سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 213

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال نمبر1:

السلام علیکم حضرت جی! میں مدرسے کا طالب علم ہوں۔ جب میں مدرسے میں ہوتا ہوں تو معمولات پابندی سے کرتا ہوں لیکن جب گھر میں آتا ہوں تو بعض اوقات معمولات کی ترتیب بے حد خراب ہو جاتی ہے۔ اس لئے میں سوچتا ہوں کہ گھر کم آیا کروں لیکن پھر دماغ میں یہ خیال آتا ہے کہ گھر والوں کو بھی بتاؤں کہ ٹی وی وغیرہ کے نقصانات کتنے زیادہ ہیں، لیکن جب گھر آتا ہوں تو اپنا آپ بچانا ہی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

جواب:

اللہ جل شانہ نے جانوروں کو جو جبلتیں عطا فرمائی ہیں لوگ ان سے بہت سیکھتے ہیں۔ لوگوں نےپرندوں کو دیکھ کر جہاز بنایا،اسی طرح اور بہت سارے کام انسانوں کے ذہن میں جانوروں کو دیکھ کر آئے، انہوں نے جانوروں کا مشاہدہ کیااور کوشش کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی دی۔

پرندوں میں ایک بات یہ ہوتی ہے کہ پرندے اپنے بچوں کو اس وقت تک گھونسلے سے باہر نہیں آنے دیتے جب تک وہ واقعی اڑنے کے قابل نہ ہو جائیں۔ جب مکمل اڑنے کے قابل ہو جائیں پھر ان کو باہر آنے دیتے ہیں۔اس سے پہلے وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ باہر کے ماحول کا مقابلہ کر سکیں، ان کا باہر آنا ان کے لئے خطرناک ہوتا ہے، لہٰذا وہ انہیں اسی وقت گھونسلے سے باہر جانے دیتے ہیں جب وہ ٹھیک سے اڑنے کے قابل ہو جائیں۔

اسی طرح دوسروں کو تبلیغ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خود انسان کے اندر اتنی روحانیت موجود ہو کہ وہ باہر کے ماحول کا مقابلہ کر سکتا ہو۔ اگر اتنی روحانیت موجود نہ ہو توپھر باہر کے ماحول کا اثر ہو جاتا ہے اور آدمی بہک جاتا ہے۔ ڈوبتوں کو بچانا بڑی اچھی بات ہے، لیکن اگر ڈوبتوں کو بچانے کے بجائے خود ہی ڈوب جائے تو نقصان کی بات ہے۔

ہوائی جہاز میں دوران سفر نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ حفاظتی ہدایات دی جاتی ہیں، ان میں ایک ہدایت یہ ہوتی ہے کہ اگر اچانک پریشر کم ہو جائے تو آپ کے سامنے آکسیجن کا ماسک گرے گا، سب سے پہلے اپنے آپ کو ماسک لگائیں اس کے بعد بچے کو لگائیں۔ میں نے اس پہ غور کیا کہ آخر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو ماسک لگائیں پھر بچے کو لگائیں، حالانکہ بچہ زیادہ مستحق ہے کیونکہ وہ خود نہیں لگا سکتا۔ غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اگر آدمی پہلے بچے کو ماسک لگانے لگ جائے اور اسے لگاتے لگاتے خود بے ہوش ہو جائے تو دونوں جان سے جائیں گے، اگر خود اپنے آپ کو بچا لیا تو خود کو بھی بچا لیں گے اور دوسرے کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔

لہٰذا اگر آپ کے اپنے اندر روحانیت کم ہو تو دوسروں کی ذمہ داری نہ لیں کیونکہ دوسروں کی ذمہ داری لینے سے بعض دفعہ یہ حالت پیش آجاتی ہے کہ خود انسان ان کے رنگ میں ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے اپنے بارے میں بتایا ہے۔ گھر میں حالات شیطان زدہ ہوتے ہیں اور مدرسہ و مسجد میں بہتر ہوتے ہیں کیونکہ وہاں شیاطین نہیں آ سکتے۔ تصویریں نہیں ہوتیں، کتا نہیں ہوتا، ٹیلی ویژن نہیں ہوتا جبکہ گھر میں یہ ساری چیزیں ہونے کی وجہ سے ماحول بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر ایک انسان گھر اس لئے آتا ہے کہ میں لوگوں کو بچاؤں گا تو لوگوں کو بچاتے بچاتے خود اس میں شامل ہو جانے کا خدشہ ہے کیوں کہ ان چیزوں کے اندر بڑی کشش ہے، انسان ان میں گرفتار ہو سکتا ہے۔

سوال نمبر2:

Respected and honorable

شیخ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔حضرت جی!

Kindly explain difference between acting and performs as you advising morning niyats. That will act what is required and will perform what is required. In مناجات مقبول, in below mentioned Dua اعمال and فعل is written separately.

’’اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنِیْ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ وَالنِّیَّۃِ وَالْھُدیٰ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ ‘‘

Can't understand difference between these.

جواب:

act سے مراد کوئی بھی کام ہو سکتا ہے جو ہم کرتے ہیں۔ نیت صحیح ہو گی تو وہی کام کرے گا جو کرنا چاہیے اور اسی طریقے سے کوشش کرے گا جس طریقے سے کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر میں کچھ نیتیں کرتا ہوں۔ سب سے پہلے میں مختلف کاموں کی نیت کرتا ہوں کہ میں یہ کام کروں گا، یہ کام کروں گا اور یہ کام بھی کروں گا۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو مجھے ویسے ہی کرنی چاہئیں، ان میں عام طور پہ نیت نہیں کی جاتی بلکہ وہ ہمارے اوپر لازم چیزیں ہوتی ہیں۔ ان چیزوں میں بھی دین اور نیکی نیت کرنی چاہیے۔ مثلاً آدمی نیند پوری کرکے تقریباً پورا دن بیدار رہتا ہے، وہ اس بیداری کے وقت میں اپنے بیوی بچوں کے لئے نان نفقہ کماتا ہے، وہ اس میں یہ نیت کر سکتا ہے کہ نان نفقہ کمانے سے میرا مقصد یہ ہے کہ میرے بیوی بچوں کو آسانی ملے، جس سے مجھے آسانی ملے اور میں اپنے رب کی عبادت صحیح طور سے ادا کر سکوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ نمازیں تو ہمارے اوپر ویسے بھی فرض ہیں۔ ہم نے ہر صورت نماز پڑھنی ہی ہے۔ اسی طرح روزے بھی ہر صورت رکھنے ہی ہیں۔ یہ کام تو ہم پر ویسے بھی لازم ہیں۔ ان کے علاوہ جو عام زندگی کے کام ہوتے ہیں ہمیں ان میں اچھی نیتیں کرنی چاہئیں۔ مثلاً میں یہ نیت کر سکتا ہوں کہ میں معاشرے کی اصلاح کے لئے فلاں فلاں کام کروں گا۔ اپنے گھر والوں کے فائدے کے لئے فلاں فلاں کام کروں گا۔ فلاں فلاں chapter پڑھوں گا۔ فلاں فلاں علم حاصل کروں گا۔ الغرض ہم تمام اعمال میں اچھی نیت کر سکتے ہیں۔

سوال نمبر3:

بعد تسلیم بصد تعظیم عرض ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ ذیل ملفوظ سے متعلق رہنمائی چاہیے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ مال کی قدر کرو۔ مال دنیا کی زندگی کا سہارا ہے۔ ہوش اور عقل کے ساتھ خرچ کرو۔ اگر خرچ کرنے میں جوش ہو تو اللہ کی راہ میں دو۔ عافیت بڑی نعمت ہے۔

حضرت جی میری طبیعت میں جوش ہے، جماؤ نہیں ہو پاتا۔ جو بھی رقم آتی ہے اس میں بیس فیصد حج کے لئے مقرر ہے،باقی سب خرچ ہو جاتے ہیں۔ حضرت سے نصیحت کی درخواست ہے۔

جواب:

مال کی قدر اس لئے کرنی چاہیے کہ مال کی وجہ سے انسان کا ایمان سلامت رہ سکتا ہے۔ بعض دفعہ مال کا نہ ہونا کفر تک لے جا سکتا ہے۔ انسان اس کے لئے ایسے کام کر تا ہے جو کفر پہ منتج ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مال کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اسباب کی دنیا میں زندگی اس پہ منحصر ہے۔ جیسے انسان کھائے پیے گا نہیں تو مر جائے گا۔ اسی طرح مال نہیں ہوگا تو جینا مرنا ایک جیسا ہو جائے گا۔

مال کی برائی کے بارے جو آیات یا احادیث آ تی ہیں، ان سے انسان ڈر جاتا ہے کہ یہ مال تو بہت بری چیز ہے۔ دراصل مال بری چیز نہیں ہے مال کا غلط استعمال بری چیز ہے۔ اگر صحیح طریقے سے مال مل جائے تو بڑی اچھی بات ہے۔ مال کی قدر کرنی چاہیے اور اس کو ہوش وعقل کے ساتھ خرچ کرنا چاہیے۔ ہوش میں رہنا چاہیے، جوش میں نہیں آنا چاہیے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص مانگ لیتا ہے تو آپ اسے اپنی حیثیت سے بڑھ کر دے دیتے ہیں۔ دینا تو بڑی اچھی بات ہے لیکن بعد میں پشیمان نہ ہوا کریں۔ بعد کی پشیمانی سے یہ عمل ضائع ہو سکتا ہے۔ اتنا دو جتنا آپ برداشت کر سکتے ہو۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ چندہ کرنے والوں کو خاص طور پر ہدایات دیتے تھے کہ جس دن چندہ کے لئے بیان کرو، اس دن لوگوں سے چندہ مت لو، بلکہ اعلان کردو کہ یہ میرا آدمی یہیں موجود ہے، آپ سوچ سمجھ لیں، پھر اگر دینا چاہیں تو ان کو دے دیں۔

فرماتے تھے کہ عین اس وقت چندہ نہ لیں، جب چندہ کے لئے بیان کریں۔ ان ہدایت کے مطابق جو آدمی چندہ کے لئے تقریر کرتا تھا وہ خود چندہ نہیں لیتا تھا، اور تقریر کے فورًا بعد نہیں لیتا تھا۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا تھا کہ لوگ جوش میں نہیں دیتے تھے،بلکہ جب ہوش آ جاتا تب دیتے تھے۔

آپ 20 فیصد حج کے لئے جمع کرتے ہیں، ماشاء ا للہ بڑی اچھی بات ہے، حج کے لئے جمع کرنا چاہیے۔ اس پہ بڑی بشارت ہے۔جو بھی جمع کرنا شروع کر لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے حج پہ جانے کا راستہ کھول دیتا ہے۔

سوال نمبر4:

حضرت جی!

Kindly guide what نیت should be made to paint housing place and what else should be kept in mind while spending money on it?

جواب:

حفاظت اور جائز خوب صورتی کی نیت سے یہ بات بالکل درست ہے کہ دیواروں پہ پینٹ وغیرہ پر پیسے خرچ کرنا چاہئیں۔ اگر دیواروں پہ پینٹ وغیرہ نہ کیا جائے تو اس سے گھر کا نقصان ہوتا ہے اور خوبصورتی بھی متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا گھر کی حفاظت اور جائز خوب صورتی کی نیت سے بلاشبہ یہ کام کیا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم حضرت جی! میں ایک معاملے میں بہت پریشان ہوں۔ میرے کافی رشتے آ رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سب دنیا کی طرف زیادہ مائل ہیں اور میں ان چیزوں سے بہت چڑتی ہوں۔ ماما کہتی ہیں ہمارے لئے آسانی پیدا کرو۔ میں بہت پریشان ہوں۔ آپ دعا کریں۔

جواب:

اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ لڑکیاں ایسے سوچنے لگیں کہ ان کو دین دار رشتہ مل جائے۔ آج کل واقعی یہ مسئلہ ہے کہ بہت سارے بچے بچیاں دین کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن والدین ان کو دنیا کی طرف کھینچتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین کا دل دنیا کی طرف مائل ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر دنیا نہیں ہو گی تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہ ان کی پریشانی کو دور فرمائے۔ ان کو دین دار رشتہ نصیب فرما دے۔ اللہ پاک ان کے لئے آسانی کے ساتھ اچھا رشتہ عطا فرمائے۔

سوال نمبر6:

اگر کوئی والد اپنی بیٹی سے کہے کہ آپ جو سوال وجواب کی نشست لکھ رہی ہیں، ایک نشست میرے نام سے بھی لکھ دیں، بیٹی خوشی خوشی لکھنے کے لئے تیار ہو جائے کہ اس طرح میرے والد صاحب کو حضرت کی دعا مل جائے گی۔ اس طرح بیٹی سے لکھوا کر شیخ کے سامنے اپنے نام سے ظاہر کرنا اخلاص کے منافی ہے یا نہیں؟

جواب:

دونوں کی نیتیں اچھی ہیں، کیونکہ دنیا کے لئے نہیں ہیں بلکہ دین کے لئے ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہ دونوں کو اس کا اجر عطا فرمائیں۔ البتہ ہماری دعا کے لئے بیٹی کو والد کے نام سے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دعا ہم ویسے بھی دیا کرتے ہیں، صرف اس وجہ سے نہیں دیا کرتے کہ کوئی ہمارے بیانات لکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی اچھی نیتوں کا بدلہ عطا فرمائیں۔

سوال نمبر7:

حضرت مشکلات و مصائب کے حالات میں یہ کس طرح پتا چل سکتا ہے کہ آیا یہ آزمائش ہے یا ہمارے اعمال کی سزا ہے؟

جواب:

بزرگ فرماتے ہیں کہ جب کبھی تکلیف دہ حالات آجائیں اور انسان اس پہ جزع فزع کرنا شروع کردے، زبان سے واہی تباہی نکلنے لگے تو یہ شامت اعمال ہے۔ اگر صبر کر لے اور کچھ بھی نہ کہے تو یہ گناہوں کا کفارہ ہے۔ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اگر اس پہ شکر کرنے لگے کہ جتنا میں گناہ گار و سیاہ کار ہوں اس کے لحاظ سے میں اس سے بھی زیادہ کا لائق تھا، یہ تو اللہ پاک نے آسانی کا معاملہ فرمایا ہے کہ اسی تکلیف پر ہی معاملہ روک دیا۔ تو یہ رفع درجات کا ذریعہ ہے۔ آدمی مصائب و مشکلات میں جیسا رویہ اختیار کرے اسے ویسی ہی جزا ملتی ہے۔

سوال نمبر 8:

حضرت نفس امارہ شر پیدا کرتا ہے اور نفس مطمئنہ خیر کا باعث ہوتا ہے، یہ بات تو مسلم ہے۔ اس نفس کی ایک تیسری قسم نفس لوامہ بھی ہے، اس کی قرآن پاک میں قسم کھائی گئی ہے۔ نفس لوامہ خیر کا پہلو ہے یا شر کا؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

جب انسان سے کوئی گناہ ہوتا ہے، تو انسان کے اندر ایک کڑھن سی پیدا ہوتی ہے، اسے احساس ندامت ہوتا ہے، اس کا اندر اسے ملامت کرتا رہتا ہے، یہ ندامت و ملامت نفس لوامہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ چونکہ گناہ پر نادم ہونا ایک اچھی بات ہے، اس لئے یہ نفس بھی اچھا ہے۔ اس لئے اللہ پاک نے اس کی قسم کھائی ہے۔

سوال نمبر 9:

مبتدی کو اسم ذات کا مراقبہ کرتے ہوئے یکسوئی حاصل کرنے میں کافی مسائل پیش آتے ہیں۔ اگر وہ پہلے صفات کا کوئی مراقبہ شروع کرلے جس سے شعوری یا طبعی طور پر اسے کچھ یکسوئی حاصل ہو، اس کے بعد صفات کی طرف آئے، کیا یہ درست ہے؟

جواب:

جس وقت ہم ذکر بالجہر کراتے ہیں تو اس میں صفات کا مراقبہ کراتے ہیں۔ ذکر کرنے والے کو یہ ہدایت کرتے ہیں کہ اللہ اللہ کہتے ہوئے یہ تصور کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ یہ در اصل صفات کا ہی مراقبہ ہے۔ دیکھنا اللہ پاک کی ایک صفت ہے۔ جب یہ مراقبہ پختہ ہو جاتا ہے پھر اگلی منزل پہ جاتے ہیں۔ واقعی اس میں کوئی حرج نہیں کہ پہلے صفات کا مراقبہ کرا لیا جائے، پھر اسم ذات کا مراقبہ آسان ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر 10:

حضرت کل کے درس مثنوی میں یہ بات ہوئی تھی کہ دنیاوی چیزیں، خواہشات نفسانی، کھانا پینا وغیرہ انسان کو دنیا کی طرف مائل کرتی ہیں چاہے وہ جائز ہی کیوں نہ ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم ان چیزوں کو سنت طریقے سے کریں اور اس نیت سے کریں کہ اللہ پاک کی عبادت کے لئے قوت حاصل ہو، کیا تب بھی یہ سب چیزیں دنیا کی طرف مائل کریں گی۔

جواب:

دنیا کی چیزوں میں یہ معاملہ ہے کہ اگر وہ سنت کے مطابق ہوں تو ان میں روحانیت آ جاتی ہے اور اگر سنت کے خلاف ہوں یا نیت دنیا کی ہو تو اس میں نفسانیت آ جاتی ہے۔ ہم نے یہ خیال رکھنا ہے کہ ایسی تمام چیزیں سنت کے مطابق کریں اور ان کی مقدار بھی سنت جتنی ہی رکھیں۔ سنت سے کم بھی نہ ہو، سنت سے زیادہ بھی نہ ہو۔ کیونکہ جب تک سنت سے مطابقت ہے تب تک سنت کی روحانیت آپ کو ان چیزوں کی نفسانیت سے بچا رہی ہے۔ اگر آپ اس کی نفسانیت میں پھنس گئے تو آپ سنت سے زیادہ کر لیں گے۔ لہٰذا سنت کے عین مطابق رکھیں۔

سوال نمبر11:

حضرت کیا نیت خود بخود ہو جاتی ہے کہ بس ہم ایک سوچ لیں کہ میں کھانا اس لئے کھاؤں گا تاکہ عبادت کی قوت حاصل ہو اور اس کے بعد جیسا اور جتنا چاہے کھانا کھا لوں۔ یا پھر ہمیں مسلسل اس نیت کا خیال رکھنا ہوتا ہے؟

جواب:

ہمیں ایک بار نیت کرنے کے بعد مسلسل خیال رکھنا ہوتاہے کہ ہم اس نیت کے خلاف تو نہیں کر رہے۔ لوگ ذمہ داری سے بری ہونا چاہتے ہیں کہ بس کسی طریقے سے خود بخود کام ہونے لگے۔ خود بخود نہیں ہو گا، بلکہ آپ کو کرنا پڑے گا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے، کہ آپ نے نماز کی نیت کی اور درمیان میں کوئی ایسا کام کر لیا جو نماز کو باطل کرنے والا ہے، کیا یہ نماز اس وجہ سے بچ جائے گی کہ آپ نے اسے ادا کرنے کی نیت کی تھی؟ لہٰذا نیت کرنے کے بعد اسے برقرار رکھنا ہوتا ہے، کوشش کرنی پڑتی ہے کہ نیت کے خلاف نہ ہونے پائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ