حقائق کی پہچان

حقیقتوں کا ادراک اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہوتا ہے

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


﴿قد اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ (الشمس: 09-10)

﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِیْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۠ ﴾ (البقرہ: 152)

﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)

صَدَقَ اللهُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ وَ صَدَقَ رَسُولُهُ النَّبِیُّ الْاَمِینُ الْکَرِیمُ

کافی دیر سے حضرت سے ملاقات کی کوشش کررہے تھے، لیکن حضرت بھی سفر میں تھے، میں بھی سفر میں تھا، اور حضرت کے پروگرام بھی تھے، میرے بھی پروگرام تھے، اللہ جل شانہٗ نے یہاں پر جمع فرمایا۔ میں نے بہت مختصر بات عرض کرنی ہے، کیونکہ سفر ہمارا آگے جاری ہے، اور حضرت بھی ماشاء اللہ یہاں پر تشریف لائے، اس لئے حضرت سے زیادہ آپ حضرات کو مستفید ہونا چاہیے، میں نے تو صرف انگلی کٹا کے شہیدوں میں اپنا نام لکھوانا ہے۔ بات بہت ہی مختصر ہے حقائق حقائق ہوتے ہیں، ان کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، ان حقیقتوں کا ادراک ہونے لگے، یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہوتا ہے۔ ہم اللہ کے بندے ہیں، اللہ ہمارے خالق ہیں، اللہ ہمارے مالک ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں سب کچھ دیتا ہے، اور اللہ جل شانہٗ نے آپ ﷺ کو ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور ان کو وہ سب کچھ دے دیا، جو ہماری ہدایت کے لئے ضروری تھا، اور اللہ پاک نے اپنی کتاب کو بھی نازل فرمایا ہے، اس میں بھی ہدایت موجود ہے، لیکن آپ ﷺ کے ذریعے سے جو ہدایت مل رہی ہے، وہ ہم کیسے حاصل کریں، اور قرآن کے ذریعے سے جو ہدایت ہے وہ ہم کیسے حاصل کریں، اس کے لئے کچھ چیزوں کی ضرورت ہے، اصل میں انسان کو اس وقت تک حقیقی معنوں نظر نہیں آسکتا میں جب تک دل پر دنیا کی محبت کے پردے پڑے ہوئے ہیں، یہی وہ گند ہے جو دل میں ہوتا ہے، تو تمام حقائق چھپ جاتے ہیں، نظر نہیں آتے، علم موجود ہوتا ہے، لیکن علم سے استفادہ ممکن نہیں رہتا، اس وجہ سے مشائخ یہ کام کرتے ہیں، کہ وہ دنیا کی محبت کو دل سے دھوتے ہیں، یہ ان کا فن ہوتا ہے، ان کے ہاں سلسلوں میں برکت بھی ہوتی ہے، لہٰذا ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا اور ان سلاسل کی برکت سے مستفید ہونا، یہ انسان کے دل کو دھو دیتا ہے۔ دوسری طرف انسان کا جو نفس ہے، یہ بھی آسانی سے کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا، اس کی مثال بچے کی سی ہے بچہ نا سمجھ ہوتا ہے، وہ اپنے فائدے نقصان کو نہیں جانتا، لیکن اسے حساب بھی دینا ہوتا ہے۔ تو اس وجہ سے بچہ کے اندر سمجھ کو پیدا کرنا اس کو مجاہدہ کے ذریعے سے اس کام کے لئے تیار کرنا، یہ کام ہوتا ہے جو مشائخ کرتے ہیں۔ مجاہدہ دو قسم کا ہوتا ہے، ذکر بھی دو قسم کا ہوتا ہے، مجاہدہ ایک شرعی ہوتا ہے، ایک علاجی ہوتا ہے۔ شرعی مجاہدہ میں یہ ہوتا ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجاہدات ہیں، اور ان میں اللہ پاک نے ہمارے لئے سارے ہدایت کے سامان رکھے ہوتے ہیں، جیسے نماز بے حیائی اور منکرات سے روکنے والی ہے، اور روزہ کے ذریعے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہمارے نفس کی گندگی کی وجہ سے اور دل کی خرابی کی وجہ سے نماز نماز نہ رہے، روزہ روزہ نہ رہے، تو پھر اس کے اوپر محنت کرنی پڑتی ہے، کچھ علاجی مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، تاکہ ساری چیزوں کے لئے نفس تیار ہوجائے۔ اس طرح جو ذکر ہم لوگ کرتے ہیں، ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ''، ''سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ'' پہ بڑا اجر ہے۔ اور قرآن پاک کی تلاوت پہ بڑا اجر ہے، اسی طرح درود شریف پہ بڑا اجر ہے۔ سب ذکر و اذکار اجر کے لئے ہم کرتے ہیں، لیکن خدانخواستہ اگر نیت میں خرابی آجائے، اور نیت میں یہ آجاے کہ لوگ کہیں کہ دیکھو یہ تو ذاکر ہے۔ تو یہ ذکر جو ہم کررہے ہیں، یہ ریا کا ذریعہ ہوجائے گا، پھر کام نہیں دے گا۔ چنانچہ اپنے ذکر کو کیسے ذکر بنا دیا جائے، اس کے لئے پھر علاجی ذکر ہوتا ہے، علاجی ذکر کیا ہوتا ہے، علاجی ذکر یہ ہوتا ہے کہ دل سے دنیا کی محبت نکال دی جائے، اللہ کی محبت کو پیدا کیا جائے۔ مثلاً بوتل ہے، بوتل میں ہوا ہے، اس ہوا کو نکالنا بہت مشکل کام ہے، آپ انجینئروں سے پوچھیں، یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے vaccum کو پیدا کرنا، لیکن اگر اس کے اندر پانی ڈال لیں، تو ساری ہوا نکل جائے گی اور پانی آجائے گا۔ اس طرح جب دنیا کی محبت دل میں ہو تو اس کو نکالنا آسان بات نہیں ہے، لیکن اللہ کی محبت کو اگر پیدا کیا جائے، تو دنیا کی محبت ختم ہوجائے گی۔ یہی وہ چیز ہے کہ روشنی جب پیدا ہوجاتی ہے، تو ظلمت ختم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اسی کے لئے ذکر کرنا کہ جس سے اللہ کی محبت کو پیدا کیا جائے یہ ضروری ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم لوگوں کو ذکر سے فائدہ اس لئے نہیں ہوتا کہ ہم اس کی محبت کو حاصل کرنے کی نیت نہیں کرتے۔ جب بھی ہم ذکر کریں، اس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کی نیت کرلیں، نیتوں سے کام بنتے ہیں:

''إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ'' (البخاری، رقم الحدیث: 1)

ترجمعہ : ''اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے''۔

اس لئے اگر ہم نیت کریں گے، تو اس میں بہت ساری چیزوں سے ہم بچ جائیں گے۔ مثلاً ذکر میں بعض لوگ مزہ چاہتے ہیں، حالانکہ مزہ مقصود نہیں ہے، ذکر کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت مقصود ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی محبت ہمارا مقصود ہو، تو ذکر اس کے لئے کریں گے، ہم مزے کے لئے نہیں کریں گے، نتیجہ یہ ہوگا کہ ذکر کی برکات و ثمرات ہمیں حاصل ہوجائیں گے۔ اب یہ جو ذکر ہم کریں گے یعنی یہ علاجی ذکر، اس سے ماشاء اللہ ہماری دل کی آنکھیں کھلیں گی، اور اردگرد کی تمام چیزیں جو اللہ پاک نے ہمارے لئے رکھی ہیں، وہ سب نظر آنا شروع ہوجائیں گی۔ اور اس نور کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہم سب کو فائدہ پہنچائے گا، اور ہم لوگوں کو اپنی حقیقت سے آگاہ کرے گا، اللہ جل شانہ کی معرفت نصیب ہوجائے گی۔ بہرحال چونکہ میں نے بہت مختصر بات عرض کرنی تھی، لہٰذا میں زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا، حضرت ان شاء اللہ تفصیل سے بات فرمائیں گے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ایسے اجتماعات میں بار بار شرکت کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ اجتماع کیا ہیں؟ ان اجتماعات کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ بندے کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ بنا دیا جائے۔ اور آج کل اس کی بہت ضرورت اس لئے ہے کہ آج کل یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ذرا بھر بھی اگر کسی جگہ پر اللہ کے رسول کا نام لیا جاتا ہو، تو اس سے دنیا کے فائدے کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً آپ کے پاس لوگ آ جائیں گے کہ یہ دم کردو، مجھے فلاں مسئلہ ہے، مجھے فلاں مسئلہ ہے۔ یعنی آپ کے پاس اس کے لئے بہت کم لوگ آئیں گے کہ میرا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ بنا دیں۔ چنانچہ ایسے لوگ اگر تیار ہوجائیں گے تو یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ ایسی جماعتوں کے بنانے کی بڑی ضرورت ہے، اور انہی کے لئے یہ اجتماعات ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بھی کامیاب فرما دے، اور اس کے اندر جو بنیادی مقصد ہے وہ حاصل فرما دے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اپنا تعلق عطا فرما دے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ