سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 215

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال نمبر1:

حضرت جی کل سے مایوسی بہت غالب ہے۔ بار بار خود سوزی کے وساوس آتے ہیں۔ میں جادو کا علاج بھی کروا رہا ہوں۔ آپ میری معافی کی دعا کریں۔ اللہ مجھ سے جلد از جلد اس مصیبت کو ختم کرے۔ ہر مشکل آسانی میں تبدیل فرمائے۔آمین

جواب:

مایوسی اور امید پر میرا ایک تفصیلی بیان ہو چکا ہے جو نیٹ پر مل جائے گا۔وہ سن لیں۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ (الزمر: 53)

ترجمہ: ” اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے “۔

دنیاوی مشکلات کی وجہ سے بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ روحانی ترقی کا باعث ہوتی ہیں۔ ان پر صبر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جو تکلیفیں یہاں پر ملتی ہیں جب ان کا اجر معلوم ہو گا تو وہ لوگ جن کو یہ تکلیفیں نہیں ملی ہوں گی وہ افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کاش ہماری جلد قینچیوں سے کاٹی جاتی اور اس کے بدلے میں آج ہمیں اجر مل جاتا۔

لہٰذا مایوسی تو بالکل نہیں ہونی چاہیے، نہ تکلیفوں کی وجہ سے نہ گناہوں کی وجہ سے۔ گناہوں کا علاج توبہ ہے اور بیماریوں کے مختلف علاج ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی بیماری کا سبب تین اسباب میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے۔ جادو، جنات یا پھر جسمانی بیماری۔ اس لئے کسی مخلص اور ماہر عالم سے معلوم کر لیں کہ اس بیماری کا سبب کیا ہے۔ اگر جادو یا جنات ہیں تو پھر اس کا علاج اس کے ماہر حضرات سے کروائیں۔ اگر بیماری ہے تو پھر ڈاکٹر سے علاج کروائیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ ڈپریشن ہو، عموماً مایوسی وغیرہ کے مسائل ڈپریشن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

یہ یاد رکھیں کہ مخلص حضرات سے علاج کروائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر مخلص نہ ہو تو جنات اور جادو کے سبب ہونے والی بیماری کو بھی جسمانی بیماری کہے گا۔ اگر عامل مخلص نہ ہو تو جسمانی بیماری کو بھی جنات کا سایہ یا جادو ٹونا کہے گا۔ ہر ایک اپنی دکان سجاتا ہے۔ اس لئے مخلص لوگوں سے ملنا ضروری ہے۔ آپ یہ اسباب اختیار کر لیں اور نتیجہ اللہ پہ چھوڑ دیں۔ یہی ہمارا طریقہ ہے ہمیں اس طریقے پہ چلنا ہے۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم! حضرت جی امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! میرے اندر تجسس کی بیماری ہے۔ میں روحانی طور پر بہت کمزور ہوں۔ دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

تجسس کے بارے میں قرآن پاک میں آیا ہے:

﴿وَ لَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات: 12)

ترجمہ: ”اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو “۔

تجسس کرنے سے اور ٹوہ لگانے سے تو منع کیا گیا ہے۔ یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کہیں جا رہا ہو اور آپ نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ کدھر جا رہے ہو تو یہ بھی مناسب نہیں ہے۔ ممکن ہے وہ آپ کو نہ بتانا چاہتا ہو۔ آپ اس سے پوچھ کر اس کی آزادی میں خلل ڈال رہے ہیں۔ لہٰذا بلاوجہ تجسس نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں جس کی duty ہی ایسی ہو جیسے پولیس والے یا CID والے ہیں، چونکہ ان کی duty ہوتی ہے اس لئے وہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح والدین اپنے بچوں کے بارے میں تجسس کر سکتے ہیں، ان کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ ایک علیحدہ چیز ہے۔ اس کے علاوہ بلاوجہ تجسس سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ یہ واقعی بیماری ہے اور یہ ایک اختیاری بیماری ہے لہذا اپنے اختیار سے اپنے آپ کو اس سے بچائیں۔ جیسے اختیاری طور پر بیماری آتی ہے، اختیاری طور پر علاج بھی آتا ہے اس لئے اپنے آپ کو اختیاری طور پر اس سے بچایا جائے۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم حضرت۔بصد ادب احترام عرض ہے کہ میں خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ میری موبائل کی دکان تھی، کافی اچھی چلتی تھی۔ میں اپنی دنیا کی زندگی میں بہت خوش تھا لیکن ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ آگے کی زندگی کا کیا بنے گا۔ ایک دن میں اللہ کے ایک ولی کے بیان میں گیا۔ دعا میں اتنا رویا اتنا رویا کہ ایسا لگا کہ اللہ کی رحمت مجھ پہ برس گئی۔ اس کے بعد میں پانچ وقت کا نمازی بن گیا، سنت نبوی ﷺ کا پیروکار بن گیا۔ ایسا لگا کہ مجھے ہدایت مل گئی ہے۔ کچھ عرصہ بعد مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشکل حالات آئے۔ آج سات سال گزرنے کے بعد بھی انہی مشکل حالات میں زندگی گزار رہا ہوں۔ جس دکان سے ہزاروں روپے کماتا تھا، کچھ دنوں بعداسی دکان کا کرایہ نکلنا بھی مشکل ہو گیا۔ بالآخر میں نے دکان چھوڑ دی۔ 3 لاکھ کا نقصان ہوا، لیکن میں گھبرایا نہیں کیونکہ میں علماء کرام کی مجالس میں سنتا رہتا تھا کہ اللہ رب العزت اپنے بندے کو آزماتے ہیں۔ میں اچھا دیندار آدمی بن گیا تھا، لیکن آہستہ آہستہ دین سے دوری ہو گئی۔ میں نے اللہ کی راہ میں وقت بھی لگایا اور اب بھی وقت لگاتا ہوں لیکن علماء کے نزدیک ہونے کی بجائے مزید دور ہوتا جا رہا ہوں۔ میں سخت پریشانی میں مبتلا ہوں۔ اس بیکار زندگی کو کیا کروں۔ میری دنیا بھی برباد ہو چکی ہے اور دین بھی برباد ہے۔ اب موت کے خیالات آتے رہتے ہیں کہ کب موت آئے اور اس بیکار زندگی سے جان چھوٹ جائے۔ اب جو بھی کرتا ہوں جہاں بھی جاتا ہوں ناکامی پر ناکامی پاتا ہوں۔ کچھ سمجھ نہیں آتی، ان حالات میں کیا کروں، سوچ بالکل کام نہیں کرتی کچھ بھی یاد نہیں رہتا،بس آرزؤں میں ڈوبا رہتا ہوں سوچتا رہتا ہوں کہ کیا ایسا ہو جائے گا ویسا ہو جائے گا، پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ آرزوئیں لگا لگا کر دل برباد ہو چکا۔ موبائل کی دکان چھوڑنے کے بعد مجھے medicine factory میں نوکری ملی۔ 4 مہینے بعد وہ بھی چھوٹ گئی۔ بعد میں پولیس میں لگا۔training کے دوران چھٹے ماہ مجھے شدید ٹائیفائڈ ہوا۔ 20 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد جب واپس training center گیا تو 20 یوم غیر حاضر ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد کپڑے کی سلائی کا کام سیکھنا شروع کیا وہ بھی نہ سیکھ پایا۔ اس پورے عرصے میں جس طرح دنیا میں ناکامیوں کا سامنا ہوا، ٹھیک اس طرح دین کو پانے کی بھی بہت کوشش کی لیکن ناکامی اور دین سے دوری کے سوا کچھ نہ ملا۔ زندگی کے چار سال گزر گئے۔ مجھے شیطانی وسوسے آتے رہے کہ دین میں لگنے کی وجہ سے میرے ساتھ ایسا ہوا۔ میں اپنی زندگی سے بہت زیادہ مایوس ہو چکا ہوں اب صرف موت کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ زندگی انہی مشکل حالات میں گزر رہی تھی۔ ایک سال بعد مجھے فوج میں نوکری مل گئی۔ میں بہت خوش ہوا نادانی میں سمجھ بیٹھا کہ زندگی بدل گئی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد زندگی پہلے کی طرح تنگ ہونے لگی۔ جب میں پولیس میں تھا اس وقت میرے ماموں کی لڑکی سے میری منگنی ہو گئی تھی۔ ایک ماہ کے بعد انہوں نے منگنی توڑ دی، لیکن جب فوج میں گیا تو میری شادی اس لڑکی سے ہو گئی جس سے پہلے منگنی ٹوٹی تھی۔ ادھر میں رات کو ڈیوٹی کرتا تھا۔ دن میں بالکل نیند نہیں آتی تھی۔ نیند کی گولیاں کھا کر بھی نیند نہیں آتی تھی۔

اب جب بھی مجھ پر کسی قسم کی آسانی یا فراخی آتی ہے تو اچانک میرے گھر میں کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی بڑا حادثہ پیش آ جاتا ہے۔ دو سال پہلے میں نے چالیس یوم کی چھٹی لی۔ چھٹی لیتے وقت میں نے سوچا تھا کہ زندگی کے 40 دن سکون سے گزاروں گا لیکن 40 دن ہسپتال کی نذر ہو گئے۔ جس دن میری پہلی چھٹی تھی اسی دن صبح سویرے میری والدہ کو ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ اللہ رب العزت نے والدہ کو اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ کوئٹہ میں علاج نہ ہونے کی صورت میں والدہ کو راولپنڈی لے جانا پڑا۔ بد قسمتی سے میں منحوس والدہ کے ساتھ تھا۔ والدہ کے تین آپریشن ہوئے۔ ڈیڑھ لاکھ روپے بھی لگ گئے لیکن آپریشن ٹھیک نہیں ہوئے۔ چھٹی کے بعد جب میں واپس گھر آیا تو میری گھر والی حاملہ ہو گئی اور میری transfer کوئٹہ آ گئی جو میرے لئے اچھی خبر تھی۔ اس دفعہ پھر میں نے سوچا کہ زندگی میں اب دو سال سکون سے گزریں گے مگر چند ہی دنوں بعد گھر والی کا حمل ضائع ہو گیا اور ٹرانسفر بھی نہیں ہوسکا۔ سات ماہ بعد ٹرانسفر ہوا۔ کوئٹہ آنے کے بعد مجھے زندگی میں کافی آسانی حاصل ہوئی لیکن کراچی میں transfer ہونے سے کچھ دن پہلے گھر والی دوباره حاملہ ہو گئی۔ اور والد صاحب کی ٹانگ میں شدید درد شروع ہو گئی۔ جو آج تک ٹھیک نہیں ہوئی۔ اب جب سے کوئٹہ آیا ہوں وہ بستر پر پڑے ہوئے ہیں۔ میں کسی قسم کی آسانی یا فراخی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کیونکہ مجھ پر جب بھی کوئی آسانی یا فراخی آتی ہے تو گھر میں کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی بڑا حادثہ پیش آ جاتا ہے۔ میں نے اپنے محکمے سے جائز چالیس ہزار روپے لینے ہیں لیکن اس ڈر سے کوشش ہی نہیں کرتا کہ زندگی میں آنے والی آسانیاں میرے لئے عذاب بن چکی ہیں۔ دو سال سے میری زندگی صرف ہسپتالوں کی بن کے رہ گئی ہے، کبھی کوئی بیمار تو کبھی کوئی۔یہ سب کچھ مجھ منحوس کے زندہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے بڑی مصیبت اور آفت بن چکا ہوں، بہت ذلت والی زندگی گزار رہا ہوں۔ آپ کو شاید میری لکھی ہوئی باتیں بالکل ہلکی لگیں لیکن میری زندگی میرا اس قدر ساتھ چھوڑ چکی ہے جس کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے۔ پچھلے سات سال کی زندگی میں میرے ساتھ پیش آنے والی تمام مشکلات تو الفاظ میں تحریر نہیں ہو سکتیں ان میں سے کچھ میں نے اوپر عرض کر دی ہیں۔ میں نے اپنی گزشتہ زندگی کے سات سالوں کی مشکلات کا ذکر آج تک کسی سے بھی نہیں کیا مگر اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے آپ سے نہایت ادب و احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ خصوصی طور پر میرے لئے دعا کا بھی اہتمام کیجئے اور مجھ جیسے گنہگار ظالم شخص کے لئے اپنے کامل علم سے بتائیں کہ میں اب کیا کروں کون سا راستہ اختیار کروں میں مکمل طور پر راستہ بھٹک چکا ہوں۔ میرے مرض بہت ہی عجیب و غریب قسم کے ہیں۔ دینی لحاظ سے جو عمل زیادہ کرتا ہوں، مثلاً ذکر کی کثرت کروں، قرآن کی کثرت سے تلاوت کروں، زیادہ مجاہدہ کروں، زیادہ صدقہ کروں یا استغفار کثرت سے پڑھوں، جو عمل زیادہ کرنے لگوں وہ اور خراب ہو جاتے ہیں۔ مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں، مزید ذلت میں دھنسنا شروع ہو جاتا ہوں۔ جس کی وجہ سے میرا دل دین کی طرف زیادہ رجوع نہیں کرتا۔ میں اس زندگی سے بہت پریشان ہوں کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔ روزگار کے لئے اتنا زیادہ پریشان نہیں ہوں کیونکہ زندگی تو عارضی ہے ختم ہو جائے گی لیکن میں اپنی آخرت کے لئے بھی بہت کوشش کرتا ہوں پر ناکامی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ الٹا مزید مصائب اور مشکلات میں پھنس جاتا ہوں۔ جب میں آرزؤں سے بچتا ہوں تو صرف اس وقت زندگی کے حالات بہتر ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے ان سات سالوں میں کروڑوں مرتبہ آرزوؤں سے بچنے کی کوشش کی پر آج تک ناکام رہا۔ میری آپ سے بار بار یہ گزارش ہے کہ میں بہت زیادہ مجبور، بے بس، بے کس اور بے یار و مددگار انسان ہوں۔ اللہ کے واسطے اپنے کامل علم سے مجھے دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نکلنے کا کوئی اچھا مضبوط اور مفید حل بتائیں۔ جب میری موبائل کی دکان تھی اس وقت میری عمر 18 سال تھی اور اب 25 سال ہے۔

جواب:

یہ واقعی ایک پریشان کن داستان ہے۔ ہر شخص کے سوچنے کا اپنا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے کہ وہ کس چیز کو کیسے لیتا ہے۔

ایک دفعہ ایک صاحب بہت پریشان تھے، دفتر گئے مگر کوئی کام ان سے نہیں ہو پا رہا تھا تو دفتر کے لوگوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہتا ہے آج میرے بیٹے نے dinner set کا ایک کپ توڑ دیا جس سے وہ ڈنر سیٹ نامکمل ہو گیا۔ دوسرے دن اسی دفتر میں کوئی آدمی بہت خوش باش پھر رہا تھا جیسے کوئی بڑا اچھا واقعہ ہواہو۔ اس سے کسی نے پوچھا کہ آج ایسی کون سی خوشی ملی ہے آپ کو؟ اس نے کہا میرے بیٹے نے آج پلیٹ توڑی ہے اور ایسی توڑی ہے کہ بالکل آدھی ہو گئی ہے۔

اب دیکھیں نقصان دونوں جگہ ہوا ہے لیکن ہر ایک کے دیکھنے کا angle مختلف ہے۔ ایک گلاس آدھا بھرا ہو اور آدھا خالی ہو تو کچھ لوگ اسے آدھا خالی کہیں گے جبکہ کچھ آدھا بھرا ہوا کہیں گے۔ دونوں طرح کے لوگ اپنا اپنا نفسیاتی پس منظر بتا رہے ہیں۔ مایوسی کی طرف جانے والا شخص کہتا ہے کہ یہ آدھا خالی ہے اور مثبت رُخ والا شخص کہے گا کہ آدھا بھرا ہوا ہے۔

جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں ویسی نظر آتی ہے جیسا ہمارا چیزوں کو دیکھنے کا نفسیاتی رویہ ہوتا ہے۔ دنیا کی تکالیف محدود دہیں، دنیا کی حد تک تو وہ تکالیف ہیں لیکن ان پر آخرت میں بے حد اجر ہے۔ دنیا میں تکالیف و مصائب سے دو چار رہنے والے لوگوں کو جب آخرت میں ان تکالیف کی بنا پر اجر ملے گا تو وہ لوگ جو دنیا میں تکالیف سے بچے رہے تھے وہ کہیں گے کاش ہمیں بھی دنیا میں بے حد تکالیف ملتیں، ہماری جلد قینچیوں کاٹی جاتیں لیکن آج ہمیں اجر مل جاتا۔

حادثہ خطرناک چیز ہوتی ہے لیکن حادثہ اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا حادثے سے بعض لوگ خطرناک اثر لے لیتے ہیں۔ کسی حادثے کا نفسیاتی طور پر منفی اثر باقی رہ جانے کا بہت نقصان ہوتاہے۔ ڈاکٹر حضرات اس کا علاج اینٹی ڈپریشن دوائیاں دے کر کرتے ہیں اور ہم لوگ قرآن و حدیث کی روشنی میں سوچنے کا مثبت انداز بتاتے ہیں، وظائف دیتے ہیں جس کے ذریعے ان کا تعلق اللہ کے ساتھ ہو جاتا ہے اور مریض ان چیزوں سے نکل آتا ہے۔ میرا اِن صاحب کے لئے یہی مشورہ ہے کہ سب سے پہلے تو منفی سوچ کم کریں اور مثبت انداز میں سوچنا شروع کریں۔

جو باتیں انہوں نے بتائیں، ان میں دونوں رخ ہیں، جیسے انہیں منفی انداز میں لیا جا سکتا ہے، ایسے ہی مثبت رخ میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ جس دن یہ چھٹی لے کر گھر گئے اسی دن ان کی والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا، یہ ہسپتال لے گئے، ساری چھٹی ان کے علاج اور تیماری داری کی نذر ہو گئی اور ان کی والدہ بچ گئیں۔ اس واقعہ کو اس انداز سے بھی سوچا جا سکتا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی وقت گھر بھیج دیا جب میری والدہ کو شدید ضرورت تھی اگر میں نہ آتا تو نہ جانے کیا کیا مسائل ہوتے، میں موجود تھا تو آسانی ہو گئی فوراً والدہ کو ہسپتال لے گئے اور علاج وغیرہ کا عمل ہوا۔ اس انداز میں سوچتا تو شکر کی توفیق ہوتی، لیکن چونکہ اس وقت اس کے دماغ پہ مایوسی چھائی ہوئی ہے اس لئے وہ منفی رخ لے رہا ہے۔

اس طرح اس کی تمام چیزوں کا نفسیاتی تجزیہ کیا جا سکتا ہے، سب نقصانات کا مثبت پہلو نکال کر بتایا جا سکتا ہے کہ اس کو کس انداز میں سوچنا چاہیے اور کس انداز میں ان چیزوں کو لینا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کبھی بھی یہ تصور نہ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق جوڑنے کی وجہ سے پریشانی آئے گی۔ یہ ناممکن بات ہے۔ تکلیفیں کسی کو بھی آ سکتی ہیں، بعض اوقات بڑے بڑے کفار کو نہیں آتیں، لیکن بڑے بڑے اولیاء و انبیاء ساری عمر ظاہری طور پر تکلیف میں رہتے ہیں۔

میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک صاحب نے مجھ سے چالیس دن کے ذکر کا وظیفہ لیا تھا۔ چند دن بعد اس نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ میں نے جب سے وظیفہ لیا ہے اس دن سے بیمار ہوں، کیا کروں۔ میں نے کہا آپ کدھر ہوتے ہیں، کہتے ہیں میں سیٹلائٹ ٹاؤن میں ہوتا ہوں۔ میں نے کہا: یہ تو بڑا اچھا کام ہو گیا۔ آپ کے قریب ہی سینٹرل ہسپتال ہے۔ وہاں چلے چلیں گے، ہر bed پہ جا کر مریض سے پوچھیں گے آپ نے کس کا وظیفہ پڑھا کہ آپ بیمار ہو گئے۔ہمیں بہت ساری information مل جائے گی کہ فلاں وظیفہ پڑھنے سے یہ بیماری لگتی ہے اور فلاں وظیفہ پڑھنے سے یہ بیماری لگتی ہے۔ وہ یہ بات سن کر ہنستے ہوئے کہنے لگا، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا: آپ ہی تو کہہ رہے ہیں کہ جب سے وظیفہ شروع کیا ہے تب سے بیمار ہو گیا ہوں۔ بھئی وظیفے کا بیماری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، آپ کو بیمار ہونا تھا آپ بیمار ہو گئے۔ اگر آپ وظیفہ نہ لیتے تو بھی بیمار ہو جاتے۔ اب مچھروں نے وظیفے کو دیکھ کر تو نہیں کاٹنا۔ اس کا کیا تک ہے کہ اس کو وظیفے کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ یہ در اصل سوچنے کا ایک انداز ہے جو غلط ہے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ شیطان کو دفع کرو اس کو منہ نہ لگاؤ،اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کرو۔ ابھی دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھیں، اللہ پاک سے معافی مانگیں کہ میں نے اتنی غلط سوچ اختیار کی ہے اس پر میں توبہ کرتا ہوں۔ اپنی مشکلات کے حل کے لئے درود تنجینا کا ورد شروع کریں۔ روزانہ عشاء کے بعد پڑھ لیا کریں۔

اس کے علاوہ چالیس دن تک روزانہ بلا ناغہ 300 دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر اور 200 دفعہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم، ایک وقت مقرر کر کے با قاعدگی کے ساتھ پڑھیں۔ 40 دن پورے ہونے کے بعد مجھے بتانا ہے۔

ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سُبْحَان اللّٰہ 33 دفعہ اَلْحَمْدُ للّٰہ اور 34 دفعہ اللّٰہُ اَکْبَر۔ اس کا ورد بھی کیا کریں۔ تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار اور ایک مرتبہ آیۃ الکرسی بھی پڑھ لیا کریں۔ یہ عمر بھر کے لئے ہے۔

درود تنجینا والا وظیفہ حلِّ مشکلات کے لئے ہے اور یہ آپ ﷺ کی طرف سے بطور تحفہ امت کو دیا گیا ہے۔ دوسرا وظیفہ اللہ تعالی کے ساتھ تعلق کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔ ایک ہفتے بعد مجھ سے فون پہ بات کر لیں، گھبرائیں نہیں مجھ سے بالکل آپ کھل کے بات کر سکتے ہیں۔ ہمارا سینہ تو رازوں کا سمندر ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ لوگ بات کرتے رہتے ہیں۔

آپ کو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، توبہ استغفار کرنا چاہیے۔ اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیں کہ دین کے قریب آنے کی وجہ سے مشکلات آتی ہیں۔ اگر آپ دین کی طرف نہ جاتے تو بھی مشکلات آ سکتی تھیں۔ کتنے سارے لوگ ہیں جو کبھی کسی بزرگ کے پاس نہیں گئے مگر ان پہ بڑے مشکل حالات آئے ہیں۔ آپ خود بھی ذرا survey کر لیں تو معلوم ہو جائے گا۔ یہ لوگوں نے ویسے ہی باتیں بنائی ہوتی ہیں کہ محرم میں شادی نہیں کرنا چاہیے، مسئلے ہو جاتے ہیں۔ اس کا نفسیاتی اثر ایسا ہوتا ہے کہ جو نہیں مانتے وہ بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا ہو ہی نہ جائے۔ ایسے وسوسوں کو کوئی وزن نہیں دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے حالات بدلے اور ہم سب کے اوپر فضل فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ