20150426_QA226
سوال نمبر 01:
حضرت جی! اگر غیر عالم قرآن و حدیث پڑھ کر علم حاصل کر ے اور عمل کی بھی کوشش کر رہا ہو تو کیا وہ دوسروں کو پڑھا سکتا ہے جس سے کئی لوگوں کو فائدہ بھی ہو رہا ہو؟
جواب 01:
ایک ہے علم حاصل کرنا اور ایک ہے تربیت کا ہونا، علم تو کتابوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن عمل کتابوں کے ذریعہ سے نہیں آتا، I can ask you why people come to the doctors? They can read the books of medicine and they can find what the procedures are.
مطلب یہ ہے کہ ان کو بھی اس سے فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن کوئی ایسا کرتا ہے؟ حتی کہ ڈاکٹر بھی جب بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، جاتے ہیں کہ نہیں جاتے؟ مجھے خود ایک medical specialist نے بتایا کہ میرے ساتھی کا گلا خراب ہوگیا تو وہ میرے پاس آتا تھا، میں نے اس کا علاج کر لیا تھا لیکن ٹھیک نہیں ہوا پھر میں نے ایک specialist کو فون کیا کہ ایسا patient ہے ٹھیک نہیں ہو رہا، کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا، آپ نے کون سی دوائی دی ہے؟ میں نےکہا فلاں دوائی، انھوں نے کہا: آج کل یہ کام نہیں کر رہی فلاں دوائی دے دیں، ٹھیک ہو جائے گا، کہنے لگے که جب میں نے وہ دوائی استعمال کی تو ٹھیک ہوگیا، اس کے پاس experience تھا کیونکہ اس کے پاس جب patients آجاتا ہے تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ آج کل کیا چکر چل رہا ہے؟ تو یہ ساری چیزیں experiene based ہوتی ہیں، جوکہ تربیت سے متعلق ہے اور یہ کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا اس کے لیے کسی کے ساتھ physically رابطہ رکھنا پڑتا ہے، ان کی صحبت کے ذریعہ سےکچھ سمجھ آجاتا ہے، البتہ بعض اوقات کچھ symptoms ملے جلے ہوتے ہیں، for example اگر آدمی میڈکل کی کتاب پڑھے تو اس کتاب کے اندر جتنی بیماریوں کے symptoms ہوتے ہیں تو آدمی confuse ہوجاتا ہے کہ مجھے hepatitis بھی ہے، مجھے یہ ہے، مجھے وہ ہے حالانکہ اس کو کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن چونکہ کچھ symptoms اس کو معلوم ہوتے ہیں اس کے ذریعہ سے آدمی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مجھے تو فلاں بیماری ہے، پھر جب ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ڈاکٹر اس کے ٹیسٹ کرتے ہیں یا اس کے ساتھ اورکوئی سیٹنگ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھائی کو تو یہ مسئلہ نہیں ہے۔ %50 سے زیادہ بیماریوں کے بارے میں آج کل بتایا جا رہا ہے کہ وہ نفسیاتی ہوتی ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہے ورنہ انسان اپنے آپ کو اور بیمار کر دے گا تو اس وجہ سے یہ جو attachment کی بات ہے یہ تو اور زیادہ لطیف چیز ہے، میڈیکل لائن میں تو آپ ٹیسٹ بھی کروا لیں گے، ایکسرے بھی دیکھ لیں گے، لیکن اس میں تو اس طرح نہیں ہوتا یہ تو وجدانی چیزیں ہیں، تو انسان خود کیسے کرے گا؟ جب وہ خود capable نہیں ہے تو کسی جاننے والے کے پاس جائے گا اور جانا بھی چاہیےاس لیے تربیت تربیت یافتہ سے حاصل کرو۔
سوال نمبر 02:
دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی پاک ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور میں اس کی مثال کہاں ملتی ہے؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ اس سلسلہ میں جو طریقے استعمال کئے جاتے ہیں وہ بدعت ہیں کیوں که جب یہ نبی پاک ﷺ نے استعمال نہیں کئے تو اب کیوں استعمال کئے جاتے ہیں؟ جس طرح نبی پاک ﷺ نے اپنے صحابہ کی تربیت کی تھی ان طریقوں سے ہم کیوں اپنی تربیت نہیں کرتے؟
جواب 02:
بیماری کے علاج میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فلاں دوائی ہی دی جائے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کو آرام کس چیز سے آئے گا؟ اگر کسی معمولی چیز سے اس کو فائدہ ہو رہا ہو؟ تو آپ اس کو strong دوائی دیں گے؟ یقیناً نہیں دیں گے۔ اس لیے ان کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کافی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایمان کی حالت میں دیکھنا ہی ان تمام بیماریوں کو ختم کر دیتا تھا، مطلب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب کے نور سے ان کے دل فوراً چمک جاتے تھے اور وہ ساری بیماریاں دور ہو جاتی تھیں، لہذا صحابہ کرام رضی اللہ کو تو ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں تھی، دل کی اصلاح تو آپ صلی اللہ کی صحبت سے فوراً ہی ہو جاتی تھی، البتہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک صحابی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت ہے، فرمایا ابھی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر اطہر کی مٹی سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمیں اپنے دل میں فرق محسوس ہوگیا، اب جب دلوں میں فرق محسوس ہونے لگا تو صحابہ کرام رضی اللہ بھی بعض دوسرے صحابہ کے ساتھ ہونے لگے علم کے لحاظ سے بھی اور تربیت کے لحاظ سے بھی، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ﴿وَکَانَ عَلَوِیًّا﴾ ﴿وَکَانَ عُثْمَانِیًّا﴾ کہلوانے لگے، اس طرح کے الفاظ آپ کو تاریخ میں ملیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ attach ہوگئے اور کچھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ attach ہوگئے، کچھ کسی اور کے ساتھ attach ہو گئے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کچھ کچھ کے ساتھ attach ہو گئے تو ان کو اس طرح فائدہ ہونے لگا، اور جب تابعین کا دور آیا تو تابعین کے دور میں اس میں اور بھی کمی آگئی، جس کی وجہ سے انھوں نے باقاعدہ کچھ پریکٹس شروع کیں جو اس کمی کو compensate کر سکیں، اور تبع تابعین کے دور میں تو باقاعدہ بارہ ہزار خانقاہیں reported ہیں، اس وقت ملیشیا کے شیخ عبد الواحد اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی بارہ ہزار خانقاہیں تھیں۔ آپ نے ابنِ جوزی رحمۃ اللہ، یحیی بن معین رحمۃ اللہ کے بارے میں سنا ہوگا یہ اس وقت کے بڑے بڑے اسکالرز تھے جو کسی کی مروت نہیں کرتے تھے، صاف صاف باتیں کرتے تھے اب ان حضرات نے یہ باتیں فرمائی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُس وقت ضرورت پڑ گئی تھی تو اس طرح انہوں نے تربیت حاصل کی، تو جب ضرورت ہوگی تو اس طریقے سے تربیت حاصل کرنےکی بھی ضرورت ہوگی۔
آپ نے دوسری بات بدعت کی ہے، بدعت کی جو defination ہے اس کو ذرا سمجھنے کی کوشش کریں، بدعت کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ کام جو آپ علیہ السلام سے اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا کرنا ثابت نہ ہو اور بعد میں اس کو دین سمجھ کر کیا جا رہا ہو جیسے عید میلادالنبی اس کا ثبوت کسی صحابی، تابعی اور تبع تابعی سے نہیں ہے لیکن لوگ اس کو دین کا حصہ سمجھ کر مناتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ دین کےمقاصد متعین ہیں اور ذرائع متعین نہیں، مثلاً لاہور جتنی فٹ جگہ پر ہے اتنی ہی جگہ پر رہے گا تبدیل نہیں ہوسکتا، لیکن لاہور کو جانے والے راستے تبدیل ہو سکتے ہیں یہ motorway پہلے تھا ہی نہیں، اب motorway کے ذریعے لوگ جاتے ہیں، اس طرح پہلے by air کوئی نہیں جاتا تھا اور اب by air لوگ جاتے ہیں، تو مطلب یہ ہے کہ ذرائع متعین نہیں ہیں وہ دور کے تقاضوں کے مطابق مختلف ہوتے رہتے ہیں۔
اس طرح علاج کا طریقہ بھی متعین نہیں ہے وہ مختلف دور میں مختلف ہوتا ہے، آج سے پانچ سو سال پہلے جو علاج کے طریقے ہوا کرتے تھے وہ اب نہیں ہیں، اور نہ اس طریقئہ علاج سے فائدہ ہو سکتا ، ابlatest research پر جاتے ہیں۔
اسی طرح تربیت کے بھی latest research ہوتے ہیں۔ آج کل کے حالات میں موبائل، انٹرنیٹ، مخلوط تعلیم یہ جو چیزیں آئی ہیں یہ پہلے تو نہیں تھیں تو کیا اس وقت کے فارمولے اس پر استعمال ہو سکتے ہیں؟ نہیں بلکہ اس کے لیےآج کل کے فارمولے استعمال ہوں گےتو آج کل کے فارمولاز کو randomly استعمال کرنا اور organize طریقے سے استعمال کرنے میں فرق ہے، جو expert ہو تے ہیں تو وہ باقاعدہ ایک organize طریقہ سے اس تک پہنچتے ہیں اور تربیت حاصل کرتے ہیں اور دوسرے لوگ randomly استعمال کرتے ہیں ان کی نقل کرنے کی وجہ سے کبھی تو ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اکثر لوگ غلطی کر جاتے ہیں، تو بہرحال بدعت کی defination میں تو یہ نہیں آتےکیونکہ یہ ذریعہ ہے طریقت کا، تو یہ procedures ذریعہ ہوتا ہے نہ که مقصد، سیڑھی کبھی مقصد نہیں ہوتا بلکہ یہ مقصد تک پہنچانے کا ذریعہ ہے، اس طرح طریقت بھی ذریعہ ہے مقصد نہیں ہے، اگر کسی کو ایک مقصد ایک طریقے سے حاصل ہوا تو یہ نہیں کہا جاتا که صحیح نہیں ہے، مثال کے طور پر ایک بلڈنگ کی بالائی منزل پر جانے کے لیے چار سیڑھیاں ہیں آپ ایک سیڑھی سے وہاں پہنچ گئے اب کوئی بھی عقل مند آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ اب دوبارہ اتر کر دوسری سیڑھی سے بھی اوپر چڑھ کر آجاؤ۔ اسی طرح جو چشتیہ طریقے سے پہنچ گیا اس کو نقشبندیہ کی ضرورت نہیں ہے جو نقشبندی کے ذریعہ سے پہنچ گیا اس کو چشتی کی ضرورت نہیں ہے جو homeopathic سے ٹھیک ہوگیا اس کو allopathic treatment کی ضرورت نہیں ہے جو allopathic سے ٹھیک ہوگیا اس کو homeopathic کی ضرورت نہیں ہے، تو یہ procedures ہیں تو procedures کبھی بدعت نہیں ہوا کرتے، ہاں مقاصد میں تبدیلی نہیں آسکتی بلکہ میں ایک بات عرض کرتا ہوں که جو لوگ ان طرق کو بدعت کہتے ہیں وہ خطرے میں پڑجائیں گے کیونکہ وہ ان کو مقاصد میں شمار کر رہے ہیں، آپ کو ہے معلوم کہ جو مقاصد میں سے نہ ہو اور کوئی اس کو مقصد بنا لے تو یہ دین میں اضافہ ہے اور یہ دین پر عمل کرنے کا ذریعہ ہے، جیسے گاڑی کے اندر تبدیلی کرنا اور ہے اورگاڑی کے لیے راستہ بنانا اور ہے دین میں تبدیلی کے لیے دو الفاظ ہیں، ﴿اِحْدَاث فِی الدِّینْ﴾ اور ﴿اِحْدَاث لِلدِّینْ﴾ ﴿اِحْدَاث فِی الدِّینْ﴾ دین کے اندر تبدیلی ہے، اور ﴿اِحْدَاث لِلدِّینْ﴾ دین کے لیے تبدیلی اب مجھے بتاؤ آپ صلی اللہ کے دور میں کسی مسجد میں مینار ہوا کرتا تھا؟ مسجدِ نبوی پہ مینار تھا؟ مسجدِ حرم پر تھا؟ کسی اور جگہ تھا؟ نہیں تھا۔ آج کل کوئی مسجد مینار کے بغیر دکھاؤ؟ جو بڑی مسجد ہومینار کے بغیر کوئی مسجد ہوتی ہے کیا؟ ان سب کو بدعتی قرار دو گے؟ حرم شریف والوں کو بدعتی قرار دو گے؟ مسجدِ نبوی والوں کو بدعتی قرار دو گے؟ یہ بات بہت اوپر تک چلی جائےگی، مجھے بتاؤ حدیث شریف میں آتا ہے ﴿اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ﴾ "جنت تلواروں کے سایہ میں ہے“ آج کل تلواروں کے ذریعہ سے لڑائی ہو سکتی ہے؟ جہاد ہو سکتا ہے؟ پھر جنت کو کیسے حاصل کیا جائے گا؟ ٹینک پر بیٹھ کر جنت کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟ میزائل کو چلا کر جنت کو حاصل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اس چیز کو دیکھنا چاہکہ وہ کس مقصد کے لیے ہے پھر وہ مقصد جس طریقے سے بھی حاصل ہو سکتا ہو تو ٹھیک ہے۔ اس وقت تلواری تھی اور اب میزائلز ہیں f16 ہیں، ٹینک ہیں، اس وقت مارٹر گولی ہے، اب ان چیزوں سے کام لیا جائے گا، بہرحال مقاصد مقاصد ہوتے ہیں ذرائع ذرائع ہوتے ہیں۔
سوال نمبر 03:
دل کی کیفیت صحیح اور اچھی ہونے کے بعد خراب کیوں ہو جاتی ہے یعنی کبھی بہت اچھی بات ہو رہی ہوتی ہے کبھی ایک دم خراب، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب 03:
ما شاء اللہ بہت اچھا سوال ہے، دیکھو! ہماری جو آنکھیں ہیں، کان ہے، زبان ہے، یہ دل تک پہنچنے کے راستے ہیں اور دل سے لینے کے بھی راستے ہیں، اس کو آج کل کی IT language میں IOS کہتے ہیں، یہ IOS ہیں۔ اب دیکھیں! اگر دل صحیح ہے تو آنکھیں صحیح استعمال ہوں گی، کان صحیح استعمال ہوں گے، زبان صحیح استعمال ہوگی، ہاتھ پاؤں صحیح استعمال ہوں گے، یہ ایک observation ہے۔ دوسری observation، اگر خطاً آنکھ غلط استعمال ہو جائے تو اس کا اثر دل پر ہوگا یا نہیں ہوگا؟ اگر کان صحیح استعمال نہ ہوئے، اس طرح اگر زبان غلط استعمال ہو جائے تو ان چیزوں کا اثر دل پر ہوتا ہے اور وہ زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ زبان، آنکھ اور کان، دل کو ٹھیک بھی کرتے ہیں اور خراب بھی کرتے ہیں اور یہ دونوں باتیں possible ہیں، جب یہ بات ہے تو میں نے ذکر و اذکار کیا ہے، اچھے ماحول میں رہا ہوں، اب اس کے اثرات آنے لگے، میری عبادت اچھی ہونے لگی، لیکن پھر اس کے بعد بد پرہیزی ہوگئی اور اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے یہ بھی possible ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے! که "بری صحبت سے خلوت بہتر ہے اور اچھی صحبت خلوت سے بہتر ہے"۔ جب معلوم ہوگیا کہ بری صحبت سے خلوت اچھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مائنس سے زیرو اچھا ہے اور زیرو سے پلس اچھا ہے، پس اگر آپ کے اردگرد خراب ماحول ہے اس سے بہتر یہ ہے کہ اپنے گھر کے اندر رہو باہر نہ جاؤ، ورنہ خرابی کا امکان زیادہ ہے، جہاں پر مسائل ہوں تو وہاں نہ جاؤ، یہ تو اپنی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر آپ کو اچھی صحبت مل رہی ہے اس اچھی صحبت کو loose نہ کرو کیونکہ وہ آپ کے فائدے کے لیے ہے، اچھی صحبت سے آپ power gain کر کے بری صحبت میں جا کر اس کو اچھا کر سکتے ہیں لیکن وہ بری صحبت آپ کو پھر بھی خراب کرے گی، جب اس سے خرابی آئی اس کو پھر ٹھیک کرنے کے لیے آپ کو اچھی صحبت میں یا خلوت میں جانا پڑے گا جس سے وہ پھر ٹھیک ہو جائے گی۔ میں آپ کو اس فیلڈ کے مشہور ماہر مولانا الیاس رحمۃ اللہ کی مثال دیتا ہوں، فرماتے ہیں کہ جب میں میوات گشت کے لیے جاتا ہوں تو اپنی حفاظت کے لیے صلحاء کی جماعت کے ساتھ جاتا ہوں، لیکن پھر بھی میرے دل پہ اثر ہوجاتا ہے اس کو دور کرنے کے لیے میں رائے پور شریف کی خانقاہ جاتا ہوں یا میں شاہ جہاں پور کی خانقاہ جاتا ہوں یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے تندور میں چیز گرم کرکے باہر لے آؤ اور روم ٹمپریچر پہ رکھو، کچھ دیر بعد وہ چیز ٹھنڈی ہو جائے گی اور روم کی ٹمپریچر تھوڑی سی بڑھ جائے گی، اب روم نے اس کو ٹھنڈک دی اور اس نے روم کو گرمائش دی۔ اب اگر یہ چاہتے ہو بھائی که دوبارہ گرم ہو تو پھر دوبارہ تندور میں لے جانا پڑے گا پھر گرم کرنا پڑےگا اور اگر زیادہ گرم کرنا چاہتے ہو تو central heating system میں لے جاؤ تو ٹھاٹھ گرم ہو جائے گی۔ لہذا اگر improvement(تربیت) کا یہ نظام زندہ ہو اور اس کے ساتھ کوئی attach ہو تو پھر بھی ماحول کی برائیاں اس پر پڑیں گی لیکن جب ان کو دور کرنے کا نظام ہوگا تو سب کچھ ٹھیک ہوتا جائے گا، ورنہ کیا ہوگا؟ کہ لوگوں کو ٹھیک کرتے کرتے خود بھی خراب ہو جائیں گے۔ آج بھی میں نے اس سے ایک صاحبہ کو روکا، که آپ اس قابل نہیں ہیں کہ لوگوں کی اصلاح کریں، پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو، اپنے آپ کو سوشل میڈیا سے disconnect کر دو، ورنہ یہ تمہیں خراب کر دے گی۔ ہاں تم اپنے اندر وہ good strengths capablity لے آؤ پھر اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کرتی رہا کرو لیکن پھر بھی طریقے سے۔ بہرحال یہی بات ہے که بعض اوقات لوگ خدمت کے جوش میں، اصلاح کرنے کے جوش میں اپنے آپ کو نقصان پہنچا دیتے ہیں، اس لیے احتیاط کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔
سوال نمبر 04:
طریقت اور شریعت میں کیا فرق ہے؟ کیا طریقت شریعت سے الگ ہو سکتی ہے؟
جواب 04:
اس لحاظ سے بہت اچھا سوال ہے کہ اس کے ذریعے سے کچھ باتیں کھلیں گی، شریعت تو اللہ کی طرف سے آئی ہوتی ہے وہ تبدیل نہیں ہو سکتی۔ جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے ﴿اَلْیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ (آیت نمبر3، سورہ مائدہ) فیصلہ ہو گیا که شریعت تبدیل نہیں ہوسکتی یہ اپنی جگہ برقرار رہے گی، اور شریعت پر آنے کا طریقہ طریقت ہے، دل اور نفس کے اندر اگر کوئی problem ہے تو شریعت پر آجاؤ، تو یوں کہ سکتے ہیں کہ طریقت شریعت پر آنے کا ذریعہ ہے یہ کبھی بھی مخالف نہیں ہوسکتے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ طریقت اور ہے اور شریعت اور ہے، اگر ہم اس معنی میں کہہ دیں کہ domain مختلف ہے تو شریعت (اوامر و نواہی) actions کی پوری ایک سیٹ ہے کہ یہ کرنا ہے یہ نہیں کرنا، یہ جائز ہے یہ ناجائز ہے، یہ حلال ہے یہ حرام ہے، تو یہ شریعت ہے، ہم کہ سکتے ہیں کہ اس لحاظ سے یہ الگ ہے، اور طریقت اس پر آنے کا طریقہ ہے اس لحاظ سے الگ ہے، لیکن یہ مقابل والی بات نہیں ہے کہ اس کے مقابل کی چیز ہے بلکہ اس کو support کرنے کی چیز ہے اگر شریعت پر آنے میں کوئی رکاوٹ ہے تو طریقت اس کو دور کرے گی، اس لیے طریقت شریعت پر آنے کا procedure ہے، کبھی بھی طریقت شریعت سے آزاد نہیں ہو سکتی، اس کی وجہ یہ ہے که شریعت تبدیل نہیں ہو سکتی اگر طریقت یہ claim کر دے کہ یہ چیز جائز ہے اور شریعت نے اس کو ناجائز کہا ہو، تو طریقت اس کو جائز قرار نہیں دے سکتی، جائز و ناجائز کی field کس کی ہے؟ شریعت کی ہے، طریقت تو جائز و ناجائز کا فتوٰی لگا ہی نہیں سکتی، یوں کہ سکتے ہیں که طریقت شیخ ہے، مربی ہے۔ اور شریعت کیا ہے؟ یہ مفتی ہے، شریعت کو سمجھانے والے افراد مفتیانِ کرام ہیں اور طریقت پر لانے والے حضرات مشائخ کرام ہیں، یہ اس معنی میں دو مختلف fields ہیں، لیکن آج کل یہ گڑ بڑ ہے که مفتیوں سے تربیت کرواتے ہیں اور پیروں سے فتوے لیتے ہیں۔ بھائی الٹا کام کر رہے ہو، ڈاکٹر سے آپ انجینئرنگ کی باتیں نہ پوچھیں، اور انجینئر سے آپ ڈاکٹر کی باتیں نہ پوچھیں، دونوں اہم ہیں لیکن اپنی جگہ۔ اس طرح بعض لوگوں نے عامل اور پیر کو بھی اکٹھا کیا ہوا ہے یعنی جو عامل ہوتے ہیں اس کو پیر سمجھ لیتے ہیں اور جو پیر ہوتے ہیں اس کو عامل expect کرتے ہیں، جب بھی کوئی اس قسم کا فون کرتا ہے کہ جی ہمارے اندر یہ مسئلہ ہے، کپڑے جل جاتے ہیں، یہ ہو جاتا ہے، وہ ہو جاتا ہے، تو میں اس کو صاف کہتا ہوں که بھائی میں عامل نہیں ہوں اور میں عاملوں کے خلاف بھی نہیں ہوں عامل ہونا اپنی ایک field ہے جس میں صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی ہوتے ہیں، جیسے ڈاکٹروں میں صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی ہوتے ہیں لیکن میری فیلڈ الگ ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک خاتون کا مجھے سعودی عرب سے فون آیا که میں دو سال پہلے آپ سے بیعت ہوئی تھی اب ہم یہاں آئے ہیں تو یہاں ہمارے کپڑے کبھی صندوق میں جل جاتے ہیں اور کبھی پھٹ جاتے ہیں، اب معلوم نہیں کہ یہ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا مجھ سے کب یہ غلطی ہوئی ہے کہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ میں عامل ہوں؟ کبھی آپ لوگوں نے مجھ سے سنا ہے؟ یا کسی نے آپ کو بتایا ہے؟ تھوڑا سا مجھے بھی انفارم کریں تاکہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے، میں نے تو کبھی بھی عامل ہونے کا دعوی نہیں کیا، آپ مجھ سے وہ چیزیں پوچھتی ہیں جو میں نہیں جانتا، آپ نے ایک دفعہ بھی مجھے فون نہیں کیا کہ میری نماز میں مسائل ہیں۔ مجھے بتاؤ آپ مجھے کیا سمجھتی ہیں؟ میں نے کہا تین دن اس پر غور کرو پھر مجھے بتاؤ کہ آپ مجھے کیا سمجھتی ہیں؟ پھر میں آپ کو جواب دوں گا۔ جیسے عامل اور پیر علیحدہ ہوتے ہیں یہ ضروری نہیں بلکہ جمع بھی ہوسکتے ہیں یہ ممکن ہے کہ کوئی پیر عامل بھی ہو اور کوئی عامل پیر بھی ہو، لیکن genralize نہیں ہے، جیسے مجھے معلوم ہے که میں عامل نہیں ہوں تو میں کیوں جھوٹ بولوں؟ مطلب یہ میری فیلڈ ہی نہیں ہے تو اس طریقے سے میں کسی کا علاج کیسے کروں گا؟ آپ حیران ہوں گے کہ جب ہم حیدرآباد گئے تو تو میں نے بیان میں واضح بتایا کہ خبردار اگر میرے پاس کوئی اس مقصد کے لیے آیا کہ ہمارے اوپر جنات ہیں وغیرہ یہ میری فیلڈ ہے ہی نہیں، اگر میرے پاس اس مقصد کے لیے آؤگے تو اپنا وقت ضائع کرو گے اس کے لیے میرے پاس نہ آؤ، ہاں اگر مجھ سے کوئی مشورہ لینا چاہتا ہے تو حاضر ہو، چونکہ بزرگوں نے مجھے صرف اسی چیز کی اجازت دے رکھی ہے، اس لیے اس کام کو کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، تو میں نے اپنے ساتھی مولانا مفتی حبیب اللہ صاحب کو کہا که میں نے زیادہ سخت تقریر تو نہیں کی؟ کہنے لگے حضرت سخت تو تھی لیکن اس طرح کی تقریر کی یہاں ضرورت تھی کیونکہ یہ سب لوگ عاملوں کے پیچھے پڑتے ہیں اور آپ کے پاس بھی اسی مقصد کے لیے آ رہے تھے کہ آپ نے تو دروازہ ہی بند کر دیا بلکہ اللہ تعالٰی نے بند کروا دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
سوال نمبر 05:
آپ نے شروع میں کہا تھا کہ دل کا جو اثر ہے وہ ذکر ہے لیکن نفس کے مسئلہ پر اس پر کوئی سیر حاصل بات نہیں ہوئی تو اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب05:
آپ کی بات صحیح ہے، سوال و جواب اس لیے تو ہوتے ہیں که جو چھپی ہوئی چیزیں ہیں وہ سامنے آجائیں۔ یہ نفس کیا چیز ہے؟ اور اس کا علاج کیا ہے؟ نفس کا علاج ہے مجاہدہ کرنا، میں نے کاکول کی ٹرینگ سے کل explain کرنے کی کوشش کی تھی کہ جو چیز کروانا ہو، تو gradually اس کو اس چیز پہ لانا چاہیے۔ مجھے خود ڈاکٹر نے exercise کرنے کو کہا ہے تو میں ایک بار چھ dips لگاتا ہوں اور جب میں ایک ساتھ دس لگاؤں تو میرا بی پی پلس 130 ہو جاتا ہے، اب 130 سے آگے بڑھنا خطرناک ہے اس لیے میں نے کچھ عرصے کے لیے روک دیا تو آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے بی پی 100 سے بھی نیچے آگیا تو پھر میں نے 20 dips کر دیے جس سے بی پی 130 تک پہنچ گیا، پھر میں کچھ عرصے کے لیے رک گیا تو پھر بی پی 100 سے نیچے آگیا تو پھر میں نے 20 سے30 کردیئے پھر 40 کردیے اور پھر 50 کردیے اور اب 60 تک ڈپس لگاتا ہوں، اب اگر میں پہلے ہی دن سے 60 لگا لیتا تو نتیجتاً بیمار ہو جاتا اور اسپتال چلا جاتا۔ تو بس یہی چیز ہے که اس کو gradually کرنا ہوتا ہے، طریقے سے کرنا ہوتا ہے اگر آپ وزن غلط طریقے سے اٹھائیں گے تو آپ کو نقصان ہو سکتا ہے، اور اگر صحیح طریقے سے اٹھائیں گے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا،بہت سارے لوگوں کو جو کمر کا pain ہوتا ہے وہ اسی وزن اٹھانے میں بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیے ہر چیز کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور اس کا جاننا ضروری ہوتا ہے، اور اس میں graduality بھی ہوتی ہے اور یہ کوئی ماہر ہی بتا سکتا ہے جو لوگ اس چیز کے ماہر ہوتے ہیں وہ بتا سکتے ہیں۔ اور نفس کی جو اصلاح ہے وہ بھی gradual انداز میں مجاہدہ ہی ہے، مجاہدہ کو بڑھایا بھی جاتا ہے اور اس کے ذریعے capbility بڑھتی ہے، پھر مجاہدہ دو قسم کا ہےایک ہے شرعی مجاہدہ اور ایک ہے علاجی مجاہدہ، شرعی مجاہدہ جیسے نماز میں عبدیت کو حاصل کرنے کا مجاہدہ ہے جیسے فجر کی نماز کے لیے اٹھنا مجاہدہ ہے کہ نہیں؟ تہجد میں اٹھنا مجاہدہ ہے، تو یہ شرعی مجاہدیں ہیں، اسی طرح روزہ شرعی مجاہدہ ہے، زکوۃ شرعی مجاہدہ ہے، مال کی محبت کو کم کرنے کے لیے حج شرعی مجاہدہ ہے، اب یہ ساری چیزیں شرعی مجاہدیں ہیں، اب اگر شرعی مجاہدوں سے کام نہ چلے تو پھر کیا کرنا پڑے گا؟ آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰـهِ أَكْبَرُ﴾ (آیت نمبر35، سورۃ العنکبوت) بے شک نماز بے حیائی اور منکرات سے روکنے والی ہے اور اللہ کی یاد تو بڑی چیز ہے۔ اب مجھے بتائیں کہ جو نماز ہم پڑھتے ہیں اگر یہ چیز اس سے حاصل نہ ہو رہی ہو تو کیا نماز پڑھنا چھوڑ دینا چاہیے؟ یا اس کو بہتر طریقے سے پڑھنا چاہیے؟ قرآن تو غلط نہیں ہو سکتا؟ بلکہ ہم غلط ہیں کہ ہم نماز صحیح نہیں پڑھتے، تو اس میں کس چیز کی کمی ہے جس کی وجہ سے ہماری نماز ہمیں برائی سے نہیں روکتی؟ اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ﴿وَلَذِکْرُ اللّٰـهِ أَكْبَرُ﴾ اور اللہ کی یاد بڑی چیز ہے۔ جب تک ذکر properly نہیں آئے گا تو نماز کے اندر نماز والی صفات نہیں آئیں گی۔ جب ذکر properly میرے اندر پورا پورا نہیں آئے گا تو میں اللہ کے سامنے ایسا کھڑا نہیں ہوسکتا، جیسا کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ﴿اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَراہُ فَاِلَّمْ تَکُنْ تَراہُ فَاِنَّہُ یَراکَ﴾ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کر جیسے تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر ایسی کیفیت حاصل نہیں ہے تو کم از کم تو یہ خیال کر بے شک وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اب اگر ہم کوشش نہیں کریں گے تو یہ کیفیت تو حاصل نہ ہوگی تو ہم کیسے تبدیل ہونگے؟ اس طرح روزہ ہےروزے کے جو موانع ہیں اگر ہم اُس سے اپنے آپ کو نہیں بچائیں گے تو روزے سے جتنی تقوی حاصل ہوا ہے اتنی اس سے خرابی بھی پیدا ہوگی اور روزہ کا وہ اثر نہیں رہے گا۔ اس طرح زکوۃ ہے میں اگر دکھانے کے لیے لوگوں کو دیتا رہوں گا که میں اتنی زکوۃ دے رہا ہوں تو اس سے ثواب نہیں ملے گا۔ اس طرح حج ہے اگر حج میں اس لیے کر رہا ہوں، کہ لوگ مجھے ہار پہنائیں میں حاجی بن جاؤں، تو بھی نقصان ہے۔ اب یہ کمی کیسی پوری ہوگی؟ اب نماز تو دوسری نہیں بنائی جاسکتی؟ نماز تو یہی ہوگی، روزہ بھی یہی ہوگا، حج بھی یہی ہوگا، یہ change نہیں ہونگے۔ البتہ اس کے اندر کیفیت کو change کیا جائے گا، تو اس کے لیے ایک علاجی مجاہدہ ہوتا ہے جو جز وقتی ہوتا ہے ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا ایک بات، دوسرا ہوتاہے through procedure، مطلب development اس میں ہوتی ہے وہ اچانک اور فوری طور پر نہیں ہوتا، جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اس سے معلوم ہوا کہ رہبانیت اور علاجی مجاہدہ میں فرق ہے، رہبانیت کے بارے میں آتا ہے ﴿لاَ رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ﴾ اس وجہ سے لوگ کہتے ہیں که ان خانقاہوں میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ سب غلط ہے، کیونکہ رہبانیت میں تو ثواب سمجھ کر مجاہدہ کیا جاتا ہے اور اس میں تو اپنے آپ کو تکلیف دینا، ثواب سمجھا جاتا ہے، لیکن یہاں پر مجاہدہ ثواب کے لیے نہیں کیا بلکہ ثواب والی نماز پر حاضر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ ہمیں ایسے ذرائع مل جائیں جس کے ذریعہ سے ہم اللہ کے قریب ہو جائیں اور اس کے اندر جو موانع ہیں وہ دور ہو جائیں، اسی مقصد کے لیے ہم مجاہدیں کرواتے ہیں اور یہ وقتی ہوتے ہیں اور جب وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو پھر یہ مجاہدے بھی stop کیے جاتے ہیں۔ جیسے ٹرینگ جب مکمل ہوجائے تو stop ہوجاتی ہے اسی طریقے سے یہ بھی، کیونکہ یہ بھی ایک مقصد کے لیے وقتی مجاہدہ ہوتا ہے جب وہ مقصد پورا ہو جائے تو پھر stop ہوجاتا ہے، اور پھر یہ شرعی مجاہدہ ہی کافی ہو جاتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو صاف لکھا ہے کہ اصل تو دین، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج ہی ہے۔ البتہ جب تک ہماری یہ چیزیں ٹھیک نہ ہوں، تو اس کے لیے علاجی مجاہدے ہوتے ہیں، اور جب علاجی مجاہدے ہوجائیں تو پھر صرف یہی اصل چیزیں رہ جاتی ہیں، اس کے بعد کوئی extra عمل نہیں کرنا ہوتا۔ جتنے بھی اللہ والے ہیں وہ مجاہدے نہیں کرتے بلکہ ان شرعی اصولوں کو کرنا شروع کر دیتے ہیں، بس ان کا کام ہوتا رہتا ہے لیکن جب تک یہ اصول حاصل نہ ہوں تو میں ان مجاہدات کو ختم کر کے اس کیفیت کو حاصل نہیں کر سکتا۔ تو یہ سارے مجاہدے وقتی ہوتے ہیں، جب وقت پورا ہو جائے اور بندہ باعمل ہو جائے تو پھر ان مجاہدات کو موقوف کیاجاتا ہے اس وجہ یہ سے رہبانیت کی definition میں نہیں آتے۔
سوال نمبر 06:
حضرت جی! بار بار گناہ ترک کرنے کا ارادہ کرنے کے باوجود گناہ نہیں چھوٹتے اور بعض اوقات کافی عرصے کے بعد دوبارہ ہو جاتے ہیں اس کا کیا علاج ہے؟
جواب 06:
ایک دفعہ خانقاہ میں ایک بزرگ تشریف لائے تھےانہوں نےحضرت کو خط لکھ کر عرض کیا که حضرت! جب ہم یہاں آجاتے ہیں تو ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ ٹھیک رہتے ہیں پھر گڑ بڑ ہو جاتا ہے، پھر یہاں آکر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ تو کب ہم مکمل ٹھیک ہوں گے؟ تو حضرت نے فرمایا اچھا مجھے بتاؤ آپ صاف کپڑے پہنتے ہیں جب میلے ہو جاتے ہیں تو پھر دھوبی کے پاس لے جاتے ہیں۔ وہ اس کو دھو لیتا ہے پھر آپ اس کو پہن لیتے ہیں پھر اس کے بعد میلے ہو جاتے ہیں پھر دھوبی کے پاس لے جاتے ہیں پھر پہن لیتے ہیں۔ تو کیا خیال ہے اس کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ مستقل طور پر صاف رہے؟ تو جس طرح کپڑے مستقل صاف نہیں رہ سکتے اس طرح سے یہ عمل بھی مسلسل جاری رہے گا۔ میں نے عرض کیا که جو دل کو متاثر کرنے والی چیزیں ہیں وہ دل کو خراب کرتی ہیں پھر اس کو ٹھیک کرنے کے لیے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اور یہ سسٹم چلتا رہتا ہے، جب انسان اس سسٹم کے اندر ہو جاتا ہے اور ان چیزوں کو properly سیکھ لیتا ہے تو پھر اس میں ایک sense آنے لگتا ہے جو اس اثر کو زائل کر دیتی ہے اور اس کے قریب بھی نہیں جاتا۔ جب تک وہ sense devolop نہیں ہو چکا ہوتا وہ خراب ہو رہا ہوتا ہے اس کو پتا نہیں چل رہا ہوتا ہے، جیسے ایک آدمی کو شوگر ہے تو جب ابتدا میں ہوتا ہے تو اس کو پتا نہیں چل رہا ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ جب شوگر 450 پر پہنچ جاتی ہے تو بیچارہ اسپتال پہنچ جاتا ہے۔ بعد میں اس کو اتنا تجربہ ہوجاتا ہے کہ اس کا شوگر لیول جب بھی بڑھتا ہے تو اس کی body خود senseکرتی ہے مطلب یہ کہ بے شک وہ ٹیسٹ نہ کرے لیکن اس کو پتا چل جاتا ہے، وہ educate ہو جاتا ہے کہ میں ٹھیک ہو رہا ہوں یا خراب ہو رہا ہوں؟ جیسے خرابی کا وقت آتا ہے تو وہ دوائی استعمال کرلیتا ہے جس سے وہ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زندگی کو دیکھو، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے عرض کیا که آپ جہاں جا رہے ہیں وہ لوگ کپڑوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اس لیے آپ مہربانی کر کے اپنے کپڑوں کو بہتر کرلیں۔ فرمایا بات تو آپ کی معقول ہے لیکن میرے پاس ایسے کپڑے نہیں ہیں جب کہ خلیفہ ہے، فرمایا اگر میں جوڑا پیش کردوں؟ فرمایا ٹھیک ہے دے دو، جب حضرت نے تھوڑی دیر کے لیے پہنا اور پھر فوراً اتار دیا، اوہ! یہ تو مجھے ہلاک کر دے گا یہ تو میرے دل کو متاثر کر رہا ہے ان کا دل اتنا sensitive تھاکیونکہ انھوں نے اپنے اوپر محنت کی تھی لہٰذی وہ چیزیں ان کو محسوس ہوتی تھیں۔ اب دیکھو! ان کا دل تو بہت sensitive تھا ہمارے دل تو ایسے نہیں ہیں لیکن کم از کم جو موٹی موٹی چیزیں ہیں وہ تو ہمیں پتا چلنا شروع ہوجائیں۔ اب تو یہ حالت ہے که مرد و عورت آپس میں گپ شپ لگا رہے ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوتا اب ان کو کون سمجھائے؟ ان کو گناہ کا احساس ہی نہیں ہے۔ کہ گناہ کس چیز کو کہتے ہیں؟ ہمارا معاملہ تو بہت پیچھے چلا گیا۔ کم از کم ہماری sense اتنی devolop ہو جائے کہ ہم گناہ کو گناہ کہہ سکیں، گناہ سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کوشش کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ خیر کا معاملہ فرمائے۔
سوال نمبر 07:
السلام علیکم! حضرت جی نماز میں خشوع کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟
جواب 07:
سبحان اللہ! ایک آدمی کو heart problem ہے وہ ڈاکٹر کو simple دو words میں کہہ دے، کہ میرے ECG کے اندر یہ مسئلہ ہے، یہ کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ تو وہ اس کو کیا جواب دے گا؟ بھائی صاحب simple دو لفظوں میں جواب تھوڑی ہوتا ہے، یہ پورا ایک سسٹم ہے، سب سے پہلے تو اس میں پرہیز ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ کچھ علاج معالجہ بھی ہوتا ہے، کچھ ورزش وغیرہ کا بتا دیا جاتا ہے، یہ ساری چیزیں ملا کر دل کی پرابلم کا علاج ممکن ہو جائے گا۔
اس طرح یہاں بھی کچھ مختصر علاج ہے لیکن وہ وقتی ہوگا۔ مکمل علاج یہ ہے که پورے سلوک کو طے کیا جائے تب یہ چیز حاصل ہو سکتی ہے۔ فوری علاج بھی میں بتا سکتا ہوں وہ یہ که آپ یہ سوچیں که میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں اور اللہ بہت عظیم ہے وہ میری ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ تصور نہیں بن پا رہا تو پھر یوں کہو کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں خانہ کعبہ بھی sensible ہے۔ اور اگر یہ تصور بھی کسی کا نہیں بنتا، تو پھر وہ سچے حافظ کی طرح وہ الفاظ پڑھے، پکّے حافظ کی طرح نہیں مطلب ہر چیز کو سوچ سمجھ کر رہا ہو۔ چوتھی بات ہر عمل کے اندر دل میں نیت کرلیا کریں، مثلاً اب میں رکوع میں جا رہا ہوں، میں اللہ کے لیے رکوع سے اٹھ رہا ہوں، میں اب سجدے میں اللہ کے لیے جا رہا ہوں، اب میں اس سے سر اٹھا رہا ہوںتو آپ اس نیت کی وجہ سے نماز کے اندر رہیں گے نماز سے باہر نہیں جائیں گے۔ ایک وقت میں انسان دو خیالوں کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح کرنے سے آپ نماز کی ادائیگی خشوع و خضوع سے کرنے کی عادی ہو جاؤ گے۔
ایک بہت بڑے عالم سے کسی نے پوچھا کہ یہ تصوف کیا ہے؟ آپ مجھے تین دن میں جواب دیں، تو حضرت نے فرمایا: ابھی جواب دے رہا ہوں، تو انھوں نے کہا نہیں مجھے مکمل جواب چاہیے، تو حضرت نے فرمایا: بھائی صاحب ابھی جواب سن لو اگر کوئی کمی ہو تو تین دن بعد پھر پوچھ لینا، حضرت نے فرمایا: اس کی ابتدا تصحیح نیت سے ہوتی ہے، اور اس کی انتہا کیفیتِ احسان ہے، ﴿اَنْ تَعْبُدَ اللّہَ کَاَنَّکَ تَراہُ فَاِلَّمْ تَکُنْ تَراہُ فَاِنَّہُ یَراکَ﴾ وہ عالم جب آئے تو کہنے لگے، اچھا اس کی ابتدا تصحیح نیت ہے اور یہ بخاری شریف کی پہلی حدیث ہے ﴿اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ﴾ اور حدیثِ جبرئیل بھی بخاری شریف میں ہے که آپ علیہ السلام سے تین سوال پوچھے گئے، ایمان کیا ہے؟ اسلام کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟ ایمان کیا ہے کا جواب، ایمان کے شعبے بتائے، اسلام کیا ہے کا جواب، اسلام کے ارکان بتائے، احسان کے بارے میں فرمایا که ﴿اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَراہُ فَاِلَّمْ تَکُنْ تَراہُ فَاِنَّہُ یَراکَ﴾ تو ایسی عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ تو نہیں کر سکتا تو بے شک یہ تو کہہ سکتا ہے که خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔ اب تصوف کی انتہا یہ ہے که جب تک یہ کیفیت نہ بنے تو وہ تمام حربے استعمال کیے جاتے ہیں جو اس کیفیت کو لا سکتے ہیں، اب میں عرض کرتا ہوں مثال کے طور پر میں ذکر لسانی کرتا ہوں یہ میری زبان کا ذکر ہے، پھر خواتین جلدی شروع کر سکتی ہیں مگر مرد حضرات اس میں ٹائم لگائیں گے۔ اور 40 دن کے بعد پھر ہم ان کو بتاتے ہیں که اب آپ تصور کریں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے، مطلب دل کی زبان اللہ اللہ کر رہی ہے اور میں اس کو سن رہی ہوں۔ اور یہ کیفیت کسی کی جلدی ہو جاتی ہے، اور کسی کی کچھ مہینوں کے بعد، لیکن باقاعدہ وہ sense کر رہی ہوتی ہے کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے پھر اس کے بعد ہم اس کو دوسرے point پہ لے جاتے ہیں جس کو لطیفہ روح کہتے ہیں۔ پھر لطیفہ خفی پر۔ پھر لطیفہ اخفی پر۔ ان سب لطائف پر سے گزر کر یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ پورا جسم ذکر کر رہا ہوتا ہے، اور یہ حالت ہو جاتی ہے که وہ تصور کرتا ہے کہ میرا پورا جسم اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ اور اس حالت میں دعائیں کرنا ان کو سکھائی جاتیں ہیں۔ اس کے بعد جب وہ نماز پڑھے گی تو مجھے بتاؤ وہ نماز کیسی ہوگی؟ تو یہ gradually کرنے کا کام ہے، ایک دن میں تو نہیں ہو سکتا پھر نماز میں انسان اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
سوال نمبر 08:
حضرت جی عبادت میں شوق اور لذت کیسے پیدا کی جا سکتی ہیں؟
جواب 08:
سب سے پہلے میں آپ سے request کر رہا ہوں که لذت کے لیے عبادت نہ کریں یہ شرک فی الطریقت ہے، عبادات اللہ کی بندگی کے لیے کریں، اگرچہ اس میں انسان کو تکلیف ہو جیسے انسان مر رہا ہو پھر بھی عبادت کرے۔ یہی بندگی ہے اور کبھی کبھار ایسے حالات آجاتے ہیں۔ ایک دفعہ کسی عالم سے کسی نے پوچھا کہ حضرت میرا دل بالکل نماز پڑھنے کو نہیں چاہتا میں کیا کروں؟ فرمایاجب سو فیصد نمبر ملنے کا وقت آگیا تو تم بھاگ رہے ہو! اس نے کہا وہ کیسے؟ انھوں نے کہا دیکھو جب آپ کو نماز میں مزہ آرہا تھا تو کچھ نمبر مزے کے کٹ رہے تھے کہ تم شاید مزے کے لیے کر سکتے ہو اب مزہ تو نکال دیا گیا اور اب تم صرف خدا کے لیے کرو گے، جب صرف خدا کے لیے کرو گے تو پھر آپ کے سو فیصد نمبر ہو جائیں گے، تو جب سو فیصد نمبر کا وقت آگیا تو آپ بھاگ رہے ہیں۔ حدیث شریف میں ایک دعا ہے؛ یا اللہ مجھے اتنا شوق عطا فرما کہ میرے اور گناہ کے درمیان حائل ہو جائے؛ تو لذت کی بھی ایک لمٹ ہے اس لیے ان چیزوں کو مقصود نہیں بنانا چاہیے، الا یہ که اللہ تعالٰی دے تو اس پہ شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ آسانی ہے اور آسانی کے ساتھ عبادت ہو جاتی ہے تو شکر ضرور کرنی چاہیے کیونکہ جب انسان کے وسائل نہیں ہوتے تو پھر صبر کرنا پڑتا ہے صبر کے لیے فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ ”اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“ اور اگر وسائل ہوں اس پر شکر کرے تو اس کے لیے فرمایا ﴿لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾ تو اس کا مطلب ہے کہ ہر چیز میں فائدہ ہے بشرطیکہ صحیح طریقے سے کی جائے، بہرحال شوق کے لیے، لذت کے لیے، تو عبادت نہ کریں لیکن حاصل ہو جائے تو اس کو ما شاء اللہ! اللہ تعالٰی کا ایک تحفہ اور نعمت سمجھ کر اس پر شکر ادا کریں۔
سوال 09:
حضرت جی! کیا کمپیوٹر، ٹیب، موبائل گیمز وغیرہ میں گناہ ہے؟
جواب 09:
﴿اِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾ یہ تو بالکل فضول سوال ہے، کیونکہ گیمز میں تصویریں ہوتی ہیں، اس طرح اس میں وقت کا ضیاع ہوتا ہے تو کیا اس میں گناہ نہیں ہوگا؟ اسی طرح ویڈیو گیمز میں تو یہ ساری چیزیں آجاتی ہیں، اس لیے اس میں گناہ ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔ اور دل یقیناً چاہتا ہے اور اس کو اس میں فرحت محسوس ہوتی ہے، بلکہ یہ نفس کو اچھی لگتی ہے یہاں پر دل affected party ہے affecting party نہیں ہے۔ نفس کی خواہش کی وجہ سے دل متاثر ہونے لگتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ شاید میرا دل یہ کہ رہا ہے حالانکہ دل نہیں کہ رہا ہوتا، بلکہ نفس کہ رہا ہوتا ہے۔ بہرحال کمپیوٹر بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر اس کو اچھی چیزوں کے لیے استعمال کیا جائے، آج کل بہت محتاط رہنا چاہیے، یہ فتنے کا دور ہے اور اس میں اگر آپ ایک چیز صحیح مقصد کے لیے استعمال کرنا بھی چاہیں تو بہت ساری رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ مثلاً آپ کوئی چیز انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہو یا براؤز کرنا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ کافی ساری خرافات بھی بن بلائے آجاتی ہیں، جیسے میں تفسیر عثمانی تلاش کر رہا تھا جیسے میں نے ڈاؤن لوڈ کرنا شروع کیا تو ساتھ میں فحش تصاویر بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ ان لوگوں نے اتنے intelligentally سے ان چیزوں کو organize کیا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی بچنا بھی چاہے تو بچ نہیں سکتا، اس کے لیے پھر انسان کو کچھ ٹیکنکل طریقے بھی جاننے چاہیے اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے ذرائع بھی معلوم ہونے چاہئیں۔ بہرحال tablet میں بھی کمپیوٹر کی طرح چیزیں ہوتی ہیں۔ آج کلandroid بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ میں آپ کو اپنا واقعہ سناتا ہوں جب ہم حرم شریف گئے تو جیسے مروہ کے گیٹ پہ داخل ہو گئے تو ایک آدمی بیٹھا ہوا تھاویڈیو گیم کھیل رہا تھا اور حرم شریف کے سامنے بیٹھ کر خانہ کعبہ کو نہیں دیکھ رہا تھا۔ اسی طرح جمعہ کا خطبہ ہو رہا ہوتا ہے اور خطبہ کے دوران لوگ کھڑے ہوکر تصویریں لے رہے ہوتے ہیں۔ دو سال پہلے مسجدِ نبوی کے امام نے باقاعدہ اس پر عشاء کی نماز کے بعد بیان کیا کہ جو لوگ موبائل لے کر تصویریں لیں رہے ہیں یہ حرام ہے، غلط ہے اس سے گریز کریں، یہ خشوع کا قاتل ہے، یہ فتنہ ہے اور آپ حیران ہو جائیں گے کہ مسجدِ حرام میں ایک نماز ہم نے ایسی پڑھی کہ تین رکعت میں مسلسل میوزک سنتے رہے۔ آج کل اس قسم کے حالات میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔
ہم مدینہ منورہ گئے تو سلام کے بجائے جالیوں میں ہاتھ ڈال کر تصویریں کھینچ رہے تھے اس لیے حج وعمرہ کی برکت ختم ہوگئی۔ بعض لوگ پوچھتے ہیں کیا تھوڑا سا relax ہونے کے لیے گیم کھیلنا صحیح ہے؟ تو یہ معاملہ اگر یہاں تک رہ جائے تو شاید یہ سوال معصومانہ ہو لیکن اس کے بعد جو مرحلے آتے ہیں وہ اتنے معصومانہ نہیں ہوتے مطلب یہ که ایک کلک پر آپ کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں اس لیے گیم کھیلنا ایک step ہے پھر اس کے بعد اگلے step کی ضرورت پڑے گی پھر اس سے اگلے step کی ضرورت پڑے گی تو آپ آگے بڑھتے چلے جائیں گے، لہذا اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے۔
میرےخیال میں سوالات تو پورے ہو گئے، قرآن میں دل نہیں لگتا تو اگر ان چیزوں میں دل لگتا ہے اور نماز و قرآن میں نہیں لگتا تو بیماری ہے اس بیماری کو دور کرنے کی ضرورت ہے اسی کے لیے ساری محنتیں ہو رہی ہیں اللہ تعالٰی میری بھی اصلاح کرے اور آپ حضرات کی بھی، آمین۔
﴿وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ﴾