اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں. البتہ یہ جو سوالات کے جوابات ہوتے ہیں ایک موضوع کے لحاظ سے ہوتے ہیں اور وہ موضوع ہے اپنی اصلاح، جس کو عرف عام میں طریقت اور تصوف کہتے ہیں۔ یقیناً بہت سارے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں جن کا تعلق متفرق مسائل اور متفرق معاملات سے ہوتا ہے لیکن ساری چیزیں ایک جگہ نہیں جمع ہوا کرتیں، تقسیم کار ہوتی ہے لہٰذا یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سی جگہ کس قسم کے سوالوں کے لئے مناسب ہے۔ مثلاً مفتیان کرام سے فتاویٰ کے بارے میں پوچھنا چاہیے یہ ان کی فیلڈ ہے وہ اس کے ذمہ دار ہیں اور اسی مقصد کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو تیار کیا تھا۔ ڈاکٹر حضرات سے علاج کے سلسلہ میں پوچھنا چاہیے کیونکہ وہ اسی کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور اس کے لئے تیار بھی ہوتے ہیں۔ اب اگر صوفی سے اپنی بیماری کے بارے میں سوال کیا جائے تو یہ غلط موقعہ ہے۔ ظاہر ہے اس کا جوب وہ اول تو دے گا نہیں اور اگر دے گا تو زیادہ تحقیقی نہیں ہو گا۔ اس وجہ سے ہر ایک سے خود اسی کی فیلڈ کے بارے میں سوال کرنا چاہیے تب فائدہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر1:
I hope you are fine by the grace of اللہ Almighty. الحمد للہ I have completed the third phase of ذکر اذکار
200, 300, 300 and 100. Kindly guide me for the next.
جواب:
ماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے۔ اب اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ایک مہینہ کے لئے آپ 200 دفعہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، 400 دفعہ ”اِلَّا اللّٰہ“، 400 دفعہ ”اللّٰہُ اَللّٰہ“ اور 100 دفعہ ”اَللّٰہ“، یہ ذکر شروع کر لیں۔ ثوابی ذکر یعنی تیسرا کلمہ 100 دفعہ، درود شریف 100 دفعہ، استغفار 100 دفعہ۔ یہ آپ عمر بھر کے لئے جاری رکھیں گے۔ اصلاحی ذکر کے بارے میں اکثر اوقات پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم اس کو مختلف اوقات میں کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصلاحی ذکر جیسے بتا یا جاتا ہے اسی طرح کرنا ہوتا ہے۔ جیسے پیٹ کے کیڑوں کی دوائی ایک وقت پوری بوتل کھانی ہوتی ہے، اسے اگر کوئی روزانہ ایک ایک یا دو دو گولیاں کر کے کھائے تو فائدہ نہیں ہوگا، اسی طرح اگر بتایا جائے کہ صبح، دوپہر، شام ایک ایک گولی کھانی ہے اور مریض ساری ایک ہی وقت میں کھا لے تو بھی مسئلہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے دوائیوں کے اوپر لکھا ہوتا ہے: "As prescribed by the physician" یعنی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق استعمال کریں کیونکہ ڈاکٹر جانتا ہے کہ اس کا dose کیا ہونا چاہیے۔ لہٰذا ذکر کے بارے میں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ اس کو ایک ہی وقت میں کرنا ہوتا ہے، جیسے exercise ہوتی ہے۔ exercise میں تمام steps ایک دوسرے پہ depend کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر درمیان میں وقفہ کر لےتو وہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ اس ذکر میں ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، ”اِلَّا اللّٰہ“ کے لئے base ہے، ”اِلَّا اللّٰہ“، ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ کے لئے اور ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“، ”اَللّٰہ“ کے لئے base ہے۔ اس میں اپنی مرضی نہیں کرنی ہوتی بلکہ جیسے بتایا جاتا ہے، اسی طریقہ سے کرنا ہوتا ہے۔
سوال نمبر2:
I hope this email finds you in good health. حضرت صاحب I can’t manage to register my معمولات in May 2014 due to continuous travelling. There were four to five days which I was unable to do my ذکر and وظائف.
May اللہ forgive me for this! Rest, I have been trying to be more regular on ذکر and وظائف
نماز is regular الحمد للہ. I am on the second ذکر for the last two months. Please advise me to continue further.
جواب:
Traveling تو ہوتی رہتی ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی بیماری ہو جائے اور ڈاکٹر لوگ اس کو دوائی وغیرہ بتا دیں کہ یہ آپ نے صبح، دوپہر، شام کھانی ہے۔ تو کیا traveling میں دوائی چھوڑ دیں گے؟ ظاہر ہے کوئی بھی ایسا نہیں کرتا بلکہ ایسا سوال بھی نہیں پوچھتا کہ سفر میں کھائیں یا نہ کھائیں لیکن چونکہ روحانی صحت کا احساس نہیں ہے، اس وجہ سے اس کے بارے میں سارے بہانے، کمزوریاں اور سوال سامنے آ جاتے ہیں۔ دنیاوی صحت کی کفر ہوتی ہے اس وجہ سے کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا خیال نہیں رکھنا چاہیے، اس کا خیال ضرور رکھنا چاہیے، لیکن روحانی صحت جسمانی صحت سے بہت اہم ہے۔ جسمانی صحت کا زیادہ سے زیادہ نقصان موت ہے اور روحانی صحت میں خرابی کا نقصان جہنم ہے۔ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ اگر مر کر مصیبت میں پھنس گئے تو پھر کیا ہو گا؟ لہٰذا اس میں ناغہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہمارا بڑا مشکل حال ہے جس کا سمجھانا بڑا مشکل ہے، کیونکہ ہمارے اوپر دنیا غالب ہے۔ اللہ پاک نے بھی فرمایا ہے:
﴿بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۔ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى﴾ (الاعلیٰ: 16-17)
ترجمہ: ” لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔ حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔“
تو یہ ہمارا حال ہے،ہمیں اس کو improve کرنا چاہیے۔
آپ مجھے دو مہینے کے بعد اطلاع کر رہے ہیں حالانکہ میں نے ایک مہینہ بعد اطلاع کرنے کا کہا تھا۔ یہ سستی ہے اور سستی کا علاج چستی ہے۔ لہٰذا آئندہ ایسا نہ کیا جائے۔ اب آپ ذکر کی تیسری ترتیب پر چلیں اور وہ یہ ہے کہ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ 200 دفعہ، 200 دفعہ ”اِلَّا اللّٰہ“، 200 دفعہ ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“ اور ”اَللّٰہ“ 100 دفعہ۔ ایک مہینہ کے بعد مجھے اطلاع کر دی جائے۔ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار تو عمر بھر کے لئے ہے۔ اس ذکر کے دوران رمضان شریف کا مہینہ آئے گا، لہٰذا پورا رمضان شریف یہی ذکر کر لیں اور رمضان شریف کے بعد مجھے بتا دیں پھر ان شاء اللہ اگلا ذکر دے دیں گے۔
سوال نمبر 3:
حضرت! پیغام محبت کے اکثر اشعار میں یہ تمنا ظاہر کی جاتی ہے کہ بس اللہ پاک ہمیں اپنا کہہ دیں، اس کے بعد سب چیزیں ٹھیک ہیں۔ اس کی تشریح فرما دیں۔
جواب:
ماشاء اللہ! بہت اچھا سوال ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی شیطان کے ساتھ بات ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو راندۂ درگاہ کر دیا تو اس نے کہا کہ اے اللہ تیرے عزت و جلال کی قسم میں ان کے رستہ میں بیٹھ جاؤں گا، دائیں سے آؤں گا، بائیں سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا اور ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا۔ تو ان میں بہت کم کو شکر گزار پائے گا۔
﴿اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ﴾ (الحجر: 40)
ترجمہ: ”سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے اپنے لیے مخلص بنا لیا ہو۔ “
اللہ پاک نے فرمایا کہ ٹھیک ہے،جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکے گا۔ تو یہ ”جو میرے ہیں“ والی بات ہے،اس کے لئے مانگنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں شامل کر لے، اللہ پاک کے ہاں اگر آپ اس کے بندوں میں شمار ہو گئے تو شیطان آپ کو نہیں گمراہ کر سکے گا۔ لہٰذا ایک تو یہ بات اس لئے بھی ہونی چاہیے کہ ہمیں اس کی ضرورت ہے، دوسرا اس لئے کہ جو کسی کے ساتھ محبت کرتا ہے تو اس کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ محبوب اس کو اپنا بنالے، لہٰذا اللہ پاک ہمیں اپنا بندہ بنا لے، ایک یہ ضرورتاً ہے اور دوسرا محبتاً ہے۔
سوال نمبر4:
حضرت حدیث شریف میں آیا ہے کہ اچھی صحبت خلوت سے بہتر ہے۔ اگر اپنے شیخ کی صحبت اور مجلس میسر نہ ہو تو پھر انسان اچھی صحبت کے لئے کن لوگوں کے پاس جا سکتا ہے، اور ان کے پاس جاتے ہوئے کیا نیت رکھنی چاہیے۔
جواب:
میں نے حضرت سے یہ بات اپنے لئے پوچھی تھی۔ میں راولپنڈی میں تھا اور حضرت پشاور میں ہوتے تھے۔ جب مجھے موقع ملتا تو میں مختلف بزرگوں اور علماء کرام کے پاس جایا کرتا تھا۔ میں نے حضرت سے پوچھا کہ میں کس نیت سے ان کے پاس جایا کروں؟ حضرت نے فرمایا: صحبت صالحین کی نیت سےجایا کرو۔
اگر شیخ کی صحبت میسر نہ ہو تو صحبت صالحین کی نیت سے انسان دوسرے صلحاء کی صحبت میں بھی جا سکتا ہے، لیکن ان سے تربیت نہ کروائے، تربیت کا معاملہ صرف ایک کے ساتھ رکھنا ہوتا ہے۔ چاہے وہ اس وقت موجود ہو یا نہ ہو، موجود نہ ہو تو خط، ٹیلی فون اور ای میل کے ذریعہ سے رابطہ کیا جائے۔ تربیت والا معاملہ صرف اپنے شیخ کے ساتھ رکھے۔ جہاں تک صحبت صالحین کی بات ہے تو عام صلحاء کے ساتھ بھی صحبت رکھی جا سکتی ہے۔
واقعتاً بری صحبت سے خلوت اچھی ہے۔ آج کل چونکہ بری صحبت عام ہے، بہت زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں یہ حکم ہوتا ہے کہ اپنے گھروں میں ہی دبکے رہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اخیر زمانہ میں ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی کی سب سے بڑی متاع ایک بکری ہو گی جس کو لے کر وہ ایک غار سے دوسرے غار اور دوسرے غار سے تیسرے غار میں جائے گا، اس طرح اپنے ایمان کو بچائے گا۔ آخر اصحاب کہف نے کیا کیا تھا، اپنے ایمان کو بچانے کے لئے دوڑے تھے ناں! اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مقام دے دیا۔
بری صحبت سے بچنا بہت ضروری ہوتا ہے اگر اچھی صحبت میسر نہ ہو اس کی بچت خلوت کے ذریعہ سے کی جاتی ہے، اگر اچھی صحبت مل جائے تو پھر خلوت چھوڑ دی جاتی ہے۔
سوال نمبر5:
”پیغام محبت“ میں ایک شعر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان پہلے اپنے آپ کو مٹائے پھر اس مٹنے کو بھی مٹا دے۔ اس ”مٹنے کو بھی مٹا دینا“ سے کیا مراد ہے۔
جواب:
مٹنے کو نہیں مٹاتے بلکہ مٹنے کے خیال کو مٹاتے ہیں۔ اپنی ذات کے مٹنے سے مراد فنائیت ہے، یہ بہت اونچا مقام ہے۔ جو آدمی یہ سمجھے کہ میں فنا ہو گیا تو وہ اپنے لئے اونچے مقام کو ثابت کر رہا ہے لہٰذا وہ ابھی مٹا نہیں ہے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ میں مٹ گیا ہوں،سمجھو کہ وہ ابھی نہیں مٹا، کیونکہ مٹنا تو اونچا مقام ہے۔ جو یہ سمجھے کہ میں مٹ گیا ہوں، وہ مٹا ہوا نہیں ہے۔ اس خیال کو بھی مٹانا ہوتا ہے کہ میں مٹ گیا ہوں، اس کو فناء الفنا کہتے ہیں۔ اصلی فنائیت یہی ہے کہ پتا بھی نہ ہو کہ میں فنا ہو چکا ہوں۔ واقعی اس کا خود پتا نہیں چلتا یہ شیخ کو ہی پتا چلتا ہے کہ فنا حاصل ہوئی ہے یا نہیں۔
کلام
اس کا بنے اگر نہیں تو کیا کرے کوئی پھر کیسے زندگی کا حق ادا کرے کوئی مطلوب وصلِ یار ہے اس زندگی میں جب مطلوب وصلِ یار ہے اس زندگی میں جب اس وصل سے پھر خود کو کیوں جدا کرے کوئی اس امتحانِ زیست میں مقصود وہی ہے ہر آن میں بس اس کو ہی دیکھا کرے کوئی سب کچھ بھی کھو کے ٹھیک ہے پاؤں اگر اسے میری بلا سے غیر کو چاہا کرے کوئی مقصودِ کائنات کا دنیا نہیں مقصود دھکے کیوں اس کے واسطے کھایا کرے کوئی یہ دل جو اس کے واسطے پیدا کیا گیا جو غیر ہے اس میں نہ اب آیا کرے کوئی جو درد دل نصیب تھا رومی کو عشق میں پڑھ مثنوی کو کیوں نہ پھر جلا کرے کوئی
سوال نمبر6:
حضرت جی! ان شعروں میں بعض اوقات دل کی بات آتی ہے کہ دل میں وہ آ جائے، اس کے سوا کوئی غیر نہ آئے۔ اس دل سے کون سا دل مراد ہے؟ کیا یہی دل مراد ہے جو سینے میں دھڑکتا ہے، یا اس سے مراد کچھ اور ہے۔
جواب:
اس دل سے مراد روحانی قلب ہے۔ اس پر میں بہت تفصیلی بات کر چکا ہوں۔ اس دل سے مراد روحانی دل ہے اور اس کا مقام اسی جگہ پر ہے جہاں اس دھڑکنے والے دل کا مقام ہے۔ جیسے آنکھ میں آنکھ کی روح ہے، پاؤں میں پاؤں کی روح ہے، اسی طرح دل کی اپنی روح ہے جو دل کے مقام پر ہی ہوتی ہے، اسے روحانی قلب کہتے ہیں۔ اس کے اندر دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک شیطان کی طرف سے الہام آتا ہے اور ایک اللہ کی طرف سے الہام آتا ہے۔ اللہ کی طرف سے جو الہام آتا ہے اس کو عرف عام میں ضمیر کہتے ہیں اور شیطان کی طرف سے جو خیال آتا ہے اسے وسوسہ کہتے ہیں۔ پھر دل متاثر ہوتا ہے آنکھ سے، کان سے اور زبان سے اور یہ متاثر کرتا بھی ہے۔ اگر دل اچھا ہو تو باقی اعضاء اچھے کاموں میں استعمال ہوتے ہیں اور اگر یہ برے کاموں میں استعمال ہوں تو دل خراب ہو جاتا ہے۔
شبیر اتر اب ذرا میخانۂ دل میں اب تو شرابِ عشق ہی پیا کرے کوئی
تشریح:
شبیر اتر اب ذرا میخانۂ دل میں، یعنی مراقبہ شروع کر دیں اور اپنے اللہ کے ساتھ لو لگائیں تاکہ آپ ہر وقت بس اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہی لگے رہیں اور آپ کے سارے اعمال اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہوں۔
شراب عشق سے مراد یہی ہے کہ سارے اعمال اللہ تعالیٰ کی محبت کے ذریعے سے ہوں۔
سوال نمبر7:
حضرت راہ سلوک طے کرنے کے لئے کیا چیزیں ضروری ہیں، راہ سلوک طے کرنے کے لئے انسان میں کیا کیا صلاحیتیں ہونی چاہئیں؟
جواب:
اللہ جل شانہ نے ہر ایک کو مختلف صلاحیت دی ہے اور ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق حساب ہو گا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کا استعمال تو کرے۔مثلاً ایک آدمی بہت اچھا پڑھ سکتا ہے،study میں اس کو بڑی صلاحیت حاصل ہے۔ ایک اور آدمی کے اندر analysis کی زیادہ صلاحیت ہے لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ شیخ کا کام ان صلاحیتوں کی پہچان اور پھر ان صلاحیتوں سے صحیح کام لینا ہوتا ہے بشرطیکہ مرید بھی اس کے لئے تیار ہو۔ لہٰذا صلاحیت ہو، ہمت ہو، شیخ کی محبت ہو، ان تین چیزوں کے بعد اللہ پاک کی توفیق شامل حال ہو تو کام بن جاتا ہے۔ صلاحیت ہو اور ہمت نہ ہو پھر بھی کام نہیں بنے گا، اگر ہمت ہو لیکن محبت نہ ہو تو پھر بھی رہ جائے گا۔ ان تین چیزوں کی اپنی اپنی significance ہے، اپنی طرف سے ان تین چیزوں کو پورا کرنے کے بعد نظر اللہ پاک پہ رکھنا ضروری ہے، کیونکہ معاملہ اللہ کے پاس ہے۔ اگر آدمی کی نظر اللہ پاک سے ہٹ کر اپنے اوپر چلی جائے تو ان تینوں چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی فیل ہو سکتا ہے۔ اپنے اوپر سے نظر ہٹانے کے لیے اللہ کی طرف نظر کو لے جانا ہو گا، مسبب الاسباب سے مانگنا ہو گا، اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہو گا۔ بعض لوگوں کو جو صلاحیتیں دی گئی ہوتی ہیں ان کی وجہ سے ان کے اندر غرور و تکبر آ جاتا ہے کہ دیکھو ہمارے اندر یہ صلاحیت ہے تو وہ فیل ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ سے نظر ہٹ جاتی ہے۔ اب ایسے لوگ جن کے پاس کم صلاحیتیں ہیں لیکن وہ عاجز ہیں اور وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کو لے لیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ اخیر میں کچھ سادہ لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ ہو گا، وہ بوجھل ہو رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو فرمائیں گے جاؤ جنت میں ایسے ہی چلے جاؤ۔ وہ نعرے لگاتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے جیسے بچے سکول سے چھوٹ جاتے ہیں تو نعرے لگاتے ہوئے باہر آتے ہیں۔ اس وقت بڑے بڑے عقل مند لوگ کہیں گے کہ کاش ہم بھی اس طرح سادے ہوتے تو آج ہمارے ساتھ بھی یہ معاملہ ہوتا۔ اس وجہ سے صلاحیت، ہمت اور شیخ سے محبت، ان تینوں چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی اللہ سے رابطہ اور مسبب الاسباب سے دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا کام بنا دے، یہ ضروری ہے۔
٭٭---٭٭
اس کے وعدوں پہ یقیں کرتے ہوئے یاد سے اس کی سکوں پاتا رہوں دل مرا اس کی یاد سے ہو پر شکر اس کا میں بجا لاتا رہوں عشقِ الٰہی کے سمندر کا میں شناور بنوں اور مست رہوں دنیا سو بھیس بدل کے آئے اس سے دامن اپنا بچاتا رہوں اس رب کے لئے ہو وقف ہاں جو ذرہ ذرہ میرے جسم کا ہے ہر وقت اتنا خوش نصیب بنوں کہ اس کی یاد میں میں آتا رہوں دل مرا تخت ہے تجلی کا وہ کہ جو سب سے بے نیاز کرے اس تجلی کے میں آثار پھر خود ایسے عشاق کو سناتا رہوں دنیا ظلمت ہے اور بوجھ ہے اک اس سے ہجرت کروں اور دور رہوں ذکر کے نور سے پر نور رہوں اور اس نور میں نہاتا رہوں دکھ یہاں کے جوہیں وہاں کے ہیں سکھ اس کا انعام گر سمجھتا رہوں سکھ وہاں کتنے ملیں گے ان پر، خود کو میں بار بار سمجھاتا رہوں
اس کے وعدوں پہ یقیں کرتے ہوئے یاد سے اس کی سکوں پاتا رہوں دل مرا اس کی یاد سے ہو پر شکر اس کا میں بجا لاتا رہوں
تشریح:
یعنی میرا دل اس کی یاد سے پر ہو، اور میں اس کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اللہ پاک نے مجھے یہ توفیق عطا فرمائی یہ نہیں کہ میں اس پہ فخر کروں کہ میرا دل ذکر کر رہا ہے بلکہ اللہ کا شکر کروں، میری نظر اللہ پر ہو۔
عشقِ الٰہی کے سمندر کا میں شناور بنوں اور مست رہوں دنیا سو بھیس بدل کے آئے اس سے دامن اپنا بچاتا رہوں اس رب کے لئے وقف ہو ہاں جو ذرہ ذرہ میرے جسم کا ہے ہر وقت اتنا خوش نصیب بنوں کہ اس کی یاد میں میں آتا رہوں
تشریح:
اس میں دو باتیں ہو گئیں ایک تو یہ کہ میں میرے جسم کا ذرہ ذرہ اس کی یاد میں مشغول ہو اور میں اتنا خوش نصیب بنوں کہ اس کو ہر وقت یاد رہوں۔ میں ہر وقت ذکر کروں تو اس کو یاد رہوں گا۔
اللہ پاک خود فرماتا ہے:
﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرۃ: 152)
ترجمہ: ”مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ “
دل مرا تخت ہے تجلی کا وہ کہ جو سب سے بے نیاز کرے اس تجلی کے میں آثار پھر خود ایسے عشاق کو سناتا رہوں
تشریح:
صوفیا کرام فرماتے ہیں کہ دل عرش اصغر ہے۔ عرش اکبر کے اوپر مسلسل اللہ پاک کی تجلیات ہو رہی ہوتی ہیں جس کو استوا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دل پر اگر اللہ تعالیٰ کی نظر اس طرح ہو تو پھر وہ باقیوں سے بے نیاز ہو جائے گا،پھر وہ باقیوں کی طرف نہیں دیکھے گا۔ اس کے اثرات کے بارے میں ایسا آدمی کہتا ہے کہ اب میں دوسروں کو سناتا رہوں۔
دنیا ظلمت ہے اور بوجھ ہے اک اس سے ہجرت کروں اور دور رہوں ذکر کے نور سے پر نور رہوں اور اس نور میں نہاتا رہوں
تشریح:
دنیا ظلمت اور بوجھ ہے یعنی دنیا کے اندر ظلمت موجود ہے اور یہ ایک بوجھ ہے۔ اگر میں دنیا کی طرف متوجہ ہوں گا تو وہ میرے لئے قیامت میں بوجھ بن جائے گی اس وجہ سے مجھے اس سے بھاگنا چاہیے۔ ذکر ایک نور ہے اس کے نور سے میں بھی پر نور بن جاؤں گا اور ہر وقت اس نور کے اندر نہاتا رہوں گا۔
دکھ یہاں کے جو ہیں وہاں کے ہیں سکھ اس کا انعام گر سمجھتا رہوں سکھ وہاں کتنے ملیں گے ان پر، خود کو میں بار بار سمجھاتا رہوں
تشریح:
یہ بہت بڑی بات ہے۔ بہت سارے لوگ اس وجہ سے اپنی اصل سے ہٹ جاتے ہیں تباہ ہو جاتے ہیں ختم ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی تکلیفوں پہ اجر ہے اس اجر سے آخرت میں سکھ ملے گااور یہ بہت زیادہ ہوگا، اتنا زیادہ کہ جن کو یہ تکلیفیں ملی ہوں گی ان کو ملنے والے اجر کو دیکھ کر وہ لوگ جو دنیا میں عیش و راحت میں رہے ہوں گے وہ کہیں گے کاش دنیا میں ہماری جلدیں قینچی کے ساتھ کاٹ دی جاتیں تو آج ہمیں بھی یہ انعام ملتا۔ یہی بات اس شعر میں کہی گئی ہے کہ میں اپنے آپ کو تسلی دینے کے لئے بار بار خود کو سمجھاتا رہوں کہ دنیا میں تکلیف برداشت کرنے پر آخرت میں اجر ملے گا۔
آپ ﷺ جب کسی بیمار کی عیادت کرتے تو فرماتے کہ ان شاء اللہ اس بیماری پر آخرت میں اجر ملے گا۔ ہمیں دنیا کی تکالیف و مصائب کے وقت یہ چیز یاد رہنی چاہیے کہ ان پر اجر ہے تاکہ زبان سے کوئی ایسا کلمہ نہ نکل جائے جو نا شکری کا اور بے صبری کا ہو جس سے اس کا اجر بھی ضائع ہو جائے اور مفت میں گلے بھی پڑ جائے۔
اب دیکھیں یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس کو نثر میں سمجھایا جائے تو بڑے لمبے لیکچرز درکار ہوتے ہیں، لیکن شعر میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ ایک مختصر سی بات میں سارا مضمون سمٹ کر سامنے آ جاتا ہے اور انسان کو تسلی ہو جاتی ہے۔
بس مرا دل قبول ہو جائے باقی اعضاء تو اس کے خادم ہیں وہ مرے دل میں رہے اور میں دل سے اس کے احکام بجا لاتا رہوں
تشریح:
اس شعر میں مقصد اور ذریعہ دونوں کا ذکر صاف طور پر آ گیا ہے۔ بس میرا دل قبول ہو جائے، میں اپنے دل سے اللہ کے ساتھ محبت کروں اور یہ بات قبول ہو جائے تو پھر یہ باقی اعضاء جو دل کے خادم ہیں وہ خود بخود قبول ہو جائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ میرے دل میں رہے گا مجھے اس کے ساتھ محبت ہو گی اور میں دل کی محبت کے ساتھ اس کے احکام بجا لاؤں گا۔ یہی طریق جذب ہوتا ہے کہ دل قبول ہو جائے، وہ میرے دل میں رہے اور میں اس کے احکام بجالاتا رہوں۔
آنکھ اٹھے تو وہ اس طرف ہی اٹھے کان سنیں وہ جو ہو پسند اس کو اور زباں پر ہو حمد جاری شبیر زیرِ لب اس کو گنگناتا رہوں
تشریح:
جب میرا دل قبول ہو جائے گا تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ میری آنکھ اس طرف ہی اٹھے گی، میرا ہر کام اس کے ساتھ ہی ہو گا، میں جب بھی کچھ مانگوں گا تو اس طرف ہی توجہ کروں گا، میرا کان وہی سنے گا جو اس کو پسند ہو گا، میں ادھر ادھر کی فضول چیزیں نہیں سنوں گا۔ میری زبان پر اس کی حمد جاری ہو جائے اور میں اس کو زیر لب گنگناتا رہوں۔ یہ کیفیات کا بیان ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں حاصل ہوتی ہیں۔
کلام
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے میرا اپنا رنگ نہیں ہے تیرا رنگ اپنا بھی رنگ ہو میرے دل کی آرزو یہی ہے ترا رنگ سب پہ ہے غالب سارے رنگ جذب ہوں اس میں گو نظر آئے سیاہ یہ ہے یہی جو روشنی ہے مرا رنگ فانی مٹے گا ترا رنگ اس پہ چڑھے گا یہ فنا بقا کا ہے رستہ یہی بات میں نے سنی ہے میں ہوں خاک خاک کا میں ہوں مگر دیکھ بندہ ہوں کس کا میں خطا کا پتلا یقیناً پر امید اس سے تو بھی ہے مری لاج رکھ لے خدایا کروں سلسلہ نہ میں بدنام ترے عفو سے ہے امید اب مجھ میں گو بہت ہی کمی ہے میں شبیر حقیر کہوں کیا میں اٹھاؤں آنکھ تو کیسے مرے لفظ اچھے تو ہوں گے مگر حالت کتنی گری ہے
سوال نمبر8:
رنگ کا مطلب کیا ہے؟
جواب:
رنگ کا مطلب اثر ہے۔ یعنی مجھ پر کس کا اثر ہے،میرے نفس کا اثر ہے یا اللہ کا اثر ہے۔ قرآن میں ہے :
﴿صِبْغَةَ اللّٰهِۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً وَّنَحْنُ لَـہٗ عَابِدُوْنَ ﴾ (البقرۃ: 138)
ترجمہ: ” (اے مسلمانو ! کہہ دو کہ) ہم پر تو اللہ نے اپنا رنگ چڑھا دیا ہے اور کون ہے جو اللہ سے بہتر رنگ چڑھائے ؟ اور ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ “
اللہ کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اب میری خواہش ختم ہو گئی ہے اب میں وہی چاہتا ہوں جو تیری خواہش ہے، میں اس کو پورا کروں گا جو تیری خواہش ہے۔ جیسے حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے: ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
تشریح:
یعنی اب میری اور کوئی تمنا نہیں ہے سوائے اس کے کہ تو مجھے مل جائے۔ جب نفس کا اثر ختم ہو جائے تو پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھتا ہے۔ جب تک نفس کا اثر رہتا ہے تب تک اور کوئی رنگ نہیں آتا۔ نفس اگرچہ اللہ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن ہم لوگ اس کے بہت قریب ہیں تو یہ ہمیں متاثر بہت کرتا ہے اس وجہ سے جو بھی نفس کا غلام بن جاتا ہے وہ پھر اللہ کا بندہ کہاں رہتا ہے۔ نفس کی بندگی سے نکلے گا تو اللہ کا بندہ بنے گا۔ اب ذرا دوبارہ سن لیں۔
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے میرا اپنا رنگ نہیں ہے تیرا رنگ اپنا بھی رنگ ہو میرے دل کی آرزو یہی ہے ترا رنگ سب پہ ہے غالب سارے رنگ جذب ہوں اس میں گو نظر آئے سیاہ یہ ہے یہی جو روشنی ہے
تشریح:
Black hole بڑے بڑے ستاروں کو کھینچ کر اپنے آپ میں جذب کر لیتا ہے، اسے Black hole اس لئے کہتے ہیں کہ وہاں سب جذب ہو جاتے ہیں وہاں رنگ بھی جذب ہو جاتا ہے، جو چیزیں اس کے باہر موجود ہوتی ہیں اس کے اندر جا کر ان کا وجود نہیں رہتا۔ اس وجہ سے اس کو Black hole کہتے ہیں۔ تصور ذات بُحت جس میں اللہ جل شانہ کی ذات کا تصور ہوتا ہے اس کا رنگ بھی سیاہ ہے۔
مرا رنگ فانی مٹے گا ترا رنگ اس پہ چڑھے گا یہ فنا بقا کا ہے رستہ یہی بات میں نے سنی ہے میں ہوں خاک خاک کا میں ہوں مگر دیکھ بندہ ہوں کس کا میں خطا کا پتلا یقیناً پر امید اس سے تو بھی ہے مری لاج رکھ لے خدایا کروں سلسلہ نہ میں بدنام مری لاج رکھ لے خدایا کروں سلسلہ نہ میں بدنام ترے عفو سے ہے امید اب مجھ میں گو بہت ہی کمی ہے میں شبیر حقیر کہوں کیا میں اٹھاؤں آنکھ تو کیسے مرے لفظ اچھے تو ہوں گے مگر حالت کتنی بری ہے
٭٭----٭٭
تصوف میں ہمارے مقاصد و اہداف
نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں خدا کے لئے میں خدا چاہتا ہوں
اسی کا میں بندہ اسی سے میں مانگوں اسی سے مدد ہر جگہ چاہتا ہوں
اسی نے عطا کی ہے ایماں کی دولت اسی سے ہی اِس کی بقاء چاہتا ہوں
ھدایت کا طالب میں اس کے حضور ہوں جو سیدھی ہو بالکل وہ راہ چاہتا ہوں
اگرچہ میں عصیاں کی گرد سے اٹا ہوں میں اس سے کرم کی نگاہ چاہتا ہوں
نہ کھینچیں مجھے دوسری بھول بھلیاں طریقِ محمدﷺ صفا چاہتا ہوں
نہ جبہ نہ قبہ نہ دستار بندی جو مقبول ہو وہ ادا چاہتا ہوں
میں اس کی محبت کی دولت کا طالب اسی کو ہی معلوم کیا چاہتا ہوں
خدایا مجھے اب تو اپنا بنا دے خدایا میں تیری رضا چاہتا ہوں
کرم کر کرم کر کریموں کے خالق کرم کی نظر میں سدا چاہتا ہوں
میں صدقِ صدیق اور عمر کی فراست اور عثماں کی جود و سخا چاہتا ہوں
علی کی شجاعت سے حصہ میں پاؤں حسن کا طریقِ وفا چاہتا ہوں
میں شبیر سجدۂ شبیر نہ بھولوں تیرے واسطے ہونا فدا چاہتا ہوں
تشریح:
”سجدۂ شبیر“ میں شبیر سے مراد امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت ہے۔ شبیر در اصل امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب ہے۔ انہوں نے آخری وقت میں شہید ہونے سے پہلے یہ خواہش پوری کی کہ سجدہ میں گر گئے اور اسی میں شہید ہو گئے۔ یہ آخری وقت کا سجدہ کتنا زبردست سجدہ ہو گا، یہ بات یاد رکھنے کی ہے، کہ ہمارا ٹارگٹ بھی یہی ہو کہ ہم اللہ کے لیے فدا ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کو جو صفات پسند ہیں ان صفات کو حاصل کریں۔
٭٭--٭٭
نہ تسخیر ارض و سما چاہیے نہ دستار و جبہ قبہ چاہیے
تشریح:
یہ بہت گہرا شعر ہے۔ نہ تسخیر ارض و سما چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ میں بڑا بادشاہ بن جاؤں زمین و آسماں کو تسخیر کر لوں،جنات کو قابو کر لوں، یہ سب دنیا ہے۔ آج کل مولویوں کو جنات قابو کرنے کا بہت شوق ہو گیا ہے، اس کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقہ سے قابو کر لیں، پتا نہیں کیا کر لیں گے اس سے لیکن بہرحال یہ شوق ہے اور لوگ کرتے ہیں۔
کشمیر کے ایک مولوی صاحب ہمارے مرید ہیں۔ وہ ہمارے مرید تو ہو گئے تھے لیکن بعض لوگ ماننے والے مرید ہوتے ہیں اور بعض لوگ اپنا کام کرنے والے مرید ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے مجھے ٹیلی فون کیا کہنے لگے بڑی پرابلم ہے جنات پیچھے پڑ گئے ہیں۔میں نے کہا : جب یہ شروع کیا تھا تب کسی سے پوچھا تھا؟ جواب دیا کہ نہیں پوچھا تھا۔ میں نے کہا پھر بھگتو، اس وقت پوچھنا چاہیے تھا، اب بھگتو۔ جنات نے ان کی اتنی دوڑیں لگوائی تھیں کہ ہمارے پاس یہاں تک آ گیا تھا۔ پھر میں نے ایک ساتھی کے پاس بھیج دیا تو الحمد للہ اس کا علاج ہو گیا لیکن اس کی کافی پکڑ ہو گئی تھی۔ یہ عجیب شوق ہے کہ جنات کو پکڑنا ہے، پکڑ کے دیکھو، آخر وہ بھی تو پکڑیں گے پھر۔ بھئی آپ کسی کو قابو کریں گے تو آخر وہ بھی کچھ کریں گے یا نہیں کریں گے۔ خواہ مخواہ کیوں اپنے آپ کو پریشان کرتے ہو۔ مجھے بہت سارے لوگوں نے کہا کہ آپ بھی یہ کام کر لیں، میں نے کہا کہ اگر میں کروں تو یہ چیزیں مجھے مل تو جائیں گی لیکن خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دراصل مخلوق کے بھی حقوق ہیں۔ جب آپ اس کو خواہ مخواہ غلام بنائیں گے قابو کریں گے تو پھر یہ مقابلہ پہ آئیں گے۔ آپ کو بہت alert رہنا پڑے گا، اپنے چلوں اور معمولات کے لحاظ سے مسلسل محنت کرنی پڑے گی۔ آپ کی طرف سے اپنی حفاظت اور احتیاط میں ذرا سی کمزوری بھی آ گئی تو بس وہ آپ پہ حملہ کر دیں گے اور قابو پا لیں گے۔
ہمارے بزرگوں میں سے ایک بزرگ حضرت غوث محمد گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ گزرے ہیں۔ اپنے دور کے بہت بڑے عامل تھے ان کی بڑی شہرت تھی۔ لوگ ان کو اپنے علاج کے لیے بلا یا کرتے تھے۔ انہوں نے کافی جنات کو مارا تھا اور کئی جنات قابو کئے ہوئے تھے۔ ایک جن کو مارا تو اس کی بیوی جننی ضد میں آ گئی، اس نے اپنے بیٹے کو کوہ قاف بھیج دیا جہاں جنات کے عاملین تھے۔ وہاں پہ اس کو تیاری کروائی وہ بہت بڑا عامل بن گیا۔ جب اچھی طرح perfect ہو گیا تو اسے کہا کہ جاؤ اپنے باپ کا بدلہ لو۔ وہ مولانا کے قرب و جوار میں کسی پہ آ گیا۔ مولانا کو جن نکالنے کے لئے بلا لیا گیا۔ مولانا نے کہا نکلتے ہو یا نہیں۔ کہتا ہے بادشاہو آ پ آ گئے! میں آپ کے لئے ہی تو آیا ہوں، اگر نکال سکتے ہو تو نکال لو۔ انہوں نے اپنے سارے طریقے اس پہ آزما لئے، مگر کوئی طریقہ نہ چلا سارے فیل ہو گئے۔ مولانا بہت پریشان ہو گئے ان کے تو پسینے چھوٹ گئے۔ جب ان کے ترکش میں کوئی تیر نہ رہا تو پھر منت سماجت پہ آ گئے کیونکہ انہیں پتا تھا کہ اب اگلا حملہ اس کا ہوگا۔ مولانا نے اس نے کہا کہ میں ذرا کمزور ہو گیا ہوں، اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے چلے پکے کرکے آ جاؤں۔ اس نے کہا: کتنی دیر چاہیے۔ کہتے ہیں کہ ایک چلے کا وقت چاہیے۔ کہنے لگا: جاؤ آپ کو تین چلوں کی اجازت ہے، اپنے چلے پکے کرلو۔
یہ تین چلے کرنے کے بعد آ گئے، دوبارہ اپنے طریقے آزمائے اور دوبارہ فیل ہوگئے۔ اب تو ان کے پاس کوئی chance نہیں رہا تھا۔ کہتے ہیں اب آپ کی مرضی، جو چاہے کریں البتہ اگر میری ایک بات مان سکو تو مہربانی ہوگی، مجھے ایک دن کی مہلت دو تاکہ میں ذرا وصیت وغیرہ کر لوں، اپنے سارے کام نمٹا آؤں۔ اس جن نے کہا بالکل اجازت ہے جاؤ اپنا کام کر لو۔
یہ وہاں سے اپنے گھر جا رہے تھے، راستہ میں ایک بزرگ ملے، وہ پہلے بھی وہیں راستہ میں پڑے رہتے تھے، بالکل ضعیف تھے لیکن تھے اللہ والے۔ مولانا کو پہلے کبھی ان سے بات کرنے کا خیال نہیں آیا تھا لیکن جب آدمی پریشان ہوتا ہے تو پھر ہر جگہ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا چلو میں اس سے مل لیتا ہوں اور پوچھ لیتا ہوں شاید کوئی حل مل جائے۔ ان کے پاس بیٹھ گئے اور ان کو سارا قصہ سنایا۔ انہوں نے کہا اچھا کل اس کے پاس جاؤ تو اس کو میری طرف سے کہنا کہ آپ کو سلام کہتا ہے ذرا اس سے مل لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جن نے کہا ٹھیک ہے مل لیتے ہیں۔ ان بزرگ کے پاس گیا تو انہوں نے اس سے کہاکہ اپنی والدہ کو میرا سلام کہو اور یہ پیغام دو کہ تم جیت گئی ہو، اب تم اس کو اخلاقی شکست دے دو اور وہ یہ ہے کہ اس کو معاف کر دو۔ اس جن نے اپنی ماں کو پیغام پہنچایا اور اور اس کی ماں نے معاف کر دیا۔ مولانا کی جان میں جان آ گئی، کہ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ اس کے بعد یہ تصوف کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر بہت بڑے بزرگ بنے۔ ہمارے شجرہ میں حضرت مولانا غلام محمد غوث گوالیاری کا نام موجود ہے اور یہ ان کی کہانی ہے۔ کیا اس میں عاملین کے لئے بہت بڑا سبق نہیں ہے؟ بہت بڑا سبق ہے۔ دیکھیں ایک عامل کے کام کون آیا، جو خود عامل نہیں تھا وہ کام آ گیا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اپنے استاذ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت کیا یہ سیکھا جا سکتا ہے۔ فرمایا: ہاں مجھے آتا ہے اور میں تمہیں سکھا سکتا ہوں، لیکن یہ بتا کہ تو خدائی کے لئے آیا ہے یا بندگی کے لئے آیا ہے۔ حضرت تھانوی صاحب کہتے ہیں کہ بس مجھے سب کچھ پتا چل گیا اور اس چیز سے ایسی نفرت ہو گئی کہ اس کے بعد پھر میں نے کبھی اس کی خواہش نہیں کی۔ یہ مولوی لوگ آج کل اس کے پیچھے بڑے پڑے ہوئے ہیں۔ جنات کو قابو کرنا چاہتے ہیں، بھئی اپنے نفس کو قابو کرو، یہ سب سے بڑا جن ہے۔ پہلے اس کو قابو کرو، باقی پھر دیکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ میرے خیال میں آج کا سبق اتنا کافی ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن