اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَم النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
کبھی حضوری قلب پہ اعتراف، کبھی بہت زیادہ غفلت، اس طرح کی عارضی کیفیات سے مطلع کرنا چاہیے یا نہیں؟
جواب:
در اصل یہ تلوین ہے۔ تلوین میں حالات جلدی جلدی بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بری بات نہیں ہے۔ حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں پھر کسی وقت کسی اچھے حال پہ قرار آ جاتا ہے، جس کو تمکین کہتے ہیں۔ جب تمکین حاصل ہوجاتی ہے تو اس کا مقام بن جاتا ہے۔
شیخ کو اپنے حالات سے مطلع کرنا مفید ہے لیکن مختصراً کرنا چاہیے، تفصیل کے ساتھ نہیں۔ اگر کہیں تفصیل کی ضرورت ہو گی تو شیخ خود پوچھ لے گا۔
آپ اپنا مراقبہ جاری رکھیں۔مراقبہ پہ انسان کا control نہیں ہوتا۔ البتہ انسان اس کے انتظار میں ضرور رہتا ہے۔ جیسے کوئی مچھلی پکڑنا چاہتا ہو تو دریا میں کنڈا لگائے رکھتا ہے، لیکن اس کو کیا پتا کہ اس میں کس وقت مچھلی پھنسے گی۔ لیکن اگر وہ کہے کہ دو گھنٹے گزر گئے، مچھلی تو آئی نہیں، چلو چھوڑ ہی دو۔ اور یہ سوچ کر چھوڑ دے تو ہو سکتا ہے اس کے چھوڑنے کے عین ایک لمحہ بعد مچھلی آ جائے۔ مراقبہ کی یہی مثال ہے کہ اس میں مستقل مزاجی سے لگے رہنا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: لگے رہو... لگے رہو... لگ جائے گی۔ امید کو مت چھوڑو۔
؏ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
سوال نمبر2:
حضرت تکبیرِ اولیٰ کا چلہ شروع کیا ہے۔ دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کا یہ چلہ پورا فرمائے۔ مسنون اعمال کا شوق اور توفیقات نصیب فرمائے۔
سوال نمبر3:
حضرت محترم شیخ، بعد تسلیم عرض ہے کہ یہ خط بطورِ اطلاع پیش ہے۔ ایسے خط بھیجنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی لیکن اب حالات بہت بگڑرہے ہیں اس وجہ سے مجبوراً لکھنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے گھر کا ایک فرد کا آپ کی خانقاہ میں آنا جانا ہے۔ وہ گھر کا کچھ خیال نہیں رکھتا، ان کے والد صاحب ان سے بڑے شاکی ہیں۔ وہ کسی کی پروا نہیں کرتا۔ والد صاحب کو ان سے یہ تک کہنا پڑ رہا ہے کہ خانقاہ جانا تو نشہ ہے، اس نشے میں کوئی پڑ گیا تو پھر اسے کسی اور چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ اپنی job کے معاملے میں بھی ان کی کچھ کمزوریاں ہیں۔ گھر پہ والد صاحب کچھ کام کرتے ہیں، یہ اس طرف بھی توجہ نہیں کرتا۔ اگر کوئی ان سے کچھ کہتا ہے تو جواب یہ دیتا ہے کہ بس یہ میرے مزاج میں نہیں ہے۔
جواب:
اگر واقعی یہ باتیں درست لکھی ہیں تو پھر ان صاحب کا رویہ غلط ہے۔ گھر کو بھی time دینا چاہیے۔ بالخصوص والدین کا بہت احترام کرنا چاہیے۔ ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جس سے خانقاہ کی بدنامی ہو۔ البتہ یہ بات بھی یاد رہے کہ گھر والوں کو بھی خانقاہ کے ساتھ بلا وجہ ضد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بعض دفعہ خانقاہ میں ضرورت کے طور پہ آنا ہوتا ہے۔ قریب والے لوگ خانقاہ ابتدا میں ہی آ سکتے ہیں، یہ ہمیشہ کے لئے تو نہیں آئیں گے۔ جب تک ضرورت ہے تب تک وہ کوشش تو کرے گا۔ دین کا شوق وذوق بھی یہیں سے ملے گا۔ جب دین پہ عمل کا شوق پیدا ہوگا تو پھر ان شاء اللہ وہ سارے کام کرے گا۔
سوال نمبر4:
بعد تسلیم عرض ہے۔ حضرت جی! اقراری مجرم والا حال ہے۔ صلاۃ التوبہ پڑھتے ہوئے اقرار ہوتا ہے کہ یا اللہ گناہ گار بھی مجھ سے بہتر ہے۔ میں تو غافل ہوں اور غفلت دور کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں ہے۔ اس اقرار سے نفس خوش ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اللہ پاک کے آگے اتنا زیادہ گرا دیا ہے۔ سستی، بے عملی اور غفلت اتنی شدید ہے کہ نفس راضی ہی نہیں ہوتا۔ دنیا کی محبت اتنی حاوی ہے کہ جلد از جلد نماز ختم کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ نمازیں غارت ہو رہی ہیں۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ پڑھا کیا ہے۔ ہر نماز کے بعد بہت افسوس ہوتا ہے کہ اتنی بڑی نعمت ضائع کر دی۔ قضا نمازوں کے لئے target رکھا تھا کہ 3 ماہ میں ایک سال ختم کرنا ہے لیکن عدم استقامت کی وجہ سے ابھی 3 ماہ میں 6 ماہ کی ادا ہوئی ہیں۔ ایک مہینے سے یہ حالات ہیں لیکن حضرت جی کی شفقت کو دیکھتے ہوئے گوارا نہیں ہوتا تھا کہ ان حالات کو سنا کر تکلیف پہنچاؤں۔اپنی اصلاح کروانی ضروری ہے اس لئے لکھ دیا ہے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ نے جتنے عمل کی توفیق عطا فرمائی ہے اس پر شکر کریں اور مزید کی ہمت کریں۔ جب نعمت پر شکر ہوتا ہے تو اللہ جل شانہ خوش ہو کر مزید کی توفیقات سے نواز دیتے ہیں۔ اختیاری چیزیں تو ضرور کرنی چاہییں ان میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔ اور وہ یہی ہیں کہ اپنی طرف سے پوری کوشش ہو کہ نماز کی طرف توجہ ہو، نماز کے کسی رکن کی طرف توجہ ہو تو وہ نماز ہی کی طرف توجہ شمار ہوتی ہے۔ باقاعدہ ہر عمل کی نیت کرنی چاہیے۔ جیسے کوئی رکوع میں جا رہا ہے تو رکوع کی نیت ہو۔ اگر رکوع سے اٹھ رہا ہے تو پھر اٹھنے کی نیت دل میں ہو۔ اگر سجدے میں جا رہا ہے تو سجدے میں جانے کی نیت دل میں ہو۔ اس طرح جب بار بار نیت کریں گے کہ اب میں اللہ کے حکم سے سجدے میں جا رہا ہوں اللہ کے حکم سے اٹھ رہا ہوں تو یہ بھی نماز کی حضوری میں آتا ہے۔ اس طریقے سے اپنی نمازوں کو نماز بنائیں اور مایوس نہ ہوں۔ اللہ جل شانہ اس فکر کی برکت سے بہت جلدی توفیق دے دے گا۔
قضا نمازوں کے لئے جو target رکھا تھا کہ تین ماہ میں ایک سال کی نمازیں پڑھیں گی۔ اگر آدھے سال کی ہو گئی ہیں تو اس پہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور مزید کی ہمت کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ توفیقات سے نوازے۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم! اللہ پاک آپ کا سایہ تا دیر ہم پر قائم رکھے۔ حضرت میرا کچھ ذاتی مسئلہ ہے وہ discuss کرنا ہے۔ ہماری joint family ہے۔ میں اپنی wife کو جب بھی کسی چیز سے منع کرتا ہوں تو ہمیشہ یہی کہتی ہے کہ تم اپنا کام تو کرتے ہو اور میرے کام میں بہانے بناتے ہو۔ وہ مجھ سے موبائل مانگتی ہے، میں اسے کہتا ہوں کہ آپ کو ضرورت نہیں۔ وہ کہتی ہے کہ تم اپنے بھائی کے کہنے پہ مجھے موبائل نہیں دیتے۔ اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ حضرت میری joint family ہے، میں کس کس کی سنوں۔ امی کی باتیں اور ہوتی ہیں، wife کی اور ہوتی ہیں، بھائیوں کی باتیں الگ سننی پڑتی ہیں اور sisters کی الگ باتیں ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی برداشت ختم ہو جاتی ہے، سوچتا ہوں کہ گھر سے دور بھاگ جاؤں۔ حضرت میری wife آپ سے بیعت بھی ہے۔
جواب:
آپ نے ان کی شکایت تو کر لی، لیکن ابھی ان کا موقف سننا باقی ہے۔ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ جب تک دونوں فریقین کی بات نہ سنیں اس وقت تک ہم فیصلہ نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ قاضی اس وقت تک فیصلہ نہ کرے جب تک دونوں کی بات نہ سن لے۔ آپ نے کہا کہ وہ بھی مجھ سے بیعت ہے لہذا اگر اس کو آپ سے کچھ شکایت ہے تو اس کو مجھ سے بات کرنی چاہیے۔ وہ مجھ سے بات کر لیں پھر میں دیکھوں گا کہ آپ کی شکایت میں کتنا وزن ہے اوران کی شکایت میں کتنا وزن ہے۔ اس کے حساب سے جو بات اللہ تعالیٰ دل میں ڈالیں گے اس کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم کے کچھ فوائد بھی ہیں اور کچھ نقائص بھی ہیں۔ آپ نے صرف اس کے نقائص بیان کئے ہیں، میں آپ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں کہ یہ نقائص تو ہیں۔ لیکن اس کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ جب آپ کبھی 2 – 3 دن کے لئے گھر سے باہر جاتے ہیں تو آپ کی wife اکیلی نہیں ہوتیں۔ آپ اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں اور ہر مہینے سہ روزہ لگانے کے لئے آیا کریں۔ اگر آپ جوائینٹ فیملی سسٹم کے نقصانات اٹھا رہے ہیں تو اس کے فائدے بھی اٹھائیں۔ اس طریقے سے بیلنس قائم ہو جائے گا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کے اور بھی فائدے ہیں، جن کا تفصیل سے ذکر اس تھوڑے وقت میں نہیں ہو سکتا۔ میں نے صرف ایک اہم فائدہ آپ کو بتا دیا ہے۔ آپ یوں کریں کہ میری دو باتوں پہ عمل کریں ایک تو ان کو یہ کہہ دیں کہ وہ مجھ سے آپ کی شکایت کر دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ مہینہ میں ایک سہ روزہ خانقاہ میں لگایا کریں۔ ان شاء اللہ العزیز اس جوائنٹ فیملی سسٹم کے کچھ فوائد بھی آپ حاصل کر لیں گے۔
سوال نمبر7:
توبہ اور استغفار۔کیا یہ دونوں ایک ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے؟
جواب:
دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے۔ لیکن عوام کی اصطلاح میں استغفار سے مراد زبان سے استغفر اللہ پڑھنا ہوتا ہے جبکہ توبہ سے مراد کسی گناہ سے توبہ کرنا ہوتا ہے۔ عوام کی اصطلاح میں جسے استغفار کہتے ہیں، اس میں غفلت زیادہ ہوتی ہے جبکہ توبہ میں غفلت نہیں ہوتی۔ توبہ میں انسان واقعی اپنے آپ کو نادم اور گناہ گار سمجھ کر اللہ کے حضور گڑگڑا رہا ہوتا ہے کہ میں توبہ کر رہا ہوں اسے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ میں کس گناہ سے توبہ کر رہا ہوں۔ توبہ clear اور evident قسم کی چیز ہے جبکہ استغفار ایک general چیز ہے۔ اس میں بہت ساری چیزوں سے بیک وقت توبہ بھی شامل ہو سکتی اور کئی بار پتا بھی نہیں ہوتا کہ میں کس چیز پہ استغفار کر رہا ہوں۔
حقیقت میں یہ دونوں ایک ہیں۔ ہونا ایسا چاہیے کہ استغفار میں بھی استحضار ہو۔ استغفار ایک طرف ذکر کے قریب ہے دوسری طرف توبہ کے قریب ہے۔ یہ دونوں کے درمیان درمیان میں ہے۔ لہٰذا استغفار اور توبہ کی کیفیت میں کچھ فرق ہے، لیکن حقیقت میں ایک ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن