سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 195

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ أَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

کیا ہمارے سلسلے میں بھی نقشبندیہ سلسلے کی طرح وقوفِ قلبی کی طرح ہر وقت ذکرِ خفی کی دائمی کیفیت حاصل ہو سکتی ہے، یعنی ہر حال میں قلبی ذکر جاری رہے؟

جواب:

مختصر جواب یہ ہے کہ جی ہاں! اگر کسی کو حاصل ہو جائے تو یہ ممکن ہے۔ البتہ ذکر جاری ہونے کی دو صورتیں ہیں: لطائف، لطیفہ کی جمع ہے، لطیف باریک چیز کو کہا جاتا ہے جس کو عام طور پر آسانی کے ساتھ detect نہ کیا جا سکے۔ لہذا صحیح ذکر اس طرح ہوتا ہے کہ وہ عام حالات میں بھی جاری ہوتا ہے یعنی انسان کا دھیان اللہ کی طرف ہوتا ہے اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے۔ اصل اور حقیقی ذکر یہی ہے کہ انسان کا دھیان ہر چیز میں اللہ کی طرف ہو۔ جس وقت انسان گناہ یا خلاف اولیٰ کام کرے جس پہ تنبیہ مقصود ہو تو اس وقت یہ لطیفہ سے کثیفہ کی طرف چلا جاتا ہے یعنی sense ہونے لگتا ہے۔ اس وقت انسان کو معلوم ہونے لگتا ہے کہ میرا دل کچھ کہہ رہا ہے۔ یعنی اس سے پتا چلتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے۔ عموماً عام لوگوں کو دھوکہ ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ مجھےsense ہو رہا ہے تو شاید یہ اچھی حالت ہے۔ حالانکہ اصل دھیان یہی ہے کہ انسان کا دھیان اللہ کی طرف ہو یعنی اللہ سے ہر وقت ڈر رہا ہو اورتقویٰ کی کیفیت ہو،اور جس وقت انسان کسی طریقے سےحدود سے نکلنے لگے تو اس وقت اس کو Alarm کے طور پر indicate کروا دیا جائے کہ تم گڑبڑ کر رہے ہو۔ کثیف میں sensation ہوتی ہے، لطیف میں sensation بہت کم ہو جاتی ہے ہوتی ہے، اس کا مشاق لوگوں کو پتا چلتا ہے لیکن عام لوگوں کو پتا نہیں چلتا۔ ہمارے سلسلے میں یہ ہوتا ہے اگر کسی کو حاصل ہو جائے۔ در اصل ہمارے سلسلے کے اندر نقشبندی engraved ہے، اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ چشتیہ سے سبق شروع کروایا جاتا ہے اور یہ مراحل جب بہت تیزی کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں تو نقشبندیت کی جو چیزیں ہونے لگتی ہیں۔ یعنی ان میں کئی steps جو وہاں پر مستقل طور پرکرنے پڑتے ہیں وہ ذکر بالجہر سے طےہو جاتے ہیں اور اس کے بعد انسان کے true مراقبات چل پڑتے ہیں جن میں مراقبہ عبدیت اور مراقبہ حضوری ہے۔ ان کے علاوہ بہت ساری کیفیات اس میں آنے لگتی ہیں۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا دھیان حاصل ہو جائے کیونکہ یہی مطلوب ہے اور وہ اس میں حاصل ہو جاتا ہے۔

ایک نقشبندی سلسلے کے بزرگ تھے، انہوں نے مجھے یہ نقطہ بتایا تھا۔ کہنے لگے: کمال ہے، جب لوگ ذکر زیادہ محسوس کرنے لگتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ شاید یہ اچھی حالت ہے حالانکہ یہ اس وقت پتا چلتا ہے جب ہم گناہ کی طرف بڑھ رہے ہوں۔

سوال نمبر2:

حدیث جبرئیل میں ہے کہ کیفیت احسان کی تعریف یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ کی ذات کے بارے میں غور نہ کرو۔ جب اللہ کی مثل کوئی شے نہیں ہے تو اسے دیکھنے کا تصور کیسےکریں؟

جواب:

در اصل یہ کنفیوژن الفاظ کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ الفاظ اس طرح ہیں کہ”جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو“۔”جیسے“ میں کیفیت ہے، اس میں وہ ہے جو اصل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر میں کہتا ہوں کہ وہ ملازم ایسے کام کر رہا ہے جیسے اس کے سر پہ اس کا مالک کھڑا ہو۔ حالانکہ ضروری نہیں کہ مالک اس کے سر پر کھڑا ہو لیکن وہ ایسا کام کر رہا ہے جیسے وہ اس کے سر پر کھڑا ہوا ہے۔ یہ اس کی honesty کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جیسے کوئی کہے کہ ”وہ فلاں شخص کا اتنا خیال رکھتا ہے جیسے اپنے بیٹے کا خیال رکھتا ہے“۔ اس طرح کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حقیقت میں اس کا بیٹا ہے۔ ”جیسے“ کا لفظ تشبیہ ہے اور تشبیہ میں ضروری نہیں کہ exactly مماثلت ہو۔ جیسے ہم کسی کے بارے میں کہیں کہ وہ تو ایسے حملہ کرتا ہے جیسے وہ شیر ہے یا یوں کہیں کہ وہ شیر کی طرح حملہ کرتا ہے۔ اس سے وہ حقیقت میں شیر نہیں بن جاتا۔ اسی طرح حدیث کے جملے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی حالت ایسے ہو جیسے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے نصیب ہو گی۔ یعنی اعمال کے اندر تقویٰ اور خلوص اس کو اس تصور سے حاصل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا لیکن انسان کو حال بھی حاصل کرنا ہے، تقویٰ بھی حاصل کرنا ہے اور عمل بھی صحیح کرنا ہے تو وہ کیسے کرے؟ اسی کا یہ طریقہ ہے کہ اس کا تصور اتنا مضبوط ہو جیسے اس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اگر جنت اور دوزخ ہمارے سامنے آ جائیں پھر بھی ہمارے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ وہ چیز وہ پہلے ہی حاصل کر چکے تھے۔ یہاں اللہ کی ذات میں غور کرنے کے لئے نہیں کہا گیا۔ یہاں الفاظ ہیں:أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ ترجمہ: ”جیسا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے“۔ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ اگر یہ کیفیت تجھے حاصل نہیں ہے، فَإِنَّہٗ یَرَاكَ تو یہ یقینی ہے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ فَإِنَّہٗ یَرَاكَ میں ”جیسے“ نہیں ہے، یہ یقینی ہے، یعنی یہ نہیں ہے کہ جیسے وہ تجھے دیکھ رہا ہے، بلکہ یہاں تشدید ہے کہ تُو سمجھے یا نہ سمجھے وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ میرے خیال میں بات بے غبار ہو گئی ہے۔

سوال نمبر3:

کیا فوت شدگان کی ارواح سے روحانی استفادہ ہو سکتا ہے؟

جواب:

جی ہو سکتا ہے۔ ہمارے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی تالیف تاریخ مشائخ چشت صفہ نمبر 234 پر آخری ایام کے عنوان میں لکھتے ہیں: ”اعلیٰ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ ایک دن بعد نماز جمعہ میرے حضرت لوگوں کو وصیتیں فرمانے لگے، لوگوں نے سمجھا کہ حضرت سفر آخرت کرنے والے ہیں۔ میں نے نہایت رنج و غم کا اظہار کیا اور حضرت سے عرض کیا کہ ہم تو سمجھتے تھے ہمارے گھر میں دولت ہے، جب چاہیں گے مستفیض ہو جائیں گے۔ ارشاد فرمایا: گھروں میں میرے بہت سے احباب تمہارے پاس موجود ہیں ان کو میرا قائم مقام سمجھو۔ حافظ محمد ضامن صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت نے مجمع عام میں اپنا خلیفہ بنایا اور ضمناً ہم لوگوں کو بھی مجاز کیا۔ (ضمناً کا لفظ حضرت نے عاجزی کے طور پہ کہا) اس کے بعد حضرت بیمار ہوئے، آپ نے فرمایا کہ مجھے میرے وطن جنجھانہ لے چلو جب لوہاری صاحب کا میانہ (پالکی) تھانہ بھون پہنچا تو اسے مسجد کے پاس ٹھہرایا اور حضرت نے فرمایا تم مجرد تھے اور حافظ ضامن شہید ضامن صاحب اور شیخ محمد صاحب عیال دار، میرا ارادہ تھا کہ تم سے مجاہدہ اور مشقت لوں گا، مشیت باری سے چارہ نہیں پیام سفر آخرت آ گیا ہے۔ جب حضرت نے یہ کلمات فرمائے تو میں پالکی کی پٹی پکڑ کے رونے لگا، حضرت نے تسلی دی اور فرمایا کہ فقیر مرتا نہیں بلکہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال کرتا ہے، فقیر کی قبر سے وہی فائدہ ہو گا جو ظاہر زندگی میں ہوتا تھا۔ بالآخر اٹھاون سال کی عمر میں 4 رمضان مبارک 1269ھ کو جمعہ کے روز آپ نے انتقال فرمایا“۔ حضرت نے اس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے البتہ لوگ اس میں گڑبڑ کر سکتے ہیں۔ بزرگوں سے فیض لینے کا طریقہ جاننا پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کی قیود و حدود کو بھی سمجھنا پڑتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ صاحب نسبت کو فائدہ ہوتا ہے جو صاحب نسبت نہیں ہوتا اس کو نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک signal موجود ہو اور اس کو amplify کیا جائے۔ مثال کے طور پر میری آواز آپ تک پہنچ رہی ہے اور یہ internet کے ذریعے سے پوری دنیا میں بھی پہنچ رہی ہے حالانکہ میری آواز میں تو اتنی طاقت نہیں تھی کہ پوری دنیا میں پہنچ جائے، یہ تو اس مکان سے بھی باہر نہیں جا سکتی لیکن یہاں ایک system ہے جس کے ذریعے اس کے اندر اتنی طاقت آ گئی ہے کہ پوری دنیا میں ایک خاص طریقے سے سنی جا سکتی ہے۔ اسی طریقے سے اگر کسی کو نسبت حاصل ہو چکی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ signal موجود ہے اور اس signal کو بزرگوں کے مزارات سے استفادے کر کے مزید strengthen اور amplify کیا جا سکتا ہے۔ یہ نسبت وہی رہتی ہے، یہ تبدیل نہیں ہوتی لیکن اس کو مزید طاقت دی جاتی ہے۔ ہمارے فوت شدہ اکابرین پر چونکہ سارے حالات گزر چکے ہوتے ہیں اس لئے ان کے جذبات ویسے نہیں ہوتے جیسے ہمارے جذبات ہوتے ہیں، وہ سب کچھ سمجھ چکے ہوتے ہیں لہذا وہ کسی کے کام میں ہاتھ نہیں ڈالتے البتہ اگر وہ اس کو مضبوط کر سکتے ہوں تو مضبوط کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی چشتی ہے تو اسے چشتی ہی رہنے دیں گے، کوئی نقشبندی ہے تو اسے نقشبندی ہی رہنے دیں گے، کوئی سہروردی ہے تو اسے سہروردی ہی رہنے دیں گے لیکن اپنی نسبت کی قوت کے ساتھ اس کو مزید strong کر دیں گے۔ یہ چیز ممکن ہے اور اسی کو استفادہ کہتے ہیں۔

حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے چلہ کاٹنے کے بعد جو کہا تھا کہ ”ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما“ یہ اصل میں یہی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وہاں کے لحاظ سے جو قوت دی ہے اس کے ذریعے سے اس قوت کو مزید بڑھایا جاتا ہے۔ بعض لوگ فیشن کے طور پر دیکھا دیکھی آگے پیچھے ہو جاتے ہیں اور کچھ گڑبڑ کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے، یہ ظاہری چیزیں نہیں ہیں بلکہ یہ باطنی چیزیں ہیں اور باطنی نظام کے تحت کام کر رہی ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں اسباب ہیں اور اسباب کے ذریعے سب کچھ چلتا ہے اس طرح وہاں پر بھی باطنی اسباب ہیں اور ان باطنی اسباب کے ذریعے یہ سب کام ہوتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شاہ رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے صاحب کشف تھے، ایک مرتبہ وہ جا رہے تھے، ان کے ساتھ کچھ طالب علم تھے اور میں بھی ساتھ تھا۔ حضرت ایک بزرگ کے مزار پہ بیٹھ گئے اور مراقب ہو گئے۔ ساتھ یہ طالب علم بھی مراقب ہو گئے۔ کہتے ہیں میں نے ان کو دو دھول رسید کیے کہ وہ آنکھ تو تمھاری بند ہے تو یہ کیوں بند کر دی؟ یعنی وہ چیز تمہیں تو حاصل نہیں ہے اور تمہیں نہیں پتا کہ کیا ہو رہا ہے تو پھر یہ آنکھ کیوں بند کر دی؟ اس کے اندر ایک تعلیم ہے کہ ہر کس و ناکس یہ کوشش نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس کے لئے یہ آنکھ کھولی ہے وہی یہ کام کرے۔

اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ چاہے کوئی نظر آئے یا نا آئے، نہ نظر آنا ضروری نہیں ہے، کیفیت اس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ لہذا کوئی صاحب نسبت جب گزرتا ہے تو وہ اس کو sense کروا دیا جاتا ہے۔ یا sense نہ کروایا جائے تب بھی وہ چیز ان کو مل جاتی ہے اور ان کی وہ کیفیت strong ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ من جانب اللہ ہوتا ہے لہذا اس لحاظ سے ہمیں غیر مقصود چیزوں پر زیادہ زور نہیں لگانا چاہیے۔ ہمارا کام تو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے اگر ہم اس مقصد کے ساتھ مخلص ہیں، تو اللہ تعالیٰ کے پیدہ کردہ جتنے اسباب ہیں اور ذرائع کائنات میں بکھرے ہوئے ہیں ہمیں ان سے فائدہ ہوتا رہے گا اور وہ چیز حاصل ہوتی رہے گی۔ لہذا ہمیں اپنے مقصود کو دیکھنا چاہیے، اگر ہمارا مقصود ٹھیک ہے تو اس کے بعد بے شمار وسائل ہیں، وسائل میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ہمارا مسئلہ مقصود میں ہے کہ مقصود ہمارا صحیح ہو جائے پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی جگہوں تک پہنچا دیں گے، ایسے حالات بنا دیں گے اور ایسی کیفیات بھیج دیں گے جن کے ذریعے ہماری روحانی ترقی ہوتی رہے گی بشرطیکہ موانع نہ ہوں۔ انسان موانع سے بچے تو ان شاء اللہ معاملہ چلتا رہے گا۔

سوال نمبر4:

ختم خواجگان میں بزرگوں کی ارواح حاضر ہوتی ہیں؟

جواب:

اس کے بارے میں ہم نے نہ کسی سے سنا ہے نہ اس کے بارے میں ہم کچھ کہہ سکتے ہیں۔ ہم اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ارواح کو کسی بھی جگہ بھیج سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے چلتی ہیں، وہاں کے نظام میں اسباب ہی مختلف ہیں لہذا اگر اللہ تعالیٰ کسی کے پاس کسی کی روح بھیج دیں تو اس سے انکار نہیں ہے لیکن ہم نے اس کے بارے میں ختم خواجگان کی مناسبت سے کوئی بات ابھی تک نہیں سنی کہ وہاں کوئی ارواح آتی ہوں یا اس میں شامل ہوتی ہوں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ کچھ مناسبتوں کے حساب سے کبھی کبھی ایسی بات ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کی مناسبت جس بزرگ کے ساتھ ہو اس کی روحانی قوت اس کی طرف جب متوجہ ہوتی ہے تو بعض لوگ مکشوف ہونے لگتے ہیں جیسے وہ بزرگ ادھر موجود ہیں۔ وہ ان کی مثالی صورت ہوتی ہے، حقیقی صورت نہیں ہوتی۔ جیسے ٹیلی ویژن میں ایک شخص کی صورت کئی جگہوں پر ایک system کے تحت نظر آ سکتی ہے تو اسی طرح کسی کی بھی مثالی صورت ہزاروں جگہ پر نظر آ سکتی ہے جہاں جہاں اس کی نسبت چل رہی ہو گی۔ چونکہ اس کا فیض ادھر موجود ہوتا ہے تو صاحب کشف کے لئے وہ فیض اس بزرگ کی صورت میں متمثل ہو جاتا ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اسے دیکھ رہا ہے اور وہ وہاں موجود ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے اندر حیوانی جبلتیں ہیں مثلاً نعوذ باللہ من ذالک کسی پر سور پنا زیادہ غالب ہو مثلاً زانی ہو یا کوئی اس قسم کی بات ہو بے غیرت ہو تو وہ اہل کشف کو سور کی صورت میں نظر آتا ہے اور کسی پر حرص کا زیادہ غلبہ ہو تو اس کو چوہے کی صورت میں نظر آتا ہے اور کسی کے اوپر سوال کا غلبہ زیادہ ہو تو وہ بلی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ وہ بلی نہیں ہوتا لیکن اہل کشف کو اس صورت میں نظر آتا ہے۔ اسی طریقے سے اگر کسی کو کسی جگہ سے فیض مل رہا ہے تو بعض اہل کشف کو ایسے نظر آتا ہے جیسے وہ صاحب ادھر موجود ہیں۔

اس پر غالبًا ”ارواحِ ثلاثہ“ میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بہت عجیب واقعہ لکھا ہے کہ دیوبند میں ایک طالب علم تھے، جو پڑھائی میں اتنے اچھے اور intelligent نہیں تھے، ہر بار مشکل سے ہی پاس ہوتے تھے۔ لیکن بہرحال نیک انسان تھے اور ان میں اخلاص بھی تھا۔ جب تعلیم سے فارغ ہو گئے تو اپنے علاقے چلے گئے، وہاں کے لوگ بہت سیدھے سادے تھے، انہوں نے شیخ چلی کی طرح بڑی امیدیں باندھی ہوئی تھیں کہ ہم نے اپنے طالب علم کو دیوبند بھیجا ہے وہ عالم بن کے آئے گا تو یہاں خوب مناظرے کرے گا۔ جس تاریخ کو انہوں نے وہاں پہنچنا تھا، اس دن ان لوگوں نے مخالفین کے ساتھ با قاعدہ مناظرہ طے کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ جیسے ہی پہنچے تو لوگ بہت خوش ہوئے اور ان کو بتا دیا کہ یہ لوگ ہمیں بہت تنگ کرتے تھے، ہم نے کہا کہ ہمارا لڑکا دیوبند سےعالم بن کر آ رہا ہے، وہ آپ کے ساتھ مناظرہ کرے گا۔ یہ بات سن کر ان کے تو ہوش خطا ہو گئے کہ یا اللہ! یہ کیا مصیبت آ پڑی ہے، مجھے تو اپنا سبق یاد نہیں ہے اور یہ لوگ مجھ سے مناظرہ کروانا چاہتے ہیں جو میں جانتا ہی نہیں، نہ مجھے اس کے ساتھ مناسبت ہے۔ اب کیا ہو گا۔ لیکن لوگوں نے اصرار شروع کر دیا کہ ہم نے تو طے کیا ہوا ہے اس لئے وہ تو اب کرنا ہی ہو گا۔ یہ خاموش رہے اور اللہ تعالیٰ سے خیر مانگتے رہے۔ چنانچہ ایک دن مناظرے کا میدان سج گیا اور مخالفین اپنی ساری کتابیں لے آئے۔ جس وقت یہ پریشان ہو کر ان کے سامنے بیٹھے تھے، اسی وقت ایک بزرگ سادہ دیہاتی کی صورت میں آئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے اور ان سے کہا کہ گھبراؤ مت، ان کے تمام سوالوں کا جواب میں دوں گا پروا نہ کرو۔ ان کی اس بات سے مولانا کو تسلی ہوئی اور وہ بیٹھ گئے۔ اب وہ سوال کرتے اور ادھر سے وہ بزرگ ان کے کان میں اس کا جواب دے دیتے۔ لوگوں کو وہ بزرگ نظر نہیں آ رہے تھے، ان کو یہی لگا کہ ان سوالوں کے جواب وہ اپنی طرف سے دے رہے ہیں۔ جب سب سوالوں کے مسکت جواب آنے لگے تو وہ لوگ تین چار سوالوں میں ہی ڈھیر ہو گئے کہ یہ تو بہت بڑا علامہ ہے۔ سب ان کے پاؤں پڑ گئے کہ حضرت! ہمیں پتا نہیں تھا کہ آپ بہت بڑے عالم ہیں، ہم توبہ کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر ان کے ہاتھ پہ توبہ کر لی اور پورے گاؤں میں ان کی دھوم مچ گئی اور یہ بہت بڑے علامہ declare ہو گئے۔ کیونکہ سب لوگ ان سے اتنے مطمئن ہو گئے تھے۔

ایک مرتبہ ان کے زمانہ طالب علمی کے class fellow دوست اس راستے سے گزر رہے تھے، انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس طرف ہمارا ایک سادہ سا class fellow رہتا تھا، خبر نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جب وہاں جا کر کسی سے ان کا نام وغیرہ بتا کر پوچھا کہ اس طرح کے کوئی مولوی صاحب ادھر ہیں؟ تو وہ شخص بہت غصے ہوا کہ وہ بہت بڑے علامہ ہیں اور آپ ان کا نام اس طرح بے ادبی سے لے رہے ہیں۔ وہ ہمارے سرتاج اور سر تاج العلماء ہیں۔ انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ بندہ ہمارے ساتھ مذاق کر رہا ہے کیونکہ وہ تو بہت سادہ سا مولوی تھا۔ خیر! ہم اس کے ساتھ چل پڑے کہ کم از کم ملاقات تو ہو جائے گی۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ مولانا تو واقعی بڑی شان اور کروفر کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ لوگ ان کے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں۔ سوچنے لگے کہ ان لوگوں کی بات تو بالکل ٹھیک ہے۔ خیر! وہ مولانا ان سے بڑے تپاک سے ملے کہ class fellow تھے۔ وہ سب ان کو حیرت آمیز نظروں سے دیکھ رہے، انہوں نے ان کی حیرت بھانپ لی اور اپنے تخلیہ میں لے جا کر دروازہ بند کر دیا اور پوچھا کہ حیران مت ہوں، میں وہی ہوں، مجھے کچھ نہیں آتا اور یہ جو دیکھ رہے ہو یہ اللہ کا فضل ہے، یہ میرا کام نہیں ہے اور میرے ساتھ اس طرح واقعہ ہوا ہے۔ ان کو سمجھ آ گئی کہ واقعی اس کے ساتھ یہ عجیب بات ہوئی ہے، انہوں نے دیوبند جا کر وہاں شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ سے ساری صورتحال ذکر کی۔ حضرت نے فرمایا کہ ان کو بلاؤ، بلایا گیا تو ان سے شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ ان بزرگوار کا حلیہ بتاؤ جنہوں نے آپ کے کان میں سوالات کے جوابات دیے تھے۔ انہوں نے جو حلیہ بتایا تھا وہ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی روح تھی۔ کیونکہ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بالکل اسی صورت کے دیہاتی تھے مگر ذہانت اور فطانت میں حضرت کا بہت اونچا مقام تھا۔ وہ صحیح معنوں میں علامۃ الدہر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نسبت کی لاج رکھ لی کیونکہ وہ محض نام کے دیوبندی نہیں تھے بلکہ مخلص تھے۔ نتیجتًا اللہ کی طرف سے مدد ہوئی اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی روح کو وہاں پر بھیج دیا۔ اور اس کی صورتحال اس طرح اس لئے ہوئی کہ کہیں وہ ڈر نہ جائے۔ یہ واقعہ ارواح ثلاثہ میں موجود ہے۔ اس طرح بارہا واقعات ہو چکے ہیں اس لئے ان پہ حیرت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ سارا کام اللہ ہی کرتے ہیں، انسان نہیں کر سکتا۔ جس وقت انسان اس بات کو بھول جائے کہ اللہ کر سکتا ہے تو وہ مشرک بن جاتا ہے۔ اور جس وقت انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ تو اللہ ہی کرتا ہے تو اس کی حیرت ختم ہو جاتی ہے۔ جیسے سائنسدان چیزوں کو discover کرتے رہتے ہیں تو اندر ہی اندر حیران ہوتے ہیں کہ یہ چیز تو اس طرح ہو رہی ہے، جس طرح سائنس میں حیرتوں کے پہاڑ ہیں اس طرح یہاں پر بھی حیرتوں کے پہاڑ ہیں کیونکہ یہاں کا نظام ہی الگ ہے، یہاں براہ راست سب کچھ ہوتا ہے۔ وہاں اسباب کی دنیا ہے یہاں پر مسبب الاسباب کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ چاہے اس طریقے سے کر سکتا ہے۔ لیکن صرف Reference صحیح جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اس سے نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ جتنے بھی شرک پھیلے ہیں وہ اصل میں انہی وجوہات سے پھیلے ہیں کہ وہ اصل بات کو سمجھ نہیں پاتے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک مظہر ہے لہذا وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اس مظہر کو پوجنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظہر کو پوجنا شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت توحید ہے۔ جس میں توحید ہے وہ پا لیتا ہے تو ما شاء اللہ اس کی توحید مزید مضبوط ہو جاتی ہے اور اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ ان کو ہوتا ہے جن کا معاملہ کمزور ہو۔

اور بعض لوگ جو ان چیزوں کی مخالفت کرتے ہیں وہ در اصل system کو نہیں سمجھتے۔ ہمارے ایک بزرگ ہیں، ہم ان کے مزار پہ گئے، ہمارے ساتھ ایک صاحب کشف بھی گئے تھے۔ میں خود صاحب کشف نہیں ہوں لیکن جو ہوتے ہیں ہم ان کا انکار نہیں کرتے۔ کشف کوئی محیر العقول چیز نہیں ہے۔ اس کا وجود ہے لیکن بہرحال ہمیں نہیں ہوتا کیونکہ ضروری نہیں ہے۔ بہرحال وہ صاحب کشف تھے، جب ہم وہاں پہنچے تو صاحبِ مزار نے سب سے پہلے ان کو واپس لوٹایا کہ پہلے مسجد جاؤ وہاں دو رکعت نماز اور سورۃ یٰسین شریف پڑھ کر مجھے ان کا ایصال ثواب کرو اور اس کے بعد میرے پاس آؤ انہوں نے جب ہمیں بتایا تو ہم نے بھی دو رکعت اور سورۃ یٰسین شریف پڑھ لی۔ کیونکہ ہم نے سوچا کہ جب ان کو کہا ہے تو ہمارے لئے بھی یہی حکم ہو گا۔ جب ہم دوبارہ مزار پر پہنچے تو ان صاحب نے اس بزرگ کے مزار سے انہیں کہا کہ آپ مجھے کچھ دے دیں۔ وہ چونکہ میرے مرید تھے، تو انہوں نے ڈانٹ کر کہا کہ تمھارے پاس تمھارا منبع موجود ہے، ان سے لو مجھ سے کیوں مانگتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تمہیں ہر چیز اس کے ذریعے دے رہا ہے تو تم کیوں میری طرف متوجہ ہو رہے ہو۔ اب دیکھیں کہ یہ بزرگ نظام میں دخل نہیں دیتے۔ میں کوئی ان سے بڑا نہیں تھا، مجھے پتا ہے کہ میں کون ہوں لیکن یہ ایک نظام اللہ پاک نے چلایا ہوا ہے کہ وہ حضرات فوت شدہ ہیں اور یہاں زندوں کا نظام چل رہا ہے اور تربیت زندہ کرتے ہیں۔ اگر تربیت فوت شدہ کرتے تو کسی پیر کی ضرورت نہیں تھی، آپ ﷺ کی روح مبارک کی موجودگی میں کس پیر کی موجودگی کی ضرورت نہیں تھی۔ چونکہ اللہ پاک نے یہ نظام چلایا ہوا ہے اس لئے اس کی قدر بھی کرواتے ہیں۔ وہ حضرات اس چیز کو زیادہ جانتے ہیں لہذا وہ با قاعدہ اس کی قدر کرتے ہیں اور ان کو اسی کی طرف ہی واپس بھیجتے ہیں جہاں سے ان کو چیز مل سکتی ہے۔ اگر کوئی یہ چیز شیخ سے حاصل کر رہا ہے تو اس کو مقصود حاصل ہے۔ دوسرا آدمی مزاروں کے پیچھے پڑ رہا ہے اور اپنے شیخ سے رابطہ نہیں ہے تو بتاؤ کس کو فائدہ ہو رہا ہے۔ جب اس قسم کی باتیں لوگ سیکھ جاتے ہیں تو ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ ایک بزرگ ہماری خانقاہ سراجیہ کے بڑوں میں سے تھے، وہ اپنے پیر صاحب کے پاس جا رہے تھے، پہاڑی سلسلے میں سفر کرتے ہوئے ایک پہاڑ سے اتر رہے تھے جیسے مری کے پہاڑوں میں سفر کرتے ہوئے آپ نے لوگوں کو دیکھا ہو گا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ جب وہ ایک پہاڑ سے اتر کر دوسرے پہاڑ پہ چڑھ رہے تھے تو ایک صاحب ملے اور ان سے کہا رک جاؤ، میں خضر ہوں، انہوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھے بغیر کہا کہ میرا خضر اُدھر بیٹھا ہوا ہے یعنی میرا شیخ ادھر بیٹھا ہوا ہے۔ جس وقت اپنے شیخ کے پاس پہنچے تو حضرت کو اس کی اطلاع ہو گئی تھی کہ ان کے ساتھ یہ واقعہ ہو چکا ہے اور وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ واقعی آپ کو توحید حاصل ہے۔ وہ test کر رہے تھے کہ ان کو توحید حاصل ہے یا نہیں۔ یہ بہت خطرناک امتحان تھا کیونکہ حضرت خضر علیہ السلام کے پیچھے تو لوگ بھاگتے رہتے ہیں اور وہ ان کو یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا خضر ادھر ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ اگر ایک انسان نظام کو سمجھ لے تو پھر اس کو کبھی confusion نہیں ہو گی لیکن جو نظام کو نہیں سمجھ پاتے وہ ہر جگہ در در ٹھوکریں کھاتے ہیں، ہر در پہ جھکتے ہیں اور بس پریشان ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کو اپنا مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ چونکہ نظام ایک ہی ہے لہذا کسی جگہ بھی ان کی پذیرائی نہیں ہوتی، اور جو اپنے نظام میں پکا ہو تو سب اس کی قدر کرتے ہیں۔ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جب میں گیا تھا تو صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً پہچان لیا کہ یہ کس کا ہے۔ اس وجہ سے حضرت نے مجھے اپنی طرف کبھی نہیں کھینچا بلکہ فرماتے تھے کہ مولانا صاحب نے یہ کہا ہے، مولانا صاحب نے وہ فرمایا تھا، مولانا صاحب کا اس میں یہ طریقہ تھا، الغرض میں جب بھی جاتا حضرت مجھ سے مولانا صاحب کی باتیں کرتے تھے اپنی باتیں نہیں کرتے تھے۔ ان کو اس نسبت کا پتا تھا کیونکہ میری اجازت میں بھی انہوں نے صاف لکھا ہے کہ مجھے آپ کی اشرفی نسبت کا پتا ہے۔ چونکہ ان کو پتا تھا کہ یہ اپنے شیخ کے ساتھ attached ہیں تو الحمد اللہ، جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاں ادھر مقدر کیا تھا وہ خود بخود بغیر کہے اور بغیر مانگے مل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں سے لکھا تھا وہاں سے دلوا دیا۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ تو اللہ دیتا ہے، انسان نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی کے ذریعے سے دلوا رہا ہے تو وہ خوشی خوشی دیتا ہے کیونکہ اس میں اللہ پاک کی چاہت ہوتی ہے۔ اس لئے جب انسان اس میں sincere ہوتا ہے اور اپنے شیخ کے ساتھ Attach ہوتا ہے یعنی اس کو وحدت حاصل ہوتی ہے تو اس کو ہر جگہ سے فائدہ ہوتا ہے اور اگر اپنے شیخ سے کٹ گیا توحضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ اس کے بارے میں بہت خطر ناک ہیں، آپ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ اللہ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کس گھاٹی میں اس کو ہلاک کر دے۔ بہتیروں کو اس طرح ہلاک ہوتے دیکھا ہے۔ آپ اندازہ کر لیں کہ کتنے سخت الفاظ ہیں۔ آپ نے امداد السلوک میں وحدت کے عنوان سے یہ بات فرمائی ہے۔ لہذا ہمیں system کو سمجھنا چاہیے، اپنے جذبات کو نہیں دیکھنا چاہیے system کی requirements کو دیکھنا چاہیے۔ اب system کی requirement کیا ہیں؟ مثلًا میں اس laptop سے system کی requirement کے مطابق ہی کچھ حاصل کر سکتا ہوں، اپنے جذبات کے مطابق حاصل نہیں کر سکتا۔ مثلًا جب میں اس کو آن کرتا ہوں تو یہ بہت Slow آن ہوتا ہے جب کہ میرے جذبات ہیں کہ فوراً کلک ہو کر آن ہو جائے لیکن اس کا system ایسا ہے کہ اس میں جو کچھ ہے اس کے مطابق ہی مجھے ملے گا۔ میں اس کے ساتھ اگر کچھ کروں گا تو اس کے system کے مطابق ہی کروں گا۔ اس کے software میں جو bugs ہیں ان کو میں remove کروں گا تو پھر یہ ٹھیک ہو جائے گا، محض اپنے جذبات کے ذریعے میں اس کو ٹھیک نہیں کر سکتا۔ لہذا اگر کسی کو کچھ ہے تو system کے مطابق کام کرے system کو بائی پاس کر کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم!

I am doing فرض prayers only, not سنت. I sometime limit وضو to فرض parts only while spending excess water on the فرائض I am on twenty second سپارہ my recitation ختم which I started رمضان. if I complete this ختم it will probably be my second and third in life reciting. I don’t recite the قرآن during regular life but listen to it a lot on mobile phone. I sometimes do eight تراویح and sometimes none. Only once I have done complete twenty a few days ago while in Peshawar after leaving. They were short تراویح I read religious books which I have at home very very inflict material The book included

کشف المعجوب ترجمہ مولوی فرید الدین نزہۃ البساطین، ملفوظات کمالات،اشرفیہ

I recently read more sections of مولانا عبید اللہ سندھی کی زندگی اور حالات which I gave you photocopy it has had a lot influence on my thinking.

جواب:

یہ کسی نے اپنےحالات لکھے ہیں،در اصل یہ صاحب بیمار ہیں اور بیماروں کے حالات بھی بیمار ہوتے ہیں لیکن ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بیماری کے حالات صحت مندی کے حالات سے زیادہ مقبول ہوں لہذا اس پر ہم کوئی negative comment نہیں کریں گے۔ لیکن اصل خوشی کی بات یہ ہے کہ ماشاء اللہ مشکل حالات میں بھی یہ کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ اور بیماری میں اس قسم کی چیزیں ہو جاتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ improvement ہو رہی ہے تو ان شاء اللہ العزیز آہستہ آہستہ یہ چل پڑیں گے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی بیماروں کا بڑا خیال رکھتے تھے، فرماتے تھے کہ بیماری میں جو کمی ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ پورا فرما دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ جو لوگ اپنی نارمل زندگی میں کچھ نیک اعمال کر رہے ہوتے ہیں تو اگر وہ بیماری کی وجہ سے رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو اتنا اجر عطا فرما دیتے ہیں۔ لیکن اس میں کچھ چیزیں discrepancies ہیں، ان کے بارے میں جب ان شاء اللہ ملاقات ہو گی تو میں clear کر دوں گا اور ان کے مطابق میں مشورہ دے دوں گا۔ چونکہ یہ ایک سپیشل خط ہے لہذا اس کو ہم شاید generally اتنا discuss clearly نہ کر سکیں لہذا اس کو اسی حال پہ چھوڑ دیتے ہیں۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم حضرت جی! ستائیس رمضان مبارک کو چاشت کے وقت خواب دیکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ بے پردہ حالت میں کہیں باہر جا رہی ہوں تو ایک ضعیف و معمرعورت ملتی ہے اور میرے ہاتھ میں موجود قرآن مجید کو بنا غلاف کے دیکھ کر تنبیہ کرتی ہے کہ غلاف چڑھا کے رکھو اور اس کے علاوہ نا محرموں سے بچنے کے لئےایک لمبا سا کلمہ بتاتی ہے جو مجھے بھول گیا ہے بس اتنایاد ہے کہ اس میں لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ آتا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ پورے خواب میں میں نے دیکھا کہ نا محرم نے مجھے بہت تنگ کیا حالانکہ میں نے وہ کلمہ ہر بار پڑھا تھا۔ آخر میں یہ بھی دیکھا کہ میں اپنی بہنوں کو بتا رہی ہوں کہ میں تو ہر بار وہ کلمہ پڑھتی ہوں لیکن یہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے، در اصل مجھ میں اخلاص کی بہت کمی ہے۔ اس کے بعدآنکھ کھل جاتی ہے۔ حضرت جی ایک یادہانی کروانی ہے کہ دو سال پہلے بھی میں نے بے پردگی کے خواب دیکھے تھے تو آپ نے تلقین فرمائی تھی کہ ’’اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم‘‘ ہر نماز کے بعد تین بار پڑھیں تو تب سے اس کا معمول ہے۔ میرا خیال ہے کہ خواب میں جو نا محرم مجھے تنگ کر رہا ہے وہ دنیا ہے جو خواب میں بہت بری طرح میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی اورمیں اس خواب کی وجہ سے بہت پریشان تھی اور اس وقت ذہن میں یہی آیا تھا۔

حضرت جی ذکر میں سزا کے دس دن اور بعد کا پورا مہینہ گزر گیا ہے اور الحمد للہ کوئی ناغہ نہیں ہے۔ لیکن دل پر کچھ محسوس نہیں ہوا۔یہ بتانا میرے لئے بے حد شرمندگی کی بات ہے کہ کیوں یکسوئی سے توجہ مرکوز کرنا بہت مشکل ہے، ذہن بار بار بھٹک جاتا ہے اور اللہ اللہ کے ورد سے دھیان ہٹ جاتا ہے۔

محتاج دعا۔

جواب:

ماشاء اللہ ! بہت اچھا ہے، در اصل خوابوں کی تعبیر ہر ایک کی جدا جدا ہوتی ہے لہذا یہ تعبیر میں ان کو بھیج دوں گا کیونکہ اس سے آپ لوگوں کا کوئی واسطہ نہیں ہے البتہ اس میں یہ بات اس نے واقعی بڑے پتے کی کی ہے کہ دنیا نا محرم ہے اور ہمیشہ تنگ کرتی رہتی ہے اور اس سے بچنے کے لئے توحید ہے جس میں لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ آتا ہے، یعنی اللہ پاک کا دھیان رہنا۔ یہی انسان کو اس سے بچا سکتا ہے کیونکہ دنیا میں لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ نہیں ہے بلکہ کلمہ میں لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان کسی بھی غیر مقصود چیز سے اپنی نظر کو ہٹائے اور صرف اللہ کی طرف نظر لائے، اس کا علاج یہی ہے۔ یہ کہہ رہی ہیں کہ یہ کلمہ میں نے پڑھا تھا لیکن پڑھے ہونے کے باوجود ایسا ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عمل تو شروع ہے لیکن وہ پوری طرح structured نہیں ہے، تو جیسے جیسے وہ structure ہوتا جائے گا تو اتنا اتنا اس کا اثر بڑھتا جائے گا اور پھر اس کو اس کے فائدے بھی حاصل ہوتے جائیں گے۔ اور اس معمر عورت کا یہ کہنا کہ قرآن شریف کو بنا غلاف نہیں رکھنا چاہیےتو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف ہدایت کی کتاب ہے تو اس کے لئے حفاظتی نظام ہونا چاہیے۔ اس کےنظام کی حفاظت ہو گی تو پھر کام ہو سکے گا۔ وظیفہ پورا ہو گیا ہے تو الحمد للہ! اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ باقی جتنی توجہ مرکوز ہو جائے اس پہ شکر کریں اور مزید کی کوشش کریں۔ جتنی آپ اس کے اوپر stress کریں گی تو اتنی ہی آپ کی توجہ مزید ہٹے گی۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی گاڑی کو ٹینشن میں چلائے تو گاڑی disturb ہو گی۔ اب اس کا کمال یہ ہو گا کہ اس کو اتنا کنٹرول حاصل ہو کہ وہ غیر محسوس طریقے سے وہ کر رہا ہو جو driving میں ہونا چاہیے، تب وہ صحیح اور perfect driving ہوتی ہے۔ یہ چیز حاصل کرنی ہوتی ہے۔ بیان بھی اس طرح نہیں ہوتا، اگر کوئی مسلسل ذہن پر زور دے گا تو وہ مزید ہٹتا جائے گا۔ نماز کے دوران میں ٹینشن لیتا تھا اور اس چیز پر کافی زور دیتا تھا جس کی وجہ سے بہت تھک جاتا تھا، ایک دفعہ میں نے حضرت کو اس کا بتایا تو حضرت نے فرمایا کہ ذہن کو پر سکون رکھا کرو۔ کچھ دن بعد میں نے حضرت سے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو relax کر لیا ہے اور اب وہ چیز حاصل ہونے لگی ہے۔ فرمایا اب ٹھیک ہو گیا۔ یہی بات ہےکہ اگر انسان اس میں focus کرنے کے لئے زور لگاتا ہے تو اس سے کام خراب ہو جاتا ہے۔ یہ ایک لمبا عمل ہے، آپ judge کرتے رہیں گے تو اس سے improvement ہوتی رہے گی اور آپ چلتے رہیں گے۔ یہ وہ تعجیل ہے کہ انسان result جلدی دیکھنا چاہتا ہے، اور نتیجتاً جب نہیں ہوتا تو مزید tension میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ جو ایک دوسرے کو اپنے حالات بتاتے ہیں، اس سے بھی بہت گڑبڑ ہوتی ہے۔ چونکہ ہر ایک کے حالات جدا جدا ہوتے ہیں تو جب کسی کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ فلاں کو اتنی جلدی یہ حاصل ہو گیا اور مجھے نہیں ہوا تو اس سے گڑبڑ ہوتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں دوسروں کو اپنے حالات نہ سناؤ، صرف شیخ کو سناؤ شیخ کا سینہ سمندر ہوتا ہے،اس کے اندر ہر ایک سما جاتا ہے لہذا اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن عام لوگوں کو مسئلہ ہوتا ہے۔ خدا کے بندو! ہر ایک کے لئے اپنا اپنا channel ہے، عین ممکن ہے تمہیں جو کوشش پر ملتا ہے وہ اس کو ملنے پہ اتنا نہ دیا جا رہا ہو۔ اللہ پاک کے ہاں اپنا اپنا نظام ہے۔ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ فوت ہو گئے، کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ حضرت !کیا ہوا؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بہت فضل کیا اور مجھے بہت کچھ دیا لیکن میرا پڑوسی مجھ سے آگے نکل گیا۔ پڑوسی عیال دار شخص تھا،وہ کہتا تھا اگر مجھے بھی موقعہ ملتا تو میں ابراہیم بن ادھم کی طرح یکسوئی کے ساتھ عبادت کرتا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اس تڑپ پر سب کچھ دے دیا۔

ایک مرتبہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نماز پڑھ کے آ رہے تھے تو دیکھا کہ ایک صاحب دوڑے دوڑے مسجد کی طرف آ رہے ہیں، قریب آ کر انہوں نے حضرت سے پوچھا کہ کیا نماز ہو گئی ہے؟ حضرت نے کہا کہ جی ہاں! نماز ہو گئی، تو کہا افوہ !میں نہیں پڑھ سکا۔یہ کہہ کر جب وہ مسجد کی طرف جانے لگے تو حضرت ان کے پیچھے ہو لئے، قریب جا کر کہا کہ بھائی! ایک سودا کرنا چاہتے ہو؟ میری جماعت کا ثواب آپ لے لیں اور "افوہ" کا ثواب مجھے دے دیں۔ تو اللہ کے ہاں بڑے عجیب نظام ہیں کیوں خواہ مخواہ اس میں مداخلت کر کے پریشان ہوتے ہو؟ لہذا کوشش جاری رکھو۔

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

tension نہ لو، کام کرو۔ tension سے مسائل حل نہیں ہوتے


یہ ایک غزل ہے جو آج کل میں ہوئی ہے:

نفس کا مارا ہوں، ہے دامن میرا تار تار بہت

دل بھی دنیا کی محبت سے ہے بیمار بہت


نفس و شیطان نے ہے ہر طرح سے گھیراؤ کیا

ان کے ہیں جال میں اس میں ہوں گرفتار بہت


اپنا ٹوٹا ہوا دل سامنے اس کے ہے رکھا

جانوں کہ اس کو ازل سے ہے ہم سے پیار بہت

یعنی چاہے ہم جیسے بھی ہیں، پھر بھی اللہ کے بندے ہیں اور ہمارا رشتہ اس کے ساتھ ہے لہذا ہم لوگ اسی reference سے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے حالات ٹھیک کروا سکتے ہیں۔

نفس و شیطان مجھ کو مایوس نہیں کر سکتے ہیں

پھر بھی اس کا ہوں گو انہوں نے کیا خوار بہت


دل کی آواز ہے توبہ سے اس کو راضی کروں

گو کہ آواز نہ نکلے ہوں شرمسار بہت


اس کا ہوں اس کو نہ چھوڑوں میں کسی حال میں شبیر

وہی کھینچے مجھے اس پہ ہے اعتبار بہت


نفس کا مارا ہوں ہے دامن میرا تار تار بہت

دل بھی دنیا کی محبت سے ہے بیمار بہت

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج کل کے حالات کے لحاظ سے جب کہ ہمارے اوپر نفس و شیطان کے جال بڑے سخت ہو رہے ہیں، ان میں بھی بجائے اس کے کہ ہم لوگ مایوس ہو جائیں اور کام ہی چھوڑ دیں، ہمارے پاس راستہ یہی ہے کہ ہم اللہ کی طرف بھاگیں، توبہ کر لیں، اللہ کو راضی کر لیں اور کام شروع کر لیں۔ اللہ پاک نے ہمیں بہت ساری نعمتیں دی ہیں، ان نعمتوں کا شکر ممکن نہیں ہے۔

شکر کرنا بھی میں چاہوں تو شکر کیسے کروں

نعمتیں گن نہ میں سکوں تو شکر کیسے کروں


میرا بال بال زباں بن کے کرے شکر اس کا

جب اس نعمت کو ہی دیکھوں تو شکر کیسے کروں


اپنے اعمالوں کو جب دیکھوں اس پہ ہی فضل اس کا

اور اس پہ بھی مزید لوں تو شکر کیسے کروں


خود حفاظت میں ہے رکھا اور سلسلہ اپنا

اس کی تائید سے چلوں تو شکر کیسے کروں


بڑا دربار ہے یا رب میں کہاں اور یہ کہاں

منہ اٹھا کر یہاں آؤں تو شکر کیسے کروں


یہی کم مائیگی شبیر کی قبول ہو بس

پھر بھی میں سامنے اس کا ہوں شکر کیسے کروں

اسی پر دوسری غزل ہے :

اپنے جذبات شکر کے ادا میں کیسے کروں

وہ جو دیتا ہے دما دم اس پہ چپ کیسے رہوں


وہ عنایات پہ عنایات ہی دیتا جائے

اور اس طرف یہ خطائیں ہیں تو اب کیا میں کہوں


سر میرا شرم سے جھکا اس کے سامنے

تو وہ ہے مالک میں ہوں بندہ پر میں بندہ تو بنوں


اس طرف سے حقیقت میں پیار کی باتیں

اس طرف باتیں ہی باتیں اور میں کیا کر سکوں


کاش دل سے جان لوں اس کو اور مان لوں اس کا

اس واسطے اس کے ہی محبوب کا دامن پکڑوں


زندگی اس میں ہی اپنی بس گزر جائے شبیر

کٹ کے تلوار سے عشق کی اس کی پھر اس سے ملوں


آج کل کے حالات کے لحاظ سے بہت اہم غزل ہے۔


کیا ہم دنیا میں بس کھانے کے لئے آئے ہیں

یا گلچھرے ہی اڑانے کے لئے ہی آئے ہیں


در اصل عید کا دن گزرا ہے اور اس دن یہی حالات ہوتے ہیں۔



پیسہ ہی پیسہ ہو مطلوب یہاں پر اپنا

کیا صرف مال کمانے کے لئے آئے ہیں


عارضی دنیا کی رنگینیوں میں کھو کے ہم

سر کیا اونچا ہی رکھنے کے لئے آئے ہیں


کفر نے کیا نہ کیا دنیا میں اسلام کے ساتھ

کیا ہم بس جان بچانے کے لئے آئے ہیں


ہاتھ چومتے ہیں خوشامد سے آج ان کے ہم

جو ہمیں آنکھیں دکھانے کے لئے آئے ہیں


بات سننا بھی گوارا نہیں افسوس ان کا

جو ہمیں رب سے ملانے کے لئے آئے ہیں


اللہ والوں سے ہو ملنا بھی تو دنیا کے لئے

کیا بس دنیا ہی بنانے کے لئے آئے ہیں


یہ سوالات ہیں سادہ مگر ہو غور ان پر

یہ دل میں دل کو ہلانے کے لئے آئے ہیں


کچھ کرو اس پہ زندگی کا کیا پتا ہے شبیر

یہ نہ ہو کہہ دیں بلانے کے لئے آئے ہیں


کیا ہم دنیا میں بس کھانے کے لئے آئے ہیں

یا گلچھرے ہی اڑانے کے لئے ہی آئے ہیں

در اصل تین جذبے انسان کو خراب کرتے ہیں: ایک یہ کہ پیسہ جمع کرنا مقصود ہو جائے، دوسرا یہ کہ انسان مزوں اور لذات کے اندر گم ہو جائے اور تیسرا یہ ہے کہ انسان اپنا سر اونچا رکھنے کے لئے اور اپنی میں کو بڑھانے کے لئے اپنی صلاحیتیں استعمال کرے۔ یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو انسان نہیں رہنے دیتیں، یہ انسان سے کچھ عجیب چیز بن جاتی ہے۔ اگر ان پہ کنٹرول کر لیا جائے تو کام بن سکتا ہے۔ ان پہ کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہو گئی ہے کہ کفر نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اتنے کام کئے ہیں اور ہم لوگ صرف رو ہی سکتے ہیں ان کے خلاف کچھ کر نہیں سکتے، اور بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ جو ہمیں خراب کر رہے ہیں ہم ان کے ہاتھ چومتے ہیں اور جو لوگ ہمارے مخلص ہیں ہم ان کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ دنیا اتنی ہمارے اوپر اتنی غالب ہو گئی ہے کہ اللہ والوں کے ساتھ اگر ملنا ہوتا ہے تو صرف دنیا کے لئے ہوتا ہے، دین اس میں بھی مقصود نہیں ہوتا اپنی دنیا کو بنانے کے لئے ان کے پاس جاتے ہیں، ہمارا ان کے ہاں اور کوئی کام نہیں ہوتا، یہ ہماری تباہی کی علامات ہیں۔ البتہ اگر ہم لوگ اپنے آپ کو پہچان لیں کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ ! اللہ تعالیٰ ہمارے حالات بدل دیں۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ