سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 233 ذکر اور دعا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر 1:

حضرت! اللہ رب العزت کی اشد محبت دل میں پیدا ہوجائے اور قائم رہے، اس کے لئے کیا جائے؟

جواب:

سوال اس طرح کیا جائے کہ میری مکمل اصلاح ہوجائے، اس کے لئے میں کیا کروں؟ جس کا جواب یہ ہے کہ تصوّف اسی لئے ہے تاکہ ہماری اصلاح ہوجائے اور پھر اس میں اللہ پاک کی شدید محبت بھی حاصل ہوجاتی ہے، نفس کے اوپر کنٹرول بھی حاصل ہوجاتا ہے، نیکیاں کرنے کی سعادت نصیب ہوجاتی ہے، برائیوں سے بچنے کی توفیق ہوجاتی ہے، یہ ساری چیزیں اس کے اندر شامل ہیں۔ اور جواب کے علاوہ ایک فائدے کی بات عرض کروں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: میں آپ کو اصلاح کا آسان طریقہ بتاؤں؟ لوگوں نے کہا کہ حضرت کیوں نہیں ضرور بتائیں۔ فرمایا محبت کی پڑیا کھا لو، لوگوں نے کہا حضرت محبت کی پڑیا کہاں سے ملے گی؟ فرمایا محبت کی دکانوں سے یعنی جن کو اللہ کی محبت حاصل ہے ان کے پاس بیٹھ کر، ان کی صحبت میں رہ کر، ان کی کتابیں پڑھ کر اور ان کے حالات سے ان شاء اللہ! آہستہ آہستہ اللہ کی محبت بڑھے گی اور ایک وقت میں یہ کامل حاصل ہوجائے گی۔

سوال نمبر 2:

حضرت! تصوّف میں جو لطائف جاری ہوتے ہیں ان کا نفس کے تزکیہ سے کیا تعلق ہے؟ اور اگر کسی کے جاری نہیں ہوتے تو کیا اس کا بھی تزکیہ ہوجاتا ہے یا نہیں؟

جواب:

اصل میں اصلاح کا جو نظام ہے اس میں دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک دل اور دوسرا نفس۔ دل کی اصلاح سے دل قلبِ سلیم بن جاتا ہے، پھر ہدایت کے راستے سمجھ میں آنا شروع ہوجاتے ہیں، قرآن سمجھ میں آنا شروع ہوجاتا ہے، حدیث سمجھ میں آنا شروع ہوجاتی ہے، بزرگوں اور علماء کی باتیں سمجھ میں آنا شروع ہوجاتی ہیں، جس سے پھر راستہ نظر آنا شروع ہوجاتا ہے، یہ دل کی اصلاح کی بات ہے۔ نفس کی اصلاح، یعنی نفس پر جو مجاہدہ کیا جاتا ہے اور نفس کو دبایا جاتا ہے اس سے نفس دبتا ہے، نفس ٹریند ہوتا ہے اور نفس ماننا شروع کرلیتا ہے، کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا، پھر اس کی رکاوٹ کی وجہ سے جو برائیاں ہوسکتی تھیں وہ دب جاتی ہیں۔ یعنی ایک سمجھ کے لحاظ سے اور دوسرا عمل کے لحاظ سے ہے اور دونوں ہی اس میں ضروری ہیں، کیونکہ بغیر سمجھے انسان عمل نہیں کرسکتا اور بغیر عمل کے سمجھ کافی نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے دل کی اصلاح بھی ضروری ہوتی ہے اور نفس کی اصلاح بھی ضروری ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ لطائف کیا ہیں؟ ان کو ہم انگریزی میں Sensing points کہہ سکتے ہیں یعنی یہ وہ جگہیں ہیں جہاں پر انسان کا جسم محسوس کرسکتا ہے۔ ہماری دیکھنے کی حس ہے، سننے کی حس ہے، اسی طرح یہ مقامات ہیں جن کو ہم لطائف کہتے ہیں، یعنی اس پر بھی جسم اثرات محسوس کرسکتا ہے، اثرات چاہے مثبت ہوں یا منفی۔ کیونکہ ان لطائف کو جگانے سے یا ان لطائف کو زندہ کرنے سے عالَمِ محسوسات میں انسان چلا جاتا ہے، اس وجہ سے کائنات کے اندر جو خیر کی چیزیں ہیں اگر ان کو خیر کے لئے جگایا ہے تو انسان کو خیر ملنے لگتی ہے۔ مثلاً لطیفۂ قلب ہے، یہ اگر جاگ جائے تو چونکہ انسان اللہ کا ہونا چاہتا ہے اور مخلوق سے کٹنا چاہتا ہے، جس کو ہم اللہ تعالیٰ کی طرف یکسوئی حاصل ہوجانا کہتے ہیں۔ اور اگر لطیفۂ روح جاری ہوجائے تو یہ دوبارہ عمل کی دنیا میں آتا ہے اور اس دل کو اس طرف دوبارہ لاتا ہے کہ انسان کام کرنا شروع کرلے، باقی چیزوں کے جو اثرات ہیں اس کو سمجھنا شروع کرلے یعنی عملی دنیا میں اس کو دوبارہ لاتا ہے۔ تیسرا لطیفۂ سِر ہے، یہ جس وقت محسوس کرتا ہے تو پھر انسان پر امور غیبیہ منکشف ہونے لگتے ہیں۔ ایسے ہی خفی اس کے اپنے آثار ہیں، اخفیٰ اس کے اپنے آثار ہیں۔ یعنی اس طرح جسم کی جتنی بھی جگہیں ہیں ان سے متعلق جو صفات ہیں وہ زندہ ہوجاتی ہیں اور پھر صرف زندہ کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد مراقبات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مراقبات میں اللہ پاک کی صفات کے مراقبات ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ قادر ہے یہ سب لوگ جانتے ہیں مگر علمی طور پر جانتے ہیں، لیکن ہمیں اللہ پاک کے قادر ہونے کا یقین ہوجائے، اللہ جل شانہٗ کے حافظ ہونے کا یقین ہوجائے، اللہ جل شانہٗ کے غفور ہونے کا یقین ہوجائے، اللہ جل شانہٗ کے بڑے ہونے کا یقین ہوجائے۔ یہ صفات کے مراقبات ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی صفات پر یقین پیدا ہونا شروع ہوجائے گا اور پھر اس کے بعد قرآن کی آیتِ مبارکہ کے اوپر یقین آنا شروع ہوجائے تو اس سے متعلقہ جو فوائد ہیں وہ حاصل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ایک حد ایسی آسکتی ہے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان ایسا تعلق قائم ہوجاتا ہے، جیسا کہ فارسی کا شعر ہے:

میانِ عاشق و معشوق رمزی است

کراماً کاتبین را ہم خبر نیست

یعنی عاشق و معشوق کے درمیان ایسا ربط ہوجاتا ہے جس کا کراماً کاتبین کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی ابتدا آپ لسانی ذکر سے شروع کریں گے اور انتہا ہر ایک کی اپنی اپنی ہے، جس حد تک انسان پہنچ جائے یہ انسان کی اپنی کوشش ہے اور اپنے شیخ کے ساتھ تعلق ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ یہ دونوں نصیب فرما دیتے ہیں یعنی شیخ کے ساتھ رابطہ اور اپنی کوشش، تو پھر اللہ جل شانہٗ اس کو کیا کیا نصیب فرما دیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ

سوال نمبر 3:

اللہ کے ولی کا دنیا سے جانے کے بعد فیض کم ہوجاتا ہے یا زیادہ ہوجاتا ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اولیاء اللہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے رکھتے ہیں، دوسرا وہ جس کو مخلوق کے لئے استعمال فرماتے ہیں۔ اسی طرح جو اولیاء اللہ فوت ہوجاتے ہیں اس میں بھی دو قسمیں ہوجاتی ہیں، ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ مشغول کرا دیتے ہیں، دوسرا وہ جن کو اللہ تعالیٰ دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی رابطہ دے دیتے ہیں اور پھر مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ ان سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔ جیسے خضر علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کی مدد کرنے کی باتیں ملتی ہیں۔ ایسے ہی بڑے بڑے اولیاء اللہ ہیں جیسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ ہیں یعنی جن کو بھی اللہ تعالیٰ عطا فرما دے۔ جیسے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا حضرت! کیا حال ہے؟ فرمایا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی خلافت دے دی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تشریح یوں بیان فرمائی کہ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ دوسرے لوگوں کے لئے استعمال فرماتے ہیں اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ پاک نے وہاں بھی خلافت عطا فرما دی۔ بہرحال جہاں تک فیض کی بات ہے تو کسی بھی شخص کی اپنی کمائی تو رک جاتی ہے، البتہ صدقہ جاریہ چلتا رہتا ہے اور صدقہ جاریہ میں سلسلہ بھی ہے۔ ایسے ہی اولیاء اللہ جن کے پیچھے دوسرے اولیاء اللہ جو زندہ ہیں وہ کام کر رہے ہیں، ان سب کو اجر جاتا ہے کیونکہ یہ صدقہ جاریہ ہے اور ان کا صدقہ جاریہ چلتا رہتا ہے۔ لہٰذا اپنے عمل کے لحاظ سے ان کا فیض رک گیا لیکن صدقہ جاریہ کی وجہ سے ان کا فیض روز افزوں بڑھ رہا ہوتا ہے۔ بہرحال حسّی طور پر فیض ختم ہوجاتا ہے۔ حسی طور سے مراد یہ ہے کہ جیسے کوئی تربیت کرتا ہے اور لازمی بات ہے کہ تربیت زندہ اولیاء اللہ سے ہی کروائی جاتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے ورنہ اگر یہ نہ ہو تو پھر کسی سلسلہ کی ضرورت آپ ﷺ کی موجودگی میں نہیں تھی، کس ولی کی ضرورت نہیں تھی۔ اس وجہ سے یہ اللہ پاک کی حکمت ہے، لہٰذا اس کو اللہ پاک نے اپنے پاس رکھا ہے اور زندوں سے اللہ جل شانہٗ یہ کام کرواتے ہیں۔ اس وجہ سے جو اللہ والے فوت ہو چکے ہوتے ہیں اگر ان کا کسی زندہ کے ساتھ تعلق ہوجاتا ہے تو وہ ان کو کسی زندہ کی طرف متوجہ کردیتے ہیں۔ مثلاً حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ پیر کی تلاش میں تھے، آپ ﷺ نے خواب میں ان کا ہاتھ میاں جی نور محمد جنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں دلوا دیا، حالانکہ وہ میاں جی نور محمد جنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو جانتے بھی نہیں تھے، اور وہ کہاں ہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا۔ لیکن ان کو یقین ہوگیا کہ ان سے مجھے فائدہ ہوگا، اس لئے دیوانہ وار ان کو ڈھونڈتے پھرتے تھے اور دیکھتے تھے۔ اگر کوئی کسی بزرگ کا بتا دیتا کہ یہاں پر ایک بزرگ ہیں، فوراً وہاں چلے جاتے، کیونکہ چہرہ بالکل ذہن میں نقش تھا اس لئے معلوم ہوجاتا کہ یہ وہ نہیں ہیں، اخیر میں کسی نے کہا کہ حضرت! جنجھانہ میں بھی ایک بزرگ ہیں شاید آپ کا مطلب وہاں پورا ہوجائے، حضرت وہاں گئے، جیسے ہی ان کو دیکھا فوراً معلوم ہوگیا کہ یہ وہی ہیں، سیدھے جا کر حضرت کے قدموں میں بیٹھ گئے اور کہا کہ حضرت مجھے اپنی فرزندی میں لے لیں۔ حضرت نے ان کو اٹھایا اور فرمایا آپ کو اپنے خواب پر پورا وثوق ہے؟ گویا کہ حضرت کو بھی پتہ تھا۔ یہ واقعہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’تاریخِ مشائخِ چشت‘‘ میں موجود ہے۔


سوال نمبر 4:

تصوّف اور تقویٰ میں کوئی relationship ہے؟

جواب:

حضرت سیّد سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ تصوّف کی definition تقویٰ سے فرماتے ہیں یعنی تصوّف کا قرآنی نام تقویٰ ہے۔ باقی حضرات ان سے تھوڑا سا فرق رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تصوّف تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے۔ گویا کہ سیّد صاحب نے اس کا آخر پکڑا ہے اور باقی لوگوں نے اس کی ابتدا پکڑی ہوئی ہے، لیکن بات ایک ہی ہے۔ کیونکہ تقوٰی میں دو ہی چیزوں کی رکاوٹ ہے، ایک یہ کہ بات سمجھ میں نہ آئے، دوسرا عمل نہ ہو اور تصوّف کا کام ہی یہ ہے کہ دل زندہ ہوجائے تاکہ بات سمجھ میں آ جائے اور نفس دب جائے اور نفس مطمئنہ ہوجائے تاکہ عمل نصیب ہوجائے، اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ لہٰذا تقویٰ حاصل ہوتا ہے تصوّف کے ذریعے۔ مثلاً میں لاہور پہنچنے کے لئے گاڑی پر جا رہا ہوں، اس میں لاہور پہنچنا میرا مقصد ہے اور گاڑی میں جانا ذریعہ ہے۔ ایسے ہی مقصود تقوٰی ہے اور تصوّف ذریعہ ہے۔

سوال نمبر 5:

حضرت جی! جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ مرید کو اپنے عیوب شیخ کو بتانے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ مرید کو کیسے پتہ چلے گا کہ میرے اندر عجب، تکبر، یا حسد وغیرہ ہے؟ کیا مرید کو اپنے تمام معاملات میں شیخ سے مشورہ کرنا چاہئے؟ نیز شیخ کا مشورہ مرید کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے؟ اور کیا مرید کو ہر طرح کے خواب شیخ کو بتانے چاہئیں یا وہ جو صرف سلسلے سے متعلق ہوں؟

جواب:

آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے کے جواب کے متعلق میں ایک واقعہ سناتا ہوں، ایک جیتا جاگتا واقعہ جو ہوچکا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں ایک شخص ٹھہرا ہوا تھا کیونکہ حضرت کی خانقاہ میں لوگ ٹھہرتے تھے اور حضرت کا طریقہ بڑا منظم تھا۔ خانقاہ میں ایک لیٹر بکس ہوتا تھا جیسے ہماری خانقاہ میں بھی ہے۔ اس میں لوگ اپنے احوال، اشکالات، سوالات ڈالتے تھے اور حضرت ظہر کی نماز کے بعد بیٹھتے اور خطوط کو کھولتے تھے اور جو باہر سے ڈاک آئی ہوتی تھی اسے بھی کھولتے پھر ان کے جوابات لکھتے تھے۔ جس خط کے بارے میں محسوس کرتے کہ اس کا جواب باقی لوگوں کے لئے بھی مفید ہے تو اس کو بغیر نام کے سوال یا حال کے عنوان سے سناتے اور پھر اس کا جواب بھی ساتھ دے دیتے۔ جیسا کہ ’’انفاس عیسیٰ‘‘ میں آپ نے حال لکھا ہوا دیکھا ہوگا اور پھر اس میں لکھا ہوتا ’’تحقیق‘‘، یہ تحقیق حضرت کا جواب ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ حضرت کا چلتا رہتا تھا، اس میں ایک صاحب آئے تھے اور سوال لکھا تھا کہ حضرت! ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ مجھ میں عیوب ہیں؟ کیونکہ میں نے بہت کوشش کی لیکن مجھے اپنے اندر کوئی عیب نظر نہیں آیا، لہٰذا اب میں کیا کروں؟ حضرت نے اس کا سوال سنایا اور پھر فرمایا تجھے چونکہ اپنے عیب نظر نہیں آرہے اور میں عیب کی تلاش میں نہیں رہتا، لہٰذا تم لاعلاج ہو اس لئے تم گھر جاسکتے ہو، تمہارا علاج میں نہیں کرسکتا۔ یہ اصولی جواب دیا اور پھر فرمایا: کم بخت اتنا سوچا ہوتا کہ میزان قائم ہے، اللہ حساب کر رہا ہے اور میرے اعمال پیش ہو رہے ہیں، اب بتاؤ تیرا کون سا عمل پیش کرنے کے قابل ہے؟ اور پھر فرمایا چونکہ تجھے اتنا بھی نہیں پتا چلتا کہ تیرے اندر کیا عیب ہے، اس لئے جاؤ میں تیری اصلاح نہیں کرسکتا، تم لاعلاج ہو اور اس وقت تک یہاں آنے کا ارادہ نہ کرنا جب تک تجھے اپنے عیوب معلوم ہونے نہ لگ جائیں اور عیوب بھی ایک یا دو نہیں بلکہ بہت سارے۔ حضرت نے ڈانٹ کے نکال دیا، کافی دنوں کے بعد شاید مہینے کے بعد ان کا خط آیا اور کہا حضرت! آپ نے مجھے جو مراقبہ بتایا تھا میں نے اس کے اوپر عمل کرلیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ میں تو سراپا عیوب ہی عیوب ہوں، میری تو ہر چیز خراب ہے، میری مثال اس وقت ایسی ہے جیسے ایک منقش صندوق ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے اندر پھول اور پتہ نہیں کیا کیا ہوں گے، لیکن جب کھولا تو اس کے اندر گو ہی گو تھا یعنی بول و براز۔ اور اب میں اپنے ہر عیب کے اوپر قسم کھا سکتا ہوں، بڑی سے بڑی قسم کھا سکتا ہوں، کیا اب مجھے آنے کی اجازت ہے؟ حضرت نے جواب دیا ماشاء اللہ! بہت فائدہ ہوا لیکن یاد رکھو یہ جو آپ کو گو نظر آرہا ہے، بول و براز نظر آرہا ہے ان شاء اللہ یہی کھاد بنے گا اور پھر آپ کے دل میں پھل اور پھول پیدا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے دے تو آپ آ سکتے ہیں اور اپنے عیوب پیش کرسکتے ہیں لیکن ایک ایک کر کے پیش کرنے ہیں سارے اکٹھے نہیں۔ میرے خیال میں اس واقعے کے اندر پہلے سوال کا جواب مل گیا ہے۔

دوسرا سوال کہ کیا مرید کو اپنے تمام معاملات میں شیخ سے مشورہ کرنا چاہئے اور شیخ کا مشورہ مرید کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے؟ میرے خیال میں اس کا جواب پہلے سوال کے جواب میں موجود ہے، کیونکہ جس وقت انسان کے اوپر کسی انسان کو اعتماد ہوجاتا ہے اور معلوم ہوجاتا کہ کہاں سے مجھے فائدہ ہوسکتا ہے اور پھر وہ بہت پھنسا ہوا ہو تو اس وقت وہ مشورہ کرتا ہے اور اپنے لئے سب سے زیادہ اہم چیز مشورہ کو سمجھتا ہے۔ اور یہ سوال کہ کیا مرید کو ہر طرح کے خواب اپنے شیخ کو بتانے چاہئیں؟ اس میں یہ سمجھنا چاہئے کہ بعض لوگ خوابی ہوتے ہیں، ان کو ہر وقت خواب ہی نظر آتے ہیں اور یہ ایک قسم کی بیماری بن جاتی ہے، اس لئے ایسے لوگوں کے خوابوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ لیکن جن کے خواب organized ہوتے ہیں ان کے خواب تین قسم ہوتے ہیں، اضغاثِ احلام، شیطان کے وساوس اور مبشرات، یہ تین قسم کے خواب ہوتے ہیں۔ اضغاثِ احلام کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور شیطانی وساوس کے متعلق بھی انسان تعلیم کے لئے پوچھ سکتا ہے تاکہ شیطان کے وسوسوں کا پتہ چلے۔ اس لئے ہمارے حضرت جب خواب کی تعبیر بتاتے تھے تو یہاں تک فرماتے تھے کہ یہاں تک خواب صحیح ہے اور یہاں سے لے کے یہاں تک یہ شیطان کا درمیان میں تصرّف ہے۔ کیونکہ خواب میں شیطان تصرّف کرسکتا ہے۔ لہٰذا اس قسم کی چیزوں کا پتہ چل سکتا ہے اس وجہ سے شیخ سے معلوم کرنا چاہئے۔ لیکن شیخ کی ترتیب کے مطابق پوچھنا چاہئے، یہ نہیں کہ اس کو راستے میں پکڑ لیا جائے کہ حضرت میں نے یہ خواب دیکھا ہے، کبھی اس کو نیند سے جگا رہے ہیں کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے۔ بلکہ جو ترتیب شیخ نے بنائی ہو اس کے مطابق چلنا چاہئے۔ مثلاً جیسے ہمارے ہاں لیٹر بکس ہے، اس لیٹر بکس میں لوگ ڈال دیتے ہیں یہ ٹھیک ہے، آپ بھی ڈال لیا کریں۔ جس خواب کے بارے میں سمجھا جائے گا کہ یہ کچھ صحیح خواب ہے اس کا جواب دے دیں گے ورنہ خاموش ہوجائیں گے اور کبھی کبھی اس پر ڈانٹ بھی پڑ سکتی ہے، اس لئے ڈانٹ بھی سہ لینی ہے۔

سوال نمبر 6:

حضرت جی! کون سے سلسلے میں ترقی یا اصلاح نسبتاً تیز تر ہے؟ اور حضرت جی! کسی محفل میں جا کر اگر لطائف زندہ ہوجائیں تو ان سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے؟

جواب:

ڈاکٹر حضرات ایلوپیتھک کے حق میں ہیں، ہومیوپیتھ ہومیوپیتھک کے حق میں ہیں اور حکیم حضرات اپنے آپ کو کامل سمجھتے ہیں، acupunture والوں کی اپنی شہرت ہے۔ میں درمیان میں فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کن کا علاج بہت زیادہ مؤثر ہے، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا تجربہ ہے، کسی کو ایلوپیتھک سے زیادہ فائدہ ہے، کسی کو ہومیوپیتھک سے زیادہ فائدہ ہے، کسی کو یونانی علاج سے، کسی کو طب سے زیادہ فائدہ ہے، کسی کو acupunture سے زیادہ فائدہ ہے۔ لہٰذا جس کو جس سے فائدہ ہو رہا ہے اس کے لئے وہی بہتر ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اللہ کا شکر ہے چاروں سلسلے ہیں اور ہم چاروں سلسلوں میں بیعت کرتے ہیں، لہٰذا یہ سوال ہی ختم ہوجاتا ہے، جب سوال ختم تو جواب بھی ختم۔ اس وجہ سے ہم ایسی چیزوں میں نہیں پڑتے کہ کون سا سلسلہ کتنا آگے ہے اور کتنا پیچھے ہے۔ اور یہ بات کہ کسی بھی محفل میں جا کر لطائف زندہ ہوجائیں، تو اگر آپ کا شیخ موجود ہے تو اس کو بتا دیں، وہ اس سے کام لے لے گا اور اگر شیخ موجود نہیں ہے اور مجھ سے مشورہ کرنا ہو تو پھر ساری تفصیل لکھ دیجئے گا اور جو وقت اور طریقہ یہاں پر ہم نے بتایا ہوا ہے اس طریقے پر آپ ملاقات کرلیں ان شاء اللہ بتا دیں گے۔ کیونکہ اس میں دوسرے لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے، لہٰذا اس کو عام نہیں کیا جاتا یہ صرف خاص ہوتا ہے۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ کیا اخلاص سے متعلق کسی کو خود پتہ چل سکتا ہے کہ میرا عمل خالص خدا تعالیٰ کے لئے تھا یا اپنے عمل کی پوری تفصیل اپنے شیخ کو بتا دینی چاہئے اور وہ فیصلہ کرے گا کہ آیا اخلاص تھا یا نہیں؟

جواب:

عمومی طریقہ یہ ہے کہ شیخ کو بتائیں۔ لیکن کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کچھ اثرات اس کے ایسے پیدا فرما دیتے ہیں جس سے انسان کو کسی عمل کے خالص ہونے کا شرح صدر ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 8:

سالک کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ میں اچھا ہو رہا ہوں یا برا ہو رہا ہوں؟

جواب:

دیکھیں! جس شخص کا ڈاکٹر کے ساتھ تعلق ہو وہ اس کا فیصلہ خود نہیں کرتا کہ میں ٹھیک ہو رہا ہوں یا بیمار ہو رہا ہوں۔ البتہ وہ جا کر اپنی کیفیات بتا دے گا لیکن فیصلہ نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس میں انسان غلطی کرسکتا ہے۔ جیسے بعض دفعہ انسان کو بظاہر صحت ہوتی ہے لیکن وہ بیمار ہو رہا ہوتا ہے اور بعض دفعہ بظاہر بیمار ہو رہا ہوتا ہے لیکن اس کو صحت ہو رہی ہوتی ہے۔ اس لیے انسان کا اپنا فیصلہ اس میں کافی نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک شخص ہے، اس کو درد نہیں ہوتا، تو درد کا نہ ہونا یہ بھی بیماری ہے کیونکہ درد بہت ساری بیماریوں کا علاج ہے۔ مثلاً فالج ہے اور اس کے جسم کا ایک حصہ سن ہے اس لئے اس کو درد نہیں ہوگا اور اگر اس کو درد ہونا شروع ہوجائے تو وہ خوش ہوگا۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس کو ہم مفید سمجھتے ہیں وہ مفید بھی ہو اور جس کو ہم نقصان دہ سمجھتے ہیں وہ نقصان دہ بھی ہو۔ جب اس قسم کی چیزوں کے امکان ہیں تو پھر وہی شخص بتائے گا جو اس کو جانتا بھی ہو اور آپ کا خیر خواہ بھی ہو، اور یہ شیخ ہوسکتا ہے اور کوئی نہیں۔

سوال نمبر 9:

اگر تقوٰی حاصل کرنے کی ساری چیزیں موجود ہوں لیکن کسی کو اپنے اندر تقوٰی کی بڑھوتری محسوس نہ ہو تو وہ کیا کرے؟

جواب:

وہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عجب سے بچایا ہوا ہے۔ لیکن تقوٰی کے حصول کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان کو استعمال کرتے رہیں، ان شاء اللہ فائدہ ہوتا رہے گا۔

سوال نمبر 10:

ذکرِ خفی اور ذکرِ جہری میں کیا فرق ہے؟

جواب:

میرے خیال میں جہر اور اخفاء یہ تو عام طالبِ علم بھی جانتا ہے۔ جہر زور سے ذکر کرنے کو کہتے ہیں۔ اور خفی وہ ہے جو ظاہر نہیں ہوتا، مثلاً میں بیٹھا ہوں اور اندر ہی اندر میں ذکر کر رہا ہوں، یہ ذکر خفی ہے کیونکہ کسی اور کو پتہ نہیں چل رہا۔ اور اگر میں ذکر کر رہا ہوں اور میرے ہونٹ بھی ہل رہے ہوں اور ہلکی ہلکی آواز آرہی ہو تو یہ ذکر جہری ہے۔ اگر اس میں جہر کے ساتھ قوت بھی استعمال کی جائے تو یہ جہر مفرد ہے اور اگر قوت استعمال نہ کی جائے تو جہر خفی ہے یعنی کم جہر ہے۔

سوال نمبر 11:

کیا ہر سلسلے میں دونوں ذکر ہوتے ہیں؟

جواب:

دنیا میں کتنے سلسلے ہیں ان سب کے بارے میں میں نہیں جانتا، البتہ جن کے بارے میں جانتا ہوں ان کے بارے میں بتا سکتا ہوں، اور ہمارے سلسلے میں دونوں ہیں۔

سوال نمبر 12:

ذکر کے لئے بہتر وقت کیا ہونا چاہئے؟

جواب:

وہ وقت جو انتہائی fresh ہو، جس میں انسان کو نہ نیند آتی ہو، نہ کوئی پریشانیاں اور نہ کوئی تشویش ہو کہ جس کی وجہ سے انسان ذکر سے اٹھ جائے۔ مثلاً کسی کا مہمان آرہا ہو اور میزبان اس کے انتظار میں بار بار گھڑی دیکھ رہا ہو، اس وقت اگر وہ ذکر کرے گا تو ذکر میں یکسوئی حاصل نہیں ہوگی کیونکہ ذہن تشویش کا شکار ہے۔ اس لئے تشویشات اور اس قسم کی چیزوں سے خالی جو وقت ہوگا وہ ذکر کے لئے بہترین وقت ہوگا۔ البتہ تجربے کے طور پر میں کہتا ہوں کہ سب سے بہتر وقت تہجد کے بعد کا ہے۔ کیونکہ اس وقت بہت کم chance ہوتے ہیں کہ انسان دوسری چیزوں میں مبتلا ہو اور اس وقت انسان fresh بھی ہوتا ہے، اس لئے بہترین وقت تجربہ کے لحاظ سے تہجد کا وقت ہے لیکن اکثر لوگوں کے لئے ہے۔ کیونکہ اگر ایک شخص چوکیدار ہے اور اس کی ڈیوٹی رات کو ہے تو صبح کا وقت اس کا fresh نہیں ہوگا بلکہ صبح تو اس کے لئے رات ہے، اس لئے اس کو ہم یہ نہیں کہیں گے۔ البتہ عموماً لوگوں کے لئے صبح کا وقت fresh وقت ہوتا ہے، لہٰذا بہتر وقت تہجد کے بعد کا ہے، پھر اس کے بعد فجر کے بعد کا وقت ہے، پھر اس کے بعد عصر کے بعد کا وقت ہے، پھر اس کے بعد غالباً مغرب کے بعد کا وقت ہے اور سب سے نکما وقت (جس کو میں نکما کہتا ہوں) عشاء کے بعد کا ہے۔ ہمارے جماعت والے ساتھی جن کا کسی شیخ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے وہ یہی غلطی کرتے ہیں کہ جب ذکر کرنا ہوتا ہے تو پہلے باقی کاموں میں اپنے آپ کو خوب تھکا دیتے ہیں اور پھر سب سے نکما وقت ذکر کو دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ یہ ذکر کرسکتے ہیں اور نہ ان کا ذکر ہوتا ہے، لہٰذا ان کو اپنے اس عمل کی اصلاح کرنی چاہئے اگر وہ ذکر کا فائدہ حاصل کرنا چاہیں۔

سوال نمبر 13:

پِیر بنانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب:

آپ یہ بتائیں کہ علاج کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے یعنی ڈاکٹر کے پاس جانے کا کبھی کسی مفتی سے پوچھا ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وہاں چونکہ ضرورت محسوس ہوتی ہے اور اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اسی لئے پیر بنانے کے لئے شرعی حیثیت معلوم کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بتاؤ کہ روح زیادہ اہم ہے یا جسم؟ جسم کا علاج ڈاکٹر کرتا ہے اس کے لئے آپ نے کبھی کسی مفتی سے نہیں پوچھا اور نہ پوچھنا ہوگا اور روح کا علاج پیر کرتے ہیں اس کے پاس جانے کی آپ شرعی حیثیت پوچھتے ہیں۔ یہ آپ کی ناسمجھی ہے یا آپ کی غفلت ہے۔

سوال نمبر 14:

حضرت جی! اگر کسی کا لطیفۂ قلب جاری نہیں ہو رہا تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے اور کیا اس کے جاری ہونے کے لئے دعا کی جاسکتی ہے؟

جواب:

دعا تو یقیناً کی جاسکتی ہے کیونکہ ہر اچھے کام کے لئے دعا کی جاسکتی ہے۔ لیکن پھر اللہ کا جو فیصلہ ہو اس فیصلے پر راضی ہونا چاہئے۔ بعض لوگوں کا دیر سے جاری ہوتا ہے، لیکن لوگ کیا کرتے ہیں کہ آج شروع کرلیا اور کل پوچھنا شروع کرلیں گے کہ میرا لطیفہ جاری نہیں ہو رہا اس کی کیا وجہ ہے؟ لہٰذا دعا تو اسی وقت سے شروع کرلو، اس میں کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن تعجیل نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ تصوّف کے جو پانچ موانع ہیں ان میں ایک مانع تعجیل بھی ہے۔ تعجیل یہ ہوتی ہے کہ انسان جلدی مچائے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ جیسے ٹی بی کا علاج ڈاکٹر حضرات نو مہینے کا بتاتے ہیں، اس لئے اگر آج آپ دوائی لیں اور کل ڈاکٹر سے پوچھنا شروع کردیں اور کہیں کہ میں ٹھیک نہیں ہوا۔ تو ڈاکٹر یہی کہے گا کہ تیرا دماغ خراب ہے، تو ابھی علاج کرتا رہ اور اس کے بارے میں نہ سوچ، جب یہ ٹھیک ہونا شروع ہوجائے گا تو پھر آپ کو پتہ چل جائے گا۔ اسی طرح اس میں بھی تعجیل نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ بعض لوگوں کا قلب دیر سے جاری ہوتا ہے اور بعض لوگوں کا جلدی ہوجاتا ہے، جلدی ہونے کے اپنے Merits and demerits ہیں اور دیر سے ہونے کے اپنے مسائل ہیں، لہٰذا ہم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہونا چاہئے یا اپنے شیخ کو بتانا چاہئے، کیونکہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ کے دل میں آپ کے لئے کوئی اور راستہ ڈال دے اور لطائف کے ذریعے سے نہیں بلکہ کسی اور ذریعے سے آپ کا علاج کروا دے۔ کیونکہ یہ علاج کا واحد ایک ذریعہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 15:

حضرت! لطیفۂ قلب کے جاری ہونے کی علامات کیا ہیں؟

جواب:

دل کا اللہ کی طرف متوجہ ہوجانا اور انسان کا دل کے کانوں سے محسوس کرنا کہ اللہ اللہ ہو رہا ہے یعنی اپنے دل کے کان سے محسوس ہونا شروع ہوجائے۔

سوال نمبر 16:

جس طرح ذکر دل کی صفائی کا ذریعہ ہے، اس طرح کیا فرائض سے بھی دل کی صفائی ہوتی ہے؟

جواب:

فرائض اللہ کا حکم ہے، یہ حکم آپ کو پورا کرنا پڑے گا، یہ آپ صفائی کے لئے نہیں کر رہے، بلکہ اللہ کا حکم سمجھ کر کر رہے ہیں۔ لیکن فرائض کے اندر جان دل کی صفائی سے آئے گی، کیونکہ اگر آپ کا دل زندہ نہیں ہے تو آپ فرائض کو ضائع کردیں گے۔ جیسے نماز فرض ہے، لیکن اگر آپ کا دل زندہ نہیں تو نماز میں خشوع نہیں ہوگا، پھر آپ کی نماز کی حیثیت نہیں ہوگی۔ ایسے ہی اگر اخلاص نہیں ہوگا تو نماز ضائع ہوجائے گی۔ اس لئے دل کی صفائی مطلوب ہے، کیونکہ یہ علاج ہے اور فرائض علاج نہیں ہیں بلکہ فرائض حکم ہیں۔ علاج اور حکم میں فرق کرنا چاہئے۔ مثلاً آپ جو غذا کھاتے ہیں وہ آپ کے جسم کے لئے ضروری ہے کیونکہ آپ کھائیں گے تو زندہ رہیں گے، لیکن اگر کھانا ہضم نہ ہو تو پھر کیا کریں گے؟ علاج کریں گے۔ ایسے ہی اتنی بھوک ہو کہ ختم ہی نہ ہو پھر بھی علاج کریں گے۔ لہٰذا بیماری کا علاج ہوتا ہے، لیکن باقی صحت کو قائم رکھنے کے لئے باقی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

سوال نمبر 17:

دعا کرتے ہوئے وسیلہ پیش کرنا کیسا ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اس مسئلے پر اگر میں گفتگو کروں تو میرے خیال میں کئی لوگوں کے اشکالات آجائیں گے، کیونکہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ لیکن میں اپنے آپ کو ایسی چیزوں سے بہت آسانی سے بچاتا ہوں کہ میں علماء کو سامنے کردیتا ہوں کیونکہ یہ ان کی فیلڈ ہے۔ چنانچہ مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم (جن کو شیخ الاسلام کہتے ہیں اور میرے خیال میں بالکل صحیح کہتے ہیں۔) انہوں نے بخاری شریف کا درس دیا تھا اور اس موضوع پر حضرت نے بڑے زبردست دلائل دیئے تھے کہ وسیلہ ثابت ہے، قرآن سے بھی اور حدیث شریف سے بھی ثابت ہے اور حضرت نے پورے دلائل دیئے ہیں اور آپ دارالعلوم کراچی سے رابطہ کرکے یہ بیان (کیسٹ حاصل کرکے) سن سکتے ہیں۔ خیر حضرت نے فرمایا کہ وسیلہ ثابت ہے۔ یہ شیخ الاسلام مولانا تقی عثمانی صاحب کا فتویٰ میں نے آپ کو سنا دیا ہے۔ باقی مزید اگر کوئی اس بارے میں تحقیق کرنا چاہے تو وہ کرلے۔ اور اگر میرے اوپر اعتماد ہے تو میں نے بتا دیا ہے کہ میں نے خود سنا ہے کہ حضرت نے ایسا فرمایا ہے۔

سوال نمبر 18:

حضرت! یہاں پر ہم ایک ترتیب سے ذکر کر رہے ہیں، اس ذکر کی گھر میں کم سے کم مقدار کتنی ہونی چاہئے جس سے ہمیں مکمل فائدہ ہو؟ اور دیگر اہلِ خانہ کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے یا اس کے لئے کوئی خاص qualification کی ضرورت ہوتی ہے؟

جواب:

یہ آپ ذکرِ جہری کی بات کر رہے ہیں، یہ علاج ہے، اس وجہ سے مجلس میں شیخ کی موجودگی میں یہ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اگر خدا نخواستہ کوئی گڑبڑ ہو تو شیخ کنٹرول کرلے گا۔ جیسے بعض دفعہ ETT کراتے ہیں تو اس میں ڈاکٹر کی ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے رہیں اور monitor کرتے رہیں، اگر کوئی مسئلہ ہو تو وہ فوراً ایکشن لیتے ہیں۔ لیکن چونکہ ETT کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے کرواتے ہیں، لیکن ڈاکٹر کے مطابق ہوتا ہے یعنی تشخیص کے مطابق۔ لہٰذا جس کا شیخ ہو وہ اپنے شیخ کی بات پر عمل کرے گا، ہم اس کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ اور جن کا شیخ نہیں ہے اور وہ ہم سے پوچھنا چاہتے ہیں تو پھر وہ ہمیں شیخِ تعلیم کی حیثیت دیں تاکہ پھر ہم اس کی ذمہ داری لے سکیں۔ کیونکہ اگر آپ میری ایک بات مان لیں اور دو باتیں نہ مانیں تو علاج نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایک پورا کورس ہوتا ہے، اس لئے ساری باتیں اگر کوئی مانتا ہے تو پھر اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شیخِ تعلیم کی حیثیت نہیں دیتا تو اس سلسلہ میں مشورہ دینے سے میں معذور ہوں، کیونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ باقی حالات کیا ہیں، اس لئے اگر باقی حالات وہ بتاتے ہیں تو پھر ہم ان کو سمجھاتے ہیں کہ اس میں یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ لہٰذا اگر کسی کا شیخ ہے تو وہ اپنے شیخ سے رابطہ کرلے اور اگر کسی کا شیخ نہیں ہے تو وہ شیخ پکڑ لے اور اگر شیخ پکڑنے میں ابھی تک ان کو اشکالات ہیں تو جب تک اشکالات ختم نہیں ہوتے اس وقت تک کسی شیخِ تعلیم (جس پر زیادہ اعتماد ہو ان) سے مشورہ حاصل کرتے رہیں اور صرف اسی سے پوچھتے رہیں، ہر ایک سے نہ پوچھیں۔ ان تین صورتوں میں سے کسی پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔

سوال نمبر 19:

حضرت! ایک مرید کو روزانہ کی بنیاد پر، یا ہفتے کی بنیاد پر، یا ماہانہ کی بنیاد پر کم از کم کتنا وقت اپنے مرشد کو دینا چاہئے؟

جواب:

رابطہ کی صورتیں ہر ایک کے لئے کھلی ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں ٹرانسپورٹ کا نظام اتنا زیادہ نہیں تھا اور خطوط کے پہنچنے کا نظام بھی اتنا نہیں تھا، جس کی وجہ سے ہفتے ہفتے میں خط پہنچتے تھے۔ لیکن اس دور میں بہت سارے لوگوں کی اصلاح حضرت نے خطوط کے ذریعے سے کی ہے۔ لوگ خطوط لکھتے تھے اور حضرت اس کا جواب بھیجتے تھے، لیکن حضرت کا اس سلسلے میں جو مشورہ تھا وہ ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی بیعت کرے تو ایک دفعہ اتنا وقت شیخ کے ساتھ رہ لے کہ باہمی مناسبت ہوجائے مثلاً یہ آپ کو پہچان لے اور وہ آپ کو پہچان لے۔ کیونکہ جس کو آدمی پہچانتا ہو اس کو مشورہ درست دے سکتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کا کراچی سے فون آتا ہے جو یہاں میرے ساتھ کافی عرصہ رہا ہے اور اس نے مناسب وقت مجھے دیا ہے، وہ جب بھی کوئی پریشانی کا اظہار کرے گا تو میں اس کا تمام نفسیاتی structure سمجھ جاؤں گا کہ یہ کیسا آدمی ہے، کس چیز کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، کس چیز کو کم، کیسے سوچتا ہے، کیسے غور کرتا ہے، یہ تمام چیزیں میرے سامنے ہوں گی، لہٰذا اس کو جب میں جواب دوں گا تو اس کے لئے جواب وزن رکھے گا۔ لیکن اگر میرے پاس اس کی معلومات نہیں ہیں صرف خط ہی خط ہیں تو اس میں غلطی ہوسکتی ہے۔ البتہ جب خطوط بہت زیادہ ہوجائیں یعنی اتنی تعداد میں ہوجائیں کہ اس کی حیثیت اس طرح ہوجائے کہ جیسے میں اس کی تمام چیزوں کو جانتا ہوں، تو اس وقت غلطی کم ہوسکتی ہے۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں یہ بات ہے کہ یا تو ایک دفعہ انسان کافی وقت خانقاہ میں لگا لے اور پھر اس کے بعد خطوط کے ذریعے سے، ٹیلی فون کے ذریعے سے رابطہ کرتا رہے، یا پھر یہ کہ خطوط، ای میل اور ٹیلی فون کے جو وقت مقرر ہیں اس کے مطابق اتنی کثرت سے رابطے ہوں کہ پوری شناسائی ہوجائے، پھر اس صورت میں فائدہ ہوگا۔

سوال نمبر 20:

حضرت! جب رزق لکھا جا چکا ہے، تو کس حد تک اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور کتنے پر توکل کرلینا چاہئے؟

جواب:

مکمل کوشش کرنی چاہئے، اس میں کوئی سستی نہیں کرنی چاہئے، لیکن اس کے ساتھ اللہ کے فیصلے پر ہمیشہ راضی بھی رہنا چاہئے۔ یعنی کوشش میں کمی نہ کرے اور اللہ کے فیصلہ پر اعتراض نہ کرے، کیونکہ ایک سبب ہے، دوسرا مسبب الاسباب ہے۔ اس لئے سبب میں کمی نہ ہو اور مسبب الاسباب سے رابطہ بھی نہ چھوٹنے پائے۔ یہ دونوں باتیں اگر ہوں تو توکل میں کمی نہیں ہے، بلکہ توکل میں کمی اس وقت ہے جب انسان اللہ کو بھول کر کسی سبب کو تلاش کرتا ہے۔ اور اللہ کو بھول کر سبب تلاش کرنا یہ ہے کہ انسان کوئی حرام رزق کا ذریعہ اختیار کر رہا ہو، اس صورت میں یہ اللہ کو بھول رہا ہے، یا اس کا فرائض میں سے کوئی اہم فرض متأثر ہو رہا ہو لیکن یہ پھر بھی اسی کے پیچھے لگا ہوا ہو اس صورت میں بھی یہ خدا کو بھول رہا ہے۔ مثلاً اذان ہوگئی اور نماز کا وقت بھی ہو رہا ہے کہ اچانک گاہک بھی آگیا، اس وقت اس کو یہ سمجھنا چاہئے کہ گاہک آئے یا نہ آئے لیکن میری نماز کا وقت ہے، میں نے نماز پڑھنی ہے اگر میرے مقدر میں ہوگا تو اور گاہک آسکتے ہیں، اس لئے میں نے اس گاہک کی وجہ سے نماز کو مؤخر نہیں کرنا۔ لہٰذا اس سے معذرت کرلیں کہ میں نے نماز پڑھنی ہے اور آپ بھی نماز پڑھیں، نماز کے بعد میں آپ کو سودا دے سکتا ہوں، یہ توکل ہے۔ اور اگر اس میں پس و پیش کیا کہ پتہ نہیں بعد میں گاہک آئے گا یا نہیں آئے گا، اس صورت میں توکل نہیں ہے۔ البتہ ایسی دکان جائز ہے، دکان میں کوئی مسئلہ نہیں بلکہ توکل میں مسئلہ ہے۔

سوال نمبر 21:

حضرت! جن گناہوں پر توبہ کرلی ہو اس کے باوجود بار بار ذہن میں وہی گناہ سامنے آئیں تو کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

اس کے اوپر بالکل غور نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی اس کی طرف دیکھنا چاہئے، نہ ہی اس سے مزہ لینا چاہئے اور نہ ہی اس کی وجہ سے تکلیف آنی چاہئے، بس آپ اس کو ignore کردیں۔

سوال نمبر 22:

حضرت! اپنے گھر میں ذکر بالجہر کرتے ہوئے یہ تصوّر کرنا کہ میں شیخ کی مجلس میں بیٹھ کر ذکر کر رہا ہوں جبکہ میں گھر میں موجود ہوں۔ کیا اس طرح تصوّر کرنا ٹھیک ہے؟

جواب:

اس کو تصوّرِ شیخ کہتے ہیں۔ تصوّرِ شیخ میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ آپ شیخ سے کچھ مانگ نہیں رہے اور شیخ کو آپ دور سے بلا نہیں رہے، ندائے غیب اس میں نہیں ہے، لہٰذا عقیدے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بس آپ ایک تصوّر سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یعنی آپ assume کر رہے ہیں کہ گویا آپ شیخ کے پاس موجود ہیں۔ اور شیخ کی موجودگی میں جو برکات حاصل ہوسکتی ہیں ان کا کسی نہ کسی درجہ میں فائدہ بھی ہوگا، ذکر ذرا اچھا ہوگا اور زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ہے کہ چونکہ بعض طبیعتیں حساس ہوتی ہیں، ان کو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ تصوّرِ شیخ کرتے کرتے ان کو شیخ مکشوف ہونے لگتا ہے، ایسی صورت میں اپنے آپ کو محتاط رکھنا چاہئے کہ دور سے مانگنے والی کیفیت اس میں نہ آئے بلکہ اللہ کی طرف ہی متوجہ رہے اور شیخ کی صحبت کو صرف اپنے ذہن میں رکھے، اس کے علاوہ کوئی اور چیز ذہن میں نہ ہو اور شیخ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا ذریعہ بنائے، اللہ تعالیٰ کے تعلق کے لئے حجاب نہ بنائے۔ اس لئے سارے لوگوں کو یہ تصوّر نہیں بتایا جاتا کیونکہ بعض لوگ اس کا تحمل نہیں کرسکتے۔ اس لئے یہ Subject to condition ہے، Man to man very کرتا ہے۔ لہٰذا مجمعِ عام میں عام قانون نہیں بتایا جاسکتا بلکہ جس کی جو حالت شیخ پر منکشف ہوتی ہے کہ یہ اس کے قابل ہے یا نہیں ہے، اس کے مطابق اس کو جواب دیا جاتا ہے۔

سوال نمبر 23:

حضرت! تعلقات کا مرض ہے اور ہر ایک سے مشورہ کرنے کا مرض ہے، اس کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

اس مرض کو عقلِ سلیم کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہر ایک کے ساتھ مشورہ نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ہر شخص کے ساتھ جب مشورہ کیا جاتا ہے تو اس سے مشورہ مشوش ہوجاتا ہے یعنی اس میں اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا اور اگر کسی کی طبیعت میں پہلے سے تشویش موجود ہو تو وہ مزید بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے مزید نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا جس کو آپ نے مرشد بنایا ہے ان کے ساتھ یہ معاملات رکھیں، اگر اس کے پاس ٹائم نہ ہو تو وہ اپنے کسی خلیفہ یا کسی دوست یا کسی اور بزرگ کے پاس discuss کرنے کی اجازت دے۔ اس صورت میں یہ مشورہ بھی اسی کی طرف سے سمجھا جائے گا۔

سوال نمبر 24:

حضرت! لفظِ صوفی اور تصوّف اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

اگر یہ سوال آپ افادۂ عام کے لئے کر رہے ہیں کہ باقی لوگ بھی اس کے معنی سمجھ لیں، تو یہ بہت مناسب بات ہے۔ لیکن اگر آپ خود سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر مجھے افسوس کرنا پڑے گا۔ جیسے یوسف اور زلیخا کا قصہ ختم ہوگیا، اخیر میں ایک آدمی نے پوچھا کہ زلیخا مرد تھا یا عورت۔ کیونکہ صبح کی تعلیم میں سارا تصوّف ہی کے بارے میں بتاتا ہوں اور جو تصوف میں چل رہا ہے اس کو صوفی کہتے ہیں۔

صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے

بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے

یعنی صوفی اس وقت تک صافی نہیں بن سکتا جب تک عشق کا جام نہ کھینچے، بہت زیادہ سفر ہونا ضروری ہے تاکہ خام پکا بن جاوے۔

اس لئے تصوف بہت اہم چیز ہے۔

سوال نمبر 25:

حضرت! شیخ کی سچی محبت دل میں پیدا ہوجائے، اس کے لئے کیا ترتیب ہے؟

جواب:

ڈاکٹر کی بات ماننے کی انسان کو توفیق ہوجائے، اس کا کیا طریقہ ہوگا؟ اس میں دو باتیں ہیں، ایک اپنی بیماری کا احساس ہو اور دوسرا بیماری کے نتیجے کا پتا ہو، اس نتیجے سے خوف ہو کہ میں بچ جاؤں یعنی میری بیماری ٹھیک ہوجائے، یہ احساس جتنا زیادہ ہوگا، ڈاکٹر کی بات ماننے کی توفیق بھی اتنی زیادہ ہوگی۔ بعینہٖ اسی طرح اگر قلبی عواقب سے ڈرنے کا انسان کو احساس ہو تو یہ احساس جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اس کے ذریعے کی انسان قدر کرے گا۔ اور ان ذرائع میں سب سے اعظم ذریعہ شیخ ہے، لہٰذا وہ شیخ کی بھی قدر کرے گا اور پھر اس کی محبت اس کے دل میں بڑھتی جائے گی اور جتنی صحبت بڑھے گی ان شاء اللہ اتنی محبت بڑھے گی۔

سوال نمبر 26:

حضرت جی! ایک خواب عرض کرنا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں نے آپ کو کچھ بتانے کے لئے فون کیا لیکن اس وقت غالباً آپ کے آرام کا وقت ہوتا ہے، اس پر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میں نے فون کیوں کیا، لیکن آپ اٹھتے ہوئے مجھ سے فرماتے ہیں کہ آپ کبھی ای میل کرلیا کریں۔

جواب:

تعبیر یہ ہے کہ جو دوسرے ذرائع ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ فون، ای میل، خط، میسج، ان سب کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ اگر مختصر بات ہو یا یہ کہ وہ جلدی دیکھی جائے اور اگر جواب دینا چاہے تو فوری جواب بھی دے سکے اس کے لئے ایس ایم ایس ہے۔ اگر تفصیلی بات ہو جس میں کچھ سمجھانا پڑے اور پھر فوری جواب بھی چاہئے ہو تو اس کے لئے ای میل ہے۔ اور جو بات میل کے ذریعے سے نہ سمجھائی جاسکے، نہ ہی ایس ایم ایس کے ذریعے سے پہنچائی جاسکے اور مجبوری ہو تو اس کے لئے فون ہے۔ کیونکہ فون بعض دفعہ انسان ایسے وقت میں بھی کرسکتا ہے جب آدمی مصروف ہو، لہٰذا فون کرنے کا طریقہ یہ ہے جو ہم نے رکھا ہے کہ ساتھی مجھے ایس ایم ایس کردیتے ہیں ’’کہ کیا میں اس وقت فون کروں‘‘ اگر میرے پاس ٹائم ہو اور میں اس کو جواب دے سکوں تو میں اس کو مس کال کردیتا ہوں جس سے اس کو پتا چل جاتا ہے کہ I am available at this time، پھر وہ مجھے کال کرلیتا ہے۔ یہ میں urgent صورت کی بات کر رہا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ سارے لوگ اس پر عمل شروع کرلیں، نہیں بلکہ یہ صرف urgent والوں کی بات ہو رہی ہے۔ اور سب کے لئے قانون میں نے ایک جیسا رکھا ہے، خصوصی، غیر خصوصی والی کوئی بات نہیں ہے۔ اور اگر urgent نہ ہو تو پھر email کرلیا کریں۔

سوال نمبر 27:

حضرت وجد کیا ہوتا ہے، ذکر میں بیٹھے ہوئے زور سے چیخ نکل جائے اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب:

ایک ہوتا ہے وجد اور ایک ہوتا ہے جھوٹا وجد یعنی ایک سچا وجد ایک جھوٹا وجد، جھوٹے وجد کو تواجد کہتے ہیں، یعنی کسی کو کوئی حال طاری نہ ہو، ویسے ہی وہ pose کر دے، یہ جھوٹا وجد ہے اور یہ غلط ہے، اس لئے کہ یہ دھوکہ ہے۔ اور سچا وجد یہ ہے کہ انسان اپنے کنٹرول میں نہ رہے یہ ایک غیر اختیاری یعنی Spiritual reflex action، آپ اس کو(SRA) یعنی Spiritual reflex action کہہ سکتے ہیں۔ اگر کسی کی اس وجہ سے چیخ نکل جائے یا وہ تڑپ جائے یا بیٹھ نہ سکے اور کچھ بھی ہوسکتا ہے یعنی Reflex action کے طور پر۔ کیونکہ بعض لوگ بعض چیزوں میں حساس ہوتے ہیں۔ دنیا میں بہت سارے لوگ اس طرح ہوتے ہیں کہ ان کی اپنی خوشیاں ہوتی ہیں، اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، ایسے موقع پر انگریز !Hurrah کہہ دیتے ہیں، کچھ لوگ اپنی بات کرلیتے ہیں اور ’’آہ‘‘ اس طرح کہہ دیتے ہیں، یہ سب Reflex actions ہیں، اس کو اسی طرح لینا چاہئے۔

سوال نمبر 28:

حضرت! محسوس بھی ہورہا ہوتا ہے جیسے کوئی روتا ہے کوئی کچھ اور کرتا ہے۔

جواب:

اصل میں یہ لوگ ذاکر ضرور ہوتے ہیں یعنی یہ ذاکر رہ چکے ہوتے ہیں اور ذکر کی وجہ سے ان کی طبیعت لطیف ہوچکی ہوتی ہے لہٰذا وہ جو اثر لے رہے ہوتے ہیں ذرا quick لے لیتے ہیں۔ یہ لوگ پہلے اس لائن کی طرف نہیں آتے، ان چیزوں سے متأثر نہیں ہوتے تھے، پھر جب اس لائن کی طرف آگئے تو ان کی ترجیحات یہی بن گئی اور اب وہ ان چیزوں سے متأثر ہو رہے ہیں۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے بھی اس طرح کے الفاظ نکلتے تھے۔ پہلے تھوڑا لمبا کر کے اللہ نکلتا تھا، پھر آخری عمر میں الا اللہ پر بات آگئی اور لفظِ الا اللہ زبان سے نکلتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک عرب ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے الا اللہ کا نعرہ نکلا، اس عرب نے پوچھا مَا ھٰذَا یَا شَیْخُ؟ حضرت نے فرمایا لَیْسَ فِیْ الْاِخْتِیَارِ یعنی یہ اختیار میں نہیں ہے۔ حضرت نے ان کو تو اتنا بتا دیا۔ پھر تواضعاً ہماری طرف منہ کر کے فرمایا کہ جو ذکر نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس سے زبردستی ذکر کرواتا ہے۔ لیکن بہرحال یہ Reflex action ہے۔ ایک مرتبہ امریکا سے کچھ پروفیسرز آئے تھے جو hypnotism کے اوپر ریسرچ کر رہے تھے، اس سلسلہ میں وہ چین بھی غالباً گئے اور انڈیا بھی گئے، جاپان بھی گئے، کیونکہ یہ چیزیں وہاں پر بہت زیادہ ہیں، پھر وہ پاکستان بھی آئے، پاکستان میں کسی نے کہا کہ سوات میں ایک آدمی ہے، جو اس کا بڑا ماہر ہے اور وہ hypnotist ہے۔ اور وہ انجینئرنگ کالج پشاور کے کسی زمانے میں پرنسپل رہ چکے تھے۔ بہرحال یہ (امریکی) ان سے ملنے کے لئے پشاور آئے تھے اور ان سے ملے لیکن وہ ان سے متأثر نہیں ہوئے بلکہ کہتے یہ ہمارا سٹوڈنٹ لگتا ہے۔ جیسے پہلوان جب آپس میں ہاتھ ملاتے ہیں تو ملانے سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ کتنے پانی میں ہے، اسی طریقے سے وہ لوگ بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھ کر ایک دوسرے کو judge کرلیتے ہیں، کیونکہ hypnotism کا تعلق آنکھوں کے ساتھ ہے، اس لئے انہوں نے judge کرلیا کہ یہ تو ہمارا سٹوڈنٹ لگتا ہے، اس کے لئے سفر کرنا مناسب نہیں ہے۔ لیکن ان کی قسمت اچھی تھی کہ کسی نے کہا کہ یہاں پر مولانا اشرف صاحب بھی ہیں اور وہ پشاور یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، وہ بھی اس کے بڑے ماہر ہیں۔ حالانکہ حضرت کہاں hypnotist تھے۔ بہرحال وہ ملاقات کے لئے وہاں تشریف لائے اور حضرت سے ملاقات کی، حضرت سے بات چیت بھی کی، حضرت نے ان کو کچھ جوابات دیئے۔ کیونکہ جن کے پاس کچھ ہوتا ہے ان کو وہ دکھانے کا بھی شوق ہوتا ہے کہ میں بھی کچھ دکھاؤں، اس لئے انہوں نے حضرت کے مرید پر توجہ ڈالی جس کی وجہ سے وہ مرید متأثر ہوگیا۔ حضرت کی زبان سے بے ساختہ Reflex action کے طور پر اِلَّا اللہُ کا نعرہ نکلا، کیونکہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی تھی کہ ان کی اجازت کے بغیر توجہ ڈالی، اس لئے اگر کسی کی مجلس میں آپ اس کے ساتھی پر بغیر اجازت کے توجہ ماریں تو reaction آئے گا اور پھر یہ حضرات غیرت والے بھی بہت ہوتے ہیں۔ خیر جب اِلَّا اللہُ کا نعرہ لگا تو وہ صاحب جس نے توجہ ماری تھی وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور اس کی وجہ سے اس کی توجہ stop ہوگئی، تھوڑی دیر کے بعد ایک اور اِلَّا اللہُ کا نعرہ لگایا، جب دوسرا نعرہ نکلا تو وہ بالکل اکڑوں بیٹھ گیا جیسے کسی آدمی کو کوئی پریشانی لاحق ہو اور وہ بھاگنا چاہتا ہو، پھر جب تیسرا نعرہ مولانا صاحب کا لگا تو اس نے فوراً For God sake Maulana don't do it again۔ پھر مولانا صاحب نے اس کو سمجھایا کہ دیکھو بھائی! آپ کو اگر شوق تھا تو مجھے کہہ دیتے اس میں کوئی حرج بھی نہیں تھا کہ آپ اپنا مظاہرہ کرلیتے کیونکہ یہ چیزیں تو ہوتی رہتی ہیں، لیکن بغیر اطلاع، بغیر پوچھے یہ آدابِ مہمانی کے خلاف ہے اور ہمارے ہاں ان کو نوٹ کیا جاتا ہے اور آپ نے یہ غلطی کی ہے، باقی ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ بہرحال وہ لوگ بہت متأثر ہوئے اور ان کو واقعی پروفیسر مان لیا۔ حالانکہ مولانا صاحب تو hypnotist نہیں تھے۔ اور پھر وہاں باقاعدہ صدر میں انہوں نے ہوٹل کے اندر کمرہ لیا اور وہاں سے روزانہ حضرت سے ملاقات کے لئے آتے تھے، پھر حضرت نے ان کو کلمہ پڑھوا لیا اور وہ ایک چھوٹا سا ٹکڑا piece جس کو ہم نے بھی دیکھا تھا ساتھ لائے تھے، blue کپڑا تھا اور اس کے اوپر سنہری حروف سے ’’ھُو‘‘ لکھا ہوا تھا، وہ تحفہ کے طور پر مولانا صاحب کو دیا۔ لہٰذا بات یہی Reflex action والی ہے کہ مولانا صاحب کے جو جذبات انگیخت ہوگئے اس سے ایک Spiritual circle چل پڑا جس کو وہ لوگ برداشت نہیں کرسکے۔

میں ایک بزرگ کے ساتھ (جو فاضل دیوبند تھے اور چاروں سلسلوں کے شیخ تھے) سفر میں تھا، میں سفر میں دینی باتیں پوچھتا تھا اور حضرت مجھے جواب دیتے تھے، حضرت نے اچانک تسبیح نکالی اور فرمایا بھائی! باتیں بہت ہوگئیں، کچھ کام کرلیتے ہیں۔ اس وقت مجھے سمجھ آگیا کہ ذکر کرنا بھی کام ہے۔ لہٰذا ہم بھی کام یعنی ذکر کرتے ہیں اور اگر آپ چاہیں تو اس سے پہلے چہل حدیث شریف پڑھ لیتے ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ