اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
حضرت! اپنے شیخ کے علاوہ دوسرے بزرگوں کے ساتھ کوئی بات کرنا کیا توحیدِ مطلب کے خلاف ہے؟
جواب:
نہیں، بالکل خلاف نہیں ہے، سارے اکابر ہمارے ہیں۔ صرف ایک ہی چیز ہے جو توحیدِ مطلب کے لئے ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ تربیت کے لحاظ سے کسی دوسرے پہ نظر نہیں پڑنی چاہئے۔ مثال کے طور پر میں بہت سارے ڈاکٹروں کو اچھا ڈاکٹر کہتا ہوں، لیکن علاج کے لئے مجھے صرف اپنے ڈاکٹر کی بات پر عمل کرنا ہوتا ہے، اس دوران میں کسی اور ڈاکٹر سے consult نہیں کر سکتا، اسی طریقے سے میرے شیخ میرے لئے تربیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ باقی! اگر میں کسی اور کی مجلس میں بیٹھ جاؤں اور ان کی دینی باتیں اور اچھی اچھی نصیحتیں سن لوں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ صرف ایک چیز کا خیال رکھا جاتا ہے اور وہ بھی مجبوری ہے یعنی صرف لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے ہے، ورنہ اگر لوگ مضبوط ہوں اور لوگ ان چیزوں کو جانتے ہوں، تو پھر اس کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی اور شیخ ہوں، جن کو اس کے شیخ کے ساتھ کچھ باتوں میں اختلاف ہو، بے شک وہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ اختلاف ہو، لیکن اس صورت میں ہر ایک چونکہ ان چیزوں کو نہیں جانتا، تو وہ confuse اور پریشان ہوجاتا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں ایسے مشائخ کے پاس نہیں جانا چاہئے، جن کا اس کے شیخ کے ساتھ کسی بات میں اختلاف ہو، کیونکہ اس سے پریشانی وجود میں آتی ہے اور تشویش اس راستے میں بہت خطرناک ہے، اس سے یکسوئی ختم ہوجاتی ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یکسوئی ہو، چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ یکسوئی اتنی ضروری ہے کہ چاہے کچھ بھی پاس نہ ہو، لیکن اگر یکسوئی موجود ہے، تو کام ہوجائے گا۔ لہٰذا جس چیز سے یکسوئی ختم ہوگی، وہ چیز ٹھیک نہیں ہوگی۔ اس لئے میں نے عرض کیا کہ یہ صرف اور صرف لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے ہے۔ جیسے مجھے حضرت نے کتابیں پڑھنے سے منع کردیا تھا، صرف حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں جیسے ملفوظات اور مواعظ وغیرہ جاری رہنے دیں، باقی سب کتابوں کا پڑھنا بند کر دیا تھا۔ لیکن یہ بھی فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا کہ باقی کتابیں غلط ہیں، بلکہ بعض دفعہ بیمار کے لئے ڈاکٹر ملائی بھی روک دیتے ہیں۔ تو ایسا صرف بیمار کے لحاظ سے ہوتا ہے کہ بعض معدے کسی چیز کو برداشت نہیں کرسکتے حالانکہ وہ چیز بڑی اچھی ہوتی ہے۔ مثلاً گوشت کتنا اچھا کھانا ہے، لیکن اگر کسی کو motion لگے ہوں، تو آپ اس کو گوشت دیں گے؟ ظاہر ہے کہ اس وقت آپ اس کو گوشت نہیں دیں گے، بلکہ کہیں گے کہ جب یہ ٹھیک ہوجائے گا، تو پھر وہ گوشت کھانے کے بھی قابل ہو جائے گا۔ پس ہر شخص کی اپنی حالت کے مطابق بات ہوتی ہے، اس وجہ سے ایسی جگہوں پہ نہیں جانا چاہئے جہاں پر اس کے شیخ کے ساتھ کسی مسئلے میں اختلاف ہو۔ البتہ یہ ہے کہ general باتیں جیسے حفظانِ صحت کی باتیں آپ عام آدمیوں سے بھی سن سکتے ہیں اور ڈاکٹروں سے بھی سن سکتے ہیں، لیکن علاج آپ کسی اور سے نہیں کرا سکتے، وہ صرف اپنے ڈاکٹر سے کروانا ہوتا ہے۔ اسی طرح تربیت بھی صرف اپنے شیخ سے کروانی ہوتی ہے۔
سوال نمبر 2:
اپنے شیخ کے علاوہ کسی دوسرے بزرگ کی تقریر پڑھی اور اس کو فائدہ محسوس ہوا، مثلاً کسی نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں پڑھیں اور اس کو فائدہ محسوس ہوا، تو اگرچہ اس وقت اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ میرے شیخ کی وجہ سے مجھے اس تحریر سے فائدہ ہوا ہے، لیکن چوں کہ یہ چیز اپنی ہوتی ہے، اس وجہ سے شیطان اس میں کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ نہیں، یہ تو اس بزرگ کا فیض ہے، تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
دیکھیں! آپ بہت آسانی کے ساتھ سمجھ جائیں گے، لیکن تھوڑی سی لمبی بات ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ کو بات کا فائدہ کس وقت ہوتا ہے؟ اس وقت فائدہ ہوتا ہے، جب آپ کا دل صاف ہو۔ اگر دل صاف نہیں ہوگا، تو کیا آپ کو بات سمجھ آئے گی؟ ایسی صورت میں تو قرآن بھی سمجھ نہیں آئے گا، کوئی دوسری بات کیا سمجھ آئے گی۔ اب اگر شیخ کی برکت سے آپ کا دل صاف ہوگیا ہے، آپ کسی جگہ قرآن کا درس سن رہے ہیں، آپ کو وہ سمجھ میں آنے لگا، کسی اچھی نعت سے آپ نے فائدہ اٹھا لیا، چلتے چلتے کسی کی بات سے آپ کو فائدہ ہوگیا، تو دل کی صفائی کی وجہ سے فائدہ ہوا۔ اور دل کس کے ذریعے سے ٹھیک ہو رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ دل شیخ کے ذریعے سے صاف ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہ بالکل صاف بات ہے کہ اپنے بزرگوں کی برکت سے ہی فائدہ ہوتا ہے، بے شک کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ظاہری طور پر اگر آپ کو کسی اور جگہ سے فائدہ ہوتا نظر آتا ہے، تو آپ ان کا بھی احترام کریں گے، کیونکہ وہ آپ کے لئے ذریعۂ ثانیہ بن رہے ہیں۔ کیونکہ اگر کسی کتاب سے آپ کو فائدہ ہوتا ہے، تو آپ اس کتاب کا ادب کریں گے، حالانکہ کتاب بے جان چیز ہے۔ اسی طریقے سے اگر آپ کو کسی دوسرے عالم سے یا کسی دوسرے بزرگ سے یا کسی بھی دوسرے شخص سے فائدہ ہوا، تو آپ اس کی بھی قدر کریں گے، کیونکہ ان سے آپ کو فائدہ ذریعۂ ثانیہ کے طور پر ہوا ہے، ابتدائی طور پر آپ کے شیخ کا فیض ہے۔ لیکن اگر ایک انسان کو یہ خطرہ ہو کہ میں نفسیاتی طور پر اتنا کمزور ہوں میں دل پھینک واقع ہوا ہوں کہ جس سے میں نے کوئی بات سنی، اسی کا ہوگیا، تو اس کو کسی دوسرے کے پاس نہیں جانا چاہئے، اس کو عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھنا چاہئے، تاکہ نقصان نہ اٹھائے۔ لیکن ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہوں، تو پھر ان پر یہ پابندی لازمی ہوتی ہے۔ بعض حضرات پر مشائخ پابندی لگا بھی دیتے ہیں، جب دیکھ لیتے ہیں کہ یہ دل پھینک آدمی ہے۔ اس کو روک دیتے ہیں کہ آپ کسی سے نہ ملیں۔ لیکن ایسا مجبوراً کیا جاتا ہے، جیسے مریض کو ملائی روک دی جاتی ہے۔ پس بزرگوں سے اس لئے منع نہیں کیا کہ وہ بزرگ بزرگ نہیں ہیں، بلکہ اس لئے منع کیا کہ یہ شخص دل پھینک واقع ہوا ہے، یہ پریشان ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص پھر بزبانِ حال کہتا ہے:
میرے دل کے ٹکڑے ہوئے ہزار
کوئی ادھر گرا کوئی ادھر گرا
پس یہ بات غلط ہے، اس سے نقصان ہوتا ہے۔
سوال نمبر 3:
حضرت! تزکیہ کی ویب سائٹ پہ لکھا ہوا ہے: فراستِ صادقہ۔ یہ فراستِ صادقہ کیا ہے؟
جواب:
فراست اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے انسان حق و باطل میں، صحیح و غلط میں اور جائز و نا جائز میں فرق کر سکتا ہو۔ اور فراستِ صادقہ اسے کہتے ہیں کہ جس میں غلطی کا احتمال بہت کم ہو۔
سوال نمبر 4:
اس کا حصول اختیاری ہے یا غیر اختیاری ہے؟
جواب:
عمل کے لحاظ سے تو اختیاری ہے، جب آپ اچھے عمل کریں گے، تو اللہ تعالیٰ کا تعلق حاصل ہوتا جائے گا، جس کے نتیجے میں آپ کی فراست، فراستِ صادقہ بنتی جائے گی، لیکن جیسے حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت امام شافعیؒ نے نصیحت کی درخواست کی تھی کہ میرا حافظہ کمزور ہے، آپ حافظے کے لئے مجھے کچھ بتا دیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات شعر میں بیان فرمائی ہے، علماء کرام کو اکثر وہ شعر یاد ہوتا ہے۔ اس شعر میں ہے کہ حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: گناہوں سے توبہ کر لو، گناہ نہ کیا کرو، کیونکہ علم ایک نور ہے اور کسی عاصی کے دل میں اللہ تعالیٰ یہ نور نہیں بھیجتا۔ صحیح علم واقعی نور ہے، جس سے حق اور باطل کے اندر فرق محسوس ہوجاتا ہے اور پتا چل جاتا ہے کہ یہ چیز صحیح ہے اور یہ چیز غلط ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ علم ہر ایک کو حاصل ہو۔ یہ علم گناہوں سے پچنے پر حاصل ہوتا ہے۔ اور فراستِ صادقہ بھی اسی وقت حاصل ہوگی، جب انسان گناہوں سے بچے گا اور اللہ والوں کی خدمت میں رہے گا اور اللہ جل شانہٗ اس کو اپنا بنا لے گا، پھر اس کو کچھ چیزوں کے پہنچانے کا ذریعہ بھی بنائے گا، تو اس وقت اس کو فراستِ صادقہ حاصل ہوجائے گی۔
سوال نمبر 5:
انسان پر مصیبتیں اور پریشانیاں کیوں آتی ہیں، ان کی کیا حکمت ہوتی ہے؟ نیز مجاہدہ اضطراریہ میں اور مصائب میں کیا فرق ہے؟
جواب:
انہیں نامساعد حالات کہتے ہیں۔ مجھے اس پر ایک شعر یاد آ رہا ہے:
انہی پتھروں کے اوپر اگر چل سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
مطلب یہ ہے کہ نامساعد حالات بعض دفعہ اللہ جل شانہٗ نوازنے کے لئے پیدا فرماتے ہیں۔ کچھ چیزیں نامساعد حالات میں ہی سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ آفات و بلیات کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں اور ان کی نشانیاں بھی تین ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کی وجہ سے بے صبری کا شکار ہوجاتا ہے اور واہی تباہی بکنے لگتا ہے، تو یہ علامت ہے کہ یہ مصیبتیں اس کے لئے سزا ہیں اور اس کی اعمال کی نحوست ہیں۔ اور اگر وہ کہتا ہے کہ بس ٹھیک ہے، یہ مصائب اللہ کی طرف سے ہیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اللہ تعالیٰ میرا مالک ہے، وہ جو چاہے، کرے۔ یعنی وہ ان پر صبر کر لیتا ہے، تو یہ اس کے لئے گناہوں کا کفارہ ہیں، اور اگر وہ ان پر شکر کرے کہ یا اللہ! تیرا شکر ہے، میں تو اس سے بھی زیادہ کا مستحق تھا، اچھا ہوا کہ کم پہ آپ مجھے چھوڑ رہے ہیں، تو یہ رفعِ درجات کے لئے ہیں۔ یہ بات عام آفات و بلیات کے لحاظ سے ہے، جہاں تک مجاہدات کی بات ہے، تو مجاہدات کی دو قسمیں ہیں: اختیاری مجاہدہ اور اضطراری مجاہدہ۔ اختیاری مجاہدہ، جیسے: راتوں کو اٹھ کے نفل نماز پڑھنا یا روزے رکھنا یا کم کھانا یا کم سونا یا لوگوں سے کم ملنا جلنا۔ یہ سب مجاہدات اختیاریہ ہیں۔ ان کے ذریعے سے انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے، نفس کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ پس یہ مجاہدات تربیت کا حصہ ہیں، لیکن بعض دفعہ ایک انسان نفسیاتی کمزوریوں کی وجہ سے اختیاری مجاہدہ کے ذریعے ایک چیز حاصل نہیں کرسکتا، مثال کے طور پر وہ اپنے اوپر قابو نہیں پا سکتا، تو پھر اللہ اس کے لئے مجاہدے کی تشکیل کرتے ہیں، اس کو اضطراری مجاہدہ کہتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے لئے خاص مجاہدہ بھیج دیتے ہیں، جو اس کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے۔ مجاہدہ اختیاریہ مرضی کے مطابق ہوتا ہے اور مجاہدہ اضطراریہ میں مرضی نہیں چلتی۔ اس میں بس طبیعت کو کاٹا جاتا ہے۔ آپ چاہیں گے کہ کچھ ہو اور وہ نہ ہوگا، تو یہ مجاہدہ اضطراریہ ہے۔ اس مجاہدے کے بارے میں حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ برسوں کے اختیاری مجاہدے سے ایک دن کا اضطراری مجاہدہ بہتر ہوتا ہے، کیونکہ اس سے انسان کے اندر استعداد پیدا ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجاہدہ اختیاریہ بہت زبردست چیز ہے، لیکن اس کے اندر عجب ہوسکتا ہے، اس کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو بزرگ سمجھنے لگتا ہے کہ میں اتنا مجاہدہ کر رہا ہوں اور کبھی کبھی اگر حالات اس کی مرضی کے مطابق نہ آئیں، تو شکوہ بھی شروع کر دیتا ہے کہ میں نے اتنے مجاہدات کیے اور اس کا مجھے نتیجہ یہ ملا۔ پس شیطان دماغ میں شکوہ ڈال دیتا ہے۔ یا پھر اختیاری مجاہدہ سے جو انوارات آتے ہیں، ان انوارات کی وجہ سے عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے، جس کو ہم نورانی حجابات کہتے ہیں۔ وہ نورانی حجابات شروع ہوجاتے ہیں۔ مجاہدہ اضطراریہ میں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ مجاہدہ اضطراریہ کی صورت میں عجب تو اس لئے نہیں ہوسکتا کہ اس وقت آدمی یہ سمجھتا ہے کہ پتہ نہیں میں صحیح مسلمان بھی ہوں یا نہیں، اور میں نے نماز کیسی پڑھی اور میں نے روزہ کیسا رکھا۔ وہ سوچتا ہے کہ میں نے کون سا عمل ٹھیک کیا ہے، وہ اپنے کسی عمل کو ٹھیک نہیں سمجھتا۔ لہٰذا اس کو عجب کیسے ہوگا۔ استعداد یقیناً پیدا ہوتی ہے، کیونکہ اللہ کی تشکیل ہوتی ہے اور اللہ کی تشکیل کی صورت میں مسائل نہیں ہوتے۔ مجاہدہ اضطراریہ کی ایک مثال میں آپ کو بتاتا ہوں، ایک بزرگ تھے، ان کے مریدوں میں سے ایک مرید تھے، جن کے بارے میں اللہ پاک نے ان کو الہام فرما دیا کہ اس کی ایک خاص طریقے سے تربیت کرنی ہے، اور وہ خاص طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے چپکے سے اپنے مریدوں سے کہا کہ روزانہ اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی شخص کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر لڑا کرے اور ان سے قطع تعلق کر لیا کرے کہ تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تمہارے ساتھ رابطہ رکھا جائے، لہٰذا مجھ سے نہ بولو۔ بہت سارے مرید تھے، ایک ایک دو دو دن کے بعد ہر ایک اس کے ساتھ لڑ رہا ہے اور وہ کہتا کہ پتہ نہیں، مجھے کیا ہوگیا۔ خیر! وہ سوچتا کہ چلو شیخ تو ٹھیک ہیں، میں شیخ کے لئے یہاں پر آیا ہوں، ان کے لئے تو نہیں آیا۔ لہٰذا وہ اپنے آپ کو تسلی دیتے رہتے تھے اور برداشت کرتے رہتے تھے۔ اخیر میں جب سارے مرید ختم ہوگئے، اب شیخ رہ گئے۔ حکم کے مطابق ایک دن شیخ نے بھی اس کو ڈانٹا اور کہا کہ تم ہو ہی ایسے، ورنہ یہ سارے لوگ غلط ہوگئے اور صرف تم ٹھیک ہو؟ آخر یہ لوگ جو تم سے کٹ رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں کچھ گڑبڑ اور خباثت ہے، لہٰذا تم خانقاہ سے نکل جاؤ۔ یہ کہہ کر اس کو خانقاہ سے نکال دیا۔ اب جب اس کو خانقاہ سے نکال دیا، تو اس بے چارے کا دل بالکل ٹوٹ گیا، کیونکہ شیخ کے لئے آیا ہوا تھا اور شیخ نے بھی اس کو نکال دیا۔ اس نے کہا کہ اب تو صرف اللہ ہی ہے، اب میں اللہ کے پاس ہی جاسکتا ہوں، اس کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ مسجد میں گیا اور نفل نماز شروع کر دی۔ جب سجدے گئے، تو مسلسل روتے رہے۔ روتے روتے کہا کہ اے اللہ! اب تو صرف تو ہی میرا ہے، میرا کوئی اور نہیں ہے، جس کے لئے میں نے ساری دنیا چھوڑ دی تھی، اس نے بھی مجھے دھتکار دیا، اب میں کس کے پاس جاؤں؟ اسی وقت شیخ کو الہام ہوگیا کہ اب ان کو وہ مقام حاصل ہوگیا ہے، جس کے لئے یہ ساری تیاری تھی۔ وہ آئے اور پھر تمام مریدوں کے سامنے ان سے کہا کہ اب سر اٹھائیں! پھر کوئی ان کا دامن چوم رہا ہے، کوئی ہاتھ چوم رہا ہے۔ سب نے کہا کہ ہم سب کے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقام آپ کو دے دیا ہے، اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی فائدہ پہنچائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مجاہدہ اضطراریہ کے ذریعے سے ان کو وہ مقام دلوا دیا۔ یہ مجاہدہ اضطراریہ تھا، اگر اس کو پتہ ہوتا، تو پھر یہ مجاہدہ اختیاریہ بن جاتا اور اس وقت اس میں پھر یہ چیز نہ ہوتی۔ چونکہ اس کو پتہ نہیں تھا، اس لئے اس کا دل کٹ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پس یہ چیز بہت سخت ہوتی ہے۔
بہرحال! مجاہدہ اضطراریہ سے بہت فائدہ ہوتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس کو سمجھتے نہیں ہیں۔ لوگ مجاہدہ اضطراریہ چاہتے ہی نہیں ہیں، اس کے فائدے پڑھ لیتے ہیں کہ وہ ایسا ہے، اور پھر اپنی مرضی کا مجاہدہ اضطراریہ چاہتے ہیں۔ حالانکہ مجاہدہ اضطراریہ اس کو کہتے ہی نہیں ہیں، جو اپنی مرضی کے مطابق ہو۔ جو مجاہدہ مرضی کے مطابق ہو، وہ مجاہدہ اضطراریہ نہیں ہوتا، وہ پھر مجاہدہ اختیاریہ بن جائے گا، لہٰذا اس کو اللہ پہ چھوڑنا چاہئے۔ اگر اللہ نے تشکیل کی، تو پھر اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ مجاہدہ اضطراریہ ہے۔
سوال نمبر 6:
حضرت جی!
I feel difficulty in regular mamulat but Alhumdulilah I am trying. I feel that if the environment is not favorable, I mean if the people around are not much religious then it happens that slowly it affects my routine and mamulat. I am worried, Hazrat G because of my father who doesn’t offer prayers and doesn’t have much religious affiliation. Please make dua for my father’s hidaya. Also my father is in the company of those people who are hardly religious. That's why I fear for my father’s condition.
جواب:
واقعتاً یہ بات تو ہے کہ اگر اردگرد ماحول نہ بنا ہو، تو معمولات پہ فرق پڑتا ہے، لیکن یاد رکھئے کہ اپنے ماحول کو بنانے کے لئے انسان کو اپنے معمولات بھی بہتر کرنے ہوتے ہیں، ماحول آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے، معمولات آپ کے ہاتھ میں ہیں، اگر ماحول خراب ہے، تو اس وقت معمولات کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے، جیسے مثلاً میں مسجد میں بیٹھا ہوں، تو مجھے نہ کیچڑ سے اور نہ کسی اور چیز سے ڈر ہے، میں اطمینان کے ساتھ بیٹھا ہوں، ساری چیزیں ٹھیک ہیں، نہ بدنظری کا خوف ہے، نہ کسی اور چیز کا، کیونکہ مسجد میں بیٹھا ہوں، لیکن اگر میں باہر آ گیا اور خدا نخواستہ ماحول ایسا ہے کہ بد نظری کا بھی بہت ہے اور گندگی بھی ادھر موجود ہے، تو ایسی صورت میں گندگی سے بچنے کا سامان بھی موجود ہونا چاہئے، تولیہ صابن وغیرہ صفائی کی ساری چیزیں ہونی چاہیئں۔ کیونکہ جب ماحول خراب ہو، تو ماحول کی خرابی سے بچنے کے لئے صابن تولیہ مزید زیادہ اہم ہوجاتا ہے، چہ جائے کہ اس کو بھی چھوڑ دیا جائے۔ البتہ آسانی اور مشکل کی بات تو یقیناً ہے، آسان اس وقت ہے جب ماحول ہو، اور جب ماحول نہیں ہوتا، تو اس وقت معمولات آسان نہیں ہوتے۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ جس وقت ماحول نہ ہو اور پھر بھی انسان صحیح راستے پہ رہے، تو تھوڑے عمل سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، اجر کے لحاظ سے بھی اور اثر کے لحاظ سے بھی۔
تند بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
لہٰذا اگر ماحول ٹھیک نہیں ہے، تو فکر نہ کریں، ماحول کو ٹھیک کریں یا نہ کریں، لیکن اپنے آپ کو ٹھیک رکھیں۔ ان شاء اللہ آپ کا ماحول پر اثر پڑے گا اور ان شاء اللہ وقت آئے گا کہ آپ کے لئے حالات بہتر ہوجائیں گے۔
باقی آپ کے والد صاحب کے لئے اور آپ سب کے لئے میں دعا کرتا ہوں۔ دعا ہر مسلمان کا حق ہے، جو بھی دعا مانگیں، تو اس میں تمام مسلمانوں کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنے مقاصد میں کامیاب فرما دے، بالخصوص یہ جو مقصد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا تعلق، یہ مقصد حاصل ہوجائے۔ پس میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہٗ آپ کو اس مقصد میں کامیاب فرمائے۔
سوال نمبر 7:
ایک صاحب نے لکھا ہے کہ میری sister آپ سے پوچھنا چاہتی ہیں کہ میں ہر عمل بظاہر اپنی ذات کے لئے کرتی ہوں وہ نیک عمل ہو یا بد عمل ہو، میں اس کیفیت کو اپنی ذات سے کیسے ختم کروں؟
جواب:
سوال ذو معنی ہے، مجھے کیا پتا کہ انہوں نے کون سا عمل اپنے سر پکڑا ہوا ہے، لہٰذا میں دونوں صورتیں بیان کر دیتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ انسان اپنی ذات ہی کے لئے عمل کرتا ہے۔ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے صوفی اور بہت بڑے تابعی گزرے ہیں۔ یہ وہ صاحب تھے، جن کے لئے آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ اگر آپ ان سے ملیں، تو میری امت کے لئے ان سے دعا کروانا۔ اتنے بڑے آدمی تھے۔ وہ بہت مجاہدہ کیا کرتے تھے۔ والدہ والدہ ہوتی ہے، والدہ نے کہا کہ بیٹا! تھوڑا اپنے اوپر ترس بھی کھایا کرو، اتنا مجاہدہ نہ کیا کرو۔ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اماں جان! اپنے لئے ہی تو کر رہا ہوں، ورنہ پھر میں خود ہی جہنم میں جلوں گا۔ پس میں اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے لئے مجاہدہ کر رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ انسان جو عمل کرتا ہے، اپنے لئے ہی کرتا ہے۔ البتہ اس میں root مختلف ہوسکتا ہے، اگر نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کر رہا ہے، تو یہ جرم ہے اور اگر اللہ کی مرضی کے مطابق اس کے ذریعے سے اپنے نفس کو فائدہ پہنچانے کے لئے کر رہا ہے، تو اس پر اجر ہے۔ مثلاً: صرف اپنے درمیان میں اللہ پاک کا حکم نہیں ہے، نفسانی خواہش ہے، مثال کے طور پر میں نماز پڑھ رہا ہوں اور میرے دل میں آ جائے کہ لوگ مجھے نمازی کہیں، تو یہ میں اپنے لئے کر رہا ہوں، لیکن اس مقصد کے لئے کر رہا ہوں کہ لوگ میری تعریف کریں، تو یہ نیت نماز کو خراب کر دے گی، لیکن اگر میں یہ کہوں کہ میں اللہ کے لئے نماز پڑھوں، تاکہ اللہ کو پسند آ جاؤں اور مجھے آخرت میں فائدہ ہو، تو یہ بات بالکل ضروری ہے۔ لہٰذا اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ اپنی ذات کے لئے عمل کرنے سے ان کی کیا مراد ہے، یہ مراد ہے کہ بالآخر مجھے اس کا فائدہ ہو یا یہ مراد ہے کہ اپنی نفسانی خواہشات پوری ہوجائیں۔ اگر نفسانی خواہش پورے کرنے کی وجہ سے نہیں ہے، صرف اس وجہ سے ہے کہ مجھے بالآخر فائدہ ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں مطمئن رہیں۔
سوال نمبر 8:
Question 1: These days people without doing research talk about Islam. Even one of the teachers talk against صحیح بخاری فتنہ is spreading.
Question 2: While working outside as teachers and doctors etc they do work at home and don’t get tired of supporting husbands. Do we have برکہ in our earnings?
جواب:
دو سوال کئے گئے ہیں۔ سوال کرنے والی استانی ہے، لہٰذا ان کے حالات کو سمجھ کر ہی جواب دینا پڑے گا۔
آج کل میڈیا کی یلغار ہے، علم معلومات کی حد تک تو بہت زیادہ ہوگیا ہے، چونکہ میڈیا کے ذریعے آپ کو messages سے بھی معلومات مل رہی ہیں، Email سے مل رہی ہیں، انٹرنیٹ سے مل رہی ہیں، اخباروں سے بھی مل رہی ہیں، ٹی وی سے مل رہی ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری سی ڈیز سے معلومات مل رہی ہیں، لہٰذا معلومات کے ذرائع بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ لیکن علمِ نافع جو آپ کو اللہ سے ملا دے، یہ علم اس وقت ملتا ہے جب انسان گناہوں سے توبہ کرے اور گناہوں سے بچے۔ جیسے امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ علم ایک نور ہے، جو اس کو ملتا ہے جو گناہوں سے بچاتا ہو، یہ فاسق کو نہیں ملتا۔ لہٰذا معلومات کی stream سے ہدایت نہیں ملتی، بلکہ confusion کو راستے ملتے ہیں، بالخصوص جب ان کی intention بھی confusion پھیلانا ہو۔ مثلاً: اس قسم کے questions create کرنا کہ لوگوں کے ذہنوں میں شک ڈالیں اور جو بالکل بغیر شک والی چیزیں ہیں، جن پہ کبھی کوئی question نہیں اٹھتا تھا، ان کو بھی مشکوک بنا دیا جائے۔ یہ چیزیں اس قسم کے لوگوں سے expose ہورہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جن کے پاس اتنا علم نہ ہو کہ وہ اپنے آپ کو بچا سکیں، تو ان کے ذہن میں شک تو پڑے گا، نتیجتاً ایسی پکی چیزوں کے اوپر بھی comments اور تبصرے سننے میں آتے ہیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے۔ جیسے یہ سوال کیا ہے کہ صحیح بخاری کے بارے میں بھی لوگ question اٹھانے لگے ہیں کہ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ اب بتائیں کہ اگر صحیح بخاری صحیح نہیں ہے، تو آپ کے پاس پھر کون سی کتاب صحیح ہے؟ "اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللہ" اس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ کتاب اللہ کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب صحیح بخاری ہے۔ اگر اس پہ بھی شک ہوگیا تو اب بتاؤ کہ آپ کو دین کدھر سے ملے گا؟ اگر صحیح بخاری یا اس طرح کی صحیح حدیث شریف پر شک ہوگیا، تو آپ "نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکَ" آپ ﷺ کی تعلیمات سے کٹ گئے۔ جب آپ ﷺ کی تعلیمات سے کٹ گئے، تو قرآن سے بھی کٹ گئے، کیونکہ قرآن تب سمجھ میں آئے گا، جب آپ ﷺ کی تعلیمات آپ تک پہنچی ہوں گی، کیونکہ قرآن ہمارے لئے مجمل ہے اور آپ ﷺ کے لئے مفصل ہے، یعنی ہم لوگ صرف اس کے اجمال کو سمجھ سکتے ہیں، لیکن آپ ﷺ اس کی تفصیل کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ صحابہ جو کہ عرب تھے، ان کو بھی بعض چیزیں قرآن میں سمجھ نہیں آئیں، تو وہ آپ ﷺ کے پاس گئے، جب آپ ﷺ نے ان کی تشریح بتائی، تو پھر ان کو وہ چیزیں سمجھ آئیں۔ مثلاً: قرآن پاک میں آتا ہے:
﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾ (البقرہ: 187)
ترجمہ: "اس وقت تک کھاؤ بیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہوجائے"۔1
اس آیت کے نزول کے بعد ایک صحابی دو دھاگوں کو رکھتے تھے، کالا دھاگہ اور سفید دھاگہ۔ ان کو دیکھتے رہتے کہ اتنی روشنی ہوجائے کہ ان دونوں میں فرق محسوس ہوجائے، اس وقت تک وہ کھاتے رہتے تھے۔ صحابہ کرام کو پتا چلا، تو وہ آپ ﷺ کے پاس لے گئے کہ یہ تو اس طرح کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہو؟ انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس آیت کا مطلب ان دھاگوں والا نہیں ہے، دھاگہ تو استعارہ ہے۔ اصل میں تو سفیدی اور سیاہی مراد ہے، جو بالکل آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں، پھر ایک ترک سا بنتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب آپ ﷺ نے اس کے بارے میں ارشاد فرما دیا، تو پھر وہ سمجھ گئے۔ اس طرح بہت ساری چیزیں ہیں، جو صحابہ کرام کو باوجود عرب ہونے کے سمجھ نہیں آئیں۔ قرآن جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس میں اجمالی کلام ہے اور آپ ﷺ نے اس کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔
﴿اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ﴾ (البقرہ: 110)
ترجمہ: "نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو"۔
یہ قرآن پاک میں ہے، لیکن اس پر عمل کیسے کرو گے؟ یہ آپ ﷺ ہی بتائیں گے۔ اسی طریقے سے جتنے بھی احکامات ہیں، ان کا طریقہ آپ ﷺ ہی سمجھائیں گے۔ پس قرآن کو سمجھانے کے لئے بھی حدیث شریف ہے۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی، تو اب مجھے بتائیں کہ اگر کسی کا نظریہ صحیح بخاری اور صحیح حدیث شریف سے اٹھ گیا، تو پھر نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ قرآن سے بھی بے بہرہ ہو جائے گا۔ جب اس کے پاس نہ قرآن ہوگا اور نہ حدیث، تو مجھے بتائیں کہ وہ پھر کیا بن جائے گا؟ بس اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں کے شر سے بچائے۔
اس لئے ہم کہتے ہیں کہ فرض عین درجہ کا علم سب حاصل کریں، تاکہ کم از کم اپنے آپ کو بچا سکیں۔ اور ہمارے معاشرے میں جو کجی آرہی ہے، اس کے لئے ایک specially دعا بھی ہے اور وہ دعا ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران: 8)
ترجمہ: "اے ہمارے رب! تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے، اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بے انتہا بخشش کی خوگر ہے"۔
اور ایک دعا سورۃ فاتحہ میں ہے، جو ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں:
﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ۠﴾ (سورۃ الفاتحۃ: 5-7)
ترجمہ: "ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں"۔
اسی طرح ایک دعا حدیث شریف میں دعا ہے:
"اَللّٰھُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا، وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ"۔
ترجمہ: "اے اللہ! ہمیں حق بات کی حقانیت دکھا دے اور ہمیں اس کی پیروی کی توفیق عطا فرما اور باطل بات کا باطل ہونا دکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما"۔
ہمیں ایسی دعائیں کرنی چاہیں اور اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے، تاکہ ہمیں اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے محفوظ فرمائے۔
سوال نمبر 9:
While working outside as teachers, doctors etc they do work at home but don’t get tired of supporting their husbands. Do we have برکہ in our earnings?
جواب:
یہ سوال اتنا simple نہیں ہے، اس میں کچھ چیزیں ہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے ہر چیز کو اپنے اپنے مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔
مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے پہیے ہیں دو
چل نہیں سکتی یہ گاڑی ایک اگر بیکار ہو
پس مرد و عورت کی زندگی بالکل ایسے ہے، جیسے ہم اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا دیتے ہیں، تو ایک انگلی کا دوسری انگلی پر trust درمیان کے خلا کو بھر دیتا ہے۔ اسی طریقے سے عورتوں میں جو صلاحیتیں رکھی گئی ہیں، وہ گھر کے لئے رکھی گئی ہیں اور مردوں میں صلاحیتیں باہر کے لئے رکھی گئی ہیں۔ اللہ پاک نے عورتوں میں جو صلاحیتیں رکھی ہیں، وہ گھر کے لئے رکھی ہیں۔ مثال کے طور پر عورتوں میں ممتا ہے، وہ ممتا جو عورت کو حاصل ہوسکتی ہے، مرد کو کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ بچے کے ساتھ عورت کی روح چیختی ہے، ایسی ممتا عموماً عورتوں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ بچوں کے لئے جذباتی attachment ضروری ہے، کیونکہ بچہ کی جیسی حالت ہوتی ہے، اگر جذباتی attachment نہ ہو، تو کوئی اس کا Look after نہیں ہوسکتا۔ پاخانہ دھونا، کپڑوں کو دھونا اور راتوں کو اس کے ساتھ اٹھنا اور اس کا خیال رکھنا؛ یہ کوئی آسان بات نہیں ہے، اس کے لئے جذباتی attachment چاہئے۔ پس ایک تو اللہ پاک نے اس کے اندر یہ ممتا پیدا کی ہے، اس کے علاوہ اللہ پاک نے اس کے اندر نزاکت پیدا کی ہے، اس کے اندر ایک قسم کی باریکی پیدا کی ہے اور اس کے اندر نسوانیت پیدا کی ہے، یہ ساری چیزیں ایک Balanced life کے لئے ضروری ہیں۔ مردوں کے اندر سختی، جفا کشی، عمل کے لئے مستعد ہونا اور ہر قسم کے کاموں کے لئے بھاگنا دوڑنا؛ یہ صلاحیتیں رکھی گئی ہیں۔ اب اگر کوئی عورت چاہے کہ میں مردوں کی طرح ہوجاؤں یا مرد سوچے کہ میں عورتوں کی طرح ہوجاؤں، تو یہ balance out ہوجائے گا، پھر اس کے بعد کام خراب ہوجائے گا، لہٰذا اگر ہر شخص اپنے اپنے domain پہ رہے، تو پھر کام ٹھیک رہتا ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ Working ladies بیچاری بہت پریشان ہوتی ہیں، خود ہمیں تجربہ ہے، کیونکہ ہم offices میں رہے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ بیچاری آفس میں بھی کام کرتی ہیں اور پھر گھروں میں جاتی ہیں، تو وہاں پر بھی انہیں کام کرنا پڑتا ہے، کیونکہ نوکروں سے اس طرح کام نہیں ہوسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل کے حالات میں security problems اور معاشی مسائل وغیرہ ایسے مسائل درپیش ہیں کہ آپ نوکروں سے ایسی توقع نہیں کرسکتے۔ بلکہ میں یہاں تک کہتا ہوں کہ کتنا ہی dependable نوکر کیوں نہ ہو، لیکن جو کسی چیز کا ownership ہوتا ہے کہ میں اس کو own کرتا ہوں، وہ تو گھر کی خاتون ہی کرسکتی ہے، باہر کی خاتون یا باہر کا مرد نہیں کرسکتا۔ جیسے Working ladies جب offices جاتی ہیں، تو پھر انہیں بچوں کو Look after کرنے کے لئے خادم رکھنا پڑتا ہے اور وہ ان کی والدین کی طرح تو تربیت نہیں کرسکتا، جب کہ خرچ بھی تقریباً اتنا ہی آتا ہے۔ مثال کے طور پر صرف مرد کمائے اور دونوں اپنے اپنے domain میں گھر چلائیں یا پھر دونوں کمائیں اور دوسروں کے ذریعے سے گھر چلائیں، تو result تقریباً وہی آتا ہے، لیکن دونوں کا کام خراب ہوجاتا ہے، نہ مرد کو پورا سکون ملتا ہے، نہ عورت کو پورا سکون ملتا ہے اور نہ بچوں کو سکون ملتا ہے، نتیجتاً سارا گھر برباد ہوجاتا ہے۔ البتہ کچھ چیزیں ضروری ہیں، مثلاً: ڈاکٹر، very ،Very essential کیونکہ پچاس فیصد سے زیادہ عورتوں کا علاج آپ مردوں کے حوالہ تو نہیں کرسکتے، اس وجہ سے عورت ڈاکٹر ہونی چاہئے۔ اسی طرح عورتوں کو ڈاکٹر بننے کے لئے پڑھنا بھی پڑے گا، تو اس کے لئے استانی بھی ہونی چاہئے، لیکن اس کے علاوہ جو مختلف دوسری لائنوں میں عورتیں آرہی ہیں، مثلاً: عورتیں پائلٹ بن رہی ہیں اور انجینئر بن رہی ہیں، یہ اپنے اوپر ظلم کر رہی ہیں، کیونکہ اس کام کے لئے اللہ نے ان کو نہیں بنایا۔
بہرحال! جن کاموں کے لئے عورت کی ضرورت ہے، جیسے عورت ڈاکٹر ہو یا استانی ہو، تو اگر کوئی عورت اس مقصد میں اپنے آپ کو لگاتی ہے، تو وہ چونکہ آفس میں بھی کام کر رہی ہے اور پھر گھر میں بھی اس کو کام کرنا پڑتا ہے، تو اس کو اجر بھی زیادہ ملے گا۔ اگر وہ معاشرے کی requirment کو پورا کرنے کی نیت سے کام کرے گی، تو برکت تو کیا؛ اجر بھی زیادہ ملے گا، کیونکہ اس مقصد کے لئے وہ اپنے اوپر سختی برداشت کر رہی ہے۔ لیکن اگر وہ صرف اپنے نفس کی خواہش کے لئے کہ میں خود اپنے پیسوں کی مالک بن جاؤں اور میں یہ کر لوں اور وہ کر لوں، اپنے خاوند کی بات نہ مانوں، اس کے ساتھ مقابلہ کروں۔ اگر یہ بات ہوگی، تو پھر نہ اس کے اندر برکت ہوگی اور نہ کوئی فائدہ ہوگا۔
"اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ"۔ (صحیح بخاری: 01)
ترجمہ: "تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے"۔
لہٰذا نیت کو دیکھا جائے گا کہ نیت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھی نیتیں نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 10:
During your stay in SA (سعودی عرب) I have contacted you with reference to my teacher Mr. فلاں . I have thoroughly visited your website as recommended by you. I want to join your سلسلہ. Regards someone from Dubai.
جواب:
ٹھیک ہے، اگر آپ مطمئن ہیں اور آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہے یعنی آپ کو شرحِ صدر ہوگیا ہے، تو ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ اگر کوئی ہمارے سلسلہ میں آئے، تو پورے شرحِ صدر کے ساتھ آ جائے، اس کو کم از کم یہ یقین ہو کہ میں ایک ایسے سلسلہ کو جوائن کررہا ہوں، جو میرے لئے مفید ہے اور اس کو اس کے اوپر کوئی اشکال نہ ہو۔ لہٰذا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
باقی! جہاں تک جوائن کرنے یعنی بیعت کرنے کی بات ہے، تو یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، بیعت آپ Email کے ذریعے سے بھی کرسکتے ہیں، ٹیلی فون کے ذریعے سے بھی کرسکتے ہیں اور Skype کے ذریعے سے بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے بہت سارے راستے ہیں۔ میرے خیال میں آپ اس طرح کر لیں کہ روزانہ بارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک جو ہمارا ٹیلی فون کا ٹائم ہے، اس دوران آپ ٹیلی فون کر لیں، تو ٹیلی فون پر ان شاء اللہ بیعت ہوجائے گی۔
باقی! چونکہ آپ کو ویب سائٹ چلانا آتا ہے اور آپ کو پتا ہے کہ اس کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے، تو ذکر وغیرہ کا طریقہ اس پر موجود ہے، ذکر بے شک آپ ابھی سے شروع کر لیں۔ پہلا ذکر جو تین سو اور دو سو والا ہے، اس کے لئے بیعت ضروری نہیں ہے۔
سوال نمبر 11:
کیا معمولات اور اذکار ایک وقت مقرر کرکے ایک جگہ بیٹھ کر کرنا ضروری ہیں یا چلتے پھرتے بھی کر سکتے ہیں؟
جواب:
دیکھیں! معمولات تو dose ہیں، وہ آپ کی تربیت کا حصہ ہیں، لہٰذا ان کے لئے آپ بہرصورت ٹائم نکالیں گے اور ان کو کریں گے۔ لیکن جہاں تک ذکر کی بات ہے، تو وہ آپ چلتے چلتے بھی کرسکتے ہیں۔ جب آپ "سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ" کہیں گے، تو اجر تو آپ کو مل جائے گا۔ اگر آپ نے "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ" پڑھ لیا، تو آپ کو اجر مل گیا۔ اگر آپ نے درود شریف پڑھ لیا، تو آپ کو اجر مل گیا۔ اس کے لئے ہم نے ایک گلدستہ سا بنایا ہوا ہے، اکثر ہم کہتے ہیں کہ آپ فجر سے دوپہر تک کے وقت میں "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ" پڑھ لیں، جتنا بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور دوپہر سے لے کر غروبِ آفتاب تک جتنا ٹائم ملے، اس میں آپ درود شریف پڑھیں اور اس کے علاوہ جو ٹائم ملے، اس میں استغفار پڑھ لیں۔
سوال نمبر 12:
حضرت! جاب کی نوعیت ایسی ہے کہ جس میں صبح چھ بجے سے لے کر شام چھ بجے تک مصروفیت ہے، تو ایسی صورت میں کیا ترتیب ہونی چاہئے؟
جواب:
آپ کی جاب کی نوعیت مجھے معلوم ہے، اسی لئے تو میں نے کہا کہ جب آپ کو ٹائم ملے، اس وقت آپ یہ ذکر اذکار پڑھ لیں۔ For example اپ side پہ جا رہے ہیں، اوپر وزٹ کرنے کے لئے جا رہے ہیں اور آپ کے ساتھ اور کوئی بھی نہیں ہے، فائلیں آپ کے پاس ہیں، تو راستے میں آپ خاموش بھی جاسکتے ہیں اور ذکر کرتے ہوئے بھی جاسکتے ہیں۔ اس وقت میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پس آپ ذکر اس وقت میں کریں گے، جس وقت میں آپ کا کوئی اور کام نہیں ہوگا، کیونکہ وہ کام کی priority ہے، اس کی priority اس وجہ سے ہے کہ آپ نے اس کے پیسے لئے ہوئے ہیں، وہ ٹائم آپ نے بیچا ہوا ہے، وہ آپ کا نہیں ہے، لہٰذا آپ اپنے نفلی کام کے لئے اپنے فرض کو نہیں چھوڑ سکتے۔ البتہ اگر اس کے ساتھ ساتھ آپ نفلی کام کرسکتے ہیں، تو پھر حرج بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کو اس کا کوئی کلاس فیلو مل گیا اور جاب پر جاتے جاتے وہ اس کلاس فیلو کے ساتھ گپ شپ لگاتا جائے کہ بھائی! کیا حال ہے؟ آپ کدھر ہوتے ہیں؟ تو کیا خیال ہے کہ کوئی سوچتا ہے کہ اس کی وجہ سے میری جاب کو نقصان ہوتا ہے؟ لہٰذا اگر اس وقت جاب کو نقصان نہیں ہورہا، تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہاں! اگر وہ ادھر کھڑا ہو کر اس سے بات چیت کرے اور اس کی وجہ سے دیر ہوجائے، تو وہ objectionable بات ہے۔ اس مناسبت سے مجھے ایک بات یاد آگئی، ڈاکٹر بنگش صاحب جو ای این ٹی کے سپیشلسٹ ہیں، میں نے ان کو اپنا throat دکھایا، تو انہوں نے مجھے دوائیاں دے دیں۔ میں نے کہا کہ پرہیز کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: intelligent، یعنی پرہیز یہ ہے کہ جس چیز سے آپ کو نقصان ہو، اس کو آپ نہ کھائیں۔ پس اس طریقے سے یہاں پر بھی intelligently اپنی فرصت کو استعمال کرنا کہ جس میں آپ کے کام کا بھی حرج نہ ہو اور آپ کو فائدہ بھی ہو، یہ ہوسکتا ہے۔
سوال نمبر 13:
اللہ تعالیٰ کی محبت بہت زیادہ مقصود بھی ہے، اس کا طریقہ بھی آپ بتاتے رہتے ہیں، مثلاً: اللہ تعالیٰ سے اللہ کی محبت کی دعائیں مانگنا اور اس کے ساتھ جو نظام ہے، وہ بھی آپ فرماتے ہیں کہ ضروری ہے۔ لیکن کبھی کبھی لگتا ہے کہ نظام محبت کے اس کے خلاف نہ ہے، تو اس نظام کے لئے کیا کیا جائے؟
جواب:
عقلی محبت اور طبعی محبت پہ ایک دفعہ ہماری بہت discussion ہوئی ہے، آپ نے بھی شاید سنی ہوگی۔ طبعی محبت میں یہ چیز ہوتی ہے کہ اس میں بعض دفعہ بے انتظامی ہوجاتی ہے، تو اس کو عقل سے کنٹرول کرنا چاہئے۔ یعنی اس وقت عقل استعمال کر کے اس کو کنٹرول کرنا چاہئے، کیونکہ انتظام تو ضروری ہے۔ میرے خیال میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جتنی محبت حاصل تھی، وہ شاید ہی ہم میں سے کسی کو ہو، لیکن انتظام ایسا تھا کہ ہر چیز اپنے اپنے وقت پہ اور اپنی limitation کے ساتھ ہوتی تھی۔ اسی طرح ہمارے جتنے بھی اکابر گزرے ہیں، ان حضرات نے جو انتظام کے ساتھ کام کیا، تو ان کو محبت بھی حاصل تھی۔ محبت ایک خاص جذبہ ہے، جو driving force ہے یعنی جو آپ کو کسی اور کا نہ بننے دے، صرف اللہ کا بنا دے۔ پس اس کی requirement اتنی ہی ہے، اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ یا اللہ! مجھے اتنا شوق عطا فرما دے جو میرے اور گناہ کے درمیان حائل ہوجائے، یعنی گناہ مجھ سے نہ ہوسکے۔ بس اتنی طبعی محبت ضروری ہے کہ انسان کو نفسانی خواہشات سے detach کر دے۔ باقی! بے انتظامی کو عقل سے کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ گاڑی میں strength بھی ضروری ہے، لیکن steering پہ کنٹرول بھی ضروری ہے۔ گاڑی کو اتنا دوڑاؤ، جتنا کنٹرول بھی کرسکو، ورنہ پھر نقصان ہوگا۔ جس وقت موڑ کاٹتے ہیں، تو سپیڈ کم کرتے ہیں، کیونکہ موڑ کاٹنے میں زیادہ سپیڈ انسان کو Centripetal action کی وجہ سے باہر پھینک دیتی ہے۔ اس وجہ سے ان تمام چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اگر کنٹرول مضبوط ہے، تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر کنٹرول مضبوط نہیں، تو پھر نقصان ہوسکتا ہے۔ مجھے ایک دفعہ ایک بزرگ اپنے اِلَّا اللہ، اِلَّا اللہ کے ذکر کے بارے میں فرما رہے تھے کہ یہ ذکر جب میرے ادھر تک آگیا، تو پھر میں نے اس کو روک دیا۔ میں نے کہا: کیوں؟ انہوں نے کہا کہ بس اتنا کافی ہے، اس کو ہم نے کنٹرول کرلیا۔ پس ہر ایک کا اپنا اپنا سٹائل اور طریقہ کار ہوتا ہے۔ شیخ کے ساتھ رابطہ مضبوط رکھنے سے الحمد اللہ عام طور پر کنٹرول ہوجاتا ہے کیونکہ شیخ ان کو observe کرتا ہے، شیخ دیکھتا ہے کہ کہیں یہ کنٹرول سے باہر تو نہیں ہورہا۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ شیخ اگر آپ کو نوافل سے روک دے، تو پھر رک جانا چاہئے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تم کتنے پانی میں ہو۔ جیسے مجھے میرے شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے (حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کے علاوہ) باقی کتابوں سے روک دیا تھا، مجھے ذکر بھی زیادہ نہیں دیتے تھے، بس تھوڑا سا ذکر دیا تھا، اس سے زیادہ تک نہیں جانے دیتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ It was control، یہ کنٹرول تھا، کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ اگر میں تھوڑا سا ذکر زیادہ کر دوں گا، تو یہ Out of control ہوجائیں گے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ سے کسی نے کہا کہ حضرت! مولانا یعقوب نانوتوی مثنوی شریف کا درس کیوں نہیں دیتے؟ یہ تو بہت useful ہے۔ مولانا قاسم نانوتویؒ نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ دیوبند میں اچھے نظر نہیں آتے؟ مثنوی شریف کا تو پہلا ہی درس ان کو جنگل میں لے جائے گا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔