اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے علوم و معارف کا درس ہوتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اتنے گہرے علوم کافی عرصہ تک بالکل مخفی رہے اور ان کے بارے میں لوگ نہیں جانتے تھے۔ عموماً اس کتاب کو کافی مشکل کتاب سمجھا جاتا تھا، لہذا لوگوں نے شاید اس کو پڑھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس وجہ سے بالکل لوگ اس سے نا واقف تھے، ہم بھی ان میں شامل تھے۔ حسنِ اتفاق سے حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مثنوی شریف کا درس چونکہ یہاں شروع ہوا تھا اور اس کے بعد حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ’’مکتوبات شریفہ‘‘ کا درس شروع ہو گیا۔ اس کے بعد اشارہ ہوا کہ اپنے بزرگوں کو چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ ویسے تو سارے ہمارے بزرگ ہیں، لیکن جو اپنے بزرگ ہیں، ان کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے۔ اس لئے توکل علی اللّٰہ کام شروع کیا۔ الحمد للہ اللّٰہ پاک نے اس میں بڑی برکت عطا فرمائی اور آج ہم نواں باب شروع کر رہے ہیں۔
متن:
نواں باب
آدم علیہ السلام کی حقیقت اور اُس کے معنیٰ کے بیان میں، اور اس سلسلے میں حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم
تشریح:
یہ کتاب چونکہ حضرت کے صاحبزادے حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ نے حضرت کی وفات کے بعد تصنیف کی ہے، لہذا وہ حضرت کے علوم کے شارع ہیں اور انہوں نے ان علوم کو پیش کیا۔ تو جیسے عنوان سے واضح ہے کہ اگر کاکا صاحب خود اس کے بارے میں لکھتے تو یہ نہ لکھتے۔ لہٰذا یہ عنوان بن گیا کہ اس سلسلے میں حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم۔
متن:
حضرت شیخنا و شیخ المشائخ جناب رحمکار صاحب اس علم کے معانی میں پوری طرح مہارت، دسترس اور وقوفی و آگاہی رکھتے تھے اور اس کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہی اور واقفیت رکھتے تھے، اللّٰہ تعالیٰ کا ان پر احسانِ عظیم اور فضلِ عمیم تھا جو کہ ان کو عطا کیا گیا تھا۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کے یہ مندرجہ ذیل ابیات اس بات کے متعلق ہیں۔
ابیات:
؎ اے صورت زیبایت سر تا بقدم معنیٰ
در صُورت و ہم معنی مثل تو نبود بالا
در ہر درختے نہ بود ایں صورت و معنیٰ
زانکہ بس شاخ سر افرازد و لیکن نشود طوبی
بار مردم بے معنی منشین کہ دریں صورت
شمعی است کہ مے داری اندر نظر اعمی
مجنون حقیقت او مستغرق معنیٰ شو
خوش خرم تو بوده از صورت و آل معنیٰ
معشوقه بے معنیٰ آخر چہ کنی کرد آن
در بتکده نہ خوان ایں و ایں عیسیٰ
دل بست محمد چوں دریں صورت
گر بر سر صد حرفے اظہار شود معنیٰ
در صورت محبوبم معنیٰ دیگر دیدم
ہر گہ کہ بستر مستی کردم غزل و اشنا
ترجمہ: تیری خوبصورت شکل سر تا بسر معنیٰ ہے صورت اور معنیٰ میں تمہاری طرح رفیع و بالا کوئی نہیں۔ ہر درخت میں یہ صورت و معنیٰ نہیں ہوا کرتی، بہت سی شاخیں پھوٹتی ہیں، لیکن وہ طوبی کا درخت نہیں ہوتیں، بے معنیٰ لوگوں کے ساتھ جو محض صورت رکھتے ہوں نہ بیٹھو، اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ اندھے کے سامنے شمع کو جلائے رکھو، حقیقت کے چہرے کا مجنون ہو کر معنیٰ کی فکر میں ڈوبا رہ اور صورت و معنیٰ سے خوش اور مسرور رہ، ایک بے معنیٰ معشوق کو آخر تم کیا کرو گے، بتکدہ میں عیسیٰ عیسیٰ نہ کہتا رہ، جب محمد نے دل باندھا اس صورت میں، تو سو حرفوں میں اس کا معنیٰ ظاہر ہوا, میں نے اپنے محبوب کی صورت میں دوسرا معنیٰ دیکھا جس وقت کہ میں نے غزل و انشاء تحریر کیا۔
حضرت آدم اور ابنائے آدم کی حقیقت سب کی سب میں نے بحر المعانی سے اکھٹی کی ہے۔
تشریح:
اصل میں بزرگوں نے حقائق کو جو بیان فرمایا ہے، بعض بزرگوں کو ان میں بہت زیادہ درک حاصل تھا، ان میں شیخ اکبر محمد ابن عربی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نام بہت مشہور ہے۔ ان کی کتاب ’’فصوصُ الحکم‘‘ میں بھی فصّ آدمیت کا ذکر ہے، فصّ نگینہ کو کہتے ہیں۔ گویا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے منسوب جو نگینہ ہے، اس کے ذریعے سے جو معرفت اور حقائق ہمیں پہنچتے ہیں، وہ کیا ہیں۔ اور پھر نقشبندی سلسلہ میں بھی مختلف طریقوں سے جو معرفت حاصل ہوتی ہے، اور ان میں سے جو مراقبات ہیں، ان میں ایک مراقبہ حقیقتِ آدم ہے۔ دوسرا مراقبہ حقیقتِ ابراہیم ہے۔ تیسرا مراقبہ حقیقتِ موسوی ہے۔ چوتھا حقیقتِ عیسوی ہے اور پانچواں حقیقت محمدی ہے۔ گویا کہ اس ذریعے سے اللّٰہ جل شانہٗ کچھ حقائق کو آشکار فرماتے ہیں۔ یہ اسی طرف اشارہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی حقیقت کا کیا معنیٰ ہے۔ اس سلسلہ میں ارشادات آ رہے ہیں۔
متن:
حاصل کلام یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری ذات، آدم علیہ السلام اور اولادِ آدم کی صورت کو نو لاکھ قالبوں میں اسمائے صفات کی صورت میں ترکیب دیا تھا۔ اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی صورت کے قالب، تمہارے قالب اور ابنائے آدم کے قالب کو اپنے اسمِ ذات کی شکل و صورت میں جو کہ اسم اللّٰہ ہے، مرکب کرایا۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ وَذُرِّیَّتَہٗ عَلٰی صُوْرَتِہٖ وَأَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ فَخَلَقَھَا عَلٰی صُوْرَۃِ اسْمِ ذَاتِہٖ وَاسْمِ اللّٰہِ" (لم أجد لہذا الأثر أصلا) یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور آپ کی اولاد کو اپنے اسماء و صفات کی صورت میں پیدا کیا اور اُن کو اپنے اسم ذات یعنی اسم اللّٰہ کی صورت پر پیدا کیا۔ پس اے میرے محبوب! اللّٰہ تعالیٰ کے نو لاکھ نام ہیں جن سے بنی آدم، جنات اور فرشتے اُس کو یاد کرتے ہیں۔ ان میں آٹھ لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے (899999) نام اسمِ صفات ہیں اور ایک اللّٰہ کا اسم اسمِ ذات ہے۔ پس اے برادر عزیز! اللّٰہ تعالیٰ نے آٹھ لاکھ ننانوے نام حضرت آدم علیہ السلام اور آپ کی اولاد جن میں کافر اور مؤمن شامل ہیں، جو کہ بنی آدم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یعنی میں اور تو یا ہم سے پہلے جو تھے یا بعد میں ہوں گے، اُن کو اپنی صفات کے ناموں کی شکل و صورت پر بنایا۔ اُس کے بعد ایک ہزار سال اُس بے مثال حسن و جمال کو آدم و ابنائے آدم کے اس آئینہ میں جو کہ اسمائے صفات کی شکل و صورت میں ہے، معائنہ کرتا رہا۔ اُن کو توڑ کر اور شکستہ کرنے کے بعد کوئی دوسری شکل و صورت بناتا۔ اسی طرح اپنے جمال کو صفات کے آئینے میں ملاحظہ فرماتے ہوئے یعنی جنت میں آٹھ لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے (899999) صورتوں کا معائنہ کیا، اُس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے اسمِ ذات کی شکل و صورت پر بنایا اور جب حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذرّیّت کی صورت اللّٰہ تعالیٰ کے اسم ذات کی صورت پر بن چکی "إِذَا تَمَّتْ صُوْرَۃُ آدَمَ وَذُرِّیَّاتِہٖ عَلٰی صُوْرَۃِ اسْمِ ذَاتِہٖ فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: فَتَبَارکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ" (لم أجد ہذا القول) تو اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ (المؤمنون: 14) ”سو بڑی برکت اللّٰہ کی، جو کہ سب سے بہتر بنانے والا ہے“۔ اے میرے محبوب اپنے آپ کو بغور دیکھو، تمام انداموں سے اسم ذات کی خوبصورت ترین شکل ظاہر ہوتی ہے۔ علامہ جلال الدین رومی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی اس شراب خانہ سے تھوڑی بہت شراب پی تھی اور اس بارے میں کچھ فرما گئے تھے۔
بیت
؎ نہ صد ہزار سال شد تا قالبم را ساختند
وی قالبم خودروی بودہ است من عاشق دیرینہ ام
’’نو لاکھ سال ہوئے کہ میرے جسم کے قالب کی تخلیق کی گئی میرا یہ قالب خود اس کا ہے اور میں پُرانا عاشق ہوں‘‘۔
اور اس عمل و طریقہ کا بیان مجمل ہے اور اس تک رسائی حاصل کرنا دور کی بات ہے اور مجمل طور پر یہی کہ ؎
؎ پیش ازاں روز کہ یادے و میخانہ نہ بود
جان ما سوئے خرابات ہمی کرد سجود
’’اس وقت سے پہلے کہ جب شراب اور میکدہ کا ذکر تک بھی نہیں تھا، ہماری روح خرابات کی جانب رُخ کر کے سجدہ ریز ہوا کرتی تھی‘‘۔
تشریح:
اصل میں بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو عوام کے مطلب کی نہیں ہوتیں، اس لئے ان کو اتنا زیادہ بیان نہیں کیا گیا، البتہ اشاروں کنایوں میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سارے جہان میں سارے لوگ ڈاکٹر نہیں ہو سکتے، سارے لوگ انجینئر نہیں ہو سکتے، سارے لوگ سائنسدان نہیں ہو سکتے، سارے لوگ مولوی نہیں ہو سکتے، اسی طرح کوئی بھی شعبہ لے لیں سارے لوگ اس ایک شعبے میں نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ہر شعبہ کی اپنی اپنی ضرورت ہے اور ہر چیز وقت کا، صلاحیت کا، توجہ کا اور ضرورت کا تقاضا کرتی ہے۔ جیسے ایک آدمی کہتا ہے کہ اگر میں ڈاکٹر ہوں تو انجینئر بھی بن جاؤں تو اچھا ہے، اس سے کوئی نقصان تو نہیں ہوتا۔ بالکل صحیح ہے۔ لیکن ڈاکٹر بننے پہ تو نے ایف ایس ای میں چار سال کا وقت لگایا ہے۔ پھر چار سال مزید لگانے پڑیں گے، انجینئرنگ بھی کر لو، پھر کوئی اور شعبہ کر لو۔ عمر بھر پڑھتے ہی رہو گے۔ استعمال نہیں کر پاؤ گے۔ ظاہر ہے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہر شخص ہر چیز میں ماہر بن جائے۔ لہذا ایک تقسیمِ کار ہے، لوگوں کے مزاجوں کو مختلف بنایا گیا ہے۔ بعض لوگ بڑے اچھے کسان بن سکتے ہیں، بعض لوگ بڑے اچھی کاروباری بن سکتے ہیں۔ بعض لوگ بڑے اچھے استاد بن سکتے ہیں۔ بعض لوگ بڑے اچھے عالم بن سکتے ہیں۔ بعض لوگ بڑے اچھے مدرس بن سکتے ہیں۔ یہ من جانب اللّٰہ تشکیل ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے جن کو یہ صلاحیتیں دی ہیں، اگر ان صلاحیتوں کے مطابق ان کی تعلیم کی جائے تو بہت زبردست نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ اور اگر ان کی صلاحیتوں کے مطابق نہ کریں، خواہش کے مطابق کریں، مثلاً: ایک شخص کو ڈاکٹری بہت پسند ہے، لیکن اللّٰہ پاک نے اس کے بیٹے کو طبعیتاً انجینئر بنانے کے لئے پیدا کیا ہے، اس کا والد اس کو ڈاکٹر بنائے گا تو وہ اچھا ڈاکٹر نہیں بنے گا، تھرڈ کلاس ڈاکٹر بنے گا۔ لیکن اگر انجینئر بنائے گا، تو فرسٹ کلاس انجینئر بنے گا۔ یہ میں صرف مثالیں دے رہا ہوں، ڈاکٹری اور انجینئرنگ کو discuss نہیں کرنا چاہتا، میں صرف مثالیں دے رہا ہوں کہ ہر شخص ہر چیز کے لئے پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ہم اس بات کو سمجھیں گے تو یہ بات بھی سجھ آ جائے گی کہ ان علوم کے لئے بھی ہر ایک نہیں پیدا ہوا۔ لہذا یہ ہر ایک کے اوپر لازم ہی نہیں تھے۔ لہذا ہر ایک تک پہنچے نہیں تھے۔ ہاں اگر بالکل ہی اس chapter کو بند کر دیا جائے کہ یہ تو سمجھ میں نہیں آتا، تو جو کر سکتے ہیں وہ بھی محروم ہو جائیں گے۔ اب اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا۔ پہلے سے تو کوئی نہیں کہہ سکتا۔ اللّٰہ تعالیٰ خود ہی کر لیتا ہے۔ جو اس میں چلے گا، وہ چل جائے گا اور جو نہیں چل سکے گا وہ اپنی جگہ پہ رک جائے گا۔ یہ چیز میں نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ میں دیکھی ہے، شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ میں دیکھی ہے اور اس طرح دیگر اکابر میں دیکھی ہے کہ انہوں نے ان علوم کو نہ روکا ہے نہ عام کیا ہے۔ بعض لوگوں نے روکا ہے کہ چونکہ یہ سمجھ میں نہیں آتے، لہذا انہوں نے روک دیا۔ بعض لوگوں نے ہر کسی کو بتانا شروع کر دیا۔ دونوں کے طریقے ٹھیک نہیں تھے۔ حضرت کی یہ سوچ اور فکر تھی کہ جو اس کے اہل ہیں ان تک تو پہنچ جائیں، لیکن جو اہل نہیں ہیں وہ ان پر زیادہ زور نہ لگائیں۔ کیونکہ یہ فرض و واجب علوم نہیں ہیں، فرض و واجب تو شریعت ہے۔ شریعت پر چلنا، شریعت کا علم جاننا لازم ہے ہر مسلمان پر فرض ہے: ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 224)
ترجمہ: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔
لیکن علمِ حقائق ہر ایک پر فرض نہیں ہیں، جیسے ہر ایک آدمی پہ مولوی بننا فرض نہیں ہے، لیکن فرض علم حاصل کرنا سب پہ فرض ہے۔ اصل میں یہی بات بعض لوگ نہیں جانتے جس کی وجہ سے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ان علوم کے بارے میں شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو اہل ہیں ان تک تو پہنچ جائیں، لیکن جو ان کے اہل نہیں ہیں، وہ ان کی کرید نہ کریں، وہ ان کو چھوڑ دیں، ان کو اللّٰہ کے حوالے کر دیں۔ یہ بنیادی بات ہے جو میں بتانا چاہتا ہوں۔ کیونکہ بعض لوگ بڑے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا کہا جا رہا ہے۔ تو جو حیران ہو رہے ہیں ان کے لئے یہ ہیں ہی نہیں۔ لیکن جو لوگ اس کی تلاش میں ہیں، جن کا ما شاء اللّٰہ پہلے سے یہ سلسلہ چل رہا ہے، ان کے زخموں پہ تو مرہم لگ رہے ہیں۔ گویا ان کو تو انتظار تھا، ان کو تو جو چاہئے تھا وہ مل رہا ہے۔ در اصل یہ بنیادی بات ہے جو کہ عرض کرنی تھی۔ کیونکہ اس میں ہر ایک چلے گا بھی نہیں، لیکن ہر ایک کو روکنا بھی نہیں چاہئے۔ حضرت نے ابھی اس کے بارے میں جو باتیں فرمائی ہیں، اگر ہم قرآن پاک پڑھیں تو نشانیاں موجود ہیں: ﴿وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً﴾ (البقرۃ: 30)
ترجمہ: ’’اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔
اللّٰہ کا خلیفہ ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ چونکہ ہم لوگ ان حقائق تک نہیں پہنچے یا ان کی گہرائیوں پہ نہیں گئے ہیں، لہذا ہمارے لئے خلیفہ کا لفظ ایک چھوٹا سا لفظ ہے۔ کیونکہ تفصیل نہیں دی گئی۔ اس چیز کے نہ جاننے کی وجہ سے فرشتوں کو پریشانی ہوئی تو اللّٰہ پاک نے ان کو دو طریقوں سے چپ کرایا۔ حاکمانہ طریقے سے بھی اور حکیمانہ طریقے سے بھی۔ حاکمانہ طریقہ یہ تھا کہ جو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔ بس وہ سمجھ گئے۔ لہذا کہنے لگے: ﴿سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ﴾ (البقرۃ: 32)
ترجمہ: ’’آپ کی ذات پاک ہے، جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے، اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے۔ حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں‘‘۔
انہوں نے ہاتھ اٹھا دیئے کہ یا اللّٰہ! تو ہر عیب سے پاک ہے۔ ہم صرف وہی جانتے ہیں جو تو نے ہمیں علم عطا فرمایا ہے، ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ جب انہوں نے مان لیا تو پھر اللّٰہ پاک نے حکیمانہ طریقے سے بتا دیا۔ اس میں بھی ایک اشارہ ہے کہ اللّٰہ جل شانہٗ پہلے منواتا ہے، پھر سمجھاتا ہے۔ کیونکہ اللّٰہ جل شانہٗ کی ذاتِ عالیہ کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ سر نہ اٹھایا جائے، جو کہا جائے اس کو مانا جائے۔ اس لئے پہلے سر جھکاؤ، اس کے بعد علوم آئیں گے، پھر اس کے بعد حقائق کا ادراک ہو گا، پھر اس کے بعد بتایا جائے گا، پھر اس کے بعد سمجھایا جائے گا۔ کیونکہ اللّٰہ پاک کے پاس کمی نہیں ہے۔ صرف اتنی بات ہے کہ پہلے اپنی عظمت دکھاتے ہیں کہ مانو۔ جیسے قرآن پاک میں ہے کہ زمین اور آسمان کو کہا گیا: ﴿اِئْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىِٕعِیْنَ﴾ (حم سجدہ: 11)
ترجمہ: ’’چلے آؤ چاہے خوشی سے یا زبردستی۔ دونوں نے کہا: ہم خوشی خوشی آتے ہیں‘‘۔
یہ اللّٰہ تعالیٰ کی جلالی شان ہے۔ لہٰذا اللّٰہ پاک کا دین اسی ترتیب سے چلتا ہے کہ پہلے منواتا ہے: ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ (البقرہ: 3) اس کے بعد مشاہدہ کراتا ہے، پھر ساری چیزیں سمجھاتا ہے۔ لیکن ایمان بالغیب کے بغیر کچھ بھی نہیں بتاتا۔ اور عمل میں بھی یہی بات ہے کہ بہت سارے لوگ اسی وجہ سے محروم ہوتے ہیں کہ وہ اسی انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ عمل آسان ہو جائے تو ہم کریں گے۔ اللّٰہ کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے کرنا شروع کرو، پھر آسان کروں گا۔ شروع شروع میں ہر چیز مشکل ہوتی ہے، لیکن بعد میں وہ ایسی ہو جاتی ہے کہ اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ تصور کریں کہ ایک شخص جو بالکل نماز نہ پڑھتا ہو، اس کو جب بھی نماز کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ عذر کر لیتا ہے کہ مجھ سے نہیں پڑھی جاتی۔ اور جب اس کا کوئی بڑا قریبی شخص جس کی ہر بات کو ماننے کے لئے یہ تیار ہوتا ہے، اگر وہ اس کو کہہ دے کہ نماز پڑھو، اور اس کے ساتھ ایک نماز پڑھے، تو بتائیے! دوسری نماز اس کے لئے اتنی مشکل ہو گی جتنی پہلی تھی؟ وہ نماز اس کے مقابلہ میں آسان ہوتی ہے۔ اور اگر دو پڑھیں تو تیسری اور آسان ہو جاتی ہے، تین پڑھیں تو چوتھی اور آسان ہو جاتی ہے، چار پڑھیں تو پانچویں اور آسان ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی چالیس دن تک بغیر ناغہ کے نمازیں پڑھے، تو پھر نماز چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بالکل عادی ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ابتدا میں کہتا کہ میرے لئے اتنی آسان کر دو جتنی آخر میں ہے تو اس کا یہ مطالبہ غلط تھا، یہ نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ مشائخ کے پاس نہیں آئے ہوتے، وہ اس چیز کو بڑا مشکل سمجھتے ہیں کہ یہ کون کر سکتا ہے۔ لیکن جب آ جاتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے، پھر راستے کھلتے جاتے ہیں، اور ساری چیزیں آسان ہو جاتی ہیں۔ سب کچھ انسان کے لئے کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اصل میں ہماری ترتیب یہی ہے کہ ایمان بالغیب سے شروع کروا کر مشاہدہ کرایا جاتا ہے اور مجاہدہ سے شروع کروا کر کام کو آسان کر دیا جاتا ہے۔ اگر اس ترتیب پر کوئی تیار ہو گیا تو پھر سب کچھ ٹھیک ہے۔ چنانچہ آدم علیہ السلام کے معاملے میں بھی پہلے حاکمانہ طور پہ بتایا گیا کہ: ﴿اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرہ: 30)
ترجمہ: ’’میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔
جب مان لیا تو فرمایا: ﴿وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰٓىِٕكَةِ ۙ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ (البقرۃ: 31)
ترجمہ: ’’اور آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھا دیئے، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور (ان سے) کہا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ‘‘۔
پھر دونوں کو شعور دے دیا گیا اور پھر فرشتوں سے پوچھا کہ تم بتاؤ۔ لیکن فرشتے نہیں بتا سکے۔ کیوں کہ فرشتے اس کے لئے پیدا نہیں کئے گئے۔ اب ذرا سا لڑیوں کو آپس میں ملانا ہے۔ فرشتے چونکہ اس چیز کے لئے پیدا نہیں کئے گئے، لہذا ان کے اندر یہ صلاحیت نہیں تھی اور چونکہ صلاحیت نہیں تھی اس لئے ابتدا سے ماننا ہی مفید تھا، کیونکہ کہنے والا اللّٰہ تھا، جو سب کچھ جانتا ہے۔ اللّٰہ پاک نے جب کہہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں صلاحیت نہیں ہے، لہٰذا ان کو کچھ کہنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ لیکن کہہ اٹھے۔ جب کہہ اٹھے تو ان کو جواب بھی ویسا ہی ملا۔ کیونکہ ان کو بتایا گیا تھا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ تو یہ بات بالکل صحیح تھی۔ یعنی تمہیں اس لئے نہیں کہنا چاہئے تھا کہ چونکہ میں کہہ رہا ہوں اس لئے تمہیں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ درمیان میں اور کوئی بات نہیں ہے۔ صحابہ کرام کے اندر الحمد للہ یہ جذبہ پایا جاتا تھا۔ جب آپ ﷺ کوئی بات فرما دیتے تھے تو صحابہ کرام میں یہ بات نہیں ہوتی تھی کہ یوں نہیں ہے۔ البتہ جب آپ ﷺ سے کچھ پوچھنا ہوتا تو اس وقت معلوم کرنے کے لئے، سیکھنے کے لئے پوچھ لیتے تھے۔ کام کے لئے نہیں کہ کام کروں یا نہ کروں۔ بلکہ ان کی زبان پر یہ ہوتا تھا: ’’اَللّٰہُ وَرَسُوْلہٗ اَعْلَمُ‘‘ کہ اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ یہ ان کا طرز عمل تھا۔ لہٰذا اگر ہم نظام کو سمجھیں تو بات سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ نظام یہ تھا کہ اللّٰہ ہی نے سب کچھ بنایا ہے، اللّٰہ کو پتا ہے کہ میں نے کس کو کیا دیا ہے، اللّٰہ کو پتا ہے کہ میں نے کسی کے اندر کیا رکھا ہے۔ لہٰذا جب اللّٰہ پاک تشکیل فرمائیں گے تو پھر دوسری بات ہو ہی نہیں سکتی۔ بنی اسرائیل سے بھی غلطی ہوئی، بنی اسرائیل نے اس وقت کے نبی کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ ہمارے لئے بادشاہ منتخب فرما دے۔ اللّٰہ پاک نے طالوت کو ان کا بادشاہ بنا دیا۔ انہوں نے اس پر اعتراض کیا کہ طالوت کے اندر کیا بات ہے جو ہم میں نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں بڑا بننے کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہیں تھی۔ کیونکہ ہماری سوچ بہت ہی ناقص ہے اور اللّٰہ تعالیٰ ساری چیزوں کو جانتا ہے۔ جب انہوں نے یہ کہا تو اللّٰہ پاک نے ان کو یہی جواب دیا کہ: ﴿اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ؕ وَاللّٰهُ یُؤْتِیْ مُلْكَهٗ مَنْ یَّشَآءُ﴾ (البقرہ: 247)
ترجمہ: ’’اللہ نے ان کو تم پر فضیلت دے کر چنا ہے اور انہیں علم اور جسم میں ( تم سے) زیادہ وسعت عطا کی ہے، اور اللہ اپنا ملک جس کو چاہتا ہے، دیتا ہے‘‘۔
لہذا ماننا چاہئے۔ اور پھر مزید نشانی کے طور پر فرمایا کہ:
﴿وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (البقرہ: 248)
ترجمہ: ’’‘اور ان سے ان کے نبی نے یہ بھی کہا کہ: طالوت کی بادشاہت کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (واپس) آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سکینت کا سامان ہے، اور موسیٰ اور ہارون نے جو اشیاء چھوڑی تھیں، ان میں سے کچھ باقی ماندہ چیزیں ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے لائیں گے، اگر تم مومن ہو تو تمہارے لیے اس میں بڑی نشانی ہے‘‘۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ جب بھی انسان اس نظام کے بارے میں غلطی کرے گا تو اس کو نقصان ہو گا۔ مجھے بتائیے! نظام کا سمجھنا مفید ہے یا نہیں ہے؟ اصل چیز ماننا ہے، لیکن جب نظام سمجھ آ جائے تو ماننا آسان ہو جاتا ہے۔ اور اگر نظام سمجھ میں نہ آئے تو ماننا مشکل ہوتا ہے۔ یہی حقائق کا فائدہ ہے۔ چنانچہ اگر انسان حقائق کو جان لے تو ماننا بہت آسان ہو جاتا ہے، راستہ آگے چلتا ہے۔
متن:
’’اس وقت سے پہلے کہ جب شراب اور میکدہ کا ذکر تک بھی نہیں تھا، ہماری روح خرابات کی جانب رُخ کر کے سجدہ ریز ہوا کرتی تھی‘‘۔
اَبیات
؎ چوں تجلی کرد ہر کلی صفات
زاں تجلی یافتند ایشان حیات
صورتے راکرد سر خود پدید
مؤمن المرآت زانجا شد پدید
مؤمنان آئینہ یک دیگر اند
صیقل آریا بند و در خود بنگرند
نقطہ را در حرق خود پیدا کند
کور مادر زاد را بینا کُند
در صور شان ہست پیدا ذات او
کس نہ بیند جز بدان مرآت او
زانچہ مرآت ترا گر حق زدود
ہر چہ باشی خود ترا خواہد نمود
ہر چہ پاشی خویش بر آہنی تمام
من سخن کوتاہ کردم والسّلام
’’جب تمام صفات پر تجلی فرما گئے تو اس تجلی سے انہوں نے زندگی حاصل کی، شکل و صورت کو اپنا اسرار ظاہر کیا اسی وجہ سے مؤمن آئینہ بن گیا، مؤمن ایک دوسرے کے لئے آئینہ کی طرح ہیں۔
تشریح:
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَلمُؤْمِنُ مِرْاٰةُ المُؤْمِنِ‘‘۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: 4918)
ترجمہ: ’’مومن مومن کا آئینہ ہے‘‘۔
متن:
اگر یہ صیقل ہو کر صاف ہو گئے تو اپنے آپ میں دیکھتے ہیں، اپنے حرف میں نقطہ پیدا کرتے ہیں اور مادر زاد اندھے کو بینا کر دیتے ہیں اِن کی صورت میں اس کی صورت ظاہر ہے، اُس کو اس آئینے کے بغیر کوئی نہیں دیکھ سکتا کیونکہ جب تیرا آئینہ اگر حق نے صاف کیا تو جو کچھ تمہاری حقیقت اور اصلیت ہو وہ سب تم پر عیاں ہو جائے گا۔
تشریح:
بہت بڑا علم بتایا گیا ہے، کاش ہم اس کا ادراک کر سکیں۔ حدیث شریف ہے کہ مومن مومن کا آئینہ ہے۔ لیکن یہ بھی حدیث شریف میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی صورت پہ آدم کو پیدا کیا ہے۔ دونوں حدیثوں کو ملائیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو اپنے اوپر محنت کرے گا، معرفت حاصل کرے گا، دل کو صاف کرے گا، نفس کو دبائے گا، عقل کو روشن کرے گا، تو وہ ایسا آئینہ ہو جائے گا کہ اس کے ذریعے سے اللّٰہ پاک کی تجلی نظر آئے گی۔ یعنی وہ لوگ جو یہ چیزیں حاصل کریں گے تو گویا ان میں اللّٰہ نظر آئے گا۔ یعنی ان سے اللّٰہ جل شانہ کی پہچان ہو گی۔ یہ ہے عارف باللّٰہ کی بات کہ اس کے ذریعے سے انسان اللّٰہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے عالم تھے، امام تھے، وہ بشر حافی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں جاتے تھے۔ حضرت کے صاحبزادے، جو بڑے عالم تھے، انہوں نے پوچھا کہ آپ تو خود امامِ وقت ہیں، آپ ان کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ ان کو تو یہ جواب دیا کہ ہر ایک شخص اپنے فائدے کے لئے جاتا ہے، مجھے وہاں عمل کی توفیق ہو جاتی ہے، اس لئے میں جاتا ہوں۔ لیکن ایک اور عالم نے پوچھا تو ان سے فرمایا کہ میں عالم بالقرآن ہوں گا، یہ عارف باللّٰہ ہیں۔ حالانکہ بشر حافی رحمۃ اللّٰہ علیہ ان پڑھ تھے۔ آخر وہ کون سی چیز تھی۔ اس کو مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک عجیب تمثیل کے ساتھ واضح کیا ہے۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰہ تعالیٰ نے تمثیلات کا بادشاہ بنایا تھا۔ ایک عجیب مثال سے اس چیز کو بیان فرمایا کہ رومیوں اور چینیوں کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ رومیوں نے کہا کہ ہم بڑے ماہر ہیں۔ چینیوں نے کہا ہم بڑے ماہر ہیں۔ جب یہ معاملہ بڑھ گیا، بادشاہ تک بات چلی گئی۔ بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے، ہم آپ دونوں کا امتحان لے لیتے ہیں، جو غالب آ گیا وہ ماہر ہو گا۔ اس نے امتحان اس طرح لے لیا کہ ان کو آمنے سامنے ایک ایک دیوار الاٹ ہو گئی اور درمیان میں پردہ ڈالا گیا۔ بادشاہ نے کہا کہ اپنی مہارت کے دکھانے لئے جو تمہیں چاہئے، وہ مجھے بتانا، کسی اور کو نہیں بتانا، تاکہ آپ کا راز راز رہے۔ ایک وقت مقررہ تک آپ لوگ اس دیوار کے ساتھ جتنی مہارت کرنا چاہیں کریں، وقت مقررہ پر ہم درمیان سے پردہ ہٹائیں گے، اس مقابلہ میں جو جیت گیا اس کے بارے میں فیصلہ ہو جائے گا کہ اس کی مہارت زیادہ ہے۔ انہوں نے قبول کر لیا۔ جو جو چیزیں ان کو ضرورت تھیں وہ انہیں مہیا کرتے رہے۔ وقت مقررہ پر جب پردہ ہٹا دیا گیا تو پتا چلا کہ چینیوں نے بڑی گلکاریاں کی تھیں، کیونکہ وہ گلکاری کے بڑے ماہر تھے، انہوں نے اپنی دیوار کے اوپر بہت خوبصورت نقش و نگار بنائے تھے۔ جب کہ رومیوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی دیوار کو ریگمالوں وغیرہ سے اتنا صاف کر دیا تھا کہ وہ بالکل آئینہ بن گئی، اس میں ساری چیزیں نظر آتی تھیں۔ چینیوں کی ساری گلکاری اس کے اندر نظر آ رہی تھی۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ آئینہ میں جو چیز نظر آتی ہے، وہ آئینہ کی چمک کی وجہ سے اصل سے زیادہ خوبصورت نظر آتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک عام کھیت کی کیمرے کے اندر focus کر کے اس کی تصویر لیتے ہیں اور اس تصویر کو جب آپ کمپیوٹر پر دیکھتے ہیں تو بڑے حیران ہو جاتے ہیں کہ کیا یہ وہی جگہ ہے! وہ ایک خوبصورت scenery بن جاتی ہے۔ یہ اسی وجہ سے ہوتا کہ یہ آئینہ کی ایک صورت بن جاتی ہے۔ لہٰذا رومی جیت گئے۔ حضرت نے فرمایا تم اپنے دل پر محنت کرو، اس کو صاف کرو، صاف کرو، صاف کرو۔ اتنا صاف کرو کہ آئینہ بن جائے۔ جب یہ آئینہ بن جائے گا تو جہاں پر بھی کوئی بھی خیر ہو گی، وہ آپ کو مل جائے گی۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے۔ یہاں بھی یہی بات تھی کہ جب کوئی آئینہ بن جائے تو پھر اس سے ما شاء اللّٰہ معارفِ الٰہیہ بھی بر آمد ہوتے ہیں۔ نتیجتاً لوگ اللّٰہ پاک کو ان کے ذریعے سے پہچانتے ہیں۔ تھوڑا سا غور کریں کہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کیا فرمایا ہے۔ اتنا بڑا کام کیا کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ اس وقت کے حالات کو دیکھیں، ان حالات کے اندر اس طریقے سے کام کرنا، یعنی خطوط کے ذریعے سے کام ہو رہا ہے۔ اتنی بڑی لا دین سلطنت تھی، اس کا مقابلہ کیا اور دوبارہ اس کو اسلام کی طرف لے آئے۔ یہ بہت بڑا کام تھا۔ آخر کیا بات تھی کہ ہر وقت اکبر کے ساتھ رہنے والے ان کے معتقد ہو گئے۔ آخر کوئی بات تو تھی، ان کو کچھ تو نظر آیا ہو گا۔
متن:
اب اے میرے محبوب! یہ بات جان لے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کی تین قسمیں بنائی ہیں: پہلی قسم آدم کی شکل پر ہیں مگر آدم کی حقیقت اور معانی سے خالی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس قسم کو اِن الفاظ میں یاد فرمایا ہے کہ ﴿اُوْلٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ھُمْ أَضَلُّ...﴾ (الأعراف: 179)
تشریح:
یعنی ان میں آدم کی حقیقت نہیں ہے۔
متن:
”وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ اُن سے بھی زیادہ بے راہ“ کیونکہ ﴿ھُمُ الْغَافِلُوْنَ﴾ (الأعراف: 179) ”یہ لوگ غافل ہیں“ کی صفت سے موصوف ہیں۔ اے میرے محبوب! یہ لوگ اس قابل نہیں کہ قرآن کریم اِن کا تذکرہ کرے کیونکہ یہ تو کرامت اور فضیلت کا مقام ہے۔ اس لئے رسول اللّٰہ ﷺ کو فرمایا گیا کہ اے حبیب! میں نے تمہیں حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ، اور حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کے لئے اور اُن کے ساتھ محبت کرنے والے متبعین کے لئے ارسال فرمایا ہے۔ اور یہ کہ میں نے تم کو بے معنیٰ اہل صورت یعنی ابوجہل عتبہ اور شیبہ کے لئے نہیں بھیجا۔ ﴿فَذَرْھُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا حَتّٰی یُلَاقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِيْ یُوْعَدُوْنَ﴾ (الزخرف: 83) ”اب چھوڑ دے اُن کو بک بک کریں اور کھیلیں یہاں تک کہ ملیں اپنے اس دِن سے جس کا اُن کو وعدہ دیا ہے“ یعنی اے حبیب! اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو امر فرمایا کہ آپ کو منکروں اور پیٹھ پھیرنے والوں سے کیا کام کہ اُن کو اس عالمِ آخرت کی نعمتوں کی طرف بلاتے ہو، آپ فرما دیجئے کہ ہم تو اس عالمِ الٰہی میں ہیں اور یہ کہ ہمارا نصیب تو دیدار ہو گا اور اُن کا حصہ ادبار و ہلاکت اور بدنصیبی۔ ﴿فَإِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِيْ عَمَلِيْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ أَنْتُمْ بَرِیْئُوْنَ مِمَّآ أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِئٌ مِّمَّا تَعْلَمُوْنَ﴾ (یونس: 41) ”اور اگر تجھ کو جھٹلائیں تو کہہ میرے لئے میرا کام اور تمہارے لئے تمہارا کام، تم پر ذمہ نہیں میرے کام کا اور مجھ پر ذمہ نہیں جو تم کرتے ہو“۔
تشریح:
اس میں بھی وہی چیز نمایاں نظر آتی ہے۔ یعنی دعوت سب کو دی جا رہی ہے، لیکن قبول کوئی کوئی کر رہا ہے۔ علم سب کو دیا جا رہا ہے، لیکن سمجھ کوئی کوئی رہا ہے۔ جنہوں نے نا قدری کی، ان کی حالت ایسی ہے کہ جیسے دریا کے پاس سے پیاسے کے پیاسے آ گئے۔ اور جنہوں نے قدر دانی کی تو نجاشی حبشہ میں بیٹھے ہیں، ملاقات بھی نہیں ہوئی، لیکن سیراب ہوئے۔
متن:
ارشاد ہوا اے میرے حبیب! اگر میں چاہتا تو سب کو ایک ہی فطرت پر پیدا کر دیتا۔ لیکن اس نے سب کو ایک دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے اور ہر ایک ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور ریاکار مخلصوں سے الگ ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اور اس جہان میں اس نے گفت و شنید (کے اسباب) پیدا کردیئے۔ چونکہ کہا جاتا ہے "اَلْأَمْثَالُ مَصَابِیْحُ الْأَفْعَالِ" یعنی مثال سے بات واضح ہوجاتی ہے۔ (اس لئے ہم مثال بیان کرتے ہیں کہ ) ایک حسین و جمیل (محبوب) گھر سے باہر نکل آیا، ایک جمِ غفیر اس ( کودیکھنے کیلئے) اس کے پیچھے لگ گیا۔ اچانک وہ گھر میں داخل ہوا اور دروازہ بند کرلیا۔ جو لوگ اس کی خاطر جمع تھے ان میں شور شرابا ہونے لگا اور وہ سب وہاں گرکر فریاد کرنے لگے کہ جب (ملاقات) ممکن نہ تھی تو یہ جھلک کیوں دکھائی؟ پردے کے اندر سے جواب دیا کہ مجھے لوگوں کا
شور و غوغا اچھا لگتا ہے۔ لوگ باہر شوق سے مجبور ہو کر چیخنے اور کہنے لگے کہ "لَا مِنْکَ الْفِرَارُ وَلَا مِنْکَ الْقَرَارُ" کہ نہ آپ کے پاس سے جانا ہمارے بس میں ہے اور نہ آپ کے ہاں ہم کو قرار ممکن ہے۔ نہ جائے ماندن اور نہ پائے رفتن۔
پس اے محبوب! حقیقت میں فطرت کی دو حالتیں ہیں: ایک عدم، دوسری وجود۔ یعنی جب طنبورہ بجایا جاتا ہے تو زبانِ حالِ سے یہی کہتا ہے:
؎ در عدم گو بود ما را اختیار
تا شدم موجود فعل آریم کار
از عدم آورد ما را در وجود
گاہ از ما فسق آید گاہ سجود
علم بود در سرشت ما نخست
ہر چہ می آید زما تقدیر تست
’’حالت عدم میں اگر ہم کو اختیار حاصل ہوتا کہ اگر ہم موجود ہو جائیں تو کام کر جائیں گے، ہم کو عدم سے وجود سے لایا گیا ہے تو کبھی ہم گناہ کا کام کرتے ہیں اور کبھی عبادت، ہماری ابتداء اور فطرت میں پہلے سے علم تھا اب جو کچھ ہو رہا ہے اور ہم کر رہے ہیں یہ سب تمہاری مقرر کی ہوئی تقدیر ہے‘‘۔
یعنی اے محبوب! اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی عالم کثرت کے بنانے کی تھی کہ ﴿وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدٰی فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجَاھِلِیْنَ﴾ (الانعام: 35) ”اور اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تو جمع کرتا سب کو سیدھی راہ پر سو تو مت ہو نادانوں میں سے“۔
تشریح:
یہاں یہ بات ہے کہ اللّٰہ جل شانہ نے دو طریقے اختیار کئے ہیں۔ ایک طریقہ قھاریت کا ہے اور دوسرا طریقہ اختیار کا ہے۔ جس چیز کو قھّاری طریقہ سے پیدا کیا ہے، اس میں لوگ مجبور ہیں۔ اس میں کوئی ہل نہیں سکتا۔ جیسے ہے، ویسے ہی رہے گی۔ اور جو اختیار والی چیز ہے، تو جتنا اختیار دیا گیا، اس اختیار کے ساتھ تم کام کرو گے۔ اب ہم کیا کریں؟ تو اس وقت جو صورتحال ہے اس کے مطابق ہم کریں کہ جیسے ہم دنیا کے حوالے سے اپنے لئے بہترین کو چنتے ہیں، حالانکہ تقدیر تو ادھر بھی ہے کہ یہ نہیں ہے۔ جس کی قسمت میں مال دار ہونا لکھا ہو گا وہ مال دار ہو گا، جس کی قسمت میں غریب ہونا لکھا ہو گا وہ غریب ہو گا۔ کیا خیال ہے لوگ آرام سے بیٹھ جاتے ہیں کہ میری قسمت میں مال دار ہونا لکھا ہو گا تو مال دار ہو جاؤں گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر تو معذور ہیں۔ لیکن دنیا کے معاملہ میں ایسا نہیں کرتے۔ دنیا کے معاملہ میں اگر ان کو کہا بھی جائے کہ تیری قسمت میں نہیں ہے، جاؤ، اگلا کام کرو۔ تو کیا کرے گا؟ رونا شروع کر دے گا، دعائیں کرنا شروع کرے گا، مزاروں پہ جائے گا۔ اور پتا نہیں کیا کیا کرے گا کہ کسی طریقے سے میری قسمت کھل جائے۔ تو یہ کام دین کے لئے کیوں نہیں کرتے؟ یہی کام دین کے لئے بھی کرنا چاہئے، ہو گا وہی جو قسمت میں ہو گا، لیکن تمہیں کیا کرنے کا حکم ہے۔ جو دنیا کے لئے کرتے ہو وہی دین کے لئے بھی کرو۔ اس سے بڑی بات اور کوئی نہیں ہے۔ وہاں پر بھی جو چیزیں fix ہیں وہ fix ہیں اور جو آپ کے اختیار میں ہیں وہ اختیار میں ہیں۔ اس کے ساتھ جو manage کرتے ہو، کر لو۔ اسی طرح سے دین کے معاملہ میں بھی چلو، دین کے معاملہ میں بھی اپنے اختیار سے کام لو اور نتیجہ اللّٰہ پہ چھوڑ دو۔ ایک بات یاد رکھنی ہے کہ ایک میرا وہم ہے اور ایک قرآن پاک کی واضح آیت ہے۔ کیا مجھے اپنا وہم کرنا چاہئے یا قرآن پاک کی واضح آیت لینی چاہئے؟ آیت ہے: ﴿لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ (التوبہ: 120) کہ بے شک اللّٰہ تعالیٰ نیکوں کاروں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتے۔ یہ بہت واضح آیت ہے۔ چنانچہ اگر تم نیکی کرو اور اللّٰہ تعالیٰ اس کو خراب کرے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اللّٰہ نے خود فرمایا ہے۔ تم نیکی کرو اپنے اختیار سے، اللّٰہ تعالیٰ اس کو نہیں خراب کرے گا۔ اگر تم نیکی کرتے نہیں ہو اور کہتے ہو کہ میری قسمت میں نہیں تھی تو یہ شیطان کی سوچ ہے، اسی وجہ سے تو شیطان خود بھی مارا گیا اور دوسروں کو بھی مرواتا ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہمیں اللّٰہ نے جو اختیار دیا ہے، اس کو استعمال کریں۔ ہم فرار کا راستہ نہ ڈھونڈیں۔ دنیا میں ہم فرار کا راستہ نہیں ڈھونڈتے تو دین میں فرار کا راستہ کیوں ڈھونڈیں؟ دوغلی پالیسی کا فوراً پتا چل جاتا ہے، یعنی ہمارا معیار دنیا کے لئے الگ ہے اور دین کے لئے الگ ہے۔ یہیں پر ہی گڑبڑ ہے۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بہت زبردست فرمایا:
انبیاء در کارِ عقبیٰ قدری اند
انبیاء در کارِ دنیا جبری اند
کہ انبیاء عقبیٰ یعنی آخرت کے کام میں قدری ہیں، کہتے ہیں کہ ہم سے کوئی چیز چھوٹ نہ جائے۔ آپ ﷺ جب استنجا کر لیتے تو اتنا بھی انتظار نہیں کرتے تھے کہ وضوء کریں، بلکہ جلدی تیمم کر لیتے۔ یہ ’’قدری اند‘‘ کا مطلب ہے۔ اور کارِ عقبیٰ میں پوچھتے ہیں کھانے کو کچھ ہے؟ اگر بتایا جاتا کہ نہیں ہے تو فرماتے کہ تو پھر میں نے روزہ رکھ لیا ہے۔ یہ ’’جبری اند‘‘ کا مطلب ہے کہ جو ملا مل گیا ٹھیک ہے، اور جو نہیں ملا بس نہیں ملا۔ یعنی دنیا کے معاملہ میں جبری ہیں اور آخرت کے لئے قدری ہیں۔ اور دوسروں لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں۔
دیگر در کار عقبیٰ جبری اند
دیگر کار دنیا قدری اند
کہ دنیا کے کام میں قدری ہیں، کوئی کوشش نہیں چھوڑتے۔ اور دین کے معاملہ میں بالکل جبری ہیں۔ کہتے ہیں اگر قسمت میں ہوا تو ہو جائے گا۔ بھائی! یہ تو حقیقت ہے کہ قسمت میں ہو گا تو سب کچھ ہو جائے گا۔ لیکن تم یہ دوغلی پالیسی تو چھوڑو۔ دنیا کے لئے تمہارا الگ قانون اور دین کے لئے الگ قانون۔ یہ معاملہ تو ٹھیک نہیں ہے۔
متن:
دوسری بات یہ کہ رسول اللّٰہ ﷺ کو حکم ہوا کہ آپ ان کو ہدایت نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارے ارادے کی کیمیا گری نے اِن کو نبوت اور ہدایت کی حرارت سے محروم کر دیا ہے،
تشریح:
یعنی جو لوگ جس قسم کے کام کر رہے تھے، اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے ان کاموں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ ہدایت قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ در اصل ہوشیار لوگ تھوڑی سی چیزوں سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ تو یوں کرنے والا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ تو سارے ہوشیاروں کو پیدا کرنے والے ہیں، چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے جن کے بارے میں فرمایا کہ یہ نہیں قبول کریں گے، ظاہر ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بات بالکل سچی تھی، کیونکہ وہ تھے ہی ایسے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کی غلطی کے انتظار میں ہوتے کہ آپ ﷺ کوئی غلطی کریں تو ہم بتائیں۔ جب غلطی نہیں ہوئی، تو کہتے کہ یہ جادو گر ہے۔ گویا کوئی اچھا کام کریں، تو وہ بھی اس کھاتے میں ڈالتے۔ لہٰذ وہ قبول کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ پھر کمال کی بات یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو چھپ چھپ کے سنتے تھے اور جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو کہتے کہ بس آئندہ نہیں سنیں گے۔
کل ہی ایک صاحب نے ایک کلپ میرے پاس بھیجا ہے، اس میں قاری عبد الباسط کے حوالہ سے بات کی گئی ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا قرآن کا کوئی معجزہ آپ نے دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ تم ایک معجزے کی بات کرتے ہو، میں نے قرآن کے معجزات دیکھے ہیں۔ کہا: کیسے؟ کہتے ہیں کہ جب جمال عبد الناصر روس گئے تھے تو وہاں میٹنگ وغیرہ کے درمیان تھوڑا سا گپ شپ کے لئے ٹائم بھی ہوتا تھا۔ اس میں روس کے کیمونسٹ لیڈر نے ان سے کہا کہ جمال عبد الناصر تم قابل آدمی ہو، اپنے ملک کو بہت ترقی دے سکتے ہو، یہ اسلام کی باتیں چھوڑو، یہ کیا ہے، یہ تمہیں کیا دے گا؟ مطلب یہ تھا کہ تم ہماری چیزوں کو مان لو، ان چیزوں کو چھوڑ دو، ہم ٹیکنالوجی بھی دے دیں گے اور آپ کے ملک کو بہت زیادہ ترقی دے دیں گے، یوں آپ کا ملک بہت ترقی پا جائے گا۔ جمال عبد الناصر نے جواب تو دیا لیکن اتنا مضبوط جواب نہیں تھا، کیونکہ وہ عالم تو تھا نہیں۔ بہرحال! اپنے طور پہ کوشش کی لیکن ان کو اطمینان نہیں ہو سکا۔ جب یہاں آ گئے تو ان کے سر پہ ٹینشن سوار تھی کہ میں کیوں جواب نہیں دے سکا، یہ تو کمزوری ہو گئی۔ اسی انتظار میں تھے کہ پھر کوئی موقع لگے، جب دوبارہ موقع لگا تو مجھے کہا کہ تم میرے ساتھ جاؤ گے۔ میں نے کہا کہ کمال ہے، سعودی عرب جاتے، تو مجھے بلاتے یا کسی اسلامی ملک میں جانا ہوتا تو مجھے بلاتے، قرآن پاک کی تلاوت کرنی ہے تو مجھے روس کس لئے لے جا رہے ہیں؟ میں کوئی عالم تو نہیں ہوں، میں تو صرف قرآن پاک کی تلاوت ہی کر سکتا ہوں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ جاؤ گے۔ کہتے ہیں کہ مجھے ساتھ لے گئے۔ جب میٹنگ میں اس قسم کی باتیں شروع ہوئیں تو جمال عبد الناصر نے کہا کہ آپ لوگوں کی باتیں تو اپنی جگہ پہ ہیں۔ چلو، آج ذرا تھوڑا سا ان سے کچھ سن لو، یہ میرے ساتھی ہیں یہ آپ کو کچھ سنائیں گے۔ مجھے کہا کہ تم قرآن پاک کی تلاوت کرو۔ میں نے سورت طٰہ کی آیاتِ مبارکہ کی تلاوت شروع کی۔ تلاوت کرتے ہوئے قاری کی تو آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب میری آنکھیں کھلیں، تو میں نے دیکھا کہ کیمونسٹ رو رہے تھے، ان کے آنسو گر رہے تھے۔ ان کو جمال عبد الناصر نے کہا کہ آپ لوگ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا آپ کو سمجھ آ رہی ہے؟ کہتے ہیں: نہیں۔ کہا: پھر کیوں رو رہے ہیں؟ کہتے ہیں: ہمیں بھی سمجھ نہیں آئی کہ ہم کیوں رو رہے ہیں۔
لیکن (آپ ﷺ کے وقت میں) قرآن جیسا معجزہ کافروں کے سامنے تھا، آپ ﷺ جیسی شخصیت ان کے سامنے تھی، اس کے باوجود اگر وہ مسلمان نہیں ہوئے تو پھر کیسے ہوتے؟ ان کے لئے اور کون سا راستہ تھا؟ لہٰذا ان کے بارے میں کہنا بالکل ٹھیک تھا کہ ان لوگوں کو ہدایت نہیں ملنی۔ یہ ہدایت نہیں لیں گے۔ اس لئے فرمایا:
متن:
﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ...﴾ (آل عمران: 128) ”تیرا اختیار کچھ نہیں“ ﴿وَلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ﴾ (ھود: 118) ”اور ہمیشہ رہتے ہیں اختلاف میں“۔ جب مشیت ہوتی ہے تو کیا کہا جائے اور کس کو کہا جائے، کسی قسم کی چوں و چراں کی گنجائش نہیں ہوتی۔
دوسری قِسم وہ گروہ اور جماعت ہے جو کہ صورت، معنیٰ اور حقیقت میں آدم ہیں اور آدم کی حقیقت کے حامل ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس مقدس گروہ کو اپنے فضل و عنایت سے اپنے کلام پاک میں یاد فرمایا ہے اور ان کے بارے میں ایسا خطاب فرمایا گیا ہے: ﴿وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِيْ اٰدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُمْ مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل: 70) ”اور ہم نے عزت دی ہے آدم کی اولاد کو اور سواری دی ان کو جنگل اور دریا میں اور روزی دی ہم نے ان کو سُتھری چیزوں سے اور بڑھا دیا اُن کو بہتوں سے جن کو پیدا کیا ہم نے بڑھائی دے کر“۔
تشریح:
اب یہ بھی آدمی ہے اور یہ بھی آدمی ہے۔ لیکن وہ صورتاً آدمی ہے، یہ حقیقتاً آدمی ہے۔ صورت صرف صورت کی نمائندگی کرتی ہے۔ جیسے ناکوں پہ جو پلاسٹک کے pyramids لگاتے ہیں، ان کو رنگ ایسا دیا ہوتا ہے کہ جیسے بہت بھاری ہوں گے، لیکن تھوڑی سی ہوا تیز چلے تو لڑک جاتے ہیں۔ شروع شروع میں جب wall clocks آئے تھے، تو وہ سٹیل کے بنے ہوتے تھے، ان کو اٹھانے اور اتارنے میں کافی زور لگانا پڑتا۔ چونکہ لوگ ان کے عادی تھے۔ جب یہ ہلکے وزن والے آئے تو لوگ زور لگا کے اٹھاتے تو وہ ایک دم اٹھ جاتے۔ لوگ حیران ہوتے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ تو ہوا ہے۔ اس طرح یہ جو China کے چپل آ رہے ہیں، آدمی جب ان کو دوسرے جوتوں کے انداز میں پاؤں سے نکالتا ہے تو وہ ادھر چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا کوئی وزن نہیں ہوتا، بالکل ہلکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو صورتاً ہے، حقیقتاً نہیں ہے، یعنی اس کے اندر وہ طاقت نہیں ہے، اس کے اندر وہ خوبی نہیں ہے، مگر اس کا نمونہ اسی طرح ہوتا ہے، لیکن پیچھے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح بعض دفعہ بعض لوگوں کی شخصیت صورتاً تو آدمی کی ہوتی ہے، لیکن پیچھے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ وہ جانوروں سے بھی نیچے ہوتے ہیں۔ جانور کم از کم جبلتاً تو اللّٰہ کی مان رہے ہیں، جب کہ یہ اپنی جبلت سے بھی انکاری ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ وہ آدم علیہ السلام کی صورت میں ہیں، لیکن آدم کی حقیقت نہیں لئے ہوئے۔ میرے خیال میں اب حقیقتِ آدمیت کی کچھ سمجھ آئی ہو گی کہ یہ کیوں کہا جا رہا ہے، اس لئے کہ یہ ایک پورا نظام ہے۔
متن:
اے عزیز! یہ فضل جو کہ آیتِ مُبارکہ میں ذکر ہوا، یہ مال و دولت اور زر و جواہر کے بارے میں نہیں بلکہ آدمیت کی روح اور حقیقت کے جوہر دونوں جہانوں کے ساتھ برابر نہیں۔ چنانچہ اے میرے عزیز! خیال کیجئے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو روح القدس سے زینت بخشی گئی ﴿وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ...﴾ (الحجر: 29) ”اور پھونک دی اس میں اپنی جان سے“ (شبیر احمد عثمانی) چنانچہ ہر کسی کی روح کو روح القدس سے مزیّن فرمایا ﴿وَأَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسَ...﴾ (البقرہ: 87) ”اور قوت دی اُس کو روح پاک سے“۔
پس اے میرے عزیز! پہلی قسم کے لوگ دنیا میں بھی دوزخ میں ہیں اور آخرت میں بھی دوزخ میں ہوں گے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ کَلَّآ إِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ﴾ (المطففين: 14) ”کوئی نہیں مگر زنگ پکڑ گیا ہے اُن کے دلوں پر جو وہ کماتے تھے، کوئی نہیں وہ اپنے رب سے اُس دن روک دیے جائیں گے، یعنی آج کے دن تو وہ حجاب میں اور پردے میں ہوں گے (اور کل فراق اور جدائی میں تڑپتے رہیں گے)“۔ اور یہ دوسری قِسم کے لوگ آج معرفت اور حقیقت سے آشنا ہوں گے اور کل رؤیت یعنی دیدار اور قربت و وصال سے لطف اندوز ہوں گے۔
تشریح:
ایک اور آیت ہے:
﴿وَمَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰی فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلًا﴾ (الإسراء: 72)
ترجمہ: ’’اور جو شخص دنیا میں اندھا بنا رہا، وہ آخرت میں بھی اندھا، بلکہ راستے سے اور زیادہ بھٹکا ہوا رہے گا‘‘۔
یعنی جن کو اللّٰہ یہاں نظر نہیں آیا، انہیں وہاں پر بھی نظر نہیں آئے گا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ محنت یہاں کرنی ہے۔
متن:
﴿کَلَّآ إِنَّ کِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّیِّیْنَ وَمَاۤ أَدْرٰىكَ مَا عِلِّیُّوْنَؕ كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌۙ یَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَۙ﴾ (المطففین: 18-19) ”ہرگز نہیں، اعمال نامہ نیکیوں کا علیین میں ہے، اور تجھ کو کیا خبر ہے علیین کیا ہے، ایک دفتر ہے لکھا ہوا، اُس کو دیکھتے ہیں نزدیک والے (یعنی فرشتے)“۔ یعنی ہماری قربت اور رؤیت کی سعادت و شرف اُن کو حاصل ہو گا۔ رسول کریم ﷺ نے اس گروہ کے بارے میں ایک رمز فرمایا ہے کہ "إِنَّ لِلّٰہِ عِبَادًا خَلَقَھُمْ لِحَوَائِجِ النَّاسِ…" (مسند الشہاب القضاعي، رقم الحدیث: 1007) یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کی ضرورتوں (کو پورا کرنے) کی خاطر پیدا کیا ہے۔ یعنی دنیا میں لوگوں کو ان سے قوت حاصل ہو گی اور آخرت میں شفاعت کا مقام ان کو حاصل ہو گا جیسا کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: "یَشْفَعُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثَلَاثَۃٌ: اَلْأَنْبِیَاءُ ثُمَّ الْعُلَمَاءُ ثُمَّ الشُّھَدَاءُ" (سنن ابن ماجہ: کتاب الزھد، باب: ذکر الشفاعۃ، رقم الحدیث: 4313) یعنی قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام شفاعت فرمائیں گے ان کے بعد علماء اور ان کے بعد شہداء۔
تیسری جماعت وہ ہو گی جو کہ خود حقیقت اور معنی ہو گئے ہوں گے اور اللّٰہ تعالیٰ کی حمایت و حفاظت میں ہوں گے۔ اور ان کا مقام یہ ہو گا کہ "أَوْلِیَائِيْ تَحْتَ قَبَابِيْ لَا یَعْرِفُھُمْ غَیْرِيْ" (روح المعانی، رقم الصفحۃ: 201/9، دار الکتب العملیہ، بیروت) یعنی میرے دوست اور اولیاء میری قبا کے نیچے ہیں، میرے سوا اُن کو کوئی نہیں پہچانتا۔ اور اے میرے عزیز! اللّٰہ کریم نے اس تیسری جماعت کے بارے میں ایک رمزیہ اشارہ اپنے پاک اور مقدس کلام میں لوگوں کی خاطر ظاہر کیا ہے کہ ﴿رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ...﴾ (الأحزاب: 23) ”ایمان والوں میں کتنے مرد ہیں کہ سچ کر دکھلا دیا جس بات کا عہد کیا تھا اللّٰہ تعالیٰ سے“ اے میرے پیارے اور عزیز! اللّٰہ تعالیٰ کے اس کرم و احسان اور تصدق کا کیا بیان کروں؟ ہاں! جس وقت وہ محبوب حقیقی اس جماعت کے صدق اور ثباتِ عہد کو ملاحظہ فرمائے گا تو "رِجَالٌ" کو وہی رجالیت کی خلعت عطا فرمائی جائے گی۔ پس اے عزیز تو اس وقت اپنے آپ کو رجال اللّٰہ کے زمرہ میں دیکھے گا، (اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں مقام نصیب فرمائے۔) میں نے اس تیسری جماعت کے بارے تمثیل اور تشبیہ اور اشاروں، کنایوں کے علاوہ کچھ تفصیلی بات نہیں کی۔ ﴿وَمَا یَتَّبِعُ أَکْثَرُھُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا...﴾ (یونس: 36) ”اور وہ اکثر چلتے ہیں محض اٹکل پر، بے شک اٹکل کام نہیں دیتی حق بات میں کچھ بھی“ اور میرے پیارے رسول اکرم ﷺ نے بھی اسی جماعت کے بارے میں رمزیہ طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ "إِنَّ لِلّٰہِ تَعَالٰی عِبَادًا قُلُوْبُھُمْ أَنْوَرُ مِنَ الشَّمْسِ وَفِعْلُھُمْ فِعْلُ الْأَنْبِیَاءِ وَھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ بِمَنْزِلَۃِ الشُّھَدَاءِ" (لم أجد لھذا الحديث أصلا) یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے ایسے پاک بندے ہیں جن کے دل سورج سے بھی زیادہ روشن ہوتے ہیں اور اُن کے کردار انبیاء کرام علیہم السلام کے طرح پاک اور مقدس ہوتے ہیں اور اُن کا درجہ و منزلت اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں شہیدوں جیسا ہوتا ہے۔ پس اس بارے میں رسول اکرم ﷺ نے بطور رمز و تمثیل اور تشبیہ بتا دیا ہے، لیکن اے میرے عزیز! اُن کے دلوں کا نور جو اس دنیا میں ایسا سورج ہو گا کہ دُنیا کا سورج اس کے سامنے ایسا ہو گا جیسا کہ اس سورج کے سامنے چراغ ہو۔ اور ان کے افعال انبیاء جیسے ہونگے۔ یعنی یہ پیغمبر تو نہیں ہوں گے مگر معجزوں کی طرح کرامتیں اِن سے ظاہر ہوں گی۔ یہ لوگ اگرچہ شہید نہیں ہوں گے مگر شہیدوں کا درجہ رکھیں گے۔ اور شہیدوں کا درجہ یہ ہے کہ ﴿أَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَا أَتٰاھُمُ اللّٰہُ...﴾ (آل عمران: 169) ”بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے، پیتے اور خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا اُن کو اللّٰہ تعالیٰ نے“ مگر یہ تیسری جماعت مشاہدہ اور حضوری کے رزق سے ایک لحظہ بھی بے بہرہ نہیں ہوتی۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: "إِنِّيْ لَأَعْرِفُ أَقْوَامًا ھُمْ بِمَنْزِلَتِيْ عِنْدَ اللّٰہِ" (لم أجد ہذا الجزء من الحدیث) "مَا ھُمْ بِأَنْبِیَاءَ وَلَا شُھَدَاءَ بَلْ یَغْبِطُھُمُ الْأَنْبِیَاءُ وَالشُّھَدَاءُ لِمَکَانِھِمْ وَھُمُ الْمُتَحَابُّوْنَ بِرُوْحِ اللّٰہِ تَعَالٰی" (فقہ السیرۃ للغزالی بمعناہ، رقم الصفۃ: 162، دار القلم، دمشق) یعنی میری امت سے ایک جماعت کا مجھے علم ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی قدر و منزلت میری قدر و منزلت کے برابر ہو گی حالانکہ وہ پیغمبر اور شہید نہیں ہوں گے بلکہ انبیاء اور شہداء اُن پر غبطہ (رشک) کریں گے۔ یعنی مقام اور منزلت کی رو سے یہ انبیاء و شہداء ہوں گے اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے دوستی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اِن کے اس کمال کی تعریف اور توصیف اِس مقدس حدیث کی ذریعہ سے ظاہر ہوتی ہے کہ "أَوْلِیَائِيْ تَحْتَ قَبَابِيْ لَا یَعْرِفُھُمْ غَیْرِيْ" (روح المعانی، رقم الصفحۃ: 201/9، دار الکتب العملیہ بیروت) یعنی میرے دوست اور ولی میری قبا کے نیچے ہیں اُن کو میرے علاوہ اور کوئی نہیں پہچانتا۔ اور اہل ظواہر لوگ اس تیسری جماعت کی حقیقت اور معانی سے محروم ہیں کیونکہ اُن کا تصور یہ ہے کہ اُس کے دوست اُن کے بغیر دوسرے لوگ نہیں پہچانتے، اور اس کی حقیقت اس شعر میں ہے۔ بیت:
؎بعقل ایں راہ کم رو کاندریں راہ
جہاں عقل چوں خر در خلابست
’’اس راستے پر عقل کے سہارے نہ جا، کیونکہ عقل اس راستے میں گدھے کی طرح کیچڑ میں پھنسی ہوئی ہوتی ہے‘‘۔
اب یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ ”غیری“ میں ”یاء“ جو ہے وہ یائے نسبت ہے یعنی مطلب یہ ہے: "لَا أُعَرِّفُھُمْ غَیْرَ أَحِبَّائِيْ" یعنی اللّٰہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو پہچانتا ہے اور اپنے دوستوں سے بھی اُن کی شناسائی کراتا ہے، "یَعْرِفُھُمْ غَیْرِيْ" سے مُراد یہ ہے۔ اور اگر اس ”یاء“ کو یائے نسبت نہ کہیں تو مشائخ کرام کے قول کی مخالفت لازم آتی ہے۔ چنانچہ بایزید قدّس سرُّہ العزیز فرماتے ہیں کہ میں نے تین سو اولیائے کرام کے ساتھ ملاقات کی،
تشریح:
یعنی اغیار ان کو نہیں دیکھ سکیں گے، جو اپنے ہوں گے، وہی دیکھ سکیں گے۔
متن:
اُس کے بعد قطب جناب شیخ قطب الدین بختیار اویسی قدّس سرُّہ العزیز کے حلقہ ارادت میں شامل ہوا، اسی طرح ہر ایک نے ایسے ہی روایت کی ہے۔ چنانچہ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ میں نے تین سو بیاسی ولی، قطب الاقطاب، افرادِ کامل اور اقطابِ حقیقت کو دریافت کیا ہے اور مجذوب حضرات اتنے کہ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے۔ پس معلوم ہوا کہ غیری کی ”یا“ یائے نسبت ہے۔
فائدہ:
شیخ محمد حلیم صاحب کا قول صحیح ہے، جیسا کہ کہتے ہیں اور ضرب المثل ہے کہ ''ولی را ولی مے شناسد''، یعنی ایک ولی کو دوسرا ولی ہی پہچانتا ہے۔ اے محبوب! یہ تیسری جماعت اللّٰہ تعالیٰ کا مطلوب و محبوب ہے، اور یہ اہل حقیقت ہیں اور ان کا خطاب ”رجال اللّٰہ“ ہے۔ اور یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اختیاری موت قبول کی ہے کہ "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" (ذکرہ علی القاری في الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 539، وقال: ہو من کلام الصوفیۃ) ”مرجاؤ اُس دن سے قبل کہ تم مر جاؤ“۔
تشریح:
اب ہم ان حضرات کی برکت سے ایک بات عرض کرتے ہیں۔ تین categories بیان ہوئی ہیں۔ ایک category وہ ہے، جنہوں نے آدمی ہو کر آدمیت کو چھوڑا۔ یہ تو جانوروں سے بدتر ہوں گے۔ دوسری category یہ ہے کہ انہوں نے آدمیت کو اپنایا اور جیسا کرنے کا حکم تھا، اپنی بساط کے مطابق اس طرح کر لیا۔ یہ لوگ مفلحون یعنی کامیاب ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں، جنہوں نے آدمیت کے ساتھ اپنا وہ مقام بھی پہچانا جو آدم کو اللّٰہ کے ساتھ تھا، یعنی اس کی حقیقت تک پہنچ گئے۔ جب اس حقیقت تک پہنچ گئے تو چونکہ وہ عارف باللّٰہ ہیں، لہذا اس کی وجہ سے اللّٰہ کے نزدیک ان کا مقام بہت بلند ہوا۔ لیکن چونکہ بظاہر وہ عام لوگوں کے اندر ہوتے ہیں، یعنی انہیں اپنے آپ کو چھپانا بھی آتا ہے۔ کیونکہ ایک ہوتا ہے کہ صرف کام کرنا آتا ہو لیکن اپنے آپ کو چھپانا نہ آتا ہو۔ دوسرا یہ ہے کہ کام بھی کر سکتا ہو اور اپنے آپ کو چھپانا بھی آتا ہو۔ تو انہوں نے اپنے آپ کو چھپایا ہو، لوگ ان کو نہ سمجھ سکیں۔ لیکن جو ان کی طرح تھے، انہوں نے ان کو پہچان لیا۔ یہ مقربین حضرات میں سے ہیں۔ مقربین حضرات تھوڑے ہوتے ہیں، لیکن ان کا مقام ان کی معرفت کے مطابق ہوتا ہے۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ: ’’کَلِّمُوْا النَّاسَ عَلیٰ قَدْرِ عُقُوْلِہِمْ‘‘ کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کرو۔ یہاں عقل سے معرفت مراد ہے۔ عقل کا معاملہ حقیقت تک پہنچتا ہے تو سِر بن جاتا ہے اور سِر میں ملاءِ اعلیٰ کا مشاہدہ ہے۔ ایسے لوگوں کے اعمال ان کی معرفت کے مطابق ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بات الگ ہے۔ تو حضرت فرما رہے ہیں کہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ان حضرات میں سے تھے۔ چنانچہ اس سارے بیان میں یہی بات ہے کہ اولیاء اللّٰہ کی بھی قسمیں ہیں۔ اولیاء اللّٰہ میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا جو درجہ تھا، وہ ان منتخب لوگوں میں تھا جن کو بالکل ابتدا ہی سے اللّٰہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے چنا تھا۔ اس وجہ سے ان کے ابتداءِ بچپن سے ہی ایسے واقعات ہوئے کہ جو صرف ان لوگوں کو سمجھ آ سکتے تھے جو ان چیزوں کو جانتے تھے۔ اسی وجہ سے حضرت بہادر بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کے والد نے حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی والدہ کو تسلی دی۔ بہرحال! اس بارے میں بہت سارے واقعات ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی معرفت کا جو مقام تھا، وہ ہم لوگوں سے اوجھل تھا۔ ویسے کرامات تو بہت مشہور ہیں، لیکن کرامات سے ہمیں تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ کرامات اس وقت ہو گئیں اور بات ختم۔ ہاں کرامات سے اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے آپ کم از کم ان کے مقام کو پہچان لیں گے۔ جب کہ وہ ہم پہلے سے مانتے ہیں کہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے بزرگ تھے۔ لہذا ہمیں فائدہ ہو گا، اگر ہمیں ان کی معرفت سے حصہ مل جائے، ہمیں اگر ان کے راستہ پہ چلنے کی توفیق ہو جائے، اور ہمیں بھی ان لوگوں میں شمار کیا جانے لگے جو حضرت کے ساتھ تھے۔ لہٰذا اس کے لئے حضرت کاکا صاحب کے علوم و معارف کا جاننا بہت ضروری تھا۔ اور حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب، جو خود بھی پہلے اتنے زیادہ convince نہیں تھے، چونکہ ان کی علمی مشغولیات زیادہ تھیں، زیادہ تر ہندوستان میں رہے تھے، اور بالکل آخری دنوں میں آئے۔ اس وقت ان پہ کاکا صاحب کی بات کھلی ہے۔ پھر انہوں نے حضرت کی وفات کے بعد یہ کتاب لکھی ہے۔ گویا کہ ان کو اس حوالے سے زیادہ موقع نہیں ملا تو انہوں نے اس چیز کی تلافی کرنے کی کوشش کی ہے۔ الحمد للہ! ہمارے لئے ایک بہت بڑا سرمایہ ہے کہ ہم کاکا صاحب کے علوم و معارف کے ذریعے سے جان لیں۔ اور شاید ہم لوگ بھی ان کو نہ سمجھ سکتے، اگر مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کا درس نہ شروع ہوا ہوتا۔ لہٰذا جو حضرات ان کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان کے لئے بہتر یہ ہے کہ مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مکتوبات کا جو درس ہوتا ہے، اس کو بھی ساتھ ساتھ رکھیں، تو ان شاء اللّٰہ العزیز یہ بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ سکیں گے۔ ہم خواہ مخواہ کسی پہ زبردستی تو نہیں کر سکتے کہ آپ اس کو جانو۔ کیونکہ جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ یہ ہر ایک کے لئے نہیں ہے، لیکن جن کے لئے ہے، ان کے لئے بہت بڑی بات ہے۔ کیونکہ تیسری category میں جانے کے لئے کچھ تو کرنا پڑے گا۔ ویسے تو دوسری category بھی بہت بڑی بات ہے۔ کیونکہ ایک عمومی چیز ہے، لیکن اس کی تیسری category کے لئے تو رموز و اشارے ہیں۔ جیسے ابھی جو رموز و اشارے بتا رہے تھے، وہ اسی لئے تھے کہ اگر کوئی اس میں جانا چاہے تو اس کے لئے موقع ہو۔ سب کے اوپر لازم بھی نہیں کیا، لیکن جن کے لئے اشارے ہیں، وہ ان اشاروں کو سمجھ کے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ علوم و معارف ہمارے لئے مفید ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے۔
اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ چاروں سلسلے اللّٰہ تعالیٰ نے ہم تک پہنچائے ہیں، چاروں سلسلوں کے نمائندہ اذکار یہاں پر ہوتے ہیں، سہروردی سلسلہ چونکہ تقریباً مفلوج ہوتا جا رہا تھا، حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ان علوم و معارف کی برکت سے وہ بھی ہمارے ہاں شروع ہو گیا۔ اس کا نمائندہ ذکر بھی اس میں پایا جاتا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ