سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 211

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

میرے والد نے 5 مرلہ کاپلاٹ خریدا تھا اور اپنی زندگی میں مجھے اجازت دے دی تھی کہ میں مکان کا نقشہ، بجلی، گیس، پانی کا انتظام اور تعمیرات خود کروں۔ اس کے بعد میں نے مکان تیار کیا اور اس کاجو آدھا حصہ بچتا تھا وہ بعد میں میرے دوسرے بھائی نے تعمیر کیا، وہ میرا سوتیلا بھائی ہے۔ 15 سال تک میرے والد بقید حیات رہے۔ بچوں کا مستقبل والد سنوارتا ہے، لیکن جب والد دوسرے بھائی کا بندوبست نہ کر سکا تو باقی ماندہ پلاٹ میں نے اپنے بھائی کو دے دیا حالانکہ اس میں میری عملی محنت شامل تھی۔ اس کےعلاوہ والد صاحب کی وفات کے بعد جس مکان میں وہ رہائش رکھتے تھے وہ میرے سوتیلے بھائی اور میرے کزن کے پاس چلا گیا جو اس مکان میں برابر کا شریک تھا۔میں بیرونِ ملک تھا تو انہوں نے مجھے اطلاع کئے بغیر مکان تعمیر کر لیااور مجھے رسیدیں وغیرہ دکھا کر اخراجات کی رقم طلب کی جو میں نے ان کو ادا کر دی۔ جب میں بیرونِ ملک سے واپس آیا تو میں نے کہا کہ میرے حصے کا مکان یا بیٹھک یا دکان؛ جو بنایا ہے مجھے بتائیں۔۔۔۔۔

جواب:

معافی چاہتا ہوں، یہ سوال بہت لمبا ہو گیا ہے۔ در اصل یہ معاملات کا سوال ہے اور معاملات کے سوال میں جلدی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں کافی ساری چیزوں کو آپس میں جوڑنا ہوتا ہے۔ میں اصول بتا دیتا ہوں، جس پہ آپ اس مسئلےکو حل کر سکتے ہیں ۔ اور اگر تفصیلی جواب چاہیے تو اس سوال کو لکھ کر دے دیجیے گا،بغیر لکھے اس پہ بات نہیں ہو سکتی۔

اس سوال میں ایک مسئلہ معاملات کا ہےاور ایک میراث کا ہے۔ بعض مرتبہ یہ دونوں چیزیں مکس ہو جاتی ہیں تو اصول یہ ہے کہ میراث کے مسئلے کو میراث کے طور پہ حل کرنا چاہیے اور معاملات کے مسئلے کو معاملات کے طور پہ حل کرنا چاہیے۔ اس طرح جواب ٹھیک آتا ہے ورنہ آپس میں مکس کرنے سےجواب ٹھیک نہیں آتا۔ عرض یہ ہےکہ آپ کے والد صاحب کا حصہ جو ان کی ملکیت میں تھا وہ اگر باپ کےفوت ہونے کے بعد ایسے ہی آ جائےتو یہ سب میراث میں شامل ہے اور میراث کے قاعدے کے مطابق تقسیم ہو گا۔ لیکن اگر اس میں کچھ alteration ہوئی ہے، مثال کے طور پر اس پہ کچھ مکان بنا ہے یا اس میں کچھ investment ہوئی ہے تو investment دو طریقے سے ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ اس کی کوئی اولاداپنے والد صاحب کو قرض دے جس سے وہ گھر بنائے۔ اس صورت میں وہ قرض والا مسئلہ بن جائے گا۔ یعنی والد کے ترکے سے پہلےتجہیز و تکفین ہو گی ،پھر قرض کی ادائیگی ہو گی ، پھر وصیت نافذ ہو گی اور اس کے بعد میراث تقسیم ہو گی۔ اور اگر قرض نہیں دیا تو اس صورت میں آیا کہ ان کے ساتھ شراکت کا کوئی معاہدہ ہوا تھا؟ شراکت کا معاہدہ اس کو کہتے ہیں کہ یہ طے کر کے investment کرنا کہ میں اتنا خرچ کرتا ہوں تو اس میں میرا کتنا حق ہو گا؟ اگر کوئی اس قسم کا معاہدہ ہو گا تو وہ اس کے مطابق مسئلہ حل ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہے تو جتنا کسی بیٹے کا ذاتی سرمایہ خرچ ہوا ہے وہ اس بیٹے کو دے کر باقی میراث کے قاعدے کے مطابق تقسیم ہو گا۔ یہ میں نے اصولی جواب دے دیا ہے،اس کا تفصیلی جواب سوال کے مطابق لکھ کے دیا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر2:

حضرت ایک تو اصلاحِ نفس ہے اور دوسری دل کی اصلاح ہے، یہ فرمایا جاتا ہے کہ نفس کی اصلاح مجاہدے سےکی جاتی ہے اور دل کی اصلاح ذکر کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان دونوں میں جو اخیار والا طریقہ بتایا جاتا ہے، ہم وہ کیسے کر سکتے ہیں؟

جواب:

دونوں کر سکتے ہیں۔ مثلاً یہ ہے کہ ایک شخص مجاہدہ بھی کر سکتا ہے اور ذکر بھی کر سکتا ہے۔ اس میں مسئلہ صرف اتنا ہے کہ میں عرض کیا تھا کہ جو لوگ اخیار والا طریقہ اختیار کرتے ہیں ہ وہ صرف will power کو استعمال کرتے ہیں۔ یعنی علم حاصل کرتے ہیں اور علم پر will power کے ذریعے سے عمل کرتے ہیں، اس میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے سب لوگ عموماً اس پر چلتے ہیں لیکن یہ طریقہ مشکل ہے کیونکہ اس کو ذکر کی support بھی حاصل نہیں ہوتی اور اس کو تربیت یعنی شیخ کی صحبت کا تعلق بھی حاصل نہیں ہوتا اور شیخ کی بصیرت اور تجربے کی support بھی حاصل نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ ایک تو یہ کہ اپنے لئے کوئی چیز تجویز کرنا مشکل ہوتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ نفس کے ساتھ ہر وقت کی لڑائی نئے سرے سے ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں کام مشکل ہو جاتا ہے۔ ابرار والا طریقہ اسی وجہ سے آسان ہے کہ انسان کسی ایک شیخ کے سلسلے میں آ جاتا ہے۔ پھر شیخ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کی اصلاح کے لئے وہ جو طریقہ تجویز کر نا چاہے کر لیتا ہے۔ اس کی will power صرف اتنی استعمال ہوتی ہے کہ وہ شیخ کی بات مانے گا ،جو وہ کہے گا یہ اس پر عمل کرے گا۔ اس طرح اس کو شیخ کا تجربہ اور سلسلے کی برکت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ تیسرا طریقہ حضرت نے شطاریہ کا بتایا ہے، اس میں شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہو جاتی ہے کہ وہ اس کی بات مانے بغیر رہ ہی نہیں سکتالہٰذا اس صورت میں will power کی ضرورت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا خود ہی دل چاہتا ہے کہ میں اپنے شیخ کی بات مانوں لہٰذا اس کو زیادہ اوربہت جلدی فائدہ ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اصلاح بہت جلدی ہو جاتی ہے۔ حاصل یہ کہ اخیار والے طریقے میں will power زیادہ استعمال ہوتی ہے۔

سوال نمبر 3:

نماز میں خشوع خضوع کے سلسلے میں علماء سے ہم سنتے ہیں کہ الفاظ کے معانی سوچ کر آدمی اپنی نماز میں خشوع لا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ یا کوئی اور سورۃ تو خالق کا کلام ہے مگر اس کا ترجمہ تو خالق کا کلام نہیں ہے تو کیا نماز میں مخلوق کے کلام کے متعلق سوچنا خشوع کے منافی نہیں ہے؟

جواب:

در اصل یہ بات ذرا نا مکمل رہ گئی ہے۔ میرے خیال میں اس میں تھوڑی سی مزید addition کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ خشوع خضوع ایک عمل ہے اور وہ عمل یہ ہے کہ نماز کے دوران انسان ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہو اور انقیاد اور عبدیت کی صورت ہو ۔یہ بنیادی چیز ہے اوریہ خشوع کہلاتا ہے۔ اب اس کو حاصل کرنے کے مختلف طریقے تجویز کئے گئے ہیں۔ پہلا طریقہ جو سب سے بڑا طریقہ ہے وہ یہ کہ " أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ كَأَنَّكَ َتَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ َیَرَاكَ" ۔ اگر کسی کو یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو اس کو کسی اور طریقے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کسی کو میسر نہ ہو تو پھر وہ یہ طریقہ اختیار کر سکتا ہے کہ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کے سامنے سمجھے۔ اگر اس نے خانہ کعبہ کی زیارت کی ہوئی ہے تو اس کے لئے بہت آسان ہو جاتا ہے۔ وہ خانہ کعبہ کو تصور میں لا سکتا ہے اور اس کے سامنے اپنے آپ کو سمجھ سکتا ہے کیونکہ ﴿فَوَلِّ وَجْھَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ (البقرہ: 144) پہلے سے موجود ہے اور اس کے اوپر عمل ممکن ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ نماز کے الفاظ کی طرف توجہ رکھے۔ اس میں ترجمے کی طرف توجہ کا نہیں فرمایا گیا، الفاظ کی طرف توجہ کے لئے فرمایا گیا ہے ۔یہاں مجھے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یاد ہیں انہوں نے فرمایا کہ نماز کچے حافظ کی طرح پڑھے، پکے حافظ کی طرح نہ پڑھے۔ کیونکہ پکے حافظ کو توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی ، وہ ایک دفعہ چل پڑے تو پھر چل پڑتا ہے۔ بعض دفعہ تو اس کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں لیکن وہ پڑھ رہا ہوتا ہے۔ لیکن کچا حافظ چونکہ یہ سوچ سوچ کر پڑھے گا کہ اس آیت کے بعد کیا ہے تو ان الفاظ میں مشغول ہونے کی وجہ سےنماز میں اس کا دھیان رہے گا کیونکہ یہ الفاظ نماز کا عمل ہیں۔اس میں ترجمے کی طرف توجہ کی بات نہیں ہے۔ اس میں اتنا ہے کہ اگر کسی عربی پر اتنا عبور ہو جتنا اپنی زبان پر ہوتا ہے تو پھر اس کی توجہ الفاظ کی طرف نہیں رہے گی بلکہ مفہوم کی طرف چلی جائے گی اور مفہوم تو نماز میں شامل ہے،لہٰذا اگر کوئی اس طریقے پر عمل کر لے تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی صرف ترجمے کی طرف توجہ رکھے تو ٹھیک نہیں ہے۔

سوال نمبر 4:

اسی سلسلے میں ایک اور معاملہ بھی آتا ہے کہ نماز میں کلام الناس کی بجائے کلام اللہ ہو، تو اردو میں بھی دعا مانگی جا سکتی ہے۔

جواب:

اگرچہ ہمارے احناف کے نزدیک کسی دوسری زبان میں بھی ہو جاتی ہے، لیکن یہ اولیٰ صورت نہیں ہے لہٰذا اس طرف ہم آج کل عوام کے لئے نہیں جاتے کیونکہ اس میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسی اشکال کی تو وضاحت پوچھی گئی تھی۔

سوال نمبر 5:

حضرت جی! میں نے آپ کا بیان مبارک سنا تھا کہ آج کل قالینوں پہ ایسی تصویریں بنی ہوتی ہیں کہ محسوس نہیں ہوتا ہے۔ یہ سن کر میں نے اپنے گھر کے قالین کا جائزہ لیا تو مجھے لگا کہ اس پہ بھی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ حضرت جی میں نے کیمرے سے اس قالین کی تصویر لے کر اس ای میل میں لگا دی ہے تاکہ آپ کو دکھا سکوں کہ یہ واقعی تصویریں ہیں یا میرا وہم ہے۔ حضرت!میں نے اپنے پورے قالین پہ کپڑا بچھا دیا ہے۔ اگر آپ فرما دیں گے کہ یہ واقعی تصویریں ہیں تو میں اس کپڑے کو ویسے ہی پڑا رہنے دوں گا ورنہ ہٹا دوں گا۔

جواب:

تصویر میں آج کل دو طرح کے مسائل ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اگر یہ سامنے ہو تو اس سے نماز میں مسئلہ در پیش ہو جاتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر گھر میں تصویریں ہوں تو رحمت کے فرشتے نہیں اور تیسری بڑی چیز یہ ہے کہ آج کل خطرناک لوگ جادو کے لئے اس کو استعمال کرتے ہیں۔ اس وجہ سے گھر میں تصویروں والی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس قسم کی تصویریں بنائی ہوتی ہیں جوشیطانی توجہ کا ذریعہ بن جاتی ہیں اس لئے مذہبی لوگوں کو بہت احتیاط کرنی چاہیےورنہ کافی مسائل ہو جاتے ہیں ۔

سوال نمبر 6:

حضرت جی! الحمد للہ میں اور میری اہلیہ آپ کے بیان مبارک با قاعدگی سے سن رہے ہیں۔ کل میری اہلیہ نے خواتین کے ایک بیان کی ریکارڈنگ اپنی سہیلیوں کو موبائل پر بھیجی جو سعودیہ عریبیہ میں رہتی ہیں اور میرے ساتھ دفتر میں کام کرنے والوں کی بیویاں ہیں۔ حضرت جی! آپ نے اس بیان میں خواتین کو انتہائی مفید نصیحتیں فرمائیں۔ خواتین جب آپس میں ملتی ہیں تو غیبت کرتی ہیں جو بہت بری بات ہے۔ اس سے کم بری بات یہ ہے کہ یہ کرکٹ یا موسموں پہ بات کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک خاتوں بیان سن کر غصہ ہو گئیں اور میری بیوی کے موبائل پر کوئی SMS بھیجا کہ جن کا یہ بیان ہے شاید ان کی خواتین سے کوئی خاص دشمنی ہے اس لئے تم مجھے وضاحت دو کہ ان کی بات کا کیا مطلب ہے؟ حضرت جی !میری اہلیہ نے مجھے اس حالت سے آگاہ کیا تو میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ اس سے رابطہ ختم کر دو اور کہہ دو کہ میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی۔ حضرت جی! وہ خاتون ڈاکڑ فرحت ہاشمی کے پیچھے چلنے والی ہیں۔ حضرت جی! یہاں 5 ساتھی ایسے ہیں جن سے میری بات چیت ہو جاتی ہے ان سب کی وجہ سے خواتین بھی مہینے میں ایک دو بار آپس میں مل لیتی ہیں۔ خواتین میں تین ایسی ہیں جو ڈاکڑ فرحت ہاشمی کے پیچھے چلتی ہیں اور باقی دو کا جھکاؤ بھی ڈاکڑ فرحت ہاشمی کی طرف ہو جاتا ہے۔ حضرت جی! کل جب اس خاتون سے آپ کے بیان مبارک میں جس طرح بات کی اس پر میری اہلیہ نے اس سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور یہ عہد کیا آئندہ ان سے ملنا بھی نہیں۔ میں نے بھی اپنی اہلیہ سے کل یہی کہا کہ اس سے کوئی تعلق رکھنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت جی! رہنمائی فرمائیں کہ ایسے حالات میں ہمارے لئے لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟

جواب:

در اصل فرحت ہاشمی صاحبہ کا جو طریقہ ہے اس میں با قاعدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ضعیف حدیث پہ عمل کر لو لیکن کسی مولوی کی بات پہ عمل نہ کرو۔ اس لئے ظاہر ہے اگر وہ مجھے مولوی سمجھ رہی ہیں تو اپنی تربیت کے مطابق انہوں نے میرے لئے کچھ نا کچھ بہانہ ڈھونڈنا تھا، اس لئے میرے خیال میں ان کی بات کا برا نہیں ماننا چاہیے کیونکہ ان کو سبق ہی ایسا دیا گیا ہے۔ البتہ آہستہ آہستہ ان کے ساتھ تعلق بنا کے ان کو سمجھا دیا جائے کہ یہ چیز اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ سمجھ رہی ہیں۔ خواتین کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں۔ چونکہ بیان خواتین کے لئے ہوا تھا اور جب خواتین کے لئے بیان ہوتا ہے تو اس میں خواتین کی برائیاں بیان کی جاتی ہیں کیونکہ اصلاحی بیان ہوتا ہے اور اصلاحی بیان میں برائی بیان کی جائے گی تبھی اصلاح ہو گی۔ اگر اصلاحی بیان میں برائی نہ بیان کی جائے تو اصلاح ہونا مشکل ہے۔ جب مردوں کا بیان ہوتا ہے تو اس میں مردوں کی برائیاں بیان کی جاتی ہیں تو کیا مردوں سے بھی ہماری دشمنی ہے؟اگر مردوں اور عورتوں دونوں سے ہی دشمنی ہے تو بات ہی ختم ہو گئی۔

در اصل بات یہ ہے کہ نہ مردوں سے دشمنی ہے نہ عورتوں سے دشمنی ہے بلکہ جن عورتوں کے سامنے بیان ہوا ہے ان کے ساتھ بہترین اصلاحی تعلق ہے اور اصلاحی تعلق والد کی طرح ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ تو بیٹیاں ہیں اور بیٹیوں کے ساتھ بھلا کون سی دشمنی ہوسکتی ہے۔ یہ ان کی اصلاح کی صورت تھی اور اس طرح کی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی اصلاح کروانانہیں چاہتا تو معذور ہے ، اس سے تو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے لیکن اگر کوئی اپنی اصلاح کروانا چاہتا ہے تو وہ شکریہ ادا کرتا ہے۔ الحمد للہ! یہاں پر خواتین ہمارا شکریہ ادا کرتی ہیں۔ بلکہ کبھی میں نرم بیان کرتا ہوں تو ان کو سخت پریشانی ہوتی ہے اور مجھے با قاعدہ ٹیلی فون آتے ہیں کہ آپ نے سخت بیان نہیں کیا ، آپ کے سخت بیان سے ہمیں زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ جن کا واقعی اصلاحی تعلق ہوتا ہے اور اصلاح چاہتی ہیں تو ان کو سخت بیان کی ضرورت ہوتی ہے ۔جنہوں نے اپنی اصلاح نہیں ہونے دینی تو ان سے اس قسم کی بات نہیں ہو سکتی ۔ان کے لئے ایسے بیان جن میں ان کی تعریف ہو، میٹھےزہر کی طرح ہوتےہیں۔ اصلاحی بیان میں سخت باتیں کڑوی دواؤں کی طرح ہوتی ہیں اور میرےخیال میں چونکہ وہ ڈاکٹر ہیں تو شایدوہ کڑوی دوا اور میٹھے زہر میں فرق کو سمجھتی ہوں گی۔ ان کو یہ بتا دیجیے گا ، ان کے ساتھ اس طرح لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال نمبر 7:

حضرت جی! اپنے احوال کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے اپنے اندر تکبر اور عجب محسوس ہوتا ہے یعنی بغیر داڑھی والوں سے میں خود کو بہتر سمجھتا ہوں اور جو داڑھی والے ہیں لیکن ہمارے سلسلے سے نہیں، ان سے بھی کبھی کبھی کسی نہ کسی طرح خود کو بہتر سمجھنے کی تاویل بنا لیتا ہوں۔ حضرت جی! میرے پاس کچھ تبلیغی جماعت کے ساتھی آتے ہیں اور مجھے دعوت دیتے ہیں، میرے دل میں ان کی دعوت کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ میرا تعلق آپ سے ہے اور کہاں یہ اور کہاں میرے حضرت جی، میرے لئے حضرت جی کے بیانات کافی ہیں، مجھے اور کسی سے بات سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت جی !تیسری بات یہ ہے کہ اگر اعمال میں سستی ہو تو افسوس ہوتا ہے اور کوشش کرتا ہوں کہ کوتاہی نہ ہو اور ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے چونکہ تم سلسلے سے ہو اس لئے تمہارا عجب ختم کیا جا رہا ہے، آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ حضرت جی میں کشمکش کا شکار ہو جاتا ہوں کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے، میں جو عمل کرتا ہوں اس کے ثواب ملنے کا یقین نہیں ہوتا بس یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ اعمال تکبر اور عجب کا کفارہ ہو جائیں۔ حضرت جی! آپ نے بیان میں حدیث مبارکہ نقل فرمائی تھی کہ جس کے دل میں رائی بھر تکبر ہو گا اس کو پہلے جہنم میں جلایا جائے گا اور پھرجنت میں بھیجا جائے گا۔ اپنے اندر تکبر و عجب ختم کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

آپ کی باتوں سے کم از کم اس بات کا الحمد للہ اطمینان ہواہے کہ آپ کو اپنے اوپر تکبر اور عجب کا اندیشہ ہے۔ جن کو تکبر و عجب کا اندیشہ ہو تو ان کو خطرناک درجے کا تکبر نہیں ہوتا کیونکہ خطرناک درجے کے تکبر کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اس اندیشے کو نہیں رکھتے۔ وہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں لہٰذا ان کو اس قسم کی کوئی بھی پریشانی نہیں ہوتی۔ آپ کو یہ پریشانی ہے تو کم از کم اس درجے کا تکبر یا عجب نہیں ہے جو لا علاج ہو۔ الحمد للہ! علاج ہو رہا ہے اور یہ چیز چونکہ سب سے اخیر میں نکلتی ہےلہٰذا آپ اس اصلاحی عمل کو جاری رکھیں گے تو امید ہے ان شاء اللہ العزیز کسی وقت یہ بالکل ختم ہو جائے گا۔ لیکن ایسی صورت میں بعض دفعہ وسوسہ ہوتا ہےجس کو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ تکبر ہے یا عجب ہے۔ وسوسہ یہ ہوتا ہے کہ جیسےایک سنت پر عمل کرنےکی کسی کو توفیق ہوئی اور کسی کو توفیق نہیں ہوئی تو اس پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھا ہوا الحمد للہ ہمیں اس عمل کی توفیق ہوئی ہے۔ اس پر شکر ادا کرنا چاہیے لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ عین ممکن ہےکہ ان کو کسی ایسے عمل کی توفیق ہوئی ہو جس کی وجہ سے ان کا مقام ہم سے زیادہ ہو۔ مثال کے طور پہ کسی کےپاس فرض درجے کی روحانیت ہو جیسے تکبر وعجب نہ ہو اور اس کی داڑھی نہ ہو تو وہ ہم سے بہتر ہو جائے گا۔ اس لئے ہم یہ گمان کر سکتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ان کے پاس اس قسم کی چیزوں میں کوئی اچھی چیز ہو جس کی وجہ سے وہ overall مجموعی طور پر ہم سے آگے نکل جائیں تو اس کے لئے احتمال کے درجے میں بھی اس قسم کی بات عجب کو دور کرنے کے لئے کافی ہو جاتی ہےلہٰذا آپ یہ احتمال ضرور رکھیں کہ عین ممکن ہے اللہ تعالی ٰ نے جو مل مجھے نصیب فرمایا ہے ان میں بھی اس طرح یہ عمل جاری کر دے۔ ساتھ یہ بات کہ عین ممکن ہے کہ ان کےاندر کچھ روحانی خوبیاں ہوں جن کا مجھے علم نہیں ہے تو اللہ کرے کہ مجھے بھی وہ نصیب ہو جائیں۔ اس صورت میں اگر ان میں روحانی خوبیاں ہیں اور مجھ میں نہیں ہیں تو یہ مجھ سے بہتر ہوں گے تو اس وجہ سے عجب کی کوئی صورت نہیں بنتی ہے۔

تبلیغی حضرات کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ ان کی دعوت بالکل صحیح ہے، اس میں کوئی گڑبڑ نہیں ہے اور تبلیغی جماعت بھی حق جماعت ہے اور ہمارے اکابر کی طرف سے ہے۔ البتہ ان میں بعض نادان ایسے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ سوائے تبلیغ کے کام کے اور کوئی دینی کام نہیں ہے تو یہ ان کی غلطی ہے۔ ان کی اس غلطی کو نہ مانا جائے۔ ان کے تبلیغ کے کام کے ساتھ ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے، ہم تو کہتے ہیں کہ تبلیغ کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں ہم ان کی مدد بھی کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ نہیں اٹھنا بیٹھنا چاہیے جو سلسلوں اور مشائخ کو برا سمجھیں اور یہ سمجھیں کہ یہ دین پر نہیں چل رہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اختلافِ نا جنس والا مسئلہ آ جاتا ہے جس سے روحانی نقصان ہوتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہیں چاہیے، تبلیغ کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے اس فعل کی وجہ سے جو وہ کرتے ہیں۔ اعمال میں سستی کی جوبات ہے تو میرے خیال میں آپ کوہمارے حضرت کا وہ اصول یاد ہو گا کہ سستی کا علاج چستی ہے۔ لہٰذا آج سے چستی شروع کر لیں تو ان شاء اللہ سستی ختم ہو جائے گی،اور جو بھی ہو رہا ہے میرے خیال میں ان شاء اللہ ٹھیک ہی ہو رہا ہے۔ آپ کو سلسلے کی برکات نصیب ہو رہی ہیں، اسی وجہ سے آپ کو اس کااحساس ہے۔ ابھی سلسلے کے ساتھ اپنا رابطہ جاری رکھیں۔

پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ بہتری فرمائیں گے۔

سوال نمبر 8:

حضرت جی!

Kindly difference between act and perform? As you advised morning niyats that will act, what is required and will perform what is required?

جواب:

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام ہمیں کرنے ہیں ان کے کرنے کی نیت کی جائے اور ان میں سےجو ہو جائیں ان پہ شکر ادا کرنا اور جو نہ ہو سکیں تو ان کی آئندہ سے کوشش کرنا ۔اس طریقے سے جو ہو جائیں ان پہ 10 گنا اجر کا میں نے بتایا تھا اور جو نہ ہو سکیں ان پر ایک اجر کا۔ اس طریقے سے کسی میں بھی نقصان نہیں ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ