اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 1:
میں ایک عالم فاضل لڑکا ہوں لیکن عمل کے میدان میں بالکل ہی ناکارہ ہوں۔ اللہ نے آپ کی مجلس میں شریک ہونے کی توفیق عطا فرمائی تو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے جاتے ہی حج کا ارادہ کر لیا جسے اللہ تعالیٰ نے قبول کر فرمایا لیا ان شاء اللہ عنقریب روانگی ہو گی۔ اب آپ کی خدمت میں تین گزارشات کرنی ہیں۔ آپ سے دعا کی خصوصی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے اس حج کو آسان فرمائے اور قبول فرمائے۔ مجھے بد نظری کی بہت خطرناک بیماری ہے۔ حالت اتنی خراب ہے کہ بعض اوقات خطرناک حد تک بات پہنچ جاتی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے ابھی تک خطرات سے بچائے رکھا ہے۔ آگے بھی اللہ بچا کے رکھے۔ اگرچہ میں شادی شدہ بھی ہوں۔ براہِ مہربانی مجھے کوئی ایسا حل بتائیں کہ میں اس بیماری سے بچ سکوں اور سکون سے حج ادا کر سکوں۔ کمزور ہوں اور روزہ رکھنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ حج سے پہلے حقوق العباد ادا کرنا چاہئیں اس بات کا کیا مطلب ہے؟ کیونکہ میں اپنے رشتہ داروں کو بتائے بغیر حج پے جانا چاہتا ہوں، اس لئے کہ ایک عبادت کے لئے جا رہا ہوں کیا ان کو بتانا ضروری ہے؟ اور میرے دو رشتہ دار مجھ سے ناراض ہیں۔ ایک کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ان کے گھر سے شادی نہیں کی بلکہ ان کے بھائی کے گھر سے کی ہے۔ اب وہ مجھ سے دلی طور پر خفا ہیں اور دوسرا رشتہ دار اس لئے ناراض ہے کہ انہوں نے ایک گھر میں رشتہ کے لئے پیغام بھیجا تھا لیکن ان کو مناسب جواب نہیں ملا اور میں نے اسی گھر میں بھیجا تو مجھے انہوں نے رشتہ دے دیا۔ اب مجھ سے وہ ناراض ہیں کہ تم نے وہاں پر رشتے کا پیغام کیوں بھیجا! کیا ان دونوں رشتہ داروں سے مجھے معافی مانگ کر جانا چاہیے؟ اکثر و بیشتر باتوں ہی باتوں میں بہت سارے لوگوں اور رشتہ داروں کی غیبت ہو جاتی ہے، ان سے معافی مانگنے کا پکا عزم ہے لیکن کیا موقع پر معافی مانگنا لازمی ہے؟ کیا فون پر بھی معافی مانگی جا سکتی ہے؟ براہِ کرم ان باتوں کے جوابات دے دیجئے گا۔
جواب:
اللہ جل شانہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے، یہ اللہ پاک کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے۔ البتہ دو قسم کی چیزیں ہیں جو حضرت نے بہت آسانی کے ساتھ بیان فرمائی ہیں۔ ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہیے۔ کچھ اختیاری باتیں ہوتی ہیں اور کچھ غیر اختیاری باتیں ہوتی ہیں۔ اختیاری باتوں میں انسان سستی نہ کرے اور غیر اختیاری باتوں کے پیچھے نہ پڑے یہ بنیادی اصول ہے۔ آپ ما شاء اللہ عالم فاضل ہیں، آپ نے جس بیماری کا بتایا ہے وہ اختیاری ہے یا غیر اختیاری ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو حکم بھی دیا ہوتا ہے وہ کسی اختیاری کام کا دیا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286) اور قرآن میں غضِ بصر کا حکم ہے۔ چنانچہ اپنی نظر نیچے رکھنا انسان کے بس میں ہے اور ہمیں کرنا چاہیے۔ اس وجہ سے اگر کچھ کوتاہی ہوئی ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے۔ کسی سے کوئی بڑے سے بڑا گناہ بھی ہو چکا ہو تو اللہ معاف کرنے والے ہیں۔ لہذا اللہ پاک کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے اور فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔ لیکن آئندہ کے لئے بچنے کی پکی نیت ہونی چاہیے۔ اس کے بعد بھی اگر خدا نخواستہ ہو جائے تو پھر نہ کرنے کی پوری کوشش کریں اور توبہ کریں۔ اس طریقے سے بار بار توبہ کرتا جائے اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ مدد فرمائیں گے۔ اور جہاں تک رشتہ داروں کی بات ہے تو سارے رشتہ داروں سے جب عمومی طور پہ معافی مانگنا ہو تو ان سے بھی مانگ لیجئے گا۔ خصوصی طور پہ اس بات کی معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ان کی غلطی ہے۔ ان کو اس بات پے ناراض ہونے کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ آپ کا شرعی حق تھا، آپ نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ زیادتی اس وقت ہوتی کہ جب ان کی بات چل رہی ہوتی اور آپ درمیان میں کود پڑتے۔ جیسے اگر کوئی سودا خریدنا چاہتا ہے تو اگر دو لوگوں کی آپس میں بات ہو رہی ہو تو اس وقت درمیان میں نہ آئے لیکن جب ان کی بات بنے بغیر ختم ہو جائے تو پھر درمیان میں آ سکتا ہے۔ لہذا اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔
جس کی غیبت کی ہو اس کو صاف صاف بتانا ضروری نہیں ہے کہ میں نے آپ کی غیبت کی ہے۔ بلکہ اتنا کہنا بہت ہے کہ کہا سنا معاف کر دیں۔ اس کی تلافی اس طرح کر لیں کہ جن لوگوں کی آپ نے غیبت کی ہے، لوگوں میں ان کی اچھی باتوں کی تعریف بھی کر لیں۔ اس طریقے سے اس کی تلافی ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ آپ کے حج کو قبول فرمائے۔ آپ میرے لئے بھی دعا کریں، میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح طریقے سے حج کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال 2:
حضرت اگر شیخ سے مناسبت ہو تو اس کی کیا علامات ہیں؟ کیسے پتا چلے گا کہ اس کو مناسبت نہیں ہے تو پھر اس کو چاہیے کہ دوسرا شیخ تلاش کرے۔ معنوی کرامت سے کیا مراد ہے؟ اپنے اندر کچھ کرامت محسوس ہونا کیا یہ مناسبت کی علامت ہے؟
جواب:
یہ بات حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں میں موجود ہے۔ حضرت چونکہ اس صدی کے مجدد ہیں لہذا انہوں نے کلیات کی صورت میں باتیں بیان فرمائی ہیں تاکہ اچھی طرح بات واضح ہو جائے۔ مناسبت کی علامت یہ ہے کہ ان کی مجلس میں بیٹھا جائے، ان کے ساتھ رابطہ رکھا جائے، خط و کتابت کی جائے۔ اگر انسان کو فائدہ محسوس ہو تو اس کا مطلب ہے مناسبت ہے۔ اگر کئی بزرگوں کے ساتھ اس قسم کا معاملہ ہو رہا ہے تو ان میں دیکھو سب سے زیادہ کس کے ساتھ مناسبت پائی جا رہی ہے۔ یعنی سب سے زیادہ فائدہ کس سے ہو رہا ہے۔ اگر فائدہ ہو رہا ہو تو اس کا مطلب مناسبت ہے اور اگر سب سے زیادہ ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے سب سے زیادہ مناسبت ہے۔ معنوی کرامت سے یہی فائدہ ہونا ہی مراد ہے کہ انسان کو اپنے اندر ایسی توفیقات محسوس ہونے لگیں۔ مثلاً سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان کو یہ احساس ہونے لگے کہ میں گنہگار ہوں۔ اپنی غلطیوں پہ پشیمانی ہو جانا یا اپنے نقصان کا ادراک ہو جانا، عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ بزرگوں کے بارے میں اگر کوئی بات ہو تو اس وقت محتاط رہنا کہ میری زبان سے کوئی غلط بات نہ نکلے۔ یہ سب معنوی کرامات ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کے ذریعے سے آپ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ فرمایا تو یہ بات کافی ہے، اس سے زیادہ انسان کو مکلف نہیں کیا گیا ہے۔ کیونکہ شیخ سے محض اصلاح کے لئے رابطہ رکھا جاتا ہے۔ اگر اصلاح کا فائدہ ہو رہا ہے تو کم از کم اصلاح کا احساس ہو رہا ہے۔ یعنی کہ اگر کوئی فائدہ نہیں ہوا تو اس کا پتا چل جائے اور صحیح اور غلط کا پتا چلنے لگے اور ذہن اس کے بارے میں سوچنے لگے تو معلوم ہوا فائدہ ہو رہا ہے۔ باقی اگر لوگ فائدے کی تعریفیں یہ کریں کہ مجھے اپنے اندر کچھ کرامات نظر آئیں کہ میں کبھی عرش پر ہوں اور کبھی فلاں جگہ ہوں تو اس سے یہ مقصود نہیں ہے۔ یعنی اس سے کشفیات مقصود نہیں ہیں۔ البتہ محمود ضرور ہیں۔ لہذا اگر کسی کو نہیں ہو رہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو اعمال کی توفیقات عطا فرمائے یا غلط چیزوں سے رکنے کی توفیق عطا فرما رہے ہیں تو یہی معنوی کرامتیں ہیں۔ اس کا مطلب کشفیات نہیں ہیں کہ اندر اندر کچھ کشف ہونے لگے اور یہ چیز ہونے لگے۔ حالانکہ کشف تو خطرات ہیں۔ کسی شیخ کی یہ بھی ایک معنوی کرامت ہے کہ مرید کو کشفیات کے نقصانات سے بچائے۔ جیسے میں نے حضرت سے اس قسم کی باتوں کا ذکر کیا تو مجھے فرمایا: دور کرو، دور کرو یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں سے دل بھر دیا۔ میرے ذہن اور دل میں سوال ہے اور میں سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہی کی زبان پر ایسی باتیں جاری فرما دے جس میں میرا فائدہ ہو جائے۔ مجھے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ دے دیں تو پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ نے channel استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ کسی شخص کی کرامت نہیں ہے بلکہ سلسلے کی کرامت ہے۔ اللہ پاک اس channel کے ذریعے سے فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اتنی بات کافی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک خلیفہ مولانا فقیر محمد صاحب سے ہم نے بلا واسطہ سنا ہے۔ حضرت سے پوچھا گیا کہ مناسبت کا مطلب کیا ہے؟ حضرت چونکہ بہت کم بات کرتے تھے، زیادہ بات کرنے کی عادت ہی نہیں تھی۔ تقریر کرنے کی عادت نہیں تھی۔ بڑے مختصر انداز میں ایک بات فرمائی۔ فرمایا: اگر شیخ کے بارے میں وسوسہ آ جائے تو اس پر استغفار کرنے کو جی چاہے تو یہ مناسبت ہے۔ میرے خیال میں آج کل کے دور کے لحاظ سے یہ کافی مناسب تعریف ہے۔ اس کے بعد مزید وسواسی پن ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
سوال 3:
میری خواہش ہے کہ شیخ کے ساتھ عقیدت سے زیادہ محبت ہو۔ چنانچہ کسی مرید کے بارے میں کیسے پتا چل سکتا ہے اسے شیخ کے ساتھ عقیدت زیادہ ہے یا محبت زیادہ ہے۔
جواب:
عقیدت عقل سے ہوتی ہے اور محبت دل سے ہوتی ہے۔ بغیر کسی دلیل کے جب دل ان سے علیحدہ نہ ہونا چاہے تو یہ محبت ہے اور اگر عقلی وجہ سے کوئی قریب آ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عقیدت ہے۔ دل چونکہ زیادہ powerful ہے تو اگر دل کی محبت کسی کے ساتھ ہو جائے تو عقل بے شک سو بار باتیں کر لے لیکن دل اس کی نہیں سنتا۔ کیونکہ عقیدت کو وسوسے کے ذریعے اور مختلف ذرائع سے disturb کیا جا سکتا ہے، لیکن محبت کو disturb نہیں کیا جا سکتا۔ محبت ایسی چیز ہے جس پر کوئی چیز حملہ نہیں کر سکتی۔ علامہ اقبال نے بھی کہا ہے: ”یقینِ محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم“ محبت فاتحِ عالم ہے۔ چنانچہ اگر کسی کو شیخ کے ساتھ محبت ہے تو یہ اس کے پختہ ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اب وہ disturb نہیں ہو گا۔ اور عقیدت کبھی بھی گڑبڑا سکتی ہے۔ چونکہ اس کے لئے اسباب موجود ہوتے ہیں لہذا اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
سوال 4:
عقیدت اور عقلی محبت، یہ دونوں ایک ہیں یا ان میں فرق ہے؟
جواب:
انسان کو کسی سے کوئی فائدہ ہوا ہے تو وہ اس سے عقیدت رکھتا ہے۔ عقلی محبت سے مراد یہ ہے کہ آپ کو عقل کے ذریعے سے ان کی کچھ خوبیاں معلوم ہو گئیں جن کی وجہ سے آپ کو محبت ہو گئی ہے۔ پھر معاملہ دل کی طرف چلا گیا۔ ذہن سے شروع ہوا اور دل کی طرف چلا گیا۔ لیکن اگر ذہن ہی میں رہے تو وہ عقیدت ہو گی۔ محبت دل میں ہی ہو گی، راستے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے طبعی طور پر کوئی کسی کو پسند آ رہا ہو تو یہ طبعی محبت ہے۔ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے ساتھ ہمیں عقلی محبت تھی۔ اب الحمد للہ شاید طبعی ہو گئی ہو۔ لیکن ابتدا میں عقلی محبت تھی اور حضرت مدنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بغیر دلیل کے طبعی محبت تھی۔ اس کے لحاظ سے نہ کوئی سوال نہ جواب۔ اس وجہ سے زیادہ فائدہ ہمیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا ہے۔ بہر حال کچھ اسباب کی وجہ سے ہمیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت ہو گئی اور مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بغیر اسباب کے محبت تھی۔ دل چاہتا ہے کہ کوئی ان کی باتیں کرے، بس یہ طبعی محبت ہے۔ اپنے شیخ کے ساتھ بھی ہمیں طبعی محبت ہے کیونکہ جس وقت ہم حضرت سے ملے تھے بطور پیر کے نہیں ملے تھے۔ بس دل میں آ گیا کہ یہ جگہ بیٹھنے کی ہے۔ ہمیں پتا بھی نہیں تھا کہ حضرت پیر ہیں یا ہم بیعت ہوں گے۔ بس حضرت کے ساتھ ہمیں طبعی محبت تھی۔ اس وجہ سے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اگر حضرت مجھے نہ ملتے تو شاید میں کسی کے بھی قریب نہ آتا۔ کیونکہ حضرت اتنی عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے کہ بہت منتشر لوگوں کو بھی قریب کر لیتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پتا نہیں ہم کدھر کدھر پھرتے اور کیا کیا کرتے۔
سوال 5:
میں نے آپ کو فون پر اپنے احوال بتائے تھے جس میں اپنے بعض گناہوں کا بھی ذکر تھا۔ جس کی وجہ سے میں ذہنی طور پر کافی upset ہو گیا تھا۔ پھر جو آپ کا دیا ہوا ذکر شروع کیا اور خانقاہ بھی آنا شروع ہو گیا تو آپ کی دعاؤں کی برکت سے کافی بہتری آنا شروع ہو گئی۔ ذکر، نماز میں پابندی آ گئی اور ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ ایک عہد کیا تھا کہ ذکر کبھی نہیں چھوڑوں گا اور جیسے جیسے میں آپ کے ہفتے والے بیان میں متواتر آتا گیا تو مجھے کافی فائدہ محسوس ہونے لگا۔ آپ کی برکت اور دعاؤں سے وساوس کا مسئلہ بھی ٹھیک ہو گیا اور confidence سا بھی محسوس ہونے لگا کہ جو آپ کہہ رہے ہیں اس پر چلنے سے فائدہ ہی ہو گا۔ پھر مجھے ایسا لگا کہ میں over-confident ہو گیا ہوں، جس کی وجہ سے میں وسوسوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ اپنے ضروری معمول کی بھی پرواہ کرنا چھوڑ دی۔ فجر کی نماز چھوٹی لیکن شروع شروع میں میں نے اس پر اتنا زور نہیں دیا اور سمجھا کہ ایسے حالات میں ایسا ہی ہوتا ہے بعد میں ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن جس دن میری فجر کی نماز قضاء ہوتی اس کے ساتھ ہی میری طبیعت خراب ہو جاتی۔ ذہنی طور پر میں disturb رہتا۔ اس پر بھی میں نے اتنا دھیان نہیں دیا یہ سوچ کر کہ کہیں پھر سے پہلے کی طرح وسوسوں میں نہ پھنس جاؤں۔ لیکن جیسے جیسے میری فجر کی نماز قضاء ہوتی گئی طبیعت میں خرابی آتی گئی اور ذہنی طور پر سست ہوتا گیا اور میں اس کو نظر انداز کرتا گیا کہ جیسے ہی میری فجر کی نماز regular ہو گی یہ کیفیت خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔ فجر کی نماز کے ساتھ ذکر میں بھی ناغے آنے لگ گئے اور خانقاہ میں ہفتے والے بیان کی ترتیب بھی ٹوٹتی گئی۔ شروع میں ذکر مجھ سے خود بخود چھوٹا۔ ایک دفعہ میں رات کو لیٹ ہو گیا اور ذکر نہیں کیا تھا، جب کرنے لگا تو بیوی نے کہا کہ کل کر لینا ابھی بہت دیر ہو گئی ہے تو میں نے چھوڑ دیا۔ پہلے جب لیٹ ہو جاتا تھا تو لازمی کرتا تھا تاکہ ناغہ نہ ہو جائے۔ جب شادی کے فوراً بعد میں مری گیا تو وہاں پر قصداً اپنی گاڑی میں اونچی آواز میں موسیقی لگائی حالانکہ دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ غلط کر رہا ہوں، نقصان نہ ہو جائے۔ اسی طرح لاہور میں دفتر والوں کی کوئی کانفرنس تھی اس میں بھی موسیقی لگائی گئی جو میں نے سنی بھی تھی۔ اس طرح میں بڑھتا گیا اور احتیاط وغیرہ کم ہوتی گئیں۔ ذکر میں ناغے، ہفتے والے بیان میں ناغے اور موسیقی کے سننے سے میرا بہت زیادہ نقصان ہو چکا تھا۔ اسی طرح اعمال میں فرق آتا رہا اور سستی کی وجہ سے معمولات میں ناغے شروع ہو گئے۔ پہلے جس طرح ایک شوق اور جذبہ تھا، ایک احساس تھا کہ کہیں ذکر میں ناغہ نہ ہو جائے، وہ بھی کم ہو گیا۔ پہلے جب میں نے آپ کو نماز کے قضاء ہونے کا بتایا تھا تو آپ نے کہا تھا کہ اتنے روزے رکھیں۔ وہ میں نے رکھے تھے۔ لیکن پھر اس میں بھی سستی آ گئی۔ اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دوسروں کا حجاب بھی مجھ پر بہت ہے جس کی وجہ سے میری اپنی سوچ اور اپنے عمل میں خود جو بات ہے وہ کم ہو گئی۔ دوسرے کا خیال زیادہ محسوس ہوتا ہے حالانکہ دوسرے وہ بات سوچ بھی نہ رہے ہوں، جس کی وجہ سے غیر ضروری بات اور کام کر جاتا ہوں۔ اس loophole کے اندر میں پھنس گیا ہوں جس سے نکلنا بڑا مشکل لگتا ہے کہ میں صحیح track پر کیسے آؤں۔ سوچ ہی سوچ ہوتی ہے اور عمل مشکل ہوتا ہے۔ پہلے بد نظری کا بھی ڈر نہیں تھا نہ اس طرف دھیان جاتا تھا۔ جب اس کا ڈر ہوتا ہے کیونکہ اس طرح تو اپنے آپ کو روکنا پڑتا ہے اور نظر کو بھی۔ میں کئی دنوں سے کوشش کر رہا ہوں کہ آپ کو بتاؤں۔ ایک دن مسجد میں ذکر کر رہا تھا تو اس دوران میں یہ سوچنے لگا کہ اس ذکر سے جو مجھے وسوسے اور سوچیں آ رہی ہیں اور ذہن سست سا ہوا ہے یہ ٹھیک ہو جائے اور گویا اس نیت سے ذکر کر رہا تھا۔ زور بھی لگا رہا تھا کہ اچانک ایسے ہوا جیسے میرا ذہن ایک دم ساری سوچوں سے blank ہو گیا اور ایک دم جیسے ذہن سن ہو جاتا ہے، سیاہ ہو جاتا ہے ویسے ہو گیا۔ میں بہت گھبرا گیا تھا کہ یہ کیا ہوا؟
جواب:
بنیادی بات جو یہاں کرنے کی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ جب انسان شروع میں سلسلے میں آتا ہے تو اس کو مٹھائی کھلائی جاتی ہے۔ بہت زیادہ توفیقات ملتی ہیں۔ اس وجہ سے انسان کی عمر بھر کی پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں اور اعمال پہ آنے لگتا ہے اور بعض دفعہ غلط فہمی کی وجہ سے اپنے آپ کو بزرگ بھی سمجھنے لگتا ہے کہ میں شاید بہت اچھا ہو گیا ہوں۔ لیکن وہ صرف مٹھائی کا range ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو عمل کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ اس خصوصی چیز کو جس کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سلب کر لیتا ہے تاکہ اب یہ خود اپنے ارادے سے عمل کام کرے اور ثواب پائے۔ اس میں پھر بعض لوگوں کو یہ confusion ہو جاتی ہے کہ وہ یا تو سوچنے لگتے ہیں کہ میں مردود ہو گیا ہوں، جو نقصان کی بات ہے یا پھر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اب میں نہیں کر سکتا اور یہ بھی غلط بات ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے آپ کو راستہ دکھایا جا رہا تھا، اب آپ کو چلنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ راستہ معلوم ہو گیا، اب اپنی ہمت سے ادھر پہنچنا ہے۔ جی بڑا کر کے چاہے دل چاہے یا نہ چاہے اس کام کو کرنا ہے۔ ابتدا میں بڑی مشکل ہو گی لیکن بتکلف کام کرتے کرتے تکلف ختم ہو جائے گا اور عادت بن جائے گی۔ عادت سے پھر ما شاء اللہ عبادت ہو جائے گی۔ چنانچہ اس stage کو پار کرنا ہوتا ہے۔ مٹھائی کے بعد والی کیفیت کو حضرت نے صبح کاذب سے تعبیر کیا ہے اور اس کے بعد جب انسان اپنی ہمت اور کوشش سے اس چیز کو حاصل کرتا ہے تو اس کو صبح صادق سے تعبیر کیا ہے لہذا صبح صادق کے لئے ہمت کرنی چاہیے۔ صبح کاذب کے بعد جو اندھیرا آتا ہے اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ہمت کر کے اپنی کوشش سے اس کو حاصل کر لو اور جن اسباب کے ذریعے پہلے فائدہ ہوتا نظر آ رہا تھا ان اسباب کو اختیار کرو۔ مثلاً ذکر بتکلف کر لو، ہفتے کے بیان میں تکلف سے آنا شروع کر دو اور ناغہ نہ کیا کرو۔ جیسے پہلے آپ کو اللہ نے دکھا دیا کہ ان کاموں میں فائدے ہیں تو ان چیزوں کے ساتھ چپک جاؤ۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ آپ کو پھر سے وہ چیزیں عطا فرمائیں گے۔ اپنی ہمت سے اور قوت سے کام کرو اس پر اجر بھی ملے گا اور آپ کے اندر صلاحیت بھی آئے گی۔ اب آپ کے لینے کا وقت ہے جیسے پہلے پہلوان کو کھلایا، پلایا جاتا ہے۔ پھر اس کو اکھاڑے میں لایا جاتا ہے۔ کھلانے پلانے والی حالت میں آپ ان کے ہوں اور جس وقت اکھاڑے میں آ جاؤ تو پھر دوسروں کے ہو جاؤ تو یہ کیسی عجیب بات ہے! اس وقت تو بڑی نفرین ہو گی۔ تو اب آپ کو اکھاڑے میں اتارا گیا ہے لہذا آپ نے اپنی ہمت دکھانی ہے اور کوشش سے ان چیزوں کو حاصل کرنا ہے جو پہلے سے آپ کو بطور مٹھائی ملی تھیں۔
عقل اور دل کی بات چلی ہے تو اس پر ایک نظم ہے۔
عقل دل سے کہتی ہے:
دنیا کو دیکھ نظر آتا ہے اسباب کا گھر
اور ان اسباب میں آتا ہے مرے دم سے اثر
دنیا ویران رہے، میں جب مؤثر نہ رہوں
خراب کام ہو، جب اس کا ہم سفر نہ رہوں
علم عالم کا ہو ضائع بھی، میں اگر نہ رہوں
غصہ آئے اگر کسی کو، میں ادھر نہ رہوں
میرے ہونے سے یہ دنیا جنت نظیر بنے
ہر عقلمند مری زلف کا اسیر بنے
یہ ہندوستان میں انگریز کیسے آئے تھے؟
یہاں کے لوگ مرے دم سے سب دبائے تھے
میں نے آدابِ حکمرانی جب سکھائے تھے
یہاں کے لوگ وہ عاری ہی اس سے پائے تھے
دس ہزار لوگ، کروڑوں پہ حکمران بنے
صرف حکمران نہیں، مطلق العنان بنے
یہاں کے لوگوں نے میری قدر جو کی تھی کم
سزا کے طور پہ ان کو ملا پھر کتنا غم
جن کی کھوپڑی مجھ سے خالی ہو تو وہ ہوں بیدم
وہ اگر تیر اٹھائیں گے میں ماروں گا بم
مجھ کو پانے سے دنیا بھی نئی ملتی ہے
اور نہ ہونے سے، جو موجود ہے وہ ہلتی ہے
میرے ہونے سے یہ انسان تو انسان ہے ناں
زندگی میرے ہی ہونے سے تو آسان ہے ناں
معترف میری کرامات کا کل جہان ہے ناں
میرا انسان پہ دیکھو بڑا احسان ہے ناں
جو مجھے ساتھ نہ رکھے اس کو گرا دیتی ہوں
اپنی ناقدری کا احساس دلا دیتی ہوں
میں اگر سر میں نہ ہوں سر ہی سلامت نہ رہے
میری عزت نہ کرے جو اس کی عزت نہ رہے
مجھے حاکم نہ کہے اس کی حکومت نہ رہے
علم کے ساتھ میں شامل نہ ہوں، حکمت نہ رہے
میرے والوں کو خدا نے اولو الباب کہا
میرے دشمن کو تو تاریخ نے خراب کہا
یہ عقل نے اپنا مقدمہ درج کر دیا۔ اب دل کہتا ہے:
تیری باتوں کا میں انکار نہیں کرتا ہوں
لیکن حق بات کے کہنے سے نہیں ڈرتا ہوں
عقل میں عقل تبھی ہو میں اگر ٹھیک رہوں
ناس تیرا ہو اور سب کا، اگر میں نہ بنوں
میں اگر واسطہ اپنا خدا سے درست رکھوں
تو پھر میں ٹھیک دیکھوں، ٹھیک کہوں، ٹھیک سنوں
میں اگر درست رہوں درست رہیں سارے نظام
تو بھی پھر ٹھیک رہے درست سارے تیرے کام
میں اگر ٹھیک ہوں قرآن سے ہدایت لے لوں
علم عالم کا ہو نافع اس سے حکمت لے لوں
حق کے الہام سے شیطان سے حفاظت لے لوں
پھر کیا بات ہو گر نفس کی تربیت لے لوں
حق کے انوار سے سب تر بتر رہیں ہر وقت
اپنے دشمن کے خلاف فیصلہ کریں بر وقت
تو میرے نیچے رہے گی تو بلندی دیکھے
اور سچ مچ اپنے میں خود عقل مندی دیکھے
اور اعمال شریعت کی پابندی دیکھے
اور نتیجے کے طور پر بہر مندی دیکھے
اور اگر مجھ سے تو باغی ہے تو پھر کچھ بھی نہیں
اور استعمال دشمن ہی کے رہے تو ہی نہیں
ذکر سے مجھ کو منور کرے اگر کوئی
اور پھر میری ہدایات پہ چلے کوئی
یعنی اعمال شریعت پہ رہے کوئی
راستے کسی کو ایسا دکھائے کوئی
اس کے چہرے سے ہویدا ہو اطمینان یہاں
ہو کامیاب یہاں اور ہو فرحان یہاں
تو اگر چاہتی ہے مجھ پہ حکومت کرنا
خام خیالی ہے تیری اس کی نہ ہمت کرنا
تجھ کو محکوم بنایا ہے ایسا مت کرنا
چاہیے تجھ کو ہے نفس کی مخالفت کرنا
تو اگر میری نہیں، نفس کی بنے گی پھر غلام
اور سر اٹھا کے ذرا دیکھ قارون کا انجام
تو اگر میری نہیں نفس تجھ پہ سوار رہے
ترا ہر آن ظالموں میں پھر شمار رہے
سارے اعمال میں اخلاق کے بیمار رہے
انجام کار تری قسمت میں نار ہی نار رہے
سر کے بل چلنا کیا آسان نظر آئے ہے
مرے ماننے میں یہ نخرے جو تو دکھائے ہے
چاہیے تجھ کو ہے جذبات پہ حکومت کرنا
فضولیات کی ہر آن مخالفت کرنا
نافذ احکام میرے حسبِ ہدایت کرنا
بے وقوفوں کو طریقے سے نصیحت کرنا
ہاں مگر مجھ سے کوئی پنگا نہیں لینا ہے
مجھ سے لے کر پھر طریقے سے آ گے دینا ہے
یہ اس نے ذرا جلالی انداز میں کہہ دیا۔ اب شریعت دونوں کو سمجھاتی ہے۔
شریعت دونوں کا محاکمہ کرتی ہے۔
عقل کا کام ہے جذبات پہ حکومت کرنا
اور جو ہے قلب سلیم اس کی حمایت کرنا
نفس کے شر سے بھی اعمال کی حفاظت کرنا
اور اس کے واسطے اتباعِ شریعت کرنا
عقل ناقص ہے جب مغلوب ہو جذبات سے یہ
اور ملوث ہو لغویات و خرافات سے یہ
عقل پابندِ شریعت ہو تو اک نور ہے یہ
اس وقت نورِ فراست کا اک ظہور ہے یہ
اور اگر سفلی خواہشات سے مجبور ہے یہ
پھر یہ شیطان کا آلہ ہے، حق سے دور ہے یہ
یہ فقاہت کا ذریعۂ عظیم دین کا ہے
اس وقت فضل بڑا رب العالمین کا ہے
دل میں شیطان سے لینے کا راستہ بھی ہے
دل کے بارے میں بات کی کہ تم all in all نہ بنو۔
اور الہام کا مورد صاف ستھرا بھی ہے
آنکھ، زبان، کان کے ساتھ اس کا سلسلہ بھی ہے
گر استعمال ہوں غلط ان سے خطرہ بھی ہے
آنکھ، زبان، کان یہ سب دل سے اثر لیتے ہیں
اور یہ بھی کہ یہ سب اس کو اثر دیتے ہیں
خواہشیں نفس کی شیطان کو آتی ہیں نظر
وہ وساوس سے ہے کرتا پھر ان کے دل پہ اثر
شروع ہوتا ہے ان سے آگے گناہوں کا سفر
اور بچ جائے وساوس کا اثر نہ لے اگر
ان گناہوں سے تو بچنے پہ اجر ملتا ہے
ان تقاضوں سے تو تقویٰ کا باغ کِھلتا ہے
آ گے پھر اصلی عقلمندی کے بارے میں بتا رہے ہیں۔
دل اگر درست نہیں کون اس کی درستگی کر لے؟
عقل کا اصلی استعمال جو ہے وہی کر لے
تربیت نفس کی جو مطلوب ہے وہ بھی کر لے
ان میں آپس میں جو رشتہ ہے وہ صحیح کر لے
یہ جو چار کام ہیں اس کو ہی طریقت کہہ دیں
جو اِس کو کر لے، اس کو ہی تو بصیرت کہہ دیں
جس سے یہ کام ہے کروانا اس کو شیخ کہیں
اور اس کے واسطے اس کے ساتھ تعلق بھی رکھیں
اپنے احوال کی پھر اس کو اطلاع بھی کریں
پھر جو فرمائے علاجاً وہ تو اس پر ہی چلیں
لیکن ہو شیخ صحیح، اس کا سلسلہ ہو صحیح
اس کی پہچان میں پڑیں نہیں دھوکے میں کبھی
اک صحابہؓ کے عقیدے پہ ہوں وہ شیخ بالکل
فرض ہو علم میسر اور اس پر ہو عمل
اس کی صحبت کا سلسلہ ہو تا رسول ﷺ اکمل
اس کی صحبت سے ہو، خدا کی محبت حاصل
اس کو دوسروں کی تربیت کی اجازت بھی ہو
صاحبِ فیض ہو، مصلح بے مروت بھی ہو
شیخ ملے ایسا تو پھر اور نہ انتظار کریں
شیخ کا ہاتھ پکڑ کر دل کو بیدار کریں
عقل کو اس کی ماننے پہ پھر تیار کریں
علاجِ شیخ سے شبیر، درست نفسِ بیمار کریں
نفس کا انگ انگ شریعت پہ نچھاور ہو پھر
دل اپنا بحرِ معرفت کا شناور ہو پھر
عقل اور دل اور پھر شریعت ان تینوں کے آپس میں interaction والی بات آ گئی۔ یہ کافی مشکل topic تھا لیکن اللہ پاک کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکمل کروا دیا۔ اس میں دل کی بات بھی آ گئی، عقل کی بات بھی آ گئی۔ دل کو ٹھیک کرنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے اور پھر عقل وہی ہے جو صحیح دل کے نیچے کام کرے۔ یعنی اتنی عقل ہونی چاہیے کہ دل کو صحیح کر دے۔