اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ آپ کو اللہ ہمیشہ عافیت سے رکھے آمین۔ حضرت! میں ایک شیخ صاحب سے بیعت ہوں، اب سعودیہ میں جانے کی وجہ سے تقریباً دو سال سے ان سے رابطہ نہیں ہوسکا، ان کا رابطہ نمبر بھی نہیں ہے میرے پاس، معمولات کی پابندی کچھ عرصہ نہیں کرسکا تھا، لیکن اب باقاعدہ کررہا ہوں، جن سے مجھے لطائف میں حرکت ہوتی ہے، پر یکسوئی حاصل اب نہیں ہو رہی۔ حضرت! مجھے نصیحت فرمائیں۔
جواب:
جس صاحب نے بھی یہ خط لکھا ہے، ماشاء اللہ! وہ خلوص سے کوشش کررہے ہیں کہ اس کی اصلاح ہوجائے۔ لیکن اپنے شیخ کے ساتھ اس کا رابطہ نہیں ہو رہا، کیونکہ میرے ساتھ اس قسم کے واقعات ہو چکے ہیں، اس وجہ سے میں مجبوراً ایسی باتوں کا جواب دیا کرتا ہوں لیکن پہلے نہیں دیا کرتا تھا۔ آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے کی بات ہوگی یا تیرا چودہ سے لے کر پندرہ سال تک کی بات ہوگی کہ ایک صاحب جو ہندوستان کے بہت بڑے شیخ سے بیعت تھے اور ان کے ساتھ رابطہ ان کا نہیں ہو رہا تھا، اس لئے وہ مجھے بار بار Email کررہے تھے کہ مجھے کچھ بتائیں کہ میں کیا کروں؟ چونکہ اس شخص کے ساتھ بے تکلفی تھی، لہٰذا میں نے کہا کہ کیا آپ مجھ سے پوچھ کر ان سے بیعت ہوئے تھے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ اب میں کیا کروں؟ اگر آپ کا اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ نہیں ہو رہا تو آپ ایسے شیخ سے بیعت ہوئے ہی کیوں جن کے ساتھ رابطہ نہ ہو؟ کیونکہ اس میں تو رابطہ بہت ضروری ہے یعنی معمولات اور رابطہ بہت ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کیا کہتے، وہ خاموش ہوجاتے۔ پھر جب ان کا کوئی مسئلہ ہوتا تو پھر مجھے لکھ لیتے کہ میں اب کیا کروں؟ میں پھر کہتا کہ میں کیا کروں؟ میں تو اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ لیکن اس نے بہت تنگ کیا مجھے بار بار لکھ کر۔ پھر ایک بزرگ تشریف لائے جو حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ وہ چونکہ ان کو بھی جانتا تھا، اس لئے ان سے میں نے مشورہ کیا کہ فلاں صاحب مجھے بار بار تنگ کررہے ہیں کہ میں کچھ کہوں، حالانکہ میں کسی اور شیخ کی بات میں کیوں دخل دوں؟ اس وجہ سے میں اس کو جواب نہیں دے رہا، لیکن وہ مجھے مجبور کررہا ہے کہ میں اس کے لئے کچھ کروں، تو میں اس کے لئے کیا کرسکتا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ دو مہینے میں ان کا رابطہ ممکن ہے اپنے شیخ کے ساتھ؟ میں نے کہا، وہ تو چھ مہینے کا بتا رہے ہیں کہ چھ مہینے سے ان کے ساتھ رابطہ کسی طریقے سے نہیں ہوا نہ Email، نہ خط اور نہ ٹیلی فون یعنی کسی ذریعے سے بھی رابطہ نہیں ہوا۔ حضرت نے فرمایا: اب آپ ان کی خدمت کرسکتے ہیں یعنی اگر وہ کوشش کررہے ہیں لیکن رابطہ نہیں ہو رہا تو وہ کیا کرسکتا ہے۔ بلکہ وہ آدمی اس سلسلے میں تو خراب ہوجائے گا۔ لہٰذا آپ اب اس کی خدمت کرسکتے ہیں۔ میں نے پھر Email اس کو بھیجا کہ مجھے فلاں صاحب نے اجازت دے دی ہے کہ میں آپ کی اب اس سلسلے میں خدمت کرسکتا ہوں۔ لہٰذا اب آپ بتایئے کہ مسئلہ کیا ہے؟ جب اس نے مجھے اپنا مسئلہ بتایا تو خدا کی شان، (کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کسی تعلق کو قبول فرما لیتے ہیں تو اس سے متعلق جو جواب ہوتا ہے وہ بھیج دیا جاتا ہے) میں نے اس کو ایک چھوٹا سا وظیفہ بتایا جو کہ پندرہ بیس منٹ کا مراقبہ تھا، میں نے کہا یہ کرلو۔ ایک ہفتے کے بعد اس کا Email آیا کہ میرا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد وہ مستقل میرے ساتھ رابطے میں رہا اور ماشاء اللہ بعد میں ہمارے سلسلے میں خلافت حاصل کرلی۔ مقصد یہ ہے کہ یہ ایک مجبوری کی بات تھی، لیکن مجھے اس کا تجربہ ہوگیا تھا، لہٰذا اس کے بعد پھر مجھے (جن کے بارے میں یہ فرما رہے ہیں) کئی لوگوں نے اس قسم کے خطوط بھیجے یا Email کی یا مجھ سے رابطہ کیا کہ ہمارا رابطہ اپنے شیخ کے ساتھ نہیں ہو رہا۔ لیکن ان کا دو سال سے نہیں ہو رہا۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ مجمع عام میں لوگ بیعت ہوجاتے ہیں، لیکن پورا مجمع جس سے بیعت ہوگیا تو اس کا رابطہ ان کے ساتھ کیسے ہوگا؟ یہ بھی شاید اس قسم کی بات ہے کہ مجمع عام میں بیعت ہوگئے ہوں گے اور اب ان کے ساتھ رابطہ نہیں ہو رہا، اس لئے پریشان ہیں۔ اور اس کا بھی میں غالباً چوتھے یا پانچویں Email کے بعد جواب دے رہا ہوں، اس سے آگے بھی اس کی Emails ہیں، لیکن میں جواب دے رہا ہوں چوتھے یا پانچویں Email کا، وہ بھی ایک صاحب نے سفارش کی ہے ان کا بھی Email آیا ہے کہ ہمارے ساتھی ہیں آپ ان کے لئے کچھ کریں، ان کا مسئلہ ہے۔ جس پر میں اب یہ عرض کروں گا کہ یہ طریقت ایسی چیز ہے جو ہواؤں میں نہیں ہوتی بلکہ اس کا ایک بنیادی base ہے اور اتنا اہم base ہے کہ اویسی نسبت جو ہوتی ہے مثلاً آپ ﷺ کے ساتھ اویسی نسبت یا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اویسی نسبت یعنی یہ نسبتیں ہوتی ہیں، تو ان میں زندہ شیخ کی طرف رجوع کروا دیا جاتا ہے۔ بیشک ملے ادھر سے، لیکن زندہ شیخ کے ساتھ رابطہ کروا دیا جاتا ہے۔ کیونکہ transparency ہے، ایک نظام ہے، شفافیت ہے اور باقاعدگی ہے، اسی وجہ سے تو شفافیت کی بہت بڑی value ہے۔ لہٰذا کسی زندہ شیخ یعنی جس کے ساتھ رابطہ ممکن ہو، ان سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔ چونکہ مجھے جس بزرگ نے فرمایا ہے (یعنی جس کا میں نے بتایا ہے کہ وہ شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور بہت بڑے بزرگ ہیں، انہوں نے فرمایا) کہ اگر دو مہینوں میں اس کا رابطہ نہیں ہو رہا تو پھر اس کی خدمت کی جاسکتی ہے۔ اور یہاں تو دو سال کی بات ہے، اس وجہ سے میں ان کے لئے عرض کروں گا کہ اگر آپ واقعی اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ایک تو استخارہ کریں کہ میرے ساتھ اس سلسلے میں شیخِ تعلیم کا تعلق رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ شیخِ تعلیم وہ ہوتا ہے کہ جس سے تعلیم مجبوراً لے رہے ہوتے ہیں لیکن بیعت ان کی اپنی جگہ پر بحال ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے سامنے بھی ایسا ہوا تھا کہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کوئی صاحب آئے تھے اور کہا تھا کہ حضرت! میرا شیخ جہاد میں ہے (چونکہ ان دنوں افغانستان کا جہاد ہو رہا تھا) اس لئے ان کے ساتھ میرا رابطہ نہیں ہو رہا، میں کیا کروں؟ تو حضرت نے ان کی بطور شیخِ تعلیم (یعنی ان کی بیعت اپنی جگہ بحال تھی) تعلیم شروع کرلی۔ لہٰذا میں بھی اپنے شیخ کے نقش قدم پر چل کر ان کو تعلیم کے لئے بیعت کرسکوں گا۔ یا کسی اور شیخ سے جس سے ان کی مناسبت ہو ان کے ساتھ شیخِ تعلیم کے طور پر رابطہ رکھ لیں۔ لیکن عملی طور پر کچھ کرلیں، یعنی یہ باتوں میں باتیں نہیں بلکہ یہ کام ہے۔ لہٰذا میرا خیال میں اب اس کو عملی قدم لینا چاہئے کہ شیخِ تعلیم ڈھونڈے جس کے ساتھ مناسبت ہو، اور اگر تردد ہو کسی میں تو پھر استخارہ کرلے، جس کے متعلق استخارے میں مثبت آجائے، ان کے ساتھ شیخِ تعلیم کا رابطہ رکھے۔ ان شاء اللہ العزیز اس کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ کیونکہ ان کی طبیعت بھی ایسی ہے کہ اگر شیخ کے ساتھ رابطہ نہ ہو تو پھر رکاوٹ ہوتی ہے، مسائل ہوتے ہیں، جیسا کہ اس کی اسی Email سے بھی ظاہر ہے اور اس کے بعد والی Emails میں بھی زیادہ واضح طور پر یہ لکھا ہے۔ اس وجہ سے میں ان سے عرض کروں گا کہ اپنا تعلق کسی اور شیخِ تعلیم کے ساتھ بنا لیں، امید ہے ان شاء اللہ العزیز ان کو فائدہ ہونا شروع ہوجائے گا۔
سوال نمبر 2:
کیا حال ہے شاہ صاحب؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین۔ میں نام فلاں ہے، میں UK میں ہوتا ہوں، میری آپ سے فون پر بات ہوئی تھی اور آپ کو بتایا تھا کہ میری فجر کی نماز miss ہوجاتی ہے۔ second شاہ صاحب! میں 2013 سے وہ وظیفہ کررہا ہوں جو آپ نے مجھے Last time جون 2013 میں دیا تھا۔ شاہ صاحب! کیا اسی کو continue رکھوں یا changing کرنی ہے تو بتائیں۔ ذکر ہے: 200، 200، 200 اور 100 تسبیحات ہیں، تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار یہ 200، 200 دفعہ ہے۔ شاہ صاحب! please اپنی دعاؤں میں اس ناچیز کو یاد رکھا کریں۔ آپ کی دعاؤں کا طالبِ خاص ہوں۔
جواب:
اس صاحب کو میں نے مختصر ٹیلی فون پر جواب تو دیا ہے، کیونکہ ٹیلی فون پر میں تفصیلی جواب نہیں دے پاتا، اس کی کئی وجوہات ہیں، چونکہ ٹیلی فون پر مختصر بات ہی ہوسکتی ہے اور Email میں بھی جب لکھنا شروع ہوجاتا ہوں تو کافی ٹائم لگ جاتا ہے۔ لہٰذا بعض دفعہ مجبوراً مختصر جواب ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ جو طریقہ میں نے اختیار کیا ہے کہ اس طرح مجلس میں جو جواب دیتا ہوں تو یہ ذرا تفصیلی ہوجاتا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ ہوجاتا ہے، اور پھر میں اس کو Email بھی کرلیتا ہوں کہ فلاں سیشن کا جواب سن لیں، وہ پھر سن لیتے ہیں جس سے ان کو پھر زیادہ تفصیلی جواب مل جاتا ہے۔ اسی reference سے میں جواب دوں گا کہ ایک تو آپ کو جو یاد آیا کہ 2013 میں آپ نے ذکر لیا تھا اور آپ کو یاد آگیا 2015 میں کہ میرا کسی کے ساتھ تعلق ہے، یہ تو آپ اپنے ساتھ بہت اچھا کررہے ہیں اور وہ بھی دیار غیر میں، جس میں ضرورت زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ وہاں تو گند ہی گند ہے اور اس گند کے اندر رہ کر تو رابطہ صفائی کے نظام کے ساتھ زیادہ ہونا چاہئے یا کم ہونا چاہئے؟ لازمی بات ہے کہ زیادہ ہونا چاہئے، لیکن یہاں رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا اس پر آپ سوچیں اور اگر آپ کو سمجھ آجائے تو اس پر استغفار کرلیں، توبہ کرلیں اور آئندہ کے لئے ایسا نہ کیا کریں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وسائل دیئے ہوئے ہیں، Email آپ کرسکتے ہیں، ابھی جیسے Email کیا ہے تو ایسے ہی Email کرلیا کریں مہینے میں ایک۔ اور اپنے معمولات کا چارٹ بھی باقاعدگی کے ساتھ بھیج دیا کریں، وہ download ہم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا آپ معمولات کا چارٹ بھر کر اس کو باقاعدہ Email کرلیا کریں تاکہ آپ کی ترقی ہو۔ یہ کیا بات ہے کہ آپ لوگوں نے بالکل اس کو ایک formal سا تعلق بنایا ہوا ہے کہ سال، دو سال میں یا تین سال میں ایک دفعہ خط بھیجیں یا Email بھیجیں، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے لئے میں کہوں گا کہ اب ذرا باقاعدگی کے ساتھ اپنے معمولات کا چارٹ بھیج دیا کریں۔ کیونکہ اگر آپ معمولات کا چارٹ بھیجتے رہتے تو بات یہاں تک نہ پہنچتی جہاں تک اب پہنچی ہے کہ آپ کی فجر کی نماز miss ہو رہی ہے، جبکہ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ لہٰذا اس کے لئے آپ کو فکر کرنی پڑے گی، اس کے لئے آپ کو timetable change کرنا پڑے گا، اپنی activities کو rearrange کرنا پڑے گا، یہ کوئی گپ کی بات تو نہیں ہے بلکہ نماز کا مسئلہ ہے اور وہ بھی فجر کی نماز کا مسئلہ ہے۔ اس وجہ سے اس کو آپ تھوڑا سا serious لے لیں اور اپنے کاموں کے schedules ایسے بنائیں کہ اس میں فجر کی نماز رہے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کراچی کے ایک صاحب نے جو مرید تھے، خط لکھا کہ حضرت! میں ایسی جگہ ہوں کہ اگر نیچے دیکھوں تو جان جاتی ہے، اوپر دیکھوں تو ایمان جاتا ہے۔ شاید بے حیائی کا ماحول ہوگا۔ پوچھا کہ میں کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا: ایسا طریقہ سیکھو کہ جس سے جان بھی نہ جائے اور ایمان بھی نہ جائے، اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے کہ یہ تو کوئی بات نہیں ہے کہ آپ کو طفل تسلی دے دی جائے کہ کوئی بات نہیں۔ ہمارے ہاں یہ نہیں ہوتا، ہمارے ہاں تو یہ بات ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو اپنے آپ کو بچاؤ۔ مثلاً ایک آدمی کہتا ہے کہ میں زہر کھا رہا ہوں۔ تو اس کو کیا کہا جائے گا کہ کھاتے رہو؟ نہیں! بلکہ اس کو ڈاکٹر یہ نہیں کہیں گے کہ کھاتے رہو بلکہ اس کو کہیں گے کہ بھائی! یہ نہ کھاؤ۔ لہٰذا آپ اس مسئلے پر سوچیں اور ایک تو رابطہ بحال کرلیں صحیح طریقے سے اور مہینے میں ایک Email ضرور کرلیا کریں اور اس میں معمولات کا چارٹ بھی بھیج دیا کریں، دوسرا اس چیز کو serious لیں، اگرچہ آپ کا دنیا کا تھوڑا بہت نقصان بھی اس میں ہوجائے، کیونکہ یہ تو نہیں کہ میں دنیا کی کسی چیز کو نہ چھوڑوں لیکن میری ساری چیزیں ٹھیک ہوجائیں۔ آپ دن میں تین، تین کام کریں تو آپ کیسے نماز پڑھ سکیں گے؟ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہاں پر لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ اگر ساری دنیا ہی دنیا ہوجائے تو یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ لہٰذا آپ اس سے توبہ کرلیں اور آپ تھوڑا سا صحیح track پر آجائیں۔
سوال نمبر 3:
ایک صاحب نے مجھے بہت لمبا Email بھیجا ہے۔ اور ساتھ اس پر یہ بھی لکھا ہے:
I will try to be brief
یہ اگر بریف ہے تو تفصیلی کون سی چیز ہوگی؟
خیر اس کا تفصیلی جواب تو بہت مشکل ہے کیونکہ اس پر ایک کتاب ہی لکھی جائے تو کام بنے گا۔ حالانکہ ان کے ساتھ میری لاہور میں ملاقات بھی ہوئی ہے اگر اس وقت مجھے یہ ساری چیزیں بتا دیتے تو زبانی بات ہوجاتی۔
There are people who understand th better.
بہرحال تھوڑا سا میں quote کروں گا، زیادہ میں نہیں پڑھ سکوں گا۔ اس نے اپنے گھر والوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ disorder میں مبتلا ہے یعنی Borderline personality disorder۔ یہ کچھ نفسیاتی مرض کی طرف اشارہ ہے اور اس کے symptoms بھی کچھ دیئے ہوئے ہیں کہ وہ یہ کررہی ہے۔ پھر اس نے کہا ہے کہ میرا اپنا observation یہ ہے کہ ( کیونکہ یہ خود ڈاکٹر ہیں) اس کے ساتھ یہ مسئلہ ہے۔ لیکن میں کیا کروں؟ میں اس کو بتا نہیں سکتا کیونکہ وہ اس کو مانے گی نہیں۔
جواب:
واقعی نفسیاتی مریض مانتا نہیں ہے۔ یعنی نفسیاتی مریض اپنے آپ کو مریض نہیں مانتا۔ لہٰذا اب میں کیا کروں اس معاملے میں؟ البتہ میں یہ کرسکتا ہوں کہ میں دعا کروں۔ اور یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے مجھے کوئی اپنا probl بتاتا ہے تو میں اس کے حل کے لئے کوئی activity کرنا چاہتا ہوں، تو کہتے ہیں کہ میرا نہیں بتائیں۔ تو پھر میں بھی کہتا ہوں کہ پھر مجھے بھی نہ بتائیں۔ میں پھر کیا کروں؟ جب آپ نے میرے ہاتھ پر گانٹھ باندھ دی ہے تو میں کیا کروں؟ میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے کہ میں اس کو ہلاؤں گا اور بس وہ سارا مسئلہ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس کے لئے کچھ means ہوتے ہیں اور means آپ استعمال نہیں کرنے دیتے۔ البتہ یہاں یہ ہوسکتا تھا کہ اس کی بیوی کے ساتھ میرا رشتے داری کا تعلق ہوتا یا وہ میری مرید ہوتی تو میں اس کے بارے میں سوچتا کہ اس کو کس طریقے سے میں tackle کروں۔ مگر وہ میری مرید بھی نہیں ہے اور میرا رشتے داری کا تعلق بھی نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے میں اس کو فون کرسکوں یا اس کو سمجھا سکوں، میرے پاس سوائے دعا کے اور کیا option رہ جاتا ہے؟ میرے پاس تو اس کے علاوہ کوئی option نہیں ہے۔ لہٰذا اگر آپ اپنے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ اور اگر میں کچھ کہہ سکتا ہوں تو وہ یہ ہے کہ آپ درود تنجینا شروع کرلیں، ستر مرتبہ عشاء کی نماز کے بعد پڑھا کریں۔ اس کا جو ترجمہ ہے اس کو اپنے ذہن میں رکھیں، تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کچھ سازگار ماحول پیدا کرلے اور اس کے ذریعے سے اس کو سمجھ آجائے۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ میں ستر مرتبہ عشاء کے بعد نہیں پڑھ سکتا تو میں مزید مجبور ہوجاؤں گا، پھر میں کیا کروں گا۔ دراصل اللہ جل شانہٗ بعض دفعہ مسائل اس لئے بھیجتے ہیں کہ یہ آدمی میری طرف متوجہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ اس کا سگنل نہیں catch کررہا اور دوسرے کے بارے میں کہتا ہے کہ آپ میرے لئے محنت کرلیں، جبکہ اللہ چاہتا ہے کہ وہ خود متوجہ ہوجائے۔ تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ نہیں۔ کیونکہ بعض دفعہ اللہ چاہتا ہے کہ میرے سامنے وہ گڑگڑا کے پڑ جائے اور مجھ سے مانگے تاکہ میں اس کو دوں۔ اس وجہ سے اگر دل میں بات آرہی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ آپ درود تنجینا ستر مرتبہ ترجمے کو ذہن میں رکھتے ہوئے عشاء کی نماز کے بعد پڑھ لیا کریں، یہ ایک دعا ہے اور اللہ تعالیٰ سے استغاثہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے مسئلہ کو حل کر دے۔
سوال نمبر 4:
حضرت! میں نے آج رات کو خواب دیکھا ہے کہ میں بیٹھا ہوں اور آپ تشریف لائے اور میرے قریب بیٹھ گئے، تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا کہ تم سلسلے سے نکل گئے ہو۔ میں نے وہیں رونا شروع کردیا کہ ایسا کیوں ہوگیا اور اب میں کیا کروں گا؟ آپ کو بھی اس پر افسوس تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے سوچا کہ آپ سے پوچھتا ہوں کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ تو میں نے آپ سے یہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آٹھ لوگ ہیں، ان کے نام ایک کاغذ پر لکھ دینا اور وہ میں مولانا کو دے دیتا ہوں۔ آٹھ میں ایک میرے رشتہ دار بھی تھے اور ایک یونیورسٹی کا کلاس فیلو بھی تھا۔ (یہ درحقیقت آپ سے بیعت نہیں ہیں) پھر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے کان شیطان نے بھرے ہیں اس لئے ایسا ہوا اور تمھارے رشتہ دار کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ حضرت! پھر مجھے دل میں بڑا غصہ آیا کہ میں اس سلسلے کی مخالفت کروں، لیکن پھر میں نے استغفار کیا کہ حق کی مخالفت کفر ہے، ابھی تو ایمان باقی ہے کہیں یہ بھی ختم نہ ہوجائے اور آخرت تباہ نہ ہوجائے اور اس کی فکر لگی کہ پہلے تو حفاظت تھی اب پتا نہیں کس وقت شیطان مجھے حق کی مخالفت پر لگا دے۔ حضرت! دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
میں دل سے دعا کرتا ہوں۔ بہرحال اس میں اشارہ ہے اس طرف کہ آپ کے کسی عمل کی وجہ سے آپ سے سلسلہ ناراض ہے۔ لیکن نکالا نہیں گیا البتہ نکالا جاسکتا ہے کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خواب میں وہ چیز دکھائی جاتی ہے جو ہونے والی ہوتی ہے یا اس کو تنبیہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے تاکہ وہ اس کے لئے کچھ اسباب اختیار کرلے۔ لہٰذا اس پر آپ واقعی استغفار شروع کرلیں اور سلسلے کی خدمت دل سے آپ شروع کرلیں۔ کیونکہ کوئی مسئلہ ایسا ہو چکا ہوگا جس سے سلسلے کا کوئی نقصان ہوا ہوگا یعنی آپ کے ذمہ کوئی ایسا کام ہوگا جس میں آپ نے کوئی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہوگا، اس وجہ سے سلسلے کی طرف سے یہ تنبیہ ہے۔ کیونکہ شیخ جو خواب میں آتا ہے، یہ سلسلے کی طرف سے ہوتا ہے یعنی خواب میں شیخ سلسلہ ہوتا ہے۔ جیسے ایک خاتون مجھے فون کیا کرتی تھی، جس کا میرے دل میں ایک regard تھا کہ چونکہ وہ بینک کی نوکری چھوڑ گئی تھی، اس لئے میں نے کہا کہ اس نے بڑی قربانی کی ہے۔ لہٰذا وہ مجھے دفتر کے اوقات میں فون کرتی تھی، اور میں دفتر میں لوگوں کا فون سننا پسند نہیں کیا کرتا تھا کہ وہ مجھے اس کے لئے فون کریں، کیونکہ اس کا اپنا ایک وقت تھا، اس کے لئے ان دنوں میں نے عشاء کے بعد کا وقت رکھا ہوا تھا، لیکن اس کو میں کچھ نہیں کہہ پا رہا تھا اور اس کے ساتھ اس مسئلہ میں مروت والا معاملہ کررہا تھا جو کہ مشائخ کو نہیں کرنا چاہئے۔ ایک دفعہ اس نے مجھے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں نے آپ کو دفتر میں فون کیا اور آپ نے بجائے جواب دینے کے مجھے ڈانٹا کہ میں تمہارے لئے دفتر میں بیٹھا ہوں؟ میں تمہارے فون attend کروں گا؟ خبردار! جو مجھے آئندہ ٹیلی فون کیا، بالکل دفتر میں فون نہیں کرنا بلکہ باقی لوگ جس وقت فون کرتے ہیں اس وقت تم بھی کیا کرو۔ اس نے جب مجھے یہ خواب سنایا تو میں نے کہا کہ بی بی! بات یہ ہے کہ میں تو آپ کے ساتھ مروت کررہا تھا، جو میرے بس میں تھا وہ میں کررہا تھا، لیکن سلسلے کا معاملہ اوپر سے ہے، اس میں میں کچھ نہیں کرسکتا، خواب میں جو شیخ ہوتا ہے وہ سلسلے کی بات ہوتی ہے۔ لہٰذا اب سلسلے کی طرف سے آرڈر آگیا ہے کہ آپ نے مجھے فون نہیں کرنا اور اس آرڈر کو میں بائی پاس نہیں کرسکتا، مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں اس کو بائی پاس کردوں۔ لہٰذا اب آپ مجھے فون نہ کیا کریں۔ وہ بڑی گھبرا گئی کہ یہ کیا ہوگیا۔ جن سے انہوں نے بات کی، انہوں نے بھی کہا کہ انہوں نے صحیح کہا ہے، اب آپ کو کال نہیں کرنی چاہئے ورنہ نقصان ہوجائے گا اور آپ کو کھل کر بتا بھی دیا گیا ہے۔ اب وہ پریشان ہوگئی۔ خیر اس نے پھر مجھے عشاء کے بعد فون کیا اور جیسے اس کی عادت تھی تفصیلی بات کرنے کی، لیکن اس وقت چونکہ دوسرے فون بھی آتے تھے اور دوسرے فون کی موجودگی میں میں تفصیل سے بات نہیں کرسکتا تھا اس لئے میں روک دیتا کہ بس! ہوگئی بات، مختصر بات کرو۔ کیونکہ اجتماعی وقت سب کا ہوتا ہے۔ اس لئے جب اس نے لمبی بات شروع کی تو میں نے کہا کہ اچھا یوں کرو کہ اپنی بہن سے ٹیلی فون کرنا سیکھو۔ چونکہ اس کی بہن بھی مجھ سے بیعت تھی، وہ بڑی حیران ہوگئی کہ کیا مجھے ٹیلی فون کرنا نہیں آتا؟ تھوڑی دیر کے بعد اس کی بہن کا فون آیا (کیونکہ اس نے اس کو فون کیا ہوگا) کہ شاہ صاحب! میں اس کو کیا بتاؤں؟ وہ مجھ سے پوچھ رہی ہے کہ میں ٹیلی فون کرنا سیکھوں۔ میں نے کہا کہ آپ جب مجھے فون کرتی ہیں تو مختصر کرتی ہیں یا لمبا کرتی ہیں؟ چونکہ اس کی عادت بڑی مختصر بات کرنے کی تھی، بس کام کی بات پوچھی اور فون بند۔ تو اس نے کہا کہ میں مختصر کرتی ہوں۔ تو میں نے کہا کہ یہ اس کو سکھا دیں۔ اس کے بعد پھر یہ ہوا کہ کوشش تو وہ کرتی لیکن اپنی عادت کے مطابق ان سے بات پھر بھی لمبی ہوجاتی تھی۔ اس کے ساتھ میں نے یہ کیا کہ دو تین منٹ تو میں نے اس کو دینے ہوتے تھے، جیسے ہی وہ دو تین منٹ پورے ہوجاتے تو میں آرام سے کہہ دیتا السلام علیکم اور ٹیلی فون رکھ دیتا۔ اس کے بعد پھر تھوڑی تھوڑی اس کی education ہوگئی اور اس نے بھی کنٹرول کرنا سیکھ لیا۔ اس طرح ان کی اصلاح ہوگئی۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ خواب میں شیخ کا آنا یہ سلسلے کی طرف سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ بھی جو ہوا ہے یہ سلسلے کے ساتھ ہوا ہے۔ مہربانی کر کے اب Redial action لے لیں اور باقی باتیں میں زیادہ اس لئے نہیں بتا سکتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو لوگ پہچان جائیں، جو کہ مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ جو ہمارا خطوط کے جواب دینے کا سٹائل ہے وہ یہ ہے کہ اس کو کوئی پہچانے نہیں، ورنہ وہ متأثر ہوسکتا ہے، لہذا یہ بات کافی ہے۔
سوال نمبر 5:
ایک خواب کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں جو میں نے کل رات کو دیکھا ہے۔ میں نے کل خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں جو بہت عجیب زبان میں بات کرتے ہیں، وہ مجھے اپنے ساتھ شامل کرلیتے ہیں، پھر اچانک مجھے ان کی حقیقت کا پتا چل جاتا ہے کہ یہ لوگ غلط راستہ پر چل رہے ہیں، ان لوگوں نے داڑھیاں رکھی ہوئی تھیں، میں ان سے الگ ہونے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھے الگ نہیں ہونے دیتے، اسی دوران ان کے کسی بڑے لیڈر کے آنے کی انفارمیشن آتی ہے تو وہ سب لوگ اس کی طرف جاتے ہیں اور میں آپ سے ملنے کے لئے خانقاہ کا رخ کرتا ہوں۔ میں Baby crawling کرتا ہوا خانقاہ تک پہنچتا ہوں، کیونکہ خانقاہ مشکل ہو رہی تھی، مجھے ایک صاحب ملتے ہیں اور میں ان سے کہتا ہوں کہ مجھے حضرت شاہ صاحب سے ملنا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ابھی ملنا بہت مشکل ہے۔ مگر میں آپ کے سامنے آتا ہوں اور آپ کچھ دوائی بنا رہے ہوتے ہیں جیسے حکیم لوگ بناتے ہیں، میں آپ سے کہتا ہوں حضرت! کچھ لوگ میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں ہاں! مجھے معلوم ہے یہ فتنہ حلال ہے۔ میں کہتا ہوں حضرت! وہ مجھے نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ حضرت جی فرماتے ہیں کہ پھر تم خانقاہ میں رہو اور باہر مت جاؤ۔
جواب:
عجیب خواب ہے۔ لیکن تھوڑا تھوڑا جو ذہن میں آرہا ہے اس کے بارے میں عرض کرتا ہوں۔ کچھ لوگ دین کے روپ میں ڈاکو ہوتے ہیں، یعنی بظاہر دیندار ہوتے ہیں لیکن دین کے روپ میں ڈاکو ہوتے ہیں۔ یہ ایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو بظاہر دیندار ہیں لیکن اصل میں بے دین ہیں۔ جیسے خوارج تھے۔ خوارج کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ان کے اعمال کے سامنے تم اپنے اعمال کو ہیچ سمجھو گے، لیکن یہ دین سے ایسے نکل چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ (مسلم: 2455) یہاں پر جو آخر میں کہا ہے ’’فتنہ حلال ہے۔ فتنہ حلال سے مراد یہ ہے کہ بظاہر حلال ہے لیکن وہ فتنہ ہے۔ یعنی صورت حلال کی ہے لیکن ہے حرام۔ اس لئے یہ کہا گیا ہے کہ اپنے سلسلے کے ساتھ attach رہو، اس کو چھوڑو نہیں کسی طریقے سے بھی اور کسی کے لئے بھی، چاہے آپ کو کتنا ہی دیندار کیوں نظر نہ آئے یعنی اس کو یہ message دیا گیا ہے کہ کسی اور کے لئے اس سلسلے کو مت چھوڑو (شاید ممکن ہے کہ کسی وقت ان سے کوئی غلطی ہوسکتی ہو کہ فلاں تو بڑے اچھے لوگ ہیں) کیونکہ اس کے اوپر یہ نہیں چھوڑا گیا۔ لہٰذا اب تم اپنی سوچ پر نہ رہو، اب تم restricted ہو۔ جیسے حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ فتنوں میں تم گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ بس اب کسی اور کے ساتھ آگے پیچھے مت رہو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک صحیح جگہ پہنچایا ہوا ہے، اس کے اوپر ہی اطمینان رکھو اور آگے پیچھے چاہے کوئی کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہونا۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم۔ حضرت!
Please find attached my معمولات چارٹ for the month of May. Other times, I am very unstable in my نوافل and recitation of the holy Quran. The worldly desires are not going away. It’s been more than one month since I started doing Zikr, 200, 200, 100 times, as per your advice. Kindly guide me further.
جواب:
یہ صاحب چونکہ اردو جانتے ہیں۔ اس لئے میں جواب اردو میں دیتا ہوں۔ البتہ Email انگریزی میں ہے، معمولات کا چارٹ ماشاء اللہ! ٹھیک ہے، میں نے دیکھ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نوافل کے معاملہ میں بہت unstable ہوں۔ دیکھیں! اختیاری اور غیر اختیاری والی بات کو ذہن میں رکھیں کہ جو چیز اختیاری ہو اس کو سستی کی وجہ سے چھوڑو نہیں اگر اس کو کرنا ہو اور جو چیز غیر اختیاری ہو اس کے پیچھے پڑو نہیں۔ ہمارا اصول یہی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ غیر اختیاری کے پیچھے نہ پڑو اور اختیاری میں سستی نہ کرو۔ لہٰذا آپ اگر سمجھتے ہیں کہ نوافل اور قرآن کی تلاوت جس سے آپ کو فائدہ ہوتا ہے اور آپ کرسکتے ہیں، تو کرنا چاہئے۔ اگر صرف سستی کی وجہ سے چھوٹ رہی ہیں تو اس سستی پر قابو پانا آپ کا اپنا کام ہے۔ کیونکہ یہ تو ہمارے سلسلے کے تربیتی نظام کا حصہ ہے کہ جتنی جتنی آپ کو اس میں رکاوٹ ہو رہی ہے اتنا ہی اس کے کرنے سے آپ کو فائدہ زیادہ ہوگا۔ کیونکہ آپ کے لئے یہ مجاہدہ بن چکا ہے اور جب تک یہ آپ کے لئے مجاہدہ ہے اس وقت تک اس سے آپ کے نفس کی اصلاح ہوگی اور نفس کی اصلاح ہی سب سے زیادہ مشکل ہے۔ لہٰذا آپ اس پر قابو پا لیں اور جن نوافل کا آپ نے اپنا معمول بنایا ہے ان نوافل کو بالکل نہ چھوڑیں اور تلاوتِ قرآن جتنی بتائی گئی ہے وہ ضرور کرلیا کریں چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ اللہ جل شانہٗ آپ کو توفیق دے دے۔ باقی میں بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔
سوال نمبر 7:
آپ نے فرمایا تھا کہ نماز کے دوران ایک رکن سے دوسرے رکن میں جاتے ہوئے نئے رکن کی طرف دھیان یا نیت کرلیا کرو کہ ذہن نماز میں حاضر رہے۔ الحمد للہ! اس سے بہت فائدہ ہوا ہے، خیالات اور وسوسوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور ذہن زیادہ تر نماز میں حاضر رہتا ہے۔ میری شادی فلاں تاریخ کو ہوئی، سسرال والوں نے ٹی وی بھیجا تو میں نے انہیں کہا کہ ایک چیز کو رہنے دو ٹی وی یا بیٹی، تو وہ ٹی وی واپس لے گئے، الحمد للہ! پھر اندازاً فروری 2015 میں آپ نے فرمایا تھا کہ ٹی وی کو گھر سے نکالو۔ والدین مرحومین کی وفات کے بعد ان کا ٹی وی گھر کے دوسرے حصہ میں موجود تھا، اس کو نکالا تو بچے چونکہ اب جوان ہیں انہوں نے برا منایا، گھر کا ماحول کافی کھچاؤ کا شکار رہا، لیکن الحمد للہ! آپ کی دعاؤں کی برکت سے آہستہ آہستہ گھر کے ماحول میں کچھ سکون ہوگیا۔ اب بڑے بیٹے کی شادی فلاں تاریخ کو ہوئی، میں نے لڑکی والوں کو پہلے کہہ دیا تھا کہ ٹی وی جہیز میں نہ دینا، انہوں نے مان لیا تھا، لیکن بارات سے چند دن پہلے جب کہ میں گھر میں موجود نہیں تھا جہیز آیا، جس میں ٹی وی بھی تھا، بارات سے ایک دن پہلے مجھے پتا چلا تو میں نے بیٹے سے کہا کہ ٹی وی واپس کر آؤ۔ وہ کہنے لگا کہ ابو! اب رہنے دیں، کبھی خبریں سن لیں گے۔ میں نے تکرار اور سختی مناسب نہیں سمجھی کہ گھر میں مہمان اور داماد موجود تھے، تماشا بن جاتا، چند دن پہلے داماد واپس چلا گیا ہے، اب آپ کی دعا اور توبہ سے ٹی وی کو واپس بھیج دینا ہے۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہر رکاوٹ اور فتنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
جواب:
اللہ جل شانہٗ آپ کی مدد فرمائے اور اس منحوس چیز سے آپ کے گھر کو خالی کر دے۔ یہ بہت ہی منحوس چیز ہے، روحانیت کا دشمن ہے، خشوع کا دشمن ہے بلکہ موبائل اور انٹرنیٹ بھی فتنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں آپ کی مدد فرمائے۔
سوال نمبر 8:
حضرت! میں اپنے ذکر کے بارے میں بتانا چاہتا تھا کہ پچھلے مہینے کے آخری ہفتے میں جب میں ذکر کرتا تھا تو ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے ذکر کیا اور پھر سارا دن میرے ذکر میں بہت پریشر رہا کہ اس کو کنٹرول کرنا بڑا مشکل ہوا، اکثر ایسا ہوتا ذکر کرنے کے بعد مجھے دیر تک ذہن پر بہت پریشر رہتا، پھر بعد میں ذکر normal feel کرتا تھا۔ پھر اس دن تو بہت پریشر تھا تو میں نے سوچا کہ شاید ذکر کرنے سے میرا mind under pressure ہوتا ہے، چیک کرنے کے لئے میں نے ذکر کو چھوڑا اور اس طرح سے ذہن Under pressure نہیں ہوا کبھی۔ اس طرح آخری دفعہ ہوا تھا پھر ابھی complete صحیح طرح نہیں محسوس کررہا، عجیب سے خیالات میں پھنس جاتا ہوں
جواب:
میرے خیال میں یہ صاحب مجھ سے بالمشافہ مل لیں، کچھ چیزیں explain کرنے میں ان کو مشکل پیش آرہی ہے، اس وجہ سے مناسب نہیں ہے کہ incomplete جواب دیا جائے۔
سوال نمبر 9:
چارٹ میں فلاں تاریخ کی جو فجر کی نماز قضا ہوئی ہے وہ اس وجہ سے کہ میں گھر میں تھا اور میری آنکھ نہیں کھلی اور جب جاگا تو نماز قضا ہو چکی تھی۔ اور جو عصر کی نماز قضا ہوئی وہ اس وجہ سے ہوئی کہ عصر کے وقت میں کافی بادل وغیرہ چھا گئے تھے تو میرے دماغ میں تھا کہ مغرب کا وقت ہے اس لئے میں نے مغرب کی نماز پڑھ لی، بعد میں جب قضا ہوگئی تو مجھے یاد آیا کہ وہ تو عصر کا وقت تھا۔ تہجد کی اکثر نماز نہیں پڑھ سکتا، اس میں سستی بھی شامل ہے اور آنکھ کا دیر سے کھلنا بھی شامل ہے۔ تہجد نہ پڑھ سکوں تو کسی چیز کی کمی لگتی ہے۔ جب بڑے اعمال ہوجاتے ہیں تو نظر خود پر جاتی ہے، تو سوچتا ہوں کہ یہ تو عجب ہے۔ اکثر بزرگی اور بڑا بننے کے خیالات آتے رہتے ہیں۔ حضرت! خواب میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جامع مسجد میں آپ کی ’’زبدۃ التصوّف‘‘ کا درس ہو رہا ہے، پھر مجھے دیکھ کر کہتے ہیں کہ اچھا! آپ اس مقصد کے لئے جاتے ہیں خانقاہ میں؟ آپ ایسے انداز میں کہتے ہیں کہ جس سے انہیں تصوّف کا مقصد سمجھ آگیا۔ اس خواب سے کچھ دن پہلے ایک صاحب دیوار پر کھڑے تھے، مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں کب مل رہی ہے خلافت؟ میں نے پوچھا کہ کیا ہم اس لئے جاتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں ہاں! اور کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ ایک خواب میں آیا کہ آپ جمعہ کا بیان فلاں مسجد میں کررہے ہیں، آپ وہاں تشریف لائے ہوتے ہیں، میں بھی جاتا ہوں، آپ مجھے دیکھ کر فرماتے ہیں کہ میں وضو کرلوں، آپ ایک سیڑھی جیسے سلائیڈ سے تیزی سے اوپر چڑھتے ہیں جہاں سے کوئی اور آسانی سے نہیں چڑھ سکتا، میں سوچتا ہوں کہ آپ تو آپ ہیں۔ پھر آپ کا بیان شروع ہوجاتا ہے اور میں وضو کرنے کے لئے جاتا ہوں، واپس آتا ہوں تو آپ ممبر کے پاس ایک چارپائی پر لیٹے ہوتے ہیں، میں پاس آتا ہوں تو آپ فرماتے ہیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ فلاں صاحب کو بلاؤ۔ میں فلاں کو فون کرتا ہوں کہ آپ جلدی اس کو اطلاع کریں کہ حضرت جی بلا رہے ہیں۔ فلاں صاحب پوچھتے ہیں کہ آپ نے کھانا کہاں سے کھایا تھا؟ میں کہتا ہوں کہ ہوٹل سے کھا لیتے ہیں، لیکن آپ اس کو جلدی بتائیں۔ اکثر نمازیں قضا ہونے کی وجہ سے میرا ذہن تقریباً کافی پریشان ہے، تین ماہ سے بھی زیادہ روزے ہیں، ان کی کیا ترتیب کروں؟
جواب:
آپ کا معاملہ ٹھیک ہے یعنی فکر ہے، لیکن تھوڑی سی سستی ہے۔ شیطان کی عجیب و غریب عادت ہے کہ سستی کراتا ہے جس سے کام خراب ہوتے ہیں اور جب کبھی کام کرنے کی توفیق ہوتی ہے تو پھر عجب کراتا ہے۔ میرے خیال میں سستی ہی عجب کا علاج ہے۔ لہٰذا آپ سستی کو پیش کرو کہ دیکھو! یہ چیز ہے یعنی اتنی بڑی بڑی چیزیں موجود ہیں اور میں کہتا ہوں کہ میں بزرگ بن گیا ہوں، اس پر پھر کیوں انسان کو خیال آتا ہے؟ بھائی! جب آپ کہتے ہیں کہ مجھ سے سستی ہوجاتی ہے، نماز تک رہ جاتی ہے اور فرض نمازیں، اور اس طرح معمولی معمولی غلطیوں سے تو پھر بزرگی کا خیال کیوں آتا ہے؟ اس طرح چیونٹی کا پل تو نہ بن جائیں کہ شیطان آپ کو تر نوالہ بنا دے۔ لہٰذا اپنے آپ کو سمجھیں کہ میں جس طرح ہوں، اسی طرح میں ہوں۔ کہاں میں اور کہاں بزرگی! کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ خلافت کسی کو اگر مل بھی جائے لیکن اللہ راضی نہ ہو تو پھر کیا ہوگا یعنی یہ چیزیں تو ضروری نہیں ہیں۔
احمد تو عاشقے بمشیخت ترا چہ کار
دیوانہ باش، سلسلہ شد شد نشد نشد
یعنی احمد تو عاشق ہے تجھے مشیخت کے ساتھ کیا کام ہے؟ بس اللہ کی محبت میں عاشق، دیوانہ بن جاؤ، سلسلہ ہوا یا نہیں ہوا، تجھے کیا پروا؟
اس لئے سلسلے کے پیچھے کیا پڑے ہو وہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے وہ اللہ تعالیٰ کرے گا جس کے ذمہ وہ لگا دے۔ اس پر اکثر میں ایک مثال دیتا ہوں اور یہ بہت بڑی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ سمجھ آجائے۔ ایک صاحب ہے جو اپنے محبوب کے ساتھ اس کی مجلس میں بیٹھا ہوا ہے اور ایک دوسرا آدمی بھی ہے، ایسے آدمی کو محبوب بازار بھیج دیتا ہے کہ میرے لئے فلاں چیز لے آؤ اب وہ بازار نہیں جانا چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ میں اپنے محبوب کے ساتھ ہی رہوں لیکن محبوب اس کو بھیجتا ہے کہ نہیں تم فلاں چیز لاؤ، اب وہ چیز لا رہا ہے لیکن اس کے دل میں مسلسل یہ کھلبلی ہو رہی ہے کہ میں نہ جاتا تو اچھا تھا۔ اب وہ بڑی ذمہ داری کے ساتھ لاتا ہے کیونکہ ان کا حکم ہے، اندشہ ہے کہ کہیں حکم عدولی نہ ہو جائے۔ لیکن دل اس کا محبوب کے ساتھ ہے۔ تو یہ اس قابل ہے کہ اس کو بازار بھیجا جائے کیونکہ یہ بازار کی غلطیوں کا شکار نہیں ہوگا یعنی بازار کی چیزوں کا یہ شکار نہیں ہوگا۔ اور دوسرا صاحب جو محبوب کی مجلس میں بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کیوں نہیں بھیجا بازار؟ میں بھی بازار چلا جاتا تھوڑی سی سیر کرلیتا۔ لیکن اس کو محبوب کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ بازار ایسے آدمی کو بھیجنا تو ایسا ہے جیسے آپ کنویں میں ایسا ڈول اتاریں جس کی رسی کچی ہو، تھوڑا سا ڈول پانی سے بھر جائے تو رسی ٹوٹ جائے، ڈول بھی گیا، پانی بھی گیا اور رسی بھی گئی۔ لہٰذا ایسے کچے آدمی کو خلافت دینے کا مطلب یہی ہے کہ ڈول بھی گیا اور رسی بھی گئی۔ اس لئے جو خلافت تشکیل کرتا ہے وہ اس کے لئے رہنے دو، بلکہ ارادہ یہ ہونا چاہئے کہ اگر مجھے دے بھی رہے ہوں تو میں اس قابل نہیں ہوں، اس لئے میں معذرت کرلوں گا۔ یہ جو خلافتوں کے چکر ہیں اس میں تو وہ لوگ پڑتے ہیں جو خلافتوں کے ساتھ interested ہیں یعنی جن کو اللہ کی محبت حاصل نہیں ہے۔ جس کو اللہ کی محبت حاصل ہے وہ خلافتوں کے پیچھے کیوں پڑے گا، وہ تو اس کو ایک بوجھ سمجھے گا۔ آپ ﷺ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہتے ہیں کہ اے بلال! مجھے راحت پہنچاؤ آذان دے کر کہ میں اللہ کی طرف کٹ کٹا کر متوجہ ہوجاؤں۔ اس وجہ سے ہمیں ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔ بس آرام سے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور دوسروں کی جوتی کی حفاظت کے لئے اپنی گدڑی کو گم نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے مشائخ نے تو یہ بتایا ہوا ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں عقل تو آچکی ہوگی اور اگر اب بھی عقل نہیں آئی تو پھر کیا کیا جائے؟ ہمارے ہاں ویسے کالے پانی کی سزا تو ہے نہیں کہ کالا پانی بھیج دیا جائے۔ لہٰذا اپنے لئے خود ہی تجویز کرلیں کہ کیا کریں۔ اللہ جل شانہٗ ہماری مدد فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ