سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 219

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

حضرت!آپ اکثر بیانات میں ذکر وفکر کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سورۃ آل عمران کی آخری آیات 190-911 نمبر کے مطابق عقل مند وہ لوگ ہیں جو اٹھے، بیٹھے لیٹے ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اصل ذکر تو یہ ہے کہ زبان پر ذکر کے ساتھ ساتھ دل میں اصل کیفیت بھی حاصل ہو، لیکن اگر کسی کو دلی کیفیت حاصل نہیں، محض زبان سے ذکر کر رہا ہے تو بھی کسی درجے میں وہ ذکر کرنے والوں میں شامل ہوتا ہے۔ ذکر کا طریقہ تو یہی ہے، لیکن اس کے ساتھ مذکورہ آیات میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ عقل مند وہ ہیں جو تفکر کرتے ہیں، تفکر سے کیا مراد ہے اور یہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جواب :

جن آیات کا آپ نے حوالہ دیا ہے، انہی آیات میں ذکر و فکر دونوں کی تفصیل اور وضاحت موجود ہے۔ اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۔ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران: 190-191)

ترجمہ: ” بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انھیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ ( ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔ “

یعنی اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ بے شک کائنات کی تخلیق اور دنوں کے الٹ پھیر میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ عقلمند وہ لوگ ہیں جو کھڑے بیٹھے لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے والے ہیں اور کائنات میں غور و فکر کرنے والے ہیں۔ ان کے دل سے بے ساختہ یہ صدا بلند ہوتی ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا اے ہمارے رب تو نے ان تمام چیزوں کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔ سُبْحَانَكَ تو پاک ہے تمام عیوب سے۔ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پس ہمیں بھی عذابِ جہنم سے نجات عطا فرما۔

ذکر اللہ کی یاد کو کہتے ہیں۔ اللہ کی یاد کے مختلف درجات ہیں۔ مثلاً ایک انسان فزکس میں ریسرچ کر رہا ہے۔ دنیا کے مختلف نظاموں میں غور کرتا ہے۔ مختلف چیزوں کو دیکھتا ہے، ریسرچ کر تا ہے۔ اگر اس کو اللہ یاد نہیں ہے تو وہ اس ریسرچ کو اپنے کمال کی طرف لے جائے گا جیسے آج کل سائنسدان لوگ کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں ان کی اپنی بڑائی سامنے ہوتی ہے کہ میں نے یہ اتنا بڑا کام کر لیا، میں نے یہ کر لیا میں نے وہ کر دیا۔ یہ اللہ کی یاد نہیں ہے۔ لیکن اگر اس کو اللہ یاد ہے، اس ریسرچ سے اس کا اللہ کی ذات پر یقین مزید مضبوط ہوتا جاتا ہے، تو یہ درحقیقت اللہ کی یاد ہے۔

ایک بار مجھے ایک آئی سپیشلسٹ نے بتایا کہ جب میں آپریشن کرتا ہوں اور آپریشن کے لئے آنکھ کھولتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حیران ہو جاتا ہوں۔ دماغ ہی کو لے لیں۔ اتنی باریک باریک نسوں کے ذریعے اتنی انفارمیشن اور سگنل پہنچانے کا نظام بنایا گیا ہے۔ کان کی انفارمیشن، آنکھ کی انفارمیشن، ناک کی انفارمیشن، الغرض جسم کی ہر ہر چیز کی انفارمیشن کو دماغ تک پہنچانے کا ایک عجیب نظام ہے۔ جو آدمی اس سارے نظام کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس مشاہدہ سے اسے اللہ یاد آئے تو اس کا یقین مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ آدمی کو محسوس ہوتا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کتنی اونچی ہے۔ اس وجہ سے وہ کہتا ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا“’’اے ہمارے رب تو نے ان تمام چیزوں کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔‘‘اس طرح اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق بڑھتا ہے۔ اگر اسے اس کائنات کے مظاہر کے مشاہدے سے اللہ کی یاد نہ آئے تو پھر اس کی نظر اپنی طرف جائے گی، اپنے آپ کو بڑا سمجھے گا اور کہے گا کہ میں نے یہ ریسرچ کی ہے، میں نے یہ تحقیق کی ہے۔

دونوں قسم کے لوگوں میں تقابل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اصل ذکر اور اصل فکر جس کا اس آیت میں ذکر کیا ہے، وہی ہے جس سے اللہ پاک کے ساتھ تعلق مضبوط ہو، جس سے اللہ کی ذات سے تعلق نہ بنے وہ حقیقی ذکر و فکر نہیں ہے۔

یہاں سے یہ بھی پتا چلا کہ ایک مسلمان سائنسدان اور غیر مسلم سائنسدان میں کیا فرق ہے۔ پھر مسلمان سائنسدانوں میں غافل سائنس دان اور ذاکر سائنسدان میں کیا فرق ہے۔ مسلمان سائنسدان یا کوئی بھی ہوشیار آدمی جو چیزوں کو غور سے دیکھتا ہو، ا س کا اللہ تعالیٰ کے اوپر یقین بنتا ہے، اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کی عظمت آشکار ہوتی ہے، وہ جوں جوں تحقیق کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کے دل میں بڑھتی جاتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو آیات مذکورہ بالا میں عقل مند کہا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اس ذکر کے ذریعہ اپنی فکر کو صحیح استعمال کر کے اس سے صحیح نتائج اخذ کرتے ہیں۔

سوال نمبر2:

حضرت جی آپ نے ایک بیان میں فرمایا تھا کہ ایک بار آپ کو آپ کے شیخ نے فرمایا کہ ایمان کوئی چھوئی موئی کا پھول نہیں ہے کہ آپ اسے یوں ہی اڑا دو۔ یہ بات کس لحاظ سے فرمائی تھی اس کی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

اس بات کا تعلق وساوس سے ہے۔ بعض دفعہ انسان کو ایسے وساوس آتے ہیں کہ اسے محسوس ہوتا ہے شاید میرا ایمان ختم ہو گیا ہے۔ اس کے بارے میں حضرت نے فرمایا کہ ایمان کوئی چھوئی موئی کا پھول نہیں ہے کہ اتنی آسانی سے ختم ہو جائے۔ اس میں اپنا ارادہ ہوتا ہے۔ جب تک آپ کا ارادہ شامل نہ ہو تب تک ایمان ختم نہیں ہوتا۔

سوال نمبر3:

کچھ لوگ بہت زیادہ سوچتے ہیں۔ ان کے سوچنے کا کوئی خاص pattern یا خاص مقصد نہیں ہوتا، بس سوچتے رہتے ہیں۔ اس over thinking سے کیسے بچا جائے اور اس کا رخ صحیح ذکر و فکر کی طرف کیسے موڑا جائے۔

جواب:

ہر انسان سوچتا تو ہے ہی، سوچنا بند نہیں ہو سکتا، ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اس سوچ کا رخ درست کر دیا جائے۔ سوچ دنیا کے لئے بھی ہو سکتی ہے، آخرت کے لئے بھی ہو سکتی ہے۔ آپ کو جو بھی سوچ آئے اس میں آخرت کا پہلو شامل کریں، اس میں یہ رخ شامل کریں کہ ایسا کیا کروں کہ میرا رب مجھ سے راضی ہو جائے۔ اس بات کا جتنا زیادہ خیال رکھیں گے آپ کی سوچ اتنی بہتر ہوتی جائے گی۔ کیونکہ انسان کا ذہن سوچتا تو ہر وقت ہے، لیکن یہ بات اہم ہے کہ وہ کس لئے سوچتا ہے، مقصد کیا ہے، objective کیا ہے۔ جس کا مقصد اللہ کو راضی کرنا ہوتا ہے وہ جو بھی سوچتا ہے، اسی مقصد کے لئے سوچتا ہے۔ جس کا مقصد دنیا کی کوئی چیز حاصل کرنا ہے وہ اس کے لئے سوچتا ہے۔

آپﷺ نے فرمایا: جو ہجرت کرے اس بات کے لئے کہ کسی عورت سے شادی کر لے تو اس کی ہجرت اس عورت کے لئے ہے اور جو ہجرت اس لئے کرے کہ اللہ اور اللہ کا رسولﷺ اس سے راضی ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے۔ لہٰذا جو بھی سوچ آئے اس کا مقصد خالص اللہ کی رضا کے لئے کر لیا کریں۔

سوال نمبر4:

بعض اوقات انسان نیک کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے، نیک کام کرنا چاہ رہا ہوتا ہے لیکن اس کے لئے نیت صحیح نہیں بن پا رہی ہوتی، اس بات میں تردد رہتا ہے کہ کیا واقعی اللہ کی رضا کے لئے کر رہا ہوں، کہیں اپنے نفس کے لئے تو نہیں کر رہا! اس وجہ سے آدمی نیک کام کرنے سے رک جاتا ہے۔ کیا یہ شیطانی وسوسہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کام سے رک جاتا ہے یا اس میں انسان کے نفس کا بھی دخل ہوتا ہے؟

جواب:

جب بھی انسان کوئی کام کرتا ہے، اس کی کوئی نہ کوئی نیت اور ارادہ ضرور ہوتا ہے۔ اسے اپنی نیت کی جانچ تو لازمی کرنی چاہیے کہ میں کس لئے کر رہا ہوں۔ اگر وہ اللہ کی رضا کے لئے کر رہا ہے تو اس کو آگے بڑھائے اگر اس کو اللہ کی رضا کے لئے نہیں کر رہا، کوئی دنیاوی مقصد ہے تو اس کام کو نہ کرے۔ دنیاوی مقصد میں بھی دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ جائز دنیا اور نا جائز دنیا۔ اگر جائز دنیا کے لئے کر رہا ہے تو بھی ٹھیک ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جائز دنیا کو دین بھی بنا یا جا سکتا ہے۔ مثلاً میں کوشش کر رہا ہوں کہ اچھا کھانا مل جائے تو یہ ہے تو دنیاوی خواہش، لیکن جائز دنیا ہے۔ اب اگر میں اسی میں یہ نیت بھی شامل کر لوں کہ اچھے کھانے کی کوشش اس لئے کر رہا ہوں کہ اس سے مجھ میں قوت آئے گی میں اس قوت کو عبادت میں استعمال کروں گاعبادت اچھے طریقے سے ہوگی تو اللہ پاک راضی ہوں گے۔ جب یہ نیت جائز دنیا میں شامل کر لی جائے گی تو یہ دین بن جائے گا۔

اپنے اعمال کا زیادہ سے زیادہ اجر حاصل کرنے کے لئے اس چیز کو مستحضر رکھنا پڑتا ہے۔ میں اکثر اس پر زور دیتا ہوں کہ نا جائز دنیا کی نیت تو بالکل نہیں ہونی چاہیے اور جو جائز دنیا ہے اس کو دین بنانا چاہیے تاکہ وہ بھی قابلِ اجر و ثواب بن جائے۔

سوال نمبر5:

حضرت اگر آدمی کسی کام کو شروع تو دنیا کی نیت سے کرے لیکن اس کا اختتام دین پر کرے، کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

جواب:

دنیا سے شروع نہ کرے، بلکہ دین سے شروع کرے۔ ہاں اگر وہ کام دنیا کا ہے تو اس میں ابتدا سے ہی دین کی نیت شامل کر لے،تاکہ وہ کام بھی اللہ کی رضا کے حصول کا سبب بن جائے۔

سوال نمبر6:

حضرت جی لوگوں کی اکثریت تصوف سے اختلاف کیوں کرتی ہے؟

جواب:

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شیطان انسان کو کسی ایسی چیز کی طرف نہیں آنے دیتا جس سے اس کا فائدہ ہو۔ پھر جس چیز سے انسان کا ہر عمل اللہ کے لئے بن جائے، اس کے بارے میں وہ کیوں چاہے گا کہ انسان اس پہ لگ جائیں۔ آخر اس نے جو عہد اللہ کے ساتھ کیا ہے اسے بھی تو پورا کرنا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے گا، مختلف طریقوں سے ان کو اس لائن سے ہٹائے گا۔

تصوف سے دور رکھنے کے لئے شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار جو دو دھاری تلوار کی طرح کام کرتا ہے وہ یہ ہے کہ صوفیوں پہ محنت کرکے انہی کے اندر بدعات اور شرک کی چیزیں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گیا تو اس سے صرف یہ فائدہ نہیں ہو گا کہ وہ صوفی شرک و بدعت کی طرف چلے گئے بلکہ اس کی بنیاد پر لوگوں کے ذہنوں میں وسوسے ڈالے گا اور کہے گا کہ دیکھو تصوف تو شرک و بدعت ہے۔ اس بات کا ایسا اثر ان کے دل و دماغ پر بٹھائے گا کہ صحیح صوفیاء حضرات کی طرف ان کا ذہن نہیں جانے دے گا۔ میرے پاس لوگوں کے ایسے میسجز کے فولڈرز بھرے پڑے ہیں جو تصوف کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ اس میں شرک و بدعت ہوتا ہے۔ یہ سارا اثر وہ غلط صوفیوں سے لیتے ہیں، انہی کی مثالیں دیتے ہیں، ایسے گمراہ صوفیوں کی ویڈیوز پیش کرتے ہیں۔ اب ان لوگوں کے سامنے یہی غلط صوفیاء ہیں۔ اتنے بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں،ان کا کسی کو خیال بھی آتا کہ یہ بھی صوفی تھے۔

میں اکثر یہ بات کرتا رہتا ہوں کہ خدا کے بندو ذرا سوچو دنیا میں کون سا ایسا شخص ابھی تک آیا ہے جس سے اللہ نے دین کا کوئی کام لیا ہے اور وہ صوفی نہیں تھا۔ یہ تصوف تو تابعین کے دور سے ہی موجود ہے۔

ایک چیز علم ہے، دوسری چیز عمل ہےتو۔ علم فقہ سے آتا ہے اور عمل تصوف سے آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ علم پر عمل کرنے سے دو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں، ایک شیطان دوسرا نفس۔ شیطان اور نفس کی رکاوٹوں کو دور کیے بغیر عمل نہیں ہو سکتا۔ شیطان اور نفس کی رکاوٹوں کو دور کرنے کا نام ہی تصوف ہے۔ اب بتائیں اس کے بغیر کیسے کام ہو گا؟

جس سے بھی اللہ تعالیٰ نے دین کا کام لیا ہے، اگر آپ اس کا پس منظر دیکھیں تو آپ کو تصوف نظر آئے گا۔ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی روشن مثال ہیں۔ اکبر کے دین الٰہی کی وجہ سے ہندوستان میں دین اسلام تقریباً ختم ہوا چاہتا تھا۔ لیکن حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ڈٹ گئے اور ایسے ڈٹے کہ اکبر کے نصف سے زیادہ درباری ان کی طرف ہو گئے۔اکبر کی موت کے بعد اپنی مرضی کا بادشاہ بنوایا پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ مزید اثر و رسوخ پیدا کیا نتیجتاً شاہ جہاں با قاعدہ حضرت کا مرید بن گیا۔ پھر اس کے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے تو وہ کام کر دکھایا جو عام لوگ کر ہی نہیں سکتے۔ علماء وفقہاء کو تخت پہ بٹھا کے ان سے فتاویٰ عالمگیری لکھوایا۔ اس سارے کام کے محرک اصلی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ تھے، جن کے بارے میں سبھی لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک بڑے عظیم پائے کے صوفی تھے۔ اس طرح حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھو، شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھو یا ہمارے دوسرے اکابر کی مثال دیکھو۔ جب بھی مسلمانوں کے اوپر کڑا وقت آیا اس میں جو لوگ آگے بڑھے وہ صوفیاء ہی تھے۔ انہوں نے مشکل راستوں کو عبور کیا، جس سے بعد میں لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ لیکن یہ باتیں لوگ نہیں جانتے۔

ایک دفعہ میں کسی جگہ بیان کر رہا تھا تو ایک صاحب نے اعتراض کیاکہ جب تاتاری مسلمانوں کو مار رہے تھے تو اس وقت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کہاں تھے۔ میں نے کہا: خدا کے بندے آپ کو تاریخ سے کچھ مناسبت بھی ہے یا نہیں، کبھی کچھ تاریخ پڑھی یا ویسے ہی اعتراض کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے ہو۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تو تاتاریوں کے آنے سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ خدا کے بندے کچھ پڑھ بھی لیا کریں، بات کرنے سے پہلے سوچ بھی لیا کریں۔ یوں ہی سوال مت داغ دیا کریں۔

بہر کیف! بات یہ ہے کہ شیطان تصوف کی طرف لوگوں کو آنے نہیں دیتا اور اس پہ کڑی محنت کرتا ہے کہ کسی طرح لوگ اس سے دور رہیں۔

سوال نمبر7:

حضرت جی! مجذوب اور عام پاگل میں فرق کیسے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

جواب:

فوری طور پہ فرق معلوم کرنا مشکل ہے۔ پہلے یہ سمجھیں کہ ایک وہ مجذوب ہوتا ہے جس کی عقل کام نہ کررہی ہو۔ اس پہ شریعت لاگو نہیں ہوتی۔ ہم لوگ جب لفظ ”مجذوب“ بولتے ہیں تو اس سے مراد یہ مجذوب نہیں ہوتا۔ ہم لوگوں کی مراد ”مجذوب“ سے وہ شخص ہوتا ہے جس کے ہوش و حواس قائم ہوں لیکن اس کے اندر جذب بہت زیادہ موجود ہو۔ ایسے لوگ شریعت پر بڑے جوش و محبت کے ساتھ چلتے ہیں۔ جب کہ پہلی قسم کے لوگ جذب کی وجہ سے جن کی عقل ہی کام کرنا چھوڑ دے، ان کو ہم پاگل بھی کہہ سکتے ہیں۔ البتہ یہ لوگ اچھے پاگل ہیں کیونکہ یہ اللہ کی محبت کی وجہ سے پاگل ہوئے ہیں۔ اللہ کے ہاں بھی ان کا ایک مقام ہوتا ہے۔ اگر کوئی ان کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسے نقصان پہنچتا ہے۔ ان مجذوبوں میں عقل نہیں ہوتی، شریعت ان پہ لاگو نہیں ہوتی، لیکن چونکہ یہ اللہ کی محبت کی وجہ سے ایسی حالت پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، لہذا ان کا اللہ کے ہاں ایک مقام ہوتا ہے، ایسے مجذوبوں کی اللہ تعالی حفاظت کرتے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی شخص اسی حالت میں فوت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا ایک مقام ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس کا آخری عمل اللہ کی محبت تھا۔ آخری وقت میں ان کی زبان پر ایسی باتیں جاری ہوجاتی ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس حالت میں دنیا سے گئے۔

زیارت کاکا صاحب میں ایک صاحب تھے۔ وہ ہر آدمی سے پوچھتے تھے کہ نماز پڑھی ہے؟ لوگ کہتے کہ ہاں پڑھی ہے، وہ جواب میں کہتا: میں نے بھی پڑھی ہے۔ ہمیشہ راستے میں جاتے جاتے لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ کرتا جاتا تھا۔ ایسے لوگ جن کے پاس زیادہ عرصہ رہتے ہیں، انہیں علم ہو جاتا ہے کہ یہ مجذوب ہیں۔

بہرحال مختصر یہ کہ ہماری مراد مجذوب سے وہ شخص ہوتا ہے کہ جس کی عقل اور ہوش و حواس بالکل سلامت ہوتے ہیں، ہاں شریعت پہ عمل کرنے کا جذبہ اس میں بے حد موجود ہوتا ہے، جیسے حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ ایسا آدمی پاگل نہیں ہوتا، بلکہ جذبہ کی زیادتی کی وجہ سے اسے مجذوب کہتے ہیں۔

مجذوب کے بارے میں میری ایک غزل درج ذیل ہے:

یہ مانا ہے جذب سے مجذوب سچ کہ محبوب خدا ہے مجذوب عقل اور ہوش سے ہے بیگانہ اگر اقتدا سے رکھو پرے مجذوب بات شریعت کی چلے گی ہمیش کو خدا کو تو ہے پیارے مجذوب دین کی بنیاد عقل و ہوش پر ہے اور اس پر نہیں چلے مجذوب ہاں جذب و ہوش کہ قابو میں رہے اور شریعت کی بھی مانے مجذوب ایسا جذب فضل خداوندی ہے دل کی باتیں پھر بتائے مجذوب دل سے پھر عقل شریعت پہ چلے نفس پہ خوب پھر چھائے مجذوب عشق کے نور میں ملفوف شبیر ایسے اشعار سنائے مجذوب

مطلب یہ ہے کہ صحیح مجذوب وہی ہے جس کا ہوش قابو میں ہو۔ اس وجہ سے ہمارے مشائخ کسی کو مجذوب نہیں بناتے بلکہ اس میں جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ ایک پوری پریکٹس ہوتی ہے۔

میرے شیخ حضرت مولانا اشرف رحمۃ اللہ علیہ میرا ذکر نہیں بڑھاتے تھے۔ اس وقت تو مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ میں حیران ہوتا تھا کہ باقی لوگوں سے ناراض ہوتے ہیں کہ وہ ذکر نہیں کرتے۔ کبھی کبھی فرما تے تھے کہ میں ذکر دیتا ہوں لوگ نہیں کرتے ان میں خواہش ہی نہیں ہے۔ جبکہ میں حضرت سے مطالبہ کرتا تھا کہ میرا ذکر بڑھا دیں۔ فرماتے: کیا آپ کے پاس ٹائم ہے؟ میں چپ ہو جاتا۔ اس طرح 15- 16 سال تک میرا ذکر چار تسبیحات سے آگے نہیں بڑھایا۔ حضرت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر میں نے اس کا ذکر بڑھا دیا تو یہ کسی اور طرف چلا جائے گا۔

حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ کے ساتھ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ ﷺ مناظر احسن گیلانی کی طرف توجہ فرما دیجیے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر میری اس کی طرف توجہ ہو جائے تو یہ پھر وہاں نہیں رہے گا، اِدھر آجائے گا۔ یعنی یہ پھر وہاں کا نہیں رہ پائے گا، چونکہ ابھی ان کو وہاں رکھنا ہے، اس لئے اتنی توجہ کافی ہے مزید نہیں ہونی چاہیے۔

صحیح مشائخ مجذوب نہیں بناتے ہیں بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ سالک ہوش میں رہے۔ ہوش میں رہنا ضروری ہے۔ کیونکہ ہوش پہ سارے احکامات ہیں۔ آدمی شریعت پہ تبھی چل سکتا ہے جب ہوش میں ہو۔ شریعت پہ چلنے کے لئے ہوش کی ضرورت ہے، ہاں اتنا جذبہ ضرور ہونا چاہیے کہ انسان نفس کے اوپر چھا جائے، نفس کو کنٹرول کر سکے، نفس کے جال سے نکل آئے، اتنا جذب ضروری ہے۔ اتنا زیادہ نہ ہو کہ آدمی ہوش سے بے گانہ ہو جائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔