حضرت صاحب کے حالات و مقالات کے بارے میں

باب 7 ، درس 27

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مسجد نبوی - مدینہ منورہ




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہماری خانقاہ میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے صاحبزادہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے حضرت کی تعلیمات کا درس جاری ہے۔ اگرچہ ابھی ہم سفر میں گاڑی کے اندر ہیں، لیکن ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم ناغہ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ ناغہ ایک ایسی عجیب چیز ہے جو لوگوں کو سست بناتا ہے۔ مثلاً جو لوگ اس سے آشنا ہوں اور وہ باقاعدہ اس کو سننا چاہتے ہیں، تو اگر درمیان میں ایک دو ناغے ہو جائیں تو شیطان ان کے دل میں ڈالے گا کہ آج بھی شاید ناغہ ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ پروا نہیں کریں گے، نتیجتاً ہوتے ہوتے وہ اس سے محروم ہو جائیں گے۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی سیریز شروع کریں، اس میں ناغہ نہ ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اس پہ قائم رکھے۔

چونکہ پہلے سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے لہذا دوبارہ سارا نہیں پڑھ سکتے، بلکہ جہاں تک ہوا تھا، اس سے آگے چلیں گے۔ اللّٰہ جل شانہٗ ہمیں اس کی جملہ برکات نصیب فرمائے۔ حضرت کے مقامات کے بارے میں ان کے صاحبزادے رقم طراز ہیں:

متن:

’’یاد رکھو کبھی نا امیدی کے پاس بھی نہ بھٹکو اگر تم کو دوست اجازت نہ دیں تو اس سے نا امید نہ ہو اگر آج تمہیں اجازت نہ دے گا تو کل تمہیں اپنے پاس بلائے گا۔‘‘

یہ ایک عجیب اور حیرت کی بات ہے کہ اگر عاشق ﴿أَنْظُرْ إِلَیْکَ﴾ (الأعراف: 143) ”میں آپ کی ملاقات چاہتا ہوں“ کہے تو خطاب میں جواب آتا ہے کہ ﴿لَنْ تَرَانِيْ﴾ (الأعراف: 143) ”تم مجھے نہیں دیکھ سکو گے“ اور اگر نا امید ہو کر کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے آپ سے کہے کہ یہ کیا حماقت کرتے ہو، کہاں تم اور کہاں وہ۔ "مَا لِلتُّرَابِ وَرَبُّ الْأَرْبَابِ نِسْبَۃٌ" ”چہ نسبت خاک را با عالم پاک“ تو اس کو جواباً کہا جاتا ہے: ﴿اُدْعُوْنِيْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المؤمن: 60) ”مجھے بلاؤ میں تمہاری دعا قبول کروں گا“ "فَبَقَتْ أَرْوَاحُ الْمُشْتَاقِیْنَ بَیْنَ الرَّدِّ وَالْقُبُوْلِ وَالْفَرْقِ وَالْوُصُوْلِ" ”تو مشتاقوں کی روحیں رد و قبول اور ہجر و وصَال کے درمیان پریشان رہتی ہیں کہ میری دعا قبول ہوگی یا میرے منہ پر ماری جائے گی۔ ؎

گر دست بد کارے زنم زنجیر بر دستم مہنمند

در خم مے غرقم کند ز گر نام هوشیاری برم

’’اگر کوئی کام کرنا چاہوں تو میرے ہاتھوں میں زنجیر ڈالی جاتی ہے اور اگر ہوشیاری کا نام لوں تو مجھے شراب کی خم میں ڈبویا جاتا ہے۔‘‘

لیکن حکم استقامت کا دیا گیا ہے کیونکہ فَإِنَّ الرَّبَّ تَقَدَّسَ وَتَعَالٰی یَطْلُبُ الْاِسْتِقَامَۃَ: ﴿فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ﴾ (الشوریٰ: 15) اللّٰہ تعالیٰ استقامت کی طلب فرماتا ہے (اور فرماتا ہے:) جیسا تمہیں حکم دیا گیا ہے اُس پر استقامت اختیار کرو۔“ اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ استقامت تین قسم کی ہوتی ہے: اقوال میں، افعال میں اور احوال میں۔ شریعت لوگوں کے ساتھ رسول اللّٰہ ﷺ کے اقوال ہیں، اور طریقت رسول اللّٰہ ﷺ کا اپنے نفس کے ساتھ فعل و عمل ہے، اور حقیقت اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللّٰہ ﷺ کے احوال ہیں۔

تشریح:

یہ بہت اونچے حالات ہیں، اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ فرماتے ہیں: ’’اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَآءِ‘‘ ’’ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے‘‘۔ کیونکہ یہ عالمِ اسباب ہے، یہاں ساری باتیں واضح نہیں کی گئیں۔ دین تو واضح ہے، لیکن انسان کے اپنے احوال واضح نہیں کئے جاتے تاکہ وہ بین بین رہے، اترائے بھی نہیں اور مایوس بھی نہ ہو۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے لوگوں نے پوچھا کہ حضرت! یہ جو حدیث شریف میں ارشاد مبارک ہے کہ ’’ایک شخص عبادت کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ جنت کے اتنا قریب ہو جاتا ہے جیسے بس ایک بالشت بھر فاصلہ ہو اور پھر اس سے ایسا کوئی عمل سرزد ہو جاتا ہے کہ اس کو دوزخ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسرا کوئی شخص برے اعمال کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس میں اور جہنم میں ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر کوئی ایسا اچھا عمل اس کو نصیب ہو جاتا ہے اور اس کو جنت میں بھیج دیا جاتا ہے۔‘‘ ہمارے ساتھیوں نے حضرت سے پوچھا کہ یہ تو بہت مشکل بات ہے، ہم کیا کریں؟ ہم تو کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے، یہ تو بہت risk والا معاملہ ہے۔ حضرت نے پہلے شعر سنایا:

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں

شاہین کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

فرمایا کہ اسی حدیث شریف نے تو صحابہ کو صحابہ بنایا تھا اور ہم لوگ اس کو بے عملی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اچھے سے اچھا عمل کر لے تو وہ اس پہ اترائے نہیں، کیونکہ انجام کا پتا نہیں ہے۔ اور اگر کوئی برے سے برا عمل بھی کر رہا ہو تو وہ مایوس نہ ہو، کیونکہ اللّٰہ بہت کریم ہے، اللّٰہ بہت غفور و رّحیم ہے۔ یہی بنیادی بات ہے کہ انسان اگر یہ سمجھ جائے کہ انسان خود کچھ نہیں کر سکتا، جب تک اس کی اپنے اوپر نظر ہو گی وہ اپنے آپ کو نقصان میں ڈالے گا، اس کی تمام صلاحیتیں، تمام چیزیں، سب حالات محدود ہیں۔ لیکن اگر وہ اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ رہتا ہے اور اللّٰہ جل شانہ سے لینے لگتا ہے، تو پھر اللّٰہ کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے، اللّٰہ کے خزانے لا محدود ہیں۔ اس وجہ سے جس کی نظر اپنے اوپر ہوتی ہے، وہ اپنے آپ کو تباہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس کو عجب کہتے ہیں۔ عجب کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ جس عمل پر انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے، اسی عمل کی وجہ سے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی نگاہوں میں گر رہا ہوتا ہے۔ چونکہ انسان کو عجب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، لہٰذا اس کے لئے پھر ایسے حالات لائے جاتے ہیں کہ جس سے اس سے عجب کی جڑ کٹ جائے۔ مثلاً قبض و بسط کی یہی حکمت ہے۔ کیونکہ اگر ایک انسان کو کبھی بھی قبض نہ ہو، بسط ہی بسط ہو تو وہ عجب میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا بسط سے عجب پیدا ہونے کا علاج قبض ہے۔ کیونکہ جب اس پہ قبض طاری کر دیا جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بالکل کچھ بھی نہیں سمجھتا اور آدمی سمجھتا ہے کہ میں تو مردود ہو گیا، میں تو تباہ ہو گیا۔ حالانکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ بہت اچھے مقام پر ہوتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایسے حالات ہو گئے تھے کہ خود فرماتے ہیں کہ اب بھی جب مجھے وہ حالت یاد آ جاتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور ان حالات میں اپنے آپ کو یوں سمجھ رہا تھا کہ شاید میں بالکل مردود ہو چکا ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خلیفہ حضرت مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی بات پر حضرت نے مجھے ڈانٹا اور اتنا ڈانٹا کہ بالکل ایسا ہو گیا کہ بس میرا سب کچھ چلا گیا اور میں اپنے آپ سے نفرت کرنے لگا اور میں اپنے آپ کو گویا گندے نالے کا کیڑا سمجھنے لگا، اپنے آپ سے نفرت ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد خادم نیاز تشریف لایا اور فرمایا کہ حضرت آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یا اللّٰہ خیر! پتا نہیں اب کیا ہو گا۔ میں بڑا گھبرایا گھبرایا سہما سہما حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے مجھ سے بڑے شفقت آمیز لہجے میں ارشاد فرمایا کہ میرے پاس بزرگوں کی طرف سے جو امانت آئی ہے، تمہیں وہ امانت سپرد کرتا ہوں، میں تمہیں اجازت دیتا ہوں۔ کہتے ہیں: میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی کہ میں کیا کروں۔ لہٰذا یہ بالکل صحیح ہے کہ انسان کے اندر عجب کی جو آخری چیزیں ہوتی ہیں، ان کو نکالنے کے لئے مشائخ کبھی کبھی ایسا کرتے ہیں کہ بہت سخت تادیب کرتے ہیں، اس سے عجب کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ لہٰذا جو خوش نصیب ہوتا ہے وہ اس وقت اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اللّٰہ پاک سے استغفار کر رہا ہوتا ہے، توبہ کر رہا ہوتا ہے، معافی مانگ رہا ہوتا ہے، گڑگڑا رہا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بزرگ کو ایک خاص مرید کے بارے میں الہام ہوا کہ اس کی اصلاح فلاں طریقے سے کرنی ہے۔ وہ اس پر عمل پیرا ہوئے اور اپنے مریدوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ اس مرید سے بہانے بہانے سے تم دور ہوتے جاؤ، یعنی ان کے ساتھ کوئی اختلاف ڈال کر کہ تم ایسے ہو تم ایسے ہو، ان سے علیحدہ ہو جایا کرو، ان سے بات چیت بند کر لیا کرو۔ روزانہ ایک یا دو کے ساتھ اس طرح واقعات ہوتے، اور وہ ان کو چھوڑ دیتے۔ لیکن وہ اپنے دل کو تسلی دیتے کہ میں تو اپنے شیخ کے لئے ادھر آیا ہوں، میں ان کے لئے تو نہیں آیا ہوں۔ لہذا وہ اپنے دل کو تسلی دیتے اور خاموش رہتے۔ اس طرح ہوتے ہوتے تقریباً سارے مرید ختم ہو گئے، سب نے ان کے ساتھ بائیکاٹ کر دیا۔ یہ بڑے بھاری دل سے رہ رہے تھے۔ اتنے میں ایک دن ان کے شیخ نے بھی ان سے معذرت کر لی اور ان سے کہا کہ یہ سارے لوگ تو غلط نہیں ہو سکتے، تم ہی غلط ہو، تمہارے اندر ہی کوئی گڑبڑ ہے، آخر کیوں کوئی بھی تم سے بات نہیں کرتا؟ بس تمہارے اندر ہی گڑبڑ ہے، ان کو خوب سنائیں۔ اس سے اس مرید کا دل بالکل آئینہ کی طرح ٹوٹ گیا، اور بہت ہی خفا ہو گیا اور سوچا کہ اب تو میرا اللّٰہ ہی ہے۔ پھر وہ مسجد چلا گیا اور نماز پڑھنا شروع کی۔ نماز میں اس پر رقت طاری ہو گئی، روتے روتے سجدہ کے اندر پڑا ہوا ہے، اتنے میں اس بزرگ کو الہام ہو گیا کہ اب اس کی تکمیل ہو گئی ہے، تم ان کے پاس چلے جاؤ۔ وہ ادھر گئے اور ان کے سر پہ ہاتھ رکھا اور فرمایا اب سر اٹھاؤ۔ اب کوئی ان کے آستین چوم رہا ہے، کوئی ان کا سر چوم رہا ہے، کوئی ان کے ہاتھ چوم رہا ہے۔ اور فرمایا کہ اللّٰہ پاک نے اس ذریعے سے جو آپ کو دینا تھا وہ دلوا دیا ہے، ہمارے لئے بھی آپ دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی قبول فرمائے۔ لہٰذا بعض لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن بعض لوگ جلدی مچاتے ہیں، اور جب وہ اس قسم کی باتوں میں آ جاتے ہیں تو سارے نظام سے ہی ٹوٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ چنانچہ یہ معاملہ بعض کے ساتھ اس طرح پڑ جاتا ہے، سب کے ساتھ نہیں ہوتا، کیونکہ اگر سب کے ساتھ ہو گا تو یہ باقاعدہ ایک چیز ہوتی ہے، لہٰذا پھر لوگ اس کے منتظر ہوتے ہیں کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔ اور اس طرح یہ ایک امتحان رہے گا۔ بہرحال یہ ایک امتحان ہے اور امتحان میں اس قسم کے حالات پیش آتے ہیں۔ چنانچہ قبض و بسط والا یہ سب سلسلہ اس لئے کرایا جاتا ہے تاکہ انسان کے اندر عجب پیدا نہ ہو۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ یاد رکھو! کبھی نا امیدی کے پاس بھی نہ بھٹکو، اگر تم کو دوست اجازت نہ دیں تو اس سے نا امید نہ ہو، اگر آج تمہیں اجازت نہ دے گا تو کل تمہیں اپنے پاس بلائے گا۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ﴿أَنْظُرْ إِلَیْکَ (الأعراف: 143) تو اللّٰہ تعالیٰ نے جواب دیا: ﴿لَنْ تَرَانِيْ﴾ (الأعراف: 143) لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے آپ کو بالکل ہیچ سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کیا ہوں، میں اپنے رب کے سامنے کیا ہاتھ اٹھاؤں گا؟ میری تو کچھ بھی حالت نہیں ہے: ”چہ نسبت خاک را با عالم پاک“۔ میں کیا ذکر کروں گا؟ میرا منہ تو ناپاک ہے۔ تو اس وقت اللّٰہ پاک کی رحمت جوش میں آتی ہے اور اس وقت ﴿اُدْعُوْنِيْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المؤمن: 60) کہا جاتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں دوں گا۔ جیسے کہا گیا ہے:

این درگه ما درگه نومیدی نیست

صد بار اگر توبه شکستی باز آ

ترجمہ: ہماری یہ درگاہ نا امیدی کی درگاہ نہیں ہے۔ اگر تو نے سو بار بھی توبہ توڑ دی ہے پھر بھی باز آ جا (اور توبہ کر لے تو تیری توبہ قبول ہو گی۔)

چنانچہ وہاں پر یہ حالت ہے اور یہاں پر یہ حالت ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلنا، اپنے رب کی مرضی کے مطابق چلنا ہے اور اپنے رب کی مرضی پر استقامت اختیار کرنی چاہئے۔ کیونکہ استقامت کا حکم ہے: ﴿فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ﴾ (الشوریٰ: 15) یعنی جس طرح تمہیں کہا جائے اس پر استقامت اختیار کرو۔ یہ نہیں کہ اپنی مرضی کی کوئی چیز معلوم کر لو اور اس کو شروع کر لو اور پھر اس پہ استقامت رکھو۔ نہیں! ایسی بات نہیں ہے۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ تمہیں تخت پر بٹھائے تو اس پر ہی جمے رہو۔ اور اگر اللّٰہ تعالیٰ تخت پہ چڑھا دے تو اس کو قبول کر لو۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ تمہیں عزت دے تو اس کو اپنے لئے اللّٰہ پاک کی نعمت سمجھو۔ اور اگر اللّٰہ تعالیٰ ذلت کا ہار پہنائے تو اس کو قبول کرو۔ جیسے امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے امام گزرے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو بڑی جاہ عطا فرمائی تھی، لیکن وقت کے خلیفہ کے ساتھ کسی مسئلہ پہ اختلاف ہو گیا۔ کوئی شرعی بات تھی، حضرت نے اس کا حق ادا کیا، تو خلیفۂ وقت نے سزا کے طور پہ گدھے کے اوپر الٹا سوار کر کے اور ہڈیوں کا مالا ان کے گلے میں ڈال کر، چہرے پہ کالک لگا کر بازار کے اندر پھرایا۔ اس وقت امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے اگر کوئی مجھے جانتا ہے تو وہ تو جانتا ہے اور اگر کوئی نہیں جانتا تو میں مالک بن انس ہوں اور میں کہتا ہوں کہ مُکرَہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ چنانچہ حضرت کا خلیفہ کے ساتھ جو اختلاف تھا اسے وہ بار بار بیان کر رہے تھے اور اس کو اپنی عزت سمجھ رہے تھے۔

شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے اوپر قاتلانہ حملے ہوتے تھے، اس لئے ان کے ساتھیوں نے ان کے لئے چوکیداری کا ایک مخفی نظام بنایا ہوا تھا، اور وہ چپکے چپکے ان کو ساتھ ہوتے تھے اور بتاتے بھی نہیں تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اور وہ قریب قریب رہتے تاکہ اگر کوئی حملہ کرے تو وہ سامنے آئیں اور مقابلہ کریں۔ ایک دفعہ حضرت اپنے عزم کے مطابق باہر آئے اور ایک طرف چل پڑے، جو حضرات مقرر تھے وہ سایہ کی طرح حضرت کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ انہوں نے کیا دیکھا کہ حضرت ایک مشہور رنڈی کے کوچہ کے اندر داخل ہو گئے، ان کے تو اوسان خطا ہو گئے کہ حضرت تو ما شاء اللّٰہ پاک ہیں، ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، لیکن اگر کسی نے ادھر دیکھا تو لوگ تحقیق تو نہیں کریں گے، مخالفین تو اس کو ہوا دیں گے۔ وہ بہت ڈر گئے۔ لیکن حضرت کے سامنے آ بھی نہیں سکتے تھے۔ حضرت عین اس رنڈی کے گیٹ پر چلے گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے خادمہ باہر آئی کہ کون؟ کہا: میں فقیر ہوں، صدا لگاتا ہوں۔ اندر کوئی فنگشن تھا لہٰذا رنڈیاں آئی ہوئی تھیں، خادمہ ان کے پاس چلی گئی اور کہا کہ اس طرح کوئی فقیر ہے، اس نے کاسا باندھا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے میں فقیر ہوں، میں صدا لگاتا ہوں۔ انہوں نے کچھ خیر خیرات بھیج دیا۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ نہیں، میں جب تک صدا نہیں لگاتا، اس وقت تک خیرات نہیں لیتا، سب جمع ہو جائیں، میں صدا لگاؤں گا۔ چونکہ فنگشن تھا، تو رنڈیوں نے کہا چلو کسی کے ساتھ شغل میلا ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا چلو بلا لو۔ رنڈیاں پردہ تو کرتی نہیں لہذا حضرت اندر چلے گئے۔ اندر جا کر حضرت نے اپنا کاسا کھول دیا۔ وہ چونکہ جانتے تھے کہ یہ شاہ اسماعیل ہیں، لہذا کوئی ادھر بھاگیں، کوئی ادھر بھاگیں۔ حضرت نے گرجدار آواز سے کہا میں تمہارے لئے آیا ہوں، خبر دار کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ میری بات سنو۔ سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئیں، حضرت نے بہت زبردست وعظ فرمایا۔ حضرت خطابت کے بادشاہ تھے، جنت اور دوزخ کے وہ احوال ان کے سامنے پیش کئے کہ جیسے جنت اور دوزخ سامنے کھڑی ہوں۔ عورتیں ویسے بھی رقیب القلب ہوتی ہیں، لہٰذا رنڈیوں نے رو رو کے اپنا حال برا کر دیا اور اپنے بال نوچنا شروع کر دئیے، توبہ تائب ہو گئیں۔ ان میں وہ رنڈی بھی شامل تھی جس کے مکان میں سب جمع تھیں۔ اس کے بعد ما شاء اللّٰہ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے جہاد کے موقع پہ وہ زخمیوں کی خدمت، ان کی مرہم پٹی اور ان کے لئے دوائیاں لاتی تھیں اور کھانا بھی پکاتی تھیں۔ بعد میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا کہ الحمد للہ! ہمارے ایمان کی حالت یہ ہے کہ اگر اس کو پہاڑ پر رکھ دیں پہاڑ بھی نیچے بیٹھ جائے۔

بہرحال جب شاہ صاحب واپس ہونے لگے تو وہ صاحب جو ان کے ساتھ مقرر تھے، انہوں نے کہا کہ حضرت! میں نے آپ کو یہاں دیکھ لیا ہے، میں تو آپ کو جانتا ہوں کہ آپ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن مخالفین تو اس کو مسئلہ بنائیں گے۔ خدا کے لئے کم از کم اپنے خاندان کی لاج رکھیں۔ یہ آپ جو کر رہے ہیں، ٹھیک ہے، آپ صحیح کر رہے ہوں گے، لیکن اس سے آپ کا خاندان بد نام ہو سکتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: خدا کے بندے! تم عزت کس چیز کو کہتے ہو؟ میں تو عزت اس کو کہتا ہوں کہ مجھے گدھے پہ سوار کیا جائے اور میرے منہ پر کالک مل دی جائے اور لوگ مجھ پہ تھوکیں اور میں کہوں: اللّٰہ نے یہ کہا، اللّٰہ کے رسول نے یہ کہا۔ یہ عزت کی بات ہے۔ بہرحال جو عشاق ہوتے ہیں وہ اس کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔ لیکن بہرحال جب تک اس کیفیت تک نہ پہنچیں تکلیف تو ہوتی ہے۔ اور یہ مجاہدہ ہوتا ہے۔

بہرحال میں عرض کر رہا تھا کہ انسان کو دونوں حالتوں کے درمیان رہنا چاہئے۔ ایک حالت یہ کہ انسان امید کرتا ہو۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا مشہور قول ہے کہ اگر اعلان ہو جائے کہ سارے لوگ دوزخی ہیں، مگر ایک آدمی بچے گا۔ تو میرے دل میں امید ہو گی کہ شاید وہ میں ہوں۔ اور اگر اعلان ہو جائے کہ سارے لوگ جنتی ہیں، مگر ایک آدمی جہنم میں جائے گا۔ تو مجھے ڈر ہو گا کہ کہیں میں نہ ہوں۔ یہ ایک حالت ہے جس کو ’’اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ جو مشتاق روحیں ہوتی ہیں، جو اللّٰہ والے ہوتے ہیں، جن کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہوتی ہے، تو چونکہ محبت میں ویسے بھی بد گمانی بہت جلدی ہو جاتی ہے، انسان کو ڈر لگ جاتا ہے کہ پتا نہیں میرا محبوب مجھ سے نارض تو نہیں ہے، حالانکہ ناراض نہیں ہوتا، لیکن انسان سمجھتا ہے کہ کہیں مجھ سے ناراض نہ ہو۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو جب کبھی ہم کہتے کہ حضرت آپ ہم سے ناراض تو نہیں ہیں؟ حضرت فرماتے: نہیں، آپ نے میرا کوئی نقصان نہیں کیا، میں آپ سے ناراض نہیں ہوں۔ پھر ایک موقع پہ فرمایا کہ محبت کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ جن کو کسی کے ساتھ محبت ہوتی ہے ان کو اپنی باتیں غلط لگتی ہیں، ہر وقت ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ میں اپنے محبوب کو ناراض کر رہا ہوں اور ساتھ ساتھ امید بھی ہوتی ہے، کیونکہ وہ محبوب کے کرم کو دیکھ چکے ہوتے ہیں کہ وہ بڑے دل والے ہیں۔ اس لئے وہ مایوس بھی نہیں ہوتے۔ بہرحال حضرت فرماتے ہیں کہ جو حکم دے دیا جائے اسی پہ جم جاؤ۔ آگے فرمایا:

متن:

’’فَبَقَتْ أَرْوَاحُ الْمُشْتَاقِیْنَ بَیْنَ الرَّدِّ وَالْقُبُوْلِ وَالْفَرْقِ وَالْوُصُوْلِ‘‘ ”تو مشتاقوں کی روحیں رد و قبول اور ہجر و وصَال کے درمیان پریشان رہتی ہیں کہ میری دعا قبول ہوگی یا میرے منہ پر ماری جائے گی۔ ؎

گر دست بد کارے زنم زنجیر بر دستم مہنمند

در خم مے غرقم کند ز گر نام هوشیاری برم

’’اگر کوئی کام کرنا چاہوں تو میرے ہاتھوں میں زنجیر ڈالی جاتی ہے اور اگر ہوشیاری کا نام لوں تو مجھے شراب کی خم میں ڈبویا جاتا ہے۔‘‘ لیکن حکم استقامت کا دیا گیا ہے۔

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ اگر میں ہوشیاری دیکھاتا ہوں تو مجھے دیوانہ بنایا جاتا ہے اور اگر میں سستی کرتا ہوں تو مجھے کھینچ کے لایا جاتا ہے، میرے ہاتھ میں زنجیر ڈالا جاتا ہے۔ واقعتاً اللّٰہ تعالیٰ، اللّٰہ ہے، ہم لوگ اللہ کے بندے ہیں۔ اللّٰہ کو اپنے بندوں پہ پورا اختیار ہے، اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جو کرنا چاہے کر سکتا ہے، وہ اللّٰہ کا حق ہے۔ ہم اللّٰہ کو نہیں آزما سکتے، اللّٰہ تعالیٰ ہمیں آزما سکتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ سے کسی نے کہا کہ حضرت آپ کو اس پر یقین ہے کہ اگر آپ اس پہاڑ سے چھلانگ لگا دیں تو اللّٰہ تعالیٰ نے اگر آپ کو بچانا ہو گا تو آپ بچ جائیں گے۔ فرمایا: بالکل مجھے یقین ہے۔ کہا: پھر چھلانگ لگا دیں۔ فرمایا: اللّٰہ کو اختیار ہے کہ مجھے آزمائے، مجھے اختیار نہیں ہے کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کو آزماؤں۔ یہ وہی حضرت والی بات ہے۔ بہرحال ہمیں جیسے حکم ہے اسی طرح کرنا پڑے گا۔ ایک دفعہ ایک انٹرویو میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ سورۂ فاتحہ کیا چیز ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ دعا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کے لئے کچھ لکھا ہے تو پھر دعا کی کیا ضرورت ہے؟ وہی مل جائے گا آپ کو۔ میں نے عرض کیا کہ جتنا آپ جانتے ہیں، آپ سے زیادہ میں جانتا ہوں۔ کہا: کیا جانتے ہیں؟ میں نے کہا: میں یہ جانتا ہوں کہ اللّٰہ پاک کا کوئی حکم بے فائدہ نہیں ہوتا۔ لہذا جو اللّٰہ نے حکم دیا ہے میں اس پر عمل کروں گا۔ اللّٰہ پاک نے مجھ سے فرمایا: ﴿اُدْعُوْنِيْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المؤمن: 60)

ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔

لہذا میں تو مانگوں گا۔ باقی اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کیا کرتا ہے، وہ میرا کام نہیں ہے۔ بہرحال ہم لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم پر چلنا چاہئے، چاہے ہم جس حالت میں بھی ہوں۔ اگر آپ سمجھنا چاہیں تو حضرت عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ’’می رقصم‘‘ والی غزل کو آپ سن لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ جو عشاق ہوتے ہیں، وہ ہر حالت میں تیار ہوتے ہیں۔ اس غزل میں یہ ہے کہ جس طرح میرا محبوب مجھے نچانا چاہے، میں اسی طرح ناچنے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ پر جس قسم کے حالات بھی لانا چاہے، ان حالات پہ چلنے کے لئے میں تیار ہوں۔ در اصل یہ عشق کی باتیں ہیں، لوگ سمجھتے ہیں شاید وہ واقعی رقص کرتے ہوں گے۔ وہ رقص والی بات نہیں، حالات کی بات ہے۔ یعنی جو حالات انسان کے اوپر آتے ہیں، ان حالات کے مطابق انسان زندگی گزارے۔ فرمایا کہ:

استقامت تین قسم کی ہوتی ہے: اقوال میں، افعال میں اور احوال میں۔

اقوال میں استقامت یہ ہے کہ جو حق ہے وہ بیان کرو۔ افعال میں استقامت یہ ہے کہ جو صحیح طریقہ ہے، اس کے ساتھ رہو۔ اور احوال میں استقامت یہ ہے کہ جو کیفیتِ قلب مقصود ہو، اس پہ قائم رہو، آگے پیچھے نہ ہو۔ مثلاً آپ نے اللّٰہ کے لئے کسی کام کی نیت کی ہے، درمیان میں کوئی مسئلہ آ گیا کہ نیت دنیا کے لئے ہونے لگی، تو اس سے اپنے آپ کو بچائیں اور اللّٰہ کے لئے اپنی نیت کو خاص کریں۔ اس طرح ہم جو بھی کام کریں، اس میں جو دل کی کیفیت ہے مثلاً اللّٰہ کی رضا کی کیفیت ہے یا محبت کی کیفیت ہے، اس پر قائم رہیں، اس کے اندر کمی نہ کریں، وہ چیز اسی طریقے سے رہے۔ اور فرمایا کہ شریعت لوگوں کے ساتھ رسول اللّٰہ ﷺ کے اقوال ہیں، یعنی آپ ﷺ کی جو احادیث شریفہ اور اقوال ہیں اور ان سے جو فقہ بنتی ہے، یہ ہمارے پاس شریعت ہے۔ گویا آپ ﷺ کے اقوال سے شریعت بنی ہے۔ اور طریقت رسول اللّٰہ ﷺ کا اپنے نفس کے ساتھ فعل و عمل ہے، یعنی اپنے نفس کو کیسے قابو کیا۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ نفس کو قابو کرو۔ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشمس: 9-10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اپنے نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

آپ ﷺ بھی اس پر عمل فرما تھے اور سارے صحابہ کرام بھی عمل کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے نفس کے ساتھ کیا معاملہ کیا، کس طریقے سے اس کو قابو کیا۔ جیسے کھانے کو مانگا کہ کچھ ہے؟ پتا چلا کہ کچھ نہیں ہے تو فرمایا: اچھا میں نے روزہ رکھ لیا۔ اس طرح کسی نے کہا کہ میں آؤں گا، پھر وہ نہیں آئے تو آپ ﷺ ان کے انتظار کے لئے کھڑے رہے، جب وہ اگلے دن آیا تو آپ ﷺ ادھر ہی تھے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللّٰہ! آپ ادھر ہی ہیں؟ فرمایا: ہاں، کیونکہ آپ نے آنے کا کہا تھا۔ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ لیکن چونکہ آپ ﷺ کا اپنے نفس کے ساتھ اس طرح کا معاملہ تھا۔ اور ہمارے لئے بھی اس طرح حکم ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللّٰہ کا معاملہ ہے اور اس کے جو افعال ہیں وہ حقیقت ہے: ’’اَلشَّرِیْعَۃُ قَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ مَعَ الْخَلْقِ وَالطَّرِیْقَۃُ فِعْلُ النَّبِيِّ مَعَ النَّفْسِ وَالْحَقِیْقَۃُ أَحْوَالُ النَّبِيِّ مَعَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی‘‘۔

اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو قبول فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ