اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَم النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
ایک محترمہ نے اپنے معمولات کا چارٹ بھیجا ہے۔ اس میں اخیر میں اپنے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ کوئی حال نہیں ہے، البتہ اعمال میں دل بالکل نہیں لگ رہا، فرض نماز بھی مشکل ہو گئی ہے اپنے حال پر بہت افسوس اور ندامت ہے لیکن اس حالت میں تبدیلی نہیں آ رہی۔
جواب:
چارٹ دیکھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ معمولات تو چل رہے ہیں، معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ لیکن آپ کہہ رہی ہیں کہ اعمال میں دل نہیں لگ رہا۔ یاد رکھیے اعمال میں دل نہ لگنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ اعمال میں دل لگنا نہ لگنا ہمارے بس میں نہیں ہے، یہ غیر اختیاری ہے،غیر اختیاری کی پوچھ نہیں ہوتی۔ اگر دل نہیں لگ رہا،پھر بھی اعمال کر رہی ہیں تو اجر بڑھ جاتا ہے۔ ایسے اعمال اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب کرتے ہیں۔ اس لئے یہ حالت تو مبارک ہے۔
نماز مشکل ہو گئی ہے تو کوئی بات نہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴾ (الم نشرح: 5-6)
ترجمہ: ” چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔ یقینا مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔“
مشکل ہوتے ہوئے ادا کرنے کی توفیق ہو جائے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ اپنے حال پر ندامت بھی اچھی عادت ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اپنا تعلق نصیب فرمائے۔
در اصل ابھی تک ہم لوگ اختیاری اور غیر اختیاری میں فرق نہیں سمجھ سکے۔ اختیاری چیز کی فکر کرنی چاہیے، اس میں کمی نہیں ہونی چاہیے، اس کی پوچھ ہو گی۔ البتہ غیر اختیاری چیز اگر اچھی ہے تو محمود ہے، اگر اچھی نہیں ہے تو کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ مثلاً اچھے خواب آ جائیں تو یہ محمود ہے لیکن مقصود نہیں ہے۔ اور برے خواب آ جائیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ انسان کا کام ہی نہیں ہے، اس حالت میں افسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے کام کو مستقل مزاجی سے کرتے رہنا چاہیے، اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمانے والے ہیں۔
سوال نمبر2:
ایک صاحب نے اپنے معمولات کا چارٹ بھیجا ہے اور کہا ہے کہ دعا کی طرف زیادہ رغبت نہیں ہوتی۔
جواب:
دعا انسان کی ایک ضرورت ہے۔ اگر آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہر وقت ضرورت ہے اس لئے ہم ہر وقت دعا کریں گے چاہے دعا میں دل لگے یا نہ لگے۔ انسان جب مجبور ہو جاتا ہے تو انسان کے آگے بھی ہاتھ پھیلانا شروع کردیتا ہے حالانکہ کسی کا دل نہیں چاہتا کہ اپنا ہاتھ پھیلائے۔ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے عذر کرنا تو اچھی بات ہے۔ لیکن اللہ جل شانہ کے ساتھ ہماری ہر وقت کی محتاجی ہے۔ دل لگے یا نہ لگے رغبت ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے یہ ہماری ضرورت ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ہمارے دین ودنیا کی ساری کامیابیاں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہیں اور اللہ پاک سے مانگنا ایک رفیع حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
سوال نمبر3:
ایک اور محترمہ معمولات کے چار ٹ میں لکھتی ہیں کہ کلمہ طیبہ اور استغفار مستقل نہیں پڑھے، اس لئے نہیں لکھ سکی۔ مراقبہ کی سمری کے بارے میں سمجھ نہیں آئی کہ کیا لکھوں۔ حضرت جی میرے لئے مراقبہ میں پابندی کی دعا فرما دیجئے نیز میری ہدایت اور توفیق کے لئے بھی دعا فرما دیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
جواب:
معمولات کا چارٹ کافی حد تک بہتر ہے سوائے تہجد کی نماز کے، تہجد کی نماز میں باقاعدگی نہیں ہے۔ پھر بھی الحمد للہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ اللہ جل شانہ مزید کی توفیقات عطا فرمائے۔
میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ تین تسبیحات درودشریف، کلمہ اور استغفار ایسی ہیں جن کو چلتے پھرتے بھی کیا جا سکتا ہے، یہ اجر کے لئے ہیں اور اجر کے لئے اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۔ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ” بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں“۔
یہ تسبیحات اٹھے بیٹھے اور لیٹے تینوں حالتوں میں کی جا سکتی ہیں۔ البتہ مراقبہ کے بارے میں اس لئے زور دیتا ہوں کہ مراقبہ علاج ہے اور علاج میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔ مراقبہ میں مستقل مزاجی ہونی چاہیے۔ جتنی دیر کے لئے بتایا گیا ہے اتنی دیر کے لئے مراقبہ میں بیٹھنا ضروری ہے۔ مراقبہ کا طریقہ میں بارہا بتا چکا ہوں کہ اس میں یہ کوشش نہ کرے کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ بلکہ صرف یہ تصور کرے کہ میرا دل اللہ کر رہا ہے اور میں اس کو سن رہا ہوں۔ سننے کا تصور کرے، ذکر کروانے کا تصور نہیں۔ اس طرح تھکن نہیں ہو گی اور پریشانی بھی نہیں ہو گی۔
سوال نمبر4:
ایک خاتون نے لکھا ہے عذر کے دنوں میں زیادہ ذکر کرنے کی بجائے سستی بڑھ جاتی ہے، معمول مشکل سے پورا کرتی ہوں۔
جواب:
طبعی حالت کی وجہ سے مشکل ہو سکتی ہے۔ جتنی مشکل سے کوئی چیز ہو گی اس کا اجر اتنا بڑھ جائے گا۔
سوال نمبر5:
ایک صاحب نے اپنے معمولات کا چارٹ بھیجا ہے لیکن اس میں فجر کی نماز کا مسئلہ ہے۔
جواب :
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے، ہمت نصیب فرمائے۔ فجر کی نماز سب سے اعلیٰ نمازوں میں سے ہے، اس میں سستی بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ رات کو جلدی سونا چاہیے تاکہ فجر کی نماز کے لئے وقت پہ اٹھا جا سکے۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم حضرت جی۔ الحمد اللہ غصہ کافی حد تک کنٹرول ہو جاتا ہے۔ زبان بھی قابو ہو جاتی ہے۔ اوقات کار کے بارے میں یہ ترتیب ذہن میں آئی ہے کہ ایک دن صرف ایک کام کا ارادہ کروں۔ جب اس کو مکمل کروں پھر دوسرا کام شروع کروں۔ اب اس فارمولے پر کام شروع کر رہا ہوں۔ پہلے مذاق مذاق میں دوستوں سے جھوٹ بول لیتا تھا اب ایسا کروں تو دل پریشان ہو جاتا ہے۔ احتیاط کے باوجود کبھی کبھار مذاقاً جھوٹ نکل جاتا ہے۔
جواب:
یہ حالت پہلی حالت سے اچھی ہے لیکن ابھی مزید کوشش ضروری ہے۔ اس پہ اتنا کنٹرول لائیں کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو استحضارِ قوی نصیب فرما دے تاکہ مشکلات نہ ہوں۔
سوال نمبر7:
حضرت جی نظر لگنے کی کیا حقیقت ہے، کیا اعمال کو بھی نظر لگ سکتی ہے، اس سے بچنے کی کیا تدبیر ہے؟
جواب :
حدیث شریف میں آتا ہے کہ نظر کی وجہ سے انسان قبر میں اور اونٹ ہانڈی میں جا سکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نظر لگتی ہے۔ اور قرآن میں بھی ہے:
﴿وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ﴾ (الفلق: 5)
ترجمہ: ”اور (میں پناہ مانگتا ہوں) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔“
اس سے بھی نظر لگنا ثابت ہوتا ہے۔ اعمال کو بھی نظر لگ سکتی ہے، اس معنیٰ میں کہ ذوق و شوق تلف ہو جائے۔ لیکن ذوق و شوق اصل مقصود نہیں ہے، ذوق و شوق اگر چلا بھی جائے تو انسان ہمت کر کے ان اعمال کو کرے گا تو اجر بڑھ جائے گا۔
نظر کے علاج بھی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر نظر لگ جائے تو اول آخر درود شریف پڑھ کر 11 مرتبہ یہ آیت پڑھی جائے، ﴿وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ۔ وَ مَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ (القلم: 51-52) اور 7 مرتبہ درود شریف پڑھا جائے تو ان شاء اللہ نظر بد کا اثر دور ہو جائے گا۔
سوال نمبر8:
حضرت جی ایک بیان میں آپ نے کسی شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ اس نے پورا سلوک طے کر لیا تھا لیکن بقول خود اس کے، اس کی حالت یہ تھی کہ رمضان میں گھر میں کیبل لگوائی تھی۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
جواب :
جب میں نے ان کی یہ حالت سنی تو میں خود بھی ڈر گیا تھا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ یہ تو بڑی مشکل بات ہے، مجھے سمجھ نہیں آ رہی، آپ اس کا جواب سمجها دیں۔ اس وقت ان کے لئے زبان پہ جو جواب جاری ہو گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپ نے دل کا سلوک طے کیا ہے، نفس کا سلوک طے نہیں کیا۔ آج کل نفس کا سلوک طے کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ لوگ ذکر تو کرتے ہیں لیکن نفس کی اصلاح نہیں کرتے۔ نفس کی اصلاح مجاہدہ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر دل کی اصلاح ہو چکی ہو اور نفس کی اصلاح نہ ہوئی ہو تو نفس غلط کام کرواتا ہے، جس پر دل روتا، کڑھتا اور تڑپتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اچھے کام ہوں، لیکن آدمی اچھے کام کر نہیں پا رہا ہوتا، کیونکہ اس کا نفس ساتھ نہیں دے رہا ہوتا۔
یہ جواب دینے کے بعد میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ اگر آپ نفس کا علاج کروانا چاہتے ہیں تو میرے پاس آ جائیں۔ اس حالت کو ٹھیک کرنے کے لئے نفس کا علاج کرنا پڑے گا اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن