اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
Respected and honourable Sheikh Aslam o Alicum. Hazrat G, following is the detail of my مراقبہ for the last four months. Imagination of Allah and Allah’s love for 30 minutes then repetition of each of the following names
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، اَلرَّحْمٰنُ، اَلرَّحِیْمُ، اَلسُّبْحَانُ، اَلْحَلِیْمُ، اَلْبَاقِیْ، اَلْفَتَّاحُ، اَلنُّوْرُ، اَلسَّلَامُ، اَلْھَادِیْ، اَلْقَوِیُّ، اَلْوَدُوْدُ، اَلْغَفَّارُ، اَلسَّتَّارُ، اَلْجَبَّارُ، اَلْوَارِثُ، اَلْحَافِظُ، اَلْحَفِیْظُ، اَلنَّاصِرُ، اَلنَّصِیْرُ، اَلصَّبُوْرُ، اَلشَّکُوُْ، اَلْوَہَّابُ، اَلتَّوَّابُ‘‘۔
I intend to do مراقبہ regularly but mostly I feel laziness while my معمولات چارٹ is in letter box. Kindly accept me for اصلاح once again.
جواب:
ایک محترمہ کا تیس منٹ کے لئے ’’اَللہْ اَللہْ‘‘ کا مراقبہ ہے، اس کے بعد سات دفعہ یہ سارے نام جو ابھی میں نے لیے ہیں ان کو دل پہ اس طرح پڑھتی ہیں یعنی زبان پہ نہیں پڑھتیں۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اَلرَّحِیْمُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اَلرَّحْمٰنُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اَلسُّبْحَانُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اَلْحَلِیْمُ‘‘۔ اس کے علاوہ ان کو ’’اَْلْوَاجِدُ، اَلْمَاجِدُ‘‘ ساتھ شامل کرنا چاہئے، اور بے شک دعا کو دل میں دس منٹ کے لئے جاری رکھیں۔ بہرحال مجھے معلوم نہیں کہ کن وجوہات کی وجہ سے آپ کا contact نہیں ہوسکا۔ لہٰذا کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ اپنے کام کو جاری رکھیں، خواتین کا زیادہ تر کام گھر میں ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ اپنی محنت جاری رکھیں، اور رابطہ بہرحال اگر Email کے ذریعے سے ہوسکتا ہے تو رکھیں۔
سوال نمبر 2:
Thanks so much for your reply Shah Sahib! جزاک اللہ خیرا Shah Sahib I am just confirming about my zikr which is 200, 300, 300 and 100 times. I got this through your last email. Please confirm.
جواب:
جی ہاں یہ 200، 300، 300 اور 100 ہے، آپ اس کو کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر 3:
مَاشَاءَ اللہ حفاظ زیادہ ہوگئے ہیں، ان کو تراویح میں قرآن پڑھنا ہوتا ہے۔ میں خود بھی حافظ ہوں، میں نے بھی بہت دفعہ پڑھا ہے، تو ہم بغیر داڑھی کے یا کم داڑھی کے پڑھ لیتے تھے، آپ نے کہا کہ وہ باقاعدہ فتویٰ ہے۔ میں نے تقریباً اسی طرح 15، 20 سال پڑھائی ہیں، مجھے کوئی خاص علم نہیں تھا۔ آج سے اِنْ شَاءَ اللہ میں نے نیت کر لی کہ میں داڑھی نہیں کاٹوں گا۔ اب میں نے جو اس دفعہ داڑھی شروع کی ہوئی ہے، تو اس نیت کے ساتھ میں تراویح پڑھا سکتا ہوں؟
جواب:
بالکل پڑھا سکتے ہیں۔ کیونکہ مثال کے طور پر کسی کی بالکل بھی داڑھی نہ ہو، اور وہ آج نیت کر لے کہ میں نے داڑھی رکھنی ہے، داڑھی تو ایک وقت پہ پوری ہوگی، اس میں تو وقت لگے گا۔ لیکن اس کی داڑھی اللہ کے نزدیک پوری ہے کیونکہ اس نے ارادہ کر لیا ہے، تو اس کو اس وجہ سے مسئلہ نہیں ہے آپ نماز بھی پڑھا سکتے ہیں۔ گزشتہ پہ توبہ واستغفار کر لیں، اس پہ کفارہ نہیں ہے۔ ہاں یقیناً مکروہ تحریمی ہے، بہرحال نماز تو ہوگئی ہے دوبارہ نہیں پڑھنی پڑے گی۔ لیکن مکروہ تحریمی ہے، تو آپ کی توبہ سے ہی اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز تلافی ہوجائے گی، آئندہ کے لئے اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز آپ خیال کریں گے۔ یہ تصوف سے متعلق ہے، کیونکہ تصوف اصل میں دل کے ساتھ شریعت کی تکمیل ہے۔ اب دیکھیں آپ کے دل نے ایک جواب دیا تو آپ نے اس پہ عمل کر لیا ہے۔ تو معاملہ دل کے ساتھ ہوگیا، ورنہ اگر کوئی بھی علمی بات کرتے تو شاید آپ کا دل ساتھ نہ دیتا، آپ اس پر عمل نہیں کر سکتے تھے۔ بہت سارے لوگوں کو ہم بتا دیتے ہیں لیکن وہ بس ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتے ہیں۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے، ’’مومن اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کی ایسی حالت ہوتی ہے جیسے اس کے اوپر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو، وہ جب تک گڑگڑا کے روتے روتے اللہ تعالیٰ سے معاف نہ کروائے اس کو چین نہیں آتا۔ اور فاسق ایسے سمجھتا ہے جیسے مچھر آیا اور اس کو اڑا دیا‘‘۔
ظاہر ہے اس میں دل کی بات ہی ہے۔ دل کے بارے میں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر یہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے، اگر یہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے اور آگاہ ہوجاؤ: کہ وہ دل ہے‘‘ (صحیح بخاری: 52)
لہٰذا دل کی اور نفس کی جو اصلاح ہے یہ تصوف کی field ہے، تو دل کے امور سے متعلقہ جتنی بھی باتیں ہیں وہ ساری کی ساری تصوف کے ذیل میں آتی ہیں۔
سوال نمبر 4:
کون کون سے کام اخلاص سے کرنے چاہئیں۔
جواب:
میں آپ سے ایک بات عرض کروں، سارے کام اخلاص کے ساتھ کرنے کا حکم ہے۔
﴿مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ﴾ (البنیۃ: 5)
ترجمہ1: ’’بندگی کو بالکل یکسو ہو کر صرف اسی کے لئے خاص رکھیں‘‘۔
یعنی اخلاص کے ساتھ ساری چیزوں کو کرنے کا حکم ہے۔ لیکن کیا اخلاص کسی ایک چھوٹے سے عمل سے فوری طور پہ حاصل کیا جا سکتا ہے؟ پوری عمر گزر جائے اور اس میں اخلاص حاصل ہوجائے تو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ تو اس طرح کیفیتِ احسان دو لفظ ہے۔
’’أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘۔ (صحیح بخاری: 50)
ترجمہ: ’’تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے، اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔
اس کی آپ measurement دیکھو، کیونکہ ایک ہوتا ہے Input based analysis، اور ایک ہوتا ہے Output based analysis
Input based analysis میں یہ ہے کہ آپ کیا کریں کہ یہ چیز حاصل ہوجائے، یعنی اس سے آپ کو کیسے پتا چلے گا، اور output سے یہ پتا چلے گا کہ کیفیتِ احسان حاصل ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی۔ مثلاً کوئی معمار دیوار بنا رہا ہے، اور مکان بنوانے والا اس کے سر پہ کھڑا ہے تو وہ کیسا کام کرے گا، اور وہ اس وقت موجود نہیں ہے تو کیسا کام کرے گا، فرق ہوگا یا نہیں ہوگا؟ اب یہ اس صورت میں ہے جب انسان کو پتا ہو کہ میرا مالک جو مجھ سے کام کروا رہا ہے وہ مجھے دیکھ رہا ہے، تو بالکل ٹھیک ٹھاک کام ہوجائے گا۔ اور جب اس کو خود دیکھ رہا ہوگا پھر تو بہت زیادہ خیال کرے گا۔ یہ اصل میں اس theory کی بنیاد پر ہے کہ دیکھو: جس طرح معمار اپنے مکان بنوانے والے کو دیکھ رہا ہے، حالانکہ اس کے اوپر اس کا اتنا زیادہ خوف نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس کو کام سے نکال دے گا، وہ پھر کسی اور جگہ چلا جائے گا، لیکن پھر بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔
ہمارا معاملہ تو اللہ جل شانہٗ کے ساتھ ہے، ہمارا تو ہر کام اس کے ساتھ ہے، ہمارا ماضی، ہمارا حال، ہمارا مستقبل سب اس کے ساتھ ہے۔ جب میں اس کو دیکھ رہا ہوں گا تو میرا کام کیسا ہوگا، ظاہر ہے مجھے یہ پتا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ تو اس چیز کو دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے اعمال کو محسوس کرے، آیا میرے اعمال ایسے ہیں یا نہیں؟ اگر میرے اعمال ایسے نہیں ہیں تو کیفیت حاصل نہیں ہوئی، یہ تو پتا چل گیا۔ اب اس کے بعد حاصل کیسے کیا جاتا ہے؟ تو حاصل کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ پہلے ہم ذکرِ لسانی کراتے ہیں، اس کے بعد ذکرِ جہری کراتے ہیں، اس کے بعد ذکرِ خفی ہوتا ہے، پھر مراقبات ہوتے ہیں۔یہ جو مراقبات ہیں یہ کیا ہیں؟ یہ یکسوئی ہے، alignment ہے۔ مثلاً اگر lens نہیں ہیں اور آپ سورج کی شعائیں کسی چیز پہ ڈال رہے ہیں تو اس سے گرم ہوتا ہے لیکن جلتا نہیں ہے، لیکن اگر آپ شعائیں lens کے through گزروا دیں تو تھوڑی دیر میں سورج کی روشنی سے وہ چیز جل جائے گی۔ اب دیکھیں روشنی تو وہی سورج کی ہے لیکن اس lens نے اس کو ایک نقطہ پہ جمع کر دیا، یہ اصل میں focusing ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنے خیالات کو بھی focus کر سکیں تو بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے ناممکن ہیں وہ ممکن ہوجائیں گی۔ اسی طریقے سے ہمارے اردگرد ایسی چیزیں ہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ سے غافل کرتی ہیں، جیسے ہم نماز پڑھنا شروع کرتے ہیں وہ ساری چیزیں ہماری طرف آجاتی ہیں ہمیں اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتیں، کوئی اور کام کرنا چاہتے ہیں اس میں بھی اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے وہ چیزیں ہمیں غافل کر رہی ہوتی ہیں۔ دوسری چیزوں سے ہمارے کچھ مفادات ہوتے ہیں، کچھ احساسات ہوتے ہیں، کچھ اثرات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہم لوگ اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے ہوتے۔ یہ مراقبات آپ کو ان چیزوں سے کاٹ رہے ہوتے ہیں گویا کہ آپ کے اردگرد isolation کے دائرے بنا رہے ہوتے ہیں، جب آپ ان چیزوں سے اچھی طرح isolate ہوجاتے ہیں تو آپ کے جتنے بھی خیالات ہیں وہ ان چیزوں سے آزاد ہوجائیں گے۔ نتیجتاً آپ اللہ تعالیٰ کی موجودگی کو محسوس بھی کر لیں گے، اللہ کے سامنے بھی اپنی موجودگی کو محسوس کر لیں گے اور پھر اللہ جل شانہٗ کی عظمت کا ادراک ایسے ہوجائے گا جیسے کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کیفیت کو کیفیتِ احسان کہتے ہیں۔ ظاہر ہے راستہ یہی ہے، اسی ذریعے سے آہستہ آہستہ Step by step، یہ ہمارے گھر کی سیڑھیاں ہیں۔ میں نے جب تک پہلی سیڑھی پہ قدم نہیں رکھا ہوگا تو کیا میں آخری سیڑھی پہ پہنچ سکتا ہوں؟ پہلی سیڑھی پر قدم رکھوں گا تو پھر دوسری پہ جاؤں گا، دوسری پہ رکھوں گا تو تیسری پہ جاؤں گا، ہوتے ہوتے ایک وقت میں گھر بھی پہنچ جاؤں گا۔ جب تک میں نے پہلی سیڑھیوں کو clear نہیں کیا اس وقت تک اگلی سیڑھیوں کے بارے میں سوچنا حماقت اور پاگل پن ہے۔ بعینہٖ اسی طریقے سے یہ بھی سیڑھیاں ہیں، جب تک میں ذکرِ لسانی نہیں کرتا میرا جہری ذکر صحیح نہیں ہوتا، جہری ذکر صحیح نہیں ہوتا تو خفی ذکر صحیح نہیں ہوتا، خفی ذکر صحیح نہیں ہوتا تو میرا مراقبہ صحیح نہیں ہوتا، مراقبہ صحیح ہوتا ہے تو focusing صحیح نہیں ہوتی، اسی طرح alignment ہے، یہ ساری چیزیں ہیں۔ تو روز بروز آہستہ آہستہ آپ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ کس سپیڈ سے آپ کو یہ چیز دلواتے ہیں۔
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العکنبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔
وعدہ تو ہے لیکن ہمارے اخلاص اور ہماری struggle، ہماری کوشش پر depend کرتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی کو چند دن میں ہوجائے، عین ممکن ہے کسی کو چند سال لگ جائیں، عین ممکن ہے کسی کو بالکل موت کے قریب ہوجائے، بہرحال جس کو بھی جب بھی ہوگیا تو کامیاب ہوگیا۔
سوال نمبر 5:
حضرت جب کوئی منہ پر تعریف کرتا ہے تو اس سے فوری طور پر نفس پھولتا ہے اور اپنے آپ کو اچھا گمان کرنے لگتا ہوں، مگر جب آپ کے بیان میں بیٹھنا ہوتا ہے یا اپنے اکابرین کی زندگی سامنے آتی ہے تو اپنے عیبوں پر نظر جاتی ہے۔ پھر یوں لگتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں یہ تو اللہ پاک کا کرم ہے کہ عیبوں کو چھپائے رکھا ہے، لیکن اس طرح کی کیفیت کبھی کبھی ہوتی ہے اور اگر یہ چیزیں سامنے نہ ہوں تو پھر اپنے آپ کو نیک اور پارسا خیال کرنے لگتا ہوں۔ حضرت یہ کیفیت کیسے حاصل ہوگی کہ جب کبھی بندہ اپنی تعریف سنے تو فوراً سب سے پہلے اللہ تعالیٰ پر نظر جائے، اپنے کمالات اور محاسن سے نظر ہٹ جائے؟
جواب:
مَاشَاءَ اللہ اچھی سوچ ہے۔ دیکھیں جب کبھی انسان کو عقلی طور پر ادراک ہوجاتا ہے کہ اس چیز سے مجھے نقصان ہوتا ہے، تو وہ چیز جیسے قریب آنے لگتی ہے تو آدمی ڈر جاتا ہے کہ پتا نہیں اب کیا ہوگا۔ اسی طریقے سے جب کسی کو زندگی میں بے شک پہلی بار ہی کسی طرح احساس ہوگیا ہو کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، اور لوگوں کے کہنے سے میرا نفس پھولتا ہے اور اس کو یہ بھی پتا ہو کہ نفس کا پھولنا خطرناک ہے، یہ تو مجھے اللہ تعالیٰ سے غافل کر دیتا ہے، اور مجھے عُجب میں مبتلا کرتا ہے۔ عُجب تو اللہ تعالیٰ سے دوری ہے، یہ تو بہت خطرناک ہے۔ اب عقلی طور پہ خطرے کا پتا چل گیا، اب ایسا ہونا چاہئے کہ جب کبھی کوئی کسی کی تعریف کرنے لگتا ہے تو آدمی کو فوراً احساس ہونا چاہئے کہ یہ تو خطرناک ہے۔
اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے:
’’قَامَ رَجُلٌ يُّثْنِيْ عَلٰى أَمِيْرٍ مِنَ الْأُمَرَاءِ، فَجَعَلَ الْمِقْدَادُ يَحْثِيْ عَلَيْهِ التُّرَابَ، وَقَالَ: أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثِيَ فِيْ وُجُوْهِ الْمَدَّاحِيْنَ التُّرَابَ‘‘۔ (صحيح مسلم: 7505)
ترجمہ: ’’ایک شخص کھڑا ہوا امراء میں سے کسی امیر کی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقداد رضی اللہ عنہ اس شخص پر مٹی ڈالنے لگے، اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ حکم دیا تھا کہ ہم مدح سراؤں کے منہ میں مٹی ڈالیں‘‘۔
کیونکہ وہ تو اس کی گردن توڑ رہا ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے باقاعدہ ایک آدمی کے منہ میں مٹی ڈالی تھی کہ کم از کم حدیث شریف پر ایک دفعہ تو عمل ہوجائے۔ انہوں نے کوئی تعریف کی تھی اور حضرت نے مٹی اٹھا کے ان کے منہ میں ڈال دی، فرمایا میں حدیث شریف پہ عمل کر رہا ہوں۔ تو یہ اسی لیے ہے کہ انسان خطرے میں آجاتا ہے۔ پس جب کبھی کوئی کسی کی تعریف کرے، تو چلو اگر اس وقت نہیں تو بعد میں کہے: خدا کے بندے میری آپ کے ساتھ کیا دشمنی ہے، کیوں مجھے خراب کرنا چاہتے ہو؟ آپ اتنے ہی میرے مخلص ہیں تو دعا کریں کہ یااللہ اس کو ویسا بنا دیجئے جیسے میری سوچ ہے، یہ دعا کریں میرے لیے۔ آپ نے تو میری تعریف کر کے مجھے خراب کر دیا ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی تعریف کرے تو آدمی خود دعا کرے کہ یا اللہ! میں ایسا ہوں نہیں، لیکن تو مجھے ایسا بنا سکتا ہے۔ اس طرح کر دے جیسا ان کا گمان ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اچھا کر دے۔ تو اللہ کی طرف نظر چلی گئی۔ عُجب کا بھی یہی علاج ہے، جب کبھی عُجب کا احساس ہونے لگے تو انسان فوراً یہ محسوس کرے کہ مجھے تو نقصان ہوگیا ہے۔ تو آدمی یہ سوچے کہ چلو ٹھیک ہے اگر میں پہلے بزرگ بھی تھا، اب تو نہیں ہوں، کیوں کہ عُجب کے ساتھ بزرگ نہیں بن سکتا۔ جو آدمی اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہو وہ بزرگ تو نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی میری تعریف کرے اور میں سمجھوں کہ واقعی یہ تو کمال ہے، عُجب آگیا۔ اور مجھے عقلی طور پر اس بات کا پتا ہے کہ عُجب سے انسان اللہ کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ تو میں اپنے آپ سے کہوں کہ بھائی پہلے میں بزرگ تھا بھی، اب تو نہیں رہا۔ اب میں کس بات پر اتراؤں؟ اِس طرح اِنْ شَاءَ اللہ اس کے شر سے بچ جائیں گے۔
سوال نمبر 6:
حضرت تروایح میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ جب قرآن پاک سن رہا ہوتا ہوں تو عدمِ سماع کی وجہ سے تھوڑی سی توجہ ہٹ جائے، تو توجہ کو واپس لانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ذرا سا خیال آئے تو نفس اندر ہی اندر باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے، اور پتہ بھی نہیں چلتا، کچھ لمحوں بعد ذہن میں آتا ہے کہ میں تو تراویح پڑھ رہا ہوں۔ حضرت آج کل تروایح میں مستقل یہی کیفیت چل رہی ہے، اس پر کیسے قابو پایا جائے؟
جواب:
انسان ذہناً وقلباً دو طریقوں سے تراویح کے ساتھ شامل رہ سکتا ہے، یا تو حافظ ہو، یا پھر عالم ہو۔ حافظ ہونے کی وجہ سے انسان کو پتا چل رہا ہوتا ہے کہ اس کے بعد یہ کیا پڑھے گا، کہاں پہنچ گیا، غلطی ہوگئی تو بھی پتا چل جاتا ہے۔ ہماری بیٹی جب مَاشَاءَ اللہ پڑھ رہی تھی تو اس کو قرآن کا ترجمہ اور مفاہیم کا بھی پتا تھا، میرا بیٹا حافظ بن گیا تھا۔ ان دونوں کی آپس میں نوک جھوک ہوتی ہے، بچوں میں یہ چلتا رہتا ہے۔ اس پہ بڑی اچھی اچھی باتیں بھی آجاتی ہیں، ان دونوں کے درمیان بڑا debate ہوگیا کہ نماز اور تراویح میں حافظ کو زیادہ حضوری ہوتی ہے، یا عالم کو۔ انہوں نے اس پر اپنے اپنے حق میں بڑے اچھے دلائل پیش کیے۔ بیٹی کہہ رہی تھی: پتا چل رہا ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے، تو انسان اس کو اچھی طرح سن سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور بیٹا کہہ رہا تھا کہ اس کو پتا چل رہا ہوتا ہے کہ کہاں پہنچ گیا ہے۔ یعنی اگر انسان عالم یا حافظ ہو تو وہ تراویح میں بغیر تصوف کے بھی شامل رہ سکتا ہے۔ دوسری صورت میں نہ حافظ ہو نہ عالم ہو، پھر تصوف کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں۔ تو تصوف کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی سمجھے ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام اس کے دل پہ اتر رہا ہے اور مجھے سنائی دے رہا ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کو درخت سے سنائی دے رہا تھا حالانکہ درخت تو خدا نہیں تھا، لیکن توجہ درخت کی طرف تھی۔ جب تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوتا ہے، لاکھوں لوگ ہوتے ہیں، سٹیج بھی بہت دور ہوتا ہے، لیکن اپنے خیمے کے ساتھ اس کا لاؤڈ سپیکر ہوتا ہے۔ لوگ سٹیج کی طرف رخ کیے ہوتے ہیں یا لاؤڈ سپیکر کی طرف؟ تو اس کو لاؤڈ سپیکر سمجھیں۔ بات اللہ کی ہے اور میں اس سے سن رہا ہوں، اس وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ اس طریقے سے مَاشَاءَ اللہ پھر یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔
سوال نمبر 7:
ایک لڑکا ہے وہ حافظِ قرآن ہے اور نقشبندی سلسلے سے تعلق بھی ہے، اس کی آواز بہت خوب صورت ہے، کوئی اس کو کہے کہ اپنی آواز میں قرآنِ پاک سنا دیں تو وہ اس انداز سے قرآنِ پاک نہیں پڑھتا جس انداز کی دوسرے خواہش رکھتے ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ (حضرت کا سوال) قصداً توڑتا ہے؟ (سائل کا جواب) جی آواز اس کی خوب صورت ہے، لیکن اس آواز میں قرآن پاک نہیں سناتا۔ (حضرت کا سوال) یعنی تعریف سے بچنا چاہتا ہے؟ (سائل کا جواب) جی! لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں، اس لئے اس سے قرآن سنتے ہیں کہ شیخ شریم یا شیخ سدیس کی آواز میں سنائیں۔ کبھی کبھی میں بھی اس کو کہ دیتا ہوں کہ آپ قرآن پاک سنائیں، تو وہ قرآن تو سناتا ہے لیکن عام روٹین میں جیسے اس کی آواز ہے اس آواز میں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
یہ ایک حال ہے، جو انسان کے اوپر طاری ہوجاتا ہے۔ تو ظاہر ہے حال میں پھنسنا تو نہیں ہوتا، حال سے باہر جانا ہوتا ہے۔ اول تو یہ کہ اگر اس کی اپنی آواز خوبصورت ہے تو اس کو بد صورت نہ بنائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حسین چیزوں کو بد صورت کرنا یہ اللہ کی نظر میں اچھی بات نہیں ہے۔ البتہ اپنے دل کو صحیح رکھیں اور یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے، میں تو اس کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر لوگوں تک پہنچا رہا ہوں، اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے، اور واقعتاً کمال ہوتا بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی سید پیدا ہوا ہے تو مجھے بتائیں کہ اس کا کیا کمال ہے؟ اگر کوئی خوبصورت پیدا ہوا ہے تو اس میں اس کا کیا کمال ہے؟ عموماً لوگ ان چیزوں پہ اِتراتے ہیں جس میں ان کا کچھ بھی contribution نہیں ہوتا۔ یعنی خوبصورت ہونے پر، طاقتور ہونے پر اور ذہین ہونے پر۔ یہ ساری چیزیں تو اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں، کسی کو بھی دے دیتے ہیں تو اس میں یہ چیز آجاتی ہے۔ تو اس میں ہمارا اپنا کمال کیا ہے؟ ایک تو یہ سمجھیں کہ اللہ کی دَین لوگوں تک پہنچانے کے لئے اللہ کی طرف سے امانت ہے، کہ میں لوگوں کے سامنے قرآن پاک اس انداز میں پڑھوں جس سے ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت، قرآن کی محبت آجائے، اس پر عمل کریں۔ دوسری بات یہ کہ جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں، وہ کسی اور کے لہجے میں نہ پڑھے، اپنے ذاتی لہجے میں پڑھے، اس کا میں بھی قائل ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسروں کے لہجہ میں پڑھنے میں یہ بات ہوتی ہے کہ شاید لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں تو میری بھی تعریف کریں۔ جو اپنا سادہ لہجہ ہوتا ہے وہ زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ کسی اور کے لہجے میں کوئی قرآن پڑھتا ہے تو بے شک وہ اسی طرح پڑھے، لیکن وہ اس میں آخری حدوں کو نہیں چھو سکتا۔ کیونکہ اس کا خیال لہجے کی طرف ہوتا ہے کہ میں نے اب یہ کرنا ہے، اب یہ کرنا ہے، تو اپنی توجہ بھی اس پہ نہیں آسکتی۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کو بھی وہ peak نہیں مل سکتی۔ چاہے شیخ شریم ہوں، سدیس ہوں یا منشاوی، جتنے بھی اچھے اچھے قاری ہیں، کیا انہوں نے ایک دوسرے کی نقل کی ہے؟ جو نقل کرتا ہے وہ اس مقام پہ پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اس لیے میں نے اپنے بیٹوں کو قصداً اس سے روکا ہے، اور ان کو کہا ہے کہ نہ آپ نے منشاوی کے انداز میں پڑھنا ہے، نہ پانی پتی لہجے میں پڑھنا ہے، نہ شیخ شریم کے لہجے میں پڑھنا ہے، حالانکہ شیخ شریم کا لہجہ مجھے خود بہت پسند ہے۔ لیکن شیخ شریم سے پسند ہے، شیخ شریم کی کیسٹ میں سنوں گا کیونکہ مجھے انکی کیسٹ پسند ہے۔ تو شیخ سدیس کا لہجہ بھی نہیں، کسی اور کے لہجے میں نہیں، خود اپنے ذاتی لہجے میں پڑھنا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بے تکلف پڑھتے تھے، اس میں ان کا کوئی تکلف نہیں پایا جاتا تھا کہ کوئی خاص لہجہ بنا رہے ہوں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہمارے ایک بہت بڑے بزرگ تنظیم الحق کاکاخیل صاحب فاضلِ دیوبند، جو فوت ہوگئے ہیں، وہ خود فرما رہے تھے کہ میں دیوبند میں قرآن کی تلاوت کر رہا تھا، ان کی کوئی اتنی اچھی آواز نہیں تھی، جیسے میری آواز ہے اس طرح عام سی آواز تھی۔ کہتے ہیں میں اپنے سادہ لہجے میں قرآن پڑھ رہا تھا اور کوئی خاص لہجہ مجھے آتا نہیں تھا، نہ میں کوئی حافظ تھا، بس عام طریقے سے قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ جب میں نے تلاوت روک دی تو ایک کونے سے ایک پنڈت باہر آگئے، بولے مولوی جی کیوں رک گئے؟ میں نے کہا بس جتنا پڑھنا تھا میں نے پڑھ لیا، تو بس ختم کر دیا۔ پنڈت نے پوچھا: یہ آپ کون سی بہروی گا رہے تھے؟ ہندوؤں میں بہرویاں اور یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا بہروی کیا ہوتی ہے؟ ظاہر ہے ان کو تو پتا نہیں تھا بہروی کیا ہوتی ہے۔ پنڈت بولے: کمال ہے اتنی اچھی بہروی گا رہے ہیں اور یہ پتا نہیں کہ بہروی کیا ہوتی ہے۔ قرآن کی سادگی میں جو حسن ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں ہے، سادہ قرآن پڑھیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جیسا دیا ہوا ہے اسی کے مطابق سادہ پڑھیں، ہاں قراءت اور تجوید کے جو قواعد ہیں اس کے مطابق پڑھیں۔ اور سادہ لہجے میں حسن خود بخود موجود ہے کہ پھر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
کسی شاعر نے اک شعر کہا ہے، اس کا مفہوم ہے کہ جو خوبصورت نہیں وہ میک اپ سے بھی خوبصورت نہیں ہوسکتا، اور جو خوبصورت ہوتا ہے اس کو میک اپ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا تجوید کے ساتھ سادہ انداز میں قرآن پڑھیں، اگر انسان دیکھے مد کیا ہوتی ہے، مدِ منفصل، یہ سب چیزیں کیا ہیں؟ تجوید کے قواعد کے مطابق جیسے ادغام، اظہار یہ سارے قواعد، اس کے اوپر جب انسان عمل کرتا ہے تو اس کے اندر حسن خود پیدا ہوجاتا ہے۔ بلکہ لحنِ جلی اور لحنِ خفی کا یہی مطلب ہے کہ لحنِ خفی میں حسن ختم ہوتا ہے لیکن معنی پہ اثر نہیں پڑتا، اور لحنِ جلی میں معنی پہ بھی اثر پڑ سکتا ہے، لہذا وہ تو بہت زیادہ ممنوع ہے۔ بہرحال اپنے عام لہجے میں سادہ طریقے سے اچھی آواز کے ساتھ قرآن پڑھ سکتا ہے تو بڑا اچھا ہے، قرآن کو اچھے لہجے میں پڑھنا چاہئے۔ تغنِّی اس کو کہتے ہیں، تغنی کرنے کا اس میں حکم ہے۔ لہٰذا اس میں تغنی کرنی چاہئے لیکن گویوں کے انداز میں نہیں، مثال کے طور پر جیسے ادغام یا اظہار کے قوانین ہیں اور مد کے قوانین ہیں اس پر جب انسان عمل کرتا ہے تو اس میں حسن خود بخود آجاتا ہے۔
سوال نمبر 8:
آج کل جو دور ہے انسان گناہ گار ہے، دل ہی دل میں بہت زیادہ وسوسے آتے ہیں، تو اس کے متعلق بندے کو کیا کرنا چاہئے؟ کئی دفعہ ایسا خیال آتا ہے جو انسان کے اختیار میں نہیں ہے یا ہر وقت انسان کے دل میں برے اور منفی خیالات آتے ہیں تو اس کا کیا حل ہے؟ ذکر ہونا چاہئے یا کیا ہونا چاہئے؟
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ایک بہت بڑی خبر دی ہے کہ:
﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔
یعنی جو چیز اختیار میں نہیں اس پہ نہیں پکڑتے، اب آپ نے خود ہی بتایا کہ اختیار میں نہیں، تو جو چیز اختیار میں نہیں ہے اس پہ آپ کو پکڑیں گے نہیں۔ دوسری بات یہ کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت آپ ﷺ کے پاس گئی، انہوں نے آپ ﷺ سے اپنی شکایت کی یا رسول اللہ ﷺ! ہمیں ایسے وسوسے آتے ہیں کہ اگر ہم ان کو ظاہر کر دیں تو اس کے بجائے ہم جل کر کوئلہ ہونا پسند کریں گے لیکن ان کو ظاہر نہیں کر سکیں گے، اتنی خطرناک باتیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں۔ عقائد کے بارے میں، ایمان کے بارے میں اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا آپ لوگوں کی یہ حالت ہوگئی ہے؟ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ہماری حالت یہی ہے، فرمایا: یہی تو اصل ایمان ہے۔ ٹیسٹ ہوگیا، اب ایک آدمی کے دل میں شیطان خیال ڈالتا ہے ایسا، ایسا، ایسا، اس سے وہ تنگ ہو رہا ہے۔ کس وجہ سے تنگ ہو رہا ہے مجھے بتاؤ؟ تنگ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ ایمان ہے، اور تو کوئی وجہ نہیں۔ ایک بے ایمان آدمی کو یہ خیالات کوئی کہہ دے، وہ کہتا ہے ہاں بالکل ٹھیک کہتے ہو، اس کو کیا تکلیف۔ اس تکلیف کی وجہ کیا ہے؟ ایمان، اس پر خوش ہونا چاہئے۔ بلکہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر یہ فرمایا: کہ اگر کسی کو شیخ کے بارے میں وسوسہ آجائے تو شکر ادا کرے کہ یااللہ میرا شیخ کے ساتھ اتنا تعلق ہوگیا ہے کہ شیطان کو اس کی فکر ہوگئی ہے۔ کسی کو آپ ﷺ کے بارے میں کوئی وسوسہ آئے تو آدمی شکر کرے کہ یااللہ تیرا شکر ہے میرا آپ ﷺ کے ساتھ اتنا تعلق ہوگیا ہے کہ شیطان کو اس کی فکر ہوگئی ہے۔
اور اگر اللہ تعالیٰ کے بارے میں آجائے تب بھی یہی بات ہے کہ شکر ہے کہ میرا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتنا تعلق ہوگیا ہے کہ شیطان کو اس کی فکر ہوگئی ہے، اور فرمایا کہ اس پر خوش ہوا کرو، جب آپ خوش ہوں گے تو شیطان چونکہ عالمِ غیب نہیں ہے، اس کو یہ نہیں پتا چلتا کہ دل کے اندر خوش ہے یا نہیں۔ آپ ظاہر میں خوشی کا اظہار کر لیں وہ disturb ہوجائے گا، discourage ہوجائے گا، وہ کہے گا میں تو اس کو خراب کرنے کے لئے، تنگ کرنے کے لئے ڈالتا ہوں یہ تو اس پر خوش ہو رہا ہے۔ تو اللہ کا شکر ہے یہ وسوسے اگر کسی کو آئیں اور کسی کے یہ خیالات بن جائیں، پھر شیطان نہیں لاتا، پھر وہ کہتا ہے میں اس پر کیوں محنت کروں، کسی اور طریقے سے اس کو خراب کروں، اس لائن پر کیوں محنت کروں۔ تو پھر وہ چیز لانا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ اور جتنا آپ اس سے allergic ہوں گے، touchy ہوں گے، چیں بچیں ہوں گے، پریشان ہوں گے اور چڑچڑے پن کا شکار ہوں گے، شیطان کہے گا واہ جی زبردست، اور ڈالو اور ڈالو اور ڈالو، اس کا کام ہی یہی ہوگا، مزید پریشان کرے گا۔ لہٰذا اس پہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس میں خوش ہونے کی ضرورت ہے۔ اور آپ کا تو کچھ نہیں بگڑا، کیونکہ ظاہر ہے جب تک آپ اس پہ تنگ ہوتے ہیں تو اس بات کی علامت ہے کہ آپ کو ایمان حاصل ہے، آپ اس کے ساتھ نہیں۔ لہٰذا آپ کو اس میں کوئی problem نہیں ہے۔ میں راستے پہ جاتا ہوں تو راستے پہ بہت سارے لوگ جا رہے ہوتے ہیں، کیا میں دوسرے لوگوں کو روک سکتا ہوں؟ مثال کے طور پر میں ماسکو بازار میں جا رہا ہوں، ماسکو کافر لوگوں کی جگہ ہے۔ نعوذ باللہ مِنْ ذٰلک ہوسکتا ہے کوئی آدمی خدا کو گالی دے رہا ہو، ہوسکتا ہے کوئی کسی اور دین کو گالی دے رہا ہو، تو میں کیا سمجھوں گا؟ تکلیف تو مجھے ہوگی، لیکن کیا میں اس کو سمجھوں کہ یہ میں کر رہا ہوں۔ بلکہ ان کو بدبخت سمجھوں گا، دیکھو یہ بدبخت اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں، آپ کو خراب کر رہے ہیں۔ تو اس طرح شیطان جو بھی کر رہا ہے، وہ ہمارا فعل تو نہیں ہے۔ جب ہمارا فعل نہیں ہے تو ہم کیوں شیطان کے فعل کو اپنا فعل بنا لیں۔ لہٰذا ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔
سوال نمبر 9:
شاہ صاحب میں نے سنا ہے کہ جب اس قسم کا کوئی خیال آئے تو بندہ تین دفعہ ’’اَعُوْذُ بِالله مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھ لے۔
جواب:
جس نے بھی آپ سے یہ فرمایا: وہ خواب کے بارے میں ہے، اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اس طرح ہے۔ مجددِ ملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جو اس صدی کے مجدد ہیں، انہوں نے فرمایا: اس کے لئے کوئی وظیفہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ آپ وظیفہ کریں گے تو آپ شیطان کو importance دے رہے ہیں، آپ اس کو شیر کر رہے ہیں کہ دیکھو میں اس کو کچھ سمجھتا ہوں۔ اس کے لئے کوئی وظیفہ نہ کریں، نہ اس کا بوجھ اپنے ذہن پہ ڈالیں، ignore کریں۔ جیسے کسی نے لڑائی میں کسی کو کہا تھا کہ میں تمہیں کتا بھی نہیں سمجھتا۔ اس نے کہا کیا کہا؟ کہتا ہے اچھا اچھا سمجھتا ہوں۔ دونوں صورتوں میں شکست ہے۔ تو شیطان کے ساتھ بھی یہ طریقہ کرو۔
سوال نمبر 10:
حضرت جی مٹی والی حدیث میں اگر کوئی رضا مندی سے کسی کے منہ میں مٹی ڈالتا ہے اور جھگڑے کا خطرہ نہ ہو تو اس پر عمل ہوسکتا ہے؟
جواب:
عمل ہوسکتا ہے لیکن آپ کو پتا ہے یہ استحبابی عمل ہے، اور اس سے اگر کوئی ایسا جھگڑا پیدا ہوتا ہو جس کو پھر سمیٹنا مشکل ہو تو اس کے بجائے یہ کہنا کہ مٹی ڈالے، اس کو یہ حدیث شریف سنا دے ویسے آپ کے منہ میں تو مٹی ڈالنی چاہئے، لیکن چونکہ آپ ناراض ہوجائیں گے تو آپ سمجھیں کہ جیسے میں نے ڈال دی۔ اس سے وہ مقصد حاصل ہوجائے گا۔ حالات کے مطابق ہر چیز کی اپنی limit ہوتی ہے، یعنی آج کل تو ایسے حالات ہیں اللہ معاف فرمائیں، جو لوگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہوں، تھوڑا سا پیچھے کھڑے ہو کر دیکھیں تو بہت سارے لوگوں کے پیر سجدہ میں اٹھتے ہوں گے۔ آپ جا کر انتہائی منت سماجت کے ساتھ کہہ دیں کہ جی آپ مَاشَاءَ اللہ بڑے اچھے آدمی ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو اور بھی زیادہ خوبیاں عطا فرمائیں، آپ کی ساری چیزیں ٹھیک ہیں، صرف اس چیز میں تھوڑا سا مسئلہ ہے، اس سے نماز کے ٹوٹنے کا اندیشہ ہے۔ مہربانی کر کے آپ اس پہ غور فرمائیں۔ پھر اس سے سنیں کہ وہ کیا کہتا ہے۔
یہ نمازیوں کی بات کر رہا ہوں، عام لوگوں کی بات نہیں کر رہا۔ (سائل کا سوال) اس سے کیا ایڑھیاں مراد ہیں؟ (حضرت کا جواب) نہیں انگلیاں مراد ہیں۔ جو کہ بہت سارے لوگوں کی سجدہ میں اٹھ جاتی ہیں۔ اس طرح جو لوگ دعائیں کرتے ہیں، مثلاً اونچی آواز میں مختلف دعائیں پڑھنا، یہ دعا تو نہیں ہے۔ آپ کسی کو تھوڑا سا منت سماجت کر کے یہ بتا دیں کہ مہربانی کر کے دعا کر لیں مختصر کر لیں، لیکن اس میں دل کا حاضر کرنا ضروری ہے۔ تو کیا خیال ہے آپ کی یہ بات مان لے گا؟ یہ آج کل بہت بڑا فتنے کا دور ہے اس وجہ سے ہر چیز کا اپنا محل ہے۔ ناتواں کندھوں پہ اتنا بوجھ نہ لادا جائے کہ وہ بالکل ہی ختم ہوجائے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں پہلے سفر میں بھی لوگوں کو نصیحت کیا کرتا تھا، اب نہیں کرتا۔ فرمایا کیوں نہیں؟ کہتے ہیں ایک دفعہ گاڑی میں جا رہا تھا تو کسی کی پائنچے ٹخنوں سے نیچے تھے، میں نے اس کو نصیحت کی کہ بیٹا پائنچے ٹخنوں سے اوپر کر لیں۔ اس نے کہا کیوں؟ میں نے کہا شریعت کی بات ہے۔ اس نے (نعوذ باللہ من ذٰلک) شریعت کو گالی دے دی۔ کہتے ہیں میرے پیروں سے زمین نکل گئی، میں نے کہا: اف ہو! یہ تو میری وجہ سے کافر ہوگیا۔ کہتے ہیں آئندہ کے لئے پھر میں نے کسی کو راستے میں نصیحت کرنے سے توبہ کر لی، جو نصیحت سننے کے لئے آئیں گے ان کو کروں گا، جو سننا نہ چاہتے ہوں ان کو نہیں کروں گا۔ خود میرے ساتھ ایسی حالت ہوئی تھی جب میں پشاور جا رہا تھا، رمضان شریف کے دن تھے، میرے پاس جیب میں ایک چھوٹا سا قرآن شریف تھا، میں وضو سے تھا جیسے گاڑی چل پڑی تو میں نے قرآن شریف نکالا اور تلاوت شروع کر دی، تو تھوڑی دیر کے بعد گاڑی کے ڈرائیور نے ٹیپ آن کر دی۔ جب آن کی تو ہم جس سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ درمیانی سیٹ تھی، کنڈیکٹر کو میں نظر آرہا تھا، کنڈیکٹر اچھا آدمی تھا، اس نے ڈرائیور کو کہا کہ استاد جی ایک آدمی قرآن کی تلاوت کر رہا ہے ٹیپ بند کر دو۔ اس نے ٹیپ بند کر دی۔ بس دونوں کا اچھا عمل تھا۔ مجھ سے ایک سیٹ جو آگے بیٹھے ہوئے تھے تقریباً دس پندرہ میل ہم چلے ہوں گے، تو وہ اٹھا اور اس نے کہا کہ ہمارا بھی حق بنتا ہے آپ ٹیپ آن کرو، ان کی وجہ سے آپ نے بند کی ہے، استاد نے ٹیپ کھول دی۔ میں نے قرآن پاک جیب میں رکھا اور ساتھ والے آدمی سے کہا کہ میں بھی اپنا حق جتا سکتا ہوں، لڑائی کی صورت بن جائے گی لیکن مجھے اس آدمی کے کافر ہونے کا اندیشہ ہے، کیونکہ جو بھی بولے گا مقابلے میں اس سے یہ کفر میں چلا جائے گا، کیوں کہ قرآن کی مخالفت کرے گا۔ تو میں اس کو اپنے ہاتھ سے کافر کیوں بناؤں؟ قرآن پاک پڑھنا مستحب عمل ہے میں بعد میں پڑھ لوں گا، لیکن میں اس آدمی کو کافر بننے سے روک دوں تو یہ بہت اونچا عمل ہے۔ وہ آپ کی مٹی والی بات کہ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِک کچھ اور نہ کہہ دے۔
سوال نمبر 11:
حضرت اگر کسی کا دل نہ چاہ رہا ہو، گانے وغیرہ بجتے رہتے ہیں اگر منع نہ کر سکیں؟
جواب:
میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا تھا، جب میں نے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی تو سب سے پہلے دو چیزیں حاصل ہوئی تھیں، ایک میوزک سننے سے میرے سر میں درد ہوجاتا، جیسے ہی میوزک کی آواز آتی بس سر میں درد ہونے لگ جاتا تھا، ابھی بھی یہ حال ہے کہ گانے کے طرز پر اگر کوئی نعت بھی سنوں تو طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ میں لوگوں کے گلے نہیں لگ سکتا تھا۔ یہ بس ایک عجیب حالت تھی، میں نے حضرت سے اس کے بارے میں ذکر کیا کہ میرے تو سر میں درد ہوجاتا ہے، میں جب بس میں سفر کرتا ہوں۔ کیونکہ بسوں میں سفر کرنا ہوتا تھا اور بسوں میں تو کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، وہ تو سب کچھ کرتے ہیں۔ حضرت نے پھر مجھے ایک وظیفہ سکھایا، جو میں ابھی تک پڑھتا ہوں: ’’یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘۔ جب میں یہ وظیفہ کرتا تو سر میں درد نہیں ہوتا تھا، کیونکہ میں تو ذکر میں مشغول ہوجاتا تھا۔ بلکہ آپ کو ایک مسنون دعا بتاتا ہوں، جس سے اس پہ عمل ہوجاتا ہے۔
’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ ذِكْرَكَ وَخَشْیَتَكَ‘‘ کہ اے اللہ میرے دل کے وساوس کو اپنا ذکر بنا دے اور اپنی خشیت بنا دے۔
حالانکہ گانے تو غفلت کی چیز ہیں لیکن غفلت کی وجہ سے مجھے ’’یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘ یاد آگیا تو میں نے ذکر شروع کر دیا، اور یہ تو اس کا عمل ہے، میرا عمل تو یہ ہے۔ یوں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ حفاظت بھی ہوجاتی ہے اور ساتھ ساتھ ذکر کرنے کی توفیق بھی ہوجاتی ہے، تو آپ یہ کر لیا کریں۔ ہاں! اگر روکنے کی قدرت ہو، مثلاً کسی ایسی جگہ ہوں جہاں ہماری بات سنی جا رہی ہو، سمجھی جا رہی ہو، کچھ وزن دیا جا رہا ہو، اس وقت ان کو کہنا چاہئے کہ تھوڑا سا خیال رکھیں، یہ چھوڑ دیں۔
سوال نمبر 12:
اگر کسی نے کسی کے ساتھ نیکی کی، تو اس کے بارے میں آپ بتائیں کہ کیا اس کا شکریہ ادا نہیں کرنا چاہئے؟
جواب:
شکریہ ادا کرنا چاہئے، جَزَاکَ اللہ کس کو کہتے ہیں؟ جَزَاکَ اللہ تو دعا ہے۔ دنیا کی بات چھوڑیں، آپ دینی طریقے سے کر لیں اور جَزَاکَ اللہ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دے۔ ہمارے ایک ساتھی کا ذرا ایک لطیفہ سا ہے، وہ میں آپ کو سناتا ہوں، اس کی کسی بات پر میں نے کہا جَزَاکَ اللہ۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں۔ جیسے کوئی شکریہ ادا کرتا ہے، کہتا ہے کوئی بات نہیں۔ میں نے کہا: ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ کہ دعا پر کہتا ہے کوئی بات نہیں۔ پھر وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتا ہے یہ تو غلطی ہوگئی، کیونکہ میں سمجھا نہیں کہ جَزَاکَ اللہ دعا ہے۔ تو آپ دعا دے دیں، یہ اس کا حق ہے۔ البتہ اس میں اکثر لوگ غلطی کرتے ہیں۔ کیونکہ جَزَاکَ اللہ مردوں کے لئے ہے، عورتوں کے لئے جَزَاکِ اللہ ہے۔ لہٰذا اگر کسی کی والدہ یا بہن یا بیٹی کوئی کام کر دے تو اس کو جَزَاکِ اللہ کہہ دیں۔
سوال نمبر 13:
اس طرح کے ماحول سنت بھی ہیں؟
جواب:
دونوں سنتیں ہیں، بیان بھی سنت ہے، آپ ﷺ کے بیانات بھی ہوئے ہیں اور یہ بھی سنت ہے، دونوں سنتیں ہیں الحمد اللہ۔ وہ بیان کی سنت ہے یہ مجلس کی سنت ہے۔ آپ ﷺ اشراق کے وقت نماز پڑھنے کے بعد تشریف فرما ہوتے تھے، اس وقت صحابہ بیٹھے ہوتے تھے۔ اس طرح درمیان میں بات چیت ہوتی تھی، کوئی بات کسی نے پوچھی، کسی نے خواب سنایا، کسی نے کوئی اور استفسار کیا تو اس طرح سے ہلکی پھلکی بات چل رہی ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ ایک دوسرے کو شعر بھی سناتے تھے۔ بعض لوگ ذرا touchy ہوتے ہیں، شعر کی بات آجاتی ہے تو ماتھے پہ بل آجاتا ہے یہ کہاں سے آگیا۔ حالانکہ میں تو کہتا ہوں کہ عرب تو تقریباً سارے ہی شاعر ہوتے تھے، اکثر صحابہ کی نعتیں موجود ہیں، اکثر صحابہ کے اشعار موجود ہیں۔ لہٰذا ایسا بھی ہوتا تھا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔