خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی ، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ
فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج اتوار کا دن ہے اور اتوار کے دن ہمارے ہاں سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں اور یہ سوالات زیادہ تر تصوف سے متعلق ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سوالات کے جوابات کے ہم پابند نہیں ہیں، جو سوالات باہر سے آتے ہیں ان کے جوابات پہلے دیتے ہیں اور اس کے بعد جو سوالات یہاں کیے جاتے ہیں ان کے بھی جوابات دیئے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ہمارا یہ سلسلہ ہوتا ہے کہ خطوط کے جوابات دے دیئے جاتے ہیں۔ خطوط میں تو آج کل یہ بڑی اچھی بات ہے کہ زیادہ تر معمولات کے چارٹ آتے ہیں اور واقعتاً معمولات کا چارٹ بہت مفید کام ہے، کیونکہ اس سے تقریباً ایک منٹ ڈیڑھ منٹ میں پتا چل جاتا ہے کہ کیسے کام ہو رہا ہے۔ کم از کم معمولات کا پتہ چل جاتا ہے، اور آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔
اس کے علاوہ کسی کا کوئی حال وغیرہ ہو تو اس کے لیے چونکہ علیحدہ جگہ بنی ہوتی ہے تو وہاں پر اپنا حال بیان کیا جا سکتا ہے، پھر اس کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے۔ ابھی میں خطوط کھول رہا ہوں تاکہ اگر کچھ اس قسم کی چیزیں ہوں تو ان کے بارے میں بات ہو جائے، چند احوال آئے ہیں، ان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
سوال 01:
جس دن تلاوت قرآن پاک کا تہجد کے وقت ناغہ ہوتا تھا، میں فجر کے بعد پڑھ لیتی تھی یا دن میں کبھی پورا کر لیتی تھی، نہ اعمال ٹھیک ہیں نہ اخلاق ٹھیک ہیں، دل بھی ٹھیک نہیں ہے، مگر دل سے زیادہ نفس خراب ہوتا جا رہا ہے، زبان بھی ٹھیک نہیں ہے، کوئی اعمال نہیں ہیں، بے دینی ہے، معمولات کے علاوہ مستقل آیت کریمہ پڑھ رہی ہوں، اشراق چاشت پڑھنے کا دل نہیں کرتا، خانقاہ بھی آنے کا دل نہیں کرتا، کیا حاصل کیا ابھی تک! دین تو زندگی میں ہے نہیں، دل کا بے دینی پر کھلنے کا کیا فائدہ! جب اعمال ہی ویسے کے ویسے ہیں، دل کھلتا ہے اور نفس دن بدن حاوی ہوتا جا رہا ہے، خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب 01:
اصل میں ہم کچھ چیزیں بھول جاتے ہیں۔ ایک ہمارے ساتھ نفس ہے، وہ تو ہے ہر شخص کے ساتھ لیکن ایک نفس کو استعمال کرنے والا اور پھر اس سے جو اثرات آتے ہیں اس سے نقصان پہنچانے والا شیطان ہے، جو بڑی ذہانت سے کام کرتا ہے۔ شیطان کا کام یہ ہوتا ہے کہ یا تو اتنا غافل کر دے کہ گناہ کا پتا ہی نہ چلے کہ گناہ بھی کوئی کر رہا ہوں یا نہیں کر رہا، یہ حالت بہت خراب ہے۔ ایسے وقت میں کوئی آدمی اگر دنیا سے چلا گیا تو بہت خطرناک بات ہے، اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرما دے۔ یا پھر اگر غفلت سے نکال دے تو پھر مایوسی میں مبتلا کرتا ہے، پھر یہ دکھاتا ہے کہ دیکھو! تو یہ بھی نہیں کر رہا، تو یہ بھی نہیں کر رہا، مایوسی کی طرف لاتا ہے، تو یہ بھی خطرناک بات ہے، مایوسی کفر کی طرف لے جا سکتی ہے، خود کشیاں لوگ مایوسی میں کرتے ہیں۔ تو شیطان دونوں طرح ہمارے ساتھ کھیلتا ہے، کبھی غافل کر کے، کبھی مایوس کر کے، اللہ جل شانہ نے ہم لوگوں کو بھی عقل سے نوازا ہے اور سب سے بڑی بات ہے کہ ایمان سے نوازا ہے، ایمان کا مطلب کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ قرآن کی ہر آیت سچی ہے، اللہ تعالی اور اللہ کے رسول کی ہر بات سچی ہے یہی ایمان ہے، تو جب اللہ تعالی فرماتے ہیں ﴿لا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَةِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا﴾ (الزمر: 53) اور جب اللہ پاک فرماتے ہیں ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنكبوت: 69) اور اللہ پاک فرماتے ہیں ﴿وَ مَن يَتَّقِ اللّٰـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا﴾ (الطلاق: 2) تو یہ سب باتیں اللہ تعالی کر رہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، وہ جب چاہے تو سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے جب کوئی توبہ کرتا ہے۔ اور ساتھ تقوی اختیار کرتا ہے اس کے لیے اللہ پاک راستہ نکال دیتا ہے۔ تقوی سے مراد یہ ہے کہ جو نافرمانی سے ڈرتا ہو، اس کے لیے اللہ پاک راستہ نکال دیتا ہے اور یہ بھی ہے کہ جو کوشش اور محنت کرتا ہے تو اس کی کوشش رائیگاں نہیں جاتی، لیکن وقت بعض دفعہ لگ سکتا ہے، کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لیے ہدایت کے راستے میں سجھاؤں گا۔ گڑبڑ کہیں اور ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسئلہ بنتا ہے، گڑ بڑ یہی ہوتی ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ میری مرضی کے مطابق سب کچھ ہو۔ یہ بندگی کے اصول کے خلاف ہے سب کچھ اللہ کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے، بندے کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا، جیسے جیسے جس کا یہ خیال ہوتا ہے کہ میری مرضی کے مطابق سب کچھ ہو، اتنا اتنا ہی وہ شیطان کے ہاتھ میں جاتا رہتا ہے، اس لیے تفویض بہت بڑی دولت ہے ﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہ اِنَّ اللہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَاد﴾ (المومن: 44) میں اپنا سب کچھ اللہ پر چھوڑتا ہوں، اللہ تعالی اپنے بندوں کا خوب نگہبان ہے۔ لہذا اپنی خواہشات کو تمام چیزوں کو چھوڑ کے، اللہ تعالی کو مہربان مان کر اپنی ہمت کے ساتھ جتنا انسان کر سکتا ہے اس سے پیچھے نہ رہے اور اللہ تعالی سے قبولیت کی امید رکھے، یہی کامیابی کا طریقہ ہے، کوشش اور محنت اللہ تعالی ہم سے زیادہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ مایوسی کی باتیں یہ شیطانی باتیں ہیں یہ انسانی باتیں نہیں ہیں۔ شیطان مایوس ہے، اس لیے وہ اوروں کو بھی مایوس کرتا ہے، تو ہمیں نہ غفلت کی طرف جانا چاہیے، نہ مایوسی کی طرف جانا چاہیے، پھر ہم لوگ شیطان کے داؤ سے بچ سکتے ہیں۔
اصل میں بعض دفعہ ہم جو علاج بتاتے ہیں اس علاج پہ لوگ عمل نہیں کرتے، نتیجتاً وہ اپنے آپ کو پھنسا دیتے ہیں۔ آج ہی ایک صاحب آئے تھے انہوں نے بھی کچھ ہی ایسی باتیں کیں کہ بڑا ہی پریشان ہوں اور یہ ہو رہا ہے، وہ ہو رہا ہے، بڑی مایوسی کی باتیں کیں، اور tension کی باتیں کیں۔ میں نے کہا بھائی بات سن لو! اچھی طرح سمجھ لو! ڈاکٹر کے پاس جب آپ بیماری ہونے کی صورت میں جاتے ہیں، تو ڈاکٹر تشخیص کرتا ہے پھر دوائی دیتا ہے اس کا کام اتنا ہوتا ہے، پھر اس دوائی کو کھانا استعمال کرنا مریض کی ذمہ داری ہوتی ہے، اب اگر مریض اس دوائی کو استعمال نہیں کرتا، تو ڈاکٹر کی کیا ذمہ داری رہ جاتی ہے؟ میں آپ کو علاج بتاؤں گا، لیکن اس شرط پر کہ آپ اس پر عمل کریں گے، تو اگر کوئی عمل کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور صرف اس بات کے انتظار میں ہو کہ میری طرف کوئی نظر کرلے گا بس میرا بیڑا پار ہوجائے گا تو یہ دقیانوسی باتیں ہیں، عجمی باتیں ہیں، یہ صحیح باتیں نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایسے نہیں تھے، وہ تو ہر وقت عمل کے لیے بیتاب ہوتے تھے کہ ہمیں کچھ بتایا جائے تو ہم اس پر عمل کریں۔ وہ مایوسی کی باتیں نہیں کرتے تھے، ان میں ایثار تھا، ان میں تقوی تھا، ان میں ہمت تھی، ان کی پوری زندگی اللہ کے لیے وقف تھی، ان کا سارا مال اللہ کے لیے تھا، ہر چیز اللہ کے لیے تھی، تو ہم تو ان کے پیروکار ہیں، ہم ان کے راستے پر جائیں گے تو کامیاب ہوں گے۔ لہذا یہ تمام مایوسی کی باتیں ذہن سے نکالیں، توبہ و استغفار کریں، جو معمولات ہیں، چاہے دل چاہتا ہے یا نہیں چاہتا عمل کرنا شروع کر دیں، یہ دل چاہنے کی تک کس نے اس کے ساتھ لگائی ہوئی ہے کہ میرا دل چاہے گا تو عمل کروں گا! یہ تو بندگی کے خلاف ہے، کبھی دل چاہے گا کبھی نہیں چاہے گا، دل چاہے تو اس پہ شکر کرو، دل نہیں چاہے تو صبر کرو، عمل ہر صورت میں کرنا ہے، جیسے کھانے کو جی چاہے گا شکر کرکے کھاؤ، نہیں چاہے گا تو صحت کے لیے صبر کرکے کھاؤ، کھانا تو ہر صورت میں ہے۔ یرقان کی صورت میں انسان کا جی کھانے کو نہیں چاہتا پھر بھی کھاتا ہے مجبوری ہے، ورنہ کمزور ہو جائے گا۔ کیا بچوں کے ساتھ ہم زبردستی نہیں کرتے؟ کبھی کھانا زبردستی دیتے ہیں، کبھی دودھ زبردستی دیتے ہیں، ظاہر ہے ان کا جی نہیں چاہتا، روتے ہیں، لیکن دوائیں بھی طریقے سے دیتے ہیں، کھانا بھی زبردستی دیتے ہیں، ان کو ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا اشراق ہے، چاشت ہے، اور جو بھی معمولات ہیں ان کو دل پر جبر کرکے کرو، دل پر جبر کرکے کرو گے تو اگر دل نہیں چاہے گا تو دونوں کے لیے فائدہ ہو گا، نفس کے لیے بھی اور دل کے لیے بھی اور اگر دل چاہے گا اور دل اس کے ساتھ خوش ہو گا تو پھر صرف دل کے لیے فائدہ ہو گا، نفس کے لیے فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ نفس مجاہد سے ٹھیک ہوتا ہے۔ تو بس یہ اصول بنا لو کہ جس چیز کو دل نہیں چاہتا اور وہ کرنے کی ہو تو اس کو موقع سمجھ کر کہ یہ نفس کے علاج کا موقع ہے، لہذا اس کو خوب اٹھ کے اس کو کر لو تاکہ اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر آپ کا نفس سیدھا ہو جائے، صرف یہ باتیں کرنے سے کہ میرا یہ عمل ٹھیک نہیں، میرا وہ عمل ٹھیک نہیں، یہ کوئی فائدہ مند بات نہیں۔ کوئی ہزار دفعہ کہہ دے کہ مجھے ٹی بی ہے، مجھے فلاں مرض ہے، مجھے فلاں مسئلہ ہے، تو کیا کہنے سے ٹھیک ہو جائے گا؟ اس طرح کہنے سے ٹھیک نہیں ہوتا، اس سے احساس ہو جاتا ہے، تو بس احساس کر لے۔ تو اس طریقہ سے انسان کو عمل کرنا چاہیے اور گھبرانا نہیں چاہیے۔
سوال 02:
حضرت جی! میں اصلاح کروانا چاہتا ہوں، اور معمولات کرنا چاہتا ہوں، نیت بھی کرتا ہوں مگر عمل نہیں ہو پاتا، اس پر استقامت کیسے حاصل کروں؟
جواب:
ماشااللہ ہم دیکھتے ہیں، یہ جو پڑھائی ہوتی ہے یہ کافی مشکل کام ہے، کوئی میڈیکل میں ہے، کوئی job professional ہے، پڑھنے کو دل نہیں چاہتا پھر بھی پڑھتے ہیں اور assignment کو جی نہیں چاہتا پھر بھی کرتے ہیں، کبھی کسی نے کسی پروفیسر کو نہیں کہا کہ جی میں نیت کرتا ہوں لیکن میری assignment مکمل نہیں ہوئی۔ اگر کسی پروفیسر نے اس بات کو تسلیم کیا ہو تو مجھے اطلاع کرنا پھر ہم بھی مان لیں گے کہ یہ چیز ہے۔ اس سے انسان نہیں چھوٹ سکتا کہ میں اصلاح کروانا چاہتا ہوں لیکن ہوتی نہیں، یہ والی بات نہیں ہے، ایک ہوتی ہے تمنا اور ایک ہوتا ہے ارادہ، تمنا میں انسان اسباب نہیں اختیار کرتا، بس خواہش کرتا ہے اور ارادہ میں انسان اسباب بھی اختیار کرتا ہے، خواہش بھی کرتا ہے، ارادہ کی ضرورت ہے، ارادہ جب پختہ ہو تو پھر فائدہ ہو جاتا ہے۔
دوسری بات چونکہ ذاتی ہے اس وجہ میں یہ نہیں بتا رہا۔ (یہ آپ نے جو لکھا کہ) البتہ یہ ہے کہ ایک بات کا اقرار ہے کہ شاید آپ کی باتوں پر unconditional عمل نہ کرنے کی وجہ سے بھی نقصان ہوتا جا رہا ہے اور یہ نقصان رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
آپ نے خود ہی تشخیص کر لی ہے کہ unconditional بات عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے، تو بس unconditional عمل کرنا شروع کر دیں۔ اپنے diagnosis پر تو انسان عمل کر سکتا ہے، راستہ موجود ہے لیکن عمل چاہیے، "ہمت مرداں مدد خدا"۔ یہ بزدل لوگ جو ہوتے ہیں، وہ اگر کسی اپنے مخالف کو پچھاڑ بھی لیتے ہیں، تو اوپر بیٹھ کر رو رہے ہوتے ہیں کہ ابھی یہ اٹھے گا اور مجھے مارے گا یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ شیطان ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے، وہ اگر ہمیں کام سے ہٹاتا ہے تو ہم اس کے ساتھ مقابلہ کریں کہ بھائی میں نے کام کرنا ہے تو جو مرضی کر، میں نے تو کام کرنا ہے، میں نے تو اس پر عمل کرنا ہے، تو یہ پکی بات ہے کہ ابتدا میں مشکل ہو گی، لیکن اس کے بعد اگلی دفعہ یہ عمل کرنا آسان ہو گا، اس سے پھر اگلی دفعہ اس سے آسان ہو گا پھر اس سے اگلی دفعہ اس سے آسان ہو گا، اگر ایسا نہ ہو تو پھر مجھے بتا دیں۔ یہ پکی بات ہے کہ آپ عمل شروع کر دیں تو آسانی ہو جائے گی، ابتدا میں یقینا بہت مشکل ہے، لوگ انتظار کرتے ہیں کہ جب یہ آسان ہو جائے گا پھر میں کروں گا، اصول یہ ہے کہ پہلے کرو گے پھر آسان ہو گا، تو معاملہ بس اسی میں پھنسا رہتا ہے۔ میں اکثر مثالیں دیتا ہوں کہ ایک شخص ہے اس کا بالکل نماز پڑھنے کو جی نہیں چاہتا، اگر اس کا کوئی جگری دوست آجائے وہ اس کو ایک نماز کسی طریقے سے پڑھوا ہی لیتا ہے تو دوسری نماز اس کے لیے پھر اتنی مشکل نہیں ہوتی، جب دو پڑھ لے تو تیسری اس سے بھی آسان ہو جاتی ہے، جب تین پڑھ لے تو چوتھی اس سے بھی آسان ہو جاتی ہے، چار پڑھ لے تو پانچویں اس سے بھی آسان ہو جاتی ہے، اور یہ آسان ہوتے ہوتے یہاں تک لکھا ہے کہ چالیس دن تک اگر مسلسل کوئی نماز پڑھے، درمیان میں ناغہ کیے بغیر تو ان شاء اللہ پھر چھوٹے گی نہیں، لیکن یہ بھی پکی بات ہے کہ ایک ناغہ انسان کو کافی پیچھے کر دیتا ہے، لہذا ناغہ نہیں کرنا، اس کو یاد رکھنا ہے۔ ان شاء اللہ العزیز معاملہ آہستہ آہستہ improve ہوتا جائے گا، طریقہ تو یہ ہے باقی توقعات اور تصورات خیالات اگر زیادہ غالب آ جائیں تو اس کے بعد پھر سب کچھ ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔
سوال 03:
میرا ارادہ اپنی اصلاح کا ہے اور میں نے سُنا تھا کہ اصلاح کے لئے ذکر اور مجاہدہ کرنا پڑتا ہے یہ مجاہدہ اور ذکر کیسے کیا جاتا ہے؟ کیا یہ اصلاح کرنا ابتداء میں آسان ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ یہ مشکل ہوتا جاتا ہے؟ اس بارے میں راہنمائی فرمائیں
جواب:
بہت اچھا ارادہ ہے اللہ آپ کو اس ارادے میں کامیاب فرمائے، ابھی میرے خیال میں گیارہ بجے کے بیان میں آپ تھے اور اس میں کچھ باتیں عرض کر چکا ہوں تو اسی کو ہم لوگ Base بناتے ہیں، اس میں نفس اور شیطان کا میں نے ذکر کیا تھا، نفس کو سیدھا کرنے کا طریقہ مجاہدہ ہے، اس پہ زبردستی کرنی ہے، اس کی نہیں ماننی۔ اور دل کی اصلاح کا طریقہ ذکر اللہ کی کثرت ہے اور موت کی یاد ہے، تو جب بھی آپ کام شروع کریں گے، جس سے بھی آپ کی مناسبت ہو گی اور آپ ان سے اپنی اصلاح لیں گے تو پہلے کام وہ یہ کرے گا کہ آپ کو ذکر دے گا، ہمارے ہاں بھی ذکر دیا جاتا ہے، میرے خیال میں آپ کو دیا تھا یا نہیں۔ تو یہ ذکر ہے آپ لے لیں اس میں ہے تین سو دفعہ "سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ ِلِلهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَ اللهُ أَکْبَرُ" اور دو سو دفعہ "لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ" اس کو چالیس دن تک بلا ناغہ کوئی وقت مقرر کر کے کریں، اس پر اتنا ٹائم نہیں لگتا بیس پچس منٹ لگتے ہیں، اس میں آپ جتنا آداب کا خیال رکھیں گے اس کا فائدہ بڑھتا جائے گا۔ مثلاً وضو میں ہوں گے، وقت مقررہ پر ہو گا، قبلہ رخ بیٹھے ہوں گے، توجہ کے ساتھ کریں گے، اس میں سے جتنی کمی آئے گی تو اس کا اثر کم ہوتا جائے گا، لیکن یہ چیزیں جتنی پوری ہوں گی تو اس کا اثر زیادہ ہو گا، چالیس دن تک ایسے ذکر کرنا ہے۔ اس کے درمیان میں ناغہ نہیں کرنا، چالیس دن جب پورے ہو جائیں پھر ان شاء اللہ آپ کو دوسرا ذکر بتائیں گے۔
آپ نے فرمایا ابتدا میں آسان ہے، تو اس طرح ہمارا طریقہ بھی یہ ہے کہ ابتدا میں آسان ہوتا ہے، آہستہ آہستہ صلاحیت بڑھتی جاتی ہے، تو پھر کام بھی بڑھتا جاتا ہے، کیونکہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ میں پرائمری میں ہمیشہ رہوں، کسی بچے کو کوئی داخل کر لے تو اگر وہ اگلے سال پاس نہ ہو تو والدین کو فکر ہو جاتی ہے کہ آخر اس کو کیوں پاس نہیں کیا گیا، تو جس طرح بچے کا ہمیں خیال ہوتا ہے کہ ترقی کرے اس طرح ہمیں اپنا بھی خیال ہونا چاہیے کہ ہم روحانی طور پر ترقی کریں۔ اس کے لیے پھر یہ ذکر بڑھاتے جاتے ہیں حتیٰ کہ ایک limit پہ آ کے اس کے ساتھ جسم synchronize ہو جاتا ہے، پھر اس کے بعد کچھ مراقبات شروع کراتے ہیں، پھر ماشاء اللہ وہ روحانیت کے ساتھ مانوس ہوتے جاتے ہیں اور جو چیزیں اللہ پاک کے ہاں مخفی ہیں وہ چیزیں کھلتی جاتی ہیں۔
تو جو ابتدائی چیز ہے ذکر اور مجاہدہ اس کو ہم طریقت کہتے ہیں۔ اور اس کے ذریعے سے بعد میں جو مراقبات کی صورت میں یا اور چیزوں کی صورت میں چیزیں کھلتی ہیں، اللہ تعالیٰ کھولتے ہیں اس کو حقیقت کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے انسان کو اللہ کی پہچان ہو جاتی ہے۔ اللہ جل شانہ کی پہچان سے مراد یہ ہے کہ اپنی بندگی کی پہچان ہو جاتی ہے، انسان اپنے آپ کو محض بندہ سمجھنے لگتا ہے، اپنے ارادے کو ختم کر کے اللہ ہی کے ارادے سے چلتا ہے اور یہی بندگی ہے اس میں سب سے زیادہ ممتاز آپ ﷺ ہیں، پھر اس کے بعد صحابہ پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ جو لوگ جتنے آپ ﷺ کے قریب ہیں وہ ان میں اپنا مقام پا لیتے ہیں۔
تو بہرحال اس طریقے سے چلنا ہو گا تو اس وقت تو ساری تفصیلات بیان کرنے سے میرے خیال میں آپ کو کوئی فائدہ بھی نہیں، اگر آپ اس کو پڑھنا چاہتے ہیں تو ویب سائٹ کے اوپر بھی موجود ہے، آپ ادھر سے پڑھ سکتے ہیں، ادھر کتابیں بھی موجود ہیں، ایک کا نام ہے ”ذبدۃ التصوف“ دوسری کا نام ہے ”تصوف کا خلاصہ“ چھوٹی چھوٹی کتابیں ہیں ان کو پڑھنے سے ان شاء اللہ العزیز آپ کو یہ معلوم ہو گا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ”ذبدۃ التصوف“ Descriptive base ہے اور ”تصوف کا خلاصہ“ یہ سوال و جواب کی صورت میں ہے، جو لوگوں کے ذہنوں میں سوالات اٹھتے ہیں ان کے جوابات اس میں دیئے گیے ہیں۔ 450، 500 کے قریب سوالات کے جوابات اس میں دیئے گیے ہیں۔ سوال و جواب کی صورت میں چیزیں بڑی کلیئر ہو جاتی ہیں، مطلب یہ ہے کہ نیچرل بات ہے تو ان دو کتابوں کو پڑھنے کے بعد ان شاء اللہ مزید اگلی کتابیں آپ کو پڑھنا آسان ہو جائیں گی، بالخصوص concept اس میں کلیئر ہو جائے گا۔ فی الحال میرے خیال میں یہی کیا جا سکتا ہے، باقی ان شاء اللہ جب یہ پورا ہو جائے تو پھر آپ کو بتائیں گے۔
شاعری اور تشریح:
جو اللہ کا عاشق ہوتا ہے، اس کی اپنی کیفیت ہوتی ہے، اور جب یہ عاشق آپس میں جمع ہو جاتے ہیں پھر کیفیت کیسی ہوتی ہے۔ یعنی دو بالکل آمنے سامنے ہیں۔ کبھی میں نے سوچا نہیں تھا کہ آمنے سامنے آئیں گے، یہ آج سامنے آ گیے، تو پہلے میں انفرادی عشق کے بارے میں بتا دیتا ہوں اور پھر جو اجتماعی ہے اس کے بارے میں بات ہو گی۔
پگھلنا ہے مقدر میں یہ یوں ہی جلتے رہتے ہیں
کہ عاشق اپنے محبوبوں پہ ہر دم مرتے رہتے ہیں
یعنی اللہ کے ساتھ محبت کی وجہ سے انسان کڑھ رہا ہوتا ہے اور دیکھ رہا ہوتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں، یہ تو میرے محبوب کی شان کے مطابق نہیں ہیں، جس کی وجہ سے اس کی کیفیت ہوتی ہے، جیسے شمع پگھل رہی ہوتی ہے، لیکن اس کے پگھلنے کے ساتھ اس کے اندر روشنی بھی تو پیدا ہوتی ہے، اس کا پگھلنا رائیگاں تو نہیں جاتا، تو شمع پگھلتی رہتی ہے، لیکن ساتھ ساتھ روشنی کا ذریعہ بھی بنتا ہے تو اس کی روحانیت بڑھتی رہتی ہے۔
یہ آنکھیں کیسی ان کی ہیں کہ نہریں ان سے جاری ہیں
کسی کی یاد میں وہ ٹھنڈی آہیں بھرتے رہتے ہیں
نتیجہ کیا ہوتا ہے، وہ روتے رہتے ہیں اور آہیں بھرتے رہتے ہیں۔
یہ کیسی بات ہے ان کی کہ ہر پل ان سے ملتے ہیں
جدائی کا مگر شکوہ برابر کرتے رہتے ہیں
اللہ کے ساتھ ہمارا معاملہ کیا ہے، اللہ کے ساتھ ہمارا معاملہ surrender کا ہے اور اللہ پاک کے دینے کا ہے، جتنا ہم surrender ہوتے ہیں، اللہ اس سے زیادہ دیتے ہیں، یہ اللہ تعالی کا طریقہ ہے، سنت عادیہ ہے، پس جس نے اپنا پیسہ اللہ کے راستہ میں خرچ کیا، اللہ نے اس کے پیسے میں برکت دی، جس نے اپنی جان اللہ تعالی کے راستے میں قربان کر دی اللہ تعالی نے اس کو ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کر دیا، جس نے اپنے عزت اللہ کے راستے میں لٹا دی اس کو اللہ تعالی نے بڑا معزز کر دیا، جس نے اللہ کو یاد کیا، اللہ نے اس کو یاد کیا ﴿فَاذْکُرُوْنِی اَذْکُرْکُمْ﴾ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 152) پس جس وقت ہم لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اللہ ہمارا ذکر کرتے ہیں تو یہ اللہ کے ساتھ ملاقات کی صورت ہے، نتیجتاً وہ دائمی ذکر کر رہے ہوتے ہیں، دائمی طور پر اللہ کے ساتھ مل رہے ہوتے ہیں، لیکن ان کا شوق اس سے بڑھ رہا ہوتا ہے، مزید شوق ہوتا ہے، لہذا وہ جدائی کا شکوہ کر رہے ہوتے ہیں، اور اس سے آگے کا سوچ رہے ہوتے ہیں۔
سکوں طاری ہے ظاہر میں مگر طوفان ہے اندر
کہ ہو سکتا ہے کچھ بھی اس سے ہر دم ڈرتے رہتے ہیں
ذکر کی وجہ سے سکون طاری ہوتا ہے ﴿اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب﴾ (الرعد:29) لیکن یہ عشق کا ایک طوفان ہے، اس کے ساتھ وہ بھی موجود ہے جس کی وجہ سے انسان ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں یہ نہ ہو جائے، کہیں یہ نہ ہو جائے کہیں، یہ بات ہوتی ہے۔
یہ دھوتے رہتے ہیں دل کو جب آنسو بہتے ہیں ان کے
زبان حال سے یوں عشق کا دم بھرتے رہتے ہیں
جو اللہ کی یاد میں رو رہا ہوتا ہے، اس کا دل ہلکا ہو رہا ہوتا ہے، ہلکا ہونے سے مراد کیا ہے؟ وہ جو گناہوں کی کثافتیں اس کے دل پہ آچکی ہیں، وہ ساری دھلتی رہتی ہیں، دل صاف ہوتا رہتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ گنہگار آدمی جب توبہ کے آنسو بہاتا ہے، تو اس سے دل کیسے صاف ہوتا ہے، کتنا ہلکا ہوتا ہے، ہر ایک کو پتا ہے، تو پھر اس طریقے سے جو انسان عاشق ہے، جو غلطی ہوئی ہے اس کا احساس کرکے وہ روتا ہے، گویا کہ اللہ کے ساتھ عشق کا دم بھرتا رہتا ہے۔
مقام جانے گا ان کا کیا کوئی شبیرؔ دیکھو نا
یہ دوست کا راز رکھنے کے لیے سنبھلتے رہتے ہیں
جو غیر اختیاری طور پر ان کے آنسو بہیں یا غیر اختیاری طور پر کچھ زبان سے بات نکلے تو ٹھیک ہے، وہ اختیاری طور پر بڑے controled رہتے ہیں، کیونکہ ان کو راز جو رکھنا ہے۔
یہ تو ہے انفرادی طور پر عاشق کا حال، اب جب جمع ہوں تو پھر کیا ہوتا ہے؟
سوختہ دل اس کی محبت میں جمع ہوتے ہیں جب
ایک ہی فکر میں مشغول ہو کے روتے ہیں سب
دل کی دنیا کی ہوں باتیں اور اس کی یاد بھی ہو
دوسری دنیا کی جو فرصت ہے ان کو ہوتی ہے کب
نظر اس پر لبِ گریاں دل عشق سے سرشار
مانگتے ایسے ہیں ہوتے ہیں جیسے جان بلب
شور اذکار کا پر لطف نظارہ بھی ہو
دل جلا جاتا ہے ہوتا ہے مگر پاسِ ادب
پاس ان کے جو ہیں بیٹھے وہ بھی محروم نہیں
ڈھونڈ شبیرؔ انہیں بغیر کسی نام و نسب
ہمارے صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء کا لاہور کا جب اجتماع ہوا تھا، اس وقت یہ اشعار میں نے کہے تھے، مطلب یہ ہے کہ حالت یہی ہوتی ہے، ظاہر ہے جب اللہ والے ملتے ہیں تو ان کے تذکرے کیا ہوتے ہیں، ان کی باتیں کیا ہوتی ہیں، پھر وہ سوچتے کیا ہیں؟ پھر کرتے کیا ہیں؟ یعنی اس نظم کے اندر ایک نقشہ ہے کہ جب عشاق جمع ہوتے ہیں تو ان کے حالات کیسے ہوتے ہیں۔ اب اگر اس کے بارے میں کوئی سوال ہے تو کر لیں۔ آ پ کو material تو مل گیا۔
یہ حسن اتفاق سے بالکل آمنے سامنے آ گیا۔ میں نے اس کی planing اس طرح نہیں کی تھی، لیکن آیا ہے۔ اس کو میں کہتا ہوں کہ یہ الہامی چیزیں ہیں، الہامی چیزوں میں اللہ تعالی اس کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے بعد جو آیا ہے وہ بھی ذرا سن لیں۔
دنیا کی بھی محبت ہوتی ہے، اس کے بھی چرچے ہوتے ہیں، اس کے بھی حالات ہوتے ہیں، اور بڑے نخرے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ کبھی funtions میں جمع ہو جائیں مثلا بڑے جرنیل اور یہ کرنل اور یہ بریگیڈیئر اور سیکریٹری اور اس قسم کے لوگ جب جمع ہوتے ہیں تو دیکھیں کیا کرتے ہیں، ہر ایک اپنا اپنا ایک circle بنا رہا ہوتا ہے، ہر ایک اپنے طور پہ مل رہا ہوتا ہے۔ اپنے نفس کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں، دوسرے کا بھی نفس ہوتا ہے، لہٰذا کسی کی بھی satisfaction نہیں ہوتی۔ ہر ایک tension میں ہوتا ہے، ہر ایک چاہتا ہے کہ مجھے لوگ بڑا سمجھیں، تو سب یہی چاہتے ہیں۔ لہٰذا پھر کیا ہوتا ہے؟ تکبر کی، انانیت کی ایک فضا ہوتی ہے، اس کی گھٹن انسان محسوس کر سکتا ہے، اگر کوئی سمجھنے والا ہو۔
”دنیا اور اس کی محبت“
پائے دنیا سے بھی وفا کوئی
مجھ کو ایسا نہیں ملا کوئی
اس کے ہاں کتنی قدر دانی ہے
اس پہ ہو جائے تو فدا کوئی
اس کے غم نے کیا ہے سب کچھ صاف
اس کے ساتھ اگر لگ جائے آدمی
جیسے اب غم نہیں رہا کوئی
اس کے در پر میں رکھوں اپنا سر
اور پھر کہوں اور کرے کیا کوئی
واسطے اس کے ہی ہم آئے ہیں
کرے نہ کام یہ بھی بھلا کوئی
اس پہ پڑ کر ہی نظر پاک ہوئی
اثر اس کا جو ہے جدا کوئی
میں زباں پر نہ اس کا نام لوں کیوں
کچھ بھی ہو اس کا حق ادا کوئی
دل سے دیکھوں شبیر میں اس کی طرف
اور تو بس کام نہ ہو میرا کوئی
دنیا کیا ہے؟
یہ جو دنیا ہے محنت کی جگہ
اچھے کاموں کی ہے ہمت کی جگہ
مزے یہاں کہاں، وہاں ہیں صرف
جو لوگ مزے یہاں ڈھونڈتے ہیں، رگڑے کھائیں گے۔
مزے یہاں کہاں وہاں ہیں صرف
یہ تو ہے بس استقامت کی جگہ
دنیا کی محبت پھر کیا ہے؟
ہے جڑ سب خطاؤں کی یہ دنیا کی محبت
کنجی ہر سعادت کی ہے اللہ کی محبت
دنیا کی محبت کا گلا گھونٹ دے شبیرؔ
راسخ ہو دل میں تیرے پھر خدا کی محبت
یہ جو پہلا مصرعہ ہے یہ حدیث شریف کے الفاظ ہیں۔ "حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ"
اب شیخ کے ساتھ کیا تعلق ہوتا ہے، شیخ کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور اس کا تعلق کیا ہے؟ یہ سمجھ لیں۔
نظر آئے شیخ جب تجھے سوچتا ہوں
تو یاد آئے اس کو جو میں دیکھتا ہوں
جب میں تجھے سوچتا ہوں تو مجھے پتا چلتا ہے کہ مجھے شیخ کے پاس جانا چاہیے، راستہ وہ بتائے گا اور جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو مجھے تو یاد آ جاتا ہے۔ یہ فیکٹ ہے یا نہیں؟ درمیان میں کوئی اور بات ہے؟
میرا شیخ مجھ کو تجھی سے ملا دے
میں عاشق ہوں تیرا تجھی کو میں چاہوں
شیخ ذریعہ ہے تیری محبت کا
میرا شیخ مجھے دیکھ کر مسکرائے
وہ خوش دیکھ کر یہ کہے کہ میں بھی تیرا ہوں
اب یہ ایک کیفیت ہے جو ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی ہے، لیکن جس کو حاصل ہوتی ہے تو یہ ایک حقیقت ہے، وہ کیا ہے؟
یہ دل کا تعلق ہی ہے اس کے دل سے
جدھر بھی وہ جائے تو میں بھی وہاں ہوں
اب کیا بات ہے؟
میں اُن میں فنا ہو کے تجھ ہی کو دیکھوں
کہ نقش قدم پہ میں ان کے چلا ہوں
محبت میں شیخ کے ہوا تیرا شبیرؔ
فنا ہو کے اس میں میں تجھ پر مٹا ہوں
یہ اصل میں بہت complicated چیز تھی، اللہ تعالی نے اس کے ذریعہ بہت آسان کر دی۔ لوگوں کو اس کو سمجھنے میں بڑے اشکالات ہوتے ہیں، بڑی پریشانیاں ہوتی ہیں، لوگ کہتے ہیں بھائی یہ کیسے ہوتا ہے؟
مجھ سے ایک عرب صاحب نے کہا کہ میں اللہ اور اپنے درمیان کسی اور کو نہیں لاتا۔ اس کے لیے یہ بات ذرا تھوڑی سی مشکل تھی۔ تو میں نے عرض کیا بھائی اتنا آگے نہ جاؤ، پھنس جاؤ گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو درمیان میں ہیں ہی، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر آپ اللہ تعالیٰ سے کچھ لے سکتے ہیں؟ آپ کے پاس کوئی اور راستہ ہے؟ وہ چیز آپ ڈائریکٹ تو نہیں کر سکیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو کم از کم ہیں۔ لہٰذا پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق ہو گا پھر اللہ تعالی کے ساتھ تعلق بنے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق بنانے کے لیے اگر شیخ کا تعلق آ جائے تو مجھے بتاؤ اس میں پھر آپ کا کیا حرج ہے؟ justification تو ہو گئی۔ اس لیے کہتے ہیں "فَنَا فِی الشَّیْخ" "فَنَا فِی الَّرسُوْل" اور "فَنَا فِی اللہ" یہ تینوں چیزیں کڑیاں ہیں۔
ایک عاشق کے دل کی چسک ہے۔
ذکر سے تیرے زباں میری ہمیشہ رہے تر
اور تیرے در پہ خدایا پڑا رہے میرا سر
اپنا دل تجھ کو خدایا میں اس میں پیش کروں
(تیرے سامنے جو پڑا ہوں میں کیا کروں؟ اپنا دل تجھ کو پیش کروں)
اپنا دل تجھ کو خدایا میں اس میں پیش کروں
اور اس کے نور سے روشن ہو میرا قلب و نظر
میں تجھ کو یاد کروں اور خود کو بھول جاؤں
جگمگا اٹھے تیری یاد سے میرے شام و سحر
شوق سے پڑھتا رہوں تیرا الٰہی میں کلام
(قرآن پاک کی تلاوت)
اور میرا دل ہو ہمیشہ یا الٰہی تیرا گھر
لمحہ لمحہ اور بال بال پیسہ پیسہ میرا
کروں قرباں میں تیرے واسطے پھروں نگر نگر
آنکھ کان اور زباں میں حیا شبیرؔ کے ہو
قلب پر نور ہو میرا اور زباں پہ ہو اثر۔
یہ جو انہوں نے کہا تھا که عشاق کو ان تمام چیزوں سے اب دل نہیں، تو اب دیکھیں کہ تہجد کے بارے میں کیا ہے۔
تہجد میں مانگو یہ وقت قیمتی ہے
کہ اس وقت مانگنے کی دعوت جو دی ہے
(تہجد کی نماز کیا ہے؟ خاص آواز ہے، اٹھو مانگو کیا مانگتے ہو، کس چیز کی ضرورت ہے۔)
جو تنگ ہو مرض سے ہو بیمار کوئی
کہیں بھی نہ ہو اس کی گر اشک شوئی
تہجد کے بعد گڑگڑا کے تو مانگے
کہ کتنوں کو راحت اسی سے ملی ہے
اور جو کہتے ہیں میں استقامت اللہ تعالی سے مانگتا ہوں تو اس وقت اٹھ کر اللہ تعالی سے مانگیں۔ کس نے روکا ہے، تہجد کے وقت اٹھ کے اللہ تعالی سے استقامت اعمال کی توفیق مانگیں۔
جو وقت دینے کا کوئی خود ہی بتائے
تو کیوں کوئی سائل نہ لینے پہ آئے
جو فرمایا خود ہے کہ ہے کوئی سائل
تو اس وقت مانگنا طریقہ صحیح ہے
ہوں سوئے ہوئے سارے تو ان میں جاگے
تو جو کامیابی ہے وہ تیرے آگے
تجھے پیارے رب نے کہا اٹھنے کو ہے
تو چھوڑے یہ نعمت یہ کیا سادگی ہے
تعلق خدا سے تو اس میں بنا دو
جہنم کی آگ سے تو خود کو بچا لو
ہمارے مسائل کا حل اس میں پنہاں
تقاضا محبت کا شبیرؔ بھی ہے