اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
حضرت آپ اکثر یہ دعا فرماتے ہیں کہ یا اللہ! اپنے حبیب کی معیت پاک میں اپنا دیدار پاک نصیب فرمائیں۔ حضرت اس دعا کا مفہوم کیا ہے؟
جواب:
اچھا سوال ہے۔ یہ ہمارے عقائد میں سے ایک عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے، فرمایا کہ تم اس طرح اللہ پاک کا دیدار کرو گے جیسے یہ چاند ہے،کوئی اس کے دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بن رہا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا دیدار وہاں نصیب ہو گا اور سب سے بڑی دولت بھی یہی ہو گی۔ جس وقت بہت ساری نعمتیں دی جائیں گی، اس کے بعد پوچھا جائے گا کہ اور کوئی چیز مانگتے ہو؟ لوگ حیران ہو جائیں گے کہ ہم اور کیا مانگیں، پھر علماء سے پوچھیں گے کہ اور کون سی چیز مانگنی چاہیے، علماء ان کو بتا دیں گے کہ ابھی دیدار نہیں ہوا۔ اللہ پاک کا دیدار بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
اور آخرت میں آپ ﷺ کا ساتھ بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ جس کو جس کے ساتھ محبت ہو گی وہ اسی کے ساتھ ہو گا۔ اگر آپ ﷺ کی محبت ہمیں حاصل ہو جائے تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہوں گے۔ اس صورت میں آپ ﷺ کا ساتھ بھی اور اللہ پاک کا دیدار بھی ہو رہا ہو گا، اس سے بڑی بات اور کیا ہو گی۔ اس لیے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں آپ ﷺ کی معیت میں اپنا دیدار ہمیں نصیب فرما۔
سوال نمبر2:
حضرت جی!
Kindly make it clear to me about تفویض. Is it اختیاری or غیر اختیاری if I verbally say
﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44)
about the present unpleasant situation but inside I feel restlessness, then will it be against تفویض?
جواب:
تفویض کا مطلب ہے اللہ پر سب کچھ چھوڑدینا۔ تفویض کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان کو بہت سکون ملے گا۔ بلکہ وہ تو اس کا سائیڈ ایفیکٹ ہے، مین ایفیکٹ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے کئے پر راضی ہو اور جو اللہ کا فیصلہ ہو اسے اپنے لیے بہتر سمجھے، یہ تفویض ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہونا دنیاوی اعتبار سے مشکل اور تکلیف کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً شعب ابی طالب میں آپ ﷺ کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ محصور ہونا خوشگوار تو نہیں تھا لیکن تفویض کے لحاظ سے ٹھیک تھا۔ طائف کے موقع پر آپ ﷺ نے یہی فرمایا تھا کہ اگر یہ سب کچھ آپ کی طرف سے ہے تو پھر مجھے کوئی پروا نہیں۔ یہی تفویض ہے کہ تکلیف تو ہو رہی تھی خون تو بہہ رہا تھا لیکن پھر بھی اللہ کی رضا میں راضی تھے۔
تفویض اختیاری ہے لیکن اس کا ثمر غیر اختیاری ہے۔ تفویض کے بعد انسان کا دل مطمئن ہو جانا اور کوئی غم نہ ہونا یہ غیر اختیاری ہے۔ عین ممکن ہے کہ انسان تفویض کر رہا ہو لیکن اس کو سکون کی کیفیت حاصل نہ ہو رہی ہو۔ اس میں یہ ضروری ہے کہ انسان کا اپنا ارادہ surrender کا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس نے surrender کیا ہے اور جو اللہ چاہتا ہے اس کی مرضی پر وہ مطمئن ہے، عقلی طور پر اتنا کافی ہے، یہی تفویض ہے۔
سوال نمبر3:
محترم شیخ صاحب! میں ایک عالم فاضل لڑکا ہوں لیکن عمل کے میدان میں بالکل ناکارہ ہوں، اللہ نے آپ کی مجلس میں شریک ہونے کی بھی توفیق دی ہے بہت ہی زیادہ فائدہ ہوا، سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے جاتے ہی حج کا ارادہ کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے قبول بھی فرما لیا امید ہے کہ ان شاء اللہ عنقریب روانگی ہو گی۔ آپ کی خدمت میں گزارشات ہیں۔
حضرت آپ سے درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے لیے اس حج کو آسان فرمائے۔ ایک روحانی بیماری میں ابھی تک مبتلا ہوں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بچا دے۔ حج جیسی مقدس عبادت کے لیے جا رہا ہوں حالت اتنی خراب ہے۔ مہربانی فرما کے مجھے کوئی ایسا علاج بتائیں کہ میں اس بیماری سے بچ جاؤں، سکون سے حج ادا کر سکوں۔ حج سے پہلے حقوق العباد پورے کرنے چاہئیں، اس کا کیا مطلب ہے۔ میں اپنے رشتہ داروں کو بتائے بغیر جانا چاہتا ہوں اس لیے کہ عبادت کے لیے جا رہا ہوں کیا ان کو بتانا ضروری ہے؟
میرے دو رشتہ دار مجھ سے ناراض ہیں ایک اس لیے کہ میں نے ان کے گھر میں شادی نہیں کی بلکہ ان کے بھائی کے گھر میں کی، اب وہ مجھ سے دلی طور پر خفا ہیں۔ دوسرا رشتہ دار اس لیے ناراض ہے کہ انہوں نے ایک گھر رشتہ کے لیے پیغام بھیجا تھا لیکن ان کو مناسب جواب نہیں ملا۔ جب میں نے بھیجا تو مجھے رشتہ مل گیا اب وہ مجھ سے ناراض ہیں کہ تم نے وہاں رشتہ کیوں بھیجا۔
اسکے علاوہ اکثر و بیشتر باتوں میں بہت سارے لوگوں اور رشتہ داروں کی غیبت ہوتی رہتی ہے ان سے معافی مانگنے کا پکا عزم ہے لیکن کیا ایسے موقعوں پر معافی مانگنا لازمی ہے، معافی کا کیا طریقہ ہے، کیا فون پر بھی معافی مانگی جا سکتی ہے؟
جواب:
دعا تو ہم کرتے ہی ہیں لیکن ان مسائل کے حل کے لیے اگر آپ بالمشافہ مل لیں تو بہتر رہے گا۔
جن کی غیبت کی ہو ان سے واقعی معافی مانگنا چاہیے لیکن معافی مانگنے کے لیے یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ میں حج پہ جا رہا ہوں، جتنوں سے ممکن ہے ان سب سے ملاقات کر لیں اور معافی مانگ لیں۔ ٹیلیفون پر بھی معافی مانگی جا سکتی ہے خط کے ذریعے بھی معافی مانگی جا سکتی ہے، ای میل کے ذریعے سے بھی معافی مانگی جا سکتی ہے۔ جس ذریعے سے بھی معافی مانگی جا سکتی ہو معافی مانگ لیں اور ان کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ میں حج پر جا رہا ہوں، معافی تو کسی بھی وقت مانگی جا سکتی ہے۔
غیبت کے بارے میں ان کو ساری باتیں بتانا ضروری نہیں ہے کہ میں نے آپ کی یہ یہ غیبت کی ہے، بس اتنا کہہ دینا چاہیے کہ کہا سنا معاف کردیں، میں بھی معاف کر تا ہوں۔ اس طریقے سے ان شاء اللہ معافی ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر4:
بعض اوقات ذکر کے دوران یا نماز کے دوران ایسی کچھ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو بعد میں نہیں رہتی، کیا اس کے بارے میں بھی شیخ کو بتانا ضروری ہے؟
جواب:
جی ہاں! اس کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر5:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ ہے کہ آج کل کے دور میں صحبت صالحین فرض عین ہے۔ کون صالح ہے کون غیر صالح، اس کو پہچاننے کے لیے کیا علامات ہیں۔
جواب:
کچھ مجالس ایسی ہیں جو صراحتاً نا جائز ہیں، کچھ صحبتیں ایسی ہیں جو واضح طور پر مستحسن ہیں، کچھ صحبتوں کے بارے میں انسان گمان کر سکتا ہے کہ اچھی ہوں گی اور کچھ صحبتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں گمان کیا جا سکتا ہے کہ بری ہوں گی۔ یہ چار اقسام بنائی جا سکتی ہیں۔ جن کی صحبت کو کلئیر کٹ طور پر اچھا کہا جا سکتا ہے وہ شیخ کی صحبت ہے اور علمائے راسخین کی صحبت ہے، یا اپنے نیک ساتھیوں کی صحبت ہے۔ جو مجالس ہر طرح سے بری صحبت میں آتی ہیں وہ مخلوط مجالس ہیں، گناہ آلود مجالس ہیں، انٹرنیٹ کا برا استعمال اور دوسری چیزیں بھی اسی میں شامل ہیں۔ جن پہ اچھا گمان ہو سکتا ہے، یہ معاشرے کے وہ اچھے لوگ ہیں جن کی معاشرے میں اچھی ساکھ ہو جن سے ملتے وقت فائدہ محسوس ہوتا ہو۔ اور جن لوگوں کے براہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے یہ غیر متشرع زندگی گزارنے والے لوگ ہیں، جن کے گھروں میں ٹی وی پڑا ہو یا اس قسم کی دوسری چیزیں ہوں، ان کے ساتھ ملنے جلنے میں احتیاط ہونی چاہیے کیونکہ گمان ہو سکتا ہے کہ یہ انسان کو غلط طرف لے جائیں۔
جن بچوں کے گھروں میں ٹی وی نہیں ہوتا جب وہ سکول میں ان بچوں کے ساتھ ملتے ہیں جن کے گھر ٹی وی ہوتا ہے تو وہ پھر ٹی وی کے قصے سناتے ہیں کہ میں نے یہ دیکھا میں نے یہ دیکھا، اس طرح ان بچوں میں بھی شوق پیدا ہو جاتا ہے اور وہ گھر آ کر ضد کرتے ہیں کہ ہمیں بھی ٹی وی چاہیے۔ یہ ان پر بری صحبت کا اثر ہو گیا ہے۔
اس میں دیکھنا چاہیے کہ کون کس category میں ہے، اگر پہلی قسم یعنی شیخ کی صحبت میسر ہے تو سب سے اچھا یہی ہے، ورنہ دوسری اور تیسری قسم کے لوگوں کے ساتھ صحبت رکھی جائے۔ جن لوگوں کے ساتھ گناہ کا احتمال ہو ایسے لوگوں کی صحبت تو بالکل اختیار نہیں کرنا چاہیے، ان سے بچنا چاہیے خواہ وہ اپنے ساتھی ہی کیوں نہ ہوں۔
سوال نمبر6:
آج کل کچھ لوگ دین کے پردے میں اپنے غلط اہداف و مقاصد پر بھی کام کرتے ہیں، جیسے کچھ لوگ اپنے خود کش حملوں کو جہاد کا نام دیتے ہیں۔ چونکہ ہمارے لوگ دین کے معاملے میں جذباتی ہوتے ہیں اس لیے بعض سادہ لوگ دین کے نام پر بے وقوف بھی بنائے جاتے ہیں۔ اس بارے میں ایک کمنٹ بھی کیا جاتا ہےکہ دین کا نام لے کر آپ کو کسی بھی چیز کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسی صورت میں ہم ان لوگوں سے کہیں کہ آپ لوگ دین کے پردے میں غلط کام کر رہے ہیں، تو کہیں یہ دین کی کسی چیز پر اعتراض تو نہ ہوگا۔
جواب:
دین کے مختلف شعبے ہیں، دین کے جن شعبوں میں اس قسم کی چیزیں پائی جاتی ہوں ان کے بارے میں تو یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ مثلاً آج کل جہاد کے پردے میں خود کش حملے وغیرہ کردیئے جاتے ہیں اور جہاد کا نام بدنام ہوتا ہے، اگر کوئی جہاد کا مُبلغ ہے تو اس کو تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ جہاد کے پردے میں آپ مجھے خود کش نہ بنائیں یا میرے بچے کو خود کش نہ بنائیں، وہاں تو اس کا امکان کسی درجے میں ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی کسی کو تبلیغ کے لیے تیار کر رہا ہو یا مدرسے میں پڑھنے کے لیے تیار کر رہا ہو یا خانقاہ کے لیے تیار کر رہا ہو تو اس پہ یہ بات لاگو نہیں ہو سکتی، اگر کوئی کرتا ہے تو اس کی ذہنی خباثت ہو گی کہ وہ دینی کاموں کو اچھا نہیں سمجھتا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو تو جواب نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ جواب سننا بھی نہیں چاہتے ہیں ان کا ذہن preoccupied ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں بس ہم ٹھیک ہیں اور باقی لوگ غلط ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ بات کرنا فضول ہے۔
ان لوگوں پر ﴿وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ (فرقان: 63) والی بات صادق آتی ہے کہ اپنے آپ کو ان سے disconnect کر لیا جائے اور ان سے کہہ دیں کہ بھئی ہماری دعوت تو اللہ کی رضا کے لیے ہے، 24 گھنٹے کے شرعی اعمال ہم نے کرنے ہیں، اس کے لیے جس درجے کے علم کی ضرورت ہے، اس میں علماء کے ساتھ تعلق ہونا چاہئے اور جس درجے کی تربیت کی ضرورت ہے اس کے لیے مشائخ سے تعلق ہونا چاہیے۔ باقی خود کش حملوں کے لیے نہ تعلیم کی ضرورت ہے نہ تربیت کی ضرورت ہے وہ تو ان کی اپنی سوچ ہوتی ہے اس کے مطابق وہ کر لیتے ہیں، مثلاً سکولوں کالجوں میں کہاں اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں لیکن وہیں پر یہ سب سے زیادہ بنتے ہیں۔ یہ بہت عجیب بات ہے کہ مدرسوں کے اوپر یہ الزام لگایا جاتا ہے حالانکہ یہاں یہ لوگ اتنے زیادہ نہیں ہوتے جتنے زیادہ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ چیزیں ہوتی ہیں، لیکن شیاطین نے پروپیگنڈا بنایا ہوا ہے اور اس پروپیگنڈے کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً داڑھی کو لے لو، یہ ضروری تو نہیں کہ خود کش کی داڑھی ہو بلکہ شاید آج کل ہوتی بھی نہیں، لیکن پروپیگنڈے میں داڑھی کو بدنام کیا جاتا ہے۔ یہ شیطان کا پورا ایک نظام ہے جو انہوں نے اس طرح چلایا ہے کہ ہر دیندار کو مشکوک بنا دیا ہے تاکہ لوگ دین کی بات کرنے کے قابل نہ رہیں۔ ایسے لوگوں سے آپ کہہ دیں کہ میں آپ سے کچھ نہیں کہتا، اللہ آپ کے لیے کافی ہو۔ ان سے بات اسی طرح ختم ہو گی۔
سوال نمبر7:
حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ تبلیغ کے سفروں کے بعد کچھ وقت مسجد میں اعتکاف کرتے تھے یا خانقاہ میں شیخ کی صحبت میں گزارا کرتے تھے جس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ وہ مختلف لوگوں کے ساتھ ملتے تھے اس وجہ سے دل پہ اثر ہو جاتا تھا اس اثر سے دل کو صاف کرنے کے لیے وہ کچھ وقت اچھے ماحول میں گزارا کرتے تھے۔ حضرت! آج کل کے دور میں بھی اگر کوئی دین کی دعوت دینے کے لیے نکلے تو اس سے جو منفی اثر آتا ہے اس سے محفوظ رہنے کے لیے معمولات کے علاوہ کچھ اضافی کام بھی کرنا چاہیے؟ اس کا کیا طریقہ کار ہوگا۔
جواب:
آپ جو معاملات پورے کرتے ہیں ان معاملات کے پورا کرنے سے ہی آپ کی اصلاح ہوتی ہے۔ عام حالات میں تو یہ معمولات کافی ہوتے ہیں لیکن جس وقت آپ کسی ایسی مجلس میں چلے جائیں جس میں صحبت ناجنس کا امکان ہو لیکن آپ دعوت دینے کی نیت سے چلے جائیں، ایسی صورت میں اگر کوئی کیچڑ وغیرہ لگ جائے یا کوئی اور چیز لگ جائے تو اسے دھونا پڑتا ہے، عام طور پہ تو انسان ہاتھ منہ دھوتا ہے لیکن جب کوئی ایسی چیز لگ جائے تو پھر خصوصی طور پہ دھونا پڑتا ہے۔ خصوصی طور پر دھونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی خانقاہ میں چلے جائیں جہاں بالکل pure ماحول ہو، اس خاص ماحول کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔
ایک ہوتا ہے دنیا میں کام کرتے کرتے دین پر چلنا اور ایک ہوتا ہے بالکل دین کے ماحول میں جانا جہاں دنیا کا کوئی کام نہ ہو تاکہ اگر کوئی چیز آ گئی ہو تو اسے دور کیا جا سکے، ایسی جگہ خانقاہ ہو سکتی ہے یا اعتکاف ہو سکتا ہے۔ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ یہی کرتے تھے کہ خانقاہ میں جاتے تھے یا پھر اعتکاف کر لیتے تھے۔
سوال نمبر8:
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں ہے کہ اگر کوئی غم یا پریشانی کا وقت آ جائے ایسے میں معمول چھوڑنا نہیں چاہیے، ورنہ اس کے بڑے خطرناک اثرات ہو سکتے ہیں۔
جواب:
جی بالکل درست بات ہے کہ کسی بھی حالت میں معمولات کا ناغہ نہیں کرنا چاہیے، اگر سخت بیماری کی حالت بھی ہو تو مقدار کم کر لیتے ہیں لیکن مکمل ناغہ نہیں کرتے پھر جب بیماری گزر جائے تو فوراً دوبارہ پوری مقدار میں کرنا شروع کر لیں۔ اپنے معمولات کو پورا کرنا بہت ضروری ہے۔
اس کی مثال ایسے ہے جیسے بلڈ پریشر کے مریضوں کو مستقل دوائی کھانی پڑتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے بلڈ پریشر کا جو مریض باقاعدہ دوائی استعمال کر رہا ہوتا ہے، اس کا ٹیسٹ کرنے پر بلڈ پریشر نارمل نظر آتا ہے، جسے دیکھ کے ڈاکٹر کہتا ہے کہ آپ کو بلڈ پریشر کا مرض نہیں ہے۔ اگر اس مریض نے ڈاکٹر کو نہیں بتایا کہ میں فلاں دوائی استعمال کرتا ہوں تو ڈاکٹر confuse ہو جائے گا اور یہ بھی confuse ہو جائے کہ شاید مجھے بلڈ پریشر کا مرض نہیں ہے، حالانکہ بلڈ پریشر تو صرف اس وجہ سے نارمل ہے کہ یہ دوائی لے رہا ہے۔ اب اگر یہ دوائی چھوڑے گا تو اس کا بلڈ پریشر لیول دوبارہ بگڑ جائے گا۔
اسی طرح ہمارے روحانی معاملات کی پابندی نے ہمیں ایک normal معمول پہ رکھا ہوا ہے، اگر ہم ان کو چھوڑ دیں تو ہمارا روحانی نظام گڑبڑ ہو جائے گا جس کی وجہ سے مسائل پیش آ سکتے ہیں، اس لیے روحانی معمولات کو پورا کرتے رہنا چاہیے، ورنہ روحانیت کا لیول بگڑ جاتا ہے۔
سوال نمبر9:
خانقاہ کے لیے کسی کو کیسے دعوت دی جائے؟
جواب:
آپ کسی کو براہ راست خانقاہ آنے کی دعوت نہ دیں بلکہ اپنی اصلاح کرنے کی دعوت دیں، پھر جب اس کے دل میں اصلاح کی طلب ہوگی تو وہ پوچھے گا کہ اصلاح کیسے ہوگی، تب ان سے کہہ دیں کہ جیسے جسمانی بیماری ہو جائے تو اس کے ماہر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اس طرح روحانی بیماریوں کی اصلاح کے لیے ان کے معالجین کے پاس جانا پڑتا ہے۔ پھر وہ پوچھیں گے کہ یہ لوگ کہاں ملیں گے، تب ان سے کہہ دیں کہ اس کے لیے با قاعدہ پورا ماحول ہوتا ہے جسے خانقاہ کہتے ایسی جگہوں پر یہ حضرات ہوتے ہیں، خانقاہ ایک روحانی ہسپتال کی طرح ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص وہاں جاتا ہے تو اس ماحول سے اسے فائدہ ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ علاج بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ جب اس طریقہ سے کہا جائے گا تو بہت سارے سوالات ختم ہو جائیں گے۔ جس کو خانقاہ کا پتا ہی نہیں کہ خانقاہ کیا چیز ہے اگر آپ اس کو براہ راست خانقاہ کی دعوت دیں گے تو وہ کہیں گے پتا نہیں خانقاہ کیا چیز ہے۔
کلام
حسن اخلاق سے گرے کتنے فسق کے عشق پہ مرنے والے
کتنے محروم ہو گئے حق سے عشق کو فسق سمجھنے والے
تشریح:
یعنی جو لوگ فسق کو عشق کہتے ہیں وہ حسن اخلاق سے گر گئے۔ آج کل عشق کا لفظ ہوس کے لیے بہت استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں میں فلاں کا عاشق ہوں۔ عاشق وہ ہوتا ہے جو محبوب کا خیال رکھتا ہے، جو ہوس والا ہوتا ہے وہ اپنا خیال رکھتا ہے۔ فسق کو لوگ عشق کہتے ہیں جس سے وہ حسنِ اخلاق سے گر جاتے ہیں اور پھر ان کی ضد میں reaction میں آ کر کچھ لوگ جو صحیح عشق کو بھی فسق کہنے لگتے ہیں نتیجتاً وہ محروم ہو جاتے ہیں۔ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ ہیں۔
حق تو یہ ہے کہ حق کو چھوڑ نہیں اور باطل سے رشتہ جوڑ نہیں
آگ سے بچنا ہو جن کو وہ بنیں فسق سے ہر حال میں بچنے والے
تشریح:
حق تو یہ ہے کہ حق کو کسی بھی حالت میں چھوڑنا نہیں ہے اور باطل سے کسی حالت میں رشتہ نہیں جوڑنا چاہیے اور جس کو بھی آگ سے بچنا ہو وہ فسق سے ہر وقت بچنے والا بن جائے۔
حسن فانی پہ دل نہ آئے تیرا تو ہے جب حسن ازل کے سامنے
جو بھی ہو اس کی اجازت سے ہو جیت جاتے ہیں سنبھلنے والے
تشریح:
دنیاوی حسن فانی اور نا جائز ہے اس پہ تیرا دل نہیں آنا چاہیے کیونکہ تو حسن ازل کے سامنے ہے تیرا اصل مقصود وہ ہے، البتہ اس کی جازت سے آپ کچھ کرنا چاہیں تو وہ کر سکتے ہیں مثلاً شادی کا تعلق قائم کر سکتے ہیں۔
خوف و غم سے وہ پریشان ہوں گے آج ڈر سے جو ہیں آزاد اس کے
خوف و غم سے وہاں آزاد ہوں گے اس سے ہر حال میں ڈرنے والے
تشریح:
جیسے فرمایا گیا ہے:
”اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤمِنِ وَ جَنَّةُ الْکَافِر“ (ترمذی: 2324)
ترجمہ: ”دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے“۔
جو آج اس پابندی کو برداشت نہیں کرتے وہ وہاں خوف و غم سے پریشان ہوں گے اور جو آج ڈر رہے ہیں ان پابندیوں کو قبول کر رہے ہیں وہ وہاں پر خوف و غم سے آزاد ہو جائیں گے۔
اپنی آنکھوں کے پھر گرا دے پردے آج بے پردہ ہیں کچھ پردہ نشیں
دل کی آنکھوں پہ ہے جن کا پردہ وعدہ شر میں بھٹکنے والے
تشریح:
اگر تو دیکھ رہا ہے کہ کچھ ایسے لوگ جن کو پردے میں ہونا چاہیے وہ بے پردہ آ رہے ہیں پردہ نشین تم اپنی آنکھوں کے پردے گرا دو، یعنی ان سے بچو اور جن کے دل کی آنکھوں پہ پردہ ہے، ان کو اپنی بے حیائی نظر نہیں آ رہی، ان لوگوں سے اس طرح اپنے آپ کو بچا لو۔
کاش ان کو بھی کچھ سمجھ ہوتی کاش کچھ عاقبت کا خیال کر لیتے
حد سے شبیر نکلنے والے
٭٭----٭٭
بھلا کیا چیز ہے تصویریں لوگ ان پر جو مرتے ہیں
کہ ان کے واسطے لوگ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں
یہ اپنے گھر میں رکھنے کے لیے کیا جو چیز کھوتے ہیں
وہ کھونے سے ہو جب نقصان تو اس پر یہ روتے ہیں
تشریح:
یعنی تصویریں رکھنے کی وجہ سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور رحمت کے فرشتے نہ آئیں تو شیاطین آنا شروع ہو جاتے ہیں اس وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے اس پر پھر یہ لوگ روتے ہیں۔
٭٭-----٭٭
کوئی کتا ہو گھر میں یا کوئی جاندار کی تصویر ذرا دیکھو بڑی کتنی ہے یہ شیطان کی زنجیر
کہ رحمت کے فرشتے پھر وہاں پر آ نہیں سکتے ہے رحمت ساتھ ان کی جو یہ ہرگز پا نہیں سکتے
تو جوق در جوق پھر شیطان کی افواج آتی ہیں جو دل میں ڈال کے پھر وسوسے ان کو لڑاتی ہیں
تلاوت ذکر کرتے ہیں مگر فائدہ نہیں ہوتا کوئی جذبہ عموماً حق کا پھر پیدا نہیں ہوتا
یہ خود کو دنیا رحمت سے یوں ہی کاٹ دیتے ہیں یہ گند شیطانیت کا اس طرح پھر چاٹ لیتے ہیں
یہ پھر معمولی ساحر کے لیے آسان ہوتے ہیں کہ ان کے گھر میں چپے چپے پہ شیطان ہوتے ہیں
اگر ہو ساتھ موسیقی بھی کیوں ناں ان کی بن آئے تو شیطان بھنگڑا ڈالے گھر میں اور یہ خود کو پھنسائے
تو گھر میں جنگ ہوتی ہے جو دل پھر تنگ ہوتے ہیں نرالے شوق ہوتے ہیں نرالے ڈھنگ ہوتے ہیں
گر اس کے ساتھ موجود گھر میں ہو کوئی ٹی وی تو یہ ڈبہ تباہی کا محرک ہو ہمیش ان کی
نظر آئے کھلے بندے ہمیشہ ان میں غیر محرم اور ان کے ساتھ موسیقی کا شر بھی رہتا ہے ہر دم
تو اندازہ کرو اس سے کیا نقصان ہو گا پھر جو اسٹیرنگ پر ان کے دل پر جب شیطان ہو گا پھر
وہ ان کے نفس کی شہوات کو مہمیز کر دے گا تو خوب پھر انتقام آدم کا ان کی نسل سے لے گا
یہ دجالی جو آلے ہیں انہیں بس چھوڑ دینا ہے دلوں کا رخ شبیر اب حق کی جانب موڑ لینا ہے
٭٭----٭٭
جب کبھی دل میں یہ آئے کہ میں ہوں اچھا تو کہے وہ خود کو کہ پہلے اگر تھے اب نہیں ہو
کیونکہ جس وقت کوئی خود کو سمجھے اچھا اگر تو اسی وقت گرا اللہ کی نظروں میں ہے وہ
اپنی اچھائیوں میں فضل اس کی آئے نظر تو اس کا فضل اس کو سمجھو اس پہ شکر کرو
جب کبھی تجھ کو دکھائے تجھے دشمن اچھا تو بھگانے کے لیے اس کے تعوذ بھی پڑھو
برائی اپنی نظر آنا کشف اعلیٰ ہے پھر ساری عمر نظر ان کی ہی اصلاح پہ رکھو
تشریح:
مجھے ان پہ حیرت ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں کشف ہوتا ہے، ان کو اپنی برائیوں کا کشف کیوں نہیں ہوتا۔ اس کشف کے سٹیرنگ پر شیطان سوار ہے۔
بندگی اس کی بہت اعلی ہی حالت ہے شبیر لے کے تو اس کو شرع پہ استقامت سے چلو
٭٭---٭٭
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن