سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 223 ذکر اور دعا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

Respected Hazrat Shah Sahib, Aslam o alaikum. I have apologized that I am not in regular contact. الحمد اللہ I am regular in نماز now. And for تسبیح، ذکر and درود شریف I have set time early in the morning. I am doing well in an offshore job from morning to late evening. Sometimes, when I am upset at my job for some other reason then most of the time you come in my خواب and thereafter I feel relaxed. I have many questions to ask but I hesitate because of lack of knowledge, selection of words, lack of confidence or in your high respect. Please advise. Your great kindness and your full time efforts in serving deen and islam is an asset. I pray for your good health. It is requested to please remember me in your dua.

جواب:

یہ کسی نے باہر سے email کی ہے۔ اس پر تو اللہ کا شکر ہے کہ آپ نماز اور تسبیح اور ذکر میں regular ہیں۔ لیکن contact میں بھی regular ہونا مفید ہوتا ہے۔ ذکر و اذکار یہ دل کی زمین کو نرم کرتے ہیں اور contact سے انسان کو ترقی ہوتی ہے، یعنی انسان کے اندر استعداد اور صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ دل کی زمین جب نرم ہو تو جو بات کی جاتی ہے، اس کو انسان مان لیتا ہے۔ لہٰذا دو چیزوں کی تاکید ہوتی ہے، ایک زمین کو نرم کرنے کی، دوسرا بیج ڈالنے کی۔ صحبت شیخ بیج ڈالنے کے لئے ہوتی ہے اور ذکر کے معمولات دل کی زمین کو نرم کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ جب صحبت شیخ موجود نہ ہو تو پھر اس کے ساتھ خط و کتابت اس کے قائم مقام ہوتی ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ خط آدھی ملاقات ہوتی ہے کیونکہ یہ ملاقات کے قائم مقام ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اس میں بھی کمی نہیں کرنی چاہئے۔ مہینے میں ایک دفعہ contact ضرور کرنا چاہئے۔ شیخ کا خواب میں آنا یہ سلسلے کی طرف سے تعلق کی علامت ہے، یعنی شیخ کا خواب میں آنا یہ سلسلے کا خواب میں آنا ہوتا ہے۔ کیونکہ شیخ سلسلے کا نمائندہ ہوتا ہے۔ سوالات تصوّف سے متعلق جو بھی آپ کے ذہن میں ہیں وہ ضرور کرنے چاہئیں۔ کیونکہ اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے اور دوسروں کا بھی فائدہ ہے۔ چاہے وہ email کے ذریعے سے ہوں، چاہے میسج کے ذریعے سے ہوں اور چاہے ٹیلی فون کے ذریعے سے ہوں یعنی جو بھی طریقۂ کار ممکن ہو اس کے ذریعے سے سوالات اگر ہم تک آجائیں تو الحمد للہ! اس فورم پر ہم اس کا جواب دے دیتے ہیں۔ پھر جو لوگ اس کو سنتے ہیں ان کو بھی فائدہ ہوجاتا ہے اور بعد میں اگر یہ چیزیں compile ہوجائیں اور نیٹ پر آجائیں تو ان شاء اللہ اس کا بھی فائدہ ہوگا۔

سوال نمبر 2:

حضرت جی! السلام علیکم۔ میری عمر 41 سال ہے۔ دنیاوی طور پر ایک ذمہ دار عہدے پر پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ آفس کے مشاغل کافی demanding ہوتے ہیں۔ آفس میں اپنے جاب کی حفاظت اور اچھا بننے کے شوق کی وجہ سے اکثر محنت کرنی پڑتی ہے اور لیٹ بیٹھنا پڑتا ہے۔ گھر آفس سے دور ہے، اس لئے دو گھنٹے روزانہ travelling میں گزر جاتے ہیں۔ Saturday اور Sunday کو چھٹی ہوتی ہے۔ الحمد اللہ! Financially stable ہوں۔ اور گھر میں چوکیدار اور ڈرائیور بھی ہیں اور بچے بھی ہوتے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ آج کل اپنے آپ کو بچانے اور دین کی خدمت کرنے کے لئے کسی شعبے میں جائے بغیر گزارا نہیں ہے، اس لئے کسی شعبے میں جانا چاہتا ہوں۔ ہمیشہ دیکھا ہے کہ پیلو کے درخت دیر سے پھل دیتے ہیں۔ اس لئے کتابوں کے شعبے کو چنا تھا کہ ایک دفعہ مکمل کر کے شاید کوئی خدمت بھی ہوجائے۔ تین سال دراساتِ دینیہ کا کورس مسجد میں کر چکا ہوں اور وفاق کا امتحان بھی پاس کیا ہے۔ پھر درس نظامی شروع کردیا، ثانیہ میں بھی مشکل سے پاس ہوا ہوں لیکن رابعہ میں کلاس نہیں لگا سکا۔ اب پرائیویٹ شروحات سے پڑھ رہا ہوں۔ مگر اب ان subjects میں دل نہیں لگتا، سوچتا ہوں کہ شاید یہ subject اس عمر میں اتنے relevant نہیں ہیں اور دوسرا جتنا وقت ان کے لئے چاہئے وہ بھی ایمانداری نہیں سے دے پاتا۔ آفس اور گھر کی مصروفیت الگ سے تقاضے کرتی ہیں۔ چھوڑنے کا سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ نفس محنت سے گھبراتا ہے، چھوڑنا چاہ رہا ہوں لیکن ڈر لگتا ہے کہ شیطان یہ چھڑوا کر کوئی اور راستے پر بھی نہیں جانے دے گا۔ اور سچی بات ہے کہ کوئی اور راستہ مضبوط اور مزاج کے مطابق بھی نہیں لگتا۔ سات سال سے اس شعبے میں ٹوٹا پھوٹا جوڑا ہوا ہوں، اب ڈرتا ہوں کہ چھوڑا تو کیا ہوگا؟ پھر سوچتا ہوں کہ علم کے فضائل تو علم حاصل کرنے کے لئے ہیں نہ کہ ڈگری کے لئے۔ تو کیوں نہ دین کا علم کسی اور طریقے اور ترتیب سے حاصل کرنے کا ارادہ کروں، لیکن کوئی اور ترتیب جانتا نہیں ہوں۔ اور یہ بھی لگتا ہے کہ کہیں درس نظامی کی ڈگری صرف اپنی prestige کے لئے نہ لے رہا ہوں۔ پھر لگتا ہے کہ دنیا کی ڈگری کی محنت تو کی، لیکن اب دینی ڈگری کی محنت سے گھبراتا ہوں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ اگر ڈگری ہو تو شاید Carrier change کرنا آسان ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ اگر زندگی ہوئی تو کسی مدرسے میں retirement کے بعد پڑھانے کا موقع مل جائے۔ دیگر حالات یہ ہیں کہ آپ سے پچھلے سال سے رابطہ شروع کیا، آپ کے بیانات انٹرنیٹ سے ریگولر سنتا ہوں، پانچ یا چھ دفعہ یا زیادہ بھی سن لیتا ہوں۔ آپ سے تفصیلی یا انفرادی بات نہیں ہو پاتی، آپ سے ملتا ہوں تو اپنی باتوں سے آپ کا وقت ضائع کرتا ہوا میں محسوس کرتا ہوں۔ میرا حال یہ ہے کہ معمولات کمزور ہوتے ہیں، ذکر بالکل بھی نہیں کر پاتا، اگر شروع کرتا ہوں تو پھر چھوڑ دیتا ہوں، اصلاحی ذکر تو بالکل بھی نہیں کر پاتا، البتہ ثوابی ذکر پھر بھی اچھا ہوجاتا ہے۔ اور یہ تصور بھی نہیں بن پاتا کہ اللہ محبت سے دیکھ رہے ہیں بلکہ یہ خیال آتا ہے کہ اللہ محبت سے کیوں دیکھے گا؟ فجر کی نماز اکثر انفرادی ہوتی ہے اور کبھی قضاء بھی ہوجاتی ہے۔ باقی نمازیں ہوجاتی ہیں، قرآن کی تلاوت بھی کم ہے، البتہ سورۃ یٰس اور سورۃ ملک یاد ہونے کی وجہ سے پڑھ لیتا ہوں۔ اتنا لمبا خط لکھنے پر معذرت خواہ ہوں، امید ہے کچھ جواب میں مشورہ دے کر کامیابی کے راستے پر چلنے میں مدد کریں گے۔

جواب:

یقیناً یہ فکر کی باتیں ہیں۔ لیکن ابھی ان کو Priority order کا پتا نہیں ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے ہمارے دین کو فطرت کے تقاضوں کے مطابق بنایا ہے، اس میں ہر چیز باقاعدہ ہے یعنی بے قاعدہ چیزیں نہیں ہیں۔ مثلاً بہت صاف انداز سے پتا چل سکتا ہے کہ فرض کیا ہے، واجب کیا ہے، سنت کیا ہے اور مستحب کیا ہے۔ اور حرام کیا ہے، حلال کیا ہے تو ان کا پتا چل جاتا ہے، یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ اور جب پتا چل جائے تو Order of priority بھی سمجھنی چاہئے کہ فرض کو مستحب کے لئے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ مستحب تب انسان کرسکتا ہے جب فرض پورا ہو۔ اگر اس تمام خط کا لب لباب سامنے رکھا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ اگر یہ شخص بالکل فارغ ہوتے تو علم دین حاصل کرنا ان کے لئے مشکل نہ ہوتا، یہ علم دین حاصل کر لیتے اور پھر اس کے بعد اپنی اصلاح کی ترتیب پر چلتے۔ کیونکہ پرانی ترتیب یہی چلی آرہی ہے یعنی جو حضرات اس لائن میں کام کر چکے ہیں، اگر کتابوں میں دیکھا جائے تو جتنے بھی بڑے بڑے اولیاء گزرے ہیں ان کے سوانح میں یہی ملتا ہے کہ جب وہ (اس وقت کے جو مروجہ) دینی علوم سے فارغ ہوگئے تو پھر اس کے بعد اپنی اصلاح کے لئے کسی شیخ کامل کی تلاش میں نکل گئے۔ یہ عموماً ملتا ہے۔ یہ چیز تو گزشتہ سے پیوستہ ہے۔ لیکن یہ چونکہ فارغ آدمی نہیں ہیں بلکہ مشغول آدمی ہیں اور ایک ذمہ دار پوسٹ پر کام کر رہے ہیں، اور اگر یہ کرنا چاہیں تو اس پوسٹ پر بھی دین کی بڑی خدمت کرسکتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ علم دین کی طرف مصروفیت کی وجہ سے مکمل توجہ نہیں دے سکتے جیسا کہ خود ہی لکھا ہے، لہٰذا اب ان کے پاس دو آپشن رہتے ہیں۔ اب عملی زندگی میں آجائیں کیونکہ علمی طور پر جو مستحب درجہ ہے یا فرض کفایہ کا درجہ ہے وہ تو یہ کر نہیں سکتے کہ ان کے پاس ٹائم نہیں ہے، اس لئے اب فرض عین پر آجائیں یعنی فرض عین علم حاصل کر لیں اور فرض عین اصلاح کروائیں۔ اور بس پھر اپنی ہی فیلڈ کے اندر دین کی خدمت کریں۔ اب اگر یہ Priority order ان کے سامنے کھل جائیں تو ان کو کوئی confusion نہ ہو، بلکہ آرام کے ساتھ یہ دین کا کام کرسکتے ہیں۔ لہٰذا میں ان کو مشورہ دوں گا کہ فرض عین علم حاصل کرنے میں اتنا ٹائم نہیں لگتا، بس یہ آجائیں، میں ان کو بتا دوں گا کہ کیا کیا پڑھنا ہے اور کس طرح پڑھنا ہے۔ یہ صرف ایک دو مہینے میں ہوجائے گا ان شاء اللہ۔ اس کے بعد پھر اپنی اصلاحی ترتیب جو ہے اس کو پکا کریں۔ اور یہ جو فرماتے ہیں کہ اصلاحی ذکر مجھ سے نہیں ہو پاتا۔ یہی شیطان کا چکر ہے کہ شیطان آپ کو مستحب میں تو مشغول کر دے گا، نفلی حج بھی اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نفلی ذکر و اذکار بھی اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہیں بلکہ ان سب چیزوں کا علاج اس کے پاس ہے۔ لیکن اگر وہ نہیں چاہتا تو وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی اصلاح ہو، کیونکہ اصلاح اگر اس کی ہوگئی تو یہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ لہٰذا اس پر اس کو پورا زور صرف کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ اپنی اصلاح مکمل کر لیں یعنی فرض عین علم کے بعد اپنی اصلاح کریں اور اصلاح کے بعد پھر اپنے شعبہ میں دین کی خدمت کریں، ان کو طریقہ بتا دیں گے ان شاء اللہ۔ لیکن پہلے اصلاح ہو کیونکہ ترتیب یہ ہے کہ پہلے فرض عین علم، پھر اس کے بعد نفس کی اصلاح، پھر اس کے بعد دین کی خدمت، یہ تین چیزیں ہیں، اس کو یاد رکھنا چاہئے۔ لیکن انہوں نے ترتیب تھوڑی سی الٹی رکھی ہے، وہ یہ کہ پہلے دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، پھر اپنی اصلاح کروانا چاہتے، بلکہ اصلاح کی خدمت سے معذور بھی اپنے آپ کو بتاتے ہیں اور فرض کفایہ علم میں بھی اپنے لئے مشکلات پاتے ہیں۔ اس لئے میرے خیال میں شاید ابھی تک انہوں نے کسی سے مشورہ نہیں کیا۔ لہٰذا اگر میری یہ آواز ان تک پہنچ رہی ہے یا وہ اس کو بعد میں سن لیں، تو میرا خیال ہے ان شاء اللہ العزیز! ان کو بات سمجھ آجائے گی۔ پھر یہ یہاں تشریف لائیں تو ان کو ان شاء اللہ! فرض عین علم کے بارے میں بتا دیں گے اور پھر اصلاحی اعمال کے بارے میں بھی۔ لہٰذا اپنا وقت مزید ضائع نہ کریں بلکہ کچھ کام کریں اور اپنی زندگی کو سنواریں۔

سوال نمبر 3:

My zikr is 200, 400, 600. Muraqba for 5 minutes on the left side,

5 minutes on the right side, 5 minutes on the left side, 5

minutes on the right side and 10 minutes on the center is

completed. I can feel the zikr at all five points during zikr and

frequently at other times as well.

جواب:

الحمد اللہ، اللہ کا شکر ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید آسانیاں پیدا فرمائیں۔ اب یہی کرنا ہے کہ پانچ پانچ منٹ والے سارے لطائف پر تو رکھنا ہے اور سنٹر والا بھی 5 منٹ رکھ لیں۔ اور اس کے علاوہ 15 منٹ کے لئے اپنے تصور میں یعنی دل ہی دل میں دعائیں کرنی ہیں اور یوں سمجھنا ہے کہ میرا دل دعا کر رہا ہے۔ الفاظ زبان پر نہیں آئیں گے بس دل میں ادا ہوں گے۔ یہ 15 منٹ کے لئے کرنا ہے۔ اور یہ ایک مہینے کے لئے ہے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم حضرت!

Hope you are fine with the blessings of Allah! Hazrat I am sending my mamulat for the first time so, please forgive me due to some editing issues. I am on muraqba for 10 minutes on my heart, then 10 minutes on the right side a little lower form the chest and 10 minutes four fingers above the heart.

جواب:

آپ نے جو لکھا ہے، یہ اگر میں سمجھا ہوں تو میں عرض کروں گا کہ آپ کا جو مراقبہ ہے وہ دس منٹ دل کا ہے، دس منٹ Right side یعنی بالکل دل کے سامنے دائیں پستان سے دو انگلی نیچے دائیں طرف ہے، اس کے بعد جو تیسری جگہ ہے وہ دل سے چار انگلی اوپر اور دو انگلی سینے کی طرف یعنی چار انگلی رکھ کر جو پوانٹ بنتا ہے، اس پوانٹ سے سینے کی طرف یعنی جو سینے کی سنٹرل لائن ہے، اس کی طرف دو انگلی، یہ جگہ بنتی ہے اس پر مراقبہ کریں۔ باقی فون پر بات ہو چکی ہے، وہ اس پر عمل کر لیں۔


سوال نمبر 5:

محترم حضرت صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

Today I am submitting my first ever معمولات paper. I have started filling it from 26 March 2015. However, many of the things I am already doing sincerely as advised at different times. I have narrated my feelings at the bottom of the paper for your knowledge and my اصلاح .


نوکری یا روزگار کی طرف سے قرار نہیں ہے۔ ہر وقت ذہن پر پریشر ہے اور ہر وقت گناہ کا احساس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آیت کریمہ شروع کی ہے، مگر پھر بھی کسی کسی وقت نظروں کی حفاظت نہیں ہو پاتی، خاص طور پر جب کمپیوٹر پر بیٹھتا ہوں، لیکن نظر کے گناہ کے بعد فوراً توبہ، استغفار کرتا ہوں، اور اٹھ کر توبہ کے نوافل ادا کرتا ہوں اور زبان سے استغفار اور آیت کریمہ پڑھتا ہوں۔ روزگار کے موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اپنے گناہوں کی کوئی سزا ہے، کئی دفعہ نمازوں میں اللہ تعالیٰ سے رو رو کر معافی بھی مانگتا ہوں۔

جواب:

معافی مانگنا اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف فرمائے۔ لیکن اپنی اصلاح کی کوشش بھی جاری رکھنی چاہئے، تاکہ یہ گناہ نہ ہونے پائے۔ لہٰذا جب بھی کمپیوٹر پر بیٹھیں تو کمپیوٹر کو پبلک پوانٹ پر رکھیں اور اس کو پرائیویٹ نہ بنائیں، یعنی اس کو چھپانے کی جگہ پر نہ رکھیں، بلکہ دروازے کی طرف سکرین کا رخ ہو تاکہ اگر کوئی اندر آجائے تو اس کو فوراً پتا چل جائے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ ایک کام تو یہ کر لیں اور دوسرا کام یہ ہے کہ unnecessarily جو تصویریں ہیں ان کو بند کیا جاسکتا ہے، اس میں آپشن ہوتا ہے۔ اگر کوئی آپشن avail کرنا چاہے تو اس طرح ہوتا ہے، پھر عام طور پر وہ تصویریں نہیں آئیں گی، البتہ کسی وقت text تصویری صورت میں آتا ہے اور اس کو کھولنا پڑتا ہے text کو دیکھنے کے لئے۔ ویسے عام حالات میں صرف تصویروں سے انسان اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اور کمپیوٹر پر صرف وہی چیزیں پڑھیں جن کی ضرورت ہو اور بلا ضرورت کمپیوٹر پر سیر سپاٹے سے گریز کریں۔ بجائے کمپیوٹر پر سیر سپاٹے کے آپ کسی پارک وغیرہ میں تفریح کے لئے یا walk وغیرہ کے لئے جاسکتے ہیں اور یہ آپ کے لئے مفید بھی ہے اور انسان کا اس سے کم درجہ کا نقصان ہے۔ اس وجہ سے کمپیوٹر پر اپنے اوقات کم سے کم رکھیں، صرف ضرورت کی حد تک رکھیں، اس سے زیادہ کمپیوٹر پر نہ بیٹھیں۔



سوال نمبر 6:

Being a university teacher, I am feeling a pressure on my head to improve my qualification that is to do a PH.D as everyone around is doing a PH.D and HEC also has set a high standard for promotion. Now my brain seems to have gone into a stand back mood. I am just not able to motivate myself to like these proposals. Hazrat I don’t want to study anymore. I want to get rid of all such pressures. Please guide

جواب:

یہ چیز تو بالکل clear ہے۔ لیکن میں نے ان کو جو مشورہ دیا تھا وہ یہ ہے کہ اپنے شیخ کو اپنی اصلاح کے لئے خاص رکھیں اور باقی چیزیں طبعاً ہوں تو ٹھیک ہے یعنی اگر کبھی کبھی انسان ایسا مشورہ بھی مانگے جس سے ان چیزوں میں فائدہ ہو تو ٹھیک ہے۔ لیکن صرف ان چیزوں کے لئے اپنے شیخ کو نہ رکھیں کہ صرف ایک نفسیاتی ماہر کے طور پر اس کو سمجھیں، کبھی اس سے ٹینشن کے بارے میں پوچھا جائے کہ میری ٹینشن کم ہوجائے، کبھی میرا کاروبار ٹھیک ہوجائے، یہ چیزیں secondary ہیں۔ اب اگر secondary چیزوں کو primary بنا دیا جائے اور صرف ان کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ چیز اس میں قابل اعتراض ہوتی ہے۔ چونکہ ان کا فون مجھے آیا تھا تو میں نے ان کو یہ میسج کیا تھا اور کہا تھا کہ آپ صرف مجھے بطور psychiatrist نہ سمجھیں، بلکہ آپ مجھے شیخ سمجھیں۔ شیخ سے مراد اپنی اصلاح ہوتی ہے۔ لہٰذا اپنے معمولات کا چارٹ regularly بھیجا کریں اور اپنا contact اس مقصد کے لئے کریں اور اپنے ذکر و اذکار پر توجہ کریں، اس کے بارے میں آپ regularly مشورہ کر لیا کریں۔ البتہ طبعاً یہ چیز بھی اگر آجائے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن اگر آپ مجھ سے just اسی مقصد کے لئے contact کرتے ہیں تو یہ مناسب نہیں ہے۔ جب میں نے یہ کہا تو ان کا اگلا جواب جو آیا اس میں کہتا ہے:

I am sorry

لیکن میرے خیال میں اپنے رویہ پر اس نے کچھ غور نہیں کیا یا پھر ان کو میری بات سمجھ نہیں آئی کہ میں نے کیا کہا ہے یا پھر ان کو شاید احساس ہی نہیں ہوا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ لہٰذا اپنے رویہ پر غور کریں کیونکہ یہ اصلاحی تعلق ہے۔ اور اصلاحی تعلق کو اصلاحی رہنا چاہئے۔ باقی کبھی کبھی طبعاً اگر ان چیزوں کا ذکر بھی ہوجائے تو ٹھیک ہے، لیکن صرف اس مقصد کے لئے نہ ہو۔ دراصل قصور ان کا بھی نہیں ہے بلکہ عام طور پر لوگوں نے جو مشائخ کاrole سمجھا ہوا ہے وہ یہی سمجھا ہے، بس ایک tranquilizer کی گولی سمجھی ہوئی ہے کہ ان کے ساتھ contact رکھیں، سکون حاصل ہوجائے گا اور دنیا اچھی ہوجائے گی۔ ان چیزوں کا اثر کوئی مانتا ہے کوئی نہیں مانتا۔ لیکن بہرحال یہ چیز ذہن میں ہوتی ہے۔ اس چیز کو ہم discourage کرتے ہیں لیکن اس لئے نہیں کہ نعوذ باللہ من ذلک ہم ان چیزوں کو اچھا نہیں سمجھتے، کیوںکہ اگر کسی کی مشکل میں کوئی کام آجائے تو بہت اچھی بات ہے، اس لئے اس کو ہم غلط نہیں سمجھتے، لیکن چونکہ background میں یہ چیز ہے، یعنی لوگ صرف ان چیزوں ہی کے لئے contact کرتے ہیں اور پھر اصل مقصد سے دور ہوجاتے ہیں۔ بلکہ میں یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر اصلاحی لائن ٹھیک ہوجائے اور اللہ کے ساتھ تعلق درست ہوجائے تو بہت ساری چیزوں کا جواب خود بخود مل جاتا ہے اور اس کے لئے شاید پوچھنے کی بھی ضرورت نہ پڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔ لیکن اپنی Line of action کو اصلاحی رکھیں۔ یہ بنیادی چیز فرض ہے۔ اور باقی چیزیں اگر طبعاً ہوجائیں تو ٹھیک ہے اور اگر نہ ہوں تو بھی کوئی بات نہیں، لیکن اپنی اصلاح سے غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ موت سے پہلے پہلے اپنی اصلاح فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 7:

I need to extend my stay here in South Africa so I could finish my degree this year. I am in big trouble related to the extension. Kindly make dua for me so that all my problems end and musibat get resolved. May Allah give me success in everything related to deen!

جواب:
اللہ جل شانہٗ آسانی کے ساتھ یہ سارے مراحل طے کرا دے اور صحت و عافیت کے ساتھ آپ کی ڈگری بھی پوری کرا دے اور ساتھ ساتھ دین کی حفاظت بھی فرما دے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
حضرت جی! اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے غصے پر مزید قابو آتا جا رہا ہے۔ حضرت جی! کاروبار کے سلسلے میں پلاننگ کی طرف ذہن جاتا ہے، لیکن پلاننگ کر نہیں پا رہا، پہلے تو ہر کام بغیر منصوبہ بندی کے بس شروع کر دیتا تھا۔ کھانا صبح دو روٹی، دوپہر دو روٹی اور رات کو دو روٹی کھاتا ہوں۔ اب کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس لئے تین دن سے رات کو کھانا نہیں کھاتا صرف دودھ کا ایک گلاس پی لیتا ہوں۔ سبق 2+2+6 تسبیح پر اور دل سے 15 منٹ ہے۔ دل سے ذکر کروں تو خیالات آتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ حضرت جی! دعا اور توجہ کی ضرورت ہے۔
جواب:
اللہ کا شکر ہے کہ ثمرات آنا شروع ہوگئے ہیں۔ غصے پر مزید قابو آنا یہ مبارک چیز ہے۔ اللہ جل شانہٗ مزید بہتر فرمائے۔ اور پلاننگ کے بارے میں ہمارے شیخ فرماتے تھے کہ کام تو انتظام سے ہوتا ہے یعنی انسان انتظام کرتا ہے تو کام اچھا اور صحیح طریقے سے ہو پاتا ہے۔ ٹائم، پیسہ اور effort ان تین چیزوں کا optimize صورت میں استعمال کرنے کو پلاننگ کہتے ہیں۔ یعنی کیسے ہم اس کو استعمال کر لیں Best results آجائیں، اچھے results آجائیں تو اس کے لئے پلاننگ کرنی ہوتی ہے۔ اور ہمارے پاس یہی چیزیں ہوتی ہیں جن کو ہم نے آگے پیچھے کر کے اپنے کاموں کو کروانا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان میں سوچنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی گھر بنا رہا ہے اور گھر چھے مہینے میں بنتا ہے، لہٰذا اگر پہلے گھر نہیں بنایا تو گھر بنانے والے لوگ پہلے چھے مہینے گھر بنانے کے لئے سوچیں کہ اس کو کیسے بنائیں، اس کی مشکلات اور اس کی تمام چیزوں کا اندازہ کر لیں اور پھر چھے مہینے گھر بنانے میں لگائیں۔ کیونکہ اگر چھے مہینے اس کے لئے سوچا نہیں بلکہ پہلے گھر بنایا تو بعد میں چھے سال روتے رہو گے کہ مجھ سے یہ غلطی رہ گئی، مجھ سے یہ غلطی رہ گئی اور مجھ سے یہ غلطی ہوگئی، یعنی مسائل ہوں گے۔ پلاننگ اسی لئے ہوتی ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں سے اور جو sources یعنی وسائل ہیں ان سے بہترین کام لے سکے۔ باقی کھانے پر بھی کنٹرول اچھا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ جسم کو بہت کم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم بہت زیادہ کھاتے ہیں۔ اگر ہم کم کھانا شروع کر لیں تو جسم اس پر ہی adjust ہوجاتا ہے اور پھر زیادہ نہیں کھایا جاتا بلکہ جتنے کی ضرورت ہوتی ہے بس اتنا ہی کھایا جاتا ہے اور پھر زندگی بھی اچھی رہتی ہے، صحت بھی اچھی رہتی ہے اور انسان ایک قسم کے اسراف سے بھی بچ جاتا ہے۔ لہٰذا یہ اچھی بات ہے۔ اور ذکر میں جو خیالات آتے ہیں، اگر خیالات خود سے آتے ہوں تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے، لیکن لانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ توجہ ذکر کی طرف رکھنی چاہئے۔ اللہ جل شانہٗ مزید توفیقات سے نوازے۔

سوال نمبر 9:

ایک صاحب کا خط آیا ہے، خانقاہ میں جو لیٹر بکس ہے اس کے اندر ڈالا ہے۔ لیکن اپنا نام نہیں لکھا تو اب میں کس کو سمجھوں؟ کس کو جواب دوں؟ یہ تو ایک عجیب بات ہے۔ بہرحال اگر کبھی بتا دیا تو جواب موجود ہوگا۔ حضرت جی! معمولات کے چارٹ میں جو شروع کے خانے خالی ہیں ان میں میری نمازیں زیادہ تر قضا ہیں، درمیان میں کچھ معمولات اور نمازیں ہوئی ہیں، لیکن چارٹ پر ہر وقت نہ لگانے کی وجہ سے بھول گیا تھا کہ کون سی تاریخ میں کون سا معمول کیا تھا اور کون سا نہیں کیا تھا، اس لئے چارٹ پر نہیں لگایا۔ چارٹ پُر کرنے میں بہت سستی ہوتی ہے اور بروقت نہیں کر پا رہا۔ ذکر کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا کہ جہری ذکر عصر کے بعد اور مراقبہ صبح کر لینا چاہئے۔ ابھی میں اسی طرح کرتا ہوں یعنی مراقبہ صبح کرتا ہوں اور اس میں دھیان آسانی سے لگتا ہے۔ اور اگر صبح نہ کرسکوں تو پھر دن میں یا عصر کے بعد کرتا ہوں۔ نمازیں قضا ہونے کی وجہ سے اور جو روزے میرے ذمہ میں باقی ہیں (جو اندازے کے مطابق پانچ ماہ کے ہیں) میں نے عبید بھائی سے پوچھا تھا کہ دس سے گیارہ تک رات کو مجھے 313 دفعہ والا پڑھنا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ پڑھوں گا۔ کچھ دن تو پڑھا، لیکن اس کے بعد نہیں پڑھ پا رہا۔ آپ سے مشورہ لینا ہے کہ یہ والا معمول کروں یا نہ؟ کیونکہ ذکر دن کو ٹائم نہ ملنے کی وجہ سے رہ جاتا ہے تو وہ بھی اس ٹائم کرنا ہوتا ہے۔ اور جب خانقاہ میں خواتین کا جوڑ ہو تو مجھے بہن کو لانا چاہئے یا نہیں؟ لیکن یہ معلوم نہیں کہ گھر والے ان کو بھیجیں گے یا نہیں اور کوئی وہاں سے بھی ساتھ آئے گا یا نہیں۔

جواب:

آپ نے اپنے مراقبے کا جو وقت بتایا ہے اس کے اوپر کوشش کریں۔ اور جو معمولات کا چارٹ ہے اس میں Questionnaire form بھی ہے۔ آپ Questionnaire form حاصل کر لیں کیونکہ اس میں یہ ہوتا ہے کہ اس میں پھر سوچنا نہیں پڑتا بس اس میں صرف یہی بتانا ہوتا ہے کہ کتنی قضا ہوگئی ہیں، لہٰذا اس سے یہ آسانی ہوجاتی ہے اور اس کا جواب دینا مشکل بھی نہیں ہوتا۔ ایک تو یہ کر لیں اور دوسری بات یہ ہے کہ جو معمول ہے وہ مشورہ کر کے طے کر لیں گے ان شاء اللہ العزیز، جب آپ کے بارے میں پتا چل جائے گا کہ آپ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے۔ باقی باتیں ان شاء اللہ ہوجائیں گی کیونکہ Subject to condition ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 10:

یقین اور توکل کے بڑھانے اور گھٹنے کے کون سے ذرائع ہیں؟ یعنی اللہ پر یقین اور توکل جس سے بڑھتا ہے اور جس سے گھٹتا ہے۔
جواب:
اصل میں انسان جان، مال اور وقت جس چیز پر لگاتا ہے تو اس کے ساتھ attachment بھی ہوجاتی ہے اور اس پر یقین بھی آجاتا ہے۔ لہٰذا یہ تین چیزیں اللہ جل شانہٗ کی راہ میں جو استعمال کرے گا تو اس پر یقین بھی آجائے گا اور اس پر توکل بھی آجائے گا۔ تبلیغ والے حضرات بھی یہی بات کرتے ہیں کہ اپنی جان، مال اور وقت لگائیں اور جس چیز پر اپنی جان، مال اور وقت لگتا ہے تو اس کے ساتھ attachment ہوجاتی ہے۔ دوسری بات جو اہل یقین لوگ ہیں ان کے ساتھ جتنا رابطہ close ہوگا۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اتنا ذکر کرنا کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کے سامنے محسوس کرے۔ یعنی جب محسوس کرے گا تو اس طرح یقین automatic ہوجائے گا۔ لہٰذا یہ تین چیزیں میں نے بتا دیں۔ کیونکہ دنیا کی محبت کی وجہ سے انسان ان چیزوں سے ہٹتا ہے یعنی دنیا کی محبت جتنی کم ہوتی جائے گی تو اللہ کی محبت بڑھتی جائے گی اور اللہ پر بھروسہ بھی بڑھتا جائے گا اور اللہ پاک پر یقین بھی آنا شروع ہوجائے گا۔ ورنہ پھر اس کے opposite ہوگا یعنی ذکر میں کمی ہوگی، معمولات پورے نہیں ہوں گے، رابطہ میں کمی ہوگی اور دنیاوی چیزوں کو preference دی جائے گی۔ کیونکہ دو channels ہیں، جس channel کو آپ زیادہ access کریں گے تو دوسرا channel بند ہونا شروع ہوجائے گا۔ ایک دل میں اللہ کی طرف channel ہے۔ دوسرا شیطان کی طرف سے وسوسہ ہے۔ اللہ کی طرف access نہیں ہوگا تو شیطان کی طرف بڑھے گا نتیجۃً اس طرف انسان زیادہ ہوتا جائے گا۔ لہٰذا یہی بات ہے جو میں نے ابھی بتائی ہے کہ تین باتیں اس کی opposite ہیں، ان سے ہٹیں۔

سوال نمبر 11:

دل کی صفائی کے لئے اللہ کا ذکر ہم کرتے ہیں لیکن دماغ کی صفائی کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

دل بادشاہ ہے، جب یہ صاف ہوجائے گا تو یہ دماغ کو بھی صاف کردے گا۔ البتہAs a supposition ایک اور بات بھی میں کرسکتا ہوں یعنی اس کو support کرنے کے لئے کہ جو ذہنی انتشار کو لانے والی چیزیں ہیں ان میں انسان involve نہ ہو تو ذہن صاف ہوتا جائے گا۔ مثال کے طور پر کوئی غیر ضروری اخبارات پڑھتے ہیں، غیر ضروری انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں، غیر ضروری لوگوں سے گھلتے ملتے ہیں یہ ساری چیزیں دماغ کے اندر آتی جاتی ہیں اور جب دماغ میں یہ چیزیں آئیں گی تو پھر دماغ کی صفائی نہیں ہوگی بلکہ ہر چیز دماغ میں آجائے گی۔ لہٰذا بضرورت انسان ان تمام کاموں کو کرے اور غیر ضروری طور پر ذہن کو ان چیزوں میں استعمال نہ کرے، لہٰذا ذہن صاف ہوتا رہے گا، ورنہ ذہن کے اندر اتنی چیزیں آئیں گی۔ جس وقت انسان نماز پڑھتا ہے تو انسان یکسوئی لاتا ہے، یکسوئی کا مطلب ہے جیسے cavity ہو یعنی جیسے کوئی گڑھا ہو تو گڑھے میں ادھر ادھر کا جو صاف پانی ہوگا وہ اس میں آئے گا۔ اسی طریقے سے آپ دیکھتے ہیں کہ نماز کے اندر بہت خیالات آتے ہیں، اب اگر نماز کے باہر کے خیالات آپ کے اچھے ہوں گے تو نماز کے اندر کے خیالات بھی اچھے ہوں گے اور نماز آپ کے باہر کے حالات کو بھی اچھا کرتی ہے اور آپ کے باہر کے اچھے خیالات آپ کی نماز کو اچھا کرتے ہیں یعنی یہ bilateral ہے، جس طرح دل کا معاملہ آنکھ، کان اور زبان کے ساتھ bilateral ہے، اسی طرح نماز کا بھی اس مسئلہ میں bilateral ہے۔ اگر ہم لوگ ان چیزوں کا خیال رکھیں گے یعنی غیر ضروری طور پر ان چیزوں کو غلط چیزوں میں نہ لگائیں تو بس پھر ان شاء اللہ العزیز ذہن صاف رہے گا۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ