سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 212

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


20150111 QA21200



خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج اتوار کا دن ہے اور اتوار کے دن ہمارے ہاں سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔ پہلے وہ سوالات یا خطوط جو باہر سے آئے ہوتے ہیں ان کے جوابات ہوتے ہیں، اس کے بعد مجلس میں موجود حضرات میں سے کسی کا سوال ہو تو ان سے پوچھا جاتا ہے۔

سوال 01:

السلام علیکم! حضرت، امید ہے اللہ کے فضل سے آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت ذکر کے بارے میں بات کرنی تھی۔ 200، 400، 600 اور 100 بار زبان سے ذکر کر رہا تھا 100 بار دل سے، ٹوٹل 500 مرتبہ۔ (حضرت: یا تو یہ الفاظ ٹوٹ گئے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے میرے خیال میں شاید دل سے 500 مرتبہ ہے اور 100 مرتبہ زبان سے ہے، اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے) حضرت ذکر کرتے ہوئے تقریباً پانچ سات ہفتے ہو گئے ہوں گے، دل سے ابھی تک شروع نہیں ہوا بس سستی کی وجہ سے پچھلے دو ہفتوں سے ذکر کر بھی نہیں رہا۔

(پانچ سات ہفتوں میں دو ہفتے تو یہ نکل گئے تو اس کا مطلب ہے کہ صرف چار پانچ ہفتے ہی ہو گئے)

آپ سے پوچھنا تھا کہ یہ ذکر جاری رکھوں؟ حضرت کوشش کر رہا ہوں، نظروں کی حفاظت نہیں ہو رہی۔ آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے۔

جواب 01:

ذکر جو آپ کو دیا ہے اس کو جاری رکھیں اور یاد رکھیے کہ دل سے ذکر پر آج تفصیلی بیان ہوا ہے 11 سے لیکر 12 بجے تک، اگر آپ اس کو سننا چاہتے ہیں تو اس کو سنیں کیوں کہ اس میں اس کے بارے میں کافی بات ہوئی ہے۔ ہمارے ایک بزرگ تھے کراچی میں ان سے کسی نے کہا میرے دل پر ابھی تک ذکر شروع نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے پوچھا: کتنا وقت ہو گیا؟ غالباً اس نے پانچ، چھ مہینے بتایا ہو گا۔ فرمایا: اچھا! آپ کا ذکر جاری نہیں ہو رہا ہے جبکہ ہم تو عشاء کی نماز کے بعد کنڈلی مار کر بیٹھتے تھے فجر تک کرتے تھے 12 سال بعد جاری ہوا، اور آپ ابھی سے تھک گئے ہیں؟۔ تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ ہمارے سلسلے میں نسبتاً ذرا جلدی شروع ہوجاتا ہے تو قدر نہیں ہوتی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید بس سرسوں کو ہتھیلی پر جمانے جتنا آسان ہو گا، لوگ جلدی مچاتے ہیں، یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر دفعہ جلدی ہو جائے۔ کبھی کبھی جلدی ہو بھی جاتا ہے، جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ بعض لوگوں کا ہم سے بھی ایک ایک لطیفہ پہلے سنا جارہا ہوتا تھا، خواتین میں یہ زیادہ ہوتا ہے۔ بہرحال پانچ، سات ہفتوں میں 2 ہفتے کئے بھی نہیں، شاید غصہ سے نہیں کئے ہوں گے۔ لیکن یہ ہے کہ جلدی نہیں مچانی چاہیے یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس کے لیے آپ اطمینان رکھیں اور کوشش جاری رکھیں اور اس کی طرف دھیان دیں، چاہے آپ کا ذکر نہیں بھی ہو رہا ہوتا، پھر بھی آپ ذکر میں شمار ہوں گے، ذکر کی کوشش میں جو بیٹھا ہے وہ ذکر میں ہے۔ جیسے نماز کے انتظار میں جو بیٹھا ہوتا ہے وہ نماز میں ہوتا ہے، لہذا جلدی نہیں مچانا چاہیے۔ ہمارے سلسلے میں نسبتاً چوں کہ جلدی جلدی چیزیں ہو رہی ہیں، لوگ دیکھتے ہیں کہ فلاں کا جلدی ہوا فلاں کا جلدی ہوا۔ کچھ جلدی مچانے کا سلسلہ زیادہ شروع ہو گیا ہے، اسی کو تعجیل کہتے ہیں۔ طریقت کے موانع میں سے ایک بہت بڑا مانع تعجیل ہے، یعنی جلدی مچانا۔ کیوں کہ جلدی مچانے سے کبھی شیخ پر بد گمانی ہو جاتی ہے پھر طریق پر بد گمانی ہو جاتی ہے پھر نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِک یہ بات اللہ تک چلی جاتی ہے اور یہ بہت خطرناک بات ہے، اس سے انسان کو بچنا چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ آج کا خصوصی بیان اسی پر ہوا ہے، میرے خیال میں اس بیان کو سننا چاہیے۔

سوال 02:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ


Hope this email finds you in the best of health. I would like to do بیعت with you and would appreciate it if you could help me understand بیعت. I would really be grateful as I want to improve and prepare for my Akhiraa ان شاء اللہ.

جزاک اللہ خیرا۔

جواب 02:

کسی خاتون نے ای میل کیا ہے۔ بقول اس کے وہ بیعت کرنا چاہتی ہے اور بیعت کے بارے میں معلومات بھی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بیعت اصل میں دو افراد کے درمیان contract ہوتا ہے، معاہدہ ہوتا ہے۔ مرید کو مرید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ارادہ کرتا ہے کہ میں اب ان سے سیکھوں گا جن کو شیخ بنا رہا ہے، اور اپنے روحانی مسائل میں صرف ان سے رابطہ رکھوں گا، یہ عہد کر لیتا ہے۔ اور شیخ اس بات کا عہد کر لیتا کہ میں اس سلسلے میں اب اس کی خدمت کروں گا جو مجھ سے ہو سکے گی، یہی معاہدہ اصل میں بیعت کی روح ہے باقی الفاظِ بیعت برکت کے لیے ہیں۔ اگر بالکل بھی الفاظ کچھ نہیں کہے اور یہ contact ہو گیا آپس میں، بے شک اشارے سے کیوں نہ ہو، تو بیعت واقع ہو گئی، اصل بیعت کا مقصد حاصل ہو گیا۔ لیکن اگر الفاظ برکت کے لیے کہے جائیں تو اچھی بات ہے، کیوں کہ اس میں توبہ بھی آجاتی اور بھی بہت کچھ آجاتا ہے۔ لہذا الفاظِ بیعت کہنے کے لیے آپ مجھے رات کو 9 بجے فون کریں، اس وقت آپ با وضو ہوں، ان شاءاللہ بیعت ہو جائے گی۔ اگر مزید تفصیلات اس کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں تو tazkia.org ہماری ویب سائٹ ہے، اس میں تعارفِ تصوف کے سیکشن پر جو ابتدائی اور بنیادی تعارف ہے اس کے اندر بیعت کی حقیقت اور اس کے بارے میں تفصیلی باتیں لکھی ہوئی ہیں، وہ آپ پڑھ لیجئے گا، ورنہ ”زبدۃ التصوف“ کتاب بھی وہاں موجود ہے، وہ ڈاؤن لوڈ کر لیں، اس میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔ باقی frequently asked questions میں بھی بیعت کے بارے میں ہے تو اس کو بھی آپ پڑھ سکتی ہیں، اس کے بعد اگر آپ کا شرح صدر ہو جائے تو پھر آپ مجھے آپ فون کر سکتی ہیں۔

سوال 03:

Hazrat Ji, I performed an assignment of typing, a nashist given by you for someone else so that he or she will be able to have your dua with my own willingness. Then will it be against ikhlas for me and will it be considered as lie if the present assignment before you is with her name while I am giving him with her permission.

جواب 03:

عجیب سوال ہے، نشستوں کے بارے میں چونکہ تقسیم ہو چکی ہے۔ بعض لوگوں کو سوال وجواب کی نشستیں دی گئی ہیں، وہ اس کو لکھ رہے ہیں یا لکھ رہی ہیں۔ جب یہ ہاتھ سے لکھ لیں گی یا لکھ لیں گے تو ان کو ٹائپ کرنے والے ٹائپ کر دیں گے، ان شاء اللہ!۔ غالباً 75 نشستیں تقسیم ہوئی ہیں۔ بہرحال ان کو کسی نے کہا ہو گا، وقت ان کے پاس نہیں ہو گا، میرے خیال میں اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے ہم ان کے لیے ویسے ہی دعا کر لیں گے، دعا کروانا چاہتے ہیں تو دعا کے لیے یہ چیزیں ضروری نہیں ہیں، ہم ہر مسلمان کے لیے دعا کرتے ہیں، لیکن آپ کو اس طرح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ یہ دنیا کی چیز تو ہے نہیں، اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کس نے کیا ہے اور کس نے نہیں کیا۔ اگر مجھے پتا چل بھی جائے کہ فلاں نے کیا ہے لیکن اصل میں کسی اور نے کیا ہو تو اللہ تعالی کو اصل بات کا علم ہے کہ کس نے کیا ہے؟ تو ہمارا سارا معاملہ اللہ تعالی کے حوالے سے ہے۔ لہذا یہ تکلف ہی ہے، بے شک آپ اس طرح کر لیں، لیکن اس طرح کہنے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ یہ تو اللہ تعالی کے لیے ہے۔ آپ لکھنا چاہتے ہیں تو لکھ کے ہمیں بھیج دیں۔ اللہ پاک ہر ایک ساتھ اس کے مطابق معاملہ کریں گے۔ ہم سب کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو قبول فرماۓ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم سب کو اخلاص نصیب فرمائے۔

سوال 04:

Hazrat, kindly guide me about a living style to be adopted to adjust in somewhat modern in-laws. If I use expensive things to escape from inferiority feelings and to keep my heart satisfied, then will it be considered as showing off and against simplicity?

جواب 04:

کوئی خاتون یہ کہنا چاہتی ہیں کہ میں اپنا Living style کیسے اپناؤں اپنے Modern سسرال میں؟ کیوں کہ اگر میں مہنگی چیزیں استعمال کرتی ہوں تاکہ میں اپنے احساس کمتری کے خیالات سے چھٹکارا پاؤں اور اپنے دل کو مطمئن کروں تو یہ کیسا ہو گا؟

اصل بات یہ ہے کہ نیت بدلنی چاہیے inferiority complex کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، سب سے بڑی بات ایمان ہے، الحمد للہ! اللہ تعالی نے ہم لوگوں کو ایمان کی دولت سے نوازا ہے۔ ایک مومن کو تو احساس کمتری ہونا ہی نہیں چاہیے، کیوں کہ ایمان سب سے بڑی دولت ہے، ساری دولتیں اس کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہیں، ایمان کے سامنے کسی چیز کی کوئی value نہیں ہے۔ دوسری بات اللہ پاک نے ہم لوگوں کو اچھا سلسلہ نصیب فرمایا ہے، اس پر بھی اللہ تعالی کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے۔ تو یہ احساس کمتری کہاں سے آ گئی؟ پھر دین کے اوپر چلنے کی اللہ نے جو توفیق عطا فرمائی ہے یہ بھی بڑی نعمت ہے، اس میں تو احساس کمتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ البتہ احساس برتری بھی نہ ہو، بس شکر ہو۔ نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ سب سے خطرناک احساس برتری ہوتی ہے، جو احساس برتری میں مبتلا ہوتا ہے وہ اصل میں احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے، ہمیں ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ البتہ ایک طریقہ اس نیت سے کر سکتی ہیں کہ چونکہ بہت زیادہ گیپ ہے اور سسرال میں دین کا کام کرنا ہے۔ اگر ان کے ساتھ اتنا بڑا گیپ ہو گا تو پھر کام نہیں کر سکیں گی، لہذا تھوڑا بہت adjustable ہونے کے لیے تاکہ وہ آپ کی بات سن سکیں اور آپ کی بات سمجھ سکیں، مذاق اڑانے کا ان کو موقعہ نہ ملے، تاکہ دین کی جگ ہنسائی نہ ہو۔ اس نیت سے آپ اگر ان کے ساتھ جائز چیزوں میں کر لیں، نا جائز میں نہیں، جیسے plucking نا جائز ہے۔ جو جائز زیبائش ہوں خواہ وہ دین کے لیے نہ ہو ویسے بھی اس کی گنجائش ہو، تو اس کو کر سکتی ہیں، دوسروں کے اوپر فخر جتانے کے لیے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ ناجائز طریقہ بھی نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ البتہ جائز طریقے اختیار کر سکتی ہیں دین کی نیت سے، تاکہ ان کے درمیان بات کرنے کا موقعہ مل جائے۔

سوال 05:

Hazrat Ji, kindly guide me which book should be consulted to get knowledge about رذائل so that a list can be made for اصلاح.

جواب 05:

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب ہے "احیاءالعلوم" اس میں مہلکات کے عنوان سے یہ چیزیں دی گئی ہیں۔ اس میں تکبر ہے، کینہ ہے، بغض ہے، اس طرح اور بہت ساری چیزیں ہیں۔ یہ کتاب اگر آپ consult کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ اور ہماری ویب سائٹ پر بھی یہ چیزیں موجود ہیں ہماری "فہم التصوف" نام کی کتاب میں یہ باتیں موجود ہیں۔ دوسرا فقہ کے عنوان میں عبادات ہیں، معاملات ہیں اور معاشرت ہے۔ اخلاق کے عنوان سے جو ہے اس میں رذائل موجود ہیں۔ اس کو پڑھ لیں، اس کو consult کر سکتے ہیں، وہ نسبتا زیادہ مختصر ہے اور comprehensive ہے۔

سوال 06:


Hazrat Ji, kindly explain how to take treatment of different رذیلہ one by one? Should we take treatment of one رذیلہ and start working on that? Then after اصلاح we should consult for next رذیلہ or we should take treatment of رذائل one be one and work simultaneously on each one.


جواب 06:

اصل میں ایک ایک کرکے کرنے میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ذرا پختگی نصیب ہو جاتی ہے، کیوں کہ سب پر بیک وقت کام کرنے سے کوئی بھی کام پورا نہیں ہوتا۔ ہم دنیا میں بھی بہت ساری چیزوں میں دیکھتے ہیں کہ اکھٹے بہت سے کام کرنے سے کوئی کام صحیح سے نہیں ہوتا۔ اس میں دو باتیں ہیں بلکہ اللہ کا شکر ہے کہ ایک بہت اچھی بات ذہن میں آگئی، وہ یہ کہ ایک اس کا فوری علاج ہوتا ہے، جیسے غصہ کا فوری علاج ہے کہ وہ آدمی جس کو غصہ آجائے تو پانی پی لے یا بیٹھ جائے، بیٹھا ہوا ہو تو لیٹ جائے یا جگہ بدل لے یا کسی کام میں مشغول ہو جائے، یہ فوری علاج ہے۔ لیکن یہ مکمل علاج نہیں ہے، مکمل علاج تو عاجزی ہے۔ جب عاجزی انسان میں آئے گی تو پھر اس کو unnecessary غصہ نہیں آئیگا، اس میں ٹائم لگتا ہے۔ جتنے بھی رذائل ہیں ان کے فوری علاج کتابوں میں پڑھ لیں اور ان کو یاد رکھیں کہ جس وقت وہ صورتِ حال آئے، اس کا فوری علاج کریں۔ ہماری میڈیکل زبان میں اس کو symptomatic treatment کہتے ہیں۔ باقی یہ ہے کہ تفصیلی علاج one by one کریں، ایک ایک کر کے، صرف ایک کے پیچھے پڑ جائیں۔ اس طریقے سے ان شاءاللہ العزیز انصاف ہو سکے گا۔

سوال 07:

السلام علیکم! حضرت جی، لطائف پر تصور کرتے ہوئے "لطیفہ اخفیٰ" پر محسوس نہیں ہوتا اور "یا باسط" کی اجازت کی درخواست ہے۔

جواب 07:

لطیفہ اخفیٰ پر اگر محسوس نہیں ہوا تو آپ ابھی کوشش جاری رکھیں۔ شدہ شدہ ان شاء اللہ یہ بھی ہو جائے گا۔ باقی جتنے ہوئے ہیں اس پر شکر بھی کریں۔ شکر کرنے سے ان شاءاللہ العزیز اس پر بھی اللہ تعالی شروع فرما دیں گے۔ بعض لوگوں کو بعض لطائف کے ساتھ زیادہ مناسبت ہوتی ہے، وہ ذرا جلدی ہو جاتے ہیں۔ بعض کے ساتھ نہیں ہوتی تو وہ ذرا دیر سے جاری ہوتے ہیں۔ ”یا باسط“ کی اجازت کس مقصد کے لیے مانگ رہے ہیں؟ اس کا مجھے علم نہیں ہے، لہذا جب آپ بتائیں گے تو ان شاءاللہ دوسرے سیشن میں اس کا جواب دے دیا جائے گا۔

سوال 08:

حضرت جس طرح ابھی آپ نے فرمایا کہ فوری علاج تو انسان ہر ایک رذیلہ کا دیکھ لے اور اس کے بعد تفصیلی علاج میں وہ کسی ایک پر فوکس کرے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ میں علاج کس رذیلے کا کر رہا ہوں، اس کے لیے مجھے کیا کرنا پڑے گا؟

جواب 08:

اس میں کوئی شک نہیں کہ علاج واقعی آپ نہیں کر رہے۔ اس کا مجھے بھی پتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے رذائل کی لسٹ بنا لیں اور وہ مجھے بتا دیں۔ ان میں سے کسی ایک کا میں آپ کو بتا دوں گا کہ اس کے پیچھے پڑجائیں، اس کا یہ علاج کریں، جب تک کہ میں نہ کہوں اسی کو چلاتے رہیں۔ ان شاءاللہ العزیز یہ detail والا علاج ہو گا اور باقی جو ہر ایک کا اپنا اپنا فوری علاج ہے، روزانہ اس کو پڑھ کے اس کو کر لیا کریں۔

سوال 09:

رذائل کی لسٹ بناتے ہوئے عموماً ہر انسان کی تقریباً اپنی خوبیوں پر نظر ہوتی ہے اور اگلے کے رذائل پر نظر ہوتی ہے، اس طریقے سے رذائل کی لسٹ کیسے بنائی جائے گی؟ اپنے رذائل پر نظر ہی نہیں ہے۔

جواب 09:

دوسروں کے رذائل پر نظر ہو اور اپنے رذائل پر نظر نہ ہو، یہ بذات خود ایک رذیلہ ہے۔ لیکن اس کے لیے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات انسان یاد رکھے کہ یہ تصور کر لیں کہ میرے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں اور اب میرا کون سا عمل ہے جو اللہ تعالی کے ہاں پیش ہونے کے قابل ہے تو جس چیز میں کوئی مسئلہ نظر آئے تو اس کو نوٹ کرتے رہیں، اس طریقے سے یہ چیزیں نظر آجائیں گی۔ ان شاء اللہ۔

سوال 10:

حضرت، شاید یہ ایک پرسنل سوال ہو گا، لیکن آپ کے متعلقین کی اکثر انٹرنیشنل ٹریولنگ زیادہ ہوتی ہے اور اس حوالے سے کھانا پینا اور باقی چیزوں کا بھی دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ نظروں کی حفاظت کا دھیان رکھنا پڑتا ہے بہت سی ایسی اور چیزیں ہیں۔ کیا ایسی کوئی گائیڈ کرنے والی کتاب یا اس طرح کی کوئی چیز ہو کہ ایک ہفتے یا دو ہفتے کے لیے یا جتنے عرصے کے لیے باہر ملک جا رہے ہوں تو اس حوالے سے اس گائیڈ کو فالو کیا جائے؟

جواب 10:

اصل میں یہ چونکہ مختلف ممالک پر منحصر ہے۔ جہازوں پر جو سفر ہوتا ہے تو اس کے لیے میرا suggestion یہ ہے کہ انسان اپنے لیے کچھ خشک کھانے کی چیزیں ضرور ساتھ رکھے، تاکہ اگر جہاز میں کچھ ایسی کھانے کی چیز نہ ملے تو پھر اس سے گزارہ کیا جاسکے، جس میں سب سے زیادہ useful چیز بھنے ہوئے چنے یا ستو ہے۔ یہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ تھا کہ وہ ان چیزوں کو اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ اور ایک اور چیز جو ہمارے تجربے میں ہے، مکئی کی یا گندم کی میٹھی روٹی بغیر گھی کے۔ یہ چونکہ جلدی خراب نہیں ہوتی اور اس سے انسان کو energy بھی حاصل ہو جاتی ہے، پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔ دو چیزیں ہوتی ہیں پیٹ بھرنا ہوتا ہے اور energy حاصل کرنا ہوتا ہے باقی پانی اور دودھ، یہ تو ہر جگہ ٹھیک ہے، یہ انسان استعمال کرسکتا ہے، soft drinks بھی دیتے ہیں وہ بھی ٹھیک ہی ہوتی ہیں، عموماً ان پر ان کی detail لکھی ہوتی ہے، اگر کوئی مسئلہ ہو تو انسان پڑھ سکتا ہے، یہ تو سفر کی بات ہو گئی۔ باقی منزل پر پہنچ کر ہر ملک کا اپنا اپنا حساب ہوتا ہے۔ جیسے میں جب جرمنی گیا تھا تو ابتدائی چند ہفتوں میں چونکہ مجھے وہاں ترک دکانوں کا پتا نہیں تھا ایک دو دکانوں کے علاوہ، اور بھی بہت ساری چیزوں کا پتا نہیں تھا۔ تو جو ترک دکانیں مجھے معلوم تھیں وہاں سے روٹی ملتی تھی وہ ایک روٹی میں لے لیتا تھا، اور ساتھ میں کیلے لے کر ان کے ساتھ کھا لیتا تھا، اور دودھ پی لیتا تھا، اسی سے ہمارا گزارہ چل رہا تھا۔ چند ہفتے اس طرح گزرے، اس کے بعد اللہ پاک کا شکر ہے کہ پھر ہمیں proper guidance مل گئی، وہاں سینٹرز کے ساتھ رابطہ ہو گیا، الحمد للہ بالکل ایسی ہی چیزیں ملنے لگیں جیسے یہاں پر ملتی ہیں، پھر وہ مسئلہ نہیں رہا۔ تو ملک ملک کی بات ہوتی ہے، انگلینڈ میں تو بہت زیادہ آسانی ہوتی ہے کیونکہ انگلینڈ میں مسلمان بہت زیادہ ہیں بالخصوص انڈین کشمیری۔ اور پاکستانی بھی ہیں، تو وہاں یہ مسءلہ کم ہے۔ امریکہ میں بھی بعض جگہوں پر ما شاء اللہ اچھے localities موجود ہیں، مسلمانوں کی آبادی ہے، وہاں ایسے departmental stores بھی available ہوتے ہیں جن میں اس قسم کی چیزیں ملتی ہیں۔ جس ملک میں انسان جائے تو اس کے ملک کے جو لوگ وہاں گئے ہوں پہلے ان سے contact کر کے experience معلوم کرنا چاہیے۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی انسان جانے کی تیاری شروع کرے تو جیسے کاغذی کاروائی جاننے کی کوشش شروع ہوتی ہے اس طرح یہ چیزیں جاننے کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں پر کون کون سے centres available ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ کی بڑی سہولت ہے، انٹرنیٹ سے تقریباً دنیا جہاں کے ملکوں میں Islamic Centres کے contact number مل جاتے ہیں اور پتے بھی مل جاتے ہیں، ای میل کے ذریعے سے ان سے رابطہ بھی کیا جاسکتا ہے، انفارمیشنس بھی لی جاسکتی ہیں کہ دکانیں کہاں ہیں؟ مجھے کیا کرنا ہو گا؟ اس قسم کی باتوں کی رہنمائی ان سے مل جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ ان چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، باقی details ان لوگوں کو معلوم ہوتی ہے جو وہاں گئے ہوتے ہیں۔