اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾ (الشمس: 7۔10)
ترجمہ1: "اور انسانی جان کی اور اس کی جس نے اسے سنوارا پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی، جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے، فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد ہوگا وہ جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔
وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی:
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: "یقیناً اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے، جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔
﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ﴾ (سورۃ القدر: 1 تا 3)
ترجمہ: "بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے، اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے"۔
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ:
"اَلصَّوْمُ الْجُنَّۃُ" (سنن النسائی: رقم حدیث: 2230)
ترجمہ: "روزہ ڈھال ہے"۔
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام:
"اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃُ" (صحیح الجامع: :3866)
ترجمہ: "دنیا اٰخرت کی کھیتی ہے"۔
صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہٗ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ
ابھی حضرت نے فرمایا کہ اصلاحی بیان ہوگا۔ تو اصلاحی بیان کسے کہتے ہیں؟ انسان کے ساتھ دو چیزیں لگی ہوئی ہیں، ایک سے بچ جائے اور دوسری کنٹرول میں آ جائے، اس کو اصلاح کہتے ہیں۔ ان میں ایک شیطان ہے، جو ہمارا ازلی دشمن ہے، اللہ جل شانہٗ نے بھی اس کا تعارف ہمارے لیے ایسے الفاظ میں فرمایا ہے کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا:
﴿اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (الزخرف: 62)
ترجمہ: "یقین جانو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے"۔
﴿فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ﴾ (فاطر: 06)
ترجمہ: "اس لیے اس کو دشمن ہی سمجھتے رہو"۔
﴿وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (البقرہ: 208)
ترجمہ: "اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے"۔
مقصد یہ ہے کہ شیطان کے بارے میں ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ وہ ہمارا دوست نہیں، دشمن ہے اور دشمن انسان کو صحیح راستہ نہیں دکھاتا۔ ہر انسان کو اس بات کا حرص ہوتا ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کامیاب کیسے ہوگا؟ ایک ہے ایک دن کی کامیابی اور ایک پانچ دن کی کامیابی ہے اور ایک دس دن کی کامیابی ہے اور ایک سال کی کامیابی ہے اور ایک سو سال کی کامیابی ہے اور ایک ہمیشہ کی کامیابی ہے، کامیابی کی مختلف قسمیں ہیں، آپ کون سی کامیابی چاہیں گے؟ یقینی بات ہے کہ آپ ہمیشہ کی کامیابی چاہیں گے، ہمیشہ کی کامیابی جو انسان چاہے گا، وہ اس ازلی دشمن کی بات نہیں مانے گا، تب اس کو یہ کامیابی حاصل ہوگی، کیونکہ وہ ازلی دشمن ہماری ہمیشہ کی کامیابی کو خواہ مخواہ خراب کرتا ہے، اس وجہ سے اس سے بچنا لازمی ہوا۔ دوسری چیز ہمارے اندر ہمارا نفس ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے اندر نفس ہے۔ نفس کس کو کہتے ہیں؟ نفس وہ مرکز ہے جس سے ہماری خواہشات آرہی ہیں، مثلاً: ایک انسان ہے، جو راستہ میں جارہا ہے، اچانک اس کے اندر ایک خواہش پیدا ہو جائے کہ سامنے جو غیر محرم آ رہی ہیں، میں ان کو دیکھوں، یہ نفس کی خواہش ہے۔ کسی کو رشوت کا پیسہ مل رہا ہے، تو اس کے اندر خواہش ابھر رہی ہے کہ میں یہ رشوت لے لوں۔ میں سود کھا لوں۔ میں کسی پر ظلم کر لوں۔ کسی کا مذاق اڑاؤں۔ یہ سب ہمارے نفس کی خواہشات ہیں اور یہ خواہشات انسان کے دل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں، لیکن یاد رکھیں جب تک یہ خواہشات عملی صورت میں نہیں آتیں یعنی انسان ان پر عمل نہیں کرتا، تو اس وقت تک ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن اگر یہ خواہشات عملی صورت میں آجائیں یا انسان ان کو عملی صورت میں لانے کا ارادہ کر لے اور اس کے لئے پلاننگ شروع کر لے، تو پھر یہ گناہ اور فجور بن جاتی ہیں، اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾ (الشمس: 7۔10)
ترجمہ: "اور انسانی جان کی اور اس کی جس نے اسے سنوارا پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے"۔
اس مقام پر اللہ پاک نے نفس کی قسم کھائی، اس سے پہلے اور قسمیں بھی کھائی ہیں لیکن اٰخر میں نفس کی قسم کھائی اور فرمایا کہ اس نفس کے اندر میں نے دو چیزیں رکھی ہیں: ایک اس کا فجور اور دوسرا اس کا تقویٰ۔ دل میں فجور بھی ہے اور تقویٰ بھی ہے، یہ فجور اور تقوٰی کیا چیز ہیں؟ اس کو یوں سمجھو کہ میرے اندر خواہش نفس یعنی برائی کا جذبہ بن گیا، اگر میں نے اس کے اوپر عمل کیا، تو میرا وہ عمل فجور بن گیا اور اگر میں نے اس پر عمل نہیں کیا، تو اس سے بچنا تقوٰی بن گیا، مثلاً: میرے اندر ارادہ پیدا ہوا کہ میں غیر محرم کو دیکھوں، جب تک یہ صرف ارادہ ہے، تو یہ وسوسہ ہے اور میرے نفس کی خواہش ہے، وسوسہ شیطان ڈالتا ہے، اور نفس کی خواہش ہمارے اندر ہوتی ہے، شیطان ہمارے نفس کی خواہش کے مطابق وسوسہ ڈالتا ہے، تو یہ وسوسہ ہے، اگر میں اس وسوسہ کے اوپر عمل کر لوں گا، تو یہ گناہ ہو جائے گا اور اگر میں اس کو چھوڑ دوں، اور نہ ہونے دوں، تو یہ تقویٰ بن جائے گا۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کسی کے اندر مثلاً: اگر دس یونٹ برائی کی خواہش ہے اور وہ اس خواہش کو پورا نہ ہونے دے، تو کتنے فیصد اس کا تقویٰ ہوگیا؟ دس یونٹ کا اس کا تقویٰ ہوگیا ہے اور اگر اس کے اندر برائی کی خواہش سو یونٹ ہو، تو کتنا تقویٰ بنے گا؟ سو یونٹ کا بنے گا، پس ہمارے اندر جو برائی کی خواہش ہے، یہ ہمارے لئے شر ہے یا خیر؟ اگر ہم اس پر عمل کریں، تو شر ہے اور اگر عمل نہ کریں تو خیر ہے۔ ہماری خواہشِ نفس شر بھی ہے اور خیر بھی ہے، یہ کیسے؟ کیوں کہ اگر یہ خواہش دس یونٹ کی ہے اور میں تقویٰ حاصل کرتا ہوں، تو مجھے سو یونٹ کا تقویٰ حاصل ہو جائے گا، لیکن اگر کوئی آدمی اندھا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں بد نظری نہیں کرتا، تو بتائیں کہ اس کو کتنا ثواب ملے گا؟ اس کو کچھ بھی ثواب نہیں ملے گا، کیوں کہ وہ اندھا ہے، اور وہ بد نظری کر ہی نہیں سکتا۔ لیکن اگر کسی کی آنکھیں صحیح ہیں اور وہ بد نظری نہیں کرتا، تو اس کو باقاعدہ اجر ملتا ہے، چنانچہ جس درجہ برائی کی خواہش ہوگی، اس کو دبانے کا اجر بھی اتنا ملے گا، اگر ہمارے اندر زیادہ خواہش ہے، تو اس سے ڈرنا نہیں چاہیے، اگر کسی کے اندر مال بہت زیادہ جمع کرنے کی خواہش ہے اور اس کے پاس اس کے ذرائع بھی ہیں، مثلاً: کاروبار میں دھوکہ دے سکتا ہے، اور ناجائز طریقہ پر وہ مال کما سکتا ہے، لیکن وہ غلط طریقے سے مال نہیں کماتا، بلکہ وہ صحیح طریقے سے مال کماتا ہے، خواہ کم ہی کیوں نہ ہو، تو ایسے تاجر کے بارے میں حدیث پاک میں بتایا گیا ہے کہ اس کا حشر انبیاء و صدیقین کے ساتھ ہوگا۔ کیوں کہ وہ وسوسہ، شیطان کے اغوا اور خواہشِ نفسانی سے بچ کر کاروبار کر رہا ہے۔ پتا چلا کہ ہمارے اندر اگر بری خواہشات ہیں، تو جب تک ہم اس پر عمل نہ کریں، تو اس وقت تک اس پر پکڑ نہیں ہے، خدا نخواستہ اگر ہم اس پر عمل کریں گے، تو پھر وہ فجور اور گناہ ہے، اور اگر ہم اس پر عمل نہیں کریں گے، تو یہ تقویٰ ہے، فجور کی طرف جانے کی بجائے ہم تقوٰی کی طرف چل پڑیں، اس طرف اللہ تعالٰی کھینچ رہے ہیں، اس طرف شیطان کھینچ رہا ہے، اور نفس دونوں میں مشترک ہے، نفس کو ایک طرف سے شیطان کھینچ رہا ہے اور دوسری طرف سے اللہ تعالٰی کھینچ رہے ہیں، ہم اللہ تعالٰی کی بات مان لیں اور شیطان کی بات نہ مانیں، ہم پر اس سے زیادہ شیطان کو کوئی زور حاصل نہیں، اگر ہم شیطان کے بہکاوے میں آ کر اس کی بات مانتے ہیں، تو ہم اپنے اختیار سے مانتے ہیں، اسے ہم پر کوئی زور حاصل نہیں، چنانچہ قرآن پاک میں ایک جگہ اس کی منظر کشی ہے، قیامت کے دن جب شیطان کو لوگ دیکھیں گے، تو بہت بپھر جائیں گے، اس کو پڑ جائیں گے، لوگوں کی یہ حالت ہوگی کہ وہ کہیں گے کہ تیری ایسی کی تیسی، تو نے ہمیں خراب کر دیا تھا، شیطان ان کو ٹکا سا جواب دے گا، وہ بالکل ایک simple (سادہ) سا جواب ہوگا:
﴿فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ﴾ (ابراہیم: 22)
ترجمہ: "لہٰذا اب مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو"۔
میں نے تمہارے ساتھ جھوٹا وعدہ کیا تھا، اللہ پاک نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا، تم لوگوں نے اللہ پاک کے سچے وعدہ کی پروا نہیں کی، میرے جھوٹے وعدہ پر یقین کر لیا، اب بھگتو، میں بھی بھگت رہا ہوں، نہ تم مجھ سے کچھ کم کر سکتے ہو، اور نہ میں تم سے کچھ کم کر سکتا ہوں۔ شیطان یہ کہے گا۔ قرآن پاک پڑھیں، قرآن پاک میں یہ منظر کشی ہے، جب یہ صورتحال ہے، تو دیکھو! ایک طرف اللہ پاک کھینچ رہے ہیں، اور دوسری طرف شیطان کھینچ رہا ہے، آج موقع ہے ہمارے پاس، ہم اگر اللہ پاک کی بات مان لیں، تو متقی اور اگر شیطان کی بات مان لیں، تو فاسق و فاجر، ہمیں اس چیز کا غیر معمولی اختیار دے دیا گیا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگے کی آیات میں اس اختیار کو استعمال کرنے پر فرمایا ہے:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: "فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔
یعنی یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا، اور یقیناً تباہ و برباد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو وہ کچھ کرنے دیا جو وہ کرنا چاہتا ہے، تو اب ہمارے پاس اپنے نفس کے مطابق چلنے کا بھی اختیار ہے، جو شیطان اغوا کی صورت میں ہمیں غلط طریقے پر لے جاتا ہے، اور ہمیں اللہ پاک کے حکم کے مطابق چلنے کا بھی اختیار ہے، جس میں اللہ جل شانہٗ نے اتنی بڑی کامیابی رکھی ہے، آج کی گفتگو کی تمہید اتنی ہو گئی کہ ہمیں موت سے پہلے پہلے پاکی حاصل کرنی ہے، اور یہ لازم ہے، اس کو اصلاحِ نفس کہتے ہیں۔ جیسے فرماتے ہیں: موت سے پہلے پہلے نفس کی اصلاح فرض عین ہے، اور مقصود صرف یہی ہے، ہاں! اگر کسی کے نفس کی اصلاح کسی اور وجہ سے ہو چکی ہو، تو کوئی مسئلہ نہیں، بس پھر اس کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر نفس کی اصلاح نہیں ہوئی، تو تب اس نفس کی اصلاح کرنی ہے، نفس کی اصلاح کیسے ہوگی؟ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ نفس میں ایک برائی تکبر ہے، تکبر کا معنیٰ ہے اپنے آپ کو بڑا سمجھنا، دیہاتی کا تکبر اور ہوتا ہے، شہری کا تکبر اور ہوتا ہے، عالم کا تکبر اور ہوتا ہے، جاہل کا تکبر اور ہوتا ہے، ذہین آدمی کا تکبر اور ہوتا ہے، سادہ آدمی کا تکبر اور ہوتا ہے، غرض ہر آدمی کا تکبر اس کی حالت کے مطابق ہوگا، کیا سب کے تکبر کا علاج ایک ہوگا؟ ایک نہیں ہوگا، بلکہ ہر ایک تکبر کا علاج مختلف ہوگا۔ جیسے ہمارے ملک میں جو بیماری آتی ہے اس کا علاج اور ہوتا ہے، یورپ میں جو بیماری آتی ہے اس کا علاج اور ہوتا ہے، کیونکہ موسمی حالات اور تمام چیزوں کا فرق ہوتا ہے، اگر میری بیماری کا علاج کسی یورپ کے ڈاکٹر سے کرایا جائے تو شاید وہ اس کے علاج تک نہ پہنچ سکے لیکن یہاں کا ڈاکٹر اس کو سمجھ لے گا، جب یہ بات سمجھ میں آگئی، تو اگلی بات یہ سمجھو کہ نفس کا علاج تو ضروری ہے، لیکن یہ علاج مستقل ایک جیسا نہیں ہوتا، اور یہ علاج کتابوں سے نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ کتابوں میں تو ایک وقت کے حالات ہوتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کوئی کتاب سو سال پہلے لکھی گئی ہے، تو سو سال پہلے جو بیماریاں تھیں ان کے علاج کے بارے میں تو بہت کچھ اس میں آ گیا، سو سال کے بعد جو بیماریاں آ گئی کیا اس میں ان کا علاج ہوگا؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ سو سال پہلے کی چیزیں کیا ابھی موجود ہیں؟ آج کل انٹرنیٹ ہے، موبائل ہے، اور ان کے علاوہ بھی بہت کچھ اور چیزیں آگئی ہیں، ان سب کے ہوتے ہوئے روحانی بیماریاں اسی طرح رہیں گی جیسے سو سال پہلے تھیں یا کچھ فرق پڑ گیا ہوگا؟ فرق پڑ گیا ہوگا، سو سال پہلے جن لوگوں نے کتاب لکھی، ان کے سامنے یہ چیزیں نہیں تھیں، اب آپ بتائیں کہ جو کتاب سو سال پہلے لکھی گئی ہے، اس میں ان چیزوں کا ذکر یا ان کا علاج آ چکا ہوگا؟ اس میں یقیناً ان کا علاج نہیں آ چکا ہوگا، لہٰذا اس دور کے ڈاکٹر سے علاج کرنا پڑے گا، حالانکہ اس ڈاکٹر کا مقام اتنا اونچا نہیں ہوگا جتنا پہلے کا تھا، سو سال پہلے والے کا مقام عند اللہ بہت اونچا ہوگا لیکن علاج اِس کا چلے گا، اس وجہ سے کسی زندہ آدمی سے اپنی اصلاح کروانی ہوتی ہے، یہ ایک بات ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس زندہ شخص کے اندر کچھ صفات ہونے چاہئیں، پھر وہ علاج کر سکے گا ورنہ وہ علاج نہیں کر سکے گا۔ صفات کون سی ہونی چاہئیں؟ سب سے پہلی صفت اس کے اندر یہ ہونی چاہیے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو، اگر اس کا عقیدہ صحیح نہیں ہے، تو وہ ہمارا روحانی علاج نہیں کر سکتا۔ دوسری صفت اس کے اندر یہ ہونی چاہئے کہ اس کا علم صحیح ہو، یعنی اتنا علم اس کے پاس ہو کہ چوبیس گھنٹے شریعت کے مطابق چل سکتا ہو۔ تیسری صفت اس کے اندر یہ ہونی چاہئے کہ چوبیس گھنٹے شریعت پر چلتا بھی ہو۔ چوتھی صفت اس کے اندر یہ ہونی چاہئے کہ اس کی صحبت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تک پہنچتا ہو۔ پانچویں صفت یہ ہونی چاہئے کہ ادھر سے اجازت بھی ہو، یعنی جس کو ہم ڈگری اور سند کہتے ہیں، وہ اس کو حاصل ہو۔ چھٹی صفت اس کے اندر یہ ہونی چاہئے کہ اس کا فیض جاری ہو، فیض جاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ڈاکٹر کے پاس جتنے لوگ جاتے ہوں، ان میں سے اکثر کو شفا ہو جاتی ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ فلاں ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا ہے۔ اس طرح ہم فیض جاری ہونا اس کو کہتے ہیں کہ جتنے لوگ اصلاح کے مقصد سے اس کے پاس جائیں، ان میں سے اکثر لوگوں کی اصلاح ہو جاتی ہو۔ ساتویں صفت اس کے اندر یہ ہونی چاہئے کہ وہ مروت نہ کرتا ہو، اصلاح کرتا ہو، مروت نہ کرتا ہو، بلکہ اصلاح کرتا ہو، اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں، مثلاً: کسی میں حسد ہے، تو وہ اس کو یہ نہ کہہ سکے کہ تجھ میں حسد ہے، کسی میں تکبر ہے، تو وہ اس کو یہ نہ کہہ سکے کہ تجھ میں تکبر ہے۔ ایک رات ہمارے ہاں ختمِ قرآن کا موقع تھا، اس میں ایک صاحب آئے ہوئے تھے، انہوں نے مجھے ایک خط دیا، خط میں نے پڑھا، خط میں اس نے کہا کہ میں ذکر کر رہا تھا، تو یہ مسئلہ ہوگیا، میں نے ذکر چھوڑ دیا۔ میں نے اسے کہا کہ یہ خط واپس لے لو۔ وہ صاحب کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا: جب تم خود ڈاکٹر ہو، تو میرے پاس کیوں آئے ہو، تم تو خود فیصلہ کر سکتے ہو، چنانچہ آپ نے از خود فیصلہ کر لیا اور بغیر پوچھے ذکر چھوڑ دیا، تو اس کا مطلب ہے کہ تم خود ڈاکٹر ہو، اور تم جانتے ہو کہ تم اپنا علاج کیسے کر سکتے ہو، لہٰذا جاؤ، اپنا علاج خود کرو، مجھ سے نہ پوچھو، وہ اپنی غلطی سمجھ گیا، اس نے فوراً کہا: جی مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں نے کہا: بھائی! غلطی کو نہ صرف ماننا پڑے گا بلکہ اس کی تلافی بھی کرنی پڑے گی، یہ کیا طریقہ ہے کہ میں آپ کو علاج بتا دوں، آپ جا کر چپکے سے اس کو چھوڑ دیں، پھر بعد میں جب کام خراب ہو جائے، تو آپ میرے پاس آ جائیں، تب میں کیا کر سکتا ہوں، آپ کو کم از کم مجھے بتانا تو چاہیے تھا کہ میں نے ذکر چھوڑ دیا ہے یا چھوڑ رہا ہوں۔ اس نے اپنی غلطی کا جب ازالہ کیا، تو الحمد للہ اس کو شفا ہوگئی، اس کو پتا چل گیا کہ مجھے شفا ہو چکی ہے، لیکن اگر میں یہ سوچتا کہ میری اس بات سے یہ ناراض ہو جائے گا، تو پھر اس کی اصلاح کیسے ہوتی؟ لہٰذا اگر کوئی پیر ناراض ہونے کی فکر کرے گا، تو وہ حقیقی پیر نہیں ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹری کے اندر بھی ہمارا طریقہ یہ ہے کہ جو ٹی بی کا مریض انسان ڈاکٹر کے پاس آئے، تو خیر خواہ ڈاکٹر اس سے سچی بات کرے گا کہ تمہیں ٹی بی ہے، تاکہ وہ اپنا علاج کرے۔ اگر ڈاکٹر اس کا دوست ہو اور مروت کرے، وہ سوچے کہ میں اس کو بتاؤں گا، تو یہ پریشان ہو جائے گا، تو آپ بتائیں کہ وہ اس کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے یا اس کے ساتھ اچھائی کر رہا ہے؟ تو روحانی علاج میں بھی یہی بات ہے۔ پیر وہ ہونا چاہیے جو مروت نہ کرتا ہو، بلکہ اصلاح کرتا ہو۔ آج کل ہمارے ہاں بھی یہ مسئلہ ہے کہ ہم بھی ایسے پیروں کو چاہتے ہیں جو ہمیں جنت کے سرٹیفکیٹ دے دیں، چاہے ہم جیسا بھی عمل کریں۔ کسی دفتر کے ایک صاحب میرے پاس آئے، مجھ سے کہا کہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کار پوریشن سے لون ملتا ہے، لے لوں؟ میں نے کہا: یہ تو سود ہے۔ وہ چلا گیا، بارہ سال کے بعد مجھے کہتا ہے کہ شاہ صاحب! دعا کریں، میں بڑا پریشان ہوں۔ میں نے کہا کہ کیا مسئلہ ہے؟ کہتا ہے کہ وہ جو لون لیا تھا، اس کی وجہ سے کچھ مسائل ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کون سا لون؟ کہتا ہے کہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کار پوریشن۔ میں نے کہا کہ اس سے تو میں نے آپ کو روک دیا تھا کہ آپ نہ لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ایک پیر صاحب ہیں، ان سے میں نے پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ آپ مجبوراً لے رہے ہیں؟ ہم نے کہا کہ ہاں، میں تو مجبوراً لے رہا ہوں۔ اس پیر صاحب نے کہا کہ بس پھر کوئی حرج نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر ان سے جا کر مسئلہ پوچھیں، مجھ سے مسئلہ کیوں پوچھتے ہو؟ اب تمہیں جو تکلیف ہے، اس کو بتاؤں، میں نے تو تجھے روک دیا تھا، اب بارہ سال بعد مجھ سے پوچھتے ہو؟ اصل بات یہ ہے کہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ بس ایسا پیر ہونا چاہیے جو ہماری تمام غلط چیزوں کو صحیح قرار دیا کرے، ہم غلط کام کرتے رہیں اور ہم اپنا عمل بھی تبدیل نہ کریں لیکن پھر بھی ہم جنتی رہیں، جنت کا سرٹیفکیٹ ہم سے نہ جائے۔ آج کل ہمارے اندر یہ مسائل ہیں، ہم صحیح معنوں میں پیروں کے پاس جاتے بھی نہیں ہیں، ہم ایسے پیروں کو ڈھونڈتے ہیں جو ہمیں relax کریں۔ نہیں، بھائی! اگر اصلاح چاہتے ہو، تو بے مروت پیر چاہیے، تاکہ وہ آپ کو صحیح صحیح بتا دے کہ تیرے اندر یہ غلطی ہے اور یہ اس طریقے سے ٹھیک ہوگی۔ آٹھویں صفت اس کے اندر یہ ہونی چاہئے کہ اس کی مجلس میں بیٹھ کر، اس کی بات سن کر، اس کی کتاب پڑھ کر، اس کی تقریر سن کر دنیا کی محبت کم ہوتی ہو، اللہ تعالٰی کی محبت بڑھتی ہو۔
یہ آٹھ نشانیاں ہیں، ان آٹھ نشانیوں کی بنیاد پر اگر آپ کو کوئی صحیح صاحب مل گیا، تو پھر اس کو چھوڑنا نہیں ہے۔ اگرچہ لوگ اس کے بارے میں بہت کچھ کہیں گے کہ یہ ایسا ہے اور یہ ایسا ہے۔ بھائی! تجھے لوگوں سے کیا لینا، تجھے اپنی اصلاح کرنی چاہیے، تجھے لوگوں سے کیا غرض ہے؟ مجھے بتاؤ کہ کسی کاروبار میں کسی کو فائدہ ہو اور ساری دنیا والے اس کو کہہ دیں کہ یہ کاروبار تو ٹھیک نہیں ہے، اس میں نقصان ہے۔ جبکہ اس کو فائدہ ہو رہا ہو، تو وہ کسی کی بات مانے گا؟ وہ کہے گا کہ جاؤ، جاؤ، تمہارے لئے نقصان ہے، ہمارے لئے اس میں فائدہ ہے۔ بالکل اسی طریقے سے آپ کو اگر کسی پیر سے فائدہ ہو رہا ہے اور آپ کی اصلاح ہو رہی ہے، تو پھر آپ لوگوں کی پروا نہ کرو، لوگ چاہے کچھ بھی کہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر آپ کو نقصان ہو رہا ہو، تو پھر بھی آپ اس کے ساتھ چپکے رہیں، تو یہ آپ کی اپنی غلطی ہے، یہ آٹھ نشانیاں ہیں، ان آٹھ نشانیوں کو اچھی طرح ڈھونڈنا چاہیے، یاد رکھو! ان نشانیوں کے حامل لوگ دنیا میں قیامت تک موجود رہیں گے، جو ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آخر وقت تک کچھ لوگ ایسے رہیں گے جو ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے بلکہ حق پر جمے رہیں گے۔ اس وجہ سے آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ ختم ہوگئے۔ یہ لوگ ختم نہیں ہوئے ہیں بلکہ موجود ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان لوگوں کی طلب نہیں ہے، جب ہمیں ان کی طلب ہوتی ہے، تو ہمیں یہ نظر آ جاتے ہیں، کیوں کہ جب ہمیں کسی چیز کی طلب ہوتی ہے، تو وہ چیز ہمیں نظر آ جاتی ہے، چنانچہ اگر کسی کو کوئی بیماری نہ ہو، تو اکثر اس کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ کون سا ڈاکٹر کدھر رہتا ہے؟ جب موقع آتا ہے، تو پتا چلتا ہے، مثال کے طور پر میرا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا، میں نے پلستر لگا دیا، لوگوں نے دیکھا، تو بہت سارے لوگوں نے اپنے اپنے بارے میں مجھے بتانا شروع کیا کہ میرا بھی ہاتھ ٹوٹ گیا تھا، اس طرح ہوگیا تھا، پھر ایسا ہوگیا تھا، اس طرح کئی لوگوں نے مجھے بتایا، تب مجھے پتا چلا کہ ہمارے ملنے والوں میں کافی سارے لوگوں کے ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں، اسی طریقے سے جب تک کسی کو ضرورت نہیں پڑتی، تو اس وقت تک اس کو پتا نہیں چلتا، جب اس کو ضرورت کا احساس ہو جاتا ہے، تو پھر پتا چلتا ہے کہ اچھے لوگ موجود ہیں، چنانچہ اچھے لوگ آج بھی موجود ہیں، ہم نے اگر تلاش ہی نہیں کیا، تو پھر کسی کا کیا قصور؟ تلاش تو کرنا پڑے گا۔
آپ حضرات جانتے ہوں گے کہ آپ نے اپنے گزشتہ بزرگوں، اپنے بڑوں کی کتابیں اور سوانح عمری پڑھیں ہیں، ان میں ایک بات آپ کو مشترک نظر آئے گی کہ ان کی سوانح عمری میں لکھا ہوتا ہے کہ اتنی عمر میں انہوں نے مروجہ علوم سے فراغت حاصل کرلی، پھر شیخ کامل کی تلاش میں چل پڑے۔ یہ چیز تقریباً سب جگہ آپ کو نظر آئے گی، اس سے پتا چلا کہ اس وقت یہ بالکل ایک ایسی چیز تھی جو ہر ایک نے کرنی ہوتی تھی، پہلے زمانہ کے لوگ تلاش کرتے تھے، تو ان کو شیخ کامل مل جاتا تھا، ضروری نہیں کہ ان کو شیخ گھر کے پاس ہی ملا، کسی کو سو میل کے فاصلہ پر مل رہا ہے، کسی کو دو سو، کسی کو پانچ سو، کسی کو ہزار میل کے فاصلے پر ملا ہے، انہوں نے اس مقصد کے لئے سفر کیا ہے۔ آج کل ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ شیخ عبد القادر جیلانی آ کر ہمارا دروازہ کھٹکھٹائیں اور پوچھیں کہ میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں؟ تو پھر ہم ان کو کہیں کہ اچھا ٹھیک ہے، ہم سوچیں گے۔ یہ ہے آج کل کا دور، بھائی! ہمیں تلاش کرنا ہے، اگر ہم شیطان کے بہکاوے اور نفسانی خواہشات سے بچنا چاہتے ہیں، تو ہمیں شیخ کامل تلاش کرنا پڑے گا، اگر ہم تلاش کریں گے، تو ہمیں ضرور ملے گا، قرآن عظیم میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ (العکنبوت: 69)
ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے"۔
یعنی ایک نہیں، کئی راستے سجھاؤں گا، البتہ شرط یہ ہے کہ ہم تلاش کی کوشش تو کریں، ہم کوشش کریں گے، تو اللہ پاک ہمارے لئے کئی راستے کھول دے گا۔ ایک دفعہ میں نے اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضرت! میں بڑا خوش قسمت ہوں، پشاور میں آپ سے ملاقات ہو گئی، خاندان میں فلاں سے ملاقات ہوئی، فلاں جگہ گیا، تو فلاں صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ حضرت نے فرمایا کہ سب کے لئے ایسا ہوسکتا ہے، صرف تلاش ضروری ہوتی ہے، جو تلاش کرتا ہے، تو اس کو اس کا مقصود مل جاتا ہے۔ بس بات یہی ہے کہ تلاش کرنا چاہیے، یہ آٹھ نشانیاں ہیں، ان کو مد نظر رکھ کر آپ تلاش کریں، تو ان آٹھ نشانیوں کے حامل لوگ آپ کو ضرور مل جائیں گے، لیکن اپنی اصلاح کی نیت سے ان کو تلاش کریں، تلاش کسی اور نیت سے نہ ہو، بلکہ اپنی اصلاح کی نیت سے ہو، ہم لوگ اگر تھوڑی سی کوشش کرلیں، تو آج کل اس پرفتن دور میں بھی ان شاء اللہ اللہ پاک آپ کو ضرور ایسے لوگ دکھائیں گے۔
چونکہ ماہِ رمضان شریف کی مبارک گھڑیاں ہمیں نصیب ہیں، لہٰذا میں اس حوالے بھی چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رمضان شریف میں اگر ہم تھوڑی سی محنت کر لیں، تو اس تھوڑی محنت پر بھی ہمیں یہ چیز یعنی اصلاحِ نفس حاصل ہوسکتی ہے، وہ کیسے؟ پہلے زمانہ میں لوگ مشائخ کے پاس جب جاتے تھے، تو وہ ان سے چار قسم کے مجاہدے کراتے تھے، کم کھانا، کم سونا، کم بولنا، لوگوں کے ساتھ کم ملنا جلنا۔ ان مجاہدات کے ساتھ ساتھ وہ ان کو ذکر تلقین کرتے تھے، میرا خیال ہے کہ شاید آپ نے یہ کہیں پڑھا بھی ہوگا کہ مشائخ یہی کراتے ہیں۔ اب ہم ذرا رمضان شریف کے مہینہ میں اپنے شب و روز کا جائزہ لیتے ہیں کہ رمضان شریف میں کیا کچھ ہوتا ہے؟ رمضان شریف میں دن کو روزہ ہوتا ہے، اور رات کو تراویح ہوتی ہے، روزہ میں کس چیز کا مجاہدہ ہے؟ روزہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک تین چیزوں کھانا، پینا اور مباشرت سے رکنے کا نام ہے، اس طرح روزہ کی حالت میں کم کھانے کا مجاہدہ از خود ہوگیا، دوسرا مجاہدہ ہے کم سونا، دن بھر آپ نے روزہ رکھا، مغرب کے وقت آپ نے روزہ افطار کیا اور مغرب کی نماز پڑھی، اس کے بعد ان شاء اللہ آپ عشاء کی نماز پڑھیں گے اور ساتھ بیس رکعت تراویح بھی پڑھیں گے، تو معمول سے زیادہ وقت نماز میں صرف ہوگا، اور جو تراویح ختم قرآن کے ساتھ پڑھتے ہیں، ان کو اور زیادہ دیر لگ جائے گی، آپ تراویح سے فارغ ہو کر معمول سے زیادہ لیٹ سوئیں گے، پھر صبح سحری کے لئے بھی اٹھنا ہے، تو اس طرح رمضان شریف میں دوسرا مجاہدہ کم سونا ہو جاتا ہے، تیسرا مجاہدہ ہے کم بولنا، یہ مجاہدہ بھی رمضان شریف کے اہتمام میں شامل ہے، دیکھیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی روزے کی حالت میں تمھارے ساتھ الجھے، تو تم اس کے ساتھ نہ الجھو، صرف اتنا کہہ دو:
''اَنَا اِمْرَءٌ صَائِمٌ'' (مسلم:2706)
ترجمہ: "میں روزہ دار ہوں"۔
جو روزہ دار صحیح طور پر روزہ رکھے گا، اس کا بولنا خود بخود کم ہو جائے گا، صحیح طور پر روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روزہ دار روزہ کی حالت میں کوئی گناہ نہ کرے، آنکھوں کا گناہ بھی نہ کرے، کانوں کا گناہ بھی نہ کرے، زبان کا گناہ بھی نہ کرے، ہاتھ، پاؤں کا گناہ بھی نہ کرے، جو ان تمام گناہوں سے اپنے آپ کو بچا لے، تو اس نے کم بولنے کا مجاہدہ بھی کر لیا، چنانچہ زبان کا کم استعمال بہت سے گناہوں سے بچنے کا باعث ہے، زبان کا گناہ اگر تم کم کر دو، تو تم سے غیبت سر زد نہیں ہوگی، جھوٹ اور دھوکہ کا ارتکاب نہیں ہوگا، غرض اس قسم کی تمام باتیں جو ہم زبان سے کرتے ہیں، وہ ہم سے نہیں ہوں گی، صحیح طور پر روزہ رکھنے کی صورت میں تیسرا مجاہدہ کم بولنا بھی خود بخود ہوگیا، اور اگر ہم رمضان شریف کے اٰخری عشرہ میں مسنون اعتکاف کر لیں، تو اس صورت میں کم بولنا اور لوگوں کے ساتھ کم ملنا جلنا، ان دونوں مجاہدوں پر عمل ہو جاتا ہے۔ رمضان شریف میں اصلاح کے حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں چاروں قسم کا مجاہدہ موجود ہے، باقی رہا ذکر، اس بارے میں یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ قرآن پاک بھی ذکر ہے، اور نماز بھی ذکر ہے، اللہ تعالٰی نے اس کو ذکر فرمایا ہے:
﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ (طہ: 14)
ترجمہ: "اور مجھےیاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو"۔
﴿وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ﴾ (طہ: 124)
ترجمہ: "اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا"۔
یعنی اللہ تعالٰی نے اس آیت میں قرآن کے لئے ذکر کا لفظ کا استعمال فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اپنے ان ارشادات میں قرآن کو بھی ذکر کہہ دیا، نماز کو بھی ذکر کہہ دیا، اور ان دونوں کے علاوہ رمضان شریف میں ذکر بھی ہوتا ہے، تو یہ تینوں چیزیں تراویح میں ہیں، بس شرط صرف یہ ہے کہ اس تراویح کو اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے اندر جو یہ چیزیں ہیں، کوشش کر کے ان کو پا لیا جائے، جب قرآن پاک امام پڑھتا ہے، تو اس کو یوں سمجھو کہ اللہ پاک کی طرف سے میرے لئے اس کے سینہ میں آ رہا ہے اور اس کے سینہ سے نکل کر میرے سینہ کو منور کر رہا ہے، یہ تصور کرو، اس کے پیچھے جب کھڑے ہو کر اس تصور سے جب آپ قرآن سنیں گے، تو اس کے اثرات آپ کے اوپر پڑیں گے۔ علامہ اقبال مرحوم جب قرآن پڑھتے، تو بہت روتے تھے، سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ انہوں نے ایک سفر کیا، تو انہوں نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ قرآن پاک کی تلاوت کے وقت آپ کی جو یہ کیفیت ہوتی ہے، یہ آپ کو کیسے مل گئی؟ انہوں نے کہا: مجھے میرے والد نے کہا تھا کہ جب قرآن پڑھو، تو اس تصور سے پڑھو کہ جیسے ابھی تمہارے دل کے اوپر اتر رہا ہے۔ کیونکہ قرآن پاک اللہ تعالٰی کا کلام ہے، یہ کسی انسان کے الفاظ نہیں ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس وقت یہ
گفتهٔ او گفتهٔ الله بود گرچہ از حلقومِ عبد اللہ بود
یعنی یہ جو بولنا ہے، اللہ تعالٰی کا بولنا ہے، اگرچہ اس وقت یہ عبداللہ کی زبان سے نکل رہا ہو۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس اس درخت سے اللہ تعالیٰ کی جو آواز آ رہی تھی، تو کیا حضرت موسی علیہ السلام اس درخت کو خدا سمجھ رہے تھے؟ وہ درخت کو تو خدا نہیں سمجھ رہے تھے بلکہ ان کو جو وہ آواز آ رہی تھی، اس کو وہ اللہ تعالٰی کی آواز سمجھ رہے تھے، اسی طریقے سے ہم اگر تلاوت کے وقت یہ سمجھیں کہ امام جو پڑھ رہا ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنے الفاظ اس کی زبان سے نکلوا رہے ہیں اور پھر وہ ہمارے کانوں میں پڑ رہے ہیں اور اس کے اثرات ہمارے دل پر پڑ رہے ہیں، تو اس تصور کے ساتھ ہم پوری تراویح پڑھیں، تو اس تصور کے ساتھ تراویح پڑھنے کے اثرات آپ خود محسوس کر لیں گے۔ بیس رکعت تراویح بہت بڑی چیز ہے، اور اس میں بہت بڑی اصلاح ہے، در اصل اس میں لوگ دو قسم کی غلطیاں کرتے ہیں، کچھ لوگ یوں کرتے ہیں کہ تراویح مکمل نہیں پڑھتے، مثلاً: آٹھ رکعت پڑھ لیں، دس رکعت پڑھ لیں، بارہ رکعت پڑھ لیں اور پھر چلے گئے۔ بھائی! یاد رکھو! اللہ تعالیٰ سے لینے کا ہمارے پاس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی طرف سے جو حکم آیا ہے، ہم مانیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، قرآن کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ قرآن ہے اور جو سنت ہے وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، لہٰذا قرآن و سنت ہمارے پاس ہیں۔ لیکن یہ جو قرآن و سنت ہیں، ان پر سب سے پہلے عمل کس نے کیا؟ یقینی بات ہے کہ اس پر سب سے پہلے عمل صحابہ کرام نے کیا، چونکہ سب سے پہلے صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا، لہٰذا بعد کے لوگوں کو چاہئے تھا کہ وہ صحابہ کرام سے سیکھتے کہ کون سا عمل کس طرح کرنا ہے؟ کیوں کہ ہمارے پاس اس عمل کے پہلے استاد صحابہ کرام ہیں، انہوں نے دین کے ہر حکم پر عمل کیا اور بعد والوں نے ہر عمل صحابہ کرام سے سیکھا، تراویح صحابہ نے بھی پڑھی ہے، اس لئے اب کوئی اختلاف نہ رہا، کیونکہ اختلاف جب پیدا ہو جاتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تراویح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھی، اس کا مطلب ہے کہ ہمیں نہیں پڑھنی چاہیے۔ دوسرے بعض لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، تراویح نہیں ترک کرنی چاہئے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں اس لیے نہیں پڑھ رہا ہوں کہ کہیں موجودہ لوگوں کے شوق کے باعث یہ تراویح فرض نہ ہو جائے، بعد والوں کا اس بارے میں اختلاف ہوگیا، اختلاف ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ صحابہ کرام نے کون سی چیز لی ہے؟ کیا انہوں تراویح کو ترک کردیا تھا یا وہ اس کا اہتمام کرتے تھے؟ صحابہ نے دوسری صورت کو اپنایا اور انہوں نے کہا کہ نہیں، اب چونکہ سلسلہ وحی کا ختم ہوگیا، لہٰذا اب ہم پڑھ سکتے ہیں، بیس رکعات نماز تراویح پر سب جمع ہوگئے، لہٰذا ہم سب بیس پر جمع ہو جائیں، ہمارے پاس صحابہ کا عمل دلیل ہے، کیوں کہ صحابہ کرام کا عمل بھی ہمارے لئے حجت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ" (سنن ترمذی: 2641)
ترجمہ: "کامیابی وہ جماعت پائے گی جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگی"۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِيْنَ'' (سنن ابن ماجہ: 42)
ترجمہ: "تمہارے اوپر میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کا اتباع لازم ہے"۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے پتا چلا کہ ہم نے خلفاء راشدین کی سنت کولینا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ راشد ہیں، انہوں نے سب کو بیس رکعات تراویح پر جمع کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خلیفہ راشد ہیں، انہوں نے اس کو باقی رکھا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خلیفہ راشد ہیں، انہوں نے بھی اس کو باقی رکھا، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ، ان سب نے بیس رکعات تراویح کو باقی رکھا ہے، ابھی تک حرمین شریفین میں بھی بیس پڑھی جارہی ہیں، اس کے باوجود اگر کوئی نہیں پڑھنا چاہتا، تو اس کی اپنی مرضی ہے لیکن اس بیس رکعات تراویح کو کوئی غلط تو نہیں کہہ سکتا، کیونکہ اس عمل کے اتنے سارے ثبوت آ گئے ہیں، البتہ کوئی نہیں پڑھنا چاہتا اس کی اپنی مرضی ہے، بس بعض لوگ اس طریقے سے اپنے لئے کمی کر لیتے ہیں، وہ پوری تراویح نہیں پڑھتے ہیں۔
دوسری غلطی لوگوں کی یہ ہے کہ جو پڑھتے ہیں، وہ اس کو سمجھ بوجھ کر جلدی جلدی پڑھتے ہیں، بعض جگہوں پر ایسے طور پر تراویح بھی ہوتی ہے کہ جس سے پتا بھی نہیں چلتا کہ کیا پڑھا جا رہا ہے، حتیٰ کہ پیچھے کھڑے ہوئے حفاظ کرام کو بھی پتا نہیں چلتا، بس ایک لفظ "اَلْحَقْ" سمجھ میں آتا ہے، اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا، یہ عمل صحیح نہیں ہے، تراویح میں قیام کی حالت میں جو کچھ پڑھا جارہا ہے، یہ قرآن ہے، اور قرآن پاک کے متعلق اللہ پاک ارشاد ہے:
﴿وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ﴾ (المزمل: 4)
ترجمہ: "اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو"۔
یعنی ٹھہر ٹھہر کر اس طریقے سے پڑھو کہ کم از کم سننے والوں کو سمجھ آ جائے کہ کیا کچھ پڑھا جا رہا ہے، یہ ایک بات ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ قرآن پڑھنا اور بالخصوص نماز میں پڑھنا، یہ عبادت ہے اور عبادت کے اوپر پیسے نہیں لیے جا سکتے، علم سیکھانے پر پیسے لیے جا سکتے ہیں، علم سکھانا اور چیز ہے، عبادت اور چیز ہے۔ مولوی صاحب مدرسہ میں آٹھ گھنٹے پڑھاتے ہوں تو وہ اس کی تنخواہ پچاس ہزار لے سکتے ہیں، لیکن مولوی صاحب دس منٹ میں جو نماز پڑھاتے ہیں، خاص اس نماز پڑھانے کی وہ تنخواہ نہیں لے سکتے ہیں، البتہ وہ اس وقت میں مسجد انتظامیہ کا پابند ہے، تو وہ اس اپنے وقت کی پابندی کی تنخواہ لے سکتا ہے، کہ میں نے اس کے لئے وقت فارغ کیا ہے، بہرحال میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ انسان کو قرآن بیچنا نہیں چاہیے، حافظوں کے لئے یہ ضروری بات ہے، اور اس کے پیچھے تراویح پڑھنے والے لوگوں کو چاہئے کہ وہ قرآن پاک اللہ کے لئے سنیں اور یہ سمجھیں کہ قرآن کے اندر جو نور ہے، وہ ہمارے سینہ کے اندر جذب ہو رہا ہے، جب ہم اس اہتمام کے ساتھ رمضان شریف گزاریں گے، تو اس کا اثر ہم پر یہ ہوگا کہ جب رمضان شریف کے ایام مکمل ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری اچھی خاصی اصلاح ہو چکی ہوگی، اور رمضان شریف کے ایام میں خاص قیمتی ایام آخری عشرہ ہے، یہی وہ عظیم عشرہ ہے، جس میں عموماً شب قدر ہوتی ہے، اور شب قدر کے تعارف کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں فرمایا ہے:
﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ﴾ (القدر: 1۔3)
ترجمہ: "بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے اور تمہیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا چیز ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں کے بھی بہتر ہے"۔
اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا اور تمھیں کیا پتا کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے؟ یہ وہی انداز ہے جو کوئی بڑا آدمی کسی بچہ کو کوئی بہت ہی قیمتی چیز دیتے وقت اختیار کرتا ہے، بچہ کو اس وقت آدمی کہتا ہے کہ تمہیں کیا پتا کہ میں تجھے کیا چیز دے رہا ہوں۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے شیخ اسماء الحسنیٰ کے عمل کی اجازت دے رہے تھے، تو اس وقت حضرت نے مولانا اشرف رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا: چودہ سال کی محنت آپ کو دے رہا ہوں، آپ کو اس کی قدر نہیں ہوگی۔ اسی طریقے سے اللہ جل شانہٗ لیلۃ القدر کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ تمھیں کیا پتا ہے کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے؟ فرمایا:
﴿لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ﴾ (القدر: 3)
ترجمہ: "شب قدر ایک ہزار مہینوں کے بھی بہتر ہے"۔
لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے افضل رات ہے، ہزار مہینوں پر برتری یہ بہت بڑی بات ہے، جس کو ہم نے ویسے ہی بآسانی زبان سے کہہ تو دیا لیکن ہم نے دل پر اس کا اثر نہیں لیا، اثر لینے کے لئے ایک مثال بیان کرتا ہوں، امید ہے کہ سب اثر لیں گے ان شاء اللہ العزیز، مثال یہ ہے کہ ایک آدمی جو کسی جگہ ملازمت کرنا چاہتا ہے، وہ کسی دفتر میں آتا ہے، دفتر کا ذمہ دار آدمی اس کو کہتا ہے کہ ہم آپ کو دس دن کی ملازمت دیتے ہیں، ان دس دنوں میں سے ہر دن کی تنخواہ آپ کو ایک ہزار روپے ملے گی، لیکن انہیں دس دنوں میں ایک دن ایسا بھی ہوگا جس میں آپ کی تنخواہ ایک کروڑ روپے ہوگی، لیکن اس دن کے بارے میں تمھیں بتایا نہیں جائے گا کہ کون سا دن ہے؟ تہمارا کیا خیال ہے کہ وہ ملازمت کرنے والا ان دس دنوں میں سے کتنے دن ملازمت کرے گا؟ وہ دس دن ملازمت کرے گا، وہ اپنے لئے دس سے کم دنوں کی ملازمت پسند نہیں کرے گا، کیونکہ اس کو خطرہ ہوگا کہ مثلاً: اگر میں نے نو دن ملازمت کی اور دسواں دن چھوڑا، تو ہوسکتا ہے کہ وہ دسواں دن وہی ہو جس میں تنخواہ ایک کروڑ روپے ہو، اگر وہ دن مجھ سے رہ گیا، تو میں تو گیا، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح مجھے نو دن کے نو ہزار روپے ملیں گے، لہٰذا اس چیز سے بچنے کے لئے وہ دس کے دس دن محنت اور ملازمت کرے گا، اس مثال میں ایک کروڑ اور ایک ہزار کے درمیان جو نسبت بنتی ہے، وہی شب قدر اور سال کی باقی راتوں کے درمیان بنتی ہے، امید ہے کہ اب آپ کو یہ بات سمجھ آگئی ہوگی کہ ہمیں لیلۃ القدر کو پانے کے لئے کتنی محنت کرنی چاہیے، لیکن چونکہ انسان کی فطرت ہے کہ ادھار کے مقابلہ میں نقد کو پسند کرتا ہے، اس لئے وہ اتنے بڑے فائدے کو نظر انداز کر دیتا ہے، اللہ پاک نے قرآن پاک میں انسان کے اس عمل کا شکوہ بھی کیا ہے، اللہ تعالٰی نے فرمایا:
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَۙ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ﴾ (القیامۃ: 20-21)
ترجمہ: "خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو"۔
عمومی طور پر انسان کی فطرت ہے کہ وہ فوری چیز کو پسند کرتا ہے اور بعد میں آنے والی چیز کو چھوڑ دیتا ہے، ہماری یہ حالت صرف آخرت کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ دنیا کی چیزوں کے بارے میں بھی ہمارا طرزِ عمل ایسا ہی ہے، مثلاً: شوگر کے مریضوں کو ڈاکٹر حضرات میٹھا کھانے سے روکتے ہیں اور وہ انہیں کہتے ہیں کہ اگر آپ نے میٹھا کھایا، تو آپ کا مرض بڑھ جائے گا، آپ کو ہارٹ کا problem ہو جائے گا، آپ کو kidney کا problem ہو جائے گا، آپ کو آنکھوں اور دماغ کا problem ہو جائے گا۔ شوگر کے مریض یہ سب باتیں ڈاکٹر حضرات سے سن چکے ہوتے ہیں اور جن کو شوگر ہوتی ہے، وہ اکثر بڑی عمر یعنی چالیس سال سے زائد عمر کے لوگ ہوتے ہیں، جو دوسروں کو عقل سیکھانے والے ہوتے ہیں، لیکن جب ان کے پاس میٹھا آتا ہے، تو ان سے رہا نہیں جاتا، وہ میٹھا کھا لیتے ہیں، ان کو ڈاکٹر کی سب باتیں یاد ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ میٹھا اس لئے کھا لیتے ہیں کہ جو تکلیف ہونی ہے، وہ تو بعد میں ہونی ہے، اور مزہ فوری ملنا ہے، پس ہمارا یہی نفسیاتی پس منظر ہے، ہمیں تمام معاملات اور بالخصوص آخرت کے معاملات میں اس سے نکلنا ہے، جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو مردہ سمجھنا ہے:
"مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا" (کشف الخفاء :346)
ترجمہ: "مرنے سے پہلے مر جاؤ"۔
یعنی مرنے سے پہلے ہی تم یہ تصور رکھو کہ میرے سامنے میزان قائم ہے، اور اعمال تولے جا رہے ہیں، میرے اعمال کتنے اور کیسے ہوں گے؟ میرے برے اعمال کا وزن زیادہ ہوگا یا اچھے اعمال کا؟ یہ تصور مستحضر رکھا کریں، یہ تصور بہت ہی مفید تصور ہے۔ لہٰذا انسان کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہاں کی چیز کتنی عظیم ہے اور یہاں کی چیز کتنی کم حیثیت ہے، اللہ پاک نے فرمایا:
﴿بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰىؕ﴾ (الاعلیٰ: 16-17)
ترجمہ: "لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو حالانکہ آخرت کہیں زیادہ پائیدار ہے"۔
اللہ پاک نے قرآن پاک میں یہ بات بیان فرمائی ہے جس سے مقصود یہ فکر دلانا ہے کہ ہم لوگ دنیاوی چیزوں کا بضرورت خیال رکھیں اور آخرت کی چیزوں اور نعمتوں کی خواہش ہمارے دل میں زیادہ ہو کہ کس طرح وہ ہمیں مل جائیں اور ہم ان سے محروم نہ ہو جائیں لیکن ہمارا معاملہ الٹ ہے، ہم لوگ دین کو ضرورت کے طور پراستعمال کرتے ہیں، جب بیمار ہو جاتے ہیں، تو اس وقت نمازیں پڑھنا شروع کر لیتے ہیں، اور صدقہ دینا شروع کر لیتے ہیں اور اس وقت اچھے اعمال شروع کر لیتے ہیں اور جس وقت ہمارا کام ہو جائے اور ہم تندرست ہوجائیں، تو پھر یہ سب اعمال ہم سے چھوٹ جاتے ہیں، جب لوگوں پر لوگ مشکل حالات آتے ہیں، تو وہ ہمارے پاس یعنی اللہ والوں کے پاس آتے ہیں، اس وقت ان کی حالت ہوتی ہے کہ خوب عبادت و ریاضت میں لگے ہوتے ہیں، لیکن جس وقت ان کے حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں، تو پھر وہ اعمال سے ایسے لا پرواہ ہو جاتے ہیں کہ کبھی بھول کر بھی ان کا خیال نہیں آتا، آج کل لوگوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے، لیکن میں عرض کروں کہ یہ نقصان کس کا کر رہے ہیں؟ یہ نقصان تو اپنا کر رہے ہیں، لہٰذا ہم لوگوں کو ہر لمحہ اس کا خیال کرنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہئے کہ رمضان شریف میں اللہ تعالیٰ نے تراسی سال کی عبادت کا ایک رات کے اندر ہمیں موقع دے دیا، بلکہ میں یہ عرض کروں کہ تراسی سال کی عبادت کی شبِ قدر کی عبادت کے ساتھ برابری نہیں ہوسکتی، کیوں کہ کیا کوئی شخص مسلسل تراسی سال عبادت کر سکتا ہے؟ نہیں کر سکتا، لیکن ایک ادنیٰ درجہ کا مسلمان عبادت میں مسلسل پوری رات جاگ سکتا ہے، یہ ایک رات جاگنا اس کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، اس کے بالمقابل تراسی سال کی عبادت تسلسل کے ساتھ انسان کر ہی نہیں سکتا، وہ تھک جائے گا، اتنا بڑا ثواب رمضان شریف میں ایک رات کی عبادت ملتا ہے، سبحان اللہ۔ اور آج کل تو راتیں بھی بہت چھوٹی ہیں، اس تفصیل سے آپ کو یہ پتا چل گیا ہوگا کہ یہ بہت بڑا موقع ہے۔
اب ہم اس موقع سے کیسے فائدہ حاصل کریں؟ شبِ قدر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ دیا ہے کہ یہ آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور آخری عشرہ کے بھی طاق راتوں میں ہوتی ہے، پھر صحابہ کرام کو تجربات بھی ہوئے، انہوں نے اپنے تجربات لوگوں کو بتائے ہیں، ان میں سے چونکہ اکثر کو ستائیسویں شب شبِ قدر کا تجربہ ہوا ہے، لہٰذا بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ستائیسویں شب کو شبِ قدر پایا، لیکن شبِ قدر ہمیشہ ستائیسویں شب کو نہیں ہوتی، شبِ قدر مختلف سالوں میں مختلف راتوں میں ہوتی ہے، لہٰذا اکیسویں شب کو شبِ قدر پانے والے بھی ہیں، تیسویں والے بھی ہیں، پچیسویں والے بھی ہیں اور بعض ایسے بزرگ بھی ہیں جنہوں نے جفت راتوں میں شبِ قدر کو پایا۔ اس سے پتا چلا کہ زیادہ امکان تو ستائیسویں کا ہی ہوتا ہے، مثلاً: ساٹھ فیصد امکان ستائیسویں شب شبِ قدر ہونے کا ہوتا ہے، ساٹھ فیصد امکان میں تمثیلاً عرض کر رہا ہوں، ستائیسویں شب کے متعلق ساٹھ فیصد امکان میں فی الواقعہ بیان نہیں کر رہا، بلکہ میں بطور تمثیل عرض کر رہا ہوں کہ ساٹھ فیصد امکان ستائیسویں شب ہوتا ہے اور تیس فیصد امکان باقی طاق راتوں میں ہوتا ہے اور دس فیصد امکان عام جفت راتوں میں شبِ قدر ہونے کا بھی ہے، جو شخص آخری عشرہ کی ساری کی ساری راتیں جاگے گا، تو ایسی صورت میں پکی اور یقینی بات ہے کہ اس کو شبِ قدر کی عبادت کا ثواب مل گیا، اس شخص کے بارے میں تو ہمارا خیال دوسری طرف نہیں جا سکتا، اور جو صرف طاق راتوں میں جاگے گا، تو پھر اس کے متعلق نوے فیصد امکان ہے کہ شبِ قدر کی عبادت کا ثواب اس کو مل گیا ہوگا، دس فیصد ابھی chance missing ہے۔ اور آپ کو پتا ہے کہ دنیوی معاملات میں جہاں دس فیصد میں کروڑ اور ہزار کا فرق ہو، تو آدمی اس فیصد کو بھی نہیں چھوڑتا، مثلاً: سابقہ مثال میں ملازمت کرنے والے آدمی کو اگر کہہ دیں کہ آٹھویں تاریخ کو کروڑ روپے تنخواہ کا امکان ساٹھ فیصد ہے اور دس دنوں میں سے باقی تاریخوں میں کروڑ روپے تنخواہ کا امکان تیس فیصد ہے اور ان دس دنوں میں سے کسی بھی ایک دن کی تنخواہ کروڑ روپے ہونے کا امکان دس فیصد ہے، تو کیا خیال ہے کہ وہ یہ سوچ کر کہ ایک دن ایسا ہے جس میں تنخواہ کی زیادتی کا دس فیصد امکان ہے کوئی دن چھوڑے گا؟ وہ ہرگز نہیں چھوڑے گا، کیوں کہ اس میں اس کا دنیوی فائدہ ہے لیکن یہاں پر چونکہ دین کی چیز ہے، اس لئے یہ کہتا ہے کہ اکثر صرف ستائیسویں کو ہی لیلۃ القدر ہوتی ہے اور عموماً یہ کسی رات میں نہیں ہوتی، بقیہ راتوں میں عبادت کو ترک کر دیتا ہے۔ خدا کے بندو! ستائیسویں شب کو امکان زیادہ ہے لیکن ہمیشہ تو ستائیسویں شب لیلۃ القدر نہیں ہوتی۔ پھر بعض لوگ اگر ستائیسویں شب کا اہتمام لیلۃ القدر کے طور پر کرتے بھی ہیں، تو کیا وہ اسی طرز پر اہتمام کرتے ہیں جس طرز پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے کیا تھا؟ نہیں، بلکہ وہ اپنی مرضی اور اپنی چاہت کے مطابق اس کا اہتمام کرتے ہیں، آپ بتائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اس رات تقریر کی تھی؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات میں کوئی محفل جمائی تھی؟ آپ ذرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی سیرت پڑھیں، آپ کو پتا چلے کہ اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محفلیں قائم کی تھیں؟ اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریریں کی تھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات یکسو ہو کر اللہ تعالٰی کی عبادات میں لگے ہوئے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں لیلۃ القدر کو پا لوں، تو میں کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس رات کو پا لو، تو یہ دعا مانگو:
"اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ" (ترمذی: 3513)
ترجمہ: "اے اللہ! بے شک آپ بخشنے والے ہیں، بخشش کو پسند کرتے ہیں، آپ میری بخشش فرما دیجئے"۔
اس سے ہمیں یہ پتا چلا کہ لیلۃ القدر کو ان چیزوں کے ذریعے سے نہیں منانا چاہیے، یہ تو شغل میلہ والی بات ہے، بلکہ تنہائی کی عبادت یعنی انفرادی نماز و اذکار، تلاوت و درود شریف اور انفرادی دعاؤں کے ذریعہ یکسو ہو کر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس رات جاگنا چاہیے، بہرحال تراویح تو اس رات پڑھی جائیں گی اور دو اور نمازیں جو اس رات میں آتی ہیں، یعنی مغرب اور عشاء وہ بھی اس رات میں ہوں گی، لیکن اس کے علاوہ بھی تو ہمارے کچھ اعمال اور کام اس قسم کے ہوں۔
ستائیسویں کو بھی جو لوگ جاگنے کا اہتمام کرتے ہیں، تو وہ اس طرح اہتمام کرتے ہیں کہ پوری رات سنتے رہتے ہیں اور جھومتے رہتے ہیں۔ ارے خدا کے بندو! یہ صرف جھومنے کی راتیں نہیں ہیں، یہ عمل کرنے کی راتیں ہیں، سال بھر جھوما کرو، رمضان شریف پہلے جتنا جھوم سکتے ہو، جھوم لو، جب رمضان شریف کا وقت آ جائے، تو پھر کم از کم اس وقت میں تو کام میں لگ جاؤ، وہ جھومنا کس کام کا جو تمہیں عمل پر نہ لائے؟ جھومنے سے تمہیں کوئی نہیں روکتا لیکن اس سے عمل بھی تو پیدا ہو۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ پوری رات جھومتے رہتے ہیں، اور صبح فجر کی نماز چلی جاتی ہے، یہ آنکھوں دیکھی بات ہے، اے خدا کے بندو! کدھر جا رہے ہو، اپنے ساتھ کیوں دشمنی کر رہے ہو؟ بہرحال ایک بات تو یہ ہے کہ صرف ستائیسویں کی رات شبِ قدر نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عام طاق راتوں میں بھی شبِ قدر کا امکان ہے، اور طاق راتوں کے علاوہ آخری عشرہ کی باقی راتوں میں بھی شبِ قدر کا امکان ہے۔ جب یہ صورتحال ہے تو اس کو پانے کا بہترین حل یہ ہے کہ ساری کی ساری راتیں انسان جاگتے ہوئے گزارے۔ اور اس کا آسان ترین طریقہ اعتکاف ہے، کیوں اعتکاف ایسا عمل ہے کہ معتکف انسان اگر سو بھی رہا ہو، تو نیند کی حالت میں بھی اس کا عمل یعنی اعتکاف جاری رہتا ہے، اعتکاف نیند سے ٹوٹتا نہیں۔ لہٰذا اس کا بہترین طریقہ تو اعتکاف ہے، آخری عشرہ کا اعتکاف کر لے، اگر اعتکاف نہیں کر سکتا تو پھر اس طرح کرے کہ رات کی دو نمازیں مغرب اور عشاء کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت پڑھے، جب مسجد سے گھر کی طرف جا رہا ہو یا گھر سے مسجد کی طرف آ رہا ہو، تو ذکر کرتے ہوئے جائے، علیحدہ آئے جائے، کسی اور کے ساتھ نہ آئے جائیں تاکہ آتے جاتے انسان اپنے اعمال میں لگا رہے، جب مسجد پہنچ جائے تو اگر ابھی جماعت کا وقت نہ ہوا ہو، تو فوراً تحیۃ المسجد پڑھ لے، تحیۃ المسجد کے بعد بھی اگر وقت باقی ہو، تو جتنے نوافل پڑھ سکتا ہو، پڑھ لے، مزید کچھ وقت ہو تو قرآن پاک کی تلاوت شروع کر لے، جماعت تک قرآن پاک کی تلاوت کرتا رہے یا ذکر کرتا رہے، وقت ضائع نہ کرے، نماز کے بعد بھی جب گھر جائے تو راستہ میں یا گھر پہنچ کر کم از کم یہ کر لے کہ گناہ نہ کرے، آج کل ایک گناہ بہت عام ہے جو گھروں میں ہوتا ہے اور وہ ہے ٹیلی ویژن دیکھنا، اس گناہ کو آج کل لوگ گناہ بھی نہیں سمجھتے، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ سکرین پر نظر آنے والی چیز تصویر نہیں ہے، لہٰذا یہ گناہ نہیں ہے۔ لیکن مجھے بتاؤ کہ آئینہ کے اندر جو عکس نظر آتا ہے وہ تصویر کے حکم میں ہوتا ہے؟ وہ تصویر کے حکم میں تو نہیں ہے لیکن اگر آئینہ کے اندر کسی کو غیر محرم نظر آ رہا ہو، تو دیکھنے والے اس کا گناہ ہوگا یا نہیں؟ آئینہ میں غیر محرم کا عکس دیکھنے کا بھی اس کو گناہ ہوگا، آئینہ میں مرد کو غیر محرم عورت نظر آ رہی ہے یا عورت کو غیر محرم مرد نظر آ رہا ہے، اس صورت میں دونوں کو گناہ ہوگا یا نہیں؟ ہوگا۔ ٹیلی ویژن کے اوپر مرد بھی ہوتے ہیں، عورتیں بھی ہوتی ہیں، دیکھنے والے مرد بھی ہوتے ہیں، عورتیں بھی ہوتی ہیں، دونوں کو گناہ ہو رہا ہوتا ہے، اور گناہ کو جب گناہ سمجھا نہ جائے تو پھر یہ کتنی بڑی خطرے والی بات ہے۔ اور وہ بھی رمضان شریف کی راتوں میں اور پھر آخری عشرہ میں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ اگر گناہ کا اندیشہ ہو، تو نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر فوراً سو جاؤ، اور اگر گناہ کا اندیشہ نہ ہو، تو آپ کچھ تلاوت کر لیں، کچھ ذکر کر لیں، جتنا وقت آپ جاگ رہے ہیں، اس وقت تک آپ تلاوت کر لیں، درود شریف پڑھیں، دعائیں کریں، غرض آپ دین کا کوئی عمل اور کام کرتے رہیں، اور پھر اسی حالت میں سو جائیں اور اگر عبادت کے لئے گھر والوں کو بھی جگائے رکھا اور خود بھی جاگتے رہے، تو سُبْحَانَ اللہِ یہ تو بڑی اچھی بات ہے، تب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل ہو جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں خود بھی جاگتے، دوسروں کو بھی جگاتے تھے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اس طرح کوشش کر کے ان راتوں کو حاصل کرنا چاہیے، یہ بہت اہم راتیں ہیں، اس میں اپنے اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ان راتوں کو پانے کے لئے مسجدوں میں آنا ضروری نہیں ہے، اعتکاف کے لئے مردوں کو مسجدوں میں آنا ضروری ہوتا ہے لیکن شبِ قدر کو پانے کے لئے مسجدوں میں آنا ضروری نہیں ہے، اپنے گھروں میں رہ کر عبادت میں مشغول رہو لیکن اگر یہ خوف ہو کہ میں گھر میں عبادت نہیں کر سکوں گا، تو پھر اس نیت سے مسجد میں آجائیں اور خاموشی کے ساتھ عبادت میں لگ جائیں، اور محفلیں نہ بنائیں۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ مسجد میں لوگ آتے عبادت کے لئے ہیں لیکن پھر آپس میں باتیں شروع کر لیتے ہیں، ایسا نہ کریں، بلکہ مسجد میں آ کر بس رجوع الی اللہ میں لگ جائیں، تو پھر ٹھیک ہے۔ میں نے بیان کے ابتدا میں یہ آیت پڑھی:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: "فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔
یعنی کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اور تباہ و برباد ہوگیا وہ شخص جس نےا پنے نفس کو یوں ہی رہنے دیا۔ یہ اس آیت کا مفہوم ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصلاحِ نفس بہت اہم ہے، اصلاحِ نفس کے بارے میں حضرات فرماتے ہیں کہ یہ موت آنے سے پہلے پہلے تک کر لینا فرض عین ہے، آپ مجھے بتائیں کہ فرض کا ثواب زیادہ ہوتا ہے یا سنت کا؟ فرض کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے جو اعتکاف اصلاحی اعتکاف ہوگا تو اس کا ثواب بڑھ جائے گا یا کم ہو جائے گا؟ یقینی طور پر بڑھ جائے گا، لہٰذا اگر کسی جگہ پر اصلاحی اعتکاف ہو رہا ہو، تو اس کے اندر انسان شامل ہوسکتا ہے، اصلاحی اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی شیخ کے ساتھ، بالخصوص اپنے شیخ کے ساتھ اگر وہ اعتکاف کر رہے ہوں، تو ان کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ جائے، اس سے بہت فائدہ ہو جائے گا، الحمد للہ ہمارے ہاں بھی مرحبا مسجد میں بھی اصلاحی اعتکاف ہوتا ہے، پنڈی میں دیگر کئی جگہوں پر اس طرح کا اعتکاف ہو رہا ہے اور پاکستان بھر میں مختلف جگہوں پر اس قسم کا اعتکاف ہو رہا ہے، رمضان شریف میں اصلاحی اعتکاف کئی جگہوں پر چلتے رہتے ہیں، یہ اصلاحی اعتکاف حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کرایا تھا، اصلاحی اعتکاف کا موقع مل جائے تو بہت زبردست ہوگا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ نصیب فرمائیں، اس موقع پر میں عرض کروں کہ اصلاحی اعتکاف کی ان دس راتوں میں جتنی اصلاح ہوتی ہے، ہمارا تجربہ ہے کہ پورے سال میں اتنی اصلاح نہیں ہوتی، لہٰذا اگر آپ کو کوئی ایسا موقع مل جاتا ہے، تو ضرور اس کو avail کریں، یہ اصلاحی اعتکاف کرنے کا فیصلہ اپنی اصلاح کے لئے آپ کا بہت اچھا فیصلہ ہوگا، اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے، بہرحال الحمد للہ یہ ہمارے لئے مبارک موقع ہے کہ رواں سال رمضان شریف کا پہلا عشرہ ہمیں اپنی زندگی میں مکمل نصیب ہوگیا، یہ پہلا عشرہ رحمت کا تھا، آج سے دوسرا عشرہ یعنی مغفرت کا عشرہ شروع ہونے والا ہے، پھر اس کے بعد آخری عشرہ ہوگا۔
رمضان شریف میں اللہ پاک نے کچھ قبولیت کے اوقات رکھے ہیں، جن دعائیں قبول ہوتی ہیں، جن میں سے ایک تو افطاری کا وقت ہے اور ایک سحری کا وقت ہے، افطاری کے وقت دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں، بالخصوص فرماتے ہیں کہ ہر روز افطاری کے وقت میں لاکھوں لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے افطاری کے وقت اس نیت سے دعا میں شامل ہو جائیں کہ ہم بھی ان بخشش پانے والے لاکھوں لوگوں میں آجائیں کہ ہماری بھی مغفرت ہو جائے، افطاری کے وقت دعا کا انسان کو اہتمام کرنا چاہیے، لوگ کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں، دعا کا اہتمام نہیں کرتے۔ بھائی! یوں کرلو کہ کھانے پینے کی چیزیں پہلے سے لے آؤ، اپنے سامنے رکھ لو، رمضان شریف میں کم از کم کوئی بھی آپ سے نہیں چھینے گا، وہ افطاری تک آپ کے پاس پڑی رہیں گی، وہ چیزیں اپنے سامنے رکھ لو، پھر دل اللہ کے ساتھ لگا لو، دعائیں کرنا شروع کرلو، کم از کم دس منٹ ضرور دعا کرو، جو اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہو اس وقت میں مانگو، اور صبح سحری کے وقت بھی اللہ تعالٰی سے دعائیں مانگو۔ میرے پاس بہت سارے لوگ آتے ہیں اور مجھے یہ کہتے ہیں کہ فلاں چیز کا وظیفہ بتا دیں، فلاں چیز کا وظیفہ بتا دیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ سب سے بڑا وظیفہ یہ ہے کہ تہجد کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو، آج کل اگر کسی کو یہ کہا جائے، تو کہتے ہیں کہ ہمیں ٹال دیا۔ حالانکہ کسی نعمت کے حصول کے لئے قبولیت کے اوقات میں سے پہلا نمبر تہجد کے بعد کی دعا کا ہے، دوسرا نمبر صلوۃِ حاجت کے بعد دعا کا اور تیسرا نمبر ہر فرض نماز کے بعد والے وقت کی دعا کا ہے، چوتھا نمبر عام اوقات میں کی ہوئی دعا کا ہے، پھر دم اور تعویذ کا درجہ ہے۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کے ہاں تعویذ کی اہمیت پہلے نمبر پر ہے، پھر اس کے بعد ان کے زیادہ اہم دم ہے، پھر اس کے بعد مختلف اوقات میں مانگی ہوئی دعائیں، لوگوں نے اس ساری ترتیب کو الٹا کر دیا، اس وجہ سے اس پہلے stage پر لانے کے لئے مجبوراً ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ بھائی آپ کے لئے وظیفہ یہ ہے کہ آپ تہجد کے بعد اللہ تعالٰی سے دعا کریں۔ صحابہ کا طریقہ بھی تھا کہ وہ تہجد کے وقت اللہ تعالٰی سے لو لگاتے تھے، اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 18)
ترجمہ: "اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے"۔
یعنی سحری کے وقت وہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ (الانفال: 33)
ترجمہ: "اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو اور اللہ اس حالت میں بھی ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے جب وہ استغفار کرتے ہوں"۔
یعنی ہم ان کے اوپر عذاب کیوں نازل کریں گے؟ حالانکہ آپ ان میں ہیں اور یہ استغفار کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا سے تشریف لے گئے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت باقی ہے، ہم درود شریف پڑھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت تازہ ہو جاتی ہے، درود شریف کثرت کے ساتھ پڑھو اور استغفار کثرت کے ساتھ کرو، ان شاء اللہ عذاب نہیں آئے گا۔ آج کل اگر یہ عمل کسی کو بتایا جائے، تو وہ کہتا ہے کہ یہ ہمیں ٹال رہا ہے۔ غرض رمضان شریف میں ایک خاص عمل تو یہ ہے کہ افطاری کے وقت دعائیں کر لیا کرو، دوسرا عمل یہ ہے کہ سحری کے لئے جب اٹھو، تو پندرہ بیس منٹ پہلے اٹھ کر جلدی جلدی وضو کر کے تہجد کی چار، یا چھ رکعت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو، پھر سحری کرو، رمضان شریف میں یہ کون سا مشکل کام ہے؟ عام دنوں میں تہجد کے لئے اٹھنا مشکل ہوتا ہے لیکن رمضان شریف میں یہ مشکل اس لئے نہیں ہوتا کہ سحری کے لئے اٹھنا تو ہے، بس صرف پندرہ بیس منٹ پہلے اٹھنے کی عادت بنا لو، تہجد پڑھو، تہجد کے بعد اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو، تیسری بات یہ ہے کہ روزہ کی حقیقت کو پانے کے لئے اس رمضان شریف کے مہینہ کے اندر کوشش کر لو کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جو روزے کے اثر کو کم کر دے، مثلاً: کوئی بد نظری نہ ہو، زبان سے کوئی غلط بات نہ نکلے، آدمی کوشش کر لے کہ اللہ کی طرف زیادہ متوجہ رہے اور غلط کاموں میں نہ پڑے، اس سے پھر یہ ہوگا کہ آدمی کے اندر روحانی طاقت آئے گی، پھر اس کا جو یہ روزہ ہوگا، وہ اس کی اصلاح کرنے والا روزہ ہوگا، اس کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ﴾ (البقرہ: 183)
ترجمہ: "تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو"۔
اگر گناہوں سے بچتے ہوئے اس طرح روزہ رکھو گے، تو تقوٰی یقیناً حاصل ہوجائے گا۔ میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال بتاتا ہوں کہ کوئی آدمی نماز بالکل بھی نہیں پڑھتا، کوئی اس کو پڑھوانا چاہے، تو وہ کہتا ہے کہ مجھے چھوڑو، میں بس نہیں پڑھ سکتا، لیکن ایسا ہوتا ہے کہ اس کا کوئی جگری دوست آ جاتا ہے اور وہ اس کو ایک نماز پڑھوا ہی دیتا ہے، اب آپ مجھے بتائیں کہ اس کے لئے دوسری نماز پڑھنا اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا پہلی نماز پڑھنا مشکل تھا؟ یا اب اس کے لئے دوسری نماز پڑھنا کچھ آسان ہو چکا ہوگا؟ یقینی طور پر اب اس کے لئے نماز پڑھنا آسان ہو چکا ہوگا، پھر جب وہ دو نمازیں پڑھ لے گا، تو تیسری نماز پڑھنا اس کے لئے اور آسان ہوگا، اور اگر وہ تین نمازیں پڑھ لے گا، تو چوتھی نماز پڑھنا اس کے لئے اور آسان ہوگا۔ اگر وہ مسلسل چالیس دن تک نماز پڑھ لے گا، تو ان شاء اللہ اس کے لئے نماز پڑھنا ایسا آسان ہوجائے گا کہ پھر اس سے نماز چھوٹنا مشکل ہوجائے گا۔ چنانچہ چالیس دن نماز کی پابندی کرنے پر اس میں اتنی تبدیلی آ گئی، تو اگر آپ رمضان شریف کے تیس دن میں اپنے نفس کو قابو کریں تو آپ کا نفس بھی ان چیزوں پر سیٹ ہوجائے گا، بس آپ رمضان شریف کے روزوں میں اپنے روزوں کو خراب نہ کریں، رمضان شریف کے ایام کو پورے اہتمام سے گزاریں۔
اور رمضان شریف کے بعد عید کے تین دن اور تین راتوں میں خاص طور پر آپ نے اپنی نگرانی کرنی ہے، کیونکہ رمضان شریف میں شیطان بندھا ہوتا ہے، اس لئے وہ اس وقت تپا ہوتا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں آزاد ہوں گا، تو پھر تم دیکھنا کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ اور وہ رہا ہوکر سارا کچھ کرتا ہے، عید کی رات انسان سے غلط، غلط کام کرواتا ہے، جس سے پھر وہ ساری کی ساری برکات واش ہو جاتی ہیں، لہٰذا عید کے دنوں اور راتوں میں اپنی صحبتوں کو اچھا رکھو، اچھے لوگوں کے ساتھ اٹھو، بیٹھو، برے لوگوں کے ساتھ نہ ییٹھو، اپنے آپ کو ٹیلی ویژن اور ڈیک وغیرہ سے خراب نہ کرو، یہ تین دن تین راتیں اگر محنت کر لو، تو روزے کا جو اثر ہے، ان شاء اللہ تعالٰی وہ آپ کے اوپر پورے سال تک رہے گا، بس اس کے لئے کوشش اور محنت ہے، اللہ تعالیٰ مجھے بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے آپ کو بھی عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔
سوال نمبر 1:
آپ ﷺ کا روزہ مبارک ہے اور اس کے ساتھ صحابہ کرام کی قبریں ہیں، کیا وہاں روحیں آپس میں ملتی ہیں؟
جواب:
جتنی بھی نیک ارواح ہیں، وہ سب اعلیٰ علیین میں جمع ہوتی ہیں اور جتنی بری روحیں ہوتی ہیں، وہ سجین میں جمع ہوتی ہیں۔ اور جو نیک روحیں ہیں، وہ آزاد ہوتی ہیں، اللہ جل شانہٗ نے ان کے اوپر اپنے نظام کے مطابق کچھ قید کا معاملہ کیا ہوتا ہے لیکن ان کے اوپر پابندیاں ایسی نہیں ہوتیں، جیسی سجین والوں کے اوپر ہوتی ہیں، لہٰذا وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتیں کر سکتی ہیں۔
سوال نمبر 2:
حضرت! رمضان شریف میں اللہ پاک نے سارا دن ہمیں کھانے پینے اور شہوت پوری کرنے سے منع کیا ہے، دن بھر تو ہم اس سے رکے رہتے ہیں، لیکن روزہ افطاری کے بعد ہم بہت پر تکلف کھانوں کو استعمال کرتے ہیں اور اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کو بھی پورا کرتے ہیں، کیا اس سے نفس کی اصلاح متاثر نہیں ہوتی؟
جواب:
بڑا اچھا سوال کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم پورا دن تین چیزوں سے بچتے ہیں کھانے پینے اور مباشرت سے۔ اب جب ہم افطار کرتے ہیں تو افطار کا وقت اگر ہم لوگ بہت زیادہ تکلف کے ساتھ کھائیں اور انواع و اقسام کی چیزیں ہوں تو کیا اس سے نفس کی اصلاح متاثر نہیں ہوتی۔
اس کے بارے میں علماء کرام کے آراء مختلف ہیں، بعض علماء کرام کی رائے یہی ہے کہ افطاری کے بعد بھی ان چیزوں میں تکلف نہیں کرنا چاہیے، بلکہ سادہ رہنا چاہیے۔ لیکن کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے جتنا مجاہدہ مقرر کیا تھا، وہ مکمل ہوگیا، اس کے بعد اگر کوئی جائز طریقے سے بہت اچھی چیز بھی کھاتا ہے، تو اس پر پابندی نہیں ہے۔ لہٰذا ہم بھی پابندی نہیں لگا سکتے، کیونکہ یہ پابندی اللہ پاک کی طرف سے افطاری کے بعد نہیں ہے، لہٰذا یہ ناجائز بھی نہیں ہے، ان چیزوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے، بس اتنا ہو کہ ان کا ناجائز استعمال نہ ہو، ناجائز سے مراد یہ ہے کہ اسراف نہ ہو، حرام مال سے نہ ہو، غلط طریقے سے اس کو نہ پکایا گیا ہو، یعنی مردار گوشت یا کوئی اور ایسی چیز اس میں نہ ہو، ان باتوں کی رعایت رکھتے ہوئے اگر کوئی حلال جائز کھانا پکایا گیا ہو، تو افطاری کے بعد اس جائز کھانے پر پابندی نہیں ہے، کیونکہ انسان کے لئے جو پابندی، مجاہدہ اور مشقت ہے، وہ دو قسم کی ہے، ایک پابندی وہ ہوتی ہے جو مسلسل ہو، اور ایک پابندی وہ ہوتی ہے جو کبھی ہو اور کبھی نہ ہو، بعض حضرات کی تحقیق کے مطابق وہ پابندی جو کبھی ہو اور کبھی نہ ہو، زیادہ سخت پابندی ہے، کیونکہ اس صورت میں اس کی مجاہدہ والی حیثیت قائم رہتی ہے، لیکن اگر ایک انسان مستقل طور پر اچھی چیزوں کو کھانا بند کر لے اور ان سے اپنے آپ کو روک لے، تو اس کے لئے مجاہدہ عادت بن جاتی ہے، اور وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے، لہٰذا اگر آپ نے افطاری کے وقت کچھ اچھی چیز کھا لی، تو اس سے روزہ کی تاثیر پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔
سوال نمبر 2:
حضرت! میرا سوال یہ ہے کہ عورت اور مرد کی نماز کے طریقہ میں فرق دیکھا گیا ہے کہ مرد اور طرح پڑھتے ہیں اور عورتیں اور طرح پڑھتی ہیں۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ارشاد فرمائی:
"صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ" (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 6008)
ترجمہ: "جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو، اس طرح تم نماز پڑھو"۔
لیکن ہماری عورتیں ہم مرد حضرات کے طریقۂ نماز سے تھوڑا مختلف طریقے سے نماز پڑھتی ہیں، اس کے بارے میں بتا دیں کہ عورتیں مختلف طریقہ پر نماز کیوں پڑھتی ہیں؟
جواب:
جیسا کہ آپ بھی جانتے ہیں کہ "صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ" حدیث شریف ہے، یہ حدیث طریقۂ نماز کے متعلق ہے، لیکن دین صرف نماز کا نام تو نہیں ہے، بلکہ نماز کے علاوہ اور بھی بہت اعمال ہیں، اور دین کے جتنے بھی اعمال ہیں، وہ قرآن پاک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، اگر تم ان کے ساتھ لگے رہو گے، تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ یہ حدیث شریف صرف نماز کے بارے میں نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سارے دین سے متعلق ہے، اور دین بہت سارے اعمال کا مجموعہ ہے، لہٰذا عمل کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ کون سا کام صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا؟ کون سا کام عام لوگوں کے لئے بھی تھا؟ اس کا پتا صحابہ کرام کے عمل سے چلے گا کہ صحابہ کرام نے کس عمل کو کیسے لیا؟ مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار سے زیادہ شادیاں تھیں لیکن صحابہ کی شادیاں چار سے زیادہ نہیں تھیں، پتا چلا کہ یہ کام صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔ سونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا، اور صحابہ کرام کا وضو سونے سے ٹوٹ جاتا تھا، پتا چلا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، صحابہ کے لئے یہ حکم نہیں تھا، غرض بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھیں، جس طرح کچھ کام ایسے ہیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں، اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کچھ کام مردوں کے لئے خاص ہو، کچھ عورتوں کے لئے خاص ہو، جب کبھی حکم عام ہوتا ہے، تو اس کو مردوں کے اندر بتایا جاتا ہے، اس صورت میں وہ حکم عورتوں کے اوپر بھی وہ لازم ہو جاتا ہے، اِلّا یہ کہ کوئی تخصیصی بات ہو، کسی بھی حکم میں تخصیصی بات کیسے پتا چلے گی؟ اس کے لئے صحابیات کو دیکھنا پڑے گا کہ انہوں نے کس طریقہ سے نمازیں پڑھیں، کیوں کہ صحابیات کی نمازوں کا طریقہ احادیث شریفہ سے ثابت ہے، بعض حضرات لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ یہ احادیث بخاری شریف میں نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا پورا دین بخاری شریف میں ہے؟ جب پورا دین بخاری شریف میں نہیں ہے، تو اس حکم کو بخاری شریف میں کیوں تلاش کرتے ہو؟ کیا حدیث کی دیگر کتابیں دین کی کتابیں نہیں ہیں جن میں صحابیات کی نماز کا طریقہ موجود ہے کہ وہ کس طریقے سے نماز پڑھتی تھیں، ان کتابوں میں مذکور طریقۂ نماز صحابیات کو کس نے بتایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ان کو بتایا تھا، کیوں کہ ان کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کی تھی، اس وجہ سے جو صحابیات کی نماز ہے، وہی عام عورتوں کی نماز ہے اور جو مرد صحابہ کی نماز ہے، وہی عام مردوں کی نماز ہے۔
سوال نمبر 3:
کن کتب میں عورتوں کی طریقۂ نماز کی احادیث موجود ہیں؟
جواب:
عورتوں کی نماز کی احادیث صحاح ستہ میں موجود ہیں، ابوداؤد شریف جو کتبِ صحاح ستہ میں سے ایک کتاب ہے، اس میں بھی یہ احادیث موجود ہیں۔
سوال نمبر 4:
حضرت! ایک اور بات یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ صحیح بخاری میں باقاعدہ ایک باب باندھا گیا ہے اور اس کے تحت رفع یدین کرنے کی احادیث لکھی گئی ہیں، اور عدم رفع یدین کی احادیث اس میں نہیں لکھی گئی ہیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدم رفع یدین کو اختیار کیا یا کسی کو رفع یدین سے منع کیا ہے تو اس کے کوئی حدیث بتا دیں۔
جواب:
اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام بتدریج آیا ہے، بتدریج آنے کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑا اتارا گیا ہے، سارا دین ایک ہی مرتبہ نہیں اترا، جسے پہلے نماز میں بات چیت تک کی اجازت تھی، اور نمازی کے لئے نماز کے دوران بچے کو اٹھا کر نماز پڑھنے کی بھی اجازت تھی، اس کے علاوہ اور بہت ساری چیزوں کی اجازت تھی، آہستہ آہستہ پابندیاں آتی گئیں، جب آہستہ آہستہ پابندی آتی گئی تو ان میں سے جو آخری Most developed نماز ہوگی، وہ ہمارے لئے حجت ہوگی، لیکن وہ کن سے ہم سیکھیں گے؟ یقینی بات ہے کہ صحابہ کرامؓ سے سیکھیں گے، صحابہ کرامؓ میں سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو نماز سکھائی ہے، اس میں رفع یدین نہیں ہے، پس یہ رفع یدین نہ کرنا بھی حدیث شریف سے ثابت ہے، اس مسئلہ کے بارے میں فقہائے کرام کے اقوال مختلف ہیں، لیکن ہر امام کے قول کی دلیل حدیث شریف میں ہوتی ہے، وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتا۔ باقی مناظرہ تو میں نہیں کر رہا، مناظرہ کے لئے تو میں نہیں ہوں کہ میں کتابیں لے آیا ہوں اگر آپ نے آنا ہے تو آپ ادھر آ جائیں ادھر میں آپ کو بتا دوں گا اور references بھی آپ کو لائبریری میں ملیں گے، ساری چیزیں یاد کرنے کا میں پابند بھی نہیں۔ میں تو انجینئر ہوں اب ظاہر ہے انجینئر سے تو آپ ڈاکٹری کی باتیں نہیں پوچھیں گے۔ میں آپ کو ایک کتاب recommend کروں گا آپ اس کا مطالعہ کر لیں وہ مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے بارہ مسائل پر۔ ان میں سے باقاعدہ اس کو بھی touch کیا گیا ہے بارہ مسائل جن میں رفع یدین بھی ہے۔ وہ کتاب آپ پڑھنا چاہیں تو میرے خیال میں پڑھ لیں ‘‘آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ کے نام سے جو کتابیں ہیں، ان میں سے بھی ہے اور دوسرے جو بارہ مسائل کے جوابات ہیں وہ بھی تو آپ پڑھ لیں تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوگا۔ اطمینان سے پڑھ لیں جلدی نہ کریں آپ اس کو اطمینان سے کوئی چیز سمجھ نہ آئے میرے پاس آ کر پوچھ لیں۔
سوال نمبر 5:
حضرت! سورۃ مائدہ کی آیت نمبر چھ میں وضو کا ذکر ہوا ہے، اس میں سر کے مسح کا بھی ذکر ہے، یہ بتائیں کہ پورے سر کا مسح ہے یا چوتھائی کا؟ اس میں کوئی کہتے ہیں پورے سر کا اور کوئی کہتے ہیں کہ چوتھائی سر کا۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ گردن کا پتہ نہیں کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے۔
جواب:
میرے خیال میں ان کے جتنے بھی سوالات ہیں وہ ایک رخ کے ہیں لہذا میں اس کے لئے اصولی بات کرتا ہوں اس پہ ختم کرتا ہوں، کیونکہ ہر چیز کو ایک نشست میں تو کرنا تو مشکل ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے صحابہ کو آپ ﷺ نے دین کی بنیاد بنایا ہے۔
''مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِيْ'' (سنن الترمذي: 264)
ترجمہ: "جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں"۔
صحابہ میں جب اتفاق پایا جاتا تھا امت میں بھی اتفاق پایا جاتا تھا، یعنی امت میں جو ائمہ ہوتے تھے وہ اس میں اختلاف نہیں کرتے تھے، مثلاً ہم لوگ جو رکعتیں ہیں فرضوں کی اس میں اختلاف نہیں ہے ناں سجدے دو ہیں ہر رکعت اس کے اندر اختلاف نہیں ہے ناں اچھا اس طریقے سے رکوع کی تعداد تمام چیزوں میں اختلاف نہیں ہے تو اس میں صحابہ میں اتفاق پایا جاتا تو جن چیزوں پہ اتفاق پایا گیا اس وہ نیچے آ گیا اسی طریقے سے لیکن جس میں اختلاف پایا گیا مثلاً حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ فرمایا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ فرمایا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ اور فرمایا اس میں اختلاف اگر پایا گیا تو پھر اس وجہ سے نیچے امت میں بھی اختلاف آ جاتا ہے اچھا اب اس اختلاف کو ختم کرنے کے لئے کہ میں کس کو لوں اور کس کو نہ لوں دو طریقے ہیں ایک random طریقہ ہے کہ بس جو میری مرضی وہ میں نے لے لیا اس کو طریقہ پسند نہیں کیا گیا ٹھیک ہے کیونکہ ظاہر ہے اس میں دین کی حرمت نہیں ہے نفس کی مطلب وہ ہے خواہش ہے لیکن اگر ایک انسان تحقیق کرے کہ میں تحقیق کرتا ہوں کہ اس میں کون سے صحابی کا قول جو ہے وہ زیادہ reliable ہے ہاں مستند ہے مستند سے مراد یہ ہے کہ زیادہ ہمیں سمجھ میں آتا ہے تو اس کے اوپر میں عمل کر لوں اس تحقیق کو کہتے ہیں فقہ اس تحقیق کو کیا کہتے ہیں فقہ کہتے ہیں اب اس میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایک صحابی کے پیچھے ہیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ دوسرے صحابی کے پیچھے ہیں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تیسرے صحابی کے پیچھے ہیں ہیں تو سب صحابہ کے پیچھے ناں صحابہ کے پیچھے ہیں اس وجہ سے ان کو ہم غلط تو نہیں کہہ سکتے فرق صرف یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو ایک کی دلیل زیادہ سمجھ میں آ گئی دوسرے کو دوسری دلیل سمجھ میں آ گئی میں آپ کو صرف ایک مثال دیتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا میں نے ایک کتاب لکھی ہے فہم المیراث مدلل میراث کے بارے میں ہے اس میں میں نے چونکہ تحقیق کی تھی تو مجھے پتا چلا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس میں قول خلفاء راشدین سے استدلال کرتے ہیں مطلب خلفاء راشدین کے اس کو لیتے ہیں قول کو لیتے ہیں اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لیتے ہیں اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ یہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لیتے ہیں اور تینوں کے بڑے زبردست دلائل ہیں تو اس طرح ہر ایک کسی نہ کسی صحابی سے لیتا ہے اب جب یہ والی بات سمجھ میں آ گئی تو اب یہ جو مطلب ہمارے اختلاف ہیں اس اختلاف میں جیسے مسح بھی آ جاتا ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چند بال بھی اگر ہو جائیں گھیلے تو بھی ٹھیک ہے ہو جائے گا اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح فرض ہے ان کے اپنے اپنے دلائل ہیں کہ وہ صحابہ کے درمیان analysis کر کے وہ اپنے اپنے دلائل ہیں لہذا یہ دلائل اس کو جاننے کے لئے پانچ منٹ کافی نہیں ہوتے اس کے اوپر لوگوں نے خود ریسرچیں کی ہوتی ہیں تو ظاہر ہے آپ کو بھی اتنا ریسرچ کرنا پڑے گا پھر آپ کو یہ چیز ملے گی لیکن ایک بات بتاؤں مثلاً میں بھی ریسرچ کرتا ہوں دس سال ریسرچ کرنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ رفع یدین نہیں کرنی چاہیے مثلاً تو یہ بات تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پہلے سے کہہ رہے ہیں تو میرے دس سال کدھر گئے میں نے دس سال کس چیز میں لگا دیئے اس کی جگہ میں کچھ اور کام نہیں کر سکتا تھا دیکھیں اس وقت بنکنگ کا مسئلہ ہے رویت حلال کا مسئلہ ہے اس طرح جو ہے ناں معاشیات کے بہت سارے مسائل ہیں جو ہمیں حل کرنے ہیں جو ہمیں حل کرنے ہیں اس وقت اس کی طرف توجہ نہیں ہے اور ان مسائل کی طرف توجہ ہے جو پہلے سے حل ہو چکے ہیں مجھے بتاؤ ہمیں کون سے مسئلہ حل کرنے چاہیں جو حل ہو چکے ہیں یا جو مطلب یہ ہے کہ ابھی حل کرنے ہیں جو حل کرنے ہیں اس وجہ سے ہم کہتے ہیں ان چیزوں میں نہ پڑو اس میں کسی امام کے پیچھے پڑ جاؤ مثلاً میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے ہوں اور ایک عرب سے میں نے کہا تھا کہ آپ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے ہو جائیں میں نے خود کہا تھا کہ آپ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ اختیار کر لیں میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے ہوں کوئی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے ہوگا بس جو جس امام کے پیچھے ہے اس کو اخلاص کے ساتھ اس کے پیچھے عمل کرتے جائیں سب صحابہ کے پیچھے ہیں یہ پکی بات ہے کہ سارے امام صحابہ کے پیچھے ہیں تو سارے صحیح ہیں جب صحیح ہیں تو کسی ایک کے پیچھے بھی جاؤ گے تو فائدہ ہو جائے گا نقصان تو نہیں ہوگا ناں تو خواہ مخواہ ان چیزوں میں پڑ کے ہم اپنے آپ کو کیوں ایسی چیزوں میں ڈالیں کہ ہم سے وہ ضروری چیزیں رہ جائیں تو ہم تو invite کرتے ہیں آیئے اگر مسئلہ حل کرنے ہوں آج کل کے دور کے ہمارے پاس آ جائیں یہ ہماری رویت حلال کا مسئلہ حل کر دو یہ ہماری بنکنگ کا مسئلہ حل کر لو معاشرے کے بہت سارے مسائل ہیں ان کو حل کر دو جو آج کل کے مسائل ہیں پرانے جو حل شدہ مسائل ہیں اس میں پڑ کر ہمیں شیطان اصل چیزوں سے ہٹا رہا ہے ٹھیک ہے۔ سوال کسی کا ہو تو کر لو!
سوال نمبر 6:
حضرت! احساس کمتری اور عاجزی میں کیا فرق ہے؟
جواب:
عاجزی اور احساسِ کمتری دونوں میں انسان خود کو کم سمجھتا ہے۔ جبکہ احساس کمتری انتہائی بری خصلت ہے، اس کی وجہ سے حسد اور کینہ پیدا ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے ریا پیدا ہوتا ہے، الغرض اس کی وجہ سے بہت مہلک روحانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور عاجزی بہت اچھی خصلت ہے، یہ اللہ پاک کو پسند ہے۔ ان دونوں میں reference کا فرق ہے۔ جو شخص اللہ پاک کی محبت میں مشغول ہے اور دوسرا شخص جو دنیا کی محبت میں مشغول ہے، دونوں برابر ہوسکتا ہیں؟ ہرگز نہیں، یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے، جو شخص اللہ تعالٰی کی محبت میں مشغول ہے، وہ بہت اونچا کام کر رہا ہے، اور جو شخص دنیا کی محبت میں مشغول ہے، وہ بہت برا کام کر رہا ہے، احساس کمتری انسان کے اندر دنیا کی محبت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اور عاجزی انسان کے اندر اللہ پاک کی محبت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، یعنی اگر انسان اپنے آپ کو اس لیے کم سمجھے کہ اللہ پاک مجھ سے ناراض نہ ہو، تو یہ عاجزی ہے اور اگر انسان اپنے آپ کو اس لئے کم سمجھے کہ دنیا کی فلاں چیز اس کے پاس نہیں ہے، تو یہ احساس کمتری ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتی ہیں؟ یہ دونوں بالکل برابر نہیں ہوسکتیں، لیکن بظاہر دونوں برابر نظر آتی ہیں، اس لیے فرماتے ہیں:
﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِۙ بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِۚ﴾ (الرحمٰن: 19-20)
ترجمہ: "اسی نے دو سمندروں کو اس طرح چلایا کہ وہ دونوں آپس میں مل جاتے ہیں (پھر بھی) ان کے درمیان ایک آڑ ہوتی ہے کہ وہ دونوں اپنی حد سے بڑھتے نہیں"۔
جس طرح یہ دو دریا بالکل ساتھ ساتھ چل رہے ہیں لیکن آپس میں ملتے نہیں ہیں، اسی طرح خود داری اور تکبر ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں اور اسی طرح احساس کمتری اور عاجزی یہ ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں اور غیرت اور ظلم یہ ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں، تو بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن وہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔
سوال نمبر 7:
حضرت! جیسا کہ آپ بتاتے ہیں کہ اللہ پاک کی عبادت ایسے کریں کہ جیسے آپ اللہ پاک کو دیکھ رہے ہیں، حضرت! جو چیز دیکھی ہوتی ہے، تو انسان اس کا ذہن میں تصور کر سکتا ہے، اللہ پاک کو تو دیکھا نہیں ہے، اللہ پاک کے بارے میں بندہ کیسے تصور کرے؟
جواب:
یہ سوال بالکل ایسا ہے جیسا کہ اگر کوئی بچہ سوال کرے کہ میں بیسویں سیڑھی پر کیوں نہیں چڑھ سکتا؟ اس بچہ کو بڑا آدمی کہتا ہے کہ پہلی سیڑھی پر پہلے قدم رکھو، پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھو، پھر تیسری پھر چوتھی پر، اس طرح پھر قدم بقدم بیسویں سیڑھی پر پہنچ جاؤ گے، لیکن بچہ کہتا ہے کہ نہیں، میں پہلے مرتبہ ہی بیسویں سیڑھی پر کیوں نہیں پہنچ جاتا؟ اس کو جو جواب دیا جائے گا، وہی جواب اس سوال کا بھی جواب ہوجائے گا، جس طرح بیسویں سیڑھی پر پہنچنے کا ایک تدریجی طریقہ ہے، اسی طرح اس تصور تک پہنچنے کے لئے بھی باقاعدہ ایک تدریجی طریقہ ہوتا ہے کہ پہلے لسانی ذکر ہوتا ہے، اس کے بعد جہری ذکر ہوتا ہے، اس کے بعد قلبی ذکر ہوتا ہے، اس کے بعد مراقبات ہوتے ہیں، ان مراقبات کے ذریعے پھر ترقی ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ چیزیں جو انسان کے محسوسات میں نہیں ہوتی، وہ بھی محسوسات میں آنے لگتی ہیں، اس وقت انسان کو ادراک ہو جاتا ہے کہ میں اللہ تعالٰی کے سامنے ہوں، اس کیفیت کو احسان کہا جاتا ہے، اور اسی کیفیت کا حدیث پاک میں ذکر ہے:
﴿أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ﴾ (صحيح مسلم، حدیث نمبر 79)
ترجمہ: "تو اللہ تعالٰی کی اس طرح عبادت کر گویا کہ تو خدا کو دیکھ رہا ہے، پس اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا ہے تو پھر یہ یقین ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے"۔
آپ یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ پاک نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کے لئے کوئی ایسی بات نہیں بتائی جو نہ ہوسکتی ہو، اللہ پاک کا ارشاد ہے:
﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: "اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا"۔
معلوم ہوا کہ اس پر عمل ہوسکتا ہے، تبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ ابتداً سب لوگ یہ نہیں کر سکتے، بلکہ جو تدریج پر چلتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ یہاں تک پہنچ جائیں گے۔
سوال نمبر 8:
قرآن میں آتا ہے کہ اللہ کے رنگ میں رنگ جاؤ۔ یہ کیسے ہوگا؟
جواب:
جو اللہ چاہتا ہے وہی کرنے لگ جاؤ، اللہ کے رنگ میں رنگ جاؤ۔ اس پر میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہوں، بہلول دانا جس کو بعض لوگ بہلول دیوانہ کہتے تھے، کیونکہ ان کی حرکات دیوانوں کی طرح تھیں، لیکن باتیں داناؤں کی طرح ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے ان کو کچھ لوگ بہلول دانا بھی کہتے تھے، یہ ہارون الرشید کے ہم زمانہ تھے، ہارون الرشید ایک دن جا رہے تھے، تو بہلول دانا بڑے خوش اور اچھے موڈ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہارون الرشید نے کہا: بہلول! تم آج کل کس حال میں ہو؟ اس نے کہا: اس آدمی کا حال تم کیا پوچھتے ہو جس کی مرضی کے مطابق سب کچھ ہو رہا ہو۔ ہارون الرشید نے کہا: تو نے خدائی کا دعویٰ کب سے کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے خدائی کا دعوی تو نہیں کیا۔ ہارون الرشید نے کہا کہ تو نے جو بات کہی ہے، ہمیں تو وہ خدائی کا دعویٰ لگتا ہے، کیوں کہ سب کچھ تو اللہ تعالٰی کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے، کسی اور کی مرضی کے مطابق تو نہیں ہوتا۔ اس نے کہا: بھلے آدمی! میں نے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں فنا کر دیا ہے، لہٰذا جو اللہ تعالٰی کی مرضی ہے وہ میری بھی مرضی ہے، اس طرح میری مرضی کے مطابق سب کچھ ہو رہا ہے یا نہیں؟ ہم بھی اپنی مرضی کو اللہ پاک کی مرضی میں فنا کردیں، تو پھر ہمارے لئے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ "آسان ترجمہ قرآن" از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔