سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 225

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں آپ کو اپنے معمولات بتانے لگی ہوں۔ تہجد کی پہلے پابند تھی، لیکن دو ہفتے سے نہیں پڑھی، لیکن اب ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا۔ فجر کی نماز پابندی سے پڑھتی ہوں، اس کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتی ہوں، آدھا پارہ یا کبھی پورا پڑھ لیتی ہوں، پھر مسنون دعائیں پڑھ لیتی ہوں اور 100 دفعہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ‘‘ پڑھ کے سوجاتی ہوں۔ پھر گیارہ بجے اٹھ کر سوشل میڈیا پر اسلامک بیانات پوسٹ کرتی ہوں، اس کے بعد voice پر درس قرآن کے گروپ میں بیانات پچاس ہزار لوگوں کو بھیجتی ہوں، پھر میں خود بیانات ایڈٹ کرتی ہوں، جس میں آپ کے بھی کچھ بیانات شامل ہیں۔ اور ظہر کی نماز بھی پابندی کے ساتھ پڑھتی ہوں، پھر آپ نے جو اذکار بتائے ہوئے ہیں وہ پڑھ لیتی ہوں، یعنی تیسرا کلمہ 100 دفعہ، استغفار 100 دفعہ اور درود پاک 100 دفعہ، اس کے علاوہ اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرتی ہوں۔ عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پابندی سے ادا کرتی ہوں، عشاء کی نماز کے بعد سورۃ الملک، سورۃ حٰم سجدہ اور سورۃ الحشر کی آخری آیات پڑھ لیتی ہوں اور تفسیر یا خالی ترجمہ قرآن پاک کا تھوڑا سا پڑھ لیتی ہوں۔ ان سب معمولات کے درمیان 12 بجے سے 01:30 تک، 05:00 بجے سے مغرب کی آذان تک، رات 11:00 بجے سے 01:30 بجے تک اور صبح فجر کی نماز کے بعد 06:00 سے 07:00 تک جو بات ہوتی تھی وہ تو اب ختم ہوگئی۔ لیکن بہرحال آپ ان معمولات کے بارے میں مجھے بتائیں کہ کیا جاری رکھوں یا نہیں؟ اور اب سے پختہ عہد کر لیا ہے کہ آپ سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کروں گی۔ مجھے گھر کے کاموں کا بھی بتا دیں، کیونکہ میرے گھر میں عورتیں زیادہ ہیں اور کوئی مجھے کام کرنے کے لئے کہتا نہیں ہے، لیکن آپ کہیں گے تو خود پر واجب کردوں گی۔

جواب:

اس کا جو مختصر جواب ہوسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جو سوشل میڈیا پر کام ہے، یہ ہے تو ضروری، لیکن اس کے اندر کچھ مشکلات ہیں، کچھ مفاسد ہیں، مثال کے طور پر اس میں کچھ اغیار لوگوں نے ایسی چیزیں رکھی ہوتی ہیں کہ اس پر کام کرتے کرتے اُن کی طرف ذہن چلا جاتا ہے اور پھر بعد میں انسان اس میں involve ہوجاتا ہے جو کہ بالخصوص جوانوں کے لئے مناسب نہیں ہوتا اور خاص کر عورتوں کے لئے تو مشکلات زیادہ ہوتی ہیں۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں: ’’منګې مات شو که مات نه شو ډز ئې لاړو‘‘ کہ گھڑا ٹوٹا ہے یا نہیں ٹوٹا لیکن اس کی آواز گئی۔ یعنی اگر خدانخواستہ کوئی بدنامی کا label لگ جائے تو پھر بڑا مسئلہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے جو غیر شادی شدہ خواتین ہیں ان کو تو سوشل میڈیا پر آنے میں خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا میں یہ مشورہ دوں گا کہ فی الحال آپ اس سے کم از کم تین مہینے کے لئے اپنے آپ کو detach کر لیں، اور اپنا اللہ کے ساتھ جو تعلق ہے وہ اتنا بڑھائیں کہ آپ کے اندر دل کے لحاظ سے اتنا sense آجائے کہ اگر کوئی غلط کام ہو رہا ہو تو فوراً ایک ظلمت کا ادراک ہونے لگے اور فوراً آپ pick کریں کہ مجھے کچھ مسئلہ گڑبڑ لگتا ہے، ایسی صورت میں آپ جلدی پوچھ لیں گی اور بچ جائیں گی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر کسی وقت بھی اگر کوئی زہریلا تیر آگیا اور اس سے نقصان ہوگیا اور آپ کو پتا بھی نہ چلا اور بعد میں پھر آپ پشیمان ہوتی رہیں تو یہ بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا میں یہ advice کروں گا کہ فی الحال آپ ان چیزوں سے اپنے آپ کو detach کر لیں اور یہ کام دوسروں کے لئے چھوڑ دیں، جو عمر رسیدہ لوگ ہیں یا ان کے ذریعے سے جو بچے ہوئے لوگ ہیں۔ فی الحال آپ کو میں یہی کہوں گا، کیونکہ magnets کی طرح یہ چیز ہوتی ہے، magnets چونکہ Natural phenomina ہیں، ایک magnet دوسرے magnet کو attract کرتا ہے، Opposite poles جو ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کو attract کرتے ہیں۔ اگر کوئی isolation media درمیان میں نہ ہو تو پھر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ شریعت نے جو پابندی لگائی ہوتی ہے، وہ ویسے ہی نہیں لگائی ہوتی، بلکہ اس کے اندر بہت ساری حکمتیں ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے فی الحال میں نوجوانوں کو اس میں encourage نہیں کرتا، جب تک وہ اپنی اصلاح اتنی نہ کر لیں کہ وہ اپنے آپ کو گند سے بچا سکیں۔ لہٰذا فی الحال آپ یہ کر لیں۔ باقی جو اذکار آپ کر رہی ہیں وہ ٹھیک ہیں، لیکن اس پر میں تفصیلی جواب آپ کو ان شاء اللہ written دوں گا۔ ابھی فی الحال جو بات کر لی ہے اس پر آپ عمل کرنے کی کوشش فرما لیں۔

سوال نمبر 2:

I hope you are doing well and in the best of health and spirit. Sir, I wanted to inform you about my halat. They have become better than what they were. That error struggle has started again and the urge to fight against my desire. It started again too. The one thing that I have felt is that now when I don’t pray or do zikr and I am away from this stuff I feel a physical depression in my head. When I start doing it again I am at peace and I can sleep well too. You instructed me to do 2, 2, 1 zikr starting from 5th March and today is 19th April, but since I haven’t been able to do it continuously, I didn’t inform you after one month. I am doing my daily recitation of Surah Yaseen, Surah Waqiah, Surah Rehman and Surah Mulk too and have memorized them by heart. Other than I try to do whatever little I can and ask for help from Allah Subhana-o-watalaa as without his help I don’t think that will power and other stuff is possible and I have experienced it myself. Please instruct me if you like me to change my zikr and please pray for me.

جواب :

سبحان اللہ! ایک بات تو اس میں بڑی اچھی ہے کہ آپ نے sense کرنا شروع کر لیا ہے۔ یعنی اگر آپ اپنے دینی معمولات نہیں کرتے تو آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے، یہ ایک اچھا sense ہے کہ آپ کے دل نے جواب دینا شروع کر لیا ہے، اسی کو دل کی بیداری کہتے ہیں۔ اگرچہ فی الحال Initial stage میں ہیں، لیکن بہرحال دل کی بیداری اسی کو کہتے ہیں کہ جب دل بیدار ہوجاتا ہے تو اپنی خوراک نہ ملنے پر retaliate کرتا ہے اور انسان تکلیف محسوس کرتا ہے، لہٰذا یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ البتہ ایک بات ذرا یادہانی کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو جو ذکر میں نے دیا ہے، اس ذکر کے اندر آپ جو ناغہ کرتے ہیں، یہ اچھا نہیں ہے، کیونکہ یہ میڈیسن کی طرح ہے اور میڈیسن کے اندر جو ناغے ہوتے ہیں، یہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا فی الحال آپ اس بات کو یاد رکھیے کہ جو چیز میڈیسن ہے، اس کو آپ میڈیسن ہی سمجھیں اور اس کے اندر جو continuity ہے، اس کو آپ اپنے ذہن میں رکھیں، یہ آپ کے لئے بہت ضروری ہے، اس لئے میں آپ کو suggest کروں گا کہ آپ اسی ذکر کو ایک مہینہ اور continously کر لیں، پھر اس کے بعد آپ مجھے لکھیں، تو ان شاء اللہ العزیز! میں آپ کو اگلا ذکر دے دوں گا۔ استقامت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)

ترجمہ: ’’جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔

لہٰذا یہ جو استقامت ہے، یہ تمام چیزوں کی بنیاد ہے۔ تو آپ اس میں استقامت اختیار کریں، پھر ان شاء اللہ اس کے بعد میں آپ کو مزید تفصیل بتا دوں گا۔

سوال نمبر 3:

ایک بندے کو جاب کی وجہ سے ٹائم نہیں ملتا، وہ رات کو ساڑے گیارہ بارہ بجے آرہا ہے، لیکن وہ ذکر کررہا ہے، ذکر میں ناغہ نہیں کررہا لیکن ذکر کرتے کرتے کبھی سانس چڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح وہ مراقبہ بھی کررہا ہے مگر اس میں کبھی نیند بھی آجاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ ذکر اور مراقبے کو وہ صحیح طرح ٹائم نہیں سکتا۔

جواب:

دیکھیں! کچھ چیزیں تو آپ نے خود محسوس کر لی ہیں۔ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ذکر کو وہ ٹائم دینا چاہئے جو best ہو، یعنی جس میں انسان فریش ہو، اس کے جو senses ہیں وہ صحیح کام کر رہے ہوں۔ پھر ان تمام چیزوں کے بعد جب ذکر کو اس طریقے سے کرے گا تو پھر اس کی روح میں وہ چیزیں اتریں گی۔ اور اس کے ساتھ جو نتیجے ہیں وہ برآمد ہوں گے۔ اور اگر اس کو ایسا ٹائم دے دیا جو سب سے نکما ٹائم ہے یعنی انسان تھکا ہوا ہے، بات کرنے کے بھی قابل نہیں ہے اور اس کو نیند بہت آرہی ہے، تو اس وقت اگر وہ ذکر کرے گا، بالخصوص مراقبہ کرے گا تو وہ بہت مشکل ہوگا۔ کیونکہ یہ ایسی چیز ہے کہ اس میں ایک سکون کی فضا، اور سکینت کی فضا انسان پر طاری ہوتی ہے، جس میں ایک فریش آدمی کو بھی بعض دفعہ نیند آنے لگتی ہے۔ اور اگر تھکا ہوا آدمی مراقبہ کرے گا تو پھر تو وہ سونے کی نیت ہے۔ جیسے ہم تبلیغی جماعت میں جب جاتے تھے، تو وہ حضرات کہتے تھے کہ آپ اگر گھٹنوں کے اوپر سر رکھ کر بیان سننے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نیند کی نیت کر لی ہے۔ اور یہ بات بلکل صحیح ہے، واقعی اگر ہم اس طرح کریں گے تو پھر تو ہم سوئیں گے۔ اس وجہ سے عادتوں کو ذرا change کرنا چاہئے۔ لہٰذا اس کا ٹائم change کر لیں، جو مناسب ٹائم ہو، وہ ٹائم رکھیں، اور اس وقت یہ کر لیں۔ البتہ ایک بات میں کہوں گا کہ جس طرح آپ نے کہا ہے کہ اس کا اثر بھی ہوتا ہے، لیکن minimum ہوتا ہے، جبکہ کوئی بھی minimum اثر کے لئے ان چیزوں کو نہیں کرتا۔ لہٰذا جب انسان جسمانی غذا کے لئے بہترین کھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے اثرات اچھے لے لیں، تو روحانی غذا کے لئے بھی بہترین طریقے سے انسان ذکر کرے گا تو اس کے اثرات اچھے ہوں گے۔

سوال نمبر 4:

سڑک پر گزرتے ہوئے خواتین کی نظر مردوں پر پڑ جاتی ہے، اگرچہ فوراً ہٹ بھی جاتی ہے، لیکن بہت سارے مردوں پر پڑتی ہے، تو کیا یہ بھی بد نظری ہے؟ اس بات کی عادت کیسے ڈالی جائے کہ نگاہ مردوں پر پڑے ہی نہ؟

جواب:

ماشاء اللہ! بڑی فکر والا سوال ہے۔ واقعی جب انسان راستے پر جاتا ہے تو نظر پڑتی ہے۔ لیکن نظر پڑجانے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بالکل سامنے دیکھیں، دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ضرورۃً سامنے دیکھیں، لیکن زیادہ تر نیچے دیکھیں۔ قرآن میں بھی اس کا حکم ہے۔ لہٰذا اس طریقے سے جب انسان چلے گا تو پھر اس کی نظر زیادہ تر غیر محرم پر نہیں پڑے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ ﷺ نے فرمایا:

’’يَا عَلِىُّ لاَ تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فَإِنَّ لَكَ الأُوْلٰى وَلَيْسَتْ لَكَ الْاٰخِرَةُ‘‘۔ (سنن ابی داؤد: 2151)

ترجمہ: ’’علی! پہلی نظر کسی نا محرم پر پڑنے کے بعد اس پر دوسری نظر نہ ڈالنا، کیونکہ پہلی نظر تو تمہیں معاف ہوگی، دوسری نہیں ہوگی‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی نظر اگر اتفاقاً پڑ گئی اور فوراً اس کو ہٹا لی تو معاف ہے۔ دوسری حدیث شریف میں آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اَلنَّظْرَةُ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ إِبْلِيْسَ مَسْمُوْمَةٌ فَمَنْ تَرَكَهَا مِنْ خَوْفِ اللهِ أَثَابَهُ جَلَّ وَعَزَّ إِيْمَانًا يَجِدُ حَلَاوَتَهٗ فِي قَلْبِهٖ‘‘ (المستدرك على الصحيحين، رقم الحديث: 7875)

ترجمہ: ’’نظر شیطان کے زہر آلودہ تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ اور جس نے اللہ کےخوف کی وجہ سے اپنی نظروں کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان عطا کرتا ہےجس کی حلاوت وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔

لہٰذا اس عمل پر بہت بڑا credit ملتا ہے۔ اس لئے ایک تو یہ بات ہے کہ زیادہ تر نظر نیچے رکھیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر نظر اتفاقاً پڑے تو اس کو فوراً ہٹا دیں۔ اسی میں انسان کی حفاظت ہے۔

سوال نمبر 5:

بچوں کو فارغ اوقات میں کیا مصروفیات دینی چاہئیں؟

جواب:

سب سے پہلے تو یہ بات ہے کہ ایسی مصروفیات نہیں دینی چاہئیں جو گناہ ہوں، مثلاً تصویریں، ویڈیو گیمز، ایسے ہی toys جو کہ بتوں کی شکل میں ہوتے ہیں، ان چیزوں سے کم از کم ان کو بچایا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ چیزیں جو اغیار لوگوں نے بنائی ہوئی ہیں، یعنی کچھ singing یا اس قسم کی چیزیں تو ان چیزوں سے بچوں کو بچانا چاہئے۔ اور natural انداز میں ایسی چیزیں ان کو کرنے دینی چاہئیں جو آئندہ زندگی میں بھی کام آتی ہیں۔ تفصیل کا چونکہ موقع نہیں ہے، اور اس کا جواب میں نے پہلے بھی دیا تھا۔ میرے خیال میں بیان ریکارڈ ہو چکا ہے، یہ آج اتوار والا بیان ہے، اگر کوئی سننا چاہتا ہے تو اس کا تفصیلی جواب موجود ہے۔

سوال نمبر 6:

گھر میں چار پانچ سال کے بچوں کے لئے کون سی کتاب کی تعلیم کرائیں؟

جواب:

سب سے پہلے جو صحابہ کرام کے واقعات ہیں، وہ بچوں کے ذہن کے مطابق یعنی ان کے الفاظ میں ان کے سامنے بیان کئے جائیں، اور آپ ﷺ کی سیرت کے واقعات بچوں کے ذہن کے مطابق بیان کئے جائیں، یہ نہیں کہ بہت گہری باتیں ہوں، بلکہ جو باتیں light ہوں اور جو عام باتیں روز مرہ زندگی سے متعلق ہوں، جیسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے اور موسیقی کی آواز آئی تو آپ ﷺ نے کانوں کے اندر انگلیاں ڈال لیں۔ (مشکوۃ: 4811) لہٰذا اس قسم کے واقعات جو چھوٹے چھوٹے ہیں وہ بتائے جائیں، تاکہ اس میں تعلیم بھی ہو اور ساتھ ساتھ وہ کہانی والا شوق بھی ان کا پورا ہوجائے۔

سوال نمبر 7:

اگر گاڑی والا گاڑی نہ روکے اور نماز کا وقت ختم ہوجائے تو کس طرح نماز ادا کرے؟

جواب:

اگر ریل گاڑی ہو تو ریل گاڑی میں تو نماز پڑھنا ممکن ہوتا ہے۔ اور دوسری گاڑیاں جو ہوتی ہیں، ان میں Daewooکے اندر تو نہ بیٹھیں کیونکہ نمازوں کے اوقات میں Daewoo نہیں رکتی۔ البتہ باقی گاڑیوں والوں کو اگر کہا جائے اور کوشش کی جائے تو اکثر وہ روک لیتے ہیں۔ اور اگر بالکل مشکل ہو تو پھر ایسے وقت میں سفر کیا جائے جس میں نمازیں نہ آتی ہوں۔ اس طریقے سے انسان سفر کرے، کیونکہ ورنہ عورتوں کے لئے تو بڑے مسائل ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 8:

بچے اونچی آواز میں بولتے ہیں، تو کس طرح ان کی عادت ڈالیں کہ وہ آہستہ آواز میں اور نرمی سے بات کر لیں؟

جواب:

اکثر مجھ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ بچوں کی تربیت کیسے کرنی چاہئے؟ میں اس سوال کا جواب اس طرح دیتا ہوں کہ بچوں کی تربیت کے لئے بڑوں کی تربیت پہلے ضروری ہے۔ اگر بڑوں کی تربیت نہ ہو تو پھر بچوں کی تربیت نہیں ہوسکتی۔ مثال کے طور پر میاں بیوی آپس میں لڑتے ہوں، زور زور سے باتیں کرتے ہوں، تو بچے کیسے expect کرسکتے ہیں کہ جب ان کو کہیں کہ آپ نرمی سے اور آہستہ آواز میں بات کیا کریں۔ لوگ گفتار سے زیادہ متأثر نہیں ہوتے، جتنا کردار سے متأثر ہوتے ہیں۔ اور بچے تو بالکل صاف پلیٹ ہوتے ہیں، اس لئے ان پر تو ساری چیزوں کا اثر direct پڑتا ہے اور یہ بھی نفسیات والے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ جتنا انسان پہلے تین سالوں میں learn کرتا ہے، وہ عمر کے باقی حصوں میں اتنا نہیں کرتا اور پھر تین سال سے دس سال میں learn کرتا ہے، اس کے بعد پھر وہ maximum ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر تھوڑا سا حصہ لوگ learn کرتے ہیں۔ اب یہی وہ اوقات ہوتے ہیں جس میں بچوں کو بچہ سمجھتے ہیں، ان کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کو کچھ پتا ہی نہیں چل رہا، وہ ان کے سامنے اس قسم کے کام کر رہے ہوتے ہیں، جو بچے کے ذہن پر اثرات ڈال رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس وقت انسان کو محسوس کرنا چاہئے کہ ہمارے اندر ایک اور زندہ انسان موجود ہے، جو sense کر رہا ہے، جس کو کچھ پتا چل رہا ہے، جو آئندہ اس کے لئے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ اگر ان تمام چیزوں کو sense کرتے ہوئے خود اپنے بارے میں مشورہ کر لیں کہ ہم کیسے رہیں! تو اس کا ان شاء اللہ! بچوں کے اوپر اثر پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ