سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 194

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مرحبا مسجد - ہائی وے لنک دربار روڈ، کری روڈ، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَم النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال نمبر1:

رمضان میں شیاطین قید ہوتے ہیں۔ اب جو وسوسے ہیں یا لغویات کا آنا، کیا یہ صر ف نفس کی خرابی ظاہر کرتے ہیں؟

جواب:

اس کے علماء کرام نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ ایک جواب تو یہ ہے کہ حدیث شریف میں ”سرکش شیاطین“ کے الفاظ آئے ہیں۔ ممکن ہے کہ جو شیاطین رمضان میں قید ہوں وہ سرکش شیاطین ہوں، کچھ شیاطین پورے طور پر قید نہ ہوئے ہوں، جیسے خناس وغیرہ جو وسوسے ڈالتے ہیں ممکن ہے وہ قید نہ ہوتے ہوں، کیونکہ وسوسے تو رمضان میں بھی آتے ہیں۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ رمضان میں جو وساوس آتے ہیں وہ شیطان کی طرف سے نہیں آتے کیونکہ شیطان قید ہوتے ہیں، یہ وساوس انسان کو نفس کی طرف سے آتے ہیں۔ انہیں حدیث نفس کہتے ہیں۔ حدیث نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس کی جو خواہشات ہوتی ہیں، انسان کے دل میں بار بار ان کا خیال آتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص راستے پہ جا رہا ہے اس کے دل میں بار بار بدنظری کی خواہش اٹھ رہی ہے۔ یہ حدیث نفس ہے جو اس کو اس بات پر ابھار رہی ہے کہ وہ اوپر دیکھے تاکہ غیر محرم پر نظر پڑ جائے۔ معلوم ہوا کہ ضروری نہیں کہ ہر وسوسہ اور غلط خیال شیطان کی طرف سے ہی ہو، اور اگر رمضان میں کچھ وساوس یا خیالات آتے ہیں تو ضروری نہیں کہ ان کا تعلق شیطان سے ہی ہو۔

سوال نمبر2:

نیاز،فاتحہ اور ایصال ثواب میں کیا فرق ہے، نیز ختم خواجگان کسے کہتے ہیں؟

جواب:

نیاز کا لفظ عام ہے، اس سے مراد کسی بھی قسم کی خیرات ہو سکتی ہے۔ یہ خیرات کرنے والے کی نیت پہ منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی نیاز دے رہا ہے، اگر اس کا مقصد ایصال ثواب ہے تو اس نیاز سے ایصال ثواب مراد ہوگا۔ غیر اللہ کے نام پر نیاز دینا جائز نہیں ہے۔

ایصال ثواب کا ایک مفہوم عرض کرتا ہوں جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کیا چیز ہے ایصال ثواب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی نے کوئی ثواب والا کام کیا ہے، جس کا ثواب اس کے پاس ہے۔ مثلاً میں نے صبح دو رکعت پڑھی ہو تو اس کا ثواب میرے پاس موجود ہے۔ اگر میں چاہتا ہوں کہ اس کا ایصال ثواب کروں تو میں دل میں اللہ جل شانہ سے عرض کروں گا کہ یا اللہ اس دو رکعت نماز کا ثواب اس شخص کے لئے ہے۔ میں دل میں یہ سوچوں گا اور اسے ثواب پہنچ جائے گا۔ جیسے آج کل آپ حضرات Online banking کرتے ہیں۔ آپ اپنی ڈیوائس پر نمبر وغیرہ لکھ کر ok کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی مطلوبہ بندے کے پاس رقم پہنچ جاتی ہے۔ جب دنیا میں ایسا ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں تو اس سے بدرجہا بہتر انتظامات ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو آناً فاناً سب کچھ کر دیتے ہیں۔ لہذا جیسے ہی ہم نے دل میں یہ ارادہ کر لیا کہ اس عبادت کا ثواب فلاں کے لئے ہے، اسے وہ ثواب اسی وقت پہنچ گیا۔ اس کے لئے زبان سے کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے،دلی ارادہ ہی کافی ہوتا ہے۔

اس میں کچھ مزید تفصیل یہ ہے کہ فرض کا ثواب ہم کسی اور کو نہیں بخش سکتے، یہ ہماری اپنی ضرورت ہے۔ مثلاً آپ دو گردوں میں سے ایک گردہ دینا چاہے تو دے سکتے ہیں لیکن دونوں نہیں دے سکتے۔ دونوں دیں گے تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ فرض کے ثواب کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ فرض عین عبادات کا ثواب ہماری اپنی ضرورت ہے لہذا اس کا ثواب ہم نہیں بخش سکتے۔بخشنا چاہیں بھی تو نہیں بخش سکتے۔ البتہ نفلی عبادات کا ثواب بخش سکتے ہیں، چاہے وہ مالی ہو یا بدنی۔ مثلاً نفل نماز، خیرات وغیرہ کا ثواب بخشا جا سکتا ہے۔ مثلاً میں نے کوئی مدرسہ بنایا اور میں نے ارادہ کیا کہ اس کا ثواب مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے ہے۔ جب تک وہ مدرسہ موجود رہے گا اس کا ثواب حضرت کو پہنچتا رہے گا۔اسی طرح اگر میں کوئی بھی نیک کام کر لوں، کوئی دینی کتاب شائع کر دوں اور نیت کر لوں کہ اس کا ثواب فلاں کو ملتا رہے تو یہ ایصال ثواب ہے۔

جہاں تک ختم خواجگان کی بات ہے تو در اصل یہ کلمات توحید ہیں۔ ان کے ذریعے انسان اس بات کا اقرار و اظہار کرتا ہے کہ سبب کچھ اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے، اللہ ہی سب کچھ کرتے ہیں۔ ان کلمات کو اتنی تعداد میں کر لیا جاتا ہے جتنی تعداد میں ہمارے جوڑ ہیں۔ پھر ان کلمات کے پڑھنے کو ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے وسیلہ بناتے ہیں کہ اے اللہ اس کی برکت سے ہماری ضروریات کو پورا فرما دے تو اللہ تعالیٰ پورا فرما دیتے ہیں۔ اس میں ایصال ثواب نہیں ہے یہ تو ایک عمل ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول کلمات ہیں جب انہیں پڑھتے ہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور اللہ پر ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کے ساتھ جب ہم اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فضل فرما دیتے ہیں۔ یہ بزرگوں کا طریقہ ہے،بزرگ اس طرح کیا کرتے تھے۔ اس لئے اس کو ختم خواجگان کہتے ہیں۔ ختم خواجگان یعنی وہ ختم جو بزرگ پڑھا کرتے تھے۔ ختم خواجگان کا ایصال ثواب وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سوال نمبر3:

تمام صوفی بزرگ کسی ایک سلسلے میں بیعت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چاروں سلسلوں میں بیعت کیسے کرتے ہیں؟ کیا چاروں سلسلوں میں بیعت والا سلسلہ کسی ایک سلسلہ میں بیعت والے سلسلوں سے افضل ہے؟

جواب:

یہ ایک معصومانہ سوال ہے اس کا جواب ضرور دینا چاہیے۔ پہلے سمجھیں کہ سلسلہ کسے کہتے ہیں۔ تصوف کے سلسلہ سے مراد دراصل آپ ﷺ کی صحبت کا سلسلہ ہے۔ اس کو مثال کے ذریعے یوں سمجھیں کہ ایک شخص ہے جس کو ہم اس وقت ”B“ کہہ لیتے ہیں، وہ دوسرے شخص ”C“ کے ساتھ بیٹھا ہے اوراس کی صحبت ”A“ کے ساتھ بھی ہے۔ اب ”C“، ”B“ سے فیض لے رہا ہے اور ”B“، ”A“ سے لے رہا ہے۔ جس طرح ”B“ نے ”A“سے فیض لیا، اسی طرح اس نے ”A-“1 سے بھی فیض صحبت لیا، ”A-“2 سے بھی لیا اور ” A-3“ سے بھی لیا، یعنی چاروں کے ساتھ صحبت میں بیٹھا ہے۔ لہٰذا اس ”B“کے پاس چاروں کا فیض آ گیا۔ اب اس کے پاس جو آ خر بیٹھے گا مثلا ”C“اس پہ چاروں کے چاروں کا اثر اس ایک کے ذریعے پہنچ رہا ہے۔ یہی مثال سلاسل اربعہ کی ہے۔ ابتداء میں ان سلسلوں کا کوئی نام نہیں ہوتا تھا۔ صرف افراد تھے اور ان افراد میں سب سےپہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آتے ہیں۔ ان کے بعد تابعین ہیں، ان کے بعد تبع تابعین ہیں۔ یوں سلسلہ چلتے چلتے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا تو انہوں نے اصلاح کے کچھ خاص طریقے دریافت کیے اور اپنے مریدین میں وہ چلائے۔

اس کو ذرا اور تفصیل سے سمجھ لیں۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی صحبت تھی۔ ان کے ساتھ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، ان کے ساتھ ابو نصر حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ،پھر ان کے ساتھ ابو سلیمان داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت رہی، جو مشہور فقیہ بھی ہیں، ان کے ساتھ اسد الدین معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ، ان کے ساتھ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ، پھر جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، پھر ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ، پھر عبد الواحد رحمۃ اللہ علیہ، پھر محمد ابوالفرح رحمۃ اللہ علیہ، پھر ابو الحسن علی رحمۃ اللہ علیہ، پھر قاضی ابو سعید محمد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے صحبت یافتہ حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ مخصوص اصلاحی اذکار و طریقہ کار اپنے متعلقین و متوسلین کو بتائے جس سے انہیں بڑا فائدہ ہوا۔ جو لوگ اس طریقہ کو لے کر آگے بڑھے تو انہیں سلسلہ قادریہ کا نام دے دیا گیا،کیونکہ ان اذکار اور طریقہ کار کی شروع حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کی تھی۔

بعینہ اسی طرح حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے صحبت یافتہ عبدالواحد بن زید رحمۃ اللہ علیہ ہیں، پھر ان سے فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فیض لیا، پھر ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے، پھر صدر الدین حذیفہ مرغشی رحمۃ اللہ علیہ نے، (جن کے خلیفہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں )، پھر امین الدین ابو ھبیرہ رحمۃ اللہ علیہ، پھر کریم الدین شمشاد رحمۃ اللہ علیہ، پھر شرف الدین ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ، پھر سید ابو احمد ابدال رحمۃ اللہ علیہ، پھر سید محمد حسنی رحمۃ اللہ علیہ، پھر سید ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ، پھر سید قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ، ابو مودود رحمۃ اللہ علیہ، پھر منیر الدین حاجی شریف رحمۃ اللہ علیہ، پھر ابو نور عثمان رحمۃ اللہ علیہ، پھر معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ۔ جب سلسلہ یہاں تک پہنچا تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ اپنے مخصوص طریقے وضع کیے اور اپنے مریدین میں چلائے، ان کے سلسلے کو چشتیہ نام دیا گیا۔

اسی طرح کرم الدین شمشاد رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ احمد اسود رحمۃ اللہ علیہ ہوئے، ان کے خلیفہ ابو احمد بن عموری رحمۃ اللہ علیہ،پھر وجیہ الدین رحمۃ اللہ علیہ، پھر ضیاء الدین عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ، پھر شہاب الدین عمر رحمۃ اللہ علیہ، یہ موخر الذکر بزرگ خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ انہوں نے بھی کچھ باتیں خصوصی طور پر شامل کر لیں۔ جن لوگوں ان چیزوں کو آگے چلایا انہیں سلسلہ سہروردیہ کا نام دیا گیا۔

اسی طرح خواجہ بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ بھی ترتیب پایا۔ یہ تمام سلاسل اپنے اپنے طور پہ آگے بڑھ رہے تھے۔ بعد والے بعض بزرگوں کے ساتھ ایسا ہوا کہ ان کو ایک سے زیادہ سلاسل کے بزرگوں کی صحبت حاصل ہو گئی اور اجازت بھی مل گئی۔ اس طرح کچھ بزرگ دو سلسلوں میں مجاز ہوئے، کچھ تین میں، کچھ چار میں اور کچھ اس سے بھی زیادہ سلاسل میں مجاز ٹھہرے۔ شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو چودہ سلسلوں سے نسبت حاصل ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ چاروں سلسلوں میں مجاز تھے۔ ان کے والد صاحب چشتی تھے ان سے بھی اجازت ملی، ان کے اپنے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی سلسلہ کے تھے ان سے بھی اجازت ملی، پھر شاہ کمال شاہ سکندر کیتلی رحمۃ اللہ علیہ قادری تھے، ان سے بھی اجازت ملی، ایک سہروردی بزرگ حضرت یعقوب مصطفوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اجازت ملی۔ اس طرح حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ چاروں سلسلوں میں مجاز تھے لیکن مریدین کی تربیت نقشبندیہ سلسلے میں کرتے تھے۔

بعض حضرات ایسا کر لیتے ہیں کہ وہ اجتہاد کر کے کئی سلسلوں کی چیزوں کو ملا دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا اپنا ایک نیا سلسلہ بن جاتا ہے۔ بعض بزرگ اس طرح کرتے ہیں کہ بیعت تو چاروں سلسلوں میں کر لیتے ہیں لیکن اصلاح کسی ایک طریقے میں کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس چاروں نسبتیں موجود ہیں۔ بعض حضرات ایسا کرتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ سالک کی مناسبت کس چیز کے ساتھ ہے۔ اگر اس کی مناسبت چشتی سلسلہ کے ساتھ مل جائے تو چشتی سلسلے والی تربیت کر لیتے ہیں۔ اگر ان کو کوئی نقشبندی ذوق والا مل جائے تو اس کی تربیت نقشبندی میں کر لیتے ہیں۔ اگر ان کو کوئی سہروردی ذوق والا مل جاتا ہے تو ان کو سہروردیہ میں کر لیتے ہیں۔

اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہمارے یہاں کمیٹی چوک میں ایک ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر ریاض صاحب، یہ ہومیوپیتھ بھی تھے اور ایم بی بی ایس بھی تھے۔ ان کے پاس دونوں علاج موجود تھے۔ کبھی ہومیوپیتھی کے مطابق علاج کرتے اور کبھی ایلو پیتھی طریقے کے مطابق کر لیتے۔ کچھ حضرات ایسے ہوتے ہیں جو ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں اور حکیم بھی ہوتے ہیں۔ ان کو مریض کے مزاج کے حساب سے جو مناسب لگتا ہے اس طریقے سے علاج کر لیتے ہیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ کسی ایک سلسلے میں بندش ضروری نہیں ہے، ایک شخص کو ایک سے زیادہ سلسلوں کی نسبت بھی مل سکتی ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔

غور کریں سبیلنا نہیں فرمایا سُبُلَنَا فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ جو بندہ سچے دل سے کوشش کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ ایک نہیں کئی راستے دکھا دیتے ہیں۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہےکہ ضروری نہیں ہے کہ راستہ اور طریقہ ایک ہو، راستے اور طریقے الگ الگ ہو سکتے ہیں، ہاں منزل ایک ہی ہے۔ اس وجہ سے اگر کسی کے پاس کئی سلسلے ہوں تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے۔

لوگ بعض دفعہ بلاوجہ خواہ مخوہ بحث و مباحثہ میں لگ جاتے ہیں کہ چشتیہ طریقہ افضل ہے یا قادریہ طریقہ، نقشبندیہ طریقہ افضل ہے یا سہروردیہ طریقہ افضل ہے۔ ان باتوں میں کیا رکھا ہے۔ آپ بتائیں ہومیوپیتھی ٹھیک ہے یا ایلوپیتھی! آکوپنکچر ٹھیک ہے یا یونانی علاج ٹھیک ہے؟ جس کو جس سے فائدہ ہو جائے اس کے لئے وہی ٹھیک ہے۔ خواہ مخواہ اپنے طریقے کو دوسروں پہ کیوں مسلط کرتے ہو۔ ممکن ہے ان کے مزاج کے مطابق نہ ہو۔ لہذا اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے نقشبندی بنایا ہے،اس کو نقشبندی سے فائدہ پہنچا رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔ کسی کو چشتیہ سے فائدہ پہنچا رہے ہیں تو بھی ٹھیک ہے کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دیکھو حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ چشتی تھے اور بہت بڑے بزرگ تھے۔ خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی تھے اور بڑے اونچے درجہ بزرگ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو اعلیٰ مقام عطا فرمایا تھا۔ ایک کو نقشبندی طریقے سے عطا فرما دیا دوسرے کو چشتی طریقے سے عطا فرما دیا اور کسی کو تمام سلسلوں سے بھی عطا فرما سکتے ہیں۔

کسی بزرگ کے چاروں سلسلوں میں مجاز ہونے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں یہ بات نہیں آتی کہ کون سا افضل ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے پاس چاروں سلسلے ہیں۔ جس صاحب نے یہ سوال کیا ہے شاید وہ سمجھتے ہوں گے کہ کوئی خاص سلسلہ افضل ہو گا۔ بھائی سارے سلسلے افضل ہیں۔ یہ سب طریقے ہیں،مقصد نہیں ہیں۔ بارہا یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ مقصد مقصد ہوتا ہے،ذریعہ ذریعہ ہوتا ہے۔ ذریعے کو مقصد نہیں بنانا چاہیے۔ اگر کسی کو نقشبندی سلسلے سے فائدہ ہو رہا ہے تو وہ نقشبندیہ کو مقصد نہ بنائے اس کو ذریعہ اور طریقہ ہی رہنے دے۔ یہ سارے طریقے ہیں۔ جس کو جس سے فائدہ ہو اس کے پاس چلے جائیں اور خواہ مخواہ دوسروں پہ طعن نہ کریں۔

سوال نمبر4:

ایک مسلمان سادہ ارکانِ اسلام پر عمل کرتا ہے، دوسرا مسلمان تصوف کے لئے تگ و دو کرتا ہے۔ دونوں میں کیا فرق ہے دونوں جنت میں جائیں گے اور منزل پا لیں گے؟

جواب:

یہ بہت عمدہ سوال ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ مجلسیں بہت اچھی ہیں ان میں بڑی بڑی باتیں کھلتی ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے اس چیز کو واضح کیا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ علاج کے تین طریقے مشہور ہیں۔ ایک اخیار کا طریقہ ہے۔ ایک ابرار کا طریقہ ہے اور ایک شطاریہ کا طریقہ ہے۔ اخیار کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ہمت اور کوشش و محنت کے ساتھ علم نافع حاصل کر لیتے ہیں پھر اس پر اپنی ہمت اور قوت ارادی سے عمل صالح کرتے ہیں۔ اگر کامیاب ہو گئے تو ماشاء اللہ! اچھی بات ہے۔ لیکن اس میں ایک کشا کشی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ نفس کی کشا کشی ہر وقت چلتی رہے گی۔ ہر وقت نفس کے ساتھ جنگ ہو گی۔ جس وقت آپ پریشان ہوں گے، تردد آئے گا تو آپ کس سے پوچھیں گے۔ ایسی صورت میں یہ شخص ہمیشہ کشا کش میں رہے گا۔یا تو عمل چھوڑ دے گا اور اپنے آپ کو سادہ مسلمان کہے گا، بالکل بے فکر ہو جائے گا کہ بھائی چھوڑو ساری چیزیں جائز ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہو جائے گی جیسے کسی نے کہا کہ گندگی کے ڈھیر پر نماز نہ پڑھو، اس پہ نماز نہیں ہوتی تو ایک آدمی کہنے لگا میں نے کئی دفعہ پڑھی ہے میری تو ہو گئی ہے۔ لہٰذا جب مسائل پیش آئیں گے تو ایسا آدمی یا تو مشکلات برداشت کرتے ہوئے صحیح عمل کرے گا یا پھر عمل چھوڑ دے گا۔ دونوں صورتوں میں مشکل میں رہے گا۔ کامیاب بھی ہو سکتا ہے لیکن ایسی صورت میں کامیاب لوگ ذرا کم ہوتے ہیں۔

دوسرا طریقہ ابرابر کا طریقہ ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دوسرا طریقہ پہلے طریقے سے زیادہ اچھا اور محفوظ ہے۔ وہ یہ ہے کہ کسی مرشد کامل کا ہاتھ پکڑ لے۔ اس کو دو نعمتیں حاصل ہو جائیں گی۔ ایک یہ کہ اس کو سلسلے کی برکت حاصل ہو جائے گی۔ زیادہ تر بزرگ اسی طریقے پہ چلے ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کو سلسلے کی برکت حاصل ہو جائے گی۔

سلسلے کی برکت سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جیسے لوگ اپنی اولاد کے لئے دعا کرتے ہیں، جن لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ان کی اولاد کو بعد میں فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بزرگوں میں اپنے سلسلے کے مریدین کے لئے خصوصی دعائیں کی ہوتی ہیں، جب کوئی اس سلسلے میں شامل ہوتا ہے تو ان تمام دعاؤں کا مستحق بن جاتا ہے۔ مثلا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں اگر کوئی داخل ہو گیا تو مجدد صاحب نے اپنے سلسلے والوں کے لئے جتنی دعائیں کی ہوں گی وہ ان میں شامل ہو جائے گا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے اپنے سلسلے کے لئے کتنی دعائیں کی ہوں گی۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی دعائیں کی ہوں گی۔ اسی طرح حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے کتنی دعائیں کی ہوں گی۔ اس کے بعد جتنے بزرگ آئے انہوں نے کتنی دعائیں کی ہوں گی تو جو ان کے سلسلے میں داخل ہو گیا وہ ان کی دعاؤں میں آجائے گا۔ اسی کو سلسلے کی برکت کہتے ہیں۔

دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس شیخ کا ہاتھ اس نے تھاما ہےوہ شیخ سلوک کے راستوں سے گزرا ہوا ہے اور تمام نشیب و فراز سے واقف ہے، لہٰذا وہ اسے سنبھال سنبھال کر بچا بچا کر منزل کی طرف لے جائے گا۔ صاحب بصیرت اور تجربہ کار شیخ کامل جو بیعت کرتا ہے، تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شیخ کامل کے پاس کئی قسم کے مریض پہلے آ چکے ہوتے ہیں اور مختلف طریقوں سے شفایا ب ہو چکے ہوتے ہیں، ان کی وجہ سے شیخ کامل کو تجربہ ہوچکا ہوتا ہے، اس تجربہ کی وجہ سے نئے آنے والے سالکین جلدی شفایاب ہو جاتے ہیں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمت تو اس طریقہ میں بھی کرنی پڑتی ہے، قوت ارادی بھی استعمال کرنی پڑتی ہے۔ لیکن سب کوششوں کا مرکز صرف اس طرف رکھنا ہوتا ہے کہ میں نے شیخ کی بات ماننی ہے۔ اس کے علاوہ سالک کو اپنی طرف سے کوئی کوشش نہیں کرنی ہوتی۔ شیخ کا تجربہ اور برکت اس کے ساتھ شامل ہو کر اس کے کام کو بہت آسان کر دیتے ہیں۔

تیسرا طریقہ شطاریہ کا ہے۔ شطاریہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جنہیں اپنے شیخ کے ساتھ ایسی محبت ہو جائے کہ اس کی بات کو ٹال ہی نہ سکیں، بلکہ خود ان میں خواہش میں ہو کہ شیخ مجھے کچھ بتائے تاکہ میں اس پہ عمل کروں۔ اس طریقے میں قوت ارادی کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ ان کو شیخ کے ساتھ اتنی شدید محبت ہوتی ہے کہ اس کا کہا ماننا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اس لئے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سب سے زیادہ تیز رفتار طریقہ یہی ہے۔ کئی حضرات کو اس طریقے سے فیض حاصل ہوا ہے جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو اسی طرح حاصل ہوا تھا۔ یہ سب سے زیادہ تیز رفتار طریقہ ہے۔

اب اپنے سوال کی طرف آئیں۔ اگر سادہ مسلمان مشکلات کے ذریعے سے گزرنا چاہتا ہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا، بالکل ٹھیک ہے وہ ایسا کر سکتا ہے، لیکن منزل مقصود سب کی ایک ہی ہے، وہ الگ الگ نہیں ہے اس تک ہر صورت پہنچنا پڑے گا، چاہے کوئی ٹھوکر کھا کھا کر پہنچے اور کوئی ہدایات لے لے کر پہنچے۔ لیکن دونوں میں فرق ہےکہ ایک آدمی ٹھوکریں کھا کھا کر، گر گر کر، بھٹک بھٹک کر پہنچا ہے جبکہ دوسرے آدمی نے اپنا ہاتھ ایک رہنما کے ہاتھ میں دے دیا اور وہ اس کا ہاتھ تھام کر کشاں کشاں منزل کی طرف لیے جاتا ہے۔ اور شطاریہ کی مثال تو بالکل ہوائی جہاز والی ہے۔ وہ آناً فاناً پہنچ جائیں گے۔ ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ چیز عطا فرما دے جو اس کے علم کے مطابق ہمارے حق میں سب سے بہتر ہے۔

سوال نمبر5:

اگر کوئی معمولات کی پابندی نہیں کرتا تو کیا شیخ سے محبت اور عقیدت سے بھی فائدہ ہوتا ہے؟

جواب:

پہلے محبت کو دیکھنا پڑے گا کہ محبت ہے کیا چیز۔ مجھے بتاؤ کسی کو محبوب نے کہا ہو کہ میرے لئے پھول لے آؤ اور وہ وہیں کھڑا رہے۔ جب محبوب پوچھے کہ تم جاتے کیوں نہیں تو کہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے اس لئے نہیں جاتا۔ کیا اسے محبت کہیں گے؟ محبت تو ایسی چیز ہے جس میں اپنی قوت ارادی ختم ہو جاتی ہے۔ انسان محبت کی وجہ سے خود دوڑ دوڑ اپنے محبوب کے حکم پر چلتا ہے۔

ایک دفعہ میں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت کسی سے بات کرنا چاہتے تھے۔ میری طرف دیکھا تو میں سمجھا کہ شاید مجھے کہہ رہے ہیں۔ میں تھرتھر کانپنے لگ گیا۔ مولانا صاحب مسکرائے فرمایا ایسے دیوانوں کو کون سمجھائے۔

جن کے ساتھ محبت ہوتی ہے انسان ان کی طرف ہمہ تن گوش متوجہ ہوتا ہے۔ وہاں کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، کہنے سے پہلے ہی بات منتقل ہوچکی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر محبت والی بات ہے تو پھر ایسا نہیں ہو سکتا کہ شیخ کے حکم کردہ معمولات پر عمل نہ ہو۔ اگر عمل نہیں ہو رہا تو محبت تو نہیں ہےالبتہ محبت کا دعویٰ ہو سکتا ہے۔ جیسے بہت سارے لوگوں کو آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا دعویٰ ہے لیکن بدعت نہیں چھوڑتے۔ جب ان کو کہا جائے کہ سنت پہ کیوں نہیں آتے تو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ خدا کے بندو! گالیاں دینے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ایسے لوگوں کو حضور ﷺ کے ساتھ محبت ہے؟ انہیں حضور ﷺ کے ساتھ محبت نہیں ہے۔ حضور ﷺ کے ساتھ صحیح معنوں میں محبت ہو جائے تو وہ ایک لمحے کے لئے بھی سنت نہیں چھوڑ سکتا۔ کیونکہ آپ ﷺ کے طریقہ کو سنت طریقہ کہتے ہیں۔ جس کو محبوب کا طریقہ مل رہا ہو، وہ اپنے نفس کے طریقے کو کیا کرے گا۔ بدعت اپنے نفس کا طریقہ ہے۔ جس چیز سے میں اور میرا نفس خوش ہیں وہ بدعت ہےاور آپ ﷺ کا طریقہ جس سے اللہ اور آپ ﷺ خوش ہیں وہ سنت ہے۔ کہاں میرے نفس کا طریقہ اور کہاں آپ ﷺ کا طریقہ۔ جس سے اللہ خوش ہے اس کی تو بات ہی کیا ہے۔

لہٰذا محبوب کی بات پر عمل نہ ہو، تو اس کو محبت نہیں کہتے یہ صرف محبت کا دعویٰ ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سچ مچ کی آپ ﷺ کی محبت نصیب کر دے پھر بیڑا پار ہے،پھر کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ شیخ بھی یہی کام کرتا ہے، رسول ﷺ کی محبت تک پہنچاتا ہے، اس کے بعد سالک کا کام بن جاتا ہے۔ اس لئے کہتے ہیں فنا فی الشیخ پہلا مرتبہ ہے۔ فنا فی الشیخ سے مراد ہے شیخ پر فدا ہو جانا۔ اس کے بعد ایک مرحلہ آتا ہے کہ فنا فی الرسول ہو جاتا ہے اس کے بعد فنا فی اللہ ہو جاتا ہے۔ یہ سیڑھیاں ہیں، ان پہ چڑھنا پڑتا ہے۔ پہلے فنا فی الشیخ آتا ہے پھر فنا فی الرسول آتا ہے اس کے بعد فنا فی اللہ آتا ہے۔

جب محبت ہو تو پھر یہ والی بات نہیں آتی کہ اس کی بات پہ عمل کریں یا نہ کریں، پھر صرف اطاعت ہوتی ہے۔ البتہ محبت کا معیار مختلف ہو سکتا ہے مثلاً اتنی محبت ہو کہ اس سے جدا نہ ہو سکتا ہو۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ ایک آدمی بات نہ مانتا ہو اس کے باوجود بھی اتنی محبت ہو سکتی ہے کہ اس سے جدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اصل محبت وہی ہے جو منوائے، اور جو محبت بات منواتو نہ سکے، صرف اتنا کرے کہ محبوب سے ہٹنے نہ دے، تو وہ بھی محبت ہے لیکن ذرا کم درجہ کی محبت ہے۔ مثلاً کسی کو آپ ﷺ کے ساتھ اتنی محبت ہو کہ وہ آپ ﷺ کے طریقے کو غلط نہ کہہ سکے تو ماشاء اللہ یہ درجہ بھی مبارک ہے، لیکن اس سے ہزاروں گنا زیادہ بڑا درجہ وہ ہے جس میں اتنی محبت ہو کہ نبی ﷺ کے طریقے کے سوا اور کسی طریقے پہ عمل ہی نہ ہوسکے۔ اسی طرح بعض لوگوں کی شیخ کے ساتھ بھی ایسی محبت ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ آدمی تو بہت اچھا ہے، مجھے اس سے محبت ہے میں اس کے سوا کسی اور کے پاس نہیں جاتا، لیکن اس محبت کا اتنا درجہ نہیں ہوتا، شیخ کی بات نہیں مانتے، اس کی دی ہوئی ہدایات میں گڑبڑ کرتے ہیں معمولات پورے نہیں کرتے، اس کی صحبت میں زیادہ تر نہیں آتے۔ یہ بھی اگرچہ محبت ہے، مگر کم درجہ کی محبت ہے، اس لئے اس کا فائدہ بھی کم ہے۔

ہمارے ساتھیوں میں سے ایک صاحب مجھ سے بیعت تھے۔ وہ عرصہ دراز کے بعد مجھ سے ملنے آئے۔ میں نے اس سے کہا بھائی تم کدھر تھے۔ کہتے ہیں مجھے کچھ کام تھا۔ میں نے کہا اس کو بھی کام سمجھو،یہ بھی کام ہے۔ کیا خیال ہے کہ آپ تمام کاموں سے فارغ ہو جائیں گے تو پھر اللہ پاک کے بنیں گے؟ یہ معاملہ اس طرح نہیں چل سکتا۔ اس میں یہ کرنا پڑے گا کہ آپ اس کو اہم کام کا درجہ دیں گے، اپنے آپ کو اس کا پابند کریں گے۔ جو ترتیب لینے کی ہے اس ترتیب پہ آئیں گے، پھر فائدہ ہو گا۔ بعض لوگ بیعت ہو جاتے ہیں، انہیں اتنا تعلق ہوتا ہے کہ وہ شیخ کے علاوہ کسی اور کو نہیں مانتے، لیکن جب کبھی انہیں کوئی بات کہہ دی جاتی ہے کہ یہ کرو تو وہ نہیں کرتے۔ یہ لوگ 2 نمبر محبت والے ہیں۔ یہ محبت بھی اس کو فائدہ ضرور دے گی۔ کم از کم کسی گمراہ شیخ کے پاس نہیں جائیں گے۔

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جب شاہ عبدالعزیز دعا جو رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت عطا فرمائی تو فرمایا جو کوئی اللہ کا نام سیکھنے کے لئے آئے اس کو فوراً بیعت کر لیا کرو ایک منٹ بھی دیر نہ کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو بڑی مشکل سے بیعت کرتے تھے، بڑی شرطیں لگاتے تھے جبکہ آپ فرماتے ہیں کہ فوراً بیعت کر لیا کرو۔ حضرت نے فرمایا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بیعتِ سلوک کرواتے تھے۔ جبکہ میں جس بیعت کی بات کر رہا ہوں وہ بیعتِ ایمان ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی آیا اور آپ نے اسے بیعت نہیں کیا وہ کسی گمراہ شیخ کے ہتھے چڑھ گیا اور ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو پھر اس کا ذمہ دار کون ہو گا۔ لہذا جو آئے اس کو فوراً بیعت کر لیا کرو کم از کم اس کا ایمان بچ جائے۔ اس وجہ سے آج کل اگر کوئی صحیح سلسلہ اور صحیح عقیدے والے شیخ کے ساتھ بیعت ہو چکا ہے اس کو اتنا فائدہ یقیناً حاصل ہے کہ وہ کسی گمراہ شیخ کے پاس نہیں جائے گا، گمراہ پیر کے پاس نہیں جائے گا۔ اس کے عقیدے کم از کم بچ گئے ہیں۔ کبھی کبھی عمل کی بھی توفیق ہوتی رہے گی۔ توبہ بھی کرتے رہیں گے، لیکن اسے کامل محبت نہیں کہیں گے، کامل محبت کے لئے کامل اطاعت ضروری ہے۔

سوال نمبر6:

لفظ عشق اور محبت میں کیا فرق ہے۔ معنوی اعتبار سے اس کا استعمال کہاں اور کیسے کیا جائے؟

جواب:

محبت اور عشق ایک ہی چیز ہے، لیکن وہ محبت جو انسان کو تمام چیزوں سے کاٹ کر اپنے محبوب ہی کی طرف متوجہ کر لے اسے عشق کہتے ہیں۔

﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ (البقرۃ: 165)

ترجمہ: ”اور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔“

مؤمنین کو اللہ کے ساتھ ایسی محبت ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ ایسی محبت ہونی چاہیے جو کسی اور کی طرف مائل نہ ہونے دے، صرف اللہ کی طرف ہی متوجہ کر دے۔ اس کو عشق کہتے ہیں۔ ایسی محبت جو محبوب میں فنا کر دے۔ جیسے لیلیٰ اور مجنون کا قصہ مشہور ہے۔ مجنون کہتا ہے مجھے تو ہر طرف لیلیٰ ہی نظر آ رہی ہے۔ مجنون لیلیٰ کا سچا عاشق تھا۔ یہ عرب کے علاقے نجد سے تھا۔ اس کا ایک شعر ہے:

اِلٰہِیْ تُبْتُ مِنْ کُلِّ الْمَعَاصِیْ

وَلٰکِنْ حُبُّ لَیْلٰی لَا اَتُوْب

اے اللہ میں نے سارے گناہوں سے توبہ کر لی

لیکن لیلیٰ کی محبت سے توبہ نہیں کرتا

یہ پاگل پن ہے، عاشق پاگل ہی ہوتا ہے۔ عاشق محبوب کی طرف اتنا متوجہ ہوتا ہے کہ باقی چیزوں سے کٹ جاتا ہے۔ اگر کسی کو اپنے صحیح العقیدہ شیخ کے ساتھ ایسی محبت ہو جائے تو سبحان اللہ اس کا کام بن جائے۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے ساتھ ایسی محبت ہو جائے تو کام مزید آگے بڑھ جائے اور پھر جب اللہ کے ساتھ ایسی محبت ہو جائے،پھر تو بات ہی پوری ہو جائے۔ محبت اور عشق ایک ہی چیز ہے لیکن direction کے لحاظ سے magnitude کا فرق ہے۔ یعنی مقدار اور کیفیت کا فرق ہے۔ دونوں کا صحیح جگہ استعمال کرنا چاہیے کیونکہ دل ٹھیک ہے۔

سوال نمبر7:

حضرت یہ بتائیں کہ شیخ سے بیعت کرنے کے بعد کون سی ایسی چیزیں ہیں جو سالک کو اپنانی چاہئیں اور کون سی ایسی چیزیں ہیں جن سے اجتناب کرنا چاہیے؟

جواب:

شیخ جو چیزیں اپنانے کا حکم دے انہیں اپنانا چاہیے اور جن سے اجتناب کرنے کا حکم دے ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اصولی جواب یہی ہے، جبکہ تفصیلی جواب یہ ہے کہ جن لوگوں کا میرے ساتھ تعلق ہے وہ میری کتاب زبدۃ التصوف پڑھیں۔ اس میں میں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کیا کیا کرنا چاہیے، کونسے معمولات کرنے چاہئیں اور کس طرح کرنے چاہئیں۔ وہ کتاب پڑھ لی جائے اور جو بات سمجھ نہ آئے پوچھ لی جائے۔

یہ محبت کی بات آ گئی تو اس وجہ سے محبت ہی کی کچھ مزید بات کرتا ہوں تاکہ مزید اگر کچھ سوالات اس پہ آنے ہوں تو پھر آ جائیں یہ محبت کی دنیا الگ دنیا ہے۔


کلام

محبت کی دنیا ہے دنیا نرالی تکبر حسد اور ریا سے ہے خالی جو تنگی نظر کی ہے اس میں نہیں ہے وفا عفو کی نہر ہے اس میں جاری کوئی وسعتیں جانے دل کی ہیں کتنی کوئی وسعتیں جانے دل کی ہیں کتنی کہ انگشت بدنداں ہے یہ عقل ساری یہاں ہے جلن نفس کی خواہشوں کی وہاں ٹھندی آہوں کی بھرمار پیاری اسے اب بٹھا ہی دے دل میں تو اپنے بنا اس کے عمر تو نے کیسے گزاری جو پیارا ہے اس کا تمھیں بھی ہو پیارا اگر تم پہ اس کی محبت ہے طاری طریقہ اگر اس کا پایا ہے تو نے بشارت تجھے ہو، ہو محبوبِ باری جو مانے نہیں اس کو اس کو تو چھوڑو ہے محرومی اس سے سزا اس کی بھاری وہ مجھ پر جو ہے مہرباں مجھ سے زیادہ کروں زندگی کیوں نہ میں اس پہ واری نہ چھیڑو شبیر دل کے نغمے رکو اب دبی ہی رہے بہتر آواز تمھاری محبت کی دنیا ہے دنیا نرالی تکبر، حسد اور ریا سے ہے خالی

یہ آپ نے محبت کی دنیا کے بارے میں سن لیا۔ محبت کی دنیا بڑی عجیب دنیا ہے۔ اس میں آ کر انسان نفس کی خواہشات کی پرواہ نہیں کرتا۔ نفس کی خواہش کو محبت ہی توڑ سکتی ہے۔ جو محبت نفس کی وجہ سے ہوتی ہے وہ محبت نہیں ہوس ہوتی ہے۔ ہوس اور محبت میں یہ فرق ہے کہ ہوس میں خود غرضی ہوتی ہے اس میں صرف اپنا مطلب پورا کرنا ہوتا ہے،جبکہ محبت میں فدائیت ہوتی ہے، آدمی اپنے آپ کو قربان کرتا ہے، ایثار کرتا ہے۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے واقعی اپنی، اپنے رسول کی اور اپنے ولیوں کی محبت نصیب فرمائی ہے تو یہ بڑی عظیم نعمت ہے۔ حدیث شریف میں ایک دعا آتی ہے۔ آپ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغنِیْ حُبَّک (جامع ترمذی: 3490)

ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ہر اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت رکھتا ہے اور ہر اس عمل کی محبت مانگتا ہوں جو تیری محبت تک مجھے پہنچائے۔

دیکھو تین چیزیں آ گئیں۔ اللہ کی محبت، اللہ والوں کی محبت اور اللہ تک پہنچانے والے اعمال کی محبت۔ اگر کوئی خانقاہ کے ساتھ محبت کرتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے تو یہ بھی اسی میں شامل ہے۔ کوئی تسبیح کے ساتھ محبت کرتا ہے، کوئی تہجد کے ساتھ محبت کرتا ہے یہ سب ان اعمال میں شامل ہیں جو اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے ذریعے ہیں۔

اگر محبت اللہ کے لئے ہو تو پھر یہ بہت بڑی دولت ہے۔ یہ جو غزل ابھی آپ کو سنائی ہے میں اس کو بلڈوزنگ غزل کہتا ہوں۔ بلڈوزنگ غزل اس لئے کہتا ہوں کہ میں لاہور جا رہا تھا اور سفر کے دوران پشتو کلام لکھ رہا تھا۔ پشتو کلام کے درمیان یہ غزل ایسے وارد ہوئی کہ پشتو کلام کو رکوا کر اپنے لکھنے پہ مجبور کر دیا۔ پھر میں نے اس کو ادھر ہی لکھا ہے اور ادھر ہی پڑھا ہے۔ میں کہتا ہوں یہ اللہ کی طرف سے بالکل ایسے آئی ہے جیسے ایک سیدھی چیز لینڈ کرتی ہوئے آتی ہے۔ اس میں ہمیں ایک راستہ دکھایا گیا ہے کہ دیکھو یہ محبت والا راستہ بہت زبردست راستہ ہے۔ اس کے ذریعے بہت آسانی کے ساتھ وہ منزل پا سکو گے جو بہت کٹھن طریقوں سے بھی بڑی مشکل سے حاصل ہوتی ہے۔

سوال نمبر8:

تقریباً دس پندرہ دنوں سے کچھ ایسے وسوسے آ رہے ہیں جیسے میں بالکل مر جاؤں گا۔ اس سے طبیعت پر بہت بوجھ ہوتا ہے اس کا کیا کروں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک نقشبندی سلسلہ کے بزرگ ہیں، کیا میں ان کی مجلس میں شرکت کر سکتا ہوں یا نہیں؟

جواب:

یہ موت کے وسوسے آنا، اس کو طریقۂ ہیبت کہتے ہیں۔ یہ تصوف کا ایک ذریعہ ہے۔ کسی کو طریقہ محبت سے تعلیم کرتے ہیں، اس کو محبت میں ڈال دیتے ہیں جس کے ذریعے وہ عمل کرتا رہتا ہے۔ کسی کو طریقہ ہیبت کے ذریعے تعلیم کرتے ہیں کہ اس کو اتنا سخت ڈرا دیتے ہیں کہ وہ دوسری ساری باتیں دنیا کی خواہشات اور تمام چیزیں بھول جاتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہ آنا چاہتا ہو، مگر اللہ تعالیٰ لانا چاہتے ہوں تو اس کو ایسے ہیبت میں مبتلا کر لیتے ہیں کہ اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اگر اس کا شیخ کامل ہو تو اس کو آسانی سے یہ منزل پار کروا دیتے ہیں۔

جب راستہ نہ ملے تو انسان اس وقت پریشان ہوتا ہے۔ اگر کوئی دروازہ مل جائے تو آسانی سے نکل جاؤ گے لیکن دروازہ نہ ملے اور سمجھے کہ دیوار کے اندر سے گزر کے چلا جاؤں گا، یہ سوچ کر دیوار کی طرف بڑھے تو یہ ہوگا کہ دیوار سے ٹکرا جائے گا اور ہو سکتا ہے کوئی نقصان کروا بیٹھے۔ اگر راستہ نہ ملے پھر ایسی کیفیت آتی ہے۔ حبس اور قبض کی کیفیت آتی ہے، پریشانی ہوتی ہے، لیکن جس وقت راستہ مل جائے پھر کوئی پریشانی نہیں ہے۔

انسان ایسی حالت میں یہ سوچے کہ مرنا تو ایک دن ہے ہی، لیکن اگر میں اس طریقے سے مر جاؤں جس طریقے سے میرا اللہ چاہتا ہےتو کیا ہی بات ہو۔ یہ سوچ کر اپنے آپ کو موت کے لئے تیار کرے کلمہ پڑھ لے اور جو اعمال اس وقت اس کے سامنے ہیں وہ اعمال کرتا جائے۔ مثلاً نماز کا وقت آئے تو نماز پڑھے۔ کہتے ہیں نماز ایسے پڑھو جیسے آخری نماز ہو۔ باقی لوگوں کو تصور سے ایسا کرنا پڑتا ہے ایسے آدمی کو خود بخود یہ تصور حاصل ہے۔ اس کی نماز بہت قیمتی ہو جائے گی کیونکہ وہ یہی سمجھ کر پڑھے گا کہ میری آخری نماز ہے۔ قرآن کی تلاوت بھی یہی سوچ کر کرے کہ یہ میری آخری تلاوت ہے۔ اللہ کے راستے میں کچھ دے رہا ہو تو یہ سوچ کر دے کہ آخری مرتبہ دے رہا ہوں تاکہ میرے لیے توشہ بن جائے۔ جب یہ کرے گا تو ان شاء اللہ بہت آسانی سے اس کیفیت سے نکل آئے گا، کیونکہ اس کیفیت سے لینے کا دروازہ بن گیا لہذا اب کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ لہذا اس طریقے سے کرے کہ یہ بات مان لے کہ مرنا تو ہے ہی، تو چلو میں مرنے کے لئے تیاری کر لیتا ہوں اور سب سے بڑی تیاری کلمہ پڑھنا ہے تاکہ آدمی ایمان کے ساتھ چلا جائے۔ اس کے بعد وہ اعمال کرے جو اعمال اس کو نصیب ہو رہے ہیں، جن کا وقت مل رہا ہے ان اعمال کے اندر مشغول ہو جائے۔ گناہوں سے تو خود ہی بچت ہو گی کیونکہ ایسی حالت میں گناہ کرنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر مومن ہے تو گناہوں سے خود ہی بچت ہو گی۔

باقی آپ نے یہ پوچھا کہ اپنے علاقے میں دوسرے نقشبندی بزرگ کے ہاں جا سکتے ہیں یا نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر میں اس نقشبندی بزرگ کو جانتا تو قطعی طور پہ بتا سکتا کہ ان کے ساتھ بیٹھو یا نہ بیٹھو۔ لیکن ابھی اتنی بات بتاتا ہوں کہ اگر ان کا عقیدہ صحیح ہے اور وہ صحیح چیزوں کی طرف دعوت دیتے ہیں تو صحبت صالحین کی نیت سے آپ ان کی مجلس میں جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ عمل صرف اپنے شیخ کی بات پہ کرنا ہوگا، کیونکہ کئی لوگوں کی باتیں بیک وقت نہیں مانی جا سکتیں۔ بات اس کی مانو جو آپ کا شیخ ہے، اور دوسرے بزرگوں کی خدمت میں صحبت صالحین کی نیت سے بیٹھتے رہو۔ ان شاء اللہ صحبت صالحین کا فائدہ حاصل ہو جائے گا۔

سوال نمبر9:

السلام علیکم، حضرت کشف قبور کیا ہے اور یہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟

جواب:

کچھ چیزیں وہبی ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں کسبی ہوتی ہیں۔ جو لوگ کسبی طور پر کشف قبور کو حاصل کرتے ہیں وہ فضول کام میں لگ جاتے ہیں کشف قبور کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اس میں نقصان ہے۔ البتہ جس کو اللہ تعالیٰ خود ہی کشف قبور دے دے تو اس کا حوصلہ بھی دے دے گا۔ لیکن اس میں بھی ایک احتیاط ہے وہ یہ کہ شیطان کے جال سے پھر بھی بچنا ہو گا کیونکہ ایسے لوگوں کے صحیح کشف میں شیطان گڑبڑ کرتا ہے۔ اس سے بچنا ضروری ہے۔ اس کی نشانیاں ڈھونڈیں۔ مثلاً حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ صاحبِ کشف تھے وہ فرمایا کرتے تھے میں جب قبرستان میں جاتا تو سینکڑوں لوگ قبروں سے نکل کر کھڑے ہو جاتے۔ میں نے سوچا میں اتنا بڑا بزرگ تو نہیں ہوں کہ سارے مردے میرے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں، ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے کسی سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا آپ اس طرح کریں کہ جو بھی آپ کے لئے کھڑا ہو اسے کہیں کہ حضرت تھوڑا سا قرآن پاک سنا دیں۔ اگر وہ قرآن پاک پڑھ لے تو صحیح ہے اور غائب ہو جائے تو پھر وہ شیطان تھا۔ کیونکہ شیطان قرآن نہیں پڑھ سکتا۔ حلیمی صاحب فرماتے ہیں میں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد کبھی کبھار کوئی نظر آ جاتا تھا ورنہ سارے غائب ہو گئے۔ میں نے حلیمی صاحب سے پوچھا آخر شیطان آپ کو کشف قبور کیوں کرواتا تھا۔ فرمانے لگے کہ وہ مجھ میں تکبر ڈال رہا تھا کہ تو اتنا بڑا بزرگ ہے کہ قبروں سے مردے تک تیرے احترام میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی کوکشف قبور حاصل ہے تو وہ ان چیزوں کا خیال رکھے کہ کہیں اس کے کشف کو شیطان استعمال تو نہیں کر رہا۔ جو لوگ چیزوں سے محفوظ ہیں، جن کو یہ کشف وغیرہ نہیں ہوتے وہ مطمئن لوگ ہیں۔ ان کو پریشانی نہیں ہے ان کا ذہن ادھر ادھر نہیں بھٹک رہا ہوتا۔ جس کو کشف نہیں ہوتا اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے کوئی لاہور جا رہا ہو، ریل میں بیٹھ جائے، ریل کی ساری کھڑکیاں بند ہوں جب ٹرین لاہور پہنچ کر رک جائے تو دروازہ کھل جائے اور یہ لاہور اتر جائے۔ یہ بڑا محفوظ آدمی ہے۔ اور جس کی کھڑکیاں کھلی ہوں وہ سارے راستے ادھر ادھر دیکھتا جائے گا۔ ممکن ہے درمیان میں کوئی خوبصورت جگہ آ جائے، اس کا دل چاہے چلو تھوڑی دیر اتر کر مناظر دیکھ لوں، نیچے اترے اور گاڑی چل پڑے، تو یہ آدمی رہ گیا لاہور نہیں پہنچ سکے گا۔ بعض لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اہل کشف ہوتے ہیں اور کسی حال پہ رک جاتے ہیں آگے نہیں جا پاتے کوئی چیز ان کو پسند آ جاتی ہے اسی پہ لگے رہتے ہیں اور ساری زندگی اسی میں چلتے رہتے ہیں، ایسے لوگ بے چارے رہ جاتے ہیں۔ لیکن جن کے ساتھ کشف وغیرہ جیسی کوئی بات نہیں ہوتی وہ مطمئن طریقے سے پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے حفاظت اچھی بات ہے۔ اس لئے کسبی طور پر تو اس کو بالکل نہیں کرنا چاہیے، ہاں اگر وہبی طور پر حاصل ہو جائے تو پھر احتیاط لازم ہے۔

سوال نمبر10:

ایک آدمی کے لئے شیخ کا درجہ بڑا ہوتا ہے یا اس کے والدین کا؟

جواب:

میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں۔ ایک شخص بیمار ہے۔ بیماری میں ڈاکٹر اگر اس کو کوئی علاج بتاتا ہے، اس آدمی کے والدین اس علاج سے اسے روکتے ہیں جبکہ وہ ڈاکٹر بھی نہیں ہیں۔ اس بیمار آدمی کو کس کی بات ماننی چاہیے والدین کی یا ڈاکٹر کی؟ جی ہاں! اسے ڈاکٹر کی بات ماننی چاہیے۔ ڈاکٹر تو بزرگ بھی نہیں ہوتا، شیخ تو بزرگ بھی ہوتا ہے۔ یہاں شیخ اور والدین کے درمیان کوئی مقابلہ کی بات نہیں۔ والدین کی اپنی اہمیت ہے، اللہ نے ان کو ایک مقام دیا ہے جبکہ شیخ کی اپنی اہمیت ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ایک مقام دیا ہے۔ استاذ کی اپنی اہمیت ہے اللہ نے اس کو ایک مقام دے دیا ہے۔ لہذا استاذ سے علمی استفادہ کرو،شیخ سے اپنی اصلاح کرواؤ اور والدین کی وہ باتیں جو جائز ہوں، شریعت کے مطابق ہوں مان لیا کرو۔ والدین میں بھی والد کی اطاعت زیادہ کرو اور والدہ کی خدمت زیادہ کرو۔ اس کا حق زیادہ ہے کیونکہ وہ کمزور ہے اور والد عقل مند ہے اس لئے اس کی بات زیادہ مان لیا کرو کیونکہ اس کی بات عقل کے مطابق ہو گی اور والدہ محبت اور خدمت کی ضرورت مند ہے اس کی خدمت زیادہ کیا کرو۔ شیخ سے محبت بھی کرو اور اصلاح میں اس کی بات مان لیا کرو۔ اصلاح میں شیخ ہی کی بات چلے گی کسی اور کی بات نہیں چلے گی۔

سوال نمبر11:

تکبر سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ ایک شخص مین پوزیشن پر فائز ہو عوام اس کے پیچھے ہو اور توجہ کی طالب ہو، مثلاً وزیر اعظم کی مثال لے لیں۔ ایسا شخص تکبر سے کیسے بچے؟

جواب:

وزیر اعظم صاحب مجھ سے ذاتی طور پر رابطہ کر لیں ان کو بتا دیا جائے گا کہ وہ تکبر سے کیسے بچیں۔ در اصل تکبر وغیرہ کا علاج اس طرح ایک جملے یا پیرے میں نہیں بتایا جا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں ایک کتاب شائع کردیتا ”تکبر سے بچنے کا طریقہ“ سارے اسے پڑھ کر تکبر سے بچ جاتے۔ یہ کوئی گپ کی بات نہیں ہے۔ نماز کا طریقہ بے شک آپ کتاب کے ذریعے سکھا دیں تکبر نکالنے کا طریقہ اس طرح نہیں سکھا سکتے۔ یہ سارے پاپڑ اسی کے لئے بیلنے پڑتے ہیں۔ وزیر اعظم کو تکبر سے پیچھا چھڑانے کے لئے کسی کا مرید ہونا پڑے گا۔ اور کسی عہدہ دار کا شیخ کی مریدی میں آنا کوئی نئی یا عجیب بات نہیں ہے۔ شمس الدین التمش رحمۃ اللہ علیہ بادشاہ تھے اور یہ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔جس وقت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ وہ پڑھائے جس کی نماز تہجد کبھی نہ رہی ہو، جس نے کبھی زنا نہ کیا ہو اور جس کی عصر کی سنتیں کبھی نہ چھوٹی ہوں۔ اب جنازہ پڑا ہے مگر کوئی آگے نہیں ہو رہا،بڑے بڑے لوگ موجود ہیں کوئی جنازہ پڑھانے کے لئے آگے نہیں بڑھ رہا۔ شرطیں بڑی سخت ہیں۔ اخیر میں حضرت شمس الدین التمش رحمۃ اللہ علیہ روتے ہوئے آگے بڑھے اور فرمایا: جانے والے چلے گئے مگر پیچھے رہنے والوں کو رسوا کر گئے۔ یہ تینوں شرطیں مجھ میں پوری ہیں میں جنازہ پڑھا دوں گا۔ اسی طرح اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ لہذا وزیر اعظم صاحب اگر اپنا تکبر نکالنا چاہتے ہیں تو کسی صحیح العقیدہ شیخ کے مرید بن جائیں۔ ان شاء اللہ ان کا تکبر نکل جائے گا۔ لیکن یہ گھر میں بیٹھے بیٹھے ٹیلی فون کے ذریعے سے کسی کا تکبر نکل جائے، ایسا نہیں ہوتا۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ یہ خیال صرف خیال ہے اور محال ہے اور جنون ہے۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا تکبر باتوں سے نہیں نکلا کرتا۔ اگر اس وقت ایک متکبر شخص آ جائے، میں اس سے کہہ دوں کہ تکبر نہ کیا کرو اس سے یہ نقصان ہوتا ہے۔ کیا وہ میری بات مان لے گا؟ اول تو متکبر شخص اپنا تکبر ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ متکبر اپنے آپ کو متکبر نہیں کہتا۔ اس کا علاج کافی indirect طریقے سے کرنا پڑتا ہے، اس کا علاج direct طریقے سے نہیں ہوتا۔ البتہ جس صاحب نے یہ سوال کیا وہ رابطہ کر سکتا ہے۔ ان شاء اللہ العزیز جتنی خدمت ہو سکے ہم کریں۔ ظاہر ہے ہم کام ہی یہی کر رہے ہیں۔ اگر کوئی آ جائے گا تو للہ فی اللہ ان کی خدمت کی جا سکتی ہے لیکن ٹیلی فونوں کے ذریعے سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ٹیلی فون سے بہتر تو ہماری کتاب ”تصوف کا خلاصہ“میں اس کا جواب لکھا ہوا ہے۔ وہ پڑھ لیں آپ کو جواب مل جائے گا۔

سوال نمبر12:

کیا شیخ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اس کی قبر سے مریدوں کو فیض حاصل ہوتا ہے؟

جواب:

میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ حضرت میاں جی نور محمد جنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ تھے۔ جب حضرت میاں جی نور محمد جنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا آخری وقت آیا تو حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ان کی چارپائی کو پکڑے بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت میاں جی نور محمد نے حاجی صاحب سے فرمایا: حاجی صاحب میرا ارادہ آپ سے کچھ کام لینے کا تھا۔ حافظ صاحب عیال دار ہیں ان سے نہیں لے سکتا تھا، آپ نوجوان تھے آپ سے کام لینا چاہتا تھا۔ لیکن اللہ کے حکم سے چارہ نہیں ہے، اب وقت آ گیا ہے جانا ہی ہوگا۔ اس پر حاجی صاحب رو پڑے کہ آخری وقت ہے۔ فرمایا: رونا نہیں،فقیر مرتا نہیں، انتقال کرتا ہے، آپ آتے رہیں جو آپ کا حصہ ہو گا وہ آپ کو اللہ دیتے رہیں گے۔

جب ہم قبور پر جاتے ہیں تو سلام کرتے ہیں السلام علیکم یا اہل القبور۔ اب اس سلام کو پہنچانا اللہ کا کام ہے ہمارا کام نہیں ہے۔ظاہری اسباب تو منقطع ہو گئے نہ اس کے کان ہمارے سامنے ہیں نہ ہماری زبان وہاں پہنچ سکتی ہے، درمیان میں منوں مٹی ہے لہذا یہ سلام ہم نہیں پہنچا سکتے، لیکن اللہ پہنچا سکتے ہیں۔

یہ واقعہ زیادہ پرانا نہیں ایک دو سال پہلے کا ہے۔ ایک صاحب فوت ہوئے اس کو غسل دیتے وقت ایک شخص نے اس کے کان میں کہا کہ وہاں جا کر میری بھی سفارش کرنا۔ بعد میں وہ صاحب کسی اور کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ جس نے مجھے غسل دیا تھا اس کو بتا دینا کہ اس کی بات اللہ نے مجھے سنوائی تھی اور میں نے واقعی اس کی سفارش کی ہے، اس بات کی سفارش کی ہے کہ اے اللہ اس کو اور اس کے پورے خاندان کو قبر میں ہونے والے سوالوں کے جوابات سکھا دے۔

یہ واقعات بتانے سے میرا مقصد یہ ہے کہ یہ سارے معاملات اللہ کے ذریعے سے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ کیونکہ جب کرنے والا اللہ ہو تو پھر کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی، کیونکہ وہاں معاملہ قانون کا نہیں ہے اللہ کی قدرت کا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ساری چیزوں پر حاوی ہے۔ یہ بات بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور وہ ان چیزوں سے انکار کر دیتے ہیں، کیونکہ وہ اللہ جل شانہ کے واسطہ کو سمجھ نہیں پاتے، اور اس بات کا ادراک نہیں کر پاتے کہ اللہ جل شانہ کے لئے کوئی قانون نہیں ہے وہ جس طرح چاہے اس طرح کر سکتا ہے۔ ہمارا کام اللہ سے مانگنا ہے اور اس کا کام دینا ہے۔ جو ذرائع بھی اللہ تعالیٰ بنا دے اسی طریقے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔

سوال نمبر13:

حضرت جی بزرگوں کے وسیلہ سےدعا مانگ سکتے ہیں؟

جواب:

اس بات کو سمجھیں کہ اگر آپ وسیلہ پیش کرنے کو عاجزی سمجھتے ہیں تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ عاجزی اللہ کو پسند ہے۔ وسیلہ میں یہ ہوتا ہے کہ اے اللہ میں کسی قابل نہیں ہوں، میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہے، اے اللہ تو ان بزرگ کی برکت سے میرا کام کر دینا۔ یہ عاجزی اللہ کو پسند ہے۔ وسیلہ کا صرف یہی مقصد ہے۔

لوگ فقہی جزئیات میں پھنس جاتے ہیں، اس وجہ سے مشکلات میں پڑ جاتے ہیں حالانکہ معاملہ بڑا سادہ سا ہوتا ہے۔ جب انسان عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرماتے ہیں اور بڑی سے بڑی چیز بھی معاف کر دیتے ہیں۔ جب انسان تکبر اختیار کرتا ہے تو انسان اپنے آپ کو پھنسوا لیتا ہے۔

اس قسم کا وسیلہ در اصل اسی عاجزی کا اظہار ہے کہ میرے اعمال تو اس قابل نہیں ہیں، اے اللہ ان کی برکت سے میرا کام بھی کر دینا ۔

حدیث شریف میں ایک دعا آتی ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں:

”وَ بِمُحَمَّدٍ نَّبِیِّكَ“

ترجمہ: ”اور تیرے نبی محمد ﷺ کے وسیلے سے۔“

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی ہوتی تھی: ”اے اللہ آل فاطمہ کے طفیل میری دعا قبول فرما دے“۔

یہ بہت عجیب دعا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ساری عمر شیعوں کے ساتھ لڑتے رہے ہیں۔ لیکن اخلاص دیکھیں کہ دعا کون سی مانگتے ہیں کہ اے اللہ آل فاطمہ کے طفیل میری دعا قبول فرما۔ یہ عاجزی ہے اور عاجزی کے ساتھ کی ہوئی دعا اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔

سوال نمبر14:

وسیلہ کیا ہوتا ہے اور کس کس چیز کا وسیلہ دیا جا سکتا ہے؟

جواب:

وسیلہ اس ذریعہ کو کہتے ہیں جو ایک چیز کو دوسرے چیز تک پہنچانے میں مدد کردے۔ آپ دریا کے اِس کنارے کھڑے ہیں، اُس کنارے پہ جانے کے لئے پل آپ کے لئے وسیلہ ہے۔ اگر آپ کا کام نہیں ہو پا رہا تو آپ کسی کو ذریعہ بنا لیں تو یہ بھی وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے نیک اعمال کو بھی بطور وسیلہ پیش کیا جاسکتا ہے، نیک اعمال کے ذریعے سے وسیلہ پکڑنا حدیث شریف سے ثابت ہے۔ یہ حدیث حدیثِ غار کے نام سے مشہور ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ