سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 227

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم۔ حضرت جی! کچھ باتیں عرض کرنی تھیں۔ میں نے آپ کو ایک مرتبہ بتایا تھا کہ مراقبے میں دھیان نہیں لگ رہا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مراقبہ صبح کر لیا کرو، جہری ذکر عصر کے بعد کر لیا کرو۔ اگر مراقبہ صبح کرتا ہوں، (اور اگر کبھی صبح نہ ہو تو پھر دن کو کر لیتا ہوں) صبح کرنے سے دھیان کچھ بہتر لگتا ہے۔ جہری ذکر میں ’’اَللہ اَللہ‘‘ کی ضرب کا پتا نہیں لگتا کہ دل پر لگ رہی ہے یا نہیں۔ کچھ دن پہلے خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں اپنی بہن کو موٹر سائیکل پر جیلہ شہر سے گھر لاتا ہوں، شہر سے نکلتے ہی پل پر ہمارے سامنے سے ایک کالی کار ہماری طرف آتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ ٹکر ہونے والی ہے۔ میں 3 مرتبہ ’’یا اللّٰہ! خیر‘‘ کہتا ہوں تو اچانک سے وہ کار دوسری طرف مڑ جاتی ہے اور ہم بچ جاتے ہیں۔ میں پاس کھڑے ایک آدمی سے کہتا ہوں کہ میں نے یہ کہا ’’یا اللّٰہ خیر‘‘ تو ہم بچ گئے۔ اس وقت میرے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ حضرت جی نے ایسا بتایا تھا کہ جب کوئی اچانک مصیبت آجائے تو ’’یا اللّٰہ خیر‘‘ پڑھیں۔ مدرسے میں مغرب کے بعد اوابین سنتوں کے ساتھ ملا کر پڑھتا ہوں، اس کے بعد فوراً کلاس میں جاتا ہوں، جس کی وجہ سے نماز کے بعد والی تسبیحات نہیں کر پاتا۔ جب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کرتے ہوئے دھیان ادھر ادھر چلا جائے تو کبھی کبھی زبان سے ’’اِلَّا اللہُ‘‘ نکل جاتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ فکر ہے ان کو، اور یہ اچھی بات ہے، کیونکہ فکر سے ہی کام نکلتا ہے۔ مراقبے کے بارے میں جیسے میں نے عرض کر لیا تھا، اس طرح کرنے سے ان کو فائدہ ہو رہا ہے، کیونکہ مراقبہ دھیان کو حاصل کرنے کا طریقہ ہے، مراقبے سے انسان کا آہستہ آہستہ باقی اعمال میں دھیان لگنے لگتا ہے، چاہے وہ فرض اعمال ہیں، جیسے نمازیں، اور چاہے وہ مسنون اعمال ہیں، ان سب میں پھر جی لگنے لگتا ہے۔ اس کو پھر ایک خاص چیز کے دھیان کا طریقہ آ جاتا ہے۔ جہری ذکر میں ’’اَللہ اَللہ‘‘ کی ضرب کے بارے میں بالمشافہ بات کریں گے، پھر پتا چلے گا۔ اور جو خواب آپ نے بتایا، یہ اچھا خواب ہے، اس میں سکھایا جاتا ہے کہ اچانک مصیبت کے وقت اللّٰہ کی طرف متوجہ ہونا (چاہے یہ کسی بھی طریقے سے ہو) مفید ہوتا ہے۔ اور ’’یا اللّٰہ خیر‘‘ یہ دعا ہے، اور بڑی اچھی دعا ہے اس موقع کی۔ اور اوابین کا جو بتاتے ہیں کہ سنتوں کے ساتھ ملا کر پڑھتا ہوں اور اس کے بعد کلاس میں چلا جاتا ہوں۔ نماز کے بعد والی تسبیحات میں time کتنا لگتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ اوابین میں کتنا وقت لگتا ہے اور تسبیحات میں کتنا وقت لگتا ہے۔ اوابین میں تو نسبتاً زیادہ وقت لگتا ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں اس طرح کر لیا کریں کہ نماز کے بعد والی تسبیحات فوراً کر لیا کریں یعنی سنتیں پڑھنے کے بعد نماز والی تسبیحات کر لیں، اس کے بعد مختصر اوابین پڑھیں، تفصیل سے ایسے موقع پر نہ پڑھیں۔ اور دھیان تو ضروری چیز ہے، اس لئے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کے ذکر میں دھیان رہنا چاہئے۔ باقی مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا کہہ رہا ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے دھیان ادھر ادھر چلا جائے تو زبان سے ’’اِلَّا اَللہُ‘‘ نکل جاتا ہے۔ یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کی جگہ ’’اِلَّا اللہُ‘‘ نکل جاتا ہے، تو بے دھیانی سے زیادہ نکلنا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن کم نکلنا سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے خیال میں کچھ زیادہ ہی بے دھیانی ہے۔ اس کا علاج ہونا چاہئے، اس کو باقاعدہ سوچ کر کر لیں۔ اس کے ساتھ جو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا مراقبہ ہے وہ صحیح طریقے سے کر لیا کریں، پھر بے دھیانی نہیں ہوگی۔ اگلا point وہ بالمشافہ دیکھنے کا ہے۔

سوال نمبر 2:

ایک خاتون ہے، جس نے اپنے معمولات کا چارٹ بھیجا ہے اور ساتھ ہی یہ لکھا ہے کہ حضرت جی کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ مجھ کو کچھ کچھ تفویض و توکل نصیب ہو رہا ہے، دنیا کی محبت کم ہو رہی ہے، اللّٰہ تعالیٰ کی محبت بڑھ رہی ہے، لیکن ڈر لگتا ہے کہ کہیں شیطان یہ بات دل میں ڈال کر مطمئن نہ کرنا چاہتا ہو، کبھی ڈر لگتا ہے کہ یہ چیزیں وقتی ہیں اور مجھ سے یہ چیزیں واپس چلی جائیں گی، کبھی رات کو نیند نہیں آتی، تو لگتا ہے کہ شیخ کی محبت کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے یا خود بخود دل اور نفس کی اصلاح سے متعلق اور شیخ سے متعلق اشعار ذہن میں آتے ہیں، کبھی صبح اٹھ کر بالکل غفلت بھرا دل ہوتا ہے، یعنی کبھی کیسا حال اور کبھی کیسا حال۔ اپنے آپ ڈر لگتا کہ میرا کیا بنے گا! خاتمہ بالایمان کی فکر ہوجاتی ہے کہ یا اللّٰہ! بس اتنا ضرور نصیب کیجئے گا، مجھے کسی حال کی طلب نہیں، بس دعا کی ضرورت ہے، اپنا حال بہت بلند نظر آتا ہے۔ دعا فرمائیں کہ اللّٰہ میرے ہوجائیں اور میں اللّٰہ کی بن جاؤں۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ! بڑے اچھے حالات ہیں۔ توکل اور تفویض یہ بہت قریب قریب ہیں۔ تفویض میں انسان اللّٰہ پر بات کو چھوڑتا ہے اور توکل میں اللّٰہ پر بھروسہ ہوتا ہے۔ جن پر بھروسہ ہوتا ہے، ان پر ہی ساری چیزیں چھوڑی جاسکتی ہیں، اللّٰہ تعالیٰ یہ اگر نصیب فرما دے کہ دنیا کی محبت کم ہو تو کیا بات ہے۔ اور ڈر لگنا چاہئے۔ کسی نے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے خط لکھ کر پوچھا تھا کہ حضرت! مجھے ایک خطرہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے، فرمایا: یہ خطرہ تمہارے خط پر قطرہ ہے۔ اسی لئے خطرہ تو ہونا چاہئے کیونکہ اگر انسان مطمئن ہوجائے تو یہ بہت مشکل چیز ہے اور بہت خطرناک چیز ہے۔ لہٰذا ڈر لگنا چاہئے۔ اور یہ چیزیں وقتی ہی ہوسکتی ہیں، لیکن اللّٰہ پاک اس کو مقام بنا دے، کیونکہ پہلے حال ہوتا ہے، پھر مقام ہوتا ہے۔ بہرحال باقی ساری باتیں اسی رخ سے ہیں۔ حال کبھی کیسا ہوتا ہے، کبھی کیسا ہوتا ہے، اس لئے ان کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے، بس اصل چیز مقام ہے، تو مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مقام کے اخیر میں پھر کسی اچھے حال پر مقام نصیب ہوجاتا ہے۔ دل و جان سے دعا کرتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں اور ہم سب کو یہ توفیق اور یہ حال نصیب ہوجائے کہ ہم اللّٰہ کے ہوجائیں اور اللّٰہ ہمارے ہوجائیں۔

سوال نمبر 3:

حضرت خوش اخلاقی اور تزکیۂ نفس کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟

جواب:

تزکیۂ نفس میں خوش اخلاقی خود شامل ہے، کیونکہ انسان کا جب تزکیۂ نفس ہوجاتا ہے تو خوش اخلاقی نصیب ہوجاتی ہے، کیونکہ نفس میں اگر تکبر نہ ہو تو تکبر کے نہ ہونے کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا، جب اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا تو دوسروں کے حقوق نظر آجاتے ہیں، جب دوسروں کے حقوق نظر آجاتے ہیں تو ان حقوق کو پورا کرنے کی فکر ہوجاتی ہے اور جب فکر ہوجاتی ہے تو اس پر عمل کرنا مشکل نہیں ہوتا، بلکہ ان کا اکرام کرنا اور ان کے حقوق کی ادائیگی آسان ہوجاتی ہے یعنی جس موقعے کا اور جس چیز کا تقاضا ہوتا ہے تو اس کو پورا کرنا مشکل نہیں رہتا۔ صرف علم کی ضرورت ہوتی ہے، عمل پھر مشکل نہیں رہتا۔ پھر آپ ﷺ کی سیرت کو پڑھ کر انسان اس پر چلے تو پھر کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ اسی سے خوش اخلاقی نصیب ہوجاتی ہے۔

سوال نمبر 4:

حضرت جی! تبتل کی کیا تعریف ہے؟

جواب:

تبتل اپنے آپ کو دنیا سے وقتی طور پر کاٹنا ہے یعنی دنیا کا ہمارے اوپر ایسا اثر نہ رہے کہ ہم اللّٰہ کی طرف متوجہ ہونے سے رک جائیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے۔ لیکن جس وقت انسان اللّٰہ کی طرف متوجہ ہو، نماز پڑھ کر یا ذکر کے ذریعے تو اگر دنیا کے جھمبیلے اس کے ساتھ ہوں، مثلاً دن کا وقت ہے اور اس کو کچھ اور کام بھی کرنا ہے، اس وجہ سے اس کو بار بار اس کا خیال آتا ہے کہ اب یہ کام کرنا ہے، اب یہ کام کرنا ہے، تو یہ متوجہ ہونے سے روکنے والی چیزیں ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے آدمی کو پریشانی ہوتی ہے، رکاوٹ ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں 2 کام کرنے ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ اپنے آپ کو ظاہری طور پر دنیا کے چیزوں سے کاٹیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اپنے دل کو ان سے فارغ کریں یعنی داخلی طور پر 2 باتیں کرنی ہوتی ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ بہتر یہ رات کے وقت ہوسکے گا۔ کیونکہ باقی لوگ اپنے خواب وغیرہ میں مصروف ہوتے ہیں اور سو رہے ہوتے ہیں، تو ایسی صورت میں جو شخص اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، تو اس کی ظاہری طور پر کوئی disturbances نہیں ہوگی۔ یا پھر یوں سمجھ لیا جائے کہ دن کے وقت بھی اگر کوئی آدمی خلوت میں چلا جائے یعنی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں پر اس کے آس پاس کوئی نہ آئے تو یہ بھی تبتل کا ظاہری طور پر ذریعہ ہوگا، تو یہ 2 کام بھی کرسکتے ہیں۔ یعنی رات کے وقت جب خود بخود انسان دوسروں کے سونے کی وجہ سے خلوت میں چلا جاتا ہے، یا دن کے وقت اپنے آپ کو کسی ایسی جگہ پر مقید کر لے اور پابند کر لے کہ جہاں لوگ نہ آسکتے ہوں، تو یہ ظاہری صورت بنی۔ داخلی طور پر انسان اپنے آپ کو باقی چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہونے دے اور دل کو اس میں مشوش نہ ہونے دے، اس میں یہ بات ہے کہ انسان اپنے آپ کو یہ سمجھا دے کہ یہ وقت میں نے اللّٰہ کو دیا ہے، لہٰذا میں نے اس میں کچھ اور نہیں کرنا۔ مثلاً جس وقت ہم نماز پڑھتے ہیں، تو نماز میں ہم نے تکبیر تحریمہ کہہ دی اور تکبیر تحریمہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے اوپر تمام جائز کام جو نماز میں نہیں کیے جاسکتے وہ اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے، یہ تکبیر تحریمہ کا مطلب ہوتا ہے۔ جب نماز کے اندر اپنے اوپر حقیقی انداز میں حرام کر لیتا ہے تو اب وہ کوئی ایسی activity (جو جائز ہے اور اس پر اجر ہے، لیکن نماز کے باہر ہے، نماز کے اندر نہیں ہے تو) نہ کرے بلکہ وہ اپنے آپ کو سمجھا دے کہ کر تو سکتے نہیں، تو اس کی طرف سوچتے کیوں ہو۔ یعنی جب میں یہ کر نہیں سکتا تو اس کی طرف کیوں متوجہ ہوجاؤں۔ لہٰذا عقلاً اس سے اپنے آپ کو کاٹ دے کہ میں نے اس چیز کو کچھ نہیں touch کرنا۔ مثال کے طور پر فرمایا گیا ہے کہ جو نماز کے کسی رکن میں امام سے آگے آجاتا ہے، مثلاً سجدے میں جلدی چلا جاتا ہے یا رکوع میں جلدی چلا جاتا ہے تو اس میں اس کے سر کو گدھے کا سر بنا دیا جائے، کیونکہ گدھا بیوقوفی کی ایک علامت ہے، تو یہ اتنی بڑی بے وقوفی کر رہا ہے، کیونکہ اگر یہ آگے چلا بھی گیا تو نماز تو نہیں ختم کرسکتا، بلکہ نماز تو امام سے پہلے ختم نہیں کرسکتا، اب جو چیز اس کو معلوم ہے کہ میں اس سے آگے کچھ بھی نہیں کرسکتا تو امام کے ساتھ ساتھ کیوں نہ رہیں، اور امام کے پیچھے کیوں نہ رہیں۔ لہٰذا جیسے نماز کے اندر انسان اپنے آپ کو سمجھا دے، تو اسی طرح خلوت کے اندر بھی اپنے آپ کو سمجھا دے کہ میں نے یہ وقت چونکہ اس کے لئے مختص کردیا ہے، اور اپنے آپ کو disconnect کر لیا ہے۔ اب میں کسی اور چیز کی طرف توجہ کیوں کروں؟ تو عقلی طور پر اس کی طرف دھیان نہ کرے اور اگر وسوسے کی صورت میں آجائے تو اس کی پروا نہ کرے۔ یہ تبتل ہے۔

سوال نمبر 5:

گھر میں کمبل اوڑھ کے اور لیٹ کے ذکر کرنا یا سوچنا، کیا یہ بھی تبتل ہے؟

جواب:

بیشک یہ خلوت ہے اور ایسی خلوت ہے کہ جس میں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ آپ سو رہے ہیں، لیکن آپ جاگ رہے ہوتے ہیں اور اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ لہٰذا بالکل ایسا ممکن ہے۔ ہمارے ایک مردان کے بزرگ تھے، قادری سلسلے کے شیخ تھے، ان کے ایک مرید مجھے بتا رہے تھے کہ مجھے حضرت نے فرمایا تھا (شاید ان کو کوئی ذکر دیا تھا، اس ذکر کے کرنے کے بعد فرمایا) کہ نماز سے کچھ پہلے جا کے آپ اس طرح بیٹھیں کہ جیسے آپ سو رہے ہوں، اور اور اس کے اندر مراقبہ کر لیا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں یا پھر کوئی اور مراقبہ کی صورت بتائی تھی۔ تو یہ بھی ایک ظاہری تبتل ہے، کیونکہ ظاہری تبتل میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی اس طرف آئے ہی نہیں، اب جو سو رہا ہے یا سونے کو show کر رہا ہے تو وہ بھی کسی اور کو آنے سے روک رہا ہے۔ کیونکہ لوگ کہیں گے کہ یہ تو سو رہا ہے۔ اس لئے اگر وہ بیٹھے بیٹھے سو سکتے ہیں تو آپ تو کمبل کے اندر سوئے ہوئے ہوں تو یہ تو زیادہ بہتر ہے۔ اس وجہ سے یہ بھی تبتل کی ایک صورت ہے۔

سوال نمبر 6:

حضرت جی! ھدیہ کے اثرات ہوتے ہیں، مثلاً استعمال شدہ اشیاء میں اثرات ہوتے ہیں، جیسے کسی نے کرسی استعمال کی ہو، اس کا اثر اس کرسی میں آیا پھر اس کے بعد کوئی اور آیا اور بیٹھا تو اس کو اگر محسوس ہو اور فرق لگے کہ اس کا اثر مجھ پر ہو رہا ہے۔

جواب:

یہ تبرک کہلاتا ہے۔ تبرک چیزوں سے حاصل کرنا ہوتا ہے اور انسان کے اعتقاد کو بھی اس میں دخل ہوتا ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ سے جو گمان کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے۔

’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ‘‘۔ (صحیح بخاری: 7405)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں‘‘۔

لہٰذا اس اصول کے مطابق انسان جس شخص کو اللّٰہ کے نزدیک معظم سمجھتا ہے کہ یہ اللّٰہ کے ولی ہیں۔ اور اس کا کوئی کپڑا وہ پہن لیتا ہے یا اس کی کوئی چیز استعمال کرتا ہے تو اس اعتقاد کی وجہ سے جو اس کو حاصل ہے اللّٰہ تعالیٰ اس کی برکت عطا فرما دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے لوگ اپنی استعمال شدہ چیزیں اپنے مریدوں کو یا اپنے متعلقین کو دے دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ قسم کھا سکتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں، وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے، لیکن دوسروں کو دیتے ہیں۔ آخر کیوں دیتے ہیں؟ کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ یہ میں نہیں دے رہا بلکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ دے رہا ہے، اور ان کے اعتقاد کے مطابق دے رہا ہے۔ تو چونکہ ان کا اعتقاد ان کے ساتھ ولی اللّٰہ ہونے کا ہوتا ہے لہٰذا ان کو ان سے ولی کا فیض مل جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ فرماتے ہیں کہ اپنے شیخ کو اگر کوئی قطبِ وقت سمجھ لے، (وہ ہے یا نہیں، یہ تو اللّٰہ کو پتا ہے، یہ اللّٰہ کا کام ہے، اللّٰہ ہی جانتا ہے کہ کون کیا ہے! لیکن) اپنے شیخ کو اگر کوئی قطبِ وقت سمجھے تو اس کو قطب وقت کا فیض ملتا ہے۔ جیسے فارسی میں ہے ’’پیرِ ما خس است، اعتقادِ ما بس است‘‘ کہ میرا پیر اگر خس بھی ہے تو میرے لئے کافی ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے شیخ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہے اور ان کے مطابق ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ اللّٰہ کے بہت قریب ہیں، تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے۔ یہی چیز تبرکات میں بھی ہے، یعنی جس کو جس کا بھی تبرک مل جائے، چاہے وہ کھانے پینے کی صورت میں ہو، چاہے وہ اوڑھنے کی چیزوں کی صورت میں ہو، چاہے وہ کوئی اور چیز برتنے کی صورت میں ہو، لیکن اس میں وہ برکات ان کی سوچ اور فکر کے مطابق آجاتی ہیں۔

سوال نمبر 7:

اشیاء میں سے انسان کو اسی قسم کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے کیا وظیفہ کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

دیکھیں! میرے خیال میں آپ ذرا تھوڑا سا کسی اور طرف جا رہے ہیں۔ یہ آپ لکھ لیں کیونکہ یہ عوام کی بات مجھے نہیں لگ رہی۔ اس میں عوام کی جتنی بات تھی وہ میں نے بتا دی ہے، اب جو اور چیز آپ بتا رہے ہیں تو اس کو آپ تھوڑا سا elaborate کر کے لکھ لیں، پھر اس کا میں جواب دوں گا ان شاء اللّٰہ۔

سوال نمبر 8:

مختلف لطائف کے پھڑکنے کے وقت کیا کرنا چاہئے؟ مثلاً چہرے کے اوپر یا شہ رگ کے قریب۔

جواب:

اگر کسی کے لطائف پھڑک رہے ہیں تو اس کو ذکر کے ساتھ متعلق کرنا چاہئے، یعنی اللّٰہ کی طرف اس مسئلے میں متوجہ ہونا چاہئے کہ اللّٰہ جل شانہٗ کی طرف سے فیض ان جگہوں پر (جہاں پر یہ لطائف ہیں، وہاں پر)آرہا ہے۔ تو اس کے ساتھ اس کو attach کر لیں۔ پھر اس کی جو برکات ہیں وہ حاصل ہوجائیں گی اور اگر اس سے کچھ مسئلہ ہو رہا ہو، مثلاً جذب کی کوئی کیفیت آرہی ہے، جس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا تو پھر شیخ سے اس کو discuss کرے۔

سوال نمبر 9:

اگر یہ لگ رہا ہو کہ مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے، اس لئے یہ پھڑک رہی ہے۔

جواب:

جی یہ بالکل ہوسکتا ہے۔ ہمارے حضرت مولانا مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مجھے فرمایا تھا کہ لوگوں کے اچھے حالات میں لطائف پھڑکتے ہیں، لیکن ہم سے اگر کوئی گناہ ہوتا ہے تو اس وقت لطائف پھڑکتے ہیں۔ حضرت کے قول کے مطابق اس کی theory یہ ہے کہ ایک ہوتی ہے کثافت، ایک ہوتی لطافت، کثافت گناہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ جب انسان ہوتا ہے تو اس میں لطافت ہوتی ہے۔ لہٰذا جس وقت انسان سے گناہ ہوتا ہے تو اس وقت انسان میں چونکہ کثافت آجاتی ہے، لہٰذا وہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ اگر اس کے لطائف زندہ ہوں تو یہ بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے، اور زندہ نہ ہوں تو پھر وہ محسوس ہی نہیں ہوتا، بلکہ پھر تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب ان کو محسوس ہونے لگتا ہے تو پھر وہ استغفار کرتے ہیں، جب استغفار کرتے ہیں تو پھر مقام لطیف پر پہنچ جاتا ہے اور وہ گناہ معاف ہوجاتا ہے اور اس کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ پھر دوبارہ وہ لطیفے بن جاتے ہیں یعنی پھر وہ اس طرح ہوتے ہیں جیسے پانی کے اندر لہریں ہوتی ہیں، وہ ہاتھ لگانے سے تو محسوس ہوتی ہیں، لیکن کسی طرح پتا نہیں چلتا، البتہ غور کرنے سے اس کا پتا چلتا ہے کہ یہ ہو رہا ہے، لیکن ویسے آدمی کو یوں محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ جیسے کچھ نہیں ہو رہا۔ اور وہ لطيفہ بھی تب ہی ہوتا ہے کہ وہ لطیف ہوتا ہے۔

سوال نمبر 10:

حضرت! کل ویسے ہی ایک بات دل میں آئی تھی کہ جب گناہ میں انسان پڑتا ہے تو اس وقت محسوس ہوتا ہے، یعنی ظلمت کا ادراک ہوتا ہے، تو اگر وہ کوئی اور طریقے استعمال کریں تو وہ چیز تو زائل ہوجائے گی، لیکن اصل چیز جو ہے وہ ختم نہیں ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ گناہ جو کر لیا ہے اور وہ معاف ہوگیا، لیکن گناہ معاف ہونے سے پھر وہ انسان کو یاد نہیں رہتا، تو ان دونوں میں فرق کیسے کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

یہ تو انسان کو پتا ہوتا ہے، مثلاً کسی کا ضمیر اس کو تنگ کر رہا ہوتا ہے، اور یہ بڑی مشکل صورت حال ہوتی ہے، اس لئے وہ tranquillizer استعمال کرنا شروع کر لیتے ہیں۔ اکثر یہ جو psychiatrist ہوتے ہیں، جو یہاں مسلمان نفسیاتی مریضوں کے علاج میں دھوکہ کھاتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا دھوکہ یہی ہوتا ہے، یعنی ان کے ضمیر کی پکار کی وجہ سے وہ disturb ہوکر نفسیاتی مریض بن چکے ہوتے ہیں، مگر ڈاکٹر ان کو پتا نہیں کون سی چیز سمجھنے لگتے ہیں، نتیجتاً ان کو وہ dose دینے لگتا ہے۔ جو dose وہ دیتا ہے، وہ اس کی حس یعنی sensitivity کو روک دیتی ہے، پھر اس sensitivity کے رکنے کی وجہ سے Dosing effect اور اس قسم کی چیزیں ان کو ہوتی ہیں، لیکن اصل بیماری تو دور نہیں ہوئی۔ لیکن اگر یہ مسلمان psychiatrist کے پاس جاتا ہے، جو صحیح مسلمان ہو، اور جو جاننے والا ہو، تو وہ 2 منٹ میں اس کا سارا معاملہ clear کردے گا، وہ یہ کہ اس کو توبہ کرا دے گا، اور جس چیز کی ضرورت ہے مثال کے طور پر کسی انسان سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے، یا اس کا حق غصب کیا ہے تو وہ اس کی طرف توجہ دلا دے گا، تو اس کا علاج بھی ہوجائے گا اور گناہ بھی ختم ہوجائے گا اور اس کے اثرات بھی ختم ہوجائیں گے اور وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ ہمارے پاس اس قسم کے لوگ آتے ہیں، ان کو جس وقت ہم یہ بتاتے ہیں اور جب یہ چیز ٹھیک ہوجاتی ہے، تو ماشاء اللّٰہ! ساری چیزیں ان کی ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ مثلاً جو یہاں کے psychiatrist ہیں اور باہر سے پڑھ کے آئے ہیں، تو وہ ان کو کہتے ہیں کہ ’’ٹی وی‘‘ دیکھو، ’’میوزک‘‘ سنو یعنی اس طرح کی چیزیں ان کو بتاتے ہیں کہ یہ کرو، اب اگر وہ اس طرف ہوگیا تو وہ ڈھیٹ بن گیا، پھر ان کو کچھ پروا نہیں رہے گی۔ ظاہری طور پر تو ان کو شاید کچھ فائدہ وقتی طور پر یا کچھ وقت کے لئے ہوجائے، لیکن اس کے مرض کا علاج تو نہیں ہوا، بلکہ وہ تو نقصان میں چلا گیا۔ ایک پوائنٹ تو یہ ہوا۔ دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ گناہ یاد نہیں رہتا توبہ کے بعد۔ تو کیا توبہ بھی اس کو یاد نہیں ہوگی، توبہ کو بھی بھول جائے گا؟ جب توبہ یاد ہوتی ہے تو اس کے اثر سے گناہ بھول جاتا ہے، تو یہ اللّٰہ کی نعمت ہے۔

سوال نمبر 11:

مرشد اگر فوت ہوجائے، اور دوسری جگہ بیعت کی جائے تو کہتے ہیں کہ اپنے دوسرے مرشد جو زندہ ہیں، ان سے زیادہ محبت کرے بنسبت اپنے سابقہ مرشد کے۔ اگر یہ چیز اس کے بس میں نہ ہو تو پھر فیض میں اثر ہوگا؟

جواب:

یہ آپ نے کہاں پر دیکھا ہے کہ اپنے زندہ مرشد سے زیادہ محبت کریں؟ محبت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ البتہ اطاعت کا مسئلہ ہے، مثال کے طور پر پرانے مرشد نے ان کو کوئی بات بتائی تھی کہ آپ یہ ایسا کرو، اب ظاہر ہے کہ یہ کچھ اور حالات میں بتایا تھا، لیکن اب موجودہ حالات کے اندر دوسرے مرشد نے بتایا ہے کہ آپ ایسا کرو، تو اب نئے مرشد کی بات ماننی ہے، اور پرانے مرشد کی بات وقت کے حساب سے چلے گی۔ کیونکہ حالات نئے آگئے ہیں تو جواب بھی نیا آگیا۔ لہٰذا اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ لہٰذا اطاعت میں نیا مرشد اولٰی ہے، ان کی بات پر عمل کرنا پڑے گا۔ جیسے ہمارے ایک ساتھی تھے، جو خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بیعت تھے، حضرت کی وفات کے بعد مجھ سے بیعت کی تو ان کو ایک دفعہ حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا تھا کہ یاد رکھو! اب تم شاہ صاحب کی بات ایسے مانو گے جیسے خان محمد کی بات مانا کرتے ہو۔ اب تم شاہ صاحب کو خان محمد کی جگہ پر سمجھو گے۔ مطلب یہ ہے کہ اب جیسے میں تمہیں کہا کرتا ہوں اور تم بات مانتے ہو، اسی طرح اب شاہ صاحب جو تمہیں کہیں، اس کی بات کو بھی اسی طرح مان لیا کرو۔ لہٰذا ماننے میں پھر یہی بات ہے کہ نئے مرشد کی بات ماننی پڑتی ہے۔ کیونکہ حالات نئے ہیں، تو نئے حالات میں، نئے سوال میں، جواب نیا ہوتا ہے۔ لیکن محبت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مجھے بتائیں! آپ ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہے یا نہیں ہے؟ اور سلسلے کے سب سے پہلے بھی آپ ﷺ ہیں، تو وہ قانون ٹوٹ گیا یا نہیں ٹوٹ گیا؟ اس لئے محبت پر پابندی نہیں ہے، البتہ اطاعت پر پابندی ہے کہ اطاعت نئے مرشد کی کرنی ہے۔ ہمیں اپنے مرشد کے ساتھ اب بھی ویسی ہی محبت ہے، الحمد للّٰہ! بلکہ ان کی یاد آتے ہی ہماری حالت بدل جاتی ہے یعنی کچھ تبدیلی آجاتی ہے۔ تو یہ اللّٰہ کی بہت بڑی نعمت ہے، ہمیں اللّٰہ تعالیٰ اور بھی نصیب فرما دے، مزید اللّٰہ تعالیٰ اس کو بڑھائے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ہم تو بڑے بڑے بزرگوں سے شرمندہ ہیں اس محبت کے معاملے میں، کیونکہ جو ہمارے ساتھ محبت کرتے تھے تو الحمد للّٰہ ہم بھی کرتے ہیں، لیکن ان سے شرمندہ ہیں کہ ان کے ساتھ وہ محبت نہیں ہوسکی جو اپنے شیخ کے ساتھ ہوئی ہے۔ لہٰذا محبت چیز ہی ایسی ہے کہ اس پر انسان کو کنٹرول بھی نہیں ہے اور اس پر پابندی بھی نہیں ہے۔

سوال نمبر 12:

شیخ کے علاوہ کسی اور بزرگ سے ملاقات کی جاسکتی ہے؟

جواب:

جی، بالکل کی جاسکتی ہے۔ میں نے خود حضرت سے پوچھا تھا (مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے) کیونکہ میں ادھر تھا اور یہاں کے جو بزرگ ہوتے تھے ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا اور حضرت کو باقاعدہ کارگزاری سنایا کرتا تھا کہ ان کے ساتھ یہ بات ہوگئی اور یہ بات ہوگئی، انہوں نے یہ بتایا ہے، تو حضرت خوش ہوتے تھے، البتہ تربیت کا معاملہ صرف اپنے شیخ کے ساتھ ہو۔ کیوںکہ یہ معاملہ ڈاکٹر کی طرح ہے۔ باقی علمی کام میں آپ کسی کے ساتھ جو تعاون کر رہے ہیں، وہ دین کے لئے کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس پر تو اجر بھی مل رہا ہے، اور اس پر فائدہ بھی مل رہا ہے، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ لیکن اتنا خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ کسی شیخ کی اگر آپ کے شیخ کے ساتھ مناسبت نہیں ہے یا کسی مسئلے میں اختلاف ہے، تو اس میں چونکہ بہت کم لوگ اس کو balance پر رکھ سکتے ہیں، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، تو اس صورت میں ان کے ساتھ بیٹھنے سے نقصان ہوتا ہے۔ الحمد للّٰہ ہمیں تو شیخ نے اس کا ذوق عطا فرمایا تھا، اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ balance نصیب ہوجاتا ہے، لیکن یہ بہت کم ہے، آج کل کے دور میں تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اس وجہ سے نقصان ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا جن حضرات کی آپ کے شیخ کے ساتھ مناسبت نہ ہو یا کوئی اس قسم کی بات ہو یا غلط فہمیاں ہوں تو ان کے ساتھ بیٹھنے سے نقصان ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کی اپنی بزرگی اپنی جگہ پر ہوتی ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ صرف ہماری سوچ میں ہے کہ ہم گڑبڑ کر لیتے ہیں، ہم درمیان میں adjustment نہیں کر رہے ہوتے، نتیجتاً نقصان ہوجاتا ہے۔ اس لئے ایسے حضرات کے ساتھ صرف Management point of view سے جو نقصان ہوسکتا ہے، یعنی تشویشات کی وجہ سے، confusions کی وجہ سے۔ اس لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ