حضرت صاحب کے حالات و مقالات کے بارے میں طریقت کے سالکوں کی منزلوں اور اس بارے میں حضرت صاحب کے علم کے بیان میں

باب 7 ، 8 ، درس 28

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کے بارے میں حضرت کے صاحبزادہ حضرت شیخ عبد الحلیم المعروف حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو کتاب لکھی ہے ’’مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ‘‘، اس سے تعلیم ہو رہی ہے۔ گزشتہ منگل کو چونکہ ہم سفر میں تھے، اس لئے سفر میں ہی یہ بیان ہوا تھا، اب ان شاء اللّٰہ اس سے آگے بیان ہو گا۔ حضرت فرماتے ہیں:

متن:

اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ استقامت تین قسم کی ہوتی ہے: اقوال میں، افعال میں اور احوال میں۔ شریعت لوگوں کے ساتھ رسول اللّٰہ ﷺ کے اقوال ہیں، اور طریقت رسول اللّٰہ ﷺ کا اپنے نفس کے ساتھ فعل و عمل ہے، اور حقیقت اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللّٰہ ﷺ کے احوال ہیں۔

تشریح:

اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ ہمارے لئے نمونہ بنا دیئے گئے ہیں۔ اللّٰہ پاک فرماتے ہیں: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب: 21)

ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللّٰہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔

لہٰذا ہر چیز میں آپ ﷺ کی مطابقت درکار ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کے اقوال مبارکہ کی پیروی شریعت ہے اور آپ ﷺ کا اپنے نفس کے ساتھ جو معاملہ تھا، وہ طریقت ہے اور آپ ﷺ کا اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ جو معاملہ ہے، وہ حقیقت ہے۔

متن:

"اَلشَّرِیْعَۃُ قَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ مَعَ الْخَلْقِ وَالطَّرِیْقَۃُ فِعْلُ النَّبِيِّ مَعَ النَّفْسِ وَالْحَقِیْقَۃُ أَحْوَالُ النَّبِيِّ مَعَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی" ظاہر کی استقامت یہ ہے کہ حدودِ شریعت پر عمل پیرا ہو۔

تشریح:

یعنی آپ ﷺ اعمال کا جو ڈھانچہ دے کے گئے ہیں، اس سے ہم ہرگز آگے پیچھے نہ ہوں۔ جیسا کہ فرمایا؛ ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ: 3)

ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کر لیا‘‘۔

اس لئے دین میں نہ کوئی زیادتی ہو سکتی ہے، نہ کوئی کمی ہو سکتی ہے۔ اور یہ بات صرف ظاہر پر ہی محمول کی جا سکتی ہے، کیونکہ ظاہر کو دوسرے لوگ دیکھتے ہیں۔ انسان کا باطن انسان خود دیکھتا ہے یا اللّٰہ تعالیٰ ہی اس کو دیکھتا ہے، لہذا باقی لوگ اس کی گواہی نہیں دے سکتے۔ مثلاً نماز کا ظاہر اس کا ظاہری ڈھانچہ ہے، مثلاً نماز میں قیام کرنا، اس کی نیت، قرات، رکوع، سجود اور قعدہ، الغرض جو بھی اعمال نماز کے اندر ظاہری طور پر کئے جاتے ہیں، وہ نماز کا ظاہر ہے اور اس کو شریعت کہتے ہیں اور اس نماز کے بارے میں شریعت کے احکام بھی ہیں، اس طرح روزہ کا بھی ظاہر ہے کہ روزہ اپنے وقت پہ رکھیں اور اپنے وقت پہ کھول دیں، اور تین چیزوں سے پرہیز کریں۔ یہ روزہ کی شریعت ہے یعنی روزے کے یہ ظاہری احکام ہیں۔ اس طرح زکوٰۃ کے بارے میں حکم ہے کہ جب صاحبِ نصاب پر سال پورا ہو جائے تو اس رقم سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ دے گا۔ اسی طرح جب انسان حج کے اعمال پورے کرے گا تو وہ شریعت کا ظاہر ہے۔ اسی طرح معاملات کا بھی ظاہر ہے، معاشرت کا ظاہر ہے، اخلاق کا ظاہر ہے۔ چنانچہ یہ سارے شریعت میں آتے ہیں۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی، کیونکہ آپ ﷺ کی نماز کا ایک باطن بھی تھا جیسے خشوع خضوع ہے، جس کی خبر دی گئی ہے۔ چنانچہ ریاض الصالحین میں انہی چیزوں کی خبر دی گئی ہے کہ آپ ﷺ نے خشوع کے بارے میں کیا فرمایا ہے، آپ ﷺ نے اخلاص کے بارے میں کیا فرمایا ہے، آپ ﷺ نے تواضع کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔ ان باتوں کے بارے میں احادیث شریفہ موجود ہیں اور قرآن پاک میں بھی اس کی تعلیمات اور اشارے موجود ہیں۔ یہ باطنی شریعت ہے اور یہ آپ ﷺ کا اپنے نفس کے ساتھ عمل تھا۔ یعنی اپنے نفس کو ان چیزوں کے اوپر لے آئے تھے، نفس اگر کچھ اور کرنا چاہتا ہے تو اس کو زبردستی اس پہ لانا پڑتا ہے، آپ ﷺ کا نفس چونکہ نفسِ مطمئنہ تھا، لہذا نفس کے ساتھ آپ ﷺ نے جو معاملہ کیا، وہ ہمیں بھی کرنا پڑے گا، یہاں تک کہ نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے۔ جب نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے گا تو ہمارے نفس کو شریعت پر چلنے میں باطنی و ظاہری اطمینان ہو جائے گا۔ اسی طرح اللّٰہ کے ساتھ ہمارا معاملہ بھی اسی طرح ہونا چاہئے جس طریقے سے آپ ﷺ نے کیا تھا۔

متن:

ظاہر کی استقامت یہ ہے کہ حدودِ شریعت پر عمل پیرا ہو اور باطن کی استقامت یہ ہے کہ ما سوی اللّٰہ کی نفی کر لی جائے۔

تشریح:

یعنی اللّٰہ جل شانہ ہی کے ساتھ ہم معاملہ صاف رکھیں اور ما سویٰ اللّٰہ کی ہم قولاً و فعلاً عملاً نفی کریں، یہ باطن شریعت ہے: ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْ رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (الأحقاف: 13)

ترجمہ: ’’یقینا جن لوگوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ: ہمارا پروردگار اللّٰہ ہے، پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، تو ان پر نہ کوئی خوف طاری ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔

یہ استقامت اپنے قول پر ثابت قدم ہونے کی ہے، یعنی یہ جو ہم ’’رَبُّنَا اللّٰہُ‘‘ کہہ رہے ہیں، اس کے اوپر ثابت قدمی ہونی چاہیے۔ ’’رَبُّنَا اللّٰہُ‘‘ (رب ہمارے اللّٰہ ہیں) جب اس کو ظاہری طور پر کہہ دیتے ہیں تو یہ قول ہو گیا۔ لیکن اس کے اوپر ہماری استقامت باطن ہے، کیونکہ ہم اس کے اوپر کتنے جمے ہوئے ہیں اور اپنے رب کو کیسے رب سمجھتے ہیں؟ کیا ہم لوگ دوسروں پر تکیہ کرتے ہیں یا اللّٰہ پر تکیہ کرتے ہیں؟ کیا ہم اللّٰہ سے مانگتے ہیں یا دوسروں سے مانگتے ہیں؟ یہ ساری باتیں اس کی حقیقت ہیں۔ اس لئے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْ رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا، تو استقامت سے اس کی تکمیل ہو جاتی ہیں، پھر اللّٰہ جل شانہ اس پر ثمرہ مرتب فرماتے ہیں۔

متن:

ایسے لوگوں کے لئے بڑا اجر ہے جو کہ صاحبِ استقامت ہوتے ہیں۔ "اِسْتَقِیْمُوْا وَلَا تُحْصُوْا" ”ثابت قدم رہو اور حساب نہ کرو“ کیونکہ حساب کرنا کرانا مشکل کام ہے جو کہ نہیں کرنا چاہیے۔

حضرت صاحب کو اس بلند ہمتی اور ثابت قدمی سے بہت زیادہ حصہ اور قابلِ قدر نصیب حاصل ہو چکا تھا، ہمت کی بلندیوں کا ہُما ان کے سر پر بیٹھ گیا تھا اور وہ استقامت و ثابت قدمی کی سلطنت حاصل کر چکے تھے، اور عالی ہمتوں سے میدان میں بازی جیت چکے تھے اور قرنوں اور زمانوں میں ہمت کا تاج ان کے سر پر رکھ کر اُن کو سرفراز کیا گیا تھا،

ایک ہوتا ہے کسی چیز کا کہنا اور ایک ہوتا ہے کسی چیز کو کر دکھانا، ان دونوں میں فرق ہے، مثلاً میں اخلاص کے بارے میں بات کرتا ہوں تو یہ اخلاص کے بارے میں کہنا ہے۔ لیکن اخلاص کا معاملہ کرنا، یہ اخلاص کر دکھانا ہے۔ اس طرح عاجزی کی بات کرنا ہے، جیسے آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کہنے کا بہت رواج ہے کہ حقیر پر تکسیر، عاجز مسکین۔ الفاظ کم نہیں ہیں، اتنے الفاظ ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے، بالکل شاعری ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ تھوڑا سا ٹیسٹ کے لئے کہیں کہ حضرت آپ کیسے غلط کہہ سکتے ہیں؟ ویسے آپ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ پھر دیکھیں کہ وہ کیا سمجھتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ہماری ظاہری باتیں ہیں، ظاہری باتوں سے فیصلے نہیں ہوا کرتے، ظاہری باتوں سے بس ظاہر ہی بنتا ہے، اس سے آگے بات نہیں ہوتی۔

خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھول سے

کیونکہ کاغذ کے پھول میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بہرحال ایک ہوتا ہے کر دیکھانا، تو حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا معاملہ ایسا تھا کہ قول و عمل سے ہر چیز کو ثابت کر چکے تھے اور اس طرح کرتے رہے اور اس پر ہزاروں لوگوں گواہ ہیں کہ انہوں نے کس طریقے سے معاملہ کیا۔ حضرت بھی اس کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو حاصل کر چکے تھے۔ فرمایا:

متن:

حاتم طائی کو نیستی اور کمزوری و کمتری کی بھٹی میں جھونک کر پگھلا دیا تھا، اپنے زمانے میں اپنی مثال آپ تھے، کوئی دوسرا آپ کی نظیر نہیں تھا، دردِ محبت میں غرق رہتے تھے، سینے میں عشق و محبت کی آگ فروزاں تھی جس سے دل پر نور تھا، عشق کی راہ میں سر بریدہ اور مقتول و شہید تھے اور "مُوْتُوْا قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" ”مرنے سے پہلے مر جاؤ“ کی زندہ مثال تھے، اور اسی وجہ سے حَیات ابدی کی سعادت و شرف حاصل کر چکے تھے۔ "أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا یَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنْ یَنْقَلِبُوْنَ مِنْ دَارٍ إِلٰی دَارٍ" ”آگاہ رہ کہ اولیاء اللّٰہ مرتے نہیں، بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کو منتقل ہوتے ہیں“ یہ مقام انہیں حاصل ہو گیا تھا اور ان ابیات کے مصداق بن چکے تھے، ابیات:؎

با درد بساز کہ دوائے تو منم

با کس منگر کہ اشنائے تو منم

گر بر سر کوئے عشق من کشتہ شوی

شکرانہ بده کہ خون بہائے تو منم

’’اس درد کے ساتھ نباہ کر کیونکہ میں تیری دوا ہوں اور کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ کیونکہ میں تیرا دوست ہوں اگر تم میرے عشق کی راہ میں قتل کئے جاؤ تو اس بات پر شکر ادا کر، کیونکہ اس کے بدلے میں بذاتِ خود تیرا خون بہا ہوں۔‘‘ (یعنی اس کے بدلے میں مل جاؤں گا) بادۂ الست سے مخمور تھے، جذباتِ حق کے مجذوب بن چکے تھے اور عشق و محبت کی شراب سے مدہوش و بے خود تھے، آپ کی سوز و محبت کے بارے میں دوسرے اشعار، ؎

در یاد تو اے دوست چنان مشغولم

صد تیغ گر زنی بسرم نخروشم

آہے کہ ز غم بیاد تو وقتِ سحر

گر ہر دو جہان را بدہند نہ فروشم

’’اے دوست تمہاری یاد میں ایسا از خود رفتہ ہوں کہ اگر مجھے سو تلوار بھی مارے جائیں تو میں فریاد نہیں کروں گا، صبح کے وقت تمہارے غم کی یاد میں جو آہ نکالتا ہوں، اگر مجھے دونوں جہاں بھی دیئے جائیں تو میں اس آہ کو اِن دونوں جہانوں کے بدلے فروخت نہیں کروں گا۔‘‘

آپ کے عشق اور سوز و محبت کے بارے میں مزید اشعار: ؎

آن کس ترا شناخت جان را چہ کند

فرزند و عیال و خانمان را چہ کند

دیوانہ کنی و ہر دو جہانش بخشی

دیوانہ تو ہر دو جہان را چہ کند

اُسے دیوانہ بنا کر اگر دونوں جہانوں کو عطا کرے

تو آپ کا دیوانہ دونوں جہانوں کو کیا کرتا ہے

جو کوئی تجھے پہچان لیں تو وہ روح کو کیا کرتا ہے

اور فرزند اور بال بچہ اور اپنے خاندان کو کیا کرتا ہے

؎ سوزے تو درونم و عشق تو در سرم

یا سوز در دروں شود و یا جان بدر رود

’’تمہارا سوز و محبت میرے اندر ہے اور تمہارا عشق میرے سر میں ہے یا تو یہ سوز اندر ہو گا یا اندر سے جان نکل کر باہر آئے گا۔‘‘

اصل میں حضرت کی زندگی کے بارے میں یہ جتنی بھی باتیں ہیں، چونکہ یہ معاملہ اللّٰہ کے ساتھ ہے، اس وجہ سے ہم اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتے اور کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ لیکن حضرت کو یہ جو حالات نصیب ہوئے تھے، اس سے پتا چلتا ہے کہ معاملہ اس سے بھی آگے تھا، کیونکہ جس وقت حضرت فوت ہوئے تھے وہ جمعہ کا دن تھا، خطبہ پڑھا جا رہا تھا اور اس وقت خطبہ میں یہ الفاظ پڑھے جا رہے تھے: ’’اَلْمَوْتُ جَسْرٌ يُّوْصِلُ الْحَبِيْبَ اِلىَ الْحَبِيْبِ‘‘۔ ’’موت ایک پل ہے جو حبیب کو حبیب سے ملا دیتا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی حضرت کی جان نکل گئی۔ اندازہ کریں کہ جمعہ کا دن ہے اور جمعہ کا خطبہ ہو رہا ہو اور ایسے الفاظ ہوں۔ یہ موت کسی کے بس میں نہیں ہے، کیونکہ موت انسان کے بس میں نہیں ہے، وہ تو اللّٰہ تعالیٰ ہی لاتا ہے۔ لہٰذا اس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت کا معاملہ بہت زیادہ اونچا تھا۔ اور جو حضرات جاننے والے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ kpk میں جو بزرگ گزرے ہیں، ابھی تک حضرت کی جگہ خالی ہے۔ یعنی اس کے بعد کوئی اور ایسا بزرگ نہیں آیا جس مقام پہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے۔ واقعتاً اللّٰہ جل شانہ نے ان کو جو مقام دیا تھا وہ بہت اونچا دیا تھا اور صحیح بات ہے کہ انہوں نے زندگی کو ذرہ بھر بھی ایسا نہ سمجھا تھا کہ جس میں کوئی عیش بھی کرتا ہے۔ ایک ہوتا ہے مجاہدہ کرنا اور اپنے اوپر جبر کرنا۔ نہیں ایسا نہیں تھا! بلکہ انہوں نے دنیا کو اس قابل سمجھا ہی نہیں تھا۔ جیسے کہتے ہیں دنیا کسی کے اوپر کنواری لڑکی کی شکل میں متمثل ہوئی تو اس نے کہا تو کیوں کنواری ہے؟ اس نے کہا کہ جو میرا شوق رکھتے ہیں وہ مرد نہیں ہیں اور جو مرد ہیں وہ میری پروا نہیں کرتے، اب وہ مجھے منہ بھی نہیں لگاتے۔ واقعتاً مردانِ خدا دنیا کو دوست نہیں رکھتے، وہ دنیا کے ساتھ کچھ بھی رابطہ نہیں رکھتے۔ جیسے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا میرا دنیا سے کیا لینا دینا، دنیا تو ایسے ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کے سایہ کے نیچے تھوڑی دیر کے لئے سستانے کے لئے ٹھہر جائے اور پھر آگے چل دے۔ بس دنیا کی حالت ایسی ہی ہے۔ میں صحیح بات عرض کرتا ہوں اللّٰہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، میں کیا بات کروں گا، ہم تو بہت کمزور لوگ ہیں۔ بہرحال میں اپنے الفاظ سے ادا کروں یا نہ کروں، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ اللّٰہ پاک نے فرمایا: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذریت: 56)

ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔

لہٰذا ہمارا یہاں پر آنا اس مقصد کے لئے ہے کہ ہم یہاں عبادت کریں۔ اور عبادت کرنے کے لئے ہمیں زندگی چاہیے اور صحت چاہیے۔ یہ دو چیزیں چاہئیں ہو گی۔ اب ہم کھائیں پئیں اپنی زندگی اور صحت کے لئے تاکہ ہم عبادت کر سکیں۔ اسی لئے اس چیز کی اجازت دی گئی ہے، اس لئے نہیں کہ ہم کھانے پینے کے لئے آئے ہیں، کھانے پینے کے لئے نہیں آئے، بلکہ عبادت کے لئے آئے ہیں۔ ہاں! عبادت کرنے کے لئے ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا ان کی اتنی اجازت دی گئی جتنے کے ساتھ ہم یہ کام کر سکیں۔ اس کے علاوہ مکان جو حفاظت کے لئے ہوتا ہے اور وہ بھی اسی مقصد کے لئے ہے۔ الغرض جتنی بھی گنجائشیں اور رخصتیں ہیں، ان کی یہی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اس کو مقصد بنا لیں۔ اگر ہم نے زندگی کو اور زندگی کے مزوں کو اپنا مقصد بنا لیا تو ہم نے زندگی کو پہچانا ہی نہیں۔ ہم نے اس کی قدر نہیں کی۔ اللّٰہ پاک نے جس مقصد کے لئے یہ دی ہے، اس کی ہم نے قدر نہیں کی۔ مثلاً ایک شخص کو سونے کی کان کے اوپر لگا دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ کدال لے لو اور سونے کی کان سے جتنا سونا نکال سکتے ہو نکال لو۔ کیا اس وقت وہ آرام کا سوچ سکے گا؟ کسی کے ساتھ گپ شپ لگانے کا سوچ سکے گا؟ کتنا کھائے گا؟ کھانے میں کتنا وقت لگائے گا؟ بس یہی بات ہے کہ ہم اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ اگر ہم زندگی کی قیمت سمجھ لیں کہ زندگی کا ایک بہت بڑا مقصد ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس زندگی کو ہم صحیح استعمال کریں، اس زندگی کے لئے کام کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہاں آرام کے لئے آئے ہیں، آرام کے لئے نہیں آئے۔ کسی غیر مسلم سے پوچھو تو وہ اپنی زندگی کا کوئی مقصد بتائے گا، جو خالصتاً دنیاوی ہو گا، مثلاً مجھے آرام حاصل ہو جائے، مجھے جو یہ مقام حاصل ہو جائے، مجھے یہ حاصل ہو جائے۔ یہ سب دنیا کی چیزیں ہیں۔ کیا ہم بھی انہی کی طرح کریں گے؟ ہاں! وہ کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس تو یہ دنیا ہی ہے، اس کے علاوہ ان کے پاس اور کچھ نہیں ہے۔ آپ اگر کافروں کو دیکھیں تو کبھی ان کی چیزوں کو دیکھ کر منہ میں پانی نہیں بھرنا چاہیے کہ یہ اتنے مزوں میں ہیں۔ بلکہ ان پر حسرت کی نگاہ کرنی چاہیے کہ او ہو! دیکھو! یہ کیسے مصیبت میں ہیں۔ دیکھو! تھوڑی دیر کے لئے ان کو مزے دیئے گئے ہیں، اگر انہوں نے توبہ نہ کی اور ایمان نہ لائے تو ابھی ہمیشہ کی تباہیوں میں جانے والے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اچھا خاصا مرغن کھانا کسی ایسے شخص کو آخری خواہش کے طور پر کھلایا جا رہا ہو جس کو ابھی چھ گھنٹے کے بعد پھانسی دی جانے والی ہو۔ اس مرغن کھانے کو دیکھ کر کیا ہمارے منہ میں پانی آ سکتا ہے کہ یہ کیسے مزے کا کھانا کھا رہا ہے؟ کوئی یہ سوچ سکتا ہے؟ ظاہر ہے کوئی بھی نہیں سوچ سکتا۔ کیونکہ وہ مرغن کھانا اس کو اس پر ترس کر کے دیا جا رہا ہے کہ اس بیچارے کو ابھی پھانسی دی جا رہی ہے تو اس کی آخری خواہش پوری کر دی جائے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس کو چھ گھنٹے کے لئے بادشاہ بھی بنا دیا جائے تو وہ بھی کچھ بھی نہیں ہے، اس کو وہ کیا کرے گا۔ لیکن اگر وہاں کی بشارت دے دی جائے کہ وہاں تم کامیاب ہو، تو یہ بہت بڑی بات ہو گی۔ چنانچہ ہم لوگوں کو اس معنی میں دنیا کو لینا چاہئے۔ اور اگر کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہتے ہو تو یہی چیز ملے گی۔ صرف کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی نہیں، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجعمین، آپ ﷺ، تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو آپ ایسے ہی دیکھیں گے۔ یعنی دنیا چیز ہی ایسی ہے کہ جس نے بھی حقیقت کی راہ اپنا لی ہے، انہوں نے اس دنیا کو کچھ نہیں سمجھا۔ اور جنہوں نے دھوکہ کھایا ہے، بلکہ اس کو دھوکہ ہی کہا گیا ہے: ﴿مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (آل عمران: 185) تو جس نے دھوکا کھایا ہے وہ اس کے اندر پھنسا ہوا ہے، پتا نہیں وہ کیا کیا کر رہا ہے۔ جیسے ابھی راحیل شریف ریٹائر ہوئے ہیں، ما شاء اللّٰہ شریف جرنل تھے اور بہت نام کمایا، لیکن بس ختم ہو گیا۔ اب موجودہ جرنل صاحب آ گئے ہیں۔ ان کا بھی ایک tenure ہے وہ بھی اسی طریقے سے گزر جائے گا۔ جیسے اشفاق کیانی بھی ایک عام زندگی گزار رہے ہیں۔ چنانچہ اس کو ہم موجودہ صورت میں دیکھتے ہیں، لیکن اگر اس کو مستقبل کے خانہ میں رکھ دیں تو پتا چل جائے کہ وہ چیز کیا ہے۔ اصل میں ظاہری نشو و نما اور چیز ہے اور باطنی مقام اور چیز ہے۔ جن کو باطنی مقام نظر آتا ہے وہ ظاہر کی بالکل پروا نہیں کرتے۔ میں دنیا کی ایک مثال دیتا ہوں۔ کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ اپنے کپڑوں کی اتنی پروا نہیں کرتے، اور جو بیچارے ذرہ Lower scale کے معاشرے میں رہتے ہیں، وہ بہت پروا کرتے ہیں، ان کو بہت فکر ہوتی ہے کہ کہیں یہ نہ ہو جائے، کہیں یہ نہ ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ ہوتے ہیں وہ مشہور ہوتے ہیں، ان کے بارے میں پتا ہوتا ہے، چاہے وہ Sleeping suit میں بھی باہر آ جائیں تو لوگ کہیں گے کہ یہ شہزادہ ہے یا یہ فلاں کمشنر ہے یا فلاں ہے۔ ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ اور دوسروں کو کپڑوں کے ذریعے سے ناپا جائے گا، باتوں کے ذریعے سے ناپا جائے گا۔ میں میجر جرنل بادشاہ کے ساتھ ملا ہوں، جس وقت میں ان کے آفس میں گیا تو وہ باقاعدہ اٹھے اور میرے ساتھ صوفے پہ بیٹھے اور چائے منگوا لی، اور باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ یہ جو لوگ نظر آ رہے ہیں، ان کے گھر میں کچھ نہیں ہے، ان کے لئے بس وردی ہی وردی ہے، وردی میں خوش ہیں، کیوں ان کے پاس وردی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اور کہا کہ خاندانی لوگوں کو ان چیزوں کی پروا نہیں ہوتی۔ یہ ایک جرنل کی بات ہے۔ اللّٰہ پاک نے ان کو مقام بھی ایسا دیا۔ پشاور روڈ پر ایک ایکسیڈنٹ میں ان کی شہادت ہوئی۔ آرمی کی کانوائے آ رہی تھی اور یہ اس وقت سول لباس میں تھے، آرمی کے لباس میں نہیں تھے۔ بہرحال آرمی والوں نے جب ان کا شناختی کارڈ دیکھا تو سلوٹ کیا۔ انہوں نے کہا: یہ کیا کر رہے ہو؟ کلمہ پڑھنے کا وقت ہے، سب کلمہ پڑھو۔ سب کو کلمہ پڑھایا اور فوت ہو گئے۔ یہ ان کے دل کی بات تھی۔ اور یہ صحیح بات تھی، ان کے لئے وردی سب کچھ نہیں تھی، لہذا اللّٰہ تعالیٰ نے آخر میں موت بھی ایسی دے دی۔ بات کے سچے تھے، یعنی جو کچھ کہہ رہے تھے وہ ان کے ساتھ تھا۔ کیونکہ عین آخر وقت میں جب اس قسم کی بات یاد آ جائے تو یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ لوگ ان کو کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے، انہوں نے اخیر وقت میں سب کو کلمہ پڑھایا اور پھر فوت ہو گئے۔ جن کو ظاہر نظر آتا ہے وہ ظاہر میں مست ہوتے ہیں اور وہ ظاہر کے اوپر نازاں ہوتے ہیں کہ میں ایسا اور میں ایسا۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، جب ہم ترکی گئے تھے تو دیکھا کہ وہاں ایک بہت بڑا میوزیم ہے جس میں انہوں نے پرانے بادشاہوں کے کپڑے، کرسی اور ساری چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ لوگ آ کر تھوڑی دیر کے لئے وہاں بادشاہ بن جاتے ہیں، اس کی کچھ فیس ہے جو وہ ادا کرتے ہیں تو وہ ان کو کپڑے پہنا دیتے ہیں اور اس کرسی پہ بیٹھا دیتے ہیں، پھر لوگ اس کی تصویر لیتے ہیں۔ تو جو شخص وہاں بیٹھا ہوا ہو، کیا وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے؟ اپنے آپ کو ایکٹر ہی سمجھ سکتا ہے اور کیا سمجھ سکتا ہے۔ میں ایک دوسری مثال دیتا ہوں جو میرے خیال میں پہلی مثال سے زیادہ قوی مثال ہے۔ جیسے عورتوں کو زیور بہت پسند ہوتا ہے، عورتیں زیور پہ مری مٹی ہوتی ہیں۔ آج کل artifical زیور آ رہا ہے، جس کے بارے میں ہمارے صوبہ سرحد میں پشتو میں کہتے ہیں: ’’دَ ناوې مور خفه دَ هلک مور خوشاله‘‘ یعنی دلہن کی ماں اس سے خفا ہوتی ہے اور لڑکے کی ماں اس سے خوش ہوتی ہے۔ حالانکہ artifical زیور اصل زیور سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے لیکن کیا کوئی artifical زیور پسند کرتا ہے؟ اگر کسی عورت کو پتا ہو کہ یہ artifical ہے تو وہ جل جاتی ہے۔ حالانکہ بڑا خوبصورت ہوتا ہے۔ لیکن ان کو پتا ہوتا ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ سونا نہیں ہے، ویسے ہی ملمع سازی کی گئی ہے۔ اسی طرح اگر ہم دنیا کے اسی ملمع سازی پر مر مٹے تو ہم نے اپنا وقت ضائع کر دیا، اپنے آپ کو ضائع کر دیا۔ لیکن دنیا کی حقیقت بہت گہری ہے ’’اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ‘‘ کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ آخرت میں ہم جو کچھ بھی حاصل کرتے ہیں اس دنیا کی بنیاد پر کرتے ہیں، ہمارا سارا کچھ اسی دنیا کی بنیاد پر ہے۔ یعنی جب تک روح اور جسم کا رشتہ قائم ہے اعمال ہیں۔ جب روح اور جسم کا رشتہ ختم ہو گیا، تو اس کے بعد چاہے آپ روزانہ قرآن پاک کا ایک ختم کریں۔ ایسے خوش نصیب بھی ہیں جو قبر میں بھی تلاوت کرتے ہیں، نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ حدیث شریف سے بھی یہ ثابت ہے، بعض پیغمبروں کے بارے میں آتا ہے، جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اس لئے یہ ممکن ہے۔ لیکن وہاں اس کا اجر نہیں ہے، وہ صرف شوقیہ طور پہ کر رہے ہوتے ہیں، خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں اس کا اجر ہے۔

اگر کسی کا عالمِ ارواح میں کسی کے ساتھ رابطہ ہو جائے تو وہ اس کو بتائیں گے کہ تم جہاں پر ہو، اس پر ہمیں رشک آتا ہے، کیونکہ تم ایک دفعہ سبحان اللّٰہ کہتے ہو تو تمہارا کام بن جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے پاس یہ چیز نہیں ہے۔ اس لئے جو مسلمان فوت ہو جائے تو اس کے لئے سب سے بڑی چیز ایصالِ ثواب ہوتا ہے۔ اور ایصالِ ثواب زندہ کا عمل ہوتا ہے۔ اور زندہ جو عمل کرتا ہے چاہے وہ ایک دفعہ سبحان اللّٰہ کہے، اگر اخلاص کے ساتھ کہا گیا تو اس کا بہت زیادہ اجر ہوتا ہے اور وہ اس کو مل جاتا ہے۔

متن:

آٹھواں باب

طریقت کے سالکوں کی منزل اور اس بارے میں حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے علم کے بیان میں

راہِ طریقت کی منزلوں میں ہمارے حضرت شیخ المشائخ صاحب کے نقوشِ قدم ثبت تھے اور وہ اُن منازلِ سلوک و طریقت کے رمز آشنا تھے، اور اس مشکل راہ کی مشکلات میں اپنی ثابت قدمی کی وجہ سے مشہور تھے۔ حقیقت کی شاہراہ کے حق شناس اور اس راہِ قربت کے راہرؤوں کے پیش رَو تھے۔ بادۂ عرفان سے مست تھے، دفترِ عشق کے قاری اور دریائے معرفت کے غوطہ زن تھے۔

ابیات ؎

گر ز سوز عشق او داری خبر

جان بدہ در عشق جانان و نگر

چوں کسے از عشق ہر گز جان نبرد

گر تو ہم از عاشقانی جان مبر

عشق دریائے ست قعرش ناپدید

آبِ دریا و آتش موجش نگر

سر کشی از ہر دو عالم ہمچو موئے

گر سر موئے ازاں یابی خبر

گوہر اسرار ہر سرے ازو

سوئے آں حضرت دل تو راهبر

’’اگر تم کو سوزِ عشق سے کچھ آگاہی ہو تو معشوق کے عشق میں جان دے کر دیکھئے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عشق کی وجہ سے کوئی جان سلامت نہیں لے گیا ہے اگر تم بھی زمرۂ عشاق میں سے اپنے آپ کو شمار کرتے ہو تو اپنی جان کی پرواہ کر کے اسے سلامت نہ لے جا۔ عشق ایک ایسا سمندر ہے کہ جس کی گہرائی‘‘۔

تشریح:

میں آپ کو کیا بتاؤں۔ تھوڑی سی مشکل چیزیں ہیں، ان کو سمجھانا مشکل ہے۔ ہماری آنکھیں، ہمارے کان، ہماری زبان، ہمارا دماغ، ہاتھ، پاؤں، سب الحمد للہ اللّٰہ کی نعمتیں ہیں۔ اگر میں ان کو قبر میں سلامت لے گیا تو یہ بھی ایک کنڈیشن ہے اور اگر میں ان کو اللّٰہ کے لئے سو فیصد استعمال کر کے لے گیا تو یہ بھی ایک کنڈیشن ہے۔ ان میں کون سی کنڈیشن اچھی ہے؟ مثلاً میری نظر اللّٰہ کے راستے میں مسلسل کمزور ہو رہی ہے، اور ساری اللّٰہ کے راستے میں استعمال ہوئی۔ اس کے بدلے میں وہاں کیا ملے گا؟ اسی طرح میرے کان استعمال ہو رہے ہیں، میری زبان استعمال ہو رہی ہے، اللّٰہ کے راستے میں۔ اور یہ سارے کا سارا اللّٰہ قبول فرمائے تو سبحان اللّٰہ کیا بات ہے! لیکن اگر میں ان کو مستقل لے گیا، پورے کا پورا لے گیا تو کیا فائدہ ہوا؟ جو عاشق ہوتا ہے وہ تو کہتا ہے کہ میں اپنے محبوب پہ جان فدا کر لوں۔ چنانچہ یہی ہوتا ہے کہ محبوب کے لئے اس کے پاس جو کچھ ہے، وہ لگا دے، اپنے لئے کچھ نہ چھوڑے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ صوفی بھی تھے اور فقیہ بھی تھے۔ ایسے صوفی تھے کہ ان کو اپنے استاد بھی صوفی کہہ کے پکارتے تھے۔ یعنی اس وقت ہی صوفی لقب مشہور ہو گیا تھا۔ بہرحال چونکہ صوفی بھی تھے اور فقیہ بھی تھے، اس لئے فقہاء بھی ان کے پاس آتے تھے، بات چیت کے لئے، علمی استفادے کے لئے۔ اور مشائخ، اولیاء اللّٰہ، صوفیاء بھی آتے تھے۔ کبھی کبھی ایسی حالت ہوتی کہ دونوں موجود ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ایک ظاہری عالم اور ایک فقیر یعنی باطنی صوفی ان کے ہاں جمع تھے۔ اس عالم کو تھوڑی سی شرارت سوجھ رہی تھی کہ میں صوفی کو کسی علمی نقطہ میں گھیر لوں۔ گویا ادھر بھی یہ چیزیں تھیں۔ امام احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ تاڑ گئے کہ یہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ حضرت نے اس کو روکا کہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے، اس کو نہ چھیڑو۔ لیکن بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تھوڑی سی کوئی کُشتی وغیرہ جانتے ہوں یا کوئی اور گُر جانتے ہوں تو اس کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اس کو اپنے علم پر ناز ہو گا۔ صوفی صاحب سے کہا کہ کچھ زکوٰۃ کے بارے میں بھی جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: کن کی زکوٰۃ؟ امراء کی یا فقراء کی؟ یہ سوال بڑا عجیب تھا۔ عالم نے کہا کہ ہم نے تو صرف امراء کی زکوٰۃ کا سنا ہے۔ لیکن چلو تم دونوں بتاؤ۔ انہوں نے کہا کہ امراء کی زکوٰۃ تو یہ ہے کہ اگر صاحبِ نصاب ہے تو ایک سال گزرنے کے بعد جتنی رقم اس کے پاس ہے، اس کا ڈھائی فیصد ادا کرے۔ اور فقراء کی زکوٰۃ یہ ہے کہ سارا مال خیرات کر دے اور اس پہ اللّٰہ سے معافی مانگے کہ میں نے جمع کیوں کیا تھا۔ عالم صاحب نے کہا کہ اس پر کیا دلیل ہے؟ انہوں نے کہا: دلیل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ان سے فرمایا: اب جواب دو، میں نے کہا نہیں تھا کہ ان کو نہ چھیڑو، لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ یہ انہوں نے افضل البشر بعد الانبیاء کی مثال دے دی کہ جو سارا کچھ لے کے آئے تھے اور یہ فرمایا تھا کہ بس اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول کا نام گھر والوں کے لئے کافی ہے۔ یہ بات تو صحیح ہے۔ بہرحال جو اس زندگی کی حقیقت کو جانتے ہیں، ان کا قول و عمل الگ ہوتا ہے اور جو نہیں جانتے ان کی حالت اور ہوتی ہے۔ حضرت حاتم اصم رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک بزرگ گزرے ہیں، اس وقت علماء کی بڑی قدر دانی تھی، ان کے ہاں بڑی فراوانی ہوتی تھی، بادشاہ بھی ان کے بڑے قدر دان ہوتے تھے اور لوگ بھی قدر دان ہوتے تھے۔ صوفیاء کرام فقر کی زندگی گزارتے تھے۔ امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب تک صرف عالم تھے تو بڑی شاہانہ زندگی گزار رہے تھے، جب فقیر ہو گئے تو بس فقیر ہو گئے، پھر ان کا معاملہ بالکل بدل گیا۔

بہرحال حاتم اصم رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک مفتی صاحب کے مہمان ہو گئے، جو اپنے وقت کے بڑے مفتی تھے۔ مفتی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت چونکہ علماء کی مجلس میں ہوں تو ان سے کوئی نہ کوئی علم حاصل ہونا چاہیے، اس لئے میں آپ سے کچھ استفادہ کرنا چاہتا ہوں۔ کہا: فرمائیے۔ کہا: مجھے وضو سیکھا دیجئے، میں آپ کے سامنے وضو کرتا ہوں، اگر کوئی غلطی ہو تو اس کو پکڑیں اور مجھے بتا دیجئے۔ مفتی صاحب نے کہا: بالکل ٹھیک ہے، کر لیں، کیا مشکل ہے۔ جب وہ وضو کر رہے تھے تو چہرے پر چار دفعہ پانی ڈالا۔ مفتی صاحب نے کہا: رک جائیں، آپ نے پانی ایک دفعہ زیادہ ڈالا ہے۔ کہا: چلو زیادہ صفائی ہو گئی۔ انہوں نے کہا: نہیں، یہ اسراف ہے، خلافِ سنت ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے، نماز ہو جائے گی، لیکن آپ کا وضو کامل نہیں ہے، کیونکہ آپ نے خلافِ سنت عمل کیا ہے اور پانی کا اسراف کیا ہے۔ کہا: اچھا یہ اسراف ہے۔ اب کبھی وہ صوفہ کو دیکھ رہے ہیں کہ یہ اسراف ہے۔ کبھی پردوں کو دیکھ رہے ہیں کہ یہ اسراف ہے۔ کبھی فانوس کو دیکھ رہے ہیں کہ یہ اسراف ہے۔ ایک ایک چیز کو دیکھ رہے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں کہ اچھا یہ اسراف ہے۔ اس طرح ساری چیزیں بتا دیں۔ انہوں نے کہا: اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اجر دے، آپ نے مجھے سیکھا دیا، میں خیال کروں گا، توبہ کرتا ہوں۔ بس یہی چیز ہوتی ہے کہ سمجھانا آنا چاہئے۔ یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ جو ہم کرتے ہیں کہ ہم چیزوں کے پیچھے چھپتے ہیں، اپنی اصل چھپاتے ہیں شریعت میں کسی اور چیز کے لئے کوئی گنجائش ہو گی، اس کو سامنے کر کے ہم کہتے ہیں ہم اس وجہ سے یہ کام نہیں کر رہے۔ وہ گنجائش حقیقتاً کسی اور چیز کے لئے ہو گی اور اس کو ہم بنیاد بنا کر کے کہتے ہیں کہ یہ گنجائش میرے لئے ہے۔ انسان جب تک اپنے نفس کا عاشق ہے، ایسے ہی مار کھاتا رہے گا۔ اس طرح ہی کرے گا چاہے اس کو مانے یا نہ مانے، استاذوں کی تعریف کرے گا تو اس میں بھی یہ چیز ہو گی۔ اپنے پیروں کی تعریف کرے گا تو اس میں بھی یہ چیز ہو گی، ہر چیز میں اس کی یہی بات ہو گی کہ دیکھو! میں کیسا ہوں، میں کیسا ہوں۔ بات پیر کی کرے گا لیکن اندر اپنی تعریف ہو گی کہ میرا پیر ایسا ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں ہم گنجائشوں اور رخصتوں کی آڑ لیتے ہیں، ہم دوسری چیزوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ ہم اپنی خواہشات ان چیزوں سے پورا کرتے ہیں، نام بدل بدل کے ہم چیزوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اپنی خواہش کے لئے یہ طریقہ ہوتا ہے۔ یہ کب ختم ہو گا؟ کیسے ختم ہو گا؟ سب سے پہلے تو آئینہ کی ضرورت ہے، اپنا آپ نظر تو آئے، جب تک ہمیں اپنا آپ نظر نہیں آئے گا ہم اس کو کیسے ختم کریں گے؟ جیسے اگر منہ پر کالک لگی ہوئی ہو تو یا تو مجھے کوئی بتائے کہ یہ کالک لگی ہوئی ہے یا کوئی آئینہ ہو جس میں دیکھ لوں کہ یہاں پر کالک لگی ہوئی ہے۔ عورتیں بعض دفعہ اس طرح کرتی ہیں کہ جب شادی وغیرہ کے موقع پہ جاتی ہیں تو شرارتیں کرتی ہیں، کالک یا کوئی کالی چیز اپنے ساتھ لے جاتی ہیں، نیند کی حالت میں لوگوں کے چہرے وغیرہ پر مل دیتی ہیں۔ بعض کی نیند گہری ہوتی ہے، وہ نہیں اٹھ پاتیں، جب صبح اٹھتی ہیں تو وہ لوگوں کے ساتھ عام انداز میں بات کر رہی ہوتی ہیں، لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں، ان کو پتا نہیں چلتا کہ لوگ کیوں ہنس رہے ہیں۔ بعد میں ان کو پتا چلتا ہے کہ اوہ ہو! یہ تو میرے چہرے پر کالک لگی ہوئی ہے۔ بہرحال اگر میرے اوپر کوئی کالک لگی ہوئی ہے تو پتا کیسے چلے گا؟ یا تو کوئی مجھے بتائے یا میں آئینہ میں دیکھوں۔ اس سے زیادہ میں کیا کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ آئینہ کہاں ملے گا؟ چنانچہ شیخ آئینہ ہوتا ہے، جب انسان شیخ کے ساتھ بیٹھتا ہے تو چاہے شیخ کچھ بھی نہ کہے، کچھ پتا چلتا رہتا ہے، اپنی گڑبڑ کا پتا چلتا ہے کہ اوہ! میں اس کے ساتھ نہیں ہوں، میں اس کے ساتھ نہیں ہوں، یہ مجھ میں نہیں ہے، یہ مجھ میں نہیں ہے۔ یہ چیزیں ملتی رہتی ہیں۔ کچھ اس طرح سمجھ سمجھ کر ملتی ہیں اور کچھ لا شعوری طور پر ملتی ہیں، جس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ بس وہ چیزیں تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، ہم اس نعمت کو جانتے نہیں ہیں ورنہ خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ وہ نعمت یہ ہے کہ موت کے بعد جو ہمیں پتا چلنا تھا وہ ہمیں پہلے پتا چل جائے۔ چنانچہ اس سے بڑی چیز کیا ہو سکتی ہے کہ موت کے بعد تو پتا چلنا ہی تھا لیکن موت سے پہلے پتا چل جائے۔ یہ بڑی بات ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس تشریف لاتے تھے، ان دنوں چونکہ شراب پر پابندی نہیں تھی، تو بعض پروفیسر حضرات شراب سے drunk ہوتے تھے اور وہ آ کر مولانا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ پر سوال داغتے تھے۔ مولانا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بڑی شفقت کے ساتھ ان کو جواب دیا کرتے تھے۔ پہلے تو حضرت ان کی کافی بڑی بڑی تقریریں سنتے تھے، جب وہ تھک جاتے تو وہ حضرت کی سنتے۔ جب ان کے دل کی بھڑاس نکل جاتی تو پھر حضرت کی سنتے اور آتے اس حالت میں تھے۔ لیکن بعد میں یہ ہوتا تھا کہ آہستہ آہستہ مولانا صاحب کی مجلس میں آتے تو یہ نہ کرتے، پھر کبھی کبھی سر کے اوپر رومال بھی آ جاتا کہ مولانا صاحب کے پاس آتے تو سر پر رومال باندھ کے آ جاتے، پھر آہستہ آہستہ نماز پڑھنا شروع کر لیتے، پھر آہستہ آہستہ اپنے کپڑے وغیرہ بہتر کر لیتے، بعض کے چہرے پہ داڑھی آ جاتی تھی۔ حتیٰ کہ بعض لوگ ما شاء اللّٰہ مقام حاصل کر لیتے اور خلفاء بن جاتے۔ یہی بزرگوں کی برکت ہے، ہم لوگوں کو الحمد للہ جب ایسے مواقع ملتے ہیں، تو ان کو اللّٰہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل سمجھنا چاہیے۔ مجھے الحمد للہ خود اندازہ ہے، جب مولانا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں میں پہنچا تو اس وقت تو ہمیں قدر نہیں تھی، ہم تو بس اس کو ایک عام سی چیز سمجھتے تھے کہ بس ٹھیک ہے، نیک لوگ ہیں، ان کی مجلس میں لوگ آتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کتنی بڑی نعمت تھے۔ جو لوگ حضرت کی مجلس میں نہیں بیٹھے ہوتے تھے ان کے احوال ہم سنتے اور جو حضرت کی مجلس میں بیٹھے ہوتے ان کے احوال بھی ہم سنتے۔ کمال کی بات ہے کہ وہاں پر ایک روڈ نمبر 2 ہوا کرتا تھا جو بے حیائی کے لئے بہت مشہور تھا۔ ہمیں پتا ہی نہیں تھا، ہم اس روڈ کا نام ہی نہیں جانتے تھے۔ یہ جو رسالوں میں چٹکلے لکھے ہوتے ہیں، ان چٹکلوں سے ہمیں پتا چلا کہ روڈ نمبر 2 میں یہ بھی ہوتا ہے۔ بڑے چٹکلے اس کے ساتھ لگے ہوتے تھے کہ روڈ نمبر 2 میں یہ ہو گیا۔ یہ ساری چیزیں ہوتی تھیں۔ جب کہ حضرت کی برکت سے ہم محفوظ رہے، چونکہ سیر سپاٹے کا وقت ہمارا حضرت کے ساتھ گزرتا تھا، یعنی عصر کے بعد حضرت کی مجلس ہوتی تھی اور یہی سیر سپاٹے کا وقت ہوتا ہے، کیونکہ بعد میں تو ہاسٹل آتے ہیں، تو ہمارا وہ وقت حضرت کے ساتھ گزرتا تھا، اللّٰہ کا شکر ہے کہ کتنی بڑی نعمت تھی اور حضرت اتنی شفقت فرماتے کہ جس وقت ہم رخصت ہوتے تو کبھی کبھی حضرت فرماتے: چھٹی۔ ہم کہتے: جی۔ فرماتے: اچھا مل گئی گُھٹی۔ جیسے بچے ہوتے ہیں۔ گویا شفقت کے ساتھ، باتوں باتوں میں اور ہنسی مذاق میں حضرت بڑی بڑی باتیں بتاتے تھے، ہنسی مذاق کرتے تھے کہ کبھی کسی کے ساتھ مذاق تو کبھی کسی کے ساتھ۔ اور اسی میں سارا کچھ کہہ دیتے۔ کیونکہ نوجوانوں کا عالم تھا، یونیورسٹی تھی، اس لئے وہاں زیادہ تر نوجوان ہی ہوتے تھے، چنانچہ نوجوانوں کے ساتھ معاملہ ہوتا تھا، تو کبھی کسی کے ساتھ، اور کبھی کسی کے ساتھ، اور اسی میں ہی ساری چیز سمجھاتے تھے۔

متن:

اگر تم بھی زمرۂ عشاق میں سے اپنے آپ کو شمار کرتے ہو تو اپنی جان کی پرواہ کر کے اسے سلامت نہ لے جا۔ (اس کو اللّٰہ کے لئے خرچ کر) عشق ایک ایسا سمندر ہے کہ جس کی گہرائی انتہا نہیں رکھتی، اس سمندر کے پانی اور اس کی موجوں کی آگ دیکھتا رہ۔ اگر تم کو بال برابر بھی عشق کی حقیقت سے آگاہی نصیب ہو جائے تو بال کی طرح دونوں جہانوں سے سر کشی اختیار کرو گے (بالوں کا جسم سے باہر نکلنا، اس کو سر کشی کے لفظ سے یاد کر کے بڑی حسین تشبیہہ دی ہے) اس کا راز رازوں کا موتی ہے اور اس کی جانب تمہارا دل تمہاری رہنمائی کرے گا‘‘۔

حاصلِ کلام یہ کہ بارگاہِ احمدیت کے راستوں کے طالبوں کے وہ راستے جو کہ دربار احدیت کی جانب جاتے ہیں، (سبحان اللّٰہ! کیا بات ہے!) بارگاہِ احمدیت کے راستوں کے طالبوں کے وہ راستے جو کہ دربار احدیت کی جانب جاتے ہیں، اتنے زیادہ ہیں کہ اُن کا بیان ممکن نہیں، کیونکہ کہا گیا ہے کہ "اَلطَّرِیْقَۃُ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی بِعَدَدِ أَنْفَاسِ الْخَلَائِقِ" اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے اتنے ہیں، جتنے کہ لوگ ہیں لیکن با ایں ہمہ تمام راستوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلی قسم معاملات والوں کا راستہ ہے جو کہ نماز کی کثرت، روزوں، تلاوتِ قرآن اور حج وغیرہ کی ادائیگی سے ہاتھ آتا ہے، یہ عام مسلمانوں کا راستہ ہے اور یہ راستہ عذابِ ابدی سے نجات کا راستہ ہے، لیکن اِس قِسم کی عبادت گذاری کی راہ سے وصولِ حقیقی مشکل ہے۔

تشریح:

یہ عبادت والوں کا راستہ ہے، معاملات والوں کا نہیں ہے۔ یہاں کچھ فرق پڑ گیا ہے۔

دوسری قِسم مجاہدوں اور ریاضت کرنے والوں کا راستہ ہے اور اپنے اخلاق کو سراپا تبدیل کرنا، اپنے نفس کا تزکیہ اور دل کو مکمل طور سے صاف کرنا ہے، یعنی جو چیز باطن سے تعلق رکھتی ہے، اس کا پاک و صاف کرنا ہوتا ہے، اور یہ ابرار کا راستہ ہے اور یہ لوگ امت کے نیک لوگ ہیں، اور یہ دوسرا طائفہ میانہ رو لوگوں کا ہے اور ان میں واصلانِ حق کی تعداد تھوڑی ہے۔ تیسری قِسم حضرت احمدیت کے مقامِ ارفع کی سیر کرنے والے ہیں جو کہ مقامِ لاہوتی کی فضاؤں میں اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عنایتِ بے پایاں سے سیر کرتے رہتے ہیں، لیکن ایک جگہ قدم رکھ کر دونوں جہانوں کے گرد اڑان کرتے ہیں۔ ایک بزرگ نے فرمایا ہے، ابیَات:

؎ با چشم بستہ صورت جانان نظر کنم

بر جائے نشستہ گرد دو عالم سیر کنم

با آب و خاک شان است دور ز به پیش ما

زیں رو بوقت قطر مگر خاک زر کنم

در خاک برو مست چو بادہ عسل شود

در پیش ما چو زہر بیاری شکر کنم

جز وہم نیست ہر دو جہان غیر ذات او

زیں رمز عشق بے خبراں را خبر کنم

’’میں بندھی ہوئی آنکھوں سے اپنے دوست کو دیکھتا ہوں۔

تشریح:

بندھی ہوئی آنکھوں سے، یہ مراقبہ کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی بند آنکھوں سے میں دیکھتا ہوں۔

متن:

میں بندھی ہوئی آنکھوں سے اپنے دوست کو دیکھتا ہوں، اپنی جگہ پر بیٹھ کر دو عالم کی سیر کرتا ہوں، اگر اُس مست پر مٹی شراب کی طرح شہد بن جاتی ہے تو اگر میرے پاس زہر لاؤ گے تو میں اس سے شَکر بناؤں گا اِس جہاں میں اس کی ذات کے سوا باقی جو کچھ کہ ہے، وہ محض وہم ہے ( یہ وہی وحدۃ الوجود اور پھر وحدۃ الشہود والی بات ہے) (اور اس کی کوئی حقیقت نہیں)، میں اس عشق کے اس راز سے بے خبر لوگوں کو آگاہی دلاؤں گا‘‘۔

پس یہ تیسری قسم کے لوگ شروع میں دوسروں سے ملے رہتے ہیں اور آخرت میں دوسروں سے الگ رہتے ہیں، یہ سب طریقوں سے بہتر طریقہ ہے۔

تشریح:

حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔ حضرت نے بھی تین طبقے بتائے ہیں، فرمایا کہ ایک طبقہ اخیار کا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جن کا حضرت نے ذکر کیا، وہ اخیار ہیں۔ اخیار وہ ہیں، جو Will power کو استعمال کر کے یعنی اپنی قوتِ ارادی کے ذریعے سے حق کے ساتھ رہتے ہیں اور اپنے نفس کو حق پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔ یہ اخیار کا راستہ ہے۔ دوسرا طریقہ ابرار کا ہے، جیسے حضرت نے فرمایا ہے۔ ابرار کا طریقہ یہ ہے کہ کسی شیخ کے ہاتھ پہ بیعت کر کے جو اعمال وہ بتاتے رہتے ہیں، وہ اعمال کرتے رہتے ہیں۔ اور فرمایا کہ تیسرا طریقہ شطاریہ کا ہے۔ شطاریہ وہ راستہ ہے، جن کو اپنے شیخ کے ساتھ عشق ہے، اس میں فنا ہیں۔ فرمایا یہ تیسرا طریقہ بہت تیز ہے، اس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کتنا تیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخیار اگرچہ نفس کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن چونکہ وہ شرعی مجاہدہ ہے، انہوں نے اختیاری مجاہدہ نہیں کیا ہوتا، لہذا مستقل مجاہدہ کی صورت میں رہتے ہیں، اور یہ مجاہدہ ان کو کرنا پڑے گا، اس لئے عبادات بھی کرتے ہیں، معاملات بھی صحیح رکھتے ہیں، سارا کچھ کرتے ہیں، لیکن سرکشی والا معاملہ ان کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ کیونکہ ان کا کوئی رہبر نہیں ہوتا۔ دوسرے لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے رہبر سے نوازا ہے اور رہبر کی وجہ سے ان کو دو فائدے مفت میں حاصل ہو گئے۔ ایک سلسلہ کی برکت ہے اور دوسرا ان کی رہنمائی ہے۔ سلسلے کی برکت سے بھی ترقی ہوتی ہے اور روحانی مقامات ملتے ہیں اور ساتھ رہبری یعنی شیخ کا experience ہے۔ مثلاً: ایک شخص کو راستے کا معلوم نہیں ہے کہ راستہ کدھر سے جاتا ہے، تو وہ کبھی ادھر جائے گا، کبھی ادھر جائے گا، گھومتا پھرتا رہے گا تو کتنا وقت ضائع ہو گیا؟ کچھ وقت اس ڈھونڈنے میں لگا اور محنت بھی زیادہ کرنی پڑی۔ عین ممکن ہے کہ آسان سا راستہ ہو اور یہ اس کو نہ پا سکے۔ اس کو مشقت تو ہو گی، لیکن وہ مشقت اس کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوئی کہ اپنا رہبر نہیں لیا۔ چنانچہ ابرار کو اللّٰہ تعالیٰ نے دو چیزوں سے نوازا ہے۔ Will power ان کی بھی ہے، لیکن ان کی Will power صرف ایک ہی چیز میں استعمال ہوتی ہے کہ میں نے شیخ کی بات ماننی ہے، اور کچھ نہیں کرنا۔ اور شیخ جو بتاتا ہے، تو ممکن ہے کہ وہ کوئی آسان راستہ بتائے جو آسانی سے طے ہو جاتا ہے۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ان کو Will power کی ضرورت ہی نہیں ہے، جو شیخ پر عاشق ہو گیا، وہ تو خود تلاش کرے گا کہ مجھے شیخ کچھ بتائے۔ لہٰذا اس کے لئے مجاہدہ نہیں ہے، مثلاً: مجنون کو اگر لیلیٰ کہتی کہ بازار سے میرے لئے یہ چیز لاؤ، تو کیا اس کے لئے مشقت ہوتی؟ مشقت نہ ہوتی، بلکہ اس کے لئے سعادت ہوتی۔ چنانچہ جو اللّٰہ والوں کے عاشق ہوتے ہیں، اپنے شیخ کے عاشق ہوتے ہیں، ان کا یہ معاملہ نہیں ہوتا۔ جتنے بھی ہمارے اکابر گزرے ہیں، چاہے شیخ الہند رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں، چاہے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں، چاہے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں، چاہے بنوری رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں، یہ سب اپنے مشائخ کے عاشق تھے، ان کے احوال دیکھیں، ان کے سوانح پڑھیں، معلوم ہو جائے گا کہ یہ اپنے مشائخ کے کیسے عاشق تھے۔ تو جو عاشق ہوتے ہیں، ان کو پروا نہیں ہوتی۔ جیسے حافظ ضامن شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پیر بھائی تھے اور بڑے آدمی تھے۔ حافظ ضامن شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شیخ کے علاقے میں ان کے بیٹے کا سسرال تھا۔ یعنی سمدھی تھے۔ اور ہندوستانیوں کا کلچر یہ ہے کہ وہاں لوگ بڑے محتاط ہوتے ہیں، سمدیوں کے سامنے اپنے آپ کو بڑا maintain رکھتے ہیں۔ حافظ ضامن شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے شیخ کا بستر اپنے سر پہ رکھ کے جا رہے تھے، کسی نے کہا: آپ کے بیٹے کا سسرال ہے، تھوڑا سا اس کا خیال رکھا کریں۔ فرمایا: ان کی ایسی کی تیسی، میرے شیخ کا بستر ہے، میں اس کو کیسے نہ اٹھاؤں۔ بتائیے! یہ کیا چیز ہے؟ یہ عشق نہیں تو اور کیا چیز ہے؟ اسی طرح حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دوسرے سب اللّٰہ والے حضرات اسی طرح تھے۔ اسی طرح حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے، حالانکہ حضرت کو پتا تھا کہ حضرت حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ اصطلاحی عالم نہیں ہیں، لیکن حضرت کا ملفوظ ہے کہ لوگ حضرت کی بزرگی کی وجہ سے ان کے معترف ہیں، میں حضرت کے علم کی وجہ سے ان کا معترف ہوں۔ یہ کون سا علم تھا؟ اس کے بارے میں بتاتے ہیں، ایک دفعہ فرمایا کہ جب کبھی مجھے کوئی مشکل مسئلہ آتا ہے، تو میں ارادہ کرتا ہوں کہ حاجی صاحب سے پوچھتا ہوں۔ جیسے میں ارادہ کرتا ہوں، تو وہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے، کبھی زیادہ مشکل مسئلہ ہوتا ہے، تو میں اٹھ جاتا ہوں کہ حاجی صاحب کے پاس جاتا ہوں، تو وہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے، کبھی بہت مشکل مسئلہ ہوتا ہے تو میں چل کے پہنچ بھی جاتا ہوں اور حاجی صاحب کو ابھی میں نے بتانا شروع ہی کیا ہوتا ہے تو حاجی فرماتے ہیں: کہ یہ کوئی مشکل مسئلہ ہے؟ بس اس سے وہ حل ہو جاتا ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کیوں کہتے تھے کہ میں حضرت حاجی صاحب کے علم کی وجہ سے ان کا معترف ہوں؟ میں مثال سے سمجھاتا ہوں۔ مثلاً: ایک شخص کے پاس پانی کا گھڑا ہے (اچھی طرح غور سے سنیں، بہت بڑی بات ہے) آپ کہیں گے کہ یہ پانی والا ہے۔ اگر آپ کو پانی کی ضرورت پڑ جائے گی، تو آپ اس کے پاس اپنا کٹورا لے جائیں گے اور وہ پانی دے دے گا۔ ایک دوسرا شخص ہے، جس کے پاس گھڑا نہیں ہے، لیکن اس کے پاس پانی کا پائپ ہے، جو دور کہیں سے کسی واٹر ٹینک سے connected ہے اور وہاں سے پانی آ رہا ہے، وہاں کوئی گھڑا نہیں ہے۔ جیسے ہی جاتے ہیں کہ برتن بھر دو تو وہ پانی دے دیتا ہے۔ حالانکہ اس کے پاس گھڑا نہیں ہے۔ لیکن اس کے پاس پانی کے گھڑوں کو بھرنے والا source موجود ہے۔ بتایئے! آپ کس کو پانی والا کہیں گے؟ اس گھڑے والے کو کہیں گے یا اس کے مقابلہ میں اس کو کہیں گے، جس کے پاس source ہے؟ اسی طرح حاجی صاحب کے پاس source تھا۔ حاجی صاحب کا اللّٰہ کے ساتھ تعلق تھا۔ لہٰذا جس وقت کوئی ضرورت پڑتی تھی، اللّٰہ تعالیٰ حضرت کے دل میں ڈال دیتے اور حضرت کے دل کی برکت سے دوسروں کے دلوں میں بھی لے آتا۔ تو کیا حضرت ان کو عالم نہ کہتے؟ چنانچہ ایک اصطلاحی عالم ہے اور ایک وہ عالم ہے، جس کے پاس علمِ لدنی کا کنکشن ہے۔ یہ بھی عالم ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ جو بشر حافی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس جایا کرتے تھے۔ بیٹے نے پوچھا تھا کہ حضرت! آپ تو بہت بڑے امام ہیں، آپ ان کی خدمت میں کیوں جاتے ہیں؟ فرمایا: میں کیوں نہ جاؤں، ہر ایک اپنے مطلب کے لئے جاتا ہے، میں اس لئے جاتا ہوں کہ مجھے فائدہ ہو جاتا ہے، مجھے عمل کی توفیق ہو جاتی ہے۔ جب کسی اور عالم نے پوچھا تھا، تو حضرت نے فرمایا: میں ادھر کیوں نہ جاؤں؟ ممکن ہے کہ میں عالم بالقرآن ہوں گا، لیکن وہ عالم باللّٰہ ہیں۔ حالانکہ بالکل ان پڑھ تھے۔ اسی طرح حضرت عبد العزیز دباغ رحمۃ اللّٰہ علیہ بالکل اَن پڑھ تھے۔ حدیثِ قدسی کا نام بھی نہیں جانتے تھے۔ لیکن جب ایک محدث نے ان کا امتحان لیا، تو حدیثِ قدسی کا ٹکڑا بھی لے لیا، حدیث شریف کا بھی ایک ٹکڑا لے لیا اور قرآن کا بھی ایک فقرہ لے لیا اور عربی کا ایک فقرہ ملا کر سب کو ایک بنا دیا اور ان کے سامنے رکھ دیا کہ حضرت! یہ چیز کیا ہے؟ جو عبارت قرآن سے لی گئی، حضرت نے فرمایا کہ یہ تو قرآن ہے اور جو حدیث سے لیا گیا، اس کا بتایا کہ یہ حدیث ہے اور جو حدیثِ قدسی سے لیا گیا، فرمایا کہ یہ نہ قرآن ہے، نہ حدیث ہے، بلکہ درمیان میں کوئی چیز ہے۔ اور جو خالص عربی سے لیا گیا تھا، اس کے متعلق فرمایا کہ اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ حالانکہ اگر میں ایک جملہ بنا دوں، جس میں قرآن سے میں نے فرعون کا لفظ لیا ہو، تو کون جانے گا کہ یہ قران کا لفظ ہے۔ اسی طرح میں نے حدیث سے ایک حصہ لیا ہو اور عربی سے کوئی عبارت لی ہو تو کون جانے گا۔ چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ حضرت! یہ تو ایک عالم بھی نہیں بیان کر سکتا، آپ نے کیسے بتایا؟ واقعی عالم اسے کیسے بیان کرے گا! وہ تو محض ایک عربی کا فقرہ ہو گا۔ تو فرمایا: میں نہیں جانتا، بس مجھے یہ پتا ہے کہ قرآن کا اپنا نور ہے، اس کو میں جانتا ہوں، حدیث کا اپنا نور ہے، اس کو جانتا ہوں، عام عربی میں کوئی نور نہیں ہے، لہذا اس کو جانتا ہوں اور یہ قرآن اور حدیث کے نور کے درمیان درمیان والا نور تھا، جس کے متعلق میں نے کہا کہ یہ درمیان کی کوئی چیز ہے۔ اب یہ کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ علم کی بھی کوئی حقیقت ہوتی ہے۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا تعلق ہے تو اگر اللّٰہ چاہے تو پورے کا پورا قرآن آپ کے دل میں ایک ہی دفعہ میں لے آئے، اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ اور اللّٰہ نہ کرے، اگر کسی نے ناقدری کی تو اس کے دل سے یک دم لے جائے۔ یہ بھی نا ممکن نہیں ہے۔ اللّٰہ کو ساری چیزوں پہ قدرت ہے۔ لہٰذا علمِ لدنی والوں کا چونکہ اللّٰہ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ ان کو جس وقت جس قسم کی ضرورت تھی، اللّٰہ تعالیٰ وہی بتاتے ہیں اور ان کو بھی پتا نہیں ہوتا کہ کون سی چیز اتاری جا رہی ہے، لیکن اللّٰہ تعالیٰ اتارتے ہیں۔ چنانچہ یہ اللّٰہ کی بڑی عنایت ہے، بہت بڑی نعمت ہے، جس کو اللّٰہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔ یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اور ان حضرات کا معاملہ کچھ یوں تھا۔

بہرحال! فرمایا کہ پہلی قسم عبادات والوں کا راستہ ہے جو کہ نماز کی کثرت، روزوں، تلاوتِ قرآن اور حج وغیرہ کی ادائیگی سے ہاتھ آتا ہے، یہ عام مسلمانوں کا راستہ ہے۔ دوسرا مجاہدات اور ریاضت والا راستہ اور جس کے ذریعے سے اپنے اخلاق کو سراپا تبدیل کیا جائے، نفس کا تزکیہ کیا جائے اور دل کو مکمل طور سے صاف کیا جائے۔ اور تیسرا راستہ اللّٰہ جل شانہ کے قرب کا راستہ ہے۔ سیر الی اللّٰہ کے بعد سیر فی اللّٰہ کا راستہ ہے۔ سیر فی اللّٰہ کی تو کوئی حد نہیں ہے، جہاں جہاں اللّٰہ پاک لے جائے، اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہم لوگ تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ ایسے لوگوں کو اللّٰہ پاک نے پیدا فرمایا ہے، لیکن نظر والوں کو نظر آتا ہے۔

متن:

اس نیک بختی اور سعادت کا ظہور دس منزلوں پر بنایا گیا ہے، پہلی منزل یہ ہے کہ مجھے چاہئے کہ توبہ کروں اور اس توبہ کی حقیقت یہ ہونی چاہئے کہ اس ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب اپنے اختیار سے، موت سے قبل رُخ کر کے متوجہ ہو جاؤں۔

تشریح:

یعنی توبہ رجوع الی اللّٰہ کا نام ہے۔

متن:

اور یہ ایسی توجہ اپنی مرضی اور اختیار سے اختیار کرو جیسا کہ تم اضطراری حالت (یعنی موت) کے بعد اختیار کرو گے، اور اضطراری حالت میں تو اُس کی طرف رجوع اور جانا ضروری ہے،

تشریح:

یہ ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ کی تشریح ہے۔

متن:

مگر وہ حساب میں تو نہیں آتا۔ اور اے میرے محبوب! توبہ کا معنی یہ ہے کہ جو کچھ کہ تجھے خدا سے باز رکھے، خواہ وہ دنیوی ہو یا آخرت سے متعلق ہو، اس سے باز آ کر اُس کو بالکل ترک کرو۔

یہ توبہ کی حقیقت ہے کہ جو چیز تجھے خدا سے دور کرے، اس سے باز آ جا۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ دوری گناہ کی وجہ سے ہے، اس پہ توبہ کر لو، اللّٰہ کی طرف لوٹو۔ یہاں یہ بات ہے کہ جو چیز تجھے اللّٰہ سے دور لے جا سکتی ہے، اس سے منہ موڑ لو۔ یہ بھی رجوع ہے۔ یعنی یہ چیزیں مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں، میں ان سے اپنی توجہ ہٹا لوں، یہ توبہ ہے، بلکہ یہ توبہ کی حقیقت ہے۔

متن:

کیونکہ یہ گناہ ہے اور یہ وصالِ الٰہی سے منع کرنے والی چیز ہے، جب کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ﴿تُوْبُوْۤا إِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا أَیُّھَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (النور: 31) ”تم سب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف رجوع (توبہ) کرو اے مومنو! اس سے تم فلاح اور نجات پاؤ گے“۔ بیت ؎

گر نگاہ فقر خواہی اے پسر

از خود و جملہ جہاں اندر گذر

ایں کلاہ بے بہر است اے شاہ پسر

گر دهندت تا تو مے نازی بسر

’’اگر تم فقیر کی نگاہ چاہتے ہو تو اے برخوردار! اپنے آپ اور تمام جہان کو چھوڑ کر اس سے آگے گزر جاؤ، یہ تاج انمول ھے اے شہزادے! اگر تمہیں دیں تو تم ناز سے زندگی گذارو گے‘‘۔

اور دوسری منزل یہ ہے کہ اس توبہ کے بعد زہد اختیار کرو، زہد کی حقیقت یہ ہے کہ موت سے پہلے اپنے اختیار سے اپنے آپ کو اور اپنے مقصود کو چھوڑ کر آؤ، کیونکہ موت کے بعد تو اضطرارًا تم خود ایسا کرو گے، اور وہ ترک و خروج عند اللّٰہ ضروری ہے اور اس کا کوئی حساب بھی نہیں کیونکہ وہ اضطراری ہوتا ہے، پس تم ایسا زہد اختیار کرو کہ تمام درجات اور دنیاوی لذتوں کو چھوڑ کر پسِ پشت ڈالو۔

تشریح:

یہ بڑی عجیب چیز ہے، میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس کے اندر کافی ساری چیزیں آتی ہیں۔ ایک ہوتے ہیں؛ ظلماتی حجابات اور ایک ہوتے ہیں؛ نورانی حجابات۔ ظلماتی حجابات تو وہی ہیں، جن کو سارے لوگ حجابات سمجھتے ہیں اور ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں، جیسے گناہ ہے اور بری صحبت ہے، یہ ظلماتی حجابات ہیں۔ لیکن نورانی حجابات کے لوگ عاشق ہوتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دین داری ہے جب کہ وہ دنیا ہوتی ہے۔ مثلاً: یہ طلب رکھنا کہ میں بڑا مفتی بن جاؤں، میں بڑا شیخ بن جاؤں، میں بڑا عابد بن جاؤں، یہ دنیا کی طلب ہے۔ جو اس کے اندر کا ’’میں‘‘ ہے، اس کو نکالنا عشق کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ نورانی حجابات عشق کے بغیر ختم نہیں ہو سکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارا مقصود ہوتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ مقصود کو چھوڑو۔ در اصل ہم نے اپنے لئے منزلیں تلاش کی ہوتی ہیں، یہ منزل ہے، یہ منزل ہے، یہ منزل ہے۔ اور اگر میں تھوڑا سا زیادہ کھل کے بات کروں تو تصوف میں آنے کے بعد جو خلافت کی منزل ہے، وہ کتنا بڑا حجاب ہے۔ اس حجاب سے نکلنا آسان نہیں ہوتا، یہ بہت مشکل حجاب ہے اور یہ نورانی حجاب ہے۔ ہر وقت نفس کے اوپر آرے چلانے ہوتے ہیں۔ یہی جہادِ اکبر ہے۔ کیونکہ نفس اسے چاہتا ہے، لیکن نہیں کرنا۔

متن:

اور اگر یہ سب کچھ تمہیں دے دیں تو آنکھ اُٹھا کر بھی اس کو نہ دیکھو، کیونکہ "اَلدُّنْیَا حَرَامٌ عَلٰی أَھْلِ الْآخِرَۃِ وَالْآخِرَۃُ حَرَامٌ عَلٰی أَھْلِ دُنْیَا وَھُمَا حَرَامَانِ عَلٰی أَھْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی"

تشریح:

یعنی دنیا حرام ہے اہلِ آخرت پر اور آخرت حرام ہے اہلِ دنیا پر اور یہ دونوں حرام ہیں اہلُ اللّٰہ پر۔ جن کا مقصود اللّٰہ ہے، وہ آخرت کی منزلوں کو بھی نہیں دیکھتے۔ جنت کو اس لئے طلب کرنا کہ اللّٰہ چاہتا ہے کہ میں طلب کر لوں، اس کی تو گنجائش ہے، یہ فقاہت ہے۔ لیکن جنت کو مقصود بنا لینا، یہ حجاب ہو سکتا ہے۔ یہ مشکل بات ہے۔

متن:

اور اے میرے محبوب! اِن حرام اشیاء میں حرام کیا ہے؟ تو جان لو کہ ان میں دنیا اور عقبیٰ کی لذت حرام ہے، اِن کی خدمت کرنا حرام نہیں، خدمت کرنے میں خدمت کرنے کے علاوہ محبت کرنا نہیں ہوتا، اور حرام صرف غیر اللّٰہ کی محبت ہے خواہ وہ دنیا کی محبت ہو یا عقبیٰ کی۔ پس اے محبوب! محبوبِ ازلی نے یہ خدمت گذاری کا کام اپنے خاص محبوبوں کے لئے مقرر فرمایا ہے، پس حرام یہ ہو گا کہ محبوبِ ازلی کے بغیر کسی دوسرے کے ساتھ محبت کی جائے۔

تشریح:

خود کو خود سے نکالنا آسان نہیں ہے، بڑی مشکل بات ہے۔ جیسے جب کھال کھینچی جاتی ہے تو سب سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن یہاں پر معاملہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ بہرحال! محبت کے معاملے میں یہ ہوتا ہے۔ یہ میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ کم از کم ان بزرگوں کے مقامات جاننے میں کوئی فرق نہ رہے۔ باقی ہم کیسے ہیں، وہ تو ہمیں پتا ہے، ہماری حالت کا ہمیں پتا ہے، وہ اور بات ہے۔ لیکن کم از کم ہم بزرگوں کے مقامات میں تو گڑبڑ نہ کریں۔ اپنے عملوں پر تو قیاس نہ کریں۔ تھوڑا سا اگر نماز روزہ کر لیا تو بس سوچنے لگ گئے کہ کوئی وحی آئے گی۔ یہ کم فہمی ہے، یہ جہالت ہے۔ ہاں! کم از کم آنکھیں کھل جائیں اور پتا چل جائے کہ اصل حقیقت کیا ہے، تو کم از کم ہم یہ تو نہیں سمجھیں گے۔ اپنے آپ کو کم تو سمجھیں گے۔ اگر ہم ان چیزوں کو حاصل نہیں کر سکتے تو ان کو ہم حاصل شدہ تو نہ سمجھیں۔ چنانچہ یہ جو ہماری مجالس ہیں یا جو ہم بزرگوں کے حالات پڑھتے ہیں، یہ اس مقصد کے لئے نہیں ہوتے کہ ہم ان جیسے بن جائیں گے۔ کیونکہ ہم جیسے ہیں، ویسے ہی ہوں گے، لیکن شیطان جو دھوکہ دیتا ہے، در اصل اس سے بچنا ہے۔ کم از کم حقیقت کا ادراک ہو تو دھوکہ تو نہ کھائیں، شیطان ہمیں دھوکہ تو نہ دے سکے۔ اسی کے لئے سارا بیان ہے اور اسی کے لئے ساری مجلس ہے۔ اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ