سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 196

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ !

May اللہ سبحانہ و تعالیٰ always keep you in good health, الحمد للہ حضرت that ضرب is not there anyone, it started happening in Saudi Arabia and become quite frequent. رمضان was better than all other رمضان I have spent in Saudi Arabia but still I have not been able to make best of it may اللہ سبحانہ accept my worthless effort and deeds .I am trying to do ذکر regularly and درود شریف and استغفار as well, درود شریف مجلس is going on after Asar every Friday listen to your bayans quite frequently may اللہ keep me connected with you in my both life’s آمین.

جواب:

یہ سوال سعودی عرب سے ایک صاحب نے بھیجا ہے۔ ما شاء اللہ کافی حوصلہ افزاء احوال ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ان کا رمضان اچھا گزرا ہے۔ ذکر بھی با قاعدگی کے ساتھ کر رہےہیں۔ درود شریف کی مجالس بھی جاری ہیں اور بیان بھی پابندی سے سن رہے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو مزید بڑھا دے اور استقامت نصیب فرما دے۔ آمین

سوال نمبر2:

حضرت جی! میں سٹوڈنٹ ہوں، پڑھائی میں زیادہ مصروف رہتی ہوں اس وجہ سے دین کی تعلیم حاصل نہیں کر پاتی۔ کئی مرتبہ چڑ جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ سب کچھ چھوڑ دوں۔حضرت آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا کروں؟

جواب:

سائلہ میڈیکل سٹوڈنٹ ہے۔ میڈیکل کا تعلق انسانی جسم کے ساتھ ہے۔ ان کے سوال کے جواب میں میں اپنے ایک ساتھی کا واقعہ اور اپنے شیخ کا ملفوظ سناتا ہوں۔ ہمارے یہ ساتھی بھی میڈیکل سٹوڈنٹ تھے، ویسے تو بڑے اچھے تھے لیکن پڑھائی میں ذرا کمزور تھے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے اور ان کے استاذ بھی حضرت کے مرید تھے۔ ان استاذ صاحب نے حضرت سے شکایت کی اور کہا کہ مولانا صاحب آپ کو اس وقت مبارک باد دوں گا جب ان کے ہاتھ سے پہلا مریض مر چکا ہو گا۔

حضرت نے اس طالب علم کو فرمایا:

”سن لو جس طرح تم ذکر کے لئے پوری توجہ کے ساتھ بیٹھتے ہو، اسی طرح پڑھائی کے لئے بھی توجہ سے بیٹھ جایا کرو، یہ تمھارے لئے لازمی ہے“۔

تو میں بھی اس بچی کو یہی کہتا ہوں کہ آپ کے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ ایک ایسی پڑھائی میں مصروف ہیں جو انسانی جسم سے متعلق ہے۔ اس وجہ سے آپ اپنی پڑھائی شوق سے جاری رکھیں۔ اس میں کمی نہ ہونے دیں۔ میں نے جو مراقبہ آپ کو دیا ہے وہ کافی کم مقدار میں ہے لہٰذا اس کو مناسب وقت پہ کر لیا کریں باقی ذکر چلتے پھرتے کر لیا کریں۔ ان شاء اللہ آپ کے لئے یہ بھی کافی ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ اپنی پڑھائی میں اطمینان کے ساتھ مصروف رہیں، یہ پڑھائی کر کے آپ کوئی غلط کام نہیں کر رہیں، بلکہ بہت اچھا کر رہی ہیں۔ خواتین ڈاکٹرز کی معاشرے میں بڑی ضرورت ہے۔

خواتین ڈاکٹرز کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کل میڈیکل کالجز کی اکثر سیٹوں پہ لڑکیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے، تقریباً 70 سے 80 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں۔ لیکن وہ اپنی خاندانی اور معاشرتی ضروریات کی بنا پر یہ پروفیشن جاری نہیں رکھ پاتیں۔ محتاط اندازے کے مطابق ان 80 فیصد ڈاکٹر بننے والی خواتین میں سے صرف 30 فیصد ایسی ہیں جو اس پروفیشن کو جاری رکھتی ہیں، اور باقاعدہ ڈاکٹر بن کر اپنی خدمات سر انجام دیتی ہیں۔ خواتین کی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد بہت کم ہے۔ کیونکہ پاکستان میں کل آبادی کا پچاس فیصد سے زیادہ حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ چونکہ خواتین کی تعداد زیادہ ہے اس لئے خواتین ڈاکٹرز کی تعداد بھی زیادہ ہونی چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہے، بہت کم خواتین اس پیشے کو جاری رکھتی ہیں، اس وجہ سے زیادہ تر خواتین کو مرد ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑتا ہے، جس کا بسا اوقات مردوں کو اخلاقی نقصان ہوتا ہے اور عورتوں کی بے پردگی بھی ہوتی ہے، یہ صورت حال کسی صورت مناسب نہیں ہے۔

لہٰذا وہ خواتین جو میڈیکل سٹوڈنٹس ہیں، ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کریں، اس کے بعد لازماً پریکٹس کریں، تاکہ خواتین کی ضرورت پوری ہو اور وہ اطمینان سے اپنا علاج خواتین ڈاکٹرز سے ہی کروا سکیں۔ آپ اپنی تعلیم کو ایک جہاد سمجھ کر کریں، البتہ اتنی احتیاط ضرور رکھیں کہ بے پردگی نہ ہو۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم!

I hope you will be in best state of health and ایمان please find attached the معمولات for the month of رمضان المبارک please also guide me how to proceed and how to be involved in complete سلسلہ please remember me in your special prayers.

جواب:

آپ نے جو چارٹ فل کیا ہے اس کے مطابق احوال ماشاء اللہ بہت اچھے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ نے دیا گیا ذکر پورے مہینے پابندی کے ساتھ کیا ہے۔ باقی معمولات بھی ٹھیک ہیں، نمازیں بھی مکمل ہیں۔ میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ استقامت نصیب فرمائے، آپ سے دین کی خدمت بھی لے اور میڈیکل لائن میں بھی خدمت لے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے بہت زیادہ دین کی خدمت لے۔مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ آپ اس کو جاری رکھیں۔ باقی معمولات، جب آپ تشریف لائیں گے تب ڈسکس کر لیں گے۔

ایک نو مسلم ساتھی نے اپنے معمولات کا چارٹ بھیجا ہے۔ ماشاء اللہ ان کے احوال بہت اچھے ہیں۔ الحمد للہ تمام نمازیں ادا ہیں (سوائے چار نمازوں کے)۔ لیکن وہ بڑے مشکل حالات میں ہیں۔ ان حالات میں اتنی پابندی سے معمولات کرنا اور نمازیں ادا کرنا واقعی بڑی بات ہے۔ ان حالات میں وہ تہجد بھی پڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں جو یہاں نہیں پڑھتے ان کے لئے اس میں سبق ہے اور عبرت ہے۔ اس بے چارے کے ایسے حالات ہیں کہ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ یہ فجر کی نماز کے لئے اٹھے ہیں، وضو کیا ہے اور اس کے والد جاگ گئے جو مسلمان نہیں ہیں، انہوں نے زبردستی اس کو دوبارہ سلا دیا۔ پھر اس نے بستر پہ ہی اشاروں سے نماز پڑھی۔ ایسے حالات میں تہجد بھی پڑھنا اور باقی نمازوں کا پورا کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے، بس اللہ کا فضل چاہیے، جب وہ ہو جائے تو سب کام بن جاتے ہیں۔ ان پر بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے۔

سوال نمبر4:

اگر کسی دن ٹائم کم ہو اور ذکر و مراقبہ دونوں کرنے ہوں تو دونوں میں سے کیا کرنا چاہیے۔ ذکر پورا کرنا چاہیے یا مراقبہ پورا کرنا چاہیے۔ اگر کسی ایک میں کچھ کمی کرنی پڑ جائے، تو کس میں کی جا سکتی ہے؟

جواب:

آپ بتائیں اگر دفتر جانے میں بہت کم وقت رہ گیا ہو تو کھانے میں کمی کرنی چاہیے یا پانی پینے میں کمی کرنی چاہیے، کیا کرنا چاہیے؟ جس چیز میں بھی کمی ہو گی اس کا نقصان ہو گا، وہ نقصان بھگتنا پڑے گا، اس لئے کسی میں کمی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اپنے وقت کی ترتیب کو ٹھیک کرنا چاہیے۔

سوال نمبر5:

ایک بات سنی ہے کہ اپنے شیخ کو کسی اور کا سلام نہیں پہنچانا چاہیے۔یہ بات درست ہے یا نہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

شیخ کے پاس جانے کا اصل مقصد سلام وغیرہ پہنچانا یا کوئی بھی اور کام نہیں، صرف اور صرف ایک مقصد ہے کہ شیخ سے اپنی اصلاح کروا لیں۔ لوگوں کو یہ خبط ہوتا ہے کہ دنیا جہاں کی باتیں اپنے شیخ سے کرتے ہیں لیکن اپنی اصلاح کی بات نہیں کرتے انہیں اس کی فکر نہیں ہوتی۔ انہیں اپنی اصلاح سے زیادہ دوسرے لوگوں کے تذکرے خبریں اور سلام دعا کرنے کرانے کا شوق ہوتا ہے۔ آپ بتائیں کہ اگر آپ نے کسی ڈاکٹر سے appointment لی ہوتو کیا اس کے پاس پہنچ کر لوگوں کا سلام پہنچائیں گے ؟ یا دوسرے لوگوں کے بارے میں بتائیں گے کہ فلاں کی صحت بڑی اچھی ہے، وہ فلاں کی دوائی سے ٹھیک ہو گیا یا پھر اپنی صحت، بیماری اور علاج کے متعلق گفتگو کریں گے؟ ظاہر ہے آپ اپنا علاج کروائیں گےکیونکہ ڈاکٹر کا ٹائم بھی ایک بڑی نعمت ہے، اس کو اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بنانا چاہیے... اول خویش بعد درویش... یہ بہت بڑا اصول ہے۔ بعض بے چارے نادان لوگ دوسروں کی اصلاح میں دبلے ہو رہے ہوتے ہیں اور اپنی اصلاح سے فارغ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ہی کہا گیا ہے:

؏ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

تم دوسروں کے غم میں دبلے ہو رہے ہو اور تمھارا اپنا کام خراب ہو رہا ہے۔ دوسروں کے جوتے کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی گم نہ کریں۔ سوچنا چاہیے کہ کیا میری اصلاح مکمل ہو گئی جو میں دوسروں کی اصلاح کرنا چاہ رہا ہوں۔ آپ کو اللہ پاک نے جتنا وقت دیا ہے اسے بجائے دوسروں کی اصلاح کرنے پر لگانے کے اپنی اصلاح میں لگائیں، جب آپ کی مکمل اصلاح ہو جائے اور شیخ آپ کو بتا دے کہ اب آپ دوسروں کی اصلاح کا کام کر سکتے ہیں، تب ضرور کریں۔ ایثار کرنا ہے تو دوسری چیزوں میں کریں۔ اگر آپ اپنی اصلاح چھوڑ کر دوسروں کی اصلاح میں وقت لگاتے ہیں تویہ دراصل ایثار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے نزدیک اپنی اصلاح کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔

لہٰذا جن حضرات نے یہ کہا ہے کہ شیخ کو دوسروں کا سلام نہیں پہنچانا چاہیے انہوں نے یہ بات اس لئے کہی ہے تاکہ دل میں یہ فکر پیدا ہو کہ شیخ اگر آپ کی طرف متوجہ ہے تو اس موقعہ کو غنیمت جان کر ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، اس وقت کو دوسری چیزوں میں لگا کر اس موقعہ کو ضائع نہ کریں۔

ہمارے حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ اپنے خلفاء کو فرمایا: ” کبھی کبھی اپنے مریدوں کو ویسے ہی محبت کے ساتھ دیکھ لیا کریں، ان کو فائدہ ہو جاتا ہے“۔

واقعتاً اگر شیخ اپنے مرید کو محبت کے ساتھ دیکھیں تو ان کو فائدہ ہو جاتا ہے۔ بلکہ میرا ایک بہت عجیب تجربہ ہےکہ اگر میرے دل میں کسی کے بارے میں خیال آ جائے کہ فلاں نہیں آ رہا تو اگلے دن وہ تقریباً پہنچ جاتا ہے۔ اب نہ مجھے اس کا طریقہ آتا ہے نہ communication procedure کا پتا ہے کہ ان تک یہ بات پہنچتی ہے۔ یہ اللہ پاک کا نظام ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن ہم نے اس چیز کا تجربہ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ channel بہت زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بہت کچھ کراتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیخ کی توجہ پر اتنے انتظامات ہیں اور اللہ پاک نے آپ کو یہ موقعہ دیا ہے کہ شیخ آپ کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہے تو گویا اللہ تعالیٰ ہی آپ کی طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہے، کیونکہ اللہ پاک ہی نے اس شیخ کو متوجہ کیا ہے، تو کیا خیال ہے اس موقعہ کو کوئی ضائع کر سکتا ہے! اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے وقت میں دوسروں کی فکر میں لگ کر اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بڑے قیمتی لمحات ہوتے ہیں۔

ہمارے ایک ڈاکٹر صاحب بیلجئیم میں Ph.D. کر رہے تھے۔ ان سے دوستوں نے پوچھا کہ ”آپ شاہ صاحب کو خط لکھتے ہیں ؟“کہتے ہیں: ”ہاں لکھنے کی کوشش تو کرتا ہوں لیکن وہ مجھے سب کچھ خواب میں بتا دیتے ہیں“۔

اب میں نے تو ایک دفعہ بھی ان کو خواب میں نہیں بتایا، میں نے تو خواب میں کبھی نہیں دیکھا کہ میں اس کو بتا رہا ہوں لیکن وہ خواب دیکھتے رہے۔ آخر اسے خواب میں کون بتا رہا تھا۔ ظاہر ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا نظام تھا،اللہ ہی بتا رہا تھا۔یہ اللہ پاک کی قدرت میں ہے کہ وہ شکل کسی کی بھی دکھا دے، وہ اس پر قادر ہے۔ یہ سارا نظام اللہ پاک کا ہے، اللہ ہی چلاتا ہے،اللہ پاک کی رحمت کا نظام ہے۔ لہٰذا ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بعض لوگ اس میں اللہ تعالیٰ کی نسبت کو بھول جاتے ہیں اور شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے کام شیخ خود کرتا ہے، جبکہ ہم کہتے ہیں کہ شیخ کو بطور ذریعہ استعمال کیا جا رہا ہے اور استعمال کرنے والے اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔

ایک بار مجھے England سے فون آیا۔ میں نے خاتون کی آواز پہچان لی اور فوراً اس کو ڈانٹا کہ ”تم مراقبہ ٹھیک سے کرتی ہو یا نہیں کرتی“۔

اس نے کہا کہ شاہ صاحب میں نے آپ کو یہی بتانے کے لئے فون کیا تھا کہ دو دفعہ آپ نے مجھے خواب میں ڈانٹا ہے کہ مراقبہ کرتی ہو یا نہیں کرتی ہو۔

میں نے کہا: ”اب کیا ارادہ ہے ؟“

اس نے کہا: ”اب ٹھیک سے کروں گی“۔

یہ سارا نظام اللہ پاک کا بنایا ہوا ہے، اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لئے جب شیخ کے پاس موجود ہوں تو اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے اسے باقی چیزوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

سوال نمبر6:

”فضل“ کی مختصر تشریح کیا ہے ... یہ کیسے ہوتا ہے اور اللہ کس پر کرتے ہیں؟اگر کوئی آدمی کسی سے بیعت ہے تو کیا اپنے حالات بتائےبغیر شیخ کو دعا کا کہہ سکتا ہے یا نہیں کہہ سکتا، اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

عرف میں فضل سے مراد دنیاوی نعمتیں ہیں۔ جیسے مسجد سے باہر نکلے کی دعا کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِك ”اے اللہ میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے فضل کا“۔ اس کے علاوہ فضل کا لفظ عام ہے، تمام دینی دنیاوی اور اخروی نعمتوں کو شامل ہے۔

رہا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ فضل کیسے فرماتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو اللہ کی طرف ہر لمحہ متوجہ رہے، اس کی عنایات کا طلبگار رہے، اس پر اللہ تعالیٰ فضل فرما دیتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

یک لحظہ زدن غافل ازاں شاہ نباشی

شاید کہ نگاہے کند آگاہ نباشی

ترجمہ: ایک لحظہ کے لئے بھی اس بادشاہ احکم الحاکمین اس سے غافل نہ ہو

عین ممکن ہے وہ اسی وقت رحمت کی نظر فرما رہا ہو اور تمہیں پتا نہ ہو اس کی نا قدری ہو جائے۔

ہر وقت اللہ کی طرف اس کی سوغات کے لئے متوجہ رہنا چاہیے کہ مجھ پر اللہ پاک کا فضل ہو جائے۔ ایک چیز دعا کے الفاظ ہوتے ہیں اور ایک ہوتا ہے دعائیہ کیفیت میں رہنا یعنی دل میں ہر دم اپنی محتاجی کا اظہار و اقرار اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہربانی کی امید رکھنا۔ یہ کیفیت اصل میں سوالیہ صورت ہے۔ گویا کہ بندہ سوال کر رہا ہے۔ مثلاً آپ کسی آدمی سے بات کچھ بھی نہ کریں لیکن بڑی مسکین صورت بنا کر اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں تو یہ صورتاًسوال ہوتا ہے کہ آپ ہمارے اوپر کرم کریں، کچھ دے دیں۔ دنیا میں اس طرح بِھک منگے لوگ کرتے ہیں۔ ہم لوگوں کو ہر دم دل میں اللہ کے حضور ایسی ہی کیفیت رکھنی چاہیے، اس سے عاجزی آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت ہر وقت سامنے رہتی ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ کی عظمت یاد ہو اس کو اپنا آپ بھول جاتا ہے وہ پھر اپنے اوپر نظر نہیں کرتا۔ یہ بہت اچھی کیفیت ہے اس کیفیت کو حاصل کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بہت ساری ایسی دعائیں ہیں جن کے بارے میں احادیث میں ذکر ہوتا ہے کہ یہ دعائیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا سبب بنتی ہیں، نمازوں میں اور نمازوں کے بعد ان دعاؤں کو مانگنا چاہیے۔ کچھ اوقات مقبولیت کے ہوتے ہیں کچھ حالتیں مقبولیت کی ہوتی ہیں، کچھ جگہیں مقبولیت والی ہوتی ہیں، ان تمام مواقع پر ان دعاؤں کو کرنا چاہیے اور دل میں عاجزی کی کیفیت رکھنی چاہیے، اس سے اللہ پاک اپنا فضل فرما تے ہیں۔

دعا کے لئے تو سب سے کہا جا سکتا ہے، اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ہے کہ کسی اور سے دعا کا کہتے ہوئے اپنے شیخ سے استغنا کی کیفیت نہ ہو، یعنی دل میں یہ بات نہ ہو کہ شیخ کے ہاں سے شاید نہ ملے تو چلو یہاں سے مل جائے۔ اگر ایسا ہے تو یہ حجاب ہے، رکاوٹ بن جائے گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کسی سے بھی دعا کے لئے کہا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر7:

ایک شخص آٹھ سال سے کہیں بیعت ہو اور وہاں نہ جائے۔ اب اگر اسے کہتے ہیں کہ کسی سے بیعت ہو جاؤ تو وہ کہتا ہے کہ میں پہلے فلاں جگہ بیعت ہوں، اس لئے میں کسی اور سے بیعت نہیں کرتا۔ اگر ایسی صورت ہو، کہ شیخ حیات ہو، اور مرید اس کے پاس ایک طویل عرصے تک نہ جائے، اور رابطہ نہ کرے تو کیا یہ کسی اور شیخ سے بیعت کر سکتا ہے؟ اس میں کتنے وقت کا اعتبار کیا جائے گا کہ اگر اتنے وقت تک ایک شیخ سے رابطہ نہ ہو پائے تو کہیں اور بیعت کر لے۔ مثلاً ایک آدمی پیر ذوالفقار صاحب سے بیعت ہے، وہ مدینہ شریف میں چلے گئے ہیں، اب ان سے رابطہ کا کوئی طریقہ نہیں بن رہا، ایسا شخص دوسری جگہ بیعت کرنا چاہتے تو کتنے عرصہ بعد کر سکتا ہے اور اس کا کیا طریقہ کار ہے؟

جواب:

پیر ذوالفقار صاحب کے بارے میں‘ میں خصوصی طور پہ میں عرض کر سکتا ہوں کہ ان کے ایسے مرید جو ان سے رابطہ نہیں کر سکتے وہ دوسروں سے بیعت ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیر صاحب کے ساتھ رابطہ واقعی ممکن نہیں ہے۔ کوئی جتنی بھی کوششیں کرتا ہے وہ ناکام ہو جاتی ہیں۔ اچھا ان کے ہاں ڈبل مسئلہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ حضرت ایسے مریدین کو اپنے خلفاء کی طرف متوجہ کر لیتے اور خلفاء کے ساتھ ان کی مناسبت ہو جاتی، پھر تو مسئلہ حل ہو جاتا۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ پیر صاحب سے بیعت شدہ لوگوں کی ان کے خلفاء کے ساتھ مناسبت نہیں ہوپاتی۔ اکثر لوگوں کے ساتھ یہی واقعہ ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ پیر صاحب زیادہ تر توجہ کرتے ہیں۔ جب کبھی تشریف لے آتے تھے، توجہ کی وجہ سے لوگ بیعت ہو جاتے تھے۔ اب توجہ میں حقیقی مناسبت نہیں ہوتی، وہ ایک وقتی چیز ہوتی ہے۔ اس وقتی چیز کی وجہ سے لوگ بیعت تو ہو گئے لیکن حقیقی مناسبت نہیں بنتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان مریدوں کی ان کے خلفاء کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی۔ کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی کی اپنے شیخ کے ساتھ مناسبت ہو اور ان کے کسی بھی خلیفہ کے ساتھ مناسبت نہ ہو پائے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب ان کی مجلس میں لوگ یوں بیعت کرتے ہیں تو اس کی وجہ وہ توجہ والی کیفیت ہوتی ہے۔ بلاشبہ ان چیزوں کا فائدہ ہوتا ہے لیکن وہ عارضی ہوتا ہے مستقل طور پہ نہیں ہوتا۔ اگر تربیت نہ ہو سکے تو پھر اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔ تربیت کے لئے اس چیز کو استعمال ضرور کیا جا سکتا ہے۔ دورانِ تربیت کسی معاملے میں کوئی پھنس جائے، نکل نہ سکے تو مشائخ اپنی توجہ کے ذریعے سالک کو وہ مشکل گھاٹی عبور کروا دیتے ہیں۔ اس کے بعد پھر اس کی تربیت شروع کر دیتے ہیں۔ یہ طریقہ تو ٹھیک ہے لیکن ساری چیزوں اور پوری اصلاح کو توجہ کے بھروسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ لہذا پیر صاحب کے بارے میں ہمارا شرح صدر یہی ہوا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ خصوصی حالات ہیں، ان خصوصی حالات کی وجہ سے مجبوری ہے۔

میرے جاننے والوں میں ایک صاحب بڑے پریشان تھے ان کا اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ نہیں ہو رہا تھا، وہ بھی بہت بڑے بزرگ تھے۔ تو وہ صاحب میرے پیچھے لگے ہوئے تھے کہ آپ میرا مسئلہ حل کریں۔ وہ کچھ حال احوال میں پھنس گئے تھے۔ میں ان سے بچتا پھرتا تھا کہ آخر اتنے بڑے شیخ سے بیعت ہے، میں کیوں درمیان میں پڑوں۔ ان کے لئے بڑی پریشانی کی بات تھی۔ میں بار بار انکار کرتا تھا وہ بار بار اصرار کرتے تھے۔ اسی اثنا میں مفتی مختار الدین شاہ صاحب میرے پاس تشریف لائے تو میں نے ان سے مشورہ کیا۔ مفتی صاحب نے فرمایا : ”کیا دو مہینے میں ان کا اپنے شیخ سے رابطہ ہو سکتا ہے ؟“میں نے کہا: ”حضرت وہ تو فرما رہے ہیں کہ چھ مہینے سے رابطہ نہیں ہو رہا“۔ فرمایا: ”پھر کسی اور سے تعلق قائم کر سکتے ہیں۔“ اب میرے خیال میں پیر ذوالفقار صاحب کے ساتھ تو شاید سالوں میں بھی رابطہ نہیں ہوتا چھ مہینے تو دور کی بات ہے۔ لہٰذا ان سے بیعت شدہ ایسے حضرات کے لئے یہی طریقہ ہے کہ وہ کسی اور شیخ سے تربیت کروا سکتے ہیں۔

سوال نمبر8:

جو شخص کسی شیخ میں آٹھ نشانیاں دیکھ کر بیعت ہو جائے، لیکن پھر ان سے اصلاح کرانے کا موقع نہ ملےتواس صورت میں وہ کیا کرے۔

جواب:

آپ پہلے ایک سوال کا جواب دیں کہ اگر کوئی آدمی بیمار ہو، وہ ایک ماہر ڈاکٹر تلاش کر لے، تو کیا اسے ڈاکٹر کے پاس جانا نہیں چاہیے اور علاج نہیں کرنا چاہیے ؟یا پھر علاج شروع کر کے چھوڑ دینا چاہیے؟ اگر وہ ڈاکٹر سے علاج نہیں کرائے گا یا علاج شروع کرکے چھوڑ دے گا، دونوں صورتوں میں اس کا نقصان ہی نقصان ہے۔ اسی طرح اگر ایک آدمی شیخ کامل کو تلاش کر لے، تو اس کے بعد وہ علاج شروع نہ کرائے یا شروع کر کے چھوڑ دے تو یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ اسے ترغیب دینی چاہیے کہ آپ نے ایک بڑا مرحلہ طے کر لیا ہے، موقعہ بھی میسر ہے، اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں۔ آدمی جتنی دیر سے شروع کرتا ہے، محرومی کا خدشہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ ان کو ترغیب دینی چاہیے کہ وہ اپنے شیخ سے اصلاح کروائیں اور موقع ضائع نہ کریں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ چھوٹی داڑھی رکھنا اور داڑھی بالکل نہ رکھنا برابر ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ ایسی بات نہیں ہے، بلکہ اصل با ت یہ ہے کہ چھوٹی دارھی رکھنا اور داڑھی بالکل نہ رکھنا اس بات میں تو برابر ہے کہ داڑھی نہ رکھنے کا اجر نہیں ہے اور چھوٹی داڑھی رکھنے سے بھی داڑھی رکھنے کا اجر نہیں ملتا، چھوٹی داڑھی والا بھی داڑھی منڈوں کے حکم میں ہوتا ہے۔ لیکن چھوٹی داڑھی والے کو اتنا فائدہ ضرور ہے کہ اگر یہ آدمی داڑھی بڑھانا چاہے تو اس کو اتنی زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے، جتنی داڑھی منڈے کو کرنی پڑے گی۔ اس نے چھوٹی داڑھی رکھ کر، اور داڑھی رکھنے کا سلسلہ شروع کرکے ایک بہت بڑی گھاٹی طے کی ہے، لہذا اتنا advantage تو اس کو حاصل ہے کہ کسی بھی وقت اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مزید فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ یہی مثال ہے ان دونوں کی، جس نے بیعت کر لی ہے اور اصلاح نہیں کر وا رہا اور جس نے بیعت ہی نہیں کی۔بیعت کرنے کے بعد اصلاح نہ کروانے کی مثال چھوٹی داڑھی والے کی سی ہے، اور بیعت نہ کرنے والے کی مثال داڑھی منڈے کی سی ہے۔ بیعت والے کو یہ موقع حاصل ہے کہ جب وہ اصلاح شروع کرنا چاہے گا، شروع کر لے گا، اس کا بڑا مرحلہ طے ہو چکا ہے، لہذا اس کو اس کے لئے ترغیب دینی چاہیے۔ جو لوگ بیعت نہیں ہیں ان کے لئے ابھی پہلا بڑا مرحلہ طے کرنا باقی ہے، لہٰذا ان کے لئے زیادہ مشکل ہے۔

در اصل بات یہ ہے کہ لوگ شیخ کی تلاش میں غیر ضروری طور پر بہت زیادہ وقت لگا لیتے ہیں۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کر لیں تو بہت جلدی جواب مل جاتا ہے، لیکن لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جب خود بلاوا آئے گا تب کر لیں گے۔ بلاوے سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خود ہی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ آ جائیں اور دستک دے کر کہیں کہ آپ کی خدمت کر سکتا ہوں۔ اب نہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے آنا ہے، نہ انہوں نے بیعت ہونا ہے۔ اپنی اصلاح سے بے فکری رکھنا تکبر کی علامت ہے۔ جو انسان اس کی ضرورت نہیں سمجھتا اور اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھتا ہے کہ میرے پاس بزرگ آئیں گے اور کچھ کہیں گے تو پھر میں دیکھوں گا کہ ان میں سے کون سا میری پسند کے مطابق ہے۔ بزرگوں کی لائن کھڑی کر دو اور پھر میں دیکھوں گا کہ آٹھ نشانیاں کس میں پوری ہیں۔ نہ ایسا ہوگا نہ وہ کسی سے بیعت کرے گا نہ ہی اصلاح شروع ہو گی۔

اللہ تعالیٰ کسی سے مجبور نہیں ہے۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرف کھانا رکھا ہوا ہے، لیکن کوئی کہے کہ میں نے ہاتھ بڑھا کے لقمہ بنا کے نہیں کھانا بس یہ خود بخود منہ میں آ جائے تو پھر کھاؤں گا۔ ایسا آدمی بھوکا ہی رہے گا،اور اس میں سراسر اس کااپنا قصور ہوگا۔ انسان کو خود اپنے اندر طلب پیدا کرنی چاہیے۔ اگر اپنے اندر سچی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ بہت جلدی اس طلب کو پورا فرما دیتے ہیں اور صحیح جگہ پہنچا دیتے ہیں، شرط یہ ہے کہ کوشش تو کرے، اللہ سے مانگے۔ ایسا کرے گا تو ان شاء اللہ‘ اللہ تعالیٰ بہت جلدی راستہ دے دیں گے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن