برج دیار آں مہ انوار بر آ مد
’’یہ تناسخ اور آواگون نہیں، یہ تو وحدت کی اچھی باتیں ہیں، جب تم اپنے آپ سے گذر جاؤ گے تو تمہیں ایک بحر بیکراں موجزن نظر آئے گا، اگر سورج غروب ہوا تو وہ فنا نہیں ہوا تو وطن کے برج سے نور بھرا چاند نکل آئے گا‘‘۔
جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ "مَنْ أَرَادَ أَنْ یَّنْظُرَ إِلٰی مَیِّتٍ یَّمْشِيْ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ فَلْیَنْظُرْ إِلَی ابْنِ أَبِيْ قَحَافَۃَ" (العھود المحمدیۃ، رقم الصفحۃ: 887) یعنی جو شخص یہ خواہش کریں کہ زمین پر چلتی پھرتی میت کو دیکھے تو ابنِ ابی قحافہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو دیکھے۔
تشریح:
گویا آپ ﷺ نے اس مقام کی خبر دے دی ہے کہ موت سے پہلے موت والا مقام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہو چکا ہے۔ لہذا دوسروں کو بھی حاصل ہو سکتا ہے۔
متن:
پس اے میرے محبوب! جب تم موت اختیاری میں حقیقت تک پہنچ جاؤ تو پھر موت کو حقیقت سے کیا واسطہ۔ تمہارے جسم کا چمڑا تو شریعت ہے اور تمہارے جسم کے اندر حقیقت پیدا کی ہوئی ہو گی تو پھر موت شریعت طریقت اور حقیقت کے ساتھ کیا مناسبت رکھتی ہے؟ اور ملک الموت کا ان کے ساتھ کیا جھگڑا اور مناقشہ ہے؟ یعنی ایسی حالت میں قالب، قلب اور روح ایک رنگ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ روح کے لیے موت نہیں اور یہ دوسری دو چیزیں بھی روح کے رنگ میں رنگی ہیں تو روح کے اوصاف اس کے لیے لازم ہوئے۔
تشریح:
یعنی قالب اور قلب اگر روح کے رنگ میں رنگ جائیں تو چونکہ روح کے لئے موت نہیں ہے، لہذا ان کے لئے بھی موت نہیں ہے، پھر یہ بھی زندہ رہیں گے۔
متن:
جیسا کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے: "إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا یَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنْ یَّنْقَلِبُوْنَ مِنْ دَارٍ إِلٰی دَارٍ" (روح البیان بمعناہ، رقم الصفحۃ: 197/5، دار الفکر، بیروت) اللّٰہ تعالیٰ کے اولیا مرتے نہیں، بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اس کنایہ کا کیا کہنا جس کا مطلب واضح اور صریح ہے۔ یہ جو کچھ لکھا گیا شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا۔ پس اے میرے محبوب! اختیاری موت کے بعد حیاتِ ابدی نصیب ہوتی ہے۔ پس اے محبوب! قطبِ حقیقت جناب شیخ نظام الدین ندوانی قدّس سرہٗ نے اہلُ الظواہر علماء کو وصیت فرمائی تھی کہ نمازِ شریعت یعنی نمازِ جنازہ کے بعد نماز حقیقت پڑھی جائے تاکہ مجھے وجد کی کیفیت حاصل ہو۔ جب سماع کیا گیا تو شیخ رکن الدین ابو الفتح معائنہ فرما رہے تھے کہ وہ حیات ابدی سے سرشار ہیں اور وجد بھی کریں گے، پس حیاتِ ابدی کی کیفیت نا محرموں پر واضح ہو جائے گی، اسی وجہ سے اُن کو منع کیا۔
تشریح:
یعنی انہوں نے منع کیا کہ ایسا نہ کرو۔
جیسے حضرت غالباً خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللّٰہ علیہ ان کے پیچھے امیر خسرو رحمۃ اللّٰہ علیہ غالباً اشعار پڑھ رہے تھے تو حضرت کا ہاتھ اٹھ گیا۔ لوگوں نے ان کو چپ کرا دیا کہ بس خاموش۔ کیونکہ ان کی اس کیفیت سے لوگوں میں فتنہ پیدا ہو جاتا۔ چنانچہ ایسے حضرات کو پھر روک دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مولانا جامی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ان کو نہ آنے دیں۔ اس میں بھی یہی بات تھی کہ اگر یہ آئیں گے اور یہ پڑھیں گے تو ان کے لئے میں اٹھوں گا، اور اس سے فتنہ پیدا ہو گا۔ لہٰذا کچھ کیفیات ایسی ہیں، جن پہ پردہ رکھا جانا ضروری ہے، کیونکہ امتحان لازم ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو امتحان کے لئے پیدا کیا ہے، لیکن جن کی حقیقت کی آنکھیں کھلی ہیں، ان کو کسی چیز میں شک نہیں ہوتا، ان کے لئے معاملہ برابر ہے۔ لیکن جن کی آنکھیں کھلی نہیں ہیں، ان کا امتحان میں ہونا ضروری ہے تاکہ ان کو پتا چل سکے کہ آیا ان کا ایمان بالغیب قائم ہے یا نہیں۔ کیونکہ ایمان بالغیب ہمارے لئے لازم ہے۔ اللّٰہ جل شانہٗ نے چونکہ اضطراراً ان چیزوں کو غیب بنایا ہے، لہذا اس حالت میں جب ہم ایمان رکھتے ہیں تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کو قبول ہے اور اضطراری موت کے وقت ایمان قبول نہیں ہوتا۔ لیکن جن پہ اللّٰہ تعالیٰ حقیقت کو کھول دیتے ہیں اور جو چیزیں بعد میں ہونی ہیں، وہ ساری چیزیں ان کو نظر آ جاتی ہیں تو اس سے ان کے ایمان بالغیب کی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی، کیونکہ انہوں نے اسی ایمان بالغیب ہی کی برکت سے ترقی کی ہے کہ ان کو مشاہدہ حاصل ہوتا ہے، یعنی مشاہدہ ان کو ایمان بالغیب کے بعد حاصل ہوا ہے، لہذا پہلے پہلے جو حضرات بھی اس لائن میں آتے ہیں، وہ ایمان بالغیب کے ذریعے سے آتے ہیں، کیونکہ اگر ایمان بالغیب نہیں ہے تو ایمان ہی نہیں ہے۔ موت کے وقت سب کو پتا چل جائے گا، لیکن اس وقت ایمان قبول نہیں ہے، تو وہ ایمان بالغیب کی برکت سے شریعت پر چلتے ہیں اور پھر شریعت پر چل کر طریقت کے ذریعے سے حقیقت تک پہنچتے ہیں۔ اور جب ان پر حقیقت کھلتی ہے وہ غیب غیب نہیں رہتا۔ لیکن پھر ان کے لئے وہ نقصان دہ نہیں ہوتا، جیسا کہ انہوں نے موت سے پہلے کی موت کو قبول کر لیا ہے۔ اسی طرح اللّٰہ پاک نے موت کے بعد کی چیزیں بھی ان پہ کھول دی ہیں، لہذا معاملہ برابر ہو گیا۔ کیونکہ انہوں نے موت سے پہلے وہ چیزیں اختیار کر لیں جو موت کے بعد لوگ مجبوراً اختیار کرتے ہیں، لہٰذا اللّٰہ پاک نے موت کے بعد کی چیزیں اپنی طرف سے ان کے اوپر کھول دیں، ان کو مشاہدہ کرا دیا۔
حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر جنت اور دوزخ میرے سامنے لائی جائیں تو میرے ایمان میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ ان کو اس سے پہلے وہ کیفیت حاصل ہو چکی تھی جو لوگوں کو مشاہدہ کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ جیسے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تھا کہ یا رسول اللّٰہ! اب دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ مجھے آپ کی زبان پر اپنی آنکھوں سے زیادہ اعتماد ہے۔ آپ نے فرما دیا تو میں نے مان لیا کہ ہاں اس طرح ہی ہے۔
متن:
حاصل کلام یہ ہے کہ اہلِ اختیار کو موت ضروری لاحق نہیں ہوا کرتی۔ اس بات پر خوب غور کرو۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اور ہمیں یہ نصیب کریں۔
تشریح:
اہلِ اختیار سے مراد وہ ہیں جنہوں نے اختیاری موت قبول کر لی ہے۔ اختیاری موت سے مراد یہ ہے کہ جنہوں نے اللّٰہ کے لئے دنیا کی تمام چیزوں کو چھوڑ دیا۔
متن:
آمین…آمین... آمین... بحرمۃِ النبی ﷺ!
اس حدیث کا ترجمہ اور مطلب شیخ محمد حسین کی تشریح کے مطابق نہ ہوا تو پھر "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذکرہ علی القاری في الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 539، و قال: ہو من کلام الصوفیۃ) کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ پس اے برادرِ عزیز! تمام اولیاء کی اِس موت اختیاری سے مُراد یہ ہے کہ اپنی روح و اعضاء اور تمام انداموں کو گناہ سے مردے کی طرح محفوظ رکھو۔
تشریح:
یعنی جس طرح مردے گناہ نہیں کر سکتے، اس طرح یہ بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ مر جاتے ہیں۔
متن:
لیکن شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ باطن کو ما سوی اللّٰہ کے حرکات و سکنات سے محفوظ رکھو جیسا کہ مردہ ضروری موت کی وجہ سے ہو جاتا ہے، اسی طرح اپنے باطن کو غیر اللّٰہ سے مردہ رکھو۔ جیسا کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی شان میں یہی موت اختیاری مشاہدہ فرمائی تھی اور اسی وجہ سے ارشاد فرمایا کہ "إِلٰی مَیِّتٍ یَّمْشِيْ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ" یعنی ایسا مردہ جو زمین پر چل رہا ہو۔ حالانکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے اعضاء ظاہر طور پر میت اور مُردے کی مانند نہ تھے کہ حضور ﷺ نے "یَمْشِيْ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ" یعنی زمین پر چلتا پھرتا ہے، فرمایا۔ پس ظاہری اعضاء مُردے کرنا صحیح نہیں اور اس طرح کرنا اس سے مراد نہیں، اس سے مُراد یہ ہے کہ باطن کو ما سوی اللّٰہ سے پاک و صاف رکھا جائے۔
تشریح:
یعنی ظاہر میں ایسے ہوں۔ اصل میں ظاہر باطن کے حکم پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر باطن کے اندر اللّٰہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں سے محفوظ کیا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔
مثلاً: افطاری کے وقت میرے سامنے پانی پڑا ہوا ہے، جس سے میں نے روزہ افطار کر لیا، میری اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ میں پانی پیوں۔ لیکن میں اس لئے پیوں کہ اب اللّٰہ مجھ سے اس پر خوش ہو گا کہ میں پانی پیوں۔ کیونکہ افطاری جلدی کرنا مستحب ہے۔ چنانچہ یہ میں نے نفس کے لئے نہیں پیا۔ یعنی جو کام میں نفس کے لئے نہیں کر رہا، اللّٰہ کے لئے کر رہا ہوں، وہ میرے کھاتے میں نہیں ڈالا جا رہا۔ بلکہ وہ بحکمِ خداوندی ہے۔ میں ذرا اس کو مزید واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اصل میں ابتداً جو اس راستہ پہ نہیں چلا، اس کا معاملہ یہ ہے کہ نفس تو اس کا پورا زور سے چلتا ہے، چاہتا ہے، خواہش کرتا ہے، لیکن انسان اپنے نفس کے اوپر پیر رکھ کر اس کو اس کی ایسی خواہش پوری نہ کرنے دے جو اللّٰہ تعالیٰ کے ناراض کرنے کا سبب ہو، یعنی جو خواہش گناہ کے قبیل سے ہے، اس خواہش کو وہ پورا نہیں کرتا، تو یہ رکنا اللّٰہ کے لئے ہے۔ جب انسان کا یہ رکنا شروع ہو جاتا ہے تو یہ مجاہدہ اور ریاضت بھی ہے۔ اس مجاہدے اور ریاضت کے کرنے کے ذریعے سے انسان کا نفس ماننا شروع کر لیتا ہے اور مانتے مانتے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کے نفس کی خواہش باقی نہیں رہتی۔ چونکہ مسلسل کم ہوتی رہتی ہے، تو جتنی کم ہوتی رہے گی، آخر کبھی تو ایسا وقت بھی آ جائے گا کہ اس کی خواہش بالکل ہی نہیں رہے گی۔ اگرچہ اس کے ساتھ اور چیزیں بھی کرنی ہوں گی، صرف یہی نہیں کرے گا، ان چیزوں کو آسان بنانے کے لئے بھی کچھ کرنا ہو گا۔ کیونکہ اس کے بغیر کر ہی نہیں سکے گا، اس لئے آسانی کے لئے کچھ اور چیزیں بھی کرنی پڑیں گی۔ میں اس حوالے سے آخری بات بتا رہا ہوں کہ وہ اس میں کامیاب ہے، کیونکہ مسلسل نفس کی نہیں مان رہا، گناہ سے بچ رہا ہے۔ لہذا اس کا نفس ماننے کے لئے تیار ہو رہا ہے، اس کی چاہت کم ہوتی جائے گی، یعنی دوسرے دن اس کی چاہت کم، تیسرے دن اس سے بھی کم، چوتھے دن اس سے بھی کم، پانچویں دن اس سے بھی کم، ہوتے ہوتے ایک وقت آ جائے گا کہ نفس کی چاہت ختم ہو جائے گی۔ اب یہ نفس کی چاہت سے نہ کھائے گا، نہ پیئے گا، نہ وہ خواہش پوری کرے گا۔ اب اگر اللّٰہ جل شانہٗ کی حکمتِ بالا اور منشاءِ الہی اس سے وہ کام کروانا چاہے جو اس کا نفس اس سے کروا رہا تھا، جیسے میں نے روزہ افطار کرنے کی مثال دی ہے، کیونکہ وہ اللّٰہ کا حکم ہے۔ خود کشی کرنا حرام ہے، اس سے بچنا اللّٰہ کا حکم ہے۔ اب جو آدمی اللّٰہ تعالیٰ کے لئے کھا رہا ہے، تو وہ اپنے نفس کے لئے کھانا نہیں ہوا۔ جو انسان اللّٰہ کے لئے اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو وہ نفس کے لئے نہیں ہوا، وہ اس کے کھاتے میں نہیں ڈالا جائے گا۔ لہذا وہ ایسا ہے جیسا کہ وہ نہیں کر رہا۔ گویا وہ Abondoned area میں نہیں جا رہا۔ جہاں پر حکم ہے کرنے کا، اسے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہ کر رہا ہے۔ یہی اختیاری موت ہوتی ہے۔ یعنی یہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر رہا، کیونکہ موت کے بعد بھی تو اللّٰہ تعالیٰ اس کو بہت کچھ دیتا ہے، تو وہ کھانے میں شمار نہیں ہو گا۔ جو چیزیں اس نے چھوڑ دی ہیں، تو جس انسان کی مغفرت ہو جائے تو کچھ چیزیں اضطراری موت کے بعد بھی تو دیتے ہیں، تو اگر اللّٰہ پاک نے اس کو بخش دیا ہے اور اس کو یہیں وہ چیزیں دے دیں جو موت کے بعد دیتا ہے، اور وہ بھی دے رہے ہیں جو باقی لوگ کھاتے ہیں اور ان کے علاوہ بھی دے رہے ہیں۔ لہٰذا وہ چلے پھرے گا، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ اس کو وہ چیزیں دے رہا ہے۔ اس لئے لوگوں کے حق میں زندہ ہو گا اور اپنے نفس کے حق میں مردہ ہو گا۔ یہی وہ چیز تھی، جو حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس عورت کو بتائی تھی جس نے حضرت سے پوچھا تھا کہ حضرت! آپ نے میرے بیٹے کو فاقوں پر لگا دیا ہے اور خود آپ مرغِ مسلّم کھا رہے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: اسی مرغِ مسلّم کے کھانے کے قابل بنا رہا ہوں۔ بس یہی بنیادی بات ہے۔ جیسے: ﴿وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ (الضحٰی: 11)
ترجمہ: ’’اور جو تمہارے پروردگار کی نعمت ہے، اس کا تذکرہ کرتے رہنا‘‘۔
ایک میں ہوں کہ اپنے نفس کے لئے کر رہا ہوں اور اس کھاتے میں ڈال رہا ہوں کہ یہ اللّٰہ کے لئے کر رہا ہوں، لیکن میری بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دوسرا جو واقعتاً سب کچھ اللّٰہ کے لئے چھوڑ رہا ہے اور پھر جب کر رہا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کر رہا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جو اپنی نعمت دی ہے، اس کو استعمال کرے تاکہ وہ ظاہر ہو جائے، وہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کر رہا ہے۔ چنانچہ اگر مرغِ مسلّم کھانا اسی لئے ہے تو وہ اپنے نفس کے لئے نہیں ہے، حالانکہ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، لیکن ﴿وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ میں آتا ہے۔ لہذا اللّٰہ تعالیٰ اس کو دے رہا ہے۔ لیکن اس راستے سے گزرنا تو پڑے گا۔ جیسے جنت میں بہت کچھ چیزیں ملنے والی ہیں ان شاء اللّٰہ، لیکن موت کے بعد۔ اسی طرح یہاں پر بھی یہ تمام چیزیں ملنے والی ہیں ان شاء اللّٰہ، لیکن موتِ اختیاری کے بعد۔ موتِ اختیاری اختیار کرنا پڑے گی، اس کے بغیر یہ نہیں ہو سکتا۔ اللّٰہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات بلند فرمائے، کیا کیا باتیں ان حضرات کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما رہے ہیں۔
متن:
باطن کو ما سوی اللّٰہ سے پاک و صاف رکھا جائے۔ اس پر خوب اچھی طرح سے غور کرو، موت قبل از موت ضروری یہی ہے۔
فائدہ:
اس کتاب کے مؤلف کے نزدیک اور تمام اولیاء اللّٰہ کے نزدیک "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذکرہ علی القاری في الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 539، و قال: ہو من کلام الصوفیۃ) کا مفہوم یہی ہے کہ مردے کی طرح تمام اعضاء کو گناہوں سے محفوظ رکھو۔ اور شیخ محمد حسین کا مطلب یہ ہے کہ باطن کو ما سوی اللّٰہ کی خیال سے خالی کرنا۔ قریب قریب دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے مگر اس پر خوب غور کرنا چاہیے۔ مؤلف آمدم بر سر مطلب۔
جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ "إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ سُوْقًا یُّبَاعُ فِیْہَا الصُّوَرُ" (سنن الترمذی بمعناہ، أبواب صفۃ الجنۃ، باب: ما جاء فی سوق الجنۃ، رقم الحدیث: 2550) کہ جنت میں ایک بازار ہے کہ جس میں صورتیں فروخت ہوتی ہیں تو شیخ محمد حسین صاحب نے خوب فرمایا ہے کہ خرابات حقیقت کی صورتوں کی تجلیاں جلوہ افروز ہوتی ہیں۔ اور صورتوں کی یہ فروخت اس کو نصیب ہو گی جو کہ اضطراری موت سے نہ مرا ہو، یعنی جس کو موت اختیاری کی سعادت حاصل ہو گی اور جس کی ایک روح قناعت کرے، وہ خضر علیہ السّلام کی طرح ہے۔ اور جو کوئی اضطراری موت سے مرا تو اس کو محشر میں پھر زندہ کیا جائے گا۔ اگر نیک عمل والا مسلمان ہو گا تو جنت کی نعمتوں جو کہ ابلہان کا مقام ہے کہ "أَکْثَرُ أَھْلِ الْجَنَّۃِ الْبُلْہُ" (مسند البزار، رقم الحدیث: 6339) کہ اہل جنت میں سے اکثر ابلہ ہوتے ہیں۔ پس اے میرے محبوب! اس جانِ عزیز کو داؤ پر لگاؤ، یعنی اختیاری موت کو اختیار کرو، تمہیں ارواح کے سمندر میں غوطہ دیا جائے گا، تاکہ روح مجسم بن جاؤ۔ بیت
؎ اگر مردی بجاں در باز جان را
کہ یک جان را عوض آنجا ہزار است
اگر در ہر دمے صد جان رہندت
نثارش کن کہ جانہا بے شمار است
تو ہر وقتے کہ جان را بر فشانی
ہزاروں جانہا بر تو نثار است
چو خواہی کرد خود را نیم جانے
چو دائم زندگی تو بہ بار است
کسے کز جان بود زندہ دریں راہ
ز عزم خود ہمیشہ خضر وار است
ترجمہ: اگر تو جواں مرد ہے تو جان کی بازی لگا کر نثار کرو کہ ایک جان کے بدلے وہاں ہزار جانیں ہیں، اگر تمہیں ہر گھڑی سو جانیں دے دیں تو یہ سب اس پر نثار کرو کہ جانیں بے شمار ہیں۔
تو جس وقت اپنی جان کو قربان کرو گے تو تم پر ہزاروں جانیں نچھاور ہو جائیں گی۔
تشریح:
حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا شعر ہے:
؎ گشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانب دیگر است
یعنی جو اللّٰہ جل شانہٗ کی تلوار کے سامنے تسلیم کی راہ سے شہید ہو گئے ہیں، ان کو ہر لمحہ میں ایک نئی جان ملتی ہے۔ یعنی ایک جان قربان کرتے ہیں تو دوسری جان، دوسری جان قربان کرتے ہیں تو تیسری جان ملتی ہے۔ جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ شہید کی بڑی خواہش یہ ہو گی کہ میں پھر زندہ ہو جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ ہو جاؤں، پھر مارا جاؤں۔ جو اضطراری طور پر شہید ہیں، ان کی یہ حالت ہے تو جو اختیاری طور پر شہید ہو چکے ہوں، تو کیا ان کے ساتھ یہ نہیں ہو رہا ہو گا؟ کیونکہ اختیاری موت والے عالمِ اختیار میں ہیں، جب کہ جو اضطراراً شہید ہو گئے ہیں، ان کے لئے تو موت کے بعد سب کچھ ہو گا، اس کے بعد ہی تمنا ہو گی۔ لیکن یہ موت اختیاری ہے، مصائب کے اوپر صبر کرنے کے نتیجے میں موت اختیاری کے وقت اس کو جو شہادت ملی ہے، تو اس کو ہر وقت ایک نئی جان ملتی ہے۔ یہاں انہوں نے فرمایا:
متن:
اگر مردی بجاں در باز جان را
کہ یک جان را عوض آنجا ہزار است
اگر در ہر دمے صد جان رہندت
نثارش کن کہ جانہا بے شمار است
تو ہر وقتے کہ جان را بر فشانی
ہزاروں جانہا بر تو نثار است
چو خواہی کرد خود را نیم جانے
چو دائم زندگی تو بہ بار است
کسے کز جان بود زندہ دریں راہ
ز عزم خود ہمیشہ خضر وار است
ترجمہ: اگر تو جواں مرد ہے تو جان کی بازی لگا کر نثار کرو کہ ایک جان کے بدلے وہاں ہزار جانیں ہیں، اگر تمہیں ہر گھڑی سو جانیں دے دیں تو یہ سب اس پر نثار کرو کہ جانیں بے شمار ہیں۔
تو جس وقت اپنی جان کو قربان کرو گے تو تم پر ہزاروں جانیں نچھاور ہو جائیں گی۔
جب تم اپنے آپ کو نیم جان کرو گے تو ہمیشہ کے لیے تمہاری زندگی میوہ دار بن جائے گی۔
اس راستے میں جس کی روح زندہ ہو تو اپنے پختہ ارادے کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے خضر کی طرح زندہ و جاوید ہو گا۔
اب میرے اے عزیز! اس حقیقت کے پیش نظر کہ "یُبَاعُ فِیْھَا الصُّوَرُ" یعنی اس میں صُورتیں فروخت ہوتی ہیں۔ ہر لحظہ جب تم حقیقت کے اس مئے خانے میں آؤ گے تو بے شمار جانیں جن کا کچھ حد و حساب نہیں اس صورتوں کے بازار میں صورتوں کی شکل میں جلوہ گر ہو کر سامنے آئیں گی اور تم اس کے خریدار ہو گے۔ اور ہر صورت کی تجلیات کو دیکھ کر تم ہزار سال بے ہوش ہو کر گر پڑو گے۔ اس وقت اللّٰہ تعالیٰ خود آواز دے گا کہ "اِشْتَغَلْ عَبْدِيْ بِالسُّوْقِ الرُّوْحَانِیَّۃِ وَاُنْسِيَ لِقَاءَنَا وَأَنَا إِلٰی لِقَائِکُمْ أَشَدُّ شَوْقًا مِّنْکُمْ" (لم أجد لہٰذا الحدیث أصلًا) ”میرا بندہ روحانیت کے بازار میں منہمک اور مشغول رہا اور وہ ہماری ملاقات بھول چکا، اور میں تمہاری ملاقات کا تم سے بڑھ کر مشتاق ہوں“۔
پس جب حقیقت کے اس مئے خانے سے تم ہوش میں آ کر اُٹھ کھڑے ہو گے تو اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے حکم صادر ہو جائے گا کہ اے میرے دوست! تم کہاں تھے؟ اِس وقت تم فریاد کرو گے کہ افسوس.. افسوس..! میں تو مئے خانے کی گلیوں میں رہا، میں نہیں جانتا کہ ایک گھڑی پر وقت کیا ہوتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہزار سال سے تم بے ہوش اور بے خود پڑے تھے اور ہم خود اپنی قدرت کی انگلیوں سے تمہاری پریشان زلفوں کو سنوارتے تھے۔ اے محبوب! یہ مئے خانۂ حقیقت کی شرح تھی کہ آدم علیہ السّلام کے زمانے سے اس گھڑی تک کوئی بھی جنت کے والہانہ شوق میں ایسا سرشار نہ تھا۔
شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو ایسا کہا ہے، یہ بھی مزید کہا ہے کہ یہ جزوی مئے کدے کلی مئے کدوں کے سائے ہیں، اور اہل شوق کو ان جزوی مئے کدوں کی اس وجہ سے خواہش ہے کہ یہ مئے کدے کلی اور حقیقی مئے کدوں کے نقوش ہیں،
تشریح:
جیسے یہاں کی نعمتوں کو نعمائے جنت کہا گیا ہے۔ اس لئے ہم تو ان کو نعمتیں سمجھتے ہیں، مثلاً: انگور کھانے کو، سیب کھانے کو، آم کھانے کو، یہ نعمتیں ہمارے پاس ہیں، اسی طرح تمام اچھے کھانے، یہ نعمائے دنیا ہیں۔ جو صحیح لوگ ہوتے ہیں، وہ ان کے ذریعے سے نعمائے جنت کا استحضار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح عشاق لوگ ان نعمتوں کے ذریعے سے نعمائے جنت کا استحضار کر لیتے ہیں جو جنت میں ہوں گی۔ گویا ان کا میدان بدل گیا، ہمارا میدان یہ ہے اور ان کا میدان یہ ہے۔
متن:
یہ بے خبر علماء بے چارے قبیح اور بُری اساس رکھتے ہیں اس لیے ان کی نظر میں بُری چیزیں دکھائی دیتی ہیں اور اگر کبھی اچھی چیزیں اِن کے سامنے آ جائیں تو بھی اُن کو خوب نہیں سمجھتے۔ بیت؎
در ظلِ آفتاب تو چرخے ہمی زنم
کورست آنکہ گوید ظلِ از شجر جداست
’’میں تمہارے سورج کے سائے میں چکر لگاتا ہوں وہ آدمی اندھا ہے جو یہ کہتا ہے کہ سایہ درخت سے علیحدہ چیز ہے‘‘
پس اے عزیز! اپنی روح کو درمیان میں نہیں دیکھو گے، یعنی اس کو اختیاری طور پر آگے بھیجو گے تاکہ خرابات اور میکدے کا بازار حاصل کر سکو۔ ؎ بیت
رو در میکدہ زن تکیہ بہ طاعات مکن
پیش ازیں از پی ناموس مقالات مکن
تو از اسرار خرابات قوی بے خبری
طعنہ بر حالت مستانِ خرابات مکن
ساکن خانہ مئے خمار شو ار مرد رہی
جز بزندان تو دریں کوئے ملاقات مکن
از در می کدہ ہا مست بہ بازار بر آئی
خلق را جز بہ خرابات مراعات مکن،
درد باید کہ ز طاعت نکشاید نکتہ
تکیہ بر دلق و مصلی و بطاعات مکن
چوں عبادات تو در صومعہ از روی ریاست
بر در میکدہ مے باش و عبادات مکن
تا کے از زہد چو پے بادہ سُخن پیمائی
بادہ مے خور سُخن از راہ مقامات مکن
نفی ہستی کن و صورت مطلبِ جان عزیز
بت پرستی نہان را بہ خود اثبات مکن
حور و جنت چو حجابند محمد ایں راہ
طاعتے گر بکنی بہرِ مکافات مکن
’’جاؤ اور شراب خانے کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہو اور اپنی عبادت پر بھروسہ نہ کرو، اِس کے بعد اپنے ناموس کی باتیں نہ کرو۔ تو خرابات کی اسرار و رموز سے آگاہ نہیں اس لیے خرابات کے مستوں کی حالت پر طعنہ زنی نہ کرو۔ اگر تو واقعی راہرو منزل ہے تو شراب فروش کے گھر میں سکونت اختیار کر۔ اگر اِس کوچے میں ملاقات کسی سے کرنی ہو تو جیل خانے کے سوا کسی سے بھی ملاقاتی نہ ہو، مے کدے کے دروازے سے مستی کی حالت میں بازار کو نکل آ، اور لوگوں کو رعایت صرف خرابات کے امورات میں کیا کر۔
عشق کا درد چاہیئے کہ طاعت سے نقطہ حل نہیں ہوتا۔ تم گدڑی، مصلے اور اپنی عبادتوں پر بھروسہ نہ کرو۔ چونکہ خانقاہ میں تمہاری ساری عبادت رو و ریا سے پُر ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی بجائے میکدے کے دروازے پر رہا کرو اور کسی قِسم کی عبادت نہ کرو۔ بغیر شراب (محبت) کے تم زہد کے بارے میں کب تک باتیں کرتے رہو گے، یہ چھوڑ اور شراب پیا کرو اور مقامات کے راستوں کی باتیں چھوڑو اور یہ باتیں بالکل نہ کرو، اپنی ہستی کی نفی کر اور اے جان عزیز! صورت کی طلب اور چاہت نہ کر۔ یہ ایک قسم کی پوشیدہ بت پرستی ہے اور اس پوشیدہ بت پرستی کا اپنے آپ پر ثبوت فراہم نہ کر۔
اے محمد! (شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ) چونکہ حور اور جنت اِس راستے میں حجاب ہیں۔ اس لیے اگر تو طاعت کرے تو اِس کے اجر اور بدلے کا خیال نہ کر۔ بقول اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ:
؎ سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنّا بھی چھوڑ دے
تشریح:
پہلے بھی یہ بات گزر چکی ہے، جس میں فرمایا تھا کہ تین قسم کے لوگ ہیں: اہلِ دنیا اور اہلِ عقبیٰ اور وہ جو ان دونوں کو چھوڑ دیں۔ ان میں پہلی قسم کے لوگ بھی سمجھ میں آتے ہیں اور دوسری قسم کے بھی سمجھ میں آتے ہیں، لیکن تیسری قسم کے سمجھ میں نہیں آتے۔ کیونکہ ان کو سمجھنے کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے، کچھ دیکھنا پڑتا ہے، کچھ کرنے سے دیکھنا نصیب ہوتا ہے اور دیکھنے سے اس کا سمجھنا نصیب ہوتا ہے۔ اس کے بغیر انسان کو سمجھ نہیں آتا۔ واقعتاً انسان نہیں سمجھ سکتا کہ جنت کو کیسے چھوڑے گا۔ اور جنت میں کیا ہے؟ میں بیان نہیں کر سکتا کہ جنت میں کیا ہے۔ جنت کی خوبصورتی، جنت کی نشاط، جنت کے مزے، جنت کی سب چیزیں سوچ سے باہر ہیں۔ جنتیوں کو اخیر میں جو ملے گا، جس میں اللّٰہ تعالی پوچھیں گے کہ کیا تم سب لوگ خوش ہو؟ کوئی اور چیز تو نہیں چاہئے؟ جنتی علماء سے پوچھیں گے کہ کوئی اور چیز باقی ہے جو ہمیں ابھی نہ ملی ہو؟ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہر چیز مل گئی ہے، جو ہم چاہتے ہیں، ہو جاتا ہے۔ علماء اس وقت بتائیں گے کہ ابھی دیدارِ الہی نہیں ہوا، یہ مانگیں۔ جب وہ دیدارِ الٰہی مانگیں گے تو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے دیدار ہو گا۔ پوری تفصیلات تو نہیں بتائی جا سکتیں، بہر حال! جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس دیدار کے وقت لوگ سب کچھ بھول جائیں گے، کیونکہ اس کی طرح کوئی اور چیز نہیں ہو گی۔ اب تھوڑا سا غور کریں کہ جو لوگ اس چیز کے پہلے سے طالب ہیں، ان کا حال کیا ہے؟ جو اُس وقت جنت میں ہوں گے۔ اور بعد میں ان کو پتا چلتا ہے، ان کو ایک طرف رکھو۔ اور جو لوگ ابتدا ہی سے اسی کے طالب ہیں۔ یہی تیسری category ہے، یہ بالغ النظر ہیں۔ تو یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ کیا تیسری category والے جنت کی نعمتیں نہیں پائیں گے؟ تو ابھی چند سطریں پہلے جو تھوڑا سا تذکرہ گزرا ہے کہ موتِ اختیاری کے بعد اللّٰہ جل شانہ جو کھلا رہا ہے، جو پلا رہا ہے، اور جو مزید بھی دے رہا ہے، وہ کس کھاتے میں جا رہا ہے؟ سب اللّٰہ کے حکم سے ہو رہا ہے۔ وہ نفس کے ارادے سے نہیں ہو رہا۔ چنانچہ جب وہاں پر اللّٰہ تعالیٰ اپنے حکم سے وہ چیزیں دے رہے ہوں تو تیسری category والے بھی ان چیزوں کو اللّٰہ کے حکم کے طور پہ استعمال کریں گے، ورنہ وہ ان کے طالب نہیں ہوں گے۔ چنانچہ جو طالب نہیں ہیں، اور اللّٰہ ان کو دے رہا ہے، ان کا معاملہ ذرا جدا ہے۔ لہذا عشاق کا معاملہ بہت اونچا ہے۔ لہٰذا عشاق ﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَی اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المومن: 44) پہ قائم ہیں۔ یہاں بھی قائم ہیں، وہاں بھی قائم ہوں گے، کیونکہ اللّٰہ پاک اپنے بندوں سے خوب آگاہ ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے۔ لہذا اللّٰہ جل شانہٗ اپنے عشاق کو جنت میں وہ کچھ دیں گے کہ جو وہاں بغیر عشق والوں کو بھی نہیں ملا ہو گا، جیسے ان سے دیدار مخفی تھا، ان کو یاد ہی نہیں آیا، پھر بعد میں یاد دلایا گیا۔ اسی طرح عشاق کی بات الگ ہو گی۔
چنانچہ تین کیٹیگریاں ہیں: ایک وہ ہیں، جنہوں نے دنیا کے لئے سب کچھ کیا۔ دوسرے وہ ہیں، جنہوں نے جنت کے لئے کیا۔ اور تیسرے وہ ہیں، جنہوں نے اللّٰہ کے لئے کیا۔ یہ بات بہت اہم ہے، کہ جنہوں نے اللّٰہ کے لئے کیا۔ اس میں پھر دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ شرعاً اللّٰہ کے لئے کیا، دوسرا یہ ہے کہ حقیقتاً اللّٰہ کے لئے کیا۔ شرعاً اللّٰہ کے لئے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں غیر اللّٰہ والی بات ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی میں جنت کی طلب ہے اور جنت کی چیزوں کی طلب ہے تو وہ حقیقت کے ذریعے سے ہی جدا ہو سکتی ہے۔ شریعت کی بات تو اپنی جگہ پر ہے کیونکہ شریعت میں جائز ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے حکم بھی دیا ہے کہ جنت کو طلب کرو۔ لیکن جو عشاق ہیں، جو اللّٰہ ہی کو چاہتے ہیں، وہ کسی اور چیز کو نہیں چاہتے، پھر اللّٰہ ان کو دیتا ہے، یہ اور ہیں۔ جب کہ دوسرے جنت کو چاہتے ہیں۔ اگرچہ اللّٰہ تعالیٰ کے کہنے سے چاہتے ہیں، لیکن جنت ہی ان کا مطلوب ہے۔ اور اس طرح ہو سکتا ہے، کیونکہ کبھی کبھی محبوب ایسا کرتا ہے کہ ان کے سامنے کچھ اور چیز رکھتے ہے کہ یہ لے لو، لیکن وہ از روئے امتحان ہوتا ہے یعنی امتحان کے طور پر ان کو دے دیا جاتا ہے، تو اس وقت پتا چلتا ہے، اس وقت جو کہتا ہے کہ مجھے یہ چیز نہیں چاہئے، تو وہ ان سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے: بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا واقعہ گزرا ہے کہ وہ قرآن پاک کی آیت سن کر رو پڑے اور کہا کہ یہ اللّٰہ کی طرف سے شکایت ہے کہ مجھے کوئی نہیں مان رہا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کو حقیقتاً چاہنے میں یہ ہوتا ہے کہ اس میں حور و قصور بھی نہیں ہوتے، دنیا تو کیا بلکہ آخرت کی چیزیں بھی مطلوب نہیں رہتیں۔ اور شریعتاً چاہنے میں انسان یہ چیزیں طلب کر سکتا ہے۔ لیکن جب انسان اللّٰہ کے لئے سب کچھ چھوڑ دے، کچھ بھی نہ چاہے اور ’’لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کے مقام پر پہنچ جائے۔ ایسی صورت میں وہ اللّٰہ کا بندہ اپنے اس مقام کو پا لیتا ہے جو اس کا اللّٰہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ’’مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ‘‘ ’’جو اللّٰہ کا ہو گیا اللّٰہ اس کا ہو گیا‘‘۔ مَنْ کَانَ لِلّٰہِ‘‘ میں جو صفائی ہے، ’’کَانَ اللّٰہُ لَہٗ‘‘ میں سامنے آئے گی۔ ادھر ہماری طرف سے جتنی سپردگی ہے ادھر سے اتنا ملنا ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ یہ باتیں پوری طرح بیان نہیں کی جا سکتیں، سب کا بیان کرنا مشکل ہے، لیکن کیا کریں، کچھ نہ کچھ تو بیان کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کیفیات کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا، یہ نا ممکنات میں سے ہے کہ کسی کیفیت کو الفاظ میں بیان کیا جائے۔ لیکن بہرحال چیز موجود تو ہوتی ہے۔ آم اور گڑ کی مٹھاس میں فرق تو ہوتا ہے، لیکن بغیر کھائے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جنہوں نے دونوں کو کھایا ہو گا، ان کو تو معلوم ہوتا ہے کہ فرق ہے، لیکن بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اس کیفیت کو بیان کرنا بڑا ہی مشکل ہے۔ چونکہ پہلے اور دوسرے یعنی جو دنیا چاہتے ہیں اور جو دین چاہتے ہیں، ان میں فرق معلوم کرنا آسان ہے، لیکن جو دین چاہتے ہیں اور جو محض اللّٰہ چاہتے ہیں، ان میں فرق سمجھنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ اس میں بہت گہرائی ہے، مدارج ہیں۔ اور یہی چیز سمجھ میں نہیں آتی۔
پلا ساقی ہم کو شرابِ محبت
کہ ہم نے ہے کھولی کتابِ محبت
فضائل کے قصے نہ زاہد سے سننا
اسے کیا ہے معلوم ثوابِ محبت
اس شعر میں یہی بتایا گیا ہے، جو ابھی میں عرض کر رہا تھا کہ کیفیات میں الفاظ کے ذریعے فرق کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ایک فضیلت کی چیز ہے اس لئے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ فضائل کے مخالف ہیں، فضائل کے مخالف نہیں ہیں۔ در اصل چیزوں کے فضائل اور اللّٰہ جل شانہٗ کی محبت کے فضائل میں فرق ہے یا نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی محبت جو تمام چیزوں کا حاصل حصول ہے، ایک آدمی اس کے لئے کر رہا ہے۔ اور دوسرا اپنی خوشی کے لئے کوئی کام کر رہا ہے، ان دونوں میں فرق تو ہو گا۔ جس نے اپنا سب کچھ اللّٰہ پہ قربان کیا ہے، اس کی بات الگ ہو گی۔
قیامت میں معلوم ہو گا پھر اس کو
کہ ملتا ہے کیا جوابِ محبت
کتابوں میں ملتا کہاں ہو گا جو ہے
طریقِ محبت نصابِ محبت
غزلہائے شبیر کو سننا ہے
نہیں ہے بس اک یہ ہے بابِ محبت
اصل میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ بزرگوں نے جو کہا، وہ دیکھ کے کہا ہے۔ ہم سن کے کہتے ہیں۔ اور یہی فرق ہے۔ چنانچہ جنہوں نے دیکھ کر کہا ہے، ذرا ان کی سن لیتے ہیں۔ کیونکہ اگر ان کی باتیں ہمارے ساتھ نہیں ملیں گی تو ہماری باتیں جھوٹی ہو جائیں گی۔
متن:
عشق کا درد چاہیئے کہ طاعت سے نقطہ حل نہیں ہوتا۔ تم گدڑی، مصلے اور اپنی عبادتوں پر بھروسہ نہ کرو۔ چونکہ خانقاہ میں تمہاری ساری عبادت رو و ریا سے پُر ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی بجائے میکدے کے دروازے پر رہا کرو اور کسی قِسم کی عبادت نہ کرو۔ بغیر شراب (محبت) کے تم زہد کے بارے میں کب تک باتیں کرتے رہو گے، یہ چھوڑ اور شراب پیا کرو اور مقامات کے راستوں کی باتیں چھوڑو اور یہ باتیں بالکل نہ کرو،
تشریح:
یہاں پر کچھ باتیں ہیں۔ اصل میں اتنی گہرائی میں جانے کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ وجہ یہ ہے کہ دنیا کی محبت اتنی گہرائی میں ہے کہ اس کو اس کے بغیر نکالنا ممکن نہیں ہے۔ کتنے طریقوں سے انسان ایک کام کرتا ہے اور دنیا پھر بھی اس میں آ جاتی ہے۔ آدمی پھر بھی دنیا کے چکر میں آ جاتا ہے۔ اب دنیا کی محبت جو اتنی زیادہ گھسی ہوئی ہے، اس کو نکالنے کے لئے اس درجہ کی اللّٰہ تعالیٰ کی محبت چاہئے، تاکہ دنیا کی محبت کو نکالا جائے۔ ان تمام چیزوں کو چھوڑنا ہوتا ہے، ان تمام چیزوں کو چھوڑے بغیر انسان کو کیفیتاً اللّٰہ نظر نہیں آ سکتا۔ اور جب اللّٰہ تعالیٰ نظر نہیں آئے گا تو ان چیزوں کو چھوڑا نہیں جا سکتا، وقتی طور پر تو چھوڑا جا سکتا ہے، لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پھر دنیا کسی نہ کسی طریقے سے سر اٹھا لیتی ہے۔ یہ مجاہدات و ریاضات اسی لئے کرائے جاتے ہیں، جیسے حضرت شیخ ابو سعید رحمۃ اللّٰہ علیہ جو صاحبزادے تھے، کیا ان کو حضرت شیخ جلال رحمۃ اللّٰہ علیہ ذکر اذکار نہیں سکھا سکتے تھے؟ بس ذکر سکھا دیتے اور اسی سے ان کا سارا کام کروا دیتے، ان کے لئے یہ کون سا مشکل کام تھا؟ لیکن ایسے نہیں کیا۔ چونکہ صاحبزادگی اتنی گھسی ہوئی تھی کہ چھ مہینے مسلسل حمام جھونکنے کے بعد بھی جب ان کی طرف خادمہ آئی اور گند پھینکا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’نہ ہوا گنگوہ‘‘۔ اس سے پتا چلا کہ صاحبزادگی موجود ہے۔ چنانچہ انہیں مزید مجاہدہ کرنا پڑا اور وہ مجاہدہ کرتے کرتے پھر دوبارہ جب وہی کام کیا گیا تو اتنا اثر آ گیا تھا کہ کہا کچھ نہیں، صرف گھور کے دیکھا۔ پھر مجاہدہ جاری رکھا، اور پھر جب بالکل وہ خیال ختم ہو گیا تو بجائے اس کے offense کے اپنا offense نظر آنے لگا، حالانکہ اس کا offense کوئی بھی نہیں تھا۔ گویا دوسرے پر بد گمانی کی بجائے اپنے اوپر بدگمانی آ گئی۔ اور یہی چیز مقصود ہوتی ہے کہ انسان اپنے عیب کو دیکھے، دوسرے کے عیب کو نہ دیکھے۔ اب انہیں یہ چیز مجاہدے اور ریاضت سے ہی حاصل ہوئی۔ اس مجاہدہ اور ریاضت کے بعد شیخ نے آخری جو ٹیسٹ لیا وہ بھی کمال کا تھا۔ وہ ٹیسٹ یہ لیا کہ کتے ان کے حوالے کر دیئے کہ ان کو چھوڑنا نہیں ہے۔ اور شکار کے لئے چلے گئے، ان موٹے تازے شکاری کتوں نے جب اپنے شکار کو دیکھا تو ان پہ جھپٹ پڑے، انہوں نے کتوں کو اپنی کمر سے باندھ لیا تھا تاکہ چھوٹ نہ جائیں، اور یہ کمزور بھی ہو گئے تھے، کتوں نے ان کو گرا دیا اور گھسیٹتے گئے۔ یہ سب کچھ ہو رہا تھا، اور اللّٰہ دیکھ رہا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ان کو اللّٰہ پاک کی طرف سے ایک تجلی ہوئی (یہ اس دنیا کی بات ہے، آخرت کی نہیں ہے) اور وہ تجلی اتنی زبردست تھی کہ وہ سب کچھ بھول گئے کہ میں کہاں ہوں۔ جھاڑیوں میں پڑے ہوئے ہیں، لہو لہان ہیں، لیکن ان کو یہ پتا نہیں کہ میں کہاں ہوں، ان کو ڈھونڈ کے نکالا گیا۔ لیکن ان کو اس تجلی کے دیکھنے سے جو محویت حاصل ہوئی تھی، اس بنا پر انہوں نے خواہش کی کہ مجھے دوبارہ ہونے لگے۔ یہ وہی شہید والی بات ہے کہ میں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید کیا جاؤں۔ دوبارہ دینا اللّٰہ پاک کی اپنی مرضی ہے، اللّٰہ تعالیٰ کا جو ارادہ ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے۔ جب دوبارہ اس طرح نہیں ہوا تو انہوں نے نذر مانی کہ میں اس وقت تک سانس نہیں لوں گا، جب تک مجھے وہ نہ ملے، سانس روک دیا۔ یہ بھی مجاہدہ تھا، اور اللّٰہ کے لئے تھا۔ نتیجتاً اللّٰہ پاک نے پھر دوبارہ تجلی فرما دی، جب دوبارہ تجلی فرما دی تو یہ حالت ہو گئی کہ اچانک سانس چھوٹ گیا، اچانک سانس لینے سے اتنا چھٹکا لگا کہ دو پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ غیب سے ایک چمچ میں دوائی آئی، ان کو پلا دی گئی، اور فرمایا کہ اپنے شیخ سے کہو کہ تمہیں چند دن چوزوں کی یخنی پلائیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب دوبارہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملنا شروع ہو گیا۔ آ رہے تھے آ رہے تھے آ رہے تھے یہاں تک چلے گئے اب۔ یعنی پہلے لیا جا رہا تھا، اب دیا جا رہا ہے، مشاہدہ بھی کرایا جا رہا ہے۔ مشاہدہ مجاہدہ کے بعد ہوا ہے۔ لہٰذا مجاہدے کے ساتھ مشاہدہ ہے، فنا کے ساتھ بقا ہے۔ سب کچھ فنا کرو گے تو پھر وہاں سے ملنا شروع ہو جائے گا۔ ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ سے شروع ہوا تھا، غیب سے ملنا شروع ہو گیا۔ یہی سارا process ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ان حضرات نے یہ جو باتیں ہم تک پہنچائی ہیں، چونکہ ہم اس کیفیت سے گزرے نہیں ہوتے، اس وجہ سے یہ ساری باتیں اوپری نظر آتی ہیں، جیسے گویا کسی دوسری دنیا کی باتیں کر رہے ہوں۔ حالانکہ یہ اوپری نہیں ہیں، یہ حقیقی باتیں ہیں، لیکن ان حقیقی باتوں کے لئے ہمیں حقیقت کا راستہ طے کرنا پڑے گا۔ جب حقیقت کا راستہ ہم طے کریں گے تو اس کے بعد یہ ساری باتیں ہمیں مل جائیں گی۔ اب ذرا میں اپنے شعر کی طرف جاتا ہوں۔
؎ فضائل کے قصے نہ زاہد سے سننا
شاید اس کو لوگ زاہدوں پر ردّ سمجھیں گے، یہ زاہدوں کا ردّ نہیں ہے۔ زاہدوں کی دو قسمیں ہیں: ایک زاہد وہ ہوتے ہیں جو دنیا کی چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ایک زاہد وہ ہوتے ہیں جو اصلی چیز کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس میں ان زاہدوں کی طرف اشارہ ہے جو اصلی چیز کو چھوڑ دیتے ہیں۔ دنیا کے چھوڑنے والے زاہد کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ وہ زاہد جن کو عام طور پر زاہدِ خشک کہتے ہیں، زاہدِ خشک اپنے مزعومہ فضائل کو حاصل کرنے کے لئے اصل فضائل کو قربان کر دیتے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس پر بڑی بحث فرمائی ہے۔ کسی اور موضوع کے لحاظ سے بحث کی ہے، لیکن بات تو یہی نکلتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اول صف میں شامل ہونا، اس کی فضیلت کو سن کر بعض لوگ اس حد تک آ جاتے ہیں کہ اپنے بڑوں سے بھی آگے ہو جاتے ہیں اور ان کو cross کر کے بے ادبی کر کے پہلی صف میں پہنچتے ہیں۔ حضرت نے اس موضوع کو اس انداز میں لیا ہے، فرمایا کہ ان لوگوں کو پتا نہیں کہ اگر ہم اپنے بڑوں کو صف میں آگے کر لیں تو ہمیں کیا ملتا۔ ہمیں ان کی پہلی صف والی نماز ملتی، اور اب ہمیں ہماری نماز مل رہی ہے۔ ہماری نماز اور ان کی نماز میں کیا نسبت ہے؟ جیسے حدیث میں ہے: ’’اَلدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهٖ‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر: 22360)
ترجمہ: ’’نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے‘‘۔
لہٰذا جب ہم بڑوں کو آگے کریں گے تو ہمیں ان کی نماز مل جائے گی، اور ان کی نماز ہماری نماز سے اعلیٰ ہے۔
ایک اور موقع پہ حضرت نے فرمایا تھا کہ جب میں کسی کو بے نماز دیکھتا ہوں تو مجھے اتنی پریشانی نہیں ہوتی، کیونکہ ابھی اگر یہ نمازی ہونے کا ارادہ کرے تو پانچ منٹ میں نمازی بن سکتا ہے، لیکن جب میں کسی میں تکبر دیکھتا ہوں تو میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ تکبر کو چھوڑنے کا ابھی ہی ارادہ کر لے تو بھی مدتیں تکبر کو چھوڑنے میں لگیں گی۔ تو حضرت کی نظر کس چیز پر ہے اور عموماً کس چیز پر نظر ہوتی ہے؟ مثلاً: ایک شخص متکبر ہے اور نمازی بھی ہے۔ دوسرا شخص نمازی نہیں ہے، لیکن متکبر نہیں ہے۔ کسی صاحبِ بصیرت کو دونوں اپنے اپنے مقام پر نظر آ جاتے ہیں، تو وہ اس غیر متکبر بے نمازی کا اکرام کر لے تو عجیب لگے گا۔ اس لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ جن کی نظر حقیقت پر ہوتی ہے، ان کے parameters الگ ہوتے ہیں اور جن کی حقیقت پہ نظر نہیں ہوتی ان کے parameters الگ ہوتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللّٰہ کی محبت کی شراب پیو، ساری چیزیں سمجھ میں آ جائیں گی۔ اپنی اپنی جگہ پہ سب چیزیں نظر آ جائیں گی۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ