اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
My ذکر
200، 400، 600، 5 minutes left side 5 minutes right side, 10 minutes left side and 10 minutes right side is completed. I can feel the ذکر at all four points. Atmosphere here in Toronto Canada is highly vulnerable, I am not mentioning the details just to show the intensity my heart really cries at the poor condition of the Muslims from both angels of دنیا and آخرت.
حضرت جی I am not so special to do here. Without accepting the severe poison present all around I just request حضرت جی, for special دعا in my favor.
جواب:
200، 400 اور 600 والا ذکر اسی طرح جاری رہے گا۔ دائیں سائیڈ پر 10 منٹ کا مراقبہ بھی جاری رہے گا۔ یہ آپ اس طرح کریں کہ چاروں points کے اوپر 5، 5 منٹ کے لئے مراقبہ کریں۔ پھر پانچویں پوائنٹ پر 10 منٹ مراقبہ کریں۔ اس کی مکمل تفصیل نقشہ سمیت ہماری ویب سائٹ tazkia.org پر مل جائے گی۔
یقینی بات ہے کہ Europe، America اور Canada وغیرہ میں حالات ایسے ہی ہیں۔ ہمیں مسلمانوں کے لئے اور اپنے لئے ہدایت کی دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ ہمیں ہدایت عطا فرما اور دوسروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنا دے۔
کسی کام میں جتنی زیادہ مشکل پیش آ رہی ہو، نفس کا اتنا ہی زیادہ مجاہدہ ہوتا ہے اور اصلاح و سلوک میں اتنی زیادہ ترقی ملتی ہے، مزید برداشت کی توفیق ملتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کا نفس نفسِ مطمئنہ بن جاتا ہے، پھر وہ ان چیزوں سے اثر نہیں لیتا اور اللہ تعالی کے حکم مطابق کام کرتا ہے۔ ہمیں اس direction میں جانا چاہیے، اس سے گھبرانا بھی نہیں چاہیے اور غافل بھی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اعتدال پہ رہنا چاہیے، اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے۔ میں بھی دعا کرتا ہوں آپ بھی کوشش جاری رکھیں۔ جو کام دوا سے ہوتے ہیں انہیں صرف دعا پہ نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ دوا بھی کرنی چاہیے، ہمت بھی جاری رکھنی چاہیے، ہمت سے بہت سارے کام ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم!
I could not find anyone feasible to answer one question which is really an urgent matter. It is regarding my کیفیت. It has been allot bothersome that specially after مغرب my chest start heating very intensely, I really cannot figure out if it is due to my لطیفہ، لطائف or if it is a medical issue one thing is for sure my لطائف on the chest feel heavy and hot it has been happening for some years now and this is pushing me away from concentrating on my studies and some other activities, as it is really intense heat burning like or do not have any sort of contact with my شیخ and I do not do any ذکر initially. I do ذکر of لطائف قلب but then I stopped but overtime the heat and burning has came over and other لطائف and that شیخ is really old and cannot be contacted with now. I really do not know what to do or how to deal with this problem. I have to overcome this by just going to sleep and when I wake up for فجر this feeling is gone. Please help me in this matter, I am seriously not sure who to contact other than you, I hope you understand.
جواب:
جو مسائل آپ نے بتائے ہیں ان کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو خط و کتابت یا ٹیلی فون کے ذریعے وضاحت سے ڈسکس کی جا سکتی ہیں، لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لئے مزید تفصیلات جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ میں آپ کو پہلے سے نہیں جانتا، جو مسائل آپ نے ذکر کیے ان کی مکمل تفصیلات بھی نہیں جانتا، اس لئے آپ کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کرنی پڑے گی۔ آپ مجھے بتا دیں کہ آپ کہاں پر ہوتے ہیں، آپ کے ساتھ ملاقات ہو سکتی ہے یا نہیں ہو سکتی، اگر ہو سکتی ہے تو کیا طریقہ کار ہوگا۔ کیونکہ آپ نے جو مسائل بتائے ہیں، ان کی وجوہات میڈیکل بھی ہو سکتی ہے اور روحانی بھی ہو سکتی ہیں۔ طبی مسائل کی تشخیص تو ڈاکٹر حضرات ہی کر سکتے ہیں۔ اگر ان مسائل کی کوئی روحانی وجہ ہو تو اس کی تشخیص کرنے کے لئے بہت ساری باتیں دیکھنی ہوتی ہیں۔ روحانی طور پر بھی علاج ہوسکتا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہیں جس کیس کی ہسٹری مکمل طور پہ معلوم ہو۔ جتنی تفصیل آپ نے بتائی ہے اس کی روشنی میں میں اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم۔ حضرت جی میرے اندر عجب ہے اور میں عمل میں گرتی جا رہی ہوں۔
جواب:
اس بات کا احساس ہونا کہ میں ٹھیک سے عمل نہیں کر پا رہی اور ساتھ ہی عجب ہونا، یہ دونوں متضاد باتیں ہیں۔ یہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ اگر آپ کے اندر عجب ہے تو آپ اپنے آپ کو اچھا سمجھیں گی، عمل میں گرتا ہوا نہیں سمجھیں گی اور اگر آپ کو یہ احساس ہے کہ آپ عمل میں گرتی جا رہی ہیں تو پھر عجب نہیں ہوگا۔ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ آپ کہہ رہی ہیں کہ میں گرتی جا رہی ہوں، پھر آپ یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ میرے اندر عجب ہے۔ عجب میں تو انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے، آپ اپنے آپ کو اچھا نہیں سمجھ رہیں تو عجب کیسے ہو گیا۔ میرے خیال میں آپ کو عجب کا وسوسہ ہے۔ بالفرض آپ کو عجب ہے بھی تو آپ اس کا جواب اپنے آپ کو یہ دے سکتی ہیں کہ اگر میں پہلے اچھی تھی بھی لیکن اب اس طرح سوچنے سے میں اچھی نہیں رہی۔ اس کا علاج یہی ہے کہ اس پر نہ سوچیں اپنا کام جاری رکھیں۔
سوال نمبر4:
ایک خاتون نے پوچھا ہے کہ میں نے اسماء الحسنیٰ کو 3 قسموں میں خواب میں دیکھا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ میں کوئی سوالیہ پرچہ کر رہی ہوں جس میں ایک سوال یہ ہے کہ اسماء الحسنیٰ لکھو۔ میں سوچتی ہوں کاش میں نے اسماء الحسنیٰ یاد کئے ہوتے تو میں آج آسانی سے لکھ لیتی۔ دوسرے خواب میں بھی اسماء الحسنیٰ کچھ طریقے سے لکھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تیسرا یہ ہے کہ میں نے دیکھا میں جنگل میں ہوں اور بہت سارے لوگ ادھر رہ رہے ہیں۔ مختلف گاؤں ہیں جہاں شیر حملے کر رہے ہیں۔ لوگ ان سے دوڑ رہے ہیں، میں بھی دوڑ رہی ہوں۔ شیر نے مجھ پہ دو دفعہ حملہ کیا،کچھ لوگ اللہ کے نام پڑھ رہے تھے، پھر شیر نے ہمیں چھوڑ دیا۔
جواب:
اس میں یہ بشارت ہے کہ اللہ کے نام سیکھ لیں۔ اللہ کے نام سیکھنے سے مراد یہ ہے کہ ایک تو اللہ جل شانہ کے نام کے الفاظ سیکھ لیں۔ ننانوے (99) نام اس طرح یاد کر لیں کہ آپ ان کو زبانی پڑھ سکیں جیسے کوئی وظیفہ کے طور پہ پڑھتا ہے۔ ہر نام کی اپنی ایک کیفیت ہے وہ کیفیت محسوس کرنی ہوتی ہے۔ اس کے لئے رابطہ کر لیں آپ کو بتائیں گے کہ کس نام کی کیفیت کو کس طریقے سے محسوس کرنا ہے۔
سوال نمبر5:
کافی عرصے بعد شیخ کے ساتھ رابطہ ہوا۔ شیخ کی طرف سے جو معمولات ملے تھے وہ بھی کبھی ہوئے کبھی نہ ہوئے۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ رابطہ اور معمولات پہ پابندی نہ ہو سکتی۔ آئندہ کیا کیا جائے اس کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اب ہمت کر لیں۔ گزشتہ کی تلافی یہی ہو سکتی ہے کہ آپ با قاعدگی کے ساتھ معمولات کا پرچہ بھرنا شروع کریں۔ معمولات کو regularly کرنا شروع کر لیں۔ کہتے ہیں صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔ اگر آپ کو احساس ہو گیا ہے تو اس احساس سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے آپ کو regular کر لیں۔
سوال نمبر6:
عجب کے بارے میں یہ بات سننے میں آئی کہ عجب یہ ہے کہ اپنے کسی اچھے کام کی وجہ سے اپنے آپ کو اچھا سمجھا جائے۔ اب انسان شیخ سے رابطہ کرتا ہے، اس کی ہدایت پہ عمل کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ درست راستہ پہ چل پڑتا ہے، اگر اس کے متعلق انسان کے دل میں یہ خیال آئے کہ اللہ تعالیٰ نے اچھے شیخ صاحب سے رابطہ کرایا اور سلسلے کی برکات ملیں اور ہم نیک راستے پہ چل پڑے۔ کیا یہ بھی عجب میں آئے گا؟
جواب:
یہ تو شکر ہے۔ یہ عجب نہیں ہے۔ عجب اس وقت ہوتا ہے جب انسان اس کو اپنا کمال سمجھتا ہو۔ اگر انسان اس کو اپنا کمال نہیں سمجھتا اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہے تو یہ عجب نہیں رہتا بلکہ اس کو شکر کہتے ہیں۔ شکرکرنا تو بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان بنایا۔ باقی ساری فضیلتیں ایک طرف، صرف یہ فضیلت دوسری طرف کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان بنایا ہے۔ جیسے آپ کہتے ہیں zero اور one کے درمیان کوئی ratio نہیں ہے۔ ایک اور سو کے درمیان ہے، ایک کروڑ کے درمیان ہے ایک ارب کے درمیان ratio ہے، لیکن zero اور one کے درمیان کوئی ratio نہیں ہے۔ یہ بے حساب ہے۔ بے حساب کے مقابلے میں حساب والی چیز کبھی نہیں آ سکتی۔ اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان بنایا ہے۔ پھر اللہ پاک نے ہمیں اچھے لوگوں کے ساتھ رابطہ کرایا ہے۔ پھر اللہ پاک نے ان سے محبت نصیب فرمائی پھر اللہ پاک نے ان کے راستے پہ چلایا پھر اللہ پاک نے احساس دے دیا کہ جو غلطیاں کرتے ہیں ان پہ پشیمانی ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، یہ عجب نہیں ہے۔
سوال نمبر7:
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی وقت انسان کے سامنے آخرت بھی آ جاتی ہے اور دنیا بھی۔ مثلاً میرے ساتھ کافی دفعہ ایسا معاملہ ہوا، ایک دو بار کچھ مسائل ایسے پیدا ہوئے کہ میرے پاس مال کی بہت کمی تھی۔ ایسے حالات میں مہمانوں کا آنا بہت بوجھ لگتا تھا۔ ان دنوں اکثر ایسا ہوتا کہ جب میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ان حالات سے نجات کے لئے دعا مانگنے لگا تو اسی وقت دل میں یہ خیال آ جاتا کہ ابھی تو آخرت لینے کا وقت آ یا ہے اورتم دنیا کو لینا چاہتے ہو۔ اس کشمکش کے دوران میں صرف آخرت کو مانگتا تھا، دنیا کو نہیں مانگتاتھا۔
جواب:
دنیا کو بھی مانگا کریں لیکن دنیا کو آخرت کے لئے مانگا کریں، تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت نصیب فرمائے۔ حالات جیسے بھی ہوں ان میں صبر کریں اور اس بات پر اللہ کا شکر کریں کہ اس سے زیادہ مشکل حالات بھی ہو سکتے تھے لیکن اللہ پاک نے اسی پر اکتفا کرا دیا۔
دنیا کو آخرت کے لئے بھی مانگا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو امتحان سے بچائے، ایمان سلامت رکھے، استقامت نصیب فرمائے، اللہ جل شانہ عافیت بھی نصیب فرمائے۔ عافیت مانگنے پر اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔ اس مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب آپ اللہ تعالیٰ سے دین یا دنیا کچھ بھی مانگتے ہیں تو آپ کے مانگنے سے اللہ تعالیٰ کا حکم پورا ہو رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (المؤمن: 60)
ترجمہ: ” اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا “
لہٰذا دنیا ہو یا دین، اللہ پاک سے مانگنا چاہیے۔ البتہ ترجیح آخرت کو دو۔ آپ کے دل میں دنیا اتنی زیادہ نہ ہو کہ آخرت بھول جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آخرت کو یاد رکھو، آخرت کو ترجیح دو۔ باقی یہ ہے کہ ہم دنیا بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگیں گے اور آخرت بھی اللہ ہی سے مانگیں گے، ہمارا تو اللہ کے سوا کوئی حاجت روا نہیں ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ