سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 191

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال 1:

کیا ذکر کے لئے وضو کرنا ضروری ہے؟

جواب:

ذکر کے لئے وضو ضروری نہیں ہے، اگر کوئی بغیر وضو کے ذکر کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ جنبی یا حائضہ بھی ذکر کر سکتے ہیں۔ لیکن آداب کی جتنی پابندی کی جائے گی اس کے اثرات اتنے بڑھتے جائیں گے۔ مثلاً با وضو ہو گا تو زیادہ اثر ہو گا۔ بیٹھ کر، اطمینان کے ساتھ کر رہا ہو گا تو زیادہ تفکر کے ساتھ کر رہا ہو گا۔ اس طریقے سے اس میں بڑھوتری آتی ہے اور فائدہ ہوتا ہے اور ثواب میں بھی فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ ثواب دل کے تعلق کی وجہ سے کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ اس وجہ سے اگر ذکر علاج کے لئے کیا جائے تو یہی بہتر ہے کہ با وضو ہو کر کیا جائے کیونکہ وہ ایک خاص فائدے کو حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ جب انسان ایک کام کر ہی رہا ہے تو اچھی طرح کر لے تاکہ زیادہ فائدہ حاصل ہو جائے۔ اگر اجر حاصل کرنے کے لئے کر رہا ہے تو بھی وضو زیادہ بہتر ہے لیکن وضو نہ ہونے کی وجہ سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔ کبھی راستے میں وضو نہیں ہوتا تو سوچے کہ وضو نہیں ہے تو میں ذکر نہیں کر سکتا تو ایسی بات نہیں ہے۔ ایک دفعہ میں ایک عالم کے ساتھ جا رہا تھا، انہوں نے بڑی اچھی بات بتائی۔ فرمایا کہ شبیر یاد رکھنا! بعض دفعہ شیطان ہمیں اس طرح محروم کر دیتا ہے کہ پہلے وضو نہیں رہنے دیتا او پھر کہتا ہے کہ درود شریف بغیر وضو کے نہیں پڑھ سکتے لہٰذا درود شریف سے محروم کر دیتا ہے۔ یاد رکھو! درود شریف بغیر وضو کے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ ہم ذرا ان چیزوں کو ذہن میں رکھیں تو شیطان کی اسکیم فیل ہو جائے گی۔ ورنہ شیطان بہت دفعہ نورانی حجابات کے ذریعے سے آدمی کو محروم کر دیتا ہے۔ یعنی زیادہ کی خواہش میں تھوڑا بھی چلا جاتا ہے۔

سوال 2:

بعض لوگوں کا عقیدہ خراب ہوتا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے؟

جواب:

وہ اپنے آپ کو بے شک غوث اعظم سمجھ لیں۔ ہمیں اگر ان کے عقیدے کا پتا ہے تو اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہیے۔ دوسرا اپنے آپ کو چاہے کچھ بھی سمجھ رہا ہو، وہ اس کا فعل ہے۔

سوال 3:

شیطانی وسوسے کا علم کیسے ہو گا؟ ممکن ہے کہ شیطان انسان کو دین کی صورت میں دھوکہ دے رہا ہو۔

جواب:

اسی کے لئے شیخ کامل کو ڈھونڈا جاتا ہے اور علماء کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔ ”تلبیس ابلیس“ حضرت امام جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے اور ہماری بھی ایک کتاب ہے ”مکائد شیطان“ کے نام سے۔ یعنی ”شیطان کی چالیں“ ایسی کتابوں کو بھی پڑھنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ رکھے اور ان کو اپنے بارے میں بتاتا جائے کہ کہیں شیطان اس کو دھوکہ تو نہیں دے رہا! مثلاً درود شریف اس وجہ سے نہ پڑھ رہا ہو یا ذکر اس وجہ سے نہ کر رہا ہو کہ میرا وضو نہیں ہے۔ یہ دین کی صورت میں اس کو دھوکہ دے رہا ہے۔ جیسے حضرت رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا واقعہ ہے کہ ان کے پاس جو آتے تھے اور ان کو کہا تھا کہ قرآن پاک یاد کرو۔ ظاہر ہے وہ بھی شیخ کامل کی وجہ سے بچ گئے۔

سوال 4:

بعض اوقات انسان کو اپنے معمولات لوگوں کے سامنے کرنے پڑ جاتے ہیں۔ مثلاً جب گھر میں مہمان ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں انسان کو خیال آتا ہے کہ یہ ریا ہے یا لوگ یہ کہیں گے کہ تم پردے کا بہت خیال کرتے ہو تو یہ بھی ریا ہے۔ اس سے کیسے بچیں؟

جواب:

پردے کا اہتمام، حکم پر عمل ہے اور جن سے پردہ کریں گے ان کو تو پتا ہو گا لہٰذا اس میں پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اجتماعی اعمال میں ریا والا مسئلہ نہیں ہوتا۔ جیسے با جماعت نماز میں اگر آپ کو ریا کا خیال ہو تو پھر بھی پڑھنی پڑے گی۔ چاہے لوگ ریا کار کہیں۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمھیں ریا کار کہیں۔ اس لئے فرماتے ہیں کہ جب انسان کسی وجہ سے کسی اچھے عمل سے رک جائے کہ لوگ دیکھ رہے ہیں تو یہ بھی ریا میں آتا ہے کہ اس نے لوگوں کو اہمیت دی۔ لہٰذا پردے کا خیال رکھنا چاہیے چاہے کوئی غلط کہے یا اچھا کہے۔ اپنے عمل پر مضبوطی سے جمنا چاہیے۔

سوال 5:

کسی دنیا کی چیز سے انسان کو محبت ہو، جب وہ مل جائے تو شروع میں زیادہ محبت ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ دنیاوی چیز کے ساتھ محبت کم ہو جاتی ہے۔ اللہ پاک کی محبت کیسی ہوتی ہے کیا یہ بھی کم ہوتی ہے یا وقت کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے؟

جواب:

اگر واقعی اللہ جل شانہ کی محبت ہے تو پھر زیادہ ہوتی جاتی ہے کیونکہ جتنی زیادہ تم محبت کرتے ہو اللہ بھی آپ کے ساتھ اتنی زیادہ محبت کریں گے۔ اور اس کے انوارات جب آپ پر ظاہر ہوں گی تو مزید محبت ہو گی۔ ہمارے شعر کا مصرع ہے:

در دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا

جو بھی اللہ کی محبت میں گرفتار ہو گا اس کی پیاس کبھی نہیں بجھے گی۔ اس کی پیاس بڑھتی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی جائے گی۔ البتہ اس کے لون تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یعنی پہلے شوق کی حالت ہوتی ہے، بعد میں انس کی حالت ہوتی ہے۔ شوق کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب تک انسان کو وہ چیز نہیں ملی ہوتی تو اس کے لئے بے چین ہوتا ہے، جب مل جاتی ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے۔ پھر اگر نہیں ہوتی تو دوبارہ بے چین ہو جاتا ہے۔ یہ انس ہوتا ہے۔ یعنی اس کو اس چیز سے دور ہو جانا قبول نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا شوق مُبدِل بَا اُنس ہو جاتا ہے۔ لیکن محبت کم نہیں ہوتی۔

سوال 6:

شوق اور تعجیل میں کیا فرق ہے۔

جواب:

تعجیل ثمرہ کے اندر ہے۔ مثال کے طور پر آپ نماز پڑھیں اور سوچیں کہ مجھے جلدی جلدی اس کا فائدہ حاصل ہو جائے۔ آپ کوئی وظیفہ کرنا شروع کر دیں اور سوچیں کہ مجھے جلدی جلدی اس کا اثر مل جائے۔ ایک خاتون کا فون آیا کہ کوئی وظیفہ دیں تاکہ میرا قرضہ اتر جائے۔ میں نے پوچھا: میں نے آپ کو پہلے بھی کوئی وظیفہ دیا تھا؟ کہا: جی دیا تھا۔ میں نے کہا: اس کے اوپر بد اعتمادی ہو گئی، وہ معاملہ ختم ہو گیا۔ آپ کا خیال ہے کہ بس بٹن دبا دیا اور کام ہو گیا۔ وظیفہ کرتی رہو اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر اس کا اثر ظاہر کر دے گا۔ چنانچہ یہ تعجیل ہے۔ اور شوق یہ ہے کہ انسان کو کسی چیز کی طلب ہوتی ہے اور اس کی طلب میں بے چین ہوتا ہے، وہ بے چینی صرف طبیعت پر ہوتی ہے۔ تعجیل فکر میں ہوتی ہے۔ گویا کہ انسان اپنے عمل کا مدار کر لیتا ہے۔ شوق میں یہ ہوتا ہے کہ جیسے مجھے کوئی کہے کہ فلاں کے ساتھ جلدی مل لو، حالانکہ میں جلدی نہیں مل سکتا تو پریشانی ہو گی۔ صرف مجھے پتا ہو گا کہ ابھی نہیں مل سکتا۔ مثلاً میرا کوئی دوست امریکہ سے ایک ہفتے کے بعد یہاں پہنچے گا۔ مجھے شوق ہو گا کہ وہ کب پہنچےگا۔ حالانکہ مجھے پتا ہو گا کہ ایک ہفتے بعد ہی پہنچے گا تو اس میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن تعجیل میں با قاعدہ میں لوگوں سے بد گمان ہو جاؤں گا، کہ فلاں اس لئے نہیں کر رہا اور وہ یہ نہیں کر رہا۔ مجھے پیچھے کر دیا۔ فلاں کو اچھا دے دیا، مجھے کمزور دے دیا۔ یہ تعجیل ہوتی ہے۔

سوال 7:

ہمارا شعر ہے:

نہ چھیڑو شبیرؔ دل کے نغمے رکو اب

ایک صاحب اس کی وضاحت طلب کر رہے ہیں۔

جواب:

اس کے کئی معنی نکلتے ہیں۔ اس کے بعد ہے: ”دبی ہی رہے آواز بہتر تمہاری“ در اصل قدر شناسوں کے سامنے ایسی باتیں کی جائیں تو فائدہ ہو گا۔ لیکن جب لوگ قدر شناس نہیں ہوں گے تو ان کے سامنے ایسی باتیں مت کرو کیونکہ ان کی نا قدری سے ان کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ خواہ مخواہ صورت حال بدل جاتی ہے۔ اس وجہ سے تم Low profile پہ کام کرو۔ اتنی تیز پروفائل پہ کام نہ کرو۔ یہ صرف میں نے نہیں کہا بلکہ کئی بزرگوں نے اپنی شاعری میں یہ باتیں کی ہیں۔ غالباً میرپور کے بزرگ میاں محمد بخش صاحب نے بھی کہا ہے کہ سخن والے لوگ چلے گئے، جو سخن سمجھتے تھے۔

سوال 8:

کیا دنیا کی چیز کے لئے صلوۃ الحاجت پڑھنے کا ثواب ملتا ہے؟

جواب:

جی بالکل دنیا کی دعا کرنے کے لئے بھی ثواب ملتا ہے۔ آپ کہتے ہیں: اے اللہ! مجھے اول ڈویژن میں پاس کر دے۔ اس دعا کا ثواب ملے گا۔ کیونکہ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (مؤمن: 60) اس پر عمل ہو رہا ہے تو ان شاء اللہ ثواب ملے گا۔

سوال 9:

حضرت جی! پچھلے دو مہینوں سے میں نے آپ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو ای میل کروں لیکن سستی کی وجہ سے نہیں کر پایا۔ آج فلاں صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے فرمایا کہ ابھی رابطہ کرو۔ حضرت جی شادی کے بعد آپ سے رابطہ میں بہت سستی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ معمولات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ دفتر کے کام اور مشکلات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اور مختلف چیزوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے معمولات کا چارٹ بھی نہیں بھر رہا با جماعت نماز بھی کم پڑھتا ہوں۔ تہجد پہلے دو ماہ میں چار بار پڑھی ہو گی۔ ذکر میں ناغے بھی ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو گا۔ فجر کی نماز پچھلے دو ماہ میں چار بار قضاء کر چکا ہوں۔ صرف دو بیان مبارک سنے ہوں گے۔ پہلے اللہ پاک سے لمبی دعائیں مانگتا تھا، اب دل میں بے چینی کی وجہ سے دعا میں بھی دل نہیں جمتا۔ اکثر بیٹھے بیٹھے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ پہلے دعاؤں کی قبولیت کا بہت یقین تھا لیکن اب کم ہو گیا اور سمجھتا ہوں شاید اللہ مجھ سے ناراض ہے۔ دفتر میں بھی دل نہیں لگتا، دفتر کے کاموں میں تردد کرنے کو دل نہیں کرتا۔ حضرت جی آپ سے اپنے کئے کی معافی چاہتا ہوں اور آپ سے رحم کی درخواست کرتا ہوں۔ جب تک آپ سے رابطہ رہتا ہے مغفرت کا یقین رہتا ہے دل کو بھی اطمینان رہتا ہے اور دل سے کبھی آپ سے دور نہیں ہونا چاہتا۔ مجھے معاف کر دیں۔

جواب:

در اصل دنیا کی جائز چیزوں کے بھی کچھ اثرات ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے چیزوں میں تاخیر کر دیتے ہیں۔ ان میں وہ چیز نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ سے ان کو تاخیر سے دیتے ہیں۔ جیسے شادی ایک جائز چیز ہے لیکن اس کا کیا حال ہو گیا حالانکہ شکر کرنا چاہیے تھا۔ ایک دفعہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا کہ میں ایک چیز کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں۔ اب وہ مجھے مل نہیں رہی۔ میں کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا: نفل پڑھنا شروع کر دو، جب تک یاد نہ آئے پڑھتے رہو۔ اگلے دن وہ آیا اور کہا: حضرت! آپ نے بہت زبردست وظیفہ بتایا تھا۔ ابھی میں نے چار، پانچ رکعتیں ہی پڑھی تھیں کہ مجھے یاد آ گیا اور وہ چیز مل گئی اور پھر میں سو گیا۔ فرمایا: کم بخت شکر کا موقع تھا شکر کی وجہ سے پوری رات عبادت کرتے۔ کیونکہ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ شیطان نے تجھے بھلایا ہوا ہے۔ اگر تو نماز پڑھنا شروع کر دے تو شیطان برداشت نہیں کر سکے گا اور یاد دلا دے گا۔ اسی طریقے سے جب اللہ تعالیٰ ایک نعمت دیتا ہے تو اس کا شکر کرنا چاہیے۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ مولانا عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ مولانا عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے جلالی بزرگ تھے۔ جب غصہ ہو جاتے تو حضرت سید صاحب ان کے کمر کے پیچھے کھڑے ہو جاتے تھے۔ کسی نے پوچھا: حضرت آپ ان کی کمر کے پیچھے کیوں کھڑے ہوتے ہیں۔ فرمایا: ان کا غصہ اللہ کے لئے ہوتا ہے اور اس وقت اللہ کی خاص رحمت برستی ہے تو میں بھی کھڑا ہو جاتا ہوں کہ مجھے بھی اس کا کچھ حصہ مل جائے۔ غالباً سید صاحب نے ان سے پوچھا کہ اگر میں سنت کے خلاف کوئی کام کروں تو آپ کیا کریں گے؟ انہوں نے کہا: جب آپ کے ساتھ عبدالحئی ہو گا تو آپ کیسے سنت کے خلاف کام کریں گے؟ جب سید صاحب نے شادی کی تو شادی کے پہلے دن ان کی صبح کی نماز کی تکبیر اولیٰ رہ گئی۔ اس پر مولانا عبدالحئی صاحب نے بہت زبردست وعظ کیا کہ کمال ہے دنیا کے لئے دین کی چیز کو قربان کرنا! یہ کیسی بزرگی ہے؟ حضرت سید صاحب نے کہا: میں توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ معلوم ہوا یہ شکر کی چیزیں ہوتی ہیں تاکہ انسان اللہ کی طرف اور بھی زیادہ متوجہ ہو اور نفس کی خواہشات کو قابو کرے۔ اگر انسان کو کھانا اچھا مل جائے تو اور بھی اچھی طرح نماز پڑھنی چاہیے۔ لہٰذا یہ کم ظرفی ہے اور اس سے خوب توبہ کرنی چاہیے اور جو چیزیں رہ گئی ہیں ان کو اب قصداً مجاہدہ سمجھ کر کریں۔ چاہے دل چاہے یا نہ چاہے اور اپنے آپ کو اس سٹیج تک لے جائیں جس سٹیج سے واپس آئے ہیں۔ اپنا رابطہ بھی بحال کریں اور ساتھ نمازیں اور تہجد بھی شروع کریں۔ اور شیطان کو کہہ دیں کہ اب میں تیرے جال میں نہیں آؤں گا۔ ورنہ شیطان کو موقع مل جائے گا، وہ آپ کو انہی چیزوں میں مشغول کر کے سب اعمال سے دور کر دے گا۔ اس وجہ سے اپنے آپ کو محرومین میں سے مت کرو اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔

سوال 10:

السلام علیکم حضرت

I hope you are fine by the grace of اللہ Almighty الحمد للہ I have completed the third phase of اذکار

200, 300, 300 and 100 kindly guide me for the next

جواب:

اب آپ 200، 400، 400 اور 100 کا نصاب شروع کر لیں اور رمضان شریف کے معمولات ہماری websit سے نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر لیں اور ان کے اوپر عمل کر لیں ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ فائدہ پہنچائیں گے۔

سوال 11:

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے شب و روز کے بہت سارے کام اخلاص کے ساتھ نہیں ہو رہے۔ خاص طور پر وہ اعمال جو لوگوں کے سامنے کر رہا ہوتا ہوں۔ لیکن جب تنہائی میں کچھ دیر بیٹھ کر ذکر اذکار کرتا ہوں تو دل کی یہ کیفیت بدل جاتی ہے۔ اپنے عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن جب ساتھیوں کے ساتھ بات چیت وغیرہ ہوتی ہے تو اللہ کی طرف وہ توجہ نہیں ہوتی جو تنہائی میں ہوتی ہے یا آپ کی مجلس میں ہوتی ہے۔ اس لئے دل کرتا ہے کہ کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں اللہ کے علاوہ کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو۔ ایسی جگہ مل جانے پر دل کو خوشی محسوس ہوتی ہے۔ بعض دفعہ دل چاہتا ہے کہ بات چیت بالکل بند کر دوں لیکن ایسا کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

جواب:

یہ خیر کی بات ہے۔ تنہائی اچھی چیز ہے۔ خلوت بری صحبت سے اچھی ہے اور اچھی صحبت خلوت سے اچھی ہے۔ آپ کا اس پر عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔

سوال 12:

آج کل حدیث نفس کا بہت زیادہ غلبہ ہے، خاص طور پر نماز میں تو بہت زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات دماغ حرکت میں ہوتا ہے۔ بعض دفعہ تکبر، خود پسندی، عجب وغیرہ کے خیال پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو عقلی طور پر سمجھانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔

جواب:

خیال کا پیدا ہو جانا کوئی بات نہیں ہے البتہ خیال کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ جب تک اس میں اپنا ارادہ شامل نہیں ہوتا تو فکر کی بات نہیں ہے۔ بس اس سے اپنی توجہ ہٹانے کی کوشش کریں۔

سوال 13:

حضرت جی بعض دفعہ کسی ساتھی کو خلاف شریعت یا خلاف طبیعت کام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو اس وقت فوری طور پر دل میں ایک نفرت اور کراہت کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے جو کچھ وقت گزرنے کے بعد نہیں رہتی۔ لیکن اگر وہ کیفیت بر قرار رہے تو عقلی طور پر خود کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں یا پھر سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص شریف پڑھ کر اس کو ثواب پہنچانے کی نیت کرتا ہوں۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

جواب:

جب تک اس میں اپنا ارادہ شامل نہیں ہوتا تو کوئی بات نہیں۔ خود بخود اگر کوئی خیال پیدا ہوتا ہے تو یہ وسوسے کی کیفیت ہے لہٰذا کوئی مسءلہ نہیں۔ البتہ اگر نفرت کے مطابق کوئی کام کیا جائے تو وہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ اگر کوئی بات رہ جاتی ہے اور آپ اس پہ ایصال ثواب کرتے ہیں یا اس کے لئے دل سے دعا کرتے ہیں تو ان شاء اللہ ٹھیک ہے۔

سوال 14:

جب میں آپ کے بیان میں ہوتا ہوں تو بعض دفعہ کوئی بات سن لیتا ہوں تو دل میں خیال آتا ہے کاش! اِس وقت والد صاحب یا والدہ صاحبہ یا کوئی اور بھی ہوتا تو ان تک بھی یہ بات پہنچ جاتی۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ فلاں ساتھی اس بات کو پتا نہیں کس انداز میں سمجھا ہو گا۔

جواب:

دوسرے لوگوں سے خیر خواہی کے جذبہ کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی اچھی بات پسند آ جائے اور اس کی ریکارڈنگ سنانا ممکن ہے تو سنائی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ حدیث شریف میں ہے: "اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃ" ”دین خیر خواہی کا نام ہے۔“

سوال 15:

اللہ کی ذات سے صفات کی طرف غور کیا جاتا ہے حالانکہ اس طرح وہ کم درجے کی طرف آرہا ہے کیونکہ ذات اونچی چیز ہے۔ دوسری طرف حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور نہ کرو بلکہ صفات میں غور کرو۔

جواب:

ذات کی محبت کی بات ہے۔ ذات کے اندر غور کرنے کی بات نہیں ہے۔

کلام


پھر دل کو اس کے ذکر سے آباد کریں ہم

ہر بار اس سے ملنے کی فریاد کریں ہم

جو اس سے ہو منسوب وہ غم غم کہاں رہے

اس غم سے اپنے دل کو بھی اب شاد کریں ہم

جو قید میں اس کی ہو تو آزاد وہی ہے

کروا کے قید خود کو اب آزاد کریں ہم

سوال 16:

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو صرف ایک شریعت پہ ہی چلنا ہوتا ہے۔ باقی رسم و رواج فضول ہوتے ہیں ان کی وجہ سے آدمی شریعت سے ہٹ جاتا ہے۔

جواب:

قلندر صرف اللہ کے حکم پر چلتا ہے کسی اور بات نہیں مانتا۔ لوگوں نے کہا کہ قلندر شریعت پہ نہیں چلتا۔ وہ شریعت سے آزاد ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی اپنے آپ کو گرفتار کروا کے، یعنی شریعت پر چل کر آزاد کرتا ہوں۔

چیزوں کی فراوانی نے دل کر دیا ویراں

مانوس اس سے اب دلِ برباد کریں ہم

بہت ساری مختلف چیزوں میں دلچسپی اور ان کے ساتھ محبت۔ اس سے دل ویران ہو جاتا ہے۔ یہاں فراوانی ہے طلب نہیں ہے۔ جیسے ایک صاحب نے ابھی خط بھیجا تھا کہ شادی کی اور دل ویران ہو گیا۔ ”ان چیزوں کی فراوانی نے دل کردیا ویراں“

جو بھول گیا خود کو اس کی یاد میں شبیر

اپنے کو بھول جانے کا استاد کریں ہم

سوال 17:

اگر سمجھ میں حضرت بعض چیزیں یعنی کہ کچھ عرصے کے بعد یعنی کہ جیسے یہ بھیجا ہے (((۔۔۔۔۔۔))) کا لفظ (((۔۔۔۔۔))) کے بعد میں حاصل ہوتی ہیں۔ (ہاں جی) ہو سکتا ہے انسان یہ کوشش کر سکے (((۔۔۔۔۔))) بیٹھ کر ذکر کرے تھوڑی دیر اس کے (((۔۔۔۔۔۔۔۔))) مطلب یہ کوشش کرسکتا ہے یا یہ تو (((۔۔۔۔۔۔۔)))

جواب:

یہ اُس صورت میں ہے جب تک اس کو شیخ نہیں ملا۔ لیکن جس نے شیخ کو ڈھونڈ لیا تو اب اپنا ارادہ چھوڑنا چاہیے۔ اب جیسے وہ کہیں اس طرح کرنا چاہیے۔ یہ ساری باتیں اس سے پہلے کی ہیں۔

سوال 18:

فقیر بھی ایسے ہی کہتے ہیں: اے مہربان اے فلاں! اور اللہ سے منسوب کرتے ہیں۔ ہم غم کس پیرائے میں کر سکتے ہیں؟

جواب:

اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے یعنی اس بات کا غم ہو۔ اس کو غم کہا گیا۔ لہٰذا جو اللہ سے منسوب غم ہے وہ مراد ہے۔

کلام

شرابِ عشق سے پھرپور میخانہ مرے دل کا

وفورِ شوق سے بار بار اٹھ جانا مرے دل کا

مرے دل میں وہ آئے جب تو تب سے مست دل میرا

چھلک پڑنے کو تھا گویا وہ پیمانہ مرے دل کا

مرا دل اس کا وہ میرا میں کیسے چھوڑ دوں اس کو

وہ اس سے لے کے پانا اور پا جانا مرے دل کا

میں اس کے گھر میں جا بیٹھوں وہ میرے دل میں آ جائے

ابھی کچھ اور ابھی کچھ اور فرمانا مرے دل کا

یہ دولت مفت نہیں ملتی جگر خوں کرنا پڑتا ہے

کہیں سے رستہ پائے رستہ جانانہ مرے دل کا


ہیں عقلیں سن ذہن تھک رک گئے اس شور دنیا سے

سنے اب تو کوئی یہ نعرہ مستانہ مرے دل کا

میں جاؤں اس کے پیچھے جسکے پیچھے جانے کو کہہ دے

ہو مستی سے شبیرؔ عشقی سکوں پانا مرے دل کا

پہلے محبت کے جذبات اور ہوتے ہیں اس کے بعد اس سے میں پھر ان شاء اللہ اتباع سنت کی طرف آ جاؤں۔ کیونکہ قرآن پاک میں ہے: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ﴾ (آل عمران: 31)

ترجمہ: ”(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔“

میں جاؤں اس کے پیچھے جسکے پیچھے جانے کو کہہ دے

یہی ہے: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ﴾

ہو مستی سے شبیرؔ عشقی سکوں پانا مرے دل کا

کلام

بارش ہے رحمتوں کی رمضان کے مہینے میں

بہتات ہے اجروں کی رمضان کے مہینے میں


جو نفل پڑھے اس میں فرضوں میں شمار ہووے

ہے حد عنایتوں کی؟ رمضان کے مہینے میں

طے کر لیں جتنا کر لیں اصلاح کی سڑک یہ

تقویٰ کی منزلوں کی رمضاں کے مہینے میں

یہ اصلاح کی سڑک ہے۔ جتنی طے کرنی ہے کر لو۔ تقویٰ کی منزلیں آپ جتنی آگے بڑھتے جائیں گے ان منزلوں کو حاصل کرتے جائیں گے۔


قرآں کا مہینہ ہے کیا شان نظر آئے

اس کی تلاوتوں کی رمضان کے مہینے میں

فرضوں کا اجر اس میں ستر گنا بڑھ جائے

کیا حد ہے عطاؤں کی رمضان کے مہینے میں


افطار جو کرا دے لے اجر وہ روزے کا

ہے حد کوئی احسان کی رمضان کے مہینے میں

تو بولے اور سنے وہ، وہ بولے اور سنے تو

بہار ہے قرآن کی رمضان کے مہینے میں

اخلاص کا پیکر ہے اور عشق کی اک صورت

انسان کی پہچان کی رمضان کے مہینے میں

پیر نفس پہ رکھنا ہے دل نور سے بھرنا ہے

ہے سیر گلستاں کی رمضان کے مہینے میں

روزے میں نفس پہ پیر رکھنا ہے اور تراویح میں دل نور سے بھرنا ہے۔ یعنی قرآن پاک سن کر دل کو نور سے بھرنا ہے۔ یہ دونوں چیزیں رمضان شریف میں موجود ہیں۔

اک رات اس میں یوں ہے شبیرؔ وہ مل جائے

دولت ہے کل جہاں کی رمضان کے مہینے میں

کلام

اک عشق کی منزل حج ہے اگر اک عشق کی منزل رمضاں ہے

دونوں سے اللہ ملتا ہے دونوں کے پیچھے رحماں ہے

اک دل دینا اللہ کو ہے اک نفس کو قابو کرنا ہے

اک قربانی کا منظر ہے اور اک کے اندر قرآں ہے

یعنی حج والے معاملے میں انسان اپنا دل اللہ کو دے دے اور رمضان شریف میں نفس جو اللہ تعالیٰ کا باغی ہے، اس کو قابو کرنا ہے۔ روزے میں negative سے بچنے پہ زور ہے اور حج میں positive کو پکڑنے پر زور ہے۔


اک ڈوب جانے میں ملنا ہے اک ملنے میں ڈوب جانا ہے

وہ بھی تو رب کا احساں ہے یہ بھی تو رب کا احساں ہے

عشاق یعنی اولیاء اللہ، انبیاء کرام اور بڑے لوگ جو اللہ کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کر چکے تھے اور اپنے آپ کو ڈبو چکے تھے۔ ہمیں ان کے ساتھ ملنا ہے، ان کی نقل کرنی ہے اور ملنے میں ڈوب جانا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے شوق میں اپنے آپ کو فنا کرنا۔ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ پر ہوں گی۔

اک میں خود کو دیکھو نہیں، اک میں خود میں اس کو دیکھو

اک میں کرنا اس کے لئے اک میں رکنے کا فرماں ہے

”ایک میں خود کو دیکھو نہیں“ یعنی اپنے آپ کو نہ دیکھو۔ بس اللہ کی محبت میں اپنے آپ سے گزر جاؤ۔ جو وہ چاہے بس وہی کرو۔ ”ایک میں خود میں اس کو دیکھو“ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کے نفس کے اندر جو تصرفات کئے ہوئے ہیں کہ اس کو اللہ کی بات ماننی ہے اور اپنی بات نہیں ماننی۔ رمضان شریف میں اپنے اوپر تصرف کر کے اس کے ذریعے اس کو پاؤ۔ ”ایک میں کرنا اس کے لئے“۔ یعنی حج میں سب کچھ اس کے لئے کرنا ہے۔ ”اک میں رکنے کا فرماں ہے“ یعنی رمضان شریف میں رکنے کا فرماں ہے۔

ایک بولتی اپنی بند رکھنا اک بولی اس کی سننا ہے

پہلے پہ پھر کیا ملتا ہے اور دوسرے کی بھی کیا شاں ہے

دونوں عشق کی باتیں ہیں۔ عرفات میں بھی اعلان ہوتا ہے اور یہاں پر بھی افطاری کے وقت کا فرمایا۔ اور دوسرا فرمایا کہ میں ہی اس کا اجر دوں گا۔دونوں اجر اور نتیجے کے لحاظ سے ہیں۔ ”ایک میں اپنی بولتی بند کرنا ہے“ یعنی کوئی اعتراض نہیں کرنا بس جو محبوبوں نے کیا ہم نے بھی وہی کرنا ہے۔ چاہے سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ ”ایک میں اس کی بولی سننا ہے“ قرآن کو سننا ہے، وہ جو کہنا چاہتا ہے اس کو سمجھنا ہے۔


میں دونوں کا شیدا ہوں شبیر مٹ مٹ کے اس کا بن جاؤں

یہ دونوں میرے راستے ہیں اور منزل میری جاناں ہے


واقعتاً اگر کوئی اتنی چیزوں کو جمع کرنا چاہے تو شاید نہ کر سکے۔ اس طرح کی combination اور contrast مشکل ہے۔ کیونکہ اس پہ ٹائم بھی بہت تھوڑا لگا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ لکھوا رہا ہو۔ بہر حال اخیر میں جو شعر کہا ہے اس پہ غور کرو کہ میرے لئے دو راستے ہیں اور میں ان پر شیدا ہوں اور میری منزل جاناں ہے اور دونوں کے پیچھے رحماں ہے۔ یعنی رحمان نے مجھے دونوں کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ اس سے ہمیں وہی ملتا ہے۔ وہ خود ہی چاہتا ہے کہ ہمیں منزل ملے۔ چنانچہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ بہت عجیب compare and contrast ہے جس سے اللہ جل شانہ ملتا رہتا ہے۔

نعت


کتنی بڑی نعمت ہے محبت رسول کی

کتنی ہے ضروری متابعت رسول کی

اب سارے طریقے جو ہیں منسوخ ہو گئے

اللہ کو پسند ہے سنت رسول کی

اللہ نے دو جہانوں کا مال ان کو کیا عطا

دل پر تو اس لئے ہے حکومت رسول کی

معیار اب اچھے برے کا کیسے ہو مشکل

جب تجھ کو ہے معلوم شریعت رسول کی

جو ان کے بن گئے ہیں وہ اللہ کے بن گئے

اللہ کے ساتھ ہے کیسی حیثیت رسول کی

شبیرؔ بن جا اب تو ان کا سچا مُتَّبِع

مل جائے وہاں تجھ کو شفاعت رسول کی

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن