سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 193

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

محترم اور معظم شیخ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! بعد تسلیم عرض ہے کہ اپنے گناہوں سے بہت خوف آتا ہے اور نبی پاک ﷺ نے ہم عورتوں کو خصوصی طور پر صدقے کی تلقین بھی کی ہے اس لئے جتنا ممکن ہو صدقہ نکالتی ہوں۔ دعاؤں کی محتاج۔

جواب:

بالکل صحیح ہے۔ ہمارے حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فضائل صدقات ہے اس میں صدقات کے بہت سارے فضائل دیئے ہوئے ہیں۔ تو ظاہر ہے، کچھ صدقات فرض ہوتے ہیں، کچھ نفلی صدقات ہوتے ہیں، نفلی صدقات مستحب ہیں۔ فرائض تو پورے کرنے ہی ہوتے ہیں، کم سے کم درجہ یہی ہے کہ فرائض ہر حال میں پورے کئے جائیں۔ اگر اس میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو اس کی تلافی استغفار کے ساتھ کرنی چاہیے اور نفلی صدقات میں حسب توفیق حصہ لیتے رہنا چاہیے۔

سوال نمبر2:

جب دل میں کوئی خیال آتا ہے تو اکثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے متعلق حدیث نفس شروع ہو جاتی ہے۔ نماز میں یہ کیفیت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ آج کل تراویح میں بھی قرآن پاک سنتے وقت یہ مشکل پیش آتی ہے۔ یکسوئی دیر تک نہیں رہتی۔ اس چیز کو کس طریقے سے دور کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

حدیث نفس کا یہ مسئلہ تقریباً ہر ایک کے ساتھ کسی نہ کسی درجے میں پیش آتا ہے لیکن اس کا علاج ایک ہی ہے جو میں اکثر بتاتا رہتا ہوں کہ نفس کے وساوس پر دھیان نہ دو ان کے ساتھ شامل نہ ہو جاؤ۔ اس کو یوں سمجھو جیسے آپ اپنی منزل کی طرف جا رہے ہیں، راستے میں دو شخص کھڑے آپس میں باتیں کر رہے ہیں، اگر آپ چلتے چلتے ان کی بات سن لیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر آپ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنا دھیان ان کی باتوں پہ لگا دیں تو پھر آپ قصور وار سمجھے جائیں گے۔ حدیث نفس کی مثال بھی ایسی ہی ہے آپ اپنی نماز اور عبادت کی طرف توجہ رکھیں، ان باتوں کی طرف توجہ نہ کریں۔ یہ پہلا قدم ہو گا جس سے نفس کے وساوس کم ہونے شروع ہوجائیں گے، جب آپ ان وسوسوں کو اہمیت ہی نہیں دیں گے تو وہ از خود ہٹنا شروع ہو جائیں گے، تو اس کا طریقہ ایک ہی ہے کہ اس کی طرف دھیان نہ کیا جائے اور اس میں شامل نہ ہوا جائے۔

سوال نمبر3:

جہری ذکر ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ اور ”اِلَّا اللّٰہ“ کا صحیح ہو جاتا ہے مگر ”اللّٰہُ اللّٰہ“ کے ذکر میں اکثر دل کی توجہ کم ہوتی ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب میں گردن کو تھوڑا تھوڑا گھماتا ہوں تو میری توجہ ذکر سے زیادہ گردن گھمانے کی طرف ہوتی ہے۔ حضرت جی ذکر میں گردن کا کتنے فیصد دخل ہوتا ہے، اگر گردن بالکل نہ گھمائیں، کیا تب بھی ٹھیک ہے؟ روزانہ 15 منٹ اسم ذات کا مراقبہ چل رہا ہے، جس میں اس بات کا تصور کرتا ہوں کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ لیکن ابھی دل کا جاری ہونا محسوس نہیں ہوا۔

جواب:

”اَللّٰہُ اَللّٰہ“کا ذکر کرتے ہوئے گردن گھمانا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی یہ ذکر کا حصہ ہے یہ تو صرف اور صرف کیفیت کو دل میں پیدا کرنے کے لئے ہے اگر وہ کیفیت بغیر گردن گھمائے حاصل ہو جائے تو گردن گھمانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ایک بات قابل ذکر ہے۔ میں نے خود نوٹ کیا ہے کہ جن لوگوں کو اسم ذات کا ذکر ملا ہے وہ جہری ذکر میں آواز بہت کم بلند کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اس میں آواز تھوڑی سی بڑھا دیں تاکہ آواز کا اثر زیادہ ہو جائے، اس طرح ذکر محسوس ہونے لگے گا۔ کیونکہ جہری ذکر کے اندر آواز کو دخل ہے، آواز کے ذریعے وساوس کا انقطاع کیا جاتا ہے، اس سے یکسوئی پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر ذکر کو بالکل خاموش طریقے سے کیا جائے تو بعض لوگوں کو محسوس نہیں ہوتا، توجہ نہیں ہوتی۔ اس لئے اگر ذرا بلند آواز سے ذکر کیا جائے اتنی آواز سے کہ دل پر اثر محسوس ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ اسم ذات کے مراقبہ میں سالک خود سے کچھ نہیں کرتا، اس کا کام بس اتنا ہوتا ہے اس کی حیثیت ایک سامع کی ہوتی ہے وہ تصور کرتا ہے کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے اور میں اس کو سن رہا ہوں، وہ دل سے ذکر کرا نہیں رہا ہوتا، بلکہ دل پہلے سے ازخود ذکر کر رہا ہے، یہ اس کو سننے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ اگر یہ دل سے ذکر کروانے لگے گا تو پھر تو یہ اختیاری ہو جائے گا حالانکہ دل تو کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس لئے اس مراقبہ میں مراقبہ کرنے والے کا کام بس اتنا ہے کہ دل کے ذکر سننے کی کوشش کرتا رہے۔

سوال نمبر4:

میرا ذکر بارہ تسبیح اور مراقبہ 15 منٹ والا ہے اس کو تقریباً ایک ماہ سے پہلے شروع کیا تھا، کیا اس کو ابھی جاری رکھوں؟

جواب:

جی ہاں! اس کو ابھی جاری رکھیں۔

سوال نمبر5:

جب لوگوں کے سامنے ہوتا ہوں تو بعض دفعہ اس خیال کو محسوس کرتا ہوں کہ لوگ میرے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں کہیں مجھ سے کوئی کام ایسا نہ ہو جائے کہ لوگ برا سمجھیں لیکن بعد میں پھر یہ سوچتا ہوں کہ یہ تو اخلاص نہیں ہے۔ دل کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں مختلف جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں جو جذبہ زیادہ دل میں محسوس کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تصوف کی ضرورت اور اہمیت کو دوسرے لوگوں کو بھی سمجھاؤں، پھر بھی بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ مجھے صرف اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔

جواب:

یہ آخری والی بات صحیح ہے کہ اپنی اصلاح کی فکر کرتے رہنا چاہیے۔ قریبی رشتہ داروں کو متوجہ کرنا بھی ٹھیک ہے لیکن اپنی اصلاح کی فکر کو چھوڑنا نہیں چاہیے وہ زیادہ اہم ہے اور لوگوں کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں لوگ ہمیں غوث اعظم بھی سمجھیں تو اس سے کیا ہوتا ہے اور اگر ہمیں زندیق سمجھیں تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ نہ ان کے اچھا سمجھنے کی پرواہ کی جائے نہ برا سمجھنے کی پرواہ کی جائے، بس اس بات کو خیال میں رکھا جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کی نظروں میں کیسا بنوں اور میرے اپنے حالات کیسے درست ہوں۔ بس اس سے زیادہ کے ہم مکلف نہیں ہیں، لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم حضرت جی!

I have completed my ذکر of 200, 400, 600 and 20 times and 20 minutes مراقبہ. I can feel the ذکر of my heart but unable to listen to it due to my illness. I was not able to complete the ذکر mentioned above. However, I continued with the ذکر of 100, 100, 100 in order during these days of illness.

جواب:

اگر آپ ذکر کو محسوس کرتے ہیں کا لیکن سن نہیں سکتے تو بھی ٹھیک ہے، ماشاء اللہ ابتدا ہو گئی ہے، محسوس ہو رہا ہے، ان شاء اللہ آہستہ آہستہ سننے بھی لگیں گے۔ فی الحال اسی کو جاری رکھیں ان شاء اللہ عید کے بعد پھر اس کے بارے میں بات ہو گی۔

سوال نمبر7:

محترم جناب سید شبیر احمد کاکا خیل صاحب السلام علیکم! امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے مجھے ہری پور ہزارہ کے لئے دائمی اوقاتِ نماز کے چارٹ کی ضرورت ہے۔ اپنی کتابوں کا ایک سیٹ بھی ہمارے جامعہ کی لائبریری کے لئے ارسال فرما دیں۔ کیا آپ کے خطبات کتابی شکل میں مل سکتے ہیں؟ امید ہے محسوس نہیں ہو گا۔

جواب:

یہ ایک صاحب ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ہری پور ہزارہ کے لئے ان کو اوقاتِ نماز اور سحر و افطار کا نقشہ چاہیے۔ ان شاء اللہ ہمارا یہ نقشہ ان کو ہماری ویب سائٹ tazkia.org سے مل جائے گا۔ جہاں تک کتابوں کے سیٹ کی بات ہے، کتابیں تو تقریباً ختم ہو چکی ہیں کچھ شاعری کی کتابیں موجود ہیں، ایک ”پیغام محبت“ ہے جس کا ہدیہ 225 روپے ہے۔ ایک ”شاہراہ محبت“ ہے جس کا ہدیہ 150 روپے ہے۔ ”زبدۃ التصوف“ بھی موجود ہے، جس کا ہدیہ تقریباً 30، 40 روپے ہوگا۔ فی الحال یہ مل سکتی ہیں۔ اگر یہ کتابیں آپ کو چاہئیں تو چونکہ یہ خانقاہ کی ملکیت ہیں اس لئے ہم یہ آپ کو قیمتاً بھیج سکتے ہیں، آپ ہماری خانقاہ کے ای میل ایڈریس پر ای میل کر دیں یا پھر اس پتے پر خط بھیج دیں ”خانقاہ امدادیہ، سی بی 1991/1، گلی نمبر 4، near مسجد امیر حمزہ اللہ آباد ویسٹریج راولپنڈی“۔ تو آپ کو ان کتابوں کے بھیجنے کا بندوبست کر دیا جائے گا لیکن آپ کو اس کا ہدیہ دینا پڑے گا، یہ خانقاہ کی ملکیت ہے ذاتی نہیں ہے۔

سوال نمبر8:

حضرت جی! مجھ سے گناہ ہوجاتے ہیں، کافی دیر ٹھیک رہتا ہوں پھر ایک دم کوئی گناہ ہو جاتا ہے اور سب ختم ہو جاتا ہے۔ ان غلطیوں اور گناہوں کی وجہ سے میں پڑھ نہیں پا رہا ہوں اور اعمال میں بھی رکاوٹ آ جاتی ہے۔ آپ بتائیں میں کیا کروں بد نظری سے کیسے بچوں؟ پلیز میرے لئے دعا کریں۔

جواب:

ہمارے حضرات کہتے ہیں کہ سوتوں کو جگانا مشکل نہیں ہوتا، لیکن جو جاگ کے سو جاتے ہیں ان کو جگانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ ان کو پتا بھی ہوتا ہے کہ میں غلطی کر رہا ہوں اس کے باوجود وہ غلطی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں ماحول کا بدلنا ضروری ہوتا ہے اس کے لئے دونوں چیزوں میں ہمت چاہیے ہوتی ہے۔ منفی چیزوں سے بچنے کے لئے بھی ہمت چاہیے اور مثبت چیزوں کو حاصل کرنے میں بھی ہمت چاہیے ہوتی ہے۔ ایک آدمی اچھا بھلا صحت مند ہے اور وہ کہتا ہے میں پڑھ نہیں سکتا، کیسے پڑھوں اس کو کوئی کیسے بتائے گا کہ کیسے پڑھو۔ کوئی طریقہ ہے اس کو بتانے کا کہ کیسے پڑھو ؟ کسی کے سامنے پلیٹ میں کھانا رکھا ہو اور وہ پوچھے کہ میں کیسے کھاؤں تو اس کو آپ کیا بتائیں گے کہ کیسے کھاؤ۔ ایک آدمی بھڑکتی ہوئی آگ میں ہاتھ ڈال رہا ہے اور کہتا ہے مجھے بتاؤ میں آگ میں ہاتھ ڈالنے سے کیسے بچوں تو کیا خیال ہے آپ اسے کیا طریقہ بتائیں گے۔ کوئی طریقہ ہے ان کو بتانے کا؟ مجھے تو کوئی طریقہ نہیں آتا، آپ کو کوئی طریقہ معلوم ہو تو بتا دیں۔ گناہ آگ ہے اور نیکی سامنے پڑا ہوا کھانا ہے۔ گناہ سے آپ تب بچیں گے جب آپ گناہ کو آگ کی طرح سمجھیں گے اور یہ سوچیں گے کہ جیسے آگ میں ہاتھ ڈالنے سے میرا ہاتھ جل جائے گا اسی طرح گناہ کرنے سے میں جہنم کی آگ میں جلوں گا۔ آخر سچے اللہ اپنے سچے نبی کے ذریعے آپ تک قرآن اور حدیث شریف کے ذریعے سے یہ بات پہنچا رہے ہیں، اس سے بڑا اور کون سا source ہے جو آپ کو اس بات کا یقین دلانے کے لئے چاہیے۔ لہذا یہ ذہن میں لانا چاہیے کہ میں جب گناہ کروں گا تو آگ میں جلوں گا اور اگر نیکی نہیں کروں گا تو مجھے فائدہ نہیں ہو گا۔ اس فائدے کا خیال کر کے نیکی کرے اور آگ سے بچنے کے لئے گناہ سے بچے۔ اگر گناہوں کے ماحول میں رہتا ہو تو اس ماحول سے دور ہٹ جائے اور صحیح ماحول میں آ جائے۔ اس لئے کہتے ہیں خلوت بری صحبت سے اچھی ہے اور اچھی صحبت خلوت سے اچھی ہے۔ اس لئے آپ خانقاہ میں آ جائیں، چند دن یہاں پر گزاریں تاکہ آپ برے ماحول سے کٹ جائیں، جب کچھ روحانی طاقت حاصل ہو جائے تو اس کے بعد اپنے ماحول میں جا سکتے ہیں۔ بہرحال جو بھی صورت اختیار کریں کچھ نہ کچھ کرنا تو ضرور پڑے گا ورنہ بھگتنا پڑے گا۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے لکھا کہ حضرت میں کیا کروں میری آنکھ اٹھ ہی جاتی ہے تو حضرت نے فرمایا: ارے بد بخت جس کو تو دیکھ رہا ہے اگر اس کا والد تجھے دیکھ رہا ہو یا تیرا والد دیکھ رہا ہو، کیا پھر بھی تو اسے دیکھے گا ؟ اس نے کہا: نہیں۔ حضرت نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نہیں دیکھ رہا، اس کا خیال کیوں نہیں کرتے۔

بس یہ اپنے آپ کو سمجھانے والی بات ہے۔ جو یہاں نہیں سمجھنا چاہتا وہ اُدھر آخرت میں سمجھ جائے گا۔ وہاں سمجھانے کا سارا انتظام موجود ہے۔ اگر یہاں سمجھ گیا تو ان شاء اللہ وہاں بچ جائے گا۔ یا اِدھر سمجھو یا پھر اُدھر سمجھنا پڑے گا۔ اس لئے اِدھر ہی سمجھ لو، وہاں سمجھنے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ وہاں تو سزا بھگتنی پڑے گی۔ یہاں سمجھنے کا فائدہ ہے کہ اعمال کی توفیق ہو جائے گی اور بچ جاؤ گے۔ لہذا اس مسئلے میں آپ کی کوئی خدمت نہیں کی جا سکتی، ہم آپ سے صرف اتنا عرض کر سکتے ہیں کہ ذرا ہمت سے کام لیں۔

کہتے ہیں کہ انسان کے بچنے کے تین راستے ہیں۔ ایک اخیار کا راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان علم حاصل کر لے اور پھر ہمت سے اس پر عمل کرے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی شیخ کا دامن پکڑ لے اور پھر اس کی بات مانے، اس کی بات ماننے سے دو فائدے ہوں گے، ایک اس کا تجربہ حاصل ہو جائے گا، دوسرا اس کی برکت حاصل ہو جائے گی۔ کام تو پھر بھی کرنا پڑے گا ہمت تو کرنی پڑے گی لیکن وہ ساری ہمت اس پہ صرف کرنی پڑے گی کہ شیخ کی بات مان لوں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہو جائے کہ اس کی بات ماننے کے لئے آپ کو کچھ تردد نہ کرنا پڑے۔ یہ تینوں باتیں آپ کے اختیار میں ہیں، جو آپ کو پسند ہے اسے اختیار کر لیں لیکن بہرحال کام خود کرنا ہے اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے۔

﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾ (الانعام: 164)

ترجمہ: ”اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“

وہاں سارے انسان اپنا اپنا بوجھ خود اٹھائیں گے۔ یہ بات سچے قرآن نے بتائی ہے اور نبی ﷺنے بھی بتائی ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی بیٹی سے فرمایا ہے: اے بیٹی! میری بیٹی ہونا تجھے نہیں بچائے گا، تجھے خود کام کرنا پڑے گا۔ آپ ﷺ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ فرمایا ہے تو ہما شما کس شمار میں ہیں کہ ہم کسی کے بارے میں کہہ دیں کہ اس وجہ سے بچ جائیں گے، لہذا کام تو خود کرنا پڑے گا۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا کہتا ہے حضرت اگر میرا کام نہیں ہو گا تو میں عیسائی ہو جاؤں گا۔ حضرت نے اسے ایک زبردست تھپڑ لگایا اور کہا کہ جا عیسائی ہو جا، اسلام کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے، تو کون سا اسلام کے اوپر احسان کر رہا ہے۔ اس نے کہا حضرت اگر اور مارنا ہے تو مار لیں ویسے میرا دماغ ٹھیک ہو گیا ہے۔ آپ نے بھی اگر اس طرح دماغ ٹھیک کروانا ہے تو پھر ایسے کسی شخص کے پاس چلے جائیں وہ ٹھیک کر دے گا، ہم تو ایسا نہیں کر سکتے۔ ہم صرف نصیحت کر سکتے ہیں اور نصیحت کر دی ہے۔ یہ ہماری اپنے آپ کو بھی نصیحت ہے، آپ کو بھی نصیحت ہے اور باقی سب کو بھی نصیحت ہے۔

سوال نمبر9:

حضرت قرآن پاک میں ارشاد ہے:

﴿اُذْكُرُوا اللّٰہَ ذِكْرًا كَثِیْرًا﴾ (الاحزاب: 41)

ترجمہ: ” اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ “

حضرت یہ وضاحت فرما دیں کہ اس کثرت کی حد کیا ہے، نیز یہ بھی بتائیں کہ یہاں ذکر سے کون سا ذکر مراد ہے، ذکر قلبی یا لسانی، اگر کسی کو کیفیت احسان حاصل ہو جائے یعنی ہر وقت اللہ کا دھیان رہتا ہو، اور وہ لسانی ذکر کم کرتا ہو، کیا وہ کثرت سے ذکر کرنے والا شمار ہوگا یا نہیں۔

جواب:

دیکھیں اصل ذکر یہی ہے کہ انسان کو ہر وقت یہ بات یاد رہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ میرا رب ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہر وقت دھیان رہنا یہ اصل ذکر ہے۔ اس دھیان کو حاصل کرنے کے لئے باقی اذکار کرنے ہوتے ہیں۔ ذکر جہری اور مراقبہ وغیرہ سب اسی کے لئے ہیں۔ یہ سب راستے کے ساتھی ہیں، اصل میں وہاں تک پہنچنا ہے، اگر کسی کو وہ حاصل ہو جائے تو اسے علاجی اذکار کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لہٰذا اصل ذکر تو کیفیت احسان کا حاصل ہونا ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام اذکار اِس اصل منزل تک پہنچنے کے درجات ہیں۔ اب جو کسی قسم کا ذکر نہیں کر رہا وہ تو محروم ہو گا، لیکن جو ذکر کر رہا ہے، خواہ وہ کسی بھی قسم کا ذکر کرتا ہے، اسے اپنے درجے کے مطابق اس کا رزلٹ ملتا رہے گا، کوئی لسانی ذکر کر رہا ہو گا، کوئی جہری ذکر کر رہا ہو گا، کوئی مراقبہ کر رہا ہو گا، کوئی اعلیٰ درجے کے مراقبات میں ہو گا، کوئی خالص کیفیت احسان والا مراقبہ جو اصل دھیان ہے وہ کر رہا ہو گا۔ ان سب کو اپنے اپنے درجے کے مطابق رزلٹ ملتا جائے گا۔ جب تک کیفیت احسان حاصل نہ ہو، شیخ کی رہنمائی میں ذکر کی کسی نہ کسی صورت سے منسلک ضرور رہنا چاہیے۔ اس وجہ سے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال جیسے زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ تو کیا خیال ہے آپ کتنی دیر کے لئے مردہ ہونا پسند کریں گے۔ کوئی آدمی کسی بھی وقت مردہ ہونا پسند نہیں کرتا، تو پھر ہر وقت ذکر کرنا چاہیے۔ اگر نہیں کر رہا تو حکم پہ عمل نہیں ہو رہا لیکن بہرحال جتنا ہو رہا ہے اس کو اتنا فائدہ ہے حتیٰ کہ کوئی شخص بالکل بے دھیانی سے بھی ذکر کر رہا ہے پھر بھی اس کو ذکر نہ کرنے والے کی نسبت فائدہ ہو رہا ہے۔

اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی آدمی کھیتی کو بہت اچھی طرح تیار کرتا ہے اور کوئی بہت کمزور طریقے سے تیار کرتا ہے اور کوئی بہت تھوڑے طریقے سے تیار کرتا ہے اور کوئی بالکل تیار نہیں کرتا۔ بالکل تیار نہ کرنے والے کے علاوہ سب کو اپنی اپنی محنت کے مطابق فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ جو کم محنت کرتے ہیں ان کو تھوڑا فائدہ ہو جاتا ہے اور جو بہت سلیقے سے تیار کرتے ہیں ان کو زیادہ فائدہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو دھیان سے ذکر کرتا ہے ان کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے، جو دھیان سے نہیں کرتے کم توجہ کرتے ہیں ان کو اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے لیکن بہرحال فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ اس کو ہر وقت کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا ہر وقت تعلق رہے اور اللہ جل شانہ ہماری ہر چیز کا نگہبان اور نگران ہے اور دینے والا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرۃ: 152)

ترجمہ: ” مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا “۔

لہٰذا اللہ پاک ہمیں اس ذکر کے ذریعے سے یاد رکھ رہا ہے، ہم جتنا زیادہ سے زیادہ ذکر کریں گے اتنے محفوظ ہوں گے اتنا ہی ہمارا فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر10:

حضرت جی ذکر بالجہر اور مراقبہ کو اکٹھا کرنا لازمی ہوتا ہے یا الگ الگ بھی کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر الگ کرنے میں بھی کوئی فریش کرسکتا ہے، صحیح طرح، تو اس پہ اثر کیا ہوگا۔

جواب:

کیا خیال ہے اگر آپ کو ڈاکٹر exercise کرنے کو کہے کہ پہلے پیروں کی exercise کریں پھر ہاتھوں کی exercise کریں اس کے بعد پیٹ کی exercise کر لیں۔ آپ کو ایک پورا سیٹ بتا دے۔ اور آپ یوں کریں کہ صبح ہاتھوں کی ورزش کر لیں، دوپہر کو پیٹ کی اور شام کو پیروں کی ورزش کر لیں تو کیا خیال ہے آپ کا علاج ہو جائے گا؟ ہمارے دئیے ہوئے ذکر کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ ہم جو ذکر بتاتے ہیں وہ باقاعدہ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوتا ہے، اور ہرپہلا حصہ بعد والے کے لئے بنیاد ہوتا ہے۔ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، ”اِلَّا اللّٰہ“ کے لئے بنیاد ہے، ”اِلَّا اللّٰہ“، ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“کے لئے بنیاد ہے، ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“، ”اَللّٰہ“کے لئے بنیاد ہے، یہ پورا ذکر مل کر اس کے بعد کئے جانے والے مراقبات کے لئے بنیاد ہے اگر آپ اس کو علیحدہ علیحدہ کرتے ہیں تو اس کا وہ فائدہ نہیں ہو گا۔ البتہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار والے ذکر میں یہ بات نہیں ہے کیونکہ وہ ثوابی ذکر ہے، سبحان اللہ آپ صبح بھی کہہ دیں گے تو اس کا جتنا اجر ہو گا مل جائے گا اور اگر شام کو کہہ دیں گے اس کا بھی اتنا اجر مل جائے گا، یہ نہیں کہ صبح اجر زیادہ ہو گا شام کو کم ہو گا۔ لہذا اگر آپ تیسرے کلمے کی تسبیح صبح کر لیتے ہیں، درود شریف دوپہر کو پڑھ لیتے ہیں اور عشاء کو استغفار پڑھ لیتے ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چلتے چلتے کر لو تو بھی فرق نہیں پڑتا، البتہ ثواب میں تھوڑی سی کمی آ سکتی ہے کیونکہ توجہ کم ہو گی لیکن بہرحال وہ پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن علاجی ذکر میں چونکہ خاص چیزیں حاصل کرنی ہوتی ہیں وہ تب ہی ہو سکتی ہیں جب آپ اس کو ترتیب کے ساتھ ایک ہی وقت میں کریں گے۔

مجھ سے کسی نے چالیس دن کے لئے 300 دفعہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ“اور 200 دفعہ ”لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“ کا ذکر لیا تھا۔ یہ ایک انجینئر تھے، آسٹریلیا میں رہتے تھے۔ انہوں نے ای میل پر مجھ سے سوال پوچھا: ?Can I split it یعنی میں اس کو علیحدہ علیحدہ کر سکتا ہوں؟

میں نے جواب دیا :

yes, if you want to do it for ,اجر No, if you want to do it for treatment.

ہاں آپ اگر یہ ذکر اجر کے لئے کر رہے ہیں تو علیحدہ علیحدہ کر سکتے ہیں اور اگر آپ اپنی اصلاح کے لئے کر رہے ہیں تو پھر نہیں کر سکتے۔ ادھر سے جواب آیا :

Yes! I understand now.

لہٰذا آپ بھی اگر اجر کے لئے کر رہے ہیں تو علیحدہ علیحدہ وقت پر کر سکتے ہیں۔

سوال نمبر11:

نیت کے بارے میں سوال ہے کہ مثلاً ہم نے کوئی دینی کام شروع کیا تو اس سے پہلے نیت بنا لی کہ میں یہ کام اللہ کے لئے کر رہا ہوں لیکن کچھ وقت کے بعد محسوس ہوا کہ یہ ریا کاری ہے۔ کیا اس کام میں ہماری نیت خالص شمار ہوگی یا نہیں۔

جواب:

ریا کاری ایک اختیاری عمل ہے غیر اختیاری عمل نہیں ہے، نیت بھی اختیاری چیز ہے غیر اختیاری نہیں ہے لہذا اگر آپ کی نیت ریا کاری کی نہیں ہے تو وہ ریا کاری نہیں بلکہ ریا کاری کا وسوسہ ہو گا۔ اگر آپ کی نیت ریا کاری کی نہیں، بلکہ نیت اور ارادہ یہی ہے کہ ہم یہ کام اللہ کے لئے کر رہے ہیں تو ریاکاری کا خیال آنا ایک وسوسہ ہوگا اور وسوسہ کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ ہاں اگر آپ نے باقاعدہ ریاکاری کی نیت کی تو پھر توبہ کرنی چاہیے اور نیت کو درست کرنا چاہیے۔

سوال نمبر12:

حضرت! ایک بار کسی کام کی نیت کر لی اور اس کام کو شروع کر دیا تو کیا نیت کا استحضار بار بار کرتے رہنا چاہیے؟

جواب:

نہیں نہیں، پہلی بار کی نیت ہی کافی ہے۔ کیا خیال ہے نماز میں کتنی دفعہ نیت کرتے ہو، بس پہلی دفعہ نیت کر لو تو بعد میں پوری نماز میں وہی نیت ہوتی ہے۔ مسلمان ہونے کے لئے کلمہ پڑھنا کتنی دفعہ ضروری ہے، ایک دفعہ ہی کافی ہے یا بار بار پڑھنا چاہیے، ایک دفعہ ہی کافی ہے، ہاں بعد میں اجر کے لئے تو پڑھنا چاہیے لیکن ایمان لانے کے لئے ایک دفعہ کافی ہے۔

سوال نمبر13:

اگر کسی کام کے آغاز میں نیت نہیں ہے اور بعد میں اسی کام کے دوران میں نیت کو خالص کر لیا جائے تو کیا اس میں اخلاص حاصل ہو جاتا ہے؟

جواب:

جی ہاں نیت کو خالص کرنے کے بعد جتنا کام ہوگا اس میں اخلاص حاصل ہو جائے گا، گزشتہ پہ توبہ کر لے اور آئندہ کے لئے اپنی نیت درست کر لے۔

سوال نمبر14:

حضرت جی کیا اپنے شیخ کو ہر طرح کا خواب بتانا چاہیے یا جس کا تعلق تربیت سے ہو وہی بتانا چاہیے۔

جواب:

جن کو بہت زیادہ خواب آتے ہوں انہیں ہر خواب نہیں بتانا چاہیے وہ خوابوں کے مریض ہوتے ہیں۔ بعض لوگ خوابوں کے مریض ہوتے ہیں، وہ تھوڑے سے سو جائیں تو ان کو خواب نظر آتے ہیں ان کے خوابوں کی اتنی حیثیت بھی نہیں ہوتی۔ البتہ کبھی کبھار اگر کوئی ایسا خواب نظر آتا ہو اور وہ بھی بالکل متوازن خواب ہو با قاعدہ نظر آتا ہو جیسے انسان کے ساتھ کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ بتانا چاہیے۔ جن کو بہت زیادہ خواب آتے ہوں ان کو نہیں بتانا چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ، وہ خوابوں کے مریض ہیں ان کی جان ان خوابوں سے تب چھوٹے گی جب وہ ان کی پروا نہیں کریں گے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایسے لوگوں کے لئے فرمایا کرتے تھے:

نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم من زہمہ آفتاب وز آفتاب گویم تشریح:

میں نہ رات ہوں نہ رات کا پرستار ہوں میں تو آفتاب ہوں سورج ہوں دن کے ساتھ چلتا ہوں۔ یعنی رات کی باتیں نہیں کرتا، دن کی بات کرتا ہوں۔

کلام

جو بات ہو سچی اور پکی تو اس کا بتانا کیسا ہے کمزور بھی ہوں محتاج بھی ہوں تو جان چھڑانا کیسا ہے

تشریح:

یہ استفہامی انداز ہے جو سمجھانے کا ایک انداز ہوتا ہے۔ جو بات پکی ہے اور سچی ہے اس کا بتانا کیسا ہے؟ یعنی بتانا چاہیے کیونکہ پکی بات ہے۔ اور انسان کمزور بھی ہو محتاج بھی ہو تو اس وقت اپنی جان چھڑانا کیسا ہے۔ کسی بات پہ جان چھوٹ رہی ہو تو کیا خیال ہے چھڑانا چاہیے یا نہیں چھڑانا چاہیے۔ چھڑا لینا چاہیے۔

جب ظلم خود پر کر لیں ہم اس پر ہم سے وہ روٹھے تو احساس اگر کچھ ہو جائے روٹھے کو منانا کیسا ہے

تشریح:

یعنی اگر اس کا احساس ہو جائے کہ وہ یہ سب ہمارے لئے کر رہا ہے تو ایسے روٹھنے والے کو منانا کیسا ہے۔


وہ ہم سے تو کچھ مانگے نہیں اس پر بھی دینا چاہتا ہو تو اس کے سامنے سوچ ذرا پھر خود کو جھکانا کیسا ہے وہ آئندہ کی تکلیفوں سے ہم کو بچانا جو چاہیں تو ان کی مان کر رو رو کر پھر خود کو بچانا کیسا ہے

تشریح:

وہ ہمیں آئندہ کی تکلیفوں سے بچانا چاہتا ہے۔ جیسے ابھی افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ چھ لاکھ لوگوں کی مغفرت فرمائیں گے جن کے اوپر جہنم واجب ہو چکی ہوگی۔ ایسی صورت میں پھر رو رو کر معافی مانگ کے اپنے آپ کو بچانا کیسا ہے۔

جو دشمن ہے ہم ساروں کا وہ دور کرے اس سے ہم کو تو بھاگ کر اس کے پہلو میں پھر خود کو لانا کیسا ہے

تشریح:

یعنی ہمارا دشمن شیطان ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور کرنا چاہتا ہے، شیطان سے بھاگ کر اللہ پاک کے پاس جانا کیسا ہے۔

ہم ٹسوے چند بہائیں جب اور اس پر بھی وہ مانے جب تو اس کے در پر رو رو کر آنسو کا بہانا کیسا ہے

تشریح:

ہم جھوٹ موٹ کے آنسو بہا کر جب دعا کرتے ہیں وہ اس پر بھی مان جائیں تو پھر سچ مچ کا رونا کیسا ہو گا۔


ہم اس کے سامنے پڑ جائیں تو اس کے جواب میں تر جائیں تو اس کے سامنے پڑ جانے سے یوں تر جانا کیسا ہے تشریح:

یعنی اگر ہم اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں اس پہ اللہ تعالیٰ ہمیں نوازیں تو پھر ہم کیوں نہ اس کے سامنے عبادت کرنے کے لئے کھڑے ہوں۔


دشمن چھوڑے ہم کو نہیں اور نفس اپنا مانے نہیں اس بگڑے نفس کو پھر شبیر تربیت دلانا کیسا ہے

تشریح:

یعنی شیطان ہمیں چھوڑے نہیں اور نفس مانے نہیں تو پھر ایسے ضدی نفس کو تربیت دلانا کیسا ہے۔

٭٭----٭٭

روشنی گر آنکھ میں حیا کی ہے تو سمجھ یہ کہ دل میں پاکی ہے بے حیا بن کے جو بھی چاہے کر اس سے ہی نکلی ہوس ناکی ہے لگتی اچھی نہیں ہے یہ حالت نوجوانوں میں جو بے باکی ہے کان حیا سوز گانے سنتے ہوں یہ نشانی دلِ تباہ کی ہے اور زباں پر بھی احتیاط نہ ہو یہ علامت دل کی خطا کی ہے دل میں گر اس کو بسا لو گے شبیر بہترین صورت تقویٰ کی ہے

٭٭----٭٭

سوال نمبر15:

حضرت! ان اشعار کی وضاحت فرما دیں۔

کان حیا سوز گانے سنتے ہوں یہ نشانی دلِ تباہ کی ہے اور زباں پر بھی احتیاط نہ ہو یہ علامت دل کی خطا کی ہے

جواب:

جو دل اللہ کے ساتھ لگا ہوا ہے وہ بنا ہوا دل ہے یعنی اللہ کی محبت میں لگے ہوئے دل کو بنا ہوا دل کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے :

﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)

ترجمہ: ”یقینا اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔ “

یعنی بے شک اس قرآن کے اندر نصیحت ہے اس شخص کے لئے جس کا دل بنا ہوا ہو۔ جس کو اللہ کے ساتھ محبت ہے وہ بنا ہوا دل ہے اور جس کو دنیا کے ساتھ محبت ہے وہ تباہ دل ہے برباد دل ہے۔ اللہ چونکہ ایک ہے تو جب اس کی طرف دل ہوتا ہے وہ ایک ہی طرف ہوتا ہے اور دنیا چونکہ بہت زیادہ منتشر ہے تو جب اس کی طرف دل ہوتا ہے تو بے حد منتشر ہوتا ہے، بالکل ٹوٹے ٹوٹے ہوتا ہے، بس وہ تباہ دل ہے برباد دل ہے۔ اگر کوئی حیا سوز گانے سنتا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو اللہ کے ساتھ تعلق نہیں ہے اسے دنیا کی لذات کے ساتھ تعلق ہے تو ظاہر ہے یہ تباہ دل کی نشانی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جب زبان پر بھی احتیاط نہ ہو، اول فول بکتے ہوں، درمیان میں گڑبڑ کرتے ہوں، گالیاں دیتے ہوں، گندی باتیں کرتے ہوں تو یہ بھی دل کی خطا کی علامت ہے کہ دل صحیح نہیں ہے۔ نتیجتاً وہ صحیح سگنل نہیں پہنچا سکا۔ جب دل بنا ہوتا ہے تو زبان بھی سنبھل کے بات کرتی ہے اور انسان ڈر رہا ہوتا ہے کہ کہیں میں ایسی بات نہ کروں جو میرے لئے وبال بن جائے۔ ایک موٹی سی مثال ہے کہ ایک عام مسلمان کا دل کم از کم اتنا بنا ہوتا ہے کہ وہ کفر کی بات نہیں کرتا، اس سے ڈرتا ہے۔

ایک شاعر تھا اختر شیرانی۔ بڑا مشہور شاعر گزرا ہے، شاعر کے ساتھ شراب نوش بھی تھا۔ ایک مرتبہ شراب کے نشے میں دھت تھے اور لوگ ان کو چھیڑ رہے تھے۔ شرابی کے ساتھ لوگ گپ شپ تو لگاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتا تو ہے نہیں۔ وہاں موجود لوگوں نے مختلف لیڈروں اور فلاسفروں کے نام لے کر پوچھنا شروع کیا کہ ان کے بارے میں تمہارا کیا خیا ہے، وہ ان کی بارے میں فضول بکواس شروع کر لیتا کہ فلاں شاعر ایسا ہے فلاں فلسفی ایسا ہے، یہ سن کر لوگ ہنستے۔ کافی لوگوں کے بارے میں پوچھنے کے بعد کسی نے پوچھا کہ آپ ﷺ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ بس اس کا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا اور جھپٹ کے اس کو گردن سے پکڑا کہ ظالم میرے پاس صرف ایک ہی چیز رہتی ہے یہ بھی تم مجھ سے لینا چاہتے ہو۔ نشے کی حالت میں بھی نبی ﷺ کے ساتھ اس کے دل کی محبت اس درجے کی تھی کہ وہ رہ نہ سکا اور بول پڑا کہ میرے پاس صرف ایک ہی چیز ہے یہ بھی تم مجھ سے چھیننا چاہتے ہو۔

مسلمان کا دل کم از کم اتنا بنا ہوتا ہے کہ وہ کفر کی بات نہیں کرتا آپ ﷺ کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا، کسی کا دل مزید بنا ہو تو وہ صحابہ کے خلاف بات برداشت نہیں کر سکتا، کسی کا دل اور زیادہ بنا ہوا ہو تو وہ اولیاء اللہ کے خلاف اور علماء و مشائخ کے خلاف بات برداشت نہیں کرتا، اس سے بڑھ کر کسی کا دل اور زیادہ بنا ہو تو وہ کسی بھی شرعی بات کے خلاف بات برداشت نہیں کر سکتا، مزید بنا ہوا ہو تو شریعت پر چلنا اس کے لئے آسان ہوتا ہے۔ یہ درجات ہوتے ہیں، جس حد تک جس کا دل بنا ہوا ہے اتنا اس کا اثر ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔ جس کی زبان بے احتیاط ہے تو اس کا مطلب ہے اس کا دل مکمل بنا ہوا نہیں ہے نتیجتاً وہ اتنا تو خیال رکھتا ہے کہ کفر کی بات نہیں کرتا لیکن گناہ کی بات کر لیتا ہے تو یہ اس کی خطا کی علامت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی یہ پروا نہیں کرتا کہ میں کیا سنوں کیا نہ سنوں اس کا مطلب ہے کہ اس کا دل تباہ ہے۔ کیونکہ جو بنا ہوا دل ہو، یقین جانیے وہ غلط بات سنے گا تو اس کے سر میں درد ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ گانے کی طرز پر کوئی نعت سن لیتا ہے تو سر میں درد ہو جاتا ہے۔ الفاظ نعت کے ہوتے ہیں لیکن گانے کی طرز پر سنتا ہے تو اس کے سر میں درد ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہا کہ جس کا دل بنا ہوا ہو وہ حیا سوز گانے نہیں سن سکتا۔

(اختر شیرانی والا پورا واقعہ اس طرح ہے، جو کتاب ”مضامین شورش- مجھے ہے حکم اذاں میں منقول ہے)

اختر شیرانی اک بلانوش شرابی، محبت کا سخنور اور رومان کا تاجر تھا۔ لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں ایک دفعہ چند کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے رومانوی شاعر اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ بلانوش تھے شراب کی دو بوتلیں وہ اپنے حلق میں انڈیل چکے تھے، ہوش و حواس کھو چکے تھے تمام بدن پر رعشہ طاری تھا حتی کہ دمِ گفتار الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زباں سے نکل رہے تھے۔

ادھر اختر شیرانی کی انا کا شروع ہی سے یہ عالم تھا کہ اپنے سوا کسی کو مانتے نہیں تھے۔ نجانے کیا سوال زیر بحث تھا فرمایا ’’مسلمانوں میں اب تک تین شخص ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینیس (ذہن و فطین) بھی ہیں اور کامل فن بھی، پہلے ابوالفضل، دوسرے اسداللہ خان غالب، تیسرے ابوالکلام آزاد۔۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے ہمعصر شعراء میں جو واقعی شاعر تھے انہیں بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔ کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا، طرح دے گئے۔۔۔ جوش کے متعلق پوچھا، کہا : وہ ناظم ہے۔۔۔ سردار جعفری کا نام لیا تو مسکرا دیئے۔۔۔فراق کا ذکر چھیڑا تو ہوں ہاں کر کے چپ ہو گئے۔۔۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا، فرمایا : مشق کرنے دو۔۔۔ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا : نام سنا ہے۔۔۔ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا : میرا شاگرد ہے۔۔۔

نوجوانوں نے جب دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں تو بحث کا رخ پھیر دیا۔ کہنے لگے حضرت فلاں پیغمبر علیہ السلام کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آنکھیں مستی میں سرخ ہو رہی تھیں، نشے میں چور تھے، زباں پر قابو نہیں تھا لیکن چونک کر فرمایا : کیا بکتے ہو؟ ادب و انشاء یا شعر و شاعری کی بات کرو‘‘۔۔۔ اس پر کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا کہ اس کے مکالمات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے فرمایا اجی! یہ پوچھو کہ ہم کون ہیں؟ یہ ارسطو افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے۔ ہمیں ان سے کیا غرض کہ ہم ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔

ان کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے شہ پا کر ایک ظالم کمیونسٹ نے چبھتا ہوا سوال کیا آپ کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔؟ اللہ اللہ! نشے میں چور اک شرابی۔۔۔جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔۔۔بدبخت اک عاصی سے سوال کرتا ہے۔۔۔اک روسیاہ سے پوچھتا ہے۔۔۔اک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے۔۔۔؟ غصے سے تمام بدن کانپ رہا تھا، اچانک رونا شروع کر دیا حتیٰ کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا؟ تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ گستاخ! بے ادب "باخدا دیوانہ باش بامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوشیار" اس شریر سوال پہ توبہ کرو میں تمہارے خبث باطن کو سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے۔ اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس نے بات کو موڑنا چاہا مگر اختر کہاں سنتے تھے۔ اسے محفل سے نکال دیا پھر خود بھی اٹھ کر چل دیئے۔ ساری رات روتے رہے کہتے تھے ’’یہ لوگ اتنے بے باک ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں، میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں‘‘۔ (ماخوذ از مضامین شورش۔ مجھے ہے حکم اذاں)

٭٭----٭٭

یہ مناظر یہ آوازیں یہ رنگینی یہ شباب تھام لے دل کہیں ہو نہ اس میں جاؤ خراب ہر ایک پتّا اس کی یاد کا پتا دیتا ہے بشرطیکہ ترے دل میں اس کی یاد ہو جناب یہ اپنی آنکھیں، اپنے کان و زبان دیکھ لینا ہیں کسی اور کے جو دینا پڑے گا ان کا حساب اب تو تو محو خواب غفلت دنیا ہے یہاں خود سے ہی جاگ ورنہ تجھ کو جگا لے گا عذاب

تشریح:

کہتے ہیں خود ہی جاگ جاؤ ورنہ تمہیں عذاب آ جگائے گا۔ یہ خوبصورت مناظر، یہ رنگینیاں، یہ شباب؛ یہ سب اللہ تعالیٰ نے بغرض امتحان بنایا ہے، اس کے اندر حکمتیں ہیں۔ اگر تیری آنکھ بن گئی تو انہی سے تم اللہ تعالیٰ کی پہچان کر لو گے تمہیں انہی کے ذریعے سے اللہ یاد آئے گا اور اگر تمہاری آنکھ نہیں بنی تو انہی کی وجہ سے غافل ہو جاؤ گے۔ اس وجہ سے آدمی کو خود ہی سنبھلنا چاہیے ورنہ جب عذاب آ گیا تو پھر انسان کیا کر سکتا ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعٰلَمِیْن