سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 197

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

کیا اچھے خواب اور الہام ایک ہی چیز ہیں؟

جواب:

الہام دن کے وقت بھی آ سکتے ہیں، ضروری نہیں کہ خواب کی صورت میں ہوں۔ اللہ جل شانہ کسی شخص کے دل میں کوئی بات ڈال دے، من جانب اللہ کوئی بات آ جائے،اس کو الہام کہتے ہیں۔ خواب کے بارے میں بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا الہام ہے، اگر وہ صحیح خواب ہو۔ انبیاء کرام پہ وحی نازل ہوتی تھی،بزرگوں کو الہام ہوتا ہے۔ جیسے معجزہ و کرامت ہے، اسی طرح الہام بھی ہے۔ وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے، لیکن وہ وحی جو ابھی بھی جاری ہے وہ الہام ہے۔ الہام بھی وحی کی ایک صورت ہے، وحی کی ایک قسم ہے۔ انبیاء کرام کے خوابوں کو وحی کہا گیا، انہیں جو سچے خواب آتے تھے انہیں وحی کہا گیا ہے۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام کا خواب مشہور ہے جس میں حکم ہوا تھا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر دیں۔ جیسے نبی کا خواب وحی ہو سکتا ہے، اسی طرح بزرگوں کا خواب الہام ہو سکتا ہے، اس کے زریعے کوئی حکم یا کوئی بات سامنے آ سکتی ہے۔ البتہ اس کے لئے ضروری نہیں کہ انسان سو رہا ہو، کبھی جاگتے ہوئے بھی الہام ہو سکتا ہےاور کبھی سوتے ہوئے خواب کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

سوال نمبر2:

الہام اور کشف میں کیا فرق ہے؟

جواب:

کشف کا مطلب ہے: چیزوں کا منکشف ہو جانا۔ اللہ جل شانہ بعض لوگوں کے اوپر کچھ چیزیں کھول دیتے ہیں۔مثال کے طور پر میں اپنی ظاہری آنکھوں سے ایک محسوس دائرے میں دیکھ سکتا ہوں، اس سے آگے نہیں دیکھ سکتا، دیوار کے پیچھے نہیں دیکھ سکتا، چھت کے اوپر نہیں دیکھ سکتا ،زمین کے نیچے مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا ،کل کیا ہو گا یہ مجھے نہیں معلوم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پہ منکشف فرما دے کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے، تو اسے کشف کہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بغیر کسی ظاہری سبب کے کوئی ایسی بات جو انسانی حدود سے باہر ہو، معلوم ہو جائے تو اسے کشف کہیں گے۔ اگر اس میں کوئی ظاہری ذریعہ استعمال ہوا ہو، تو پھر کشف نہیں ہے۔ اگر کوئی جادو کے ذریعے سے یا جنات کے ذریعے سے کوئی مخفی چیز معلوم کر لے تو یہ بھی کشف نہیں ہے۔ اگر اللہ پاک خود اپنی طرف سے دکھا دے کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے، چھت کے اوپر کیا ہے، زمین کے نیچے کیا ہے تو یہ کشف ہے، دو گھنٹے کے بعد کیا ہونے والا ہے یا کسی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے یہ معلوم ہو جانا بھی کشف ہے۔ کشف میں چیزیں منکشف ہوتی ہیں یہ الہام نہیں ہے۔ کشف الگ چیز ہے الہام الگ چیز ہے۔ الہام میں تو کوئی بات دل میں ڈالی جاتی ہے۔ جب کہ کشف میں چیزیں نظر آ جاتی ہیں، چاہے وہ چیزیں کونی ہوں یا زمانی ہوں۔ کونی کی مثال، جیسے یہ معلوم ہو جائے کہ اس وقت دنیا کے کسی حصہ، کسی مقام پر کچھ ہو رہا ہے جو اس کو عام طور پہ نظر نہیں آ سکتا ۔ زمانی کی مثال، جیسے یہ معلوم ہو جائے کہ کل کیا ہونے والا ہے یا دو دن پہلے کیا ہوا تھا ، تو یہ کشف ہے۔ ایک کشف وہ بھی ہے جسے شرح صدر کہتے ہیں، آدمی پر وہ علوم منکشف ہو جاتے ہیں جن تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی۔ ہم لوگ اسے وہبی علوم کہتے ہیں ، یہ بھی کشف ہے جو اللہ تعالیٰ منکِشف فرما دیتے ہیں۔ یہ اصل کشف ہے جس کے بارے میں دعا بھی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے نصیب فرما دے کیونکہ اس سے علوم حاصل ہوتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسی کے بارے میں دعا کی تھی، جس کے ذکر قرآن پاک میں اس طرح آیا ہے:

﴿قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْ وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ (طہ: 25-27)

ترجمہ: ” موسیٰ نے کہا : پروردگار ! میری خاطر میرا سینہ کھول دیجیے۔ اور میرے لیے میرا کام آسان بنا دیجیے۔ اور میری زبان میں جو گرہ ہے اسے دور کردیجیے ۔“

سوال نمبر3:

اگر کوئی حال یا کیفیت پیش آئے تو فوراً شیخ کو بتانا چاہیے؟

جواب:

جی ہاں! اس بارے میں شیخ کو بتانا چاہیے، لیکن اس بتانے کا طریقہ کار شیخ کی ہدایت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ احوال و کیفیات بتانے کے لئے شیخ نے جو طریقہ مقرر کیا ہو، جو ترتیب رکھی ہو، جو وقت اس کے لئے مخصوص کیا ہو، اسی وقت میں اس کی ہدایات کے مطابق بتانا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ رات بارہ بجے آپ کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آئے اور آپ شیخ کو بتانے کے لئے اسی وقت کال کردیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو اس سے شیخ کو تکلیف ہوگی۔ اسی طرح راستہ چلتے چلتے کوئی بات پوچھنا بھی خلاف ادب ہے۔ سوالات و جوابات کا جو نظام شیخ کی طرف سے بنایا گیا ہو اس کے مطابق شیخ کو مطلع کرتے رہنا چاہیے، اور اس میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔

سوال نمبر4:

جو لوگ علم دین حاصل کرتے ہیں، کیا علم دین کو آگے پھیلانا ان پر فرض ہو جاتا ہے؟

جواب:

علم دین حاصل کر کے لوگوں تک پہنچانا فرض کفایہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے:

بَلِّغُوْا عَنِّی وَ لَوْ اٰیَۃً (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 3461)

ترجمہ: ”میری طرف سے لی گئی چیز آگے پہنچاؤ، اگرچہ وہ ایک آہی ہو“۔

اس حدیث میں تبلیغ کا حکم عام ہے۔ علماء کرام کی تصریحات کے مطابق یہ تبلیغ فرض کفایہ ہے۔ فرض کفایہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ یہ کام مناسب طریقے سے کر رہے ہوں تو باقیوں کی طرف سے کفایت ہو جائے گی۔ باقی لوگ کسی اور کام میں مشغول ہو سکتے ہیں لیکن اگر وہ کام کوئی بھی نہ کر رہا ہو یا جو لوگ کر رہے ہوں ٹھیک سے نہ کر رہے ہوں،پھر وہ کام کرنا آپ پر بھی فرض ہو گا اگر کریں گے تو آپ کو اس کا بہت زیادہ ثواب ملے گا اور آپ اس پر عمل کرنے والوں میں ہو جائیں گے۔

سوال نمبر5:

کوئی انسان آپ کے سامنے غلط بیانی کرے یا جھوٹ بولے تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

اس بارے میں ہم کوئی فیصلہ کن بات تب کر سکتے ہیں جب کہ پکا پتا ہو کہ سامنے والا جھوٹ ہی بول رہا ہے۔ اگر آپ کو علم ہی نہ ہو کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے یا سچ تو پھر سب سے پہلے آپ اس بات کی تحقیق کریں گے۔ جب پختہ طور پر معلوم ہو جائے کہ ہاں اس نے غلط بیانی کی ہےاس صورت میں آپ ان کو کہہ سکتے ہیں کہ آپ جو بات کر رہے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ لیکن بعض لوگ شر پسند ہوتے ہیں، اگر ان کو ہم یہ صحیح بات بتائیں اور ان کی غلط بیانی پر متنبہ کریں تو وہ خواہ مخواہ بحث کرنا شروع کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

﴿وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان: 63)

ترجمہ: ” اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔ “

یعنی جس وقت جاہلوں کے ساتھ واسطہ پیش آ جائے تو پھر ان کو کہہ دو، بس سلام ہے۔ مناسب طریقے سے اپنا پیچھا چھڑا لو، اور اس کی بات پہ عمل نہ کرو۔

اس کے علاوہ ایسی معاملات کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بھی آپ کوئی بات سنیں، اس کو اس وقت تک آگے نہ بڑھائیں جب تک تحقیق نہ کر لیں کہ واقعی یہ بات ہے کیونکہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ بغیر تحقیق کے بات آگے بڑھائے۔لہٰذا بغیر تحقیق کے بات آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔

اس بات میں انسان کا اپنا فائدہ ہے کہ دوسروں کے بارے میں کوئی بات کرنے سے پہلے اچھی طرح تحقیق کر لے۔ صرف سنی سنائی بات پر یقین نہ کرے، اسے آگے بھی بیان نہ کرے اور خود بھی اس پر عمل نہ کرے اور اپنے دل کو ایسے معاملات میں صاف رکھے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاَءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ (الحجرات: 6)

ترجمہ: ” اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔ “

معلوم ہوا کہ سنی سنائی بات پہ عمل نہیں کرنا چاہیے، پہلے اس کی مکمل تحقیق کرنی چاہیے۔ اس لئے اگر کوئی ہمیں کسی بارے میں کوئی بات بتائے تو سب سے پہلے ہم پہ لازم ہے کہ اس کی تحقیق کریں۔ تحقیق کے بعد اگر اس کی بات جھوٹ ثابت ہو، پھر دیکھیں کہ اسے بتانا اور سمجھانا مفید ہے یا نہیں، کہیں کوئی فتنہ تو نہیں اٹھ جائے گا، اگر ایسا کوئی خطرہ نہ ہو تو پھر اسے بتائیں اور سمجھائیں کہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔ اگر فتنہ کا خطرہ ہو تو پھر خاموش رہیں اور اپنے آپ کو اس سے بچائیں۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم حضرت!

With the blessing of اللہ تعالیٰ and your دعا I have found consistency within it was very difficult for me to stick to things but الحمد للہ I am very punctual in Salat now I have not skip a single prayer with the intention since many months. I just can’t live without salat now. Reciting the قرآن is also become very easy for me. I feel not a single force from inside which will stop me from Salat in or Quran. However, I have not try to make habit of معمولات and مراقبہ yet, I am up to it now. My next target is to get punctual in معمولات and مراقبہ please pray for me I shall try my best ان شاء اللہ.

حضرت I have started internship as a psychologist. I want to ask a few things regarding my field. Please reflect. First there is a concept of dream, interpretation in psychology the therapist asked about the content of dream from the patient believing that the contents as the reflection of the unconscious mind of the patient best try to guess his unconscious conflicts for example if a person dream that he can’t find path to get out somewhere it will be interpret as a patient is confused and struck somewhere mentally in real life. Now my question is it right to give such interpretation for therapist, therapy purposes? I am very much fond of philosophy. I have been reading Allama Iqbal’s work since I was about eight, nine years old. Please suggest me some good people in that area or the following safe for me.

جواب:

ما شاء اللہ بہت اچھا خط ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو مزید ترقی نصیب فرمائے۔ کم از کم یہ صاحب راستے پر ہیں ،مزید رہنمائی کے طلب گار ہیں، جو طریقہ بتایا جائے اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کریں کہ نماز اور قرآن کے ساتھ مناسبت پیدا ہو گئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے اللہ تعالیٰ اس کو قائم و دائم رکھے ۔نماز اور قرآن بہت بڑی چیز ہے

﴿وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ (البقرۃ: 45)

ترجمہ: ” اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو ۔“

قرآن پاک بہت بڑی کتاب ہے، اللہ کا کلام ہے، اس کو باقی سارے کلاموں پر فضیلت حاصل ہے، جیسے اللہ کو ساری مخلوقات پر فضیلت ہے۔

یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ مراقبات وغیرہ میں پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کوشش میں برکت اور کامیابی عطا فرمائے۔ یہ سارا تصوف اس لئے ہوتا ہے کہ انسان کے ظاہری اعمال بہتر ہو جائیں اور باطنی طور پر تمام اعمال خالص ہو جائیں، تصوف روحانی بیماریوں کو نکالنے کے لئےعلاج ہوتا ہے۔ اس علاج کے لئے اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ ضروری ہوتا ہے اور دئیے گئے معمولات کو پابندی کے ساتھ مقررہ وقت پر پورا کرنا لازمی ہوتا ہے۔ معمولات کا اہتمام ، اور احوال کی اطلاع، یہ دوکام اگر باقاعدگی کے ساتھ کئے جائیں روحانی بیماریوں سے صحت یابی شروع ہو جائے گی، روحانی طور پر ترقی آئے گی ،اعمال کے اندر جان آئے گی اور ان شاء اللہ مزید توفیقات سے نوازا جائے گا۔ لہٰذا اس چیز میں واقعی improvement کی ضرورت ہے۔ با قاعدگی کے ساتھ اپنے معمولات پورے کرتے رہیں۔ ساتھ ساتھ معمولات کا chart بھی download کر لیں، اسے باقاعدگی کے ساتھ fill کر کے بھیجا کریں۔

آپ نے خوابوں کے بارے میں پوچھا ہے تو اس بارے میں عرض کرتا ہوں کہ خواب کی تین قسمیں ہیں۔

(1) مبشرات۔

جو خواب اللہ کی طرف سے آتے ہیں۔ یہ صحیح خواب ہوتے ہیں ان کی تعبیر ہوتی ہے اور وہ تعبیر‘ تعبیر بتانے والے سے پوچھی جا سکتی ہے۔ ان کا نفسیات کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا یہ ڈائریکٹ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔

(2) اضغاث احلام:

یہ خواب اس وجہ سے آتے ہیں کہ کسی کے لاشعور میں کوئی چیز بسی ہے، اس کے بارے میں خواب آتے رہتے ہیں۔ یا دن میں جو کچھ دیکھتے ہیں یا جس بارے میں زیادہ سوچتے ہیں رات میں اس سے متعلق خواب آ جاتے ہیں۔ اس قسم کے خوابوں کی psychological interpretation کی جا سکتی ہے۔ اضغاث احلام کی قسم کے خوابوں کا حقیقتاً کوئی مطلب نہیں ہوتا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایسے خوابوں سے اس آدمی کا نفسیاتی تجزیہ ضرور کیا جا سکتا ہے جس کو خواب آ رہے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایسی چیزوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے جن کی عملی field نہیں ہے، بس تصوراتی دنیا میں پھر رہا ہے۔ ایسے لوگ خوابوں میں ہواؤں میں اڑا کرتے ہیں، کبھی ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر اڑا ، کبھی سمندروں صحراؤں کے اوپر پروازیں کرتا رہا۔ اس قسم کے خوابوں کا تعلق انسان کی اپنی نفسیات سے ہوتا ہے۔

(3) شیطانی خواب:

پہلی قسم کی طرح اس قسم کے خوابوں کا تعلق بھی نفسیات کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پہلی قسم کے خواب انسان کی اپنی طرف سے نہیں آتے وہ اللہ کی طرف دکھائے جاتے ہیں، وہ گویا کہ رحمانی الہام ہوتا ہے جو کسی کو خواب میں بتایا گیا۔ یہ تیسری قسم کے خواب بھی انسان کی اپنی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں، گویا کہ یہ شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ رحمانی الہام جاگتے میں بھی آ سکتا ہے، سوتے میں بھی۔ اسی طرح شیطانی وسوسہ جس طرح جاگتے میں آ سکتا ہے، اُسی طرح خواب میں بھی آ سکتا ہے۔ بعض اوقات شیطان خواب میں ایسی شکلیں لاتا ہے جس سے خواب دیکھنے والے کے اخلاق بگڑنے کا خدشہ ہوتا ہے، جس سے اس کا دین پر چلنا مشکل اور دین کے بارے میں confusions پیدا ہو کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ سب شیطانی خواب ہوتے ہیں۔

ایسے خوابوں کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی آدمی برا خواب دیکھے تو تین بار بائیں طرف تھتکارے اور اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھے۔ اس طرح ان خوابوں کا برا اثر نہیں ہوگا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ کہ پہلے قسم کے خواب psychologist کی range سے باہر ہیں کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے آتے ہیں اور تیسری قسم کے خواب بھی انسان کی psychological کی range سے باہر ہیں کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے آتے ہیں۔ شیطان کو کسی psychology پہ read نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بارے میں آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کس قسم کا وسوسہ ڈالے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی کوئی نہیں guess کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ کس قسم کی بات بھیجے گا۔ یہ دونوں اقسام انسان کی سائیکولوجیکل رینج سے باہر ہیں۔ البتہ دوسری قسم کے خواب یعنی اضغاث احلام کا تعلق نفسیات سے ہو سکتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ ایسے خوابوں سے اس انسان کا کوئی Psychological pattern ظاہر ہو رہا ہو، جس سے اس کی شخصیت اور نفسیات کے بارے میں کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہو۔

اس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ سائیکولوجی کی رینج میں سارے خواب نہیں آتے بلکہ کچھ تھوڑے سے خوابوں کا تعلق اس کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اس لئے مسلمان سائنسدان اور کافر سائنسدان میں ایک واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ مسلمان سائنسدان تینوں اقسام کے خوابوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا سکتے ہیں کیونکہ ایک تو وہ خود سائنسدان اور نفسیات دان ہیں، دوسرے ان کے پاس آسمانی چیزیں بھی موجود ہیں۔ اللہ اور اس کے پیغمبروں کی طرف سے بھی کچھ چیزیں موجود ہیں۔ لہٰذا وہ تینوں اقسام کے خوابوں کو حل کر سکتے ہیں۔

سوال کرنے والے صاحب نے ایک بات یہ کہی ہے اسے فلاسفی کا بہت شوق ہے۔ فلاسفی ایک ایسا subject ہے کہ کچے ذہن والا آدمی تو اس کے پاس بھی نہ پھٹکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلاسفی میں بہت بڑے بڑے کنفیوز اور متردد قسم کے لوگوں کی باتیں ہوتی ہیں، جنہیں پڑھ کر دوسرے لوگ بھی کنفیوز ہو جاتے ہیں۔ مثلاً Bertrand Russell ایک بہت بڑا فلاسفر گزرا ہے۔ مرتے وقت اس نے کہا تھا “I am dying as a confuse person” یعنی میں ایک متردد آدمی کے طور پر مر رہا ہوں۔ مجھے نہیں پتا کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ تردد اور شک بہت خطرناک چیز ہے۔ جسے شک ہو جائے وہ تو ایمان تک سے محروم ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ تو گیا لیکن اس کی تحریروں کو کوئی پڑھے گا تو وہ متردد ہو گا، اس کا کوئی concept کلئیر نہیں ہو گا۔ جو آدمی خدانخواستہ اس حالت میں مر جائے تو اس کے اعمالنامہ میں یقین نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی بس شک ہی شک نظر آئے گا۔ علامہ اقبال بھی پہلے ایسے ہی فلسفی تھے۔ بعد میں انہوں نے اس سے توبہ کی تھی۔ ان کاآخری خط جو انہوں نے اپنی بہن کو لکھا تھا ، اس میں لکھتے ہیں کہ کاش مجھے پہلے عقل سمجھ ہوتی تو میں فلسفہ میں اپنا وقت ضائع نہ کرتا،اس کی جگہ دین سیکھتا، کچھ کر لیتا، میں نے بہت سارا وقت ضائع کر دیا۔ جس چیز سے علامہ اقبال بھی تائب ہو چکے ،اس چیز کو ہم کیوں اپنے لئے پسند کریں۔ بلکہ ہم اس چیز کو لیں جس طرف علامہ اقبال فلسفہ کے بعد آئے، اور وہ ہے اللہ و رسول کی محبت، اور اس محبت کے ساتھ دین پر چلنے کی کوشش کرنا۔ جب وہ اپنے پرانے فلسفہ سے توبہ تائب ہوئے، اس کے بعد ہی ان سے ایسے اشعار نکلے:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

ہمیں علامہ اقبال کی اِ س فکر کو اپنانا چاہیے۔ خشک فلسفہ انسان کو پریشان، متردد اور گمراہ کر دیتا ہے۔ بہت کم لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ خشک فلسفیوں کا مقابلہ کر سکیں۔ میرے خیال میں اس کے لئے ابھی آپ کی عمر نہیں ہے۔ اس کے لئے پختہ عمر کی ضرورت ہے۔جب آپ کی عمر پختہ اور عمل پکا ہو جائے ، تو یہ کام آپ تب بھی کر سکتے ہیں۔ فی الحال آپ کے لئے یہ کرنا مفید نہیں ہے۔ تمھارے پاس قرآن کی صورت میں ایک مکمل کتاب موجود ہے۔اگر غور کرنا ہے تو اسی میں کر لو اور آپ ﷺ کی سیرت میں غور کرو۔

قرآن اور حدیث تو جتنا ہو سکے پڑھتی رہیں۔ اس کے ساتھ اگر آپ مزید مطالعہ کر سکتی ہیں تو مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ ملفوظات کو پڑھ لیا کریں۔ اس میں آپ کو فلسفہ بھی ملے گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فلسفہ بیان کرتے ہیں، ساتھ ساتھ اس کا توڑ بھی بیان کرتے ہیں۔ فلسفہ کے مقابلے میں صحیح اور حقیقی بات بھی بیان کرتے ہیں۔ آپ اپنے اوقات اِدھر اُدھر پریشانی اور تردد کی باتوں میں لگانے کی بجائے ان چیزوں میں لگائیں اور اپنے آپ کو پریشانیوں سے محفوظ کر لیں۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت میں بہت شرمندہ ہوں۔ اس وجہ سے آپ کو کال کرنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی۔ ایک سال پہلے میں نے آپ سے ذکر لیا تھا ، لیکن اپنی کمزوری کی وجہ سے زیادہ دن نہیں کر پایا۔ آپ سے درخواست ہے کہ مہربانی فرما کر مجھے دوبارہ ذکر دے دیں۔ ان شاء اللہ میں با قاعدہ ذکر کیا کروں گا۔ اپنے حالات اور معمولات بھی بھیجوں گا۔

جواب:

فی الحال آپ یوں کر لیں کہ 200 مرتبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھیں، 200 مرتبہ اِلَّا اللّٰہ، 200 مرتبہ اللّٰہُ اللّٰہ اور 100 مرتبہ اللّٰہ کا ذکر کریں۔ پھر با قاعدگی کے ساتھ مجھے ہر مہینہ بتاتے جائیں۔ ان شاء اللہ آپ کا ذکر چل پڑے گا۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میں آپ کی رہنمائی کی طلبگار ہوں۔ عجیب الجھن کا شکار ہوں۔ مجھ میں اعمال کی سخت کمی ہے۔ میرے اعمال میں استقامت نہیں ہے۔ میں دین میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں لیکن خود کو کمزور محسوس کرتی ہوں۔ حضرت جی میں آپ کے بیانات بھی سنتی ہوں اور پیر ذوالفقار صاحب کی کتاب خطبات فقیر کا بھی مطالعہ کر رہی ہوں۔ پہلے تو مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ شیخ کون ہوتے ہیں، میں سمجھی کہ سعودیہ کے لوگوں کو ہی شیخ کہتے ہیں یا پھر یہ ایک ذات ہے۔ الحمد للہ ایک اچھی سہیلی کی صحبت ملی۔ میں نے آپ کے بیانات اور پیر ذوالفقار صاحب کے خطبات کا مطالعہ شروع کیا جس سے پتا چلا کہ پیر طریقت کیا ہوتا ہے۔ میں بیعت بھی ہونا چاہتی ہوں لیکن آپ نے جو مناسبت کی بات کی اس کی وجہ سے متردد ہوں۔ حضرت جی آپ میری رہنمائی کر دیجئے ۔ میں ایمان کے لحاظ سے کیوں اتنی کمزور ہوں کہ نفس کے پیچھے لگ جاتی ہوں۔ براہ کرم میری ہدایت کی دعا فرمائیے گا۔

جواب:

ہمارے ہاں خطوط لکھنے والے کا نام ظاہر کیے بغیر خطوط پڑھے اور ان کے جوابات دئیے جاتے ہیں، جس سے دوسرے لوگوں کا بھی فائدہ ہو جاتا ہے، جیسے میں نے ابھی یہ سارا خط پڑھ لیا لیکن نام نہیں بتایا، کسی کو پتا نہیں چلا کہ کس کا خط ہے، اب میں اس کا جواب دوں گا جس سے ان شاء اللہ خط لکھنے والے کے ساتھ ساتھ باقی تمام سننے والوں کو بھی فائدہ ہو جائے گا۔

یاد رکھیں کہ سب سے پہلی بات ہوتی ہے اس بات کا احساس پیدا ہو جانا کہ مجھ میں کوئی کمی ہے۔ مثلاً بیماری کا احساس ہو گیا کہ میری صحت ٹھیک نہیں ہے کوئی مسئلہ ہے یا کسی برائی کا احساس ہو گیا کہ مجھ میں یہ روحانی بیماری ہے۔ احساس ہو گیا اور فکر پیدا ہو گئی۔ دوسرامرحلہ ہوتا ہے اس بیماری کے علاج کی طرف پیش قدمی کرنا۔ صرف فکر اور احساس ہونے سے علاج نہیں ہوتا، اس کے لئے انسان کو کچھ اور کرنا پڑتا ہے ۔ اس بات کو معلوم کرنا پڑتا ہے کہ اس بیماری کا علاج کیسے ہوگا۔ مثلاً جسمانی بیماری ہو تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا علاج ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جا کر ہوگا۔ اب صرف ڈاکٹر یا حکیم کے چہرے کو دیکھ کر آجانے سے علاج نہیں ہوتا، بلکہ تیسرا قدم بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ تیسرا قدم یہ ہے کہ ڈاکٹر کو اپنی بیماری کے بارے میں بتایا جائے، جس سے وہ آپ سے سوال پوچھ کر ، آپ کے ٹیسٹ وغیرہ کرکے تشخیص کرتے ہیں کہ یہ بیماری ہے، پھر اس کا علاج بتاتے ہیں۔ نسخہ وغیرہ لکھ کر دیتے ہیں۔

اب اگر آپ نے صرف علاج سن لیا اور نسخہ جیب میں رکھ لیا تو اس سے بھی علاج نہیں ہوتا۔ اس کے لئے اگلا کام یہ کرنا پڑتا ہے کہ اس نسخہ کے مطابق دوا خریدنی پڑتی ہے۔ صرف خرید کے رکھ لینے سے بھی علاج نہیں ہوتا، بلکہ اس کو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جب تک علاج مکمل نہ ہو تب تک پابندی کے ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق دوا استعمال کرنی ہوتی ہے اور ساتھ ڈاکٹر کو اطلاع بھی کرنا ہوتی ہے کہ اب میری طبیعت کا یہ حال ہے۔ اگر دوائی استعمال کرلی مگر پورا فائدہ نہیں ہوا تو ڈاکٹر کو بتانا ہوتا ہے، جس پر ممکن ہے کہ ڈاکٹر کوئی اور دوائی دے یا وہی دوائی جاری رکھے۔ اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک مریض اس بیماری سے صحت یاب نہ ہو جائے۔ یہ دنیا کی بیماری کی مثال ہے۔ روحانی بیماری کا بھی یہی معاملہ ہے کہ ہمیں احساس ہو گیا کہ کچھ مسائل ہیں۔ اب اس کا طریقہ یہ ہے کہ معلوم کیا جائے کہ ایسے مسائل کا علاج کیسے ہوتا ہے۔ جستجو کی تو پتا چل گیا کہ شیخ کامل اور پیر طریقت کے ہاں ان مسائل کا علاج ہوتا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کس شیخ کامل سے آپ کو مناسبت ہے۔

آپ نے کہا کہ مناسبت کے بارے متردد ہوں اس کے بارے میں وضاحت فرما دیں۔ مناسبت کے بارے میں دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ آپ دیکھیں کہ کس کی باتوں سے، کس کی تحریر سے اور کس کی رہنمائی سے آپ کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ دوسرا اس بات کا دھیان رکھیں ان کے ساتھ آپ کا رابطہ ہو سکتا ہے یا نہیں۔ بعض ڈاکٹر بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن وہ امریکہ میں ہوتے ہیں، نہ آپ امریکہ جا سکتے ہیں نہ وہ امریکہ سے یہاں آ سکتے ہیں، لہذا آپ ان سےعلاج نہیں کر اسکتے، حالانکہ وہ بہت اونچے درجہ کے ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ صرف بڑا ڈاکٹر ہونا ضروری نہیں ہے، reach میں ہونا بھی ضروری ہے کہ آیا آپ وہاں تک پہنچ بھی سکتے ہیں یا نہیں پہنچ سکتے، ان کے ساتھ رابطہ بھی ممکن ہوگا یا نہیں۔ آپ یہ دونوں باتیں جانچ لیں کہ جس جس شیخ کے ساتھ آپ کو مناسبت ہے، یعنی ان کی باتوں سے آپ کو فائدہ ہو رہا ہے آیا وہ آپ کی reach میں بھی ہے یا نہیں، آپ ان سے رابطہ کر سکتی ہیں یا نہیں کر سکتیں۔ اگر آپ رابطہ کر سکتی ہوں اور اس سے آپ کو فائدہ محسوس ہو رہا ہو تو ایسا شیخ آپ کے لئے زیادہ مناسب ہو گا۔ بہرحال آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کس کی باتوں سے، کس کی تحریر سے، کس کے بیانات سے کس کی چیزوں سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہے۔ پھر دیکھیں کہ ان کے ساتھ آپ کا رابطہ ممکن ہے یا نہیں۔ اگر فائدہ بھی ہو رہا ہے اور رابطہ بھی ممکن ہے تو پھر ان سے بیعت کر لیں۔ اس کے بعد ان سے معمولات وغیرہ لے کر با قاعدگی کے ساتھ کریں، ہر مہینہ اس کی رپورٹ بھی دیتی رہیں۔ اگر وہ پہلے دئیے ہوئے معمولات کو تبدیل کر لے تو نئی ہدایات کے اوپر عمل کر لیں۔ اسی ترتیب پہ مسلسل چلتی رہیں یہاں تک کہ آپ کو فائدہ ہو جائے اور آپ ان چیزوں سے نکل آئیں۔

سوال نمبر9:

ہم اپنی اولاد کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، کیا کریں؟

جواب:

بچوں کی تربیت کے لئے پہلے بڑوں کی تربیت ضروری ہے۔ جب بڑوں کی تربیت ہو جائے گی تو بچوں کی تربیت کے راستے خود بخود کھل جائیں گے۔ آپ اپنی تربیت شروع کروا لیں ، بچوں کی تربیت اسی میں ہو جائے گی۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم ۔ حضرت جی! اپنی اصلاح فرض عین ہے۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسروں کو کس حد تک دعوت دی جائے کہ اپنی اصلاح میں رکاوٹ نہ آئے اور دوسروں کو بھی صحیح طرح دعوت دی جا سکے؟

جواب:

اس معاملے میں ہر شخص کے لئے علیحدہ صورت حال ہوتی ہے، اس کے حالات کے مطابق اسے طریقہ بتایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ کرو، ان کے ہدایت کردہ معمولات بھی کرو اور ساتھ ساتھ تبلیغ کا کام بھی جاری رکھو۔ ان کے لئے اتنی بات کافی ہوتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ دوسروں کی اصلاح میں اپنے آپ کو نہ بھولو۔ ان کی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بالکل بھول جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید ہماری اصلاح ہو چکی ہے، اب ہم دوسروں کی اصلاح کر رہے ہیں۔ ہم ان کو یہ سمجھاتے ہیں کہ بھئی اپنے آپ کو بھی اصلاح کا محتاج سمجھتے ہوئے اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ رکھا کریں اور جو معمولات ان سے ملیں وہ ہر حال میں پورے کیا کریں، اس کی اطلاع دیا کریں ، اس کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کی نیت سے تبلیغ کے normal کام میں بھی چلتے رہیں۔ یہ طریقہ کار زیادہ تر ان لوگوں کو بتاتے ہیں جو تبلیغی جماعت میں چل رہے ہوتے ہیں۔

جو حضرات درس و تدریس اور مدارس سے وابستہ ہیں، یا کسی اور دینی کام سے وابستہ ہیں ان کو ہم کہیں گے کہ اپنے مدرسے کے کاموں کو جاری رکھیں۔ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھیں اس کے ساتھ اپنی اصلاح کا کام بھی جاری رکھیں۔

میرے خیال میں آپ کا تعلق مدرسے کے ساتھ ہے تو آپ کو ہم یہی کہیں گے کہ اپنی پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھیں اور ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کا کام بھی جاری رکھیں۔ ایک وقت میں تین چار کام نہیں ہوا کرتے۔ کمزور کندھوں پر اتنا بوجھ نہیں لادنا چاہیے کہ وہ دب جائیں۔ آپ کے لئے یہ دو کام کافی ہیں۔ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور اپنی تعلیم پوری کر لیں۔ البتہ گھر کے لوگوں میں تذکرہ و مذاکرہ کے طور پہ بات کر لیا کریں۔ جیسے آپ کی اپنے شیخ کے ساتھ کوئی بات ہو رہی ہے یا آپ کو کوئی فائدہ محسوس ہو رہا ہے تو آپ گھر والوں سے بات چیت کرتے ہوئے نارمل انداز میں ان باتوں کا تذکرہ کر لیں کہ یہ چیزیں بھی ضروری ہیں، اس طرح بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح بات کرنے سے ان لوگوں کو بھی فائدہ ہو جاتا ہے ، ان میں اس لائن کی طرف آنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ کے لئے فی الحال اتنی تبلیغ کرنا کافی ہے۔ با قاعدہ ان کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ کہتے ہیں دوسروں کے جوتوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی کو گم نہ کریں۔ انسان کو اپنے کام کی طرف زیادہ توجہ رکھنی چاہیے۔ دوسروں کے کام کرتے ہوئے انسان کو اپنا سارا کچھ خراب نہیں کرنا چاہیے۔ اس وجہ سے میں یہی کہوں گا کہ آپ فی الحال مدرسے کے کام کو سنبھالیں اور اپنی اصلاح کا خیال رکھیں۔ اپنے گھر میں یا اپنے قریبی دوستوں میں صرف تذکرہ کی حد تک تبلیغ اور دعوت کی باتیں کریں۔ ان شاء اللہ آپ کو تعلیم کے بعد اس کا پورا موقع مل جائے گا، تب اللہ تعالیٰ آپ سے کام لیں گے۔ لیکن فی الحال اپنے آپ کو محدود کر لیں تاکہ کچھ نہ کچھ حاصل ہو جائے۔

سوال نمبر11:

حضرت جی! وہ لوگ جن کا تصوف کے ساتھ تعلق نہیں ہے، مراقبہ اور اصلاحی ذکر کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ یہ مراقبہ اور اصلاحی ذکر کیوں کیا جاتا ہے۔ ایسا بھی تو ممکن ہے کہ اصلاحی ذکر اور مراقبات کی بجائے قرآن یا مسنون اعمال کے ذریعے اصلاح ہو جائے۔ ہم اکثر اس سوال کا جواب نہیں دے پاتے۔ اس بارے میں مناسب انداز میں کیا بات کرنی چاہیے؟

جواب:

آپ ان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیمار ہونے پہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے قرآن اور مسنون اعمال سے علاج کرنا بھی تو ممکن ہے، پھر ڈاکٹر کے پاس کیوں جاتے ہو۔ کیا ڈاکٹر قرآن کی آیات یا مسنون اعمال بتاتا ہے؟ وہ جسمانی بیماریوں کے علاج کے طور پر دوا اور پرہیز بتاتا ہے۔ اسی طرح شیخ روحانی بیماریوں کے علاج کے طور پر جو دوا اور پرہیز بتاتا ہے اسی کو اصلاحی ذکر اور مراقبات کہتے ہیں۔ مثلاً ایک انسان میں تکبر کی بیماری ہے۔ قرآن پاک میں تکبر کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ تکبر نہیں کرنا چاہیے، اگر کسی میں تکبر ہے تو اسے دور کرے۔ اب آپ بتائیں کہ اس وقت ایک ارب سے زیادہ مسلمان ہیں، کیا ہر ایک کا تکبر ایک جیسا ہے؟ کیا ہر ایک کا علاج ایک ہی ہو گا؟ تو کتنی قسم کے تکبر کا علاج قرآن پاک میں لکھا ہے؟ لہٰذا جس طرح جسمانی بیماریوں کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ ان کا علاج قرآن پاک سے ہی ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں کے بارے میں بھی یہ کہنا غلط ہے۔ جس طرح سے ہم جسمانی علاج کے لئے غیر منصوص طریقۂ علاج کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ واجب سمجھتے ہیں، اسی طرح روحانی بیماریوں کا علاج بھی غیر منصوص طریقہ سے بالکل جائز ہے۔ ہم تکبر کو نکالنے کے لئے جو علاج دیتے ہیں اس میں کوئی قرآن پاک کی آیت نہیں پڑھائی جاتی ۔ بے شک قرآن پاک میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تکبر کو دور کیا جائے، لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن پاک میں اس کا طریقہ کیا بتایا گیا ہے، یا حدیث میں حضور انور ﷺ نے اس کا کیا مخصوص طریقہ بتایا ہے کہ ایسا کرو تو تکبر دور ہو جائے گا۔ اگر کوئی طریقہ بتایا گیا ہے تو ہمیں بھی بتائیں۔ قرآن و حدیث میں ایسا کوئی طریقہ نہیں بتایا گیا، بلکہ اس کو ہر معالج اور مریض کے اپنے ذاتی حالات و تجربات پہ چھوڑ دیا گیا ہے ۔

جو لوگ ایسا کہتے ہیں یہ در اصل ان کی کند ذہنی کی علامت ہے یا پھر یہ لوگ اپنی اصلاح نہیں کرانا چاہتے۔ کیا یہ لوگ شیخ عبدالقادر جیلانی ، مجدد الف ثانی، ، حضرت تھانوی ، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین اور تمام بزرگان دین سے زیادہ ذہین ہیں؟ وہ حضرات زیادہ ذہین تھے یا یہ لوگ زیادہ ذہین ہیں۔ وہ حضرات تو روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے اصلاحی ذکر، مراقبات اور دوسرے غیر منصوص علاج وغیرہ دینا جائز سمجھتے تھے جبکہ یہ لوگ اسے ٹھیک نہیں سمجھتے۔ وہ تو کسی کے پاس جانے کی ضرورت سمجھتے تھے ، یہ لوگ نہیں سمجھتے۔ تو ٹھیک ہے بھاڑ میں جائیں، جو کرنا چاہیں کریں۔ ادھر ہی جواب دیں گے جب اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچیں گے۔ آپ ﷺ نے فرما یا ہے کہ جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ اگر ان کو کوئی طریقہ بتایا گیا ہے تو اس پر عمل کر کے اپنا تکبر ختم کر لیں ورنہ اگر تکبر کے ساتھ چلے گئے تو معلوم ہو جائے گا۔ لہٰذا یا تو دوسروں کے تجربوں سے فائدہ اٹھائیں یا پھر اس کے نتائج وعواقب بھگتنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

کسی شاعر نے کہا ہے کہ گرد کو بیٹھنے دو پھر پتا چل جائے گا کہ کون گدھے پہ بیٹھا ہے اور کون گھوڑے کے اوپر بیٹھا ہے۔ موت کو آنے دو موت کے بعد پتا چل جائے گا کہ کون کدھر جا رہا تھا۔ ان لوگوں سے depress نہیں ہونا چاہیے، یہ خواہ مخواہ اپنا وقت بھی ضائع کرتے ہیں دوسروں کا بھی ضائع کرتے ہیں۔ ان کا موٹا سا جواب یہ ہے کہ کیا سارے بزرگوں نے نعوذ باللہ من ذالک جھک ماری ہے جو ان چیزوں کے لئے اپنے بزرگوں کے پاس جایا کرتے تھے؟ کیا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جو علم کے پہاڑ تھے ان کو قرآن کا پتا نہیں تھا ؟ وہ حاجی صاحب کے پاس کیوں گئے۔ مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمیں نام سب چیزوں کے معلوم تھے لیکن وہ چیزیں ہمارے پاس نہیں تھیں، چیزیں حاجی صاحب کے پاس تھیں۔

میں صاف challenge کر کے کہتا ہوں کہ صبر کے بارے میں دو دن مسلسل لیکچر دینے والے کے اندر اگر صبر نہ ہو تو اس سے وہ آدمی اچھا ہے جو بالکل جاہل ہے، جس کو پتا بھی نہیں کہ صبر کیا ہوتا ہے لیکن اس میں صبر کی صفت ہے۔ کیا صبر کا عالِم صبر والا ہوتا ہے ؟ کیا تکبر کا عالم تکبر سے فارغ ہو جاتا ہے؟ کیا T.B کے عالِم آدمی کو اگر یہ بیماری ہو جائے تو صرف علم ہونے کی بنا پر وہ اس بیماری سے بچ جائے گا؟ ہر گز نہیں بچے گا، اسکو علاج کرنا پڑے گا۔ علاج کرنے کے لئے اس کو کتابیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کسی معالج سے علاج کرانا ہو گا، اس کی تمام دوائیاں کھانی پڑیں گی، اس کے سارے پرہیز کرنے پڑیں گے پھر اس کی بیماری ٹھیک ہو گی۔ کتابیں پڑھنے سے کبھی بیماری ٹھیک ہوئی ہے؟ یہی ساری بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہیں آتی، ایسے جاہلوں کے منہ ہی نہیں لگنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو بتا دو کہ کہ جاؤ بھاڑ میں ، جو کرنا چاہتے ہو کرو۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مسئلہ میں سخت طریقہ اختیار کیا ہے۔ فرمایا:

؏ با مدعی مگوید اسرارِ عشق و مستی۔

جو اس کا انکار کرنے والے ہیں، ان کے سامنے یہ قصے نہ بیان کرو، ان کے لئے یہ سزا کم نہیں کہ وہ اس سے محروم ہیں۔

اگر کوئی نہیں جاننا چاہتا اور نہیں ماننا چاہتا تو اس کے لئے ہم سوائے دعا کے اور کیا کر سکتے ہیں۔

سوال نمبر12:

السلام علیکم حضرت جی۔ کیا قلبِ سلیم کی صفات کو ہی مقامات کہتے ہیں؟

جواب:

جی ہاں قلب سلیم کی صفات مثلاً اخلاص، رضا بالقضا، استقامت، یقین اور صبر وشکر وغیرہ انہی صفات کو مقامات کہتے ہیں۔

سوال نمبر13:

سکر کیا ہوتا ہے؟

جواب:

سکر میں انسان ایسی مستی کی حالت میں ہوتا ہے کہ اسے اردگرد کی چیزوں کا پتا نہیں چلتا۔ اس کو حالت سکر کہتے ہیں۔

سوال نمبر14:

السلام علیکم۔ میرا آپ کی خدمت میں سوال ہے کہ actually نفس کیا چیز ہے؟ اس کی آسان الفاظ میں وضاحت فرما دیں۔ کیونکہ کچھ لوگ دل کو نفس کہتے ہیں۔ لیکن میری ناقص عقل کے مطابق دل اور نفس ایک نہیں ہو سکتے۔

جواب:

آپ نے بالکل صحیح کہا۔ نفس اور عقل دو مختلف چیزیں ہیں۔ نفس کے بارے میں قرآن پاک میں کئی جگہ پہ ذکر آیا ہے۔ ایک جگہ نفس امارہ کا ذکر آیا ہے۔ ایک جگہ نفس لوامہ کا ذکر آیا ہے جبکہ ایک جگہ نفس مطمئنہ کا ذکر آیا ہے ۔سورۃ الشمس میں بہت وضاحت کے ساتھ نفس کی اصلاح کے بارے میں بات فرمائی گئی ہے:

﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا ۔ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشمس:7-10)

ترجمہ: ”اور انسانی جان کی(قسم) اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈل دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔ “

اس میں نفس کی ساخت کے بارے میں بھی بات آ گئی ہے۔ نفس میں دو نوں چیزیں ہیں ، فجور یعنی برائیاں اورتقویٰ یعنی نیکو کاری۔ جو اس کی برائیوں پہ control کر لے گا اور تقویٰ حاصل کر لے گا وہ مکمل کامیاب ہے اور جو ایسا نہیں کر سکا وہ مکمل نا کام ہے۔

احادیث شریفہ میں بھی نفس کا ذکر وضاحت کے ساتھ آیا ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے۔ ”عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے عمل کیا اور بے وقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو کرنے دیا جو کچھ وہ کرنا چاہتا ہے اور پھر بغیر توبہ کے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید کرتا رہا“۔

اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ آخرت کے لئے کام کرنے کے لئے رکاوٹ نفس ہے۔ نفس کو قابو کیے بغیر آخرت کے لئے کام نہیں ہو سکتا۔ نفس دنیاوی چیز ہے وہ سب کچھ دنیا میں چاہتا ہے۔ لہذا نفس امارہ آپ کو دنیا کی چیزوں کی طرف لائے گا تو آخرت کے لئے آپ کام نہیں کر سکیں گے۔ مثلاً آپ نماز پڑھنا چاہتے ہیں، صبح فجرکے لئے اٹھنا چاہتے ہیں، نفس کہے گا: ابھی سو جاؤ۔ اس کو فوری آرام چاہیے، اس کو آپ کی آخرت سے کیا تعلق۔ جب آپ اس نفس پہ قابو پائیں گے، اٹھیں گے اور نماز پڑھیں گے تو آخرت کے لئے کام ہو گا۔ اسی طرح اگر آپ افسر ہیں اور آپ کے پاس کوئی رشوت لائے گا۔ نفس کہے گا کہ لے لو۔ اگر آپ نے رشوت لے لی تو آخرت کوتباہ کر دیا، اور اگر نفس کی بات نہیں مانی تو آخرت بن گئی۔ اوامر و نواہی دونوں چیزوں پہ عمل تب ہو سکتا ہے، جب نفس کو قابو کر لیا جائے۔ معلوم ہوا کہ نفس اعمال صالحہ کے لئے رکاوٹ ہے۔ اس کے اوپر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ آسان لفظوں میں اس کی وضاحت ایسے کی جا سکتی ہے کہ ہماری خواہشات جیسے غیر محرم کی طرف دیکھنے کی خواہش، گانے سننے کی خواہش، دوسری خواہشات کی تمام حِسیں نفس کی طرف سے آ رہی ہیں۔ نفس ان کا کا پروسیسر ہے، یہ خواہشات نفس کا آپریٹنگ سسٹم ہیں۔

یہ تو نفس کی بات ہوئی۔ ”قلب“ کا معاملہ نفس سے مختلف ہے۔ ایک روحانی دل ہوتا ہے، ایک جسمانی دل ہے۔ جسمانی دل والی جگہ پہ ہی روحانی دل بھی ہوتا ہے۔ یہ روحانی دل دو چیزوں کی طرف جاتا ہے، اس کے اندر دو صلاحیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کی طرف سے اچھی بات کا الہام روحانی دل میں آتا ہے، دوسری یہ کہ شیطان کی طرف سے بری بات کا وسوسہ بھی روحانی دل میں آتا ہے۔ اگر کسی آدمی کا دل اچھے خیالات پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، بری چیزوں کو چھوڑ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اچھی چیز کو response دے رہا ہے۔ اگر مسلسل ایسا ہوتا رہے تو اس کی بری چیزیں کم ہونا شروع ہو جائیں گی، اس کا یہ چینل کمزور ہوتا جائے گا اور اچھی چیز کا چینل طاقتور بڑھتا جائے گا۔ حتیٰ کہ جب مسلسل کرے گا تو ایک وقت ایسا آ جائے گا کہ اس کے دل میں اچھی چیز کے لئے قبول کرنے کی صلاحیت 100 فیصد ہو جائے اور اور بری چیز کے قبول کرنے کی صلاحیت زیرو فیصد ہو جائے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ پھر حق سے لے گا ،نا حق سے نہیں لے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا ہے: ” جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا“۔

اس کے برعکس اگر کسی کا دل غلط چیزوں کے لئے زیادہ ریسپانس دیتا ہے اور اچھی چیز وں پہ توجہ نہیں کرتا، تو اس کے دل میں اچھی چیزوں کی قبولیت کی صلاحیت کم ہونا شروع ہو جائے گی اور ہوتے ہوتے ایک دن زیرو فیصد ہو جائے گی، اور بری چیزوں کے قبول کرنے کی صلاحیت 100 فیصد ہو جائے گی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

﴿خَتَمَ اللّٰهُ عَلىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلىٰ أَبْصَارِهِمْ(البقرۃ: 7)

ترجمہ: ”اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے۔“

ایسے لوگوں کے دل اب حق بات بالکل وصول نہیں کر سکتے یہ 100 فیصد شر کے چینل بن جاتے ہیں ، مجسم شیطان بن جاتے ہیں اور شیطان ہی کے کہنے پہ چلتے ہیں۔

جو دل بالکل بری چیز کی طرف لگ گیا وہ دل بہت خطرناک ہے، اس پہ تو اللہ کی مہر لگ جاتی ہے اور جو دل اچھی چیز کی طرف لگ گیا وہ دل بہت اچھا ہے ، وہ قلب سلیم ہے، ایسے دل والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔

اب ایک اور بات سمجھیں کہ ہمارے اعضاء و جوارح یعنی آنکھ، کان، ہاتھ پاؤں وغیرہ جن سے ہم اعمال کرتے ہیں، ان کا تعلق دل کے ساتھ بھی ہیں اور نفس کے ساتھ بھی ہے۔ نفس ان اعضاء کو اپنے پیغام دیتا ہے ، دل اپنے پیغام دیتا ہے۔ اگر دل صحیح ہے تو وہ آنکھ کو صحیح استعمال کا سگنل دے گا، جبکہ نفس اپنی خواہش کے مطابق استعمال کا سگنل دے گا۔ اب جس کے نفس کی اصلاح ہو چکی ہو گی وہ اپنے نفس کی بات نہیں مانے گا، دل کی بات مان لے گا، جس کی اصلاح نہیں ہوئی ہو گی وہ نفس کی بات مان لے گا اور آنکھ سے غلط چیز دیکھ لے گا۔ اب اگر کسی کا دل بھی خراب ہے اور اس کے نفس کی اصلاح بھی نہیں ہوئی، اس کو صحیح طرف لانے والی کوئی چیز نہ رہے گی۔ اس کی مثال ایسے ہی ہوگی جیسے ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔ جیسے پشتو میں کہتے ہیں ”څه جرنده ورانه او څه داني لوندي“۔ یعنی ”آٹے کی چکی بھی خراب اور ساتھ دانے بھی گیلے“۔ تو اگر نفس بھی خراب ہے اور دل بھی خراب۔ پھر تو سب کام خراب ہو گیا۔ اگر نفس کا علاج نہیں ہوا لیکن دل کا علاج ہوا ہے تو دل صحیح سگنل دیتا رہے گا، جبکہ نفس اپنی مرضی کی طرف مائل کرتا رہے گا، لہٰذا ایسے شخص کو نفس کا علاج کرنا پڑے گا۔ نفس کے علاج کے بعد ٹھیک عمل ہو پائے گا۔ اور اگر نفس کا علاج تو کر لیا مگر دل کا علاج نہ کیا، پھر تو صحیح سگنل ہی نہیں آئے گا۔ اس وجہ سے دونوں کا مکمل علاج ضروری ہے۔ اس کی مثال آپ یوں سمجھ سکتے ہیں جیسے گاڑی بھی ٹھیک ہونی چاہیے، ڈرائیور بھی ٹھیک ماہر ہونا چاہیے۔ اسی طرح دل بھی ٹھیک ہونا چاہیے اور نفس بھی ٹھیک ہونا چاہیے۔ دل کی اصلاح ذکر کے ذریعے ہوتی ہے ۔ نفس کا علاج مجاہدے کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور یہ علاج کرنے کے لئے شیخ کامل سے رابطہ ضروری ہے، اس شیخ کی بات ماننی پڑتی ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن