اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَم النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
آج پیر کا دن ہے اور جیسا کہ آپ حضرات کو پتا ہے کہ پیر کے دن ہمارے ہاں سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں جو سوالات تصوف سے متعلق ہوں تو آج بھی ان شاء اللہ سوالات کے جوابات دیئے جائیں گے اور اگر موقعہ ملا تو کچھ خطوط جو آئے ہیں ان کے جوابات بھی دیئے جائیں گے تو باہر سے جو سوال آتے ہیں پہلے ان کے جوابات دیئے جاتے ہیں پھر بعد میں جو موقع پہ موجود حضرات ہوتے ہیں ان کے جوابات دیئے جاتے ہیں تو ابھی پہلے ہم کوشش کرتے ہیں کہ باہر کے سوالات
باہر سے کوئی سوال آیا ہے اچھا
تو پھر چلیں ہم دیکھتے ہیں کہ جو خطوط آئے ہیں ان میں سے ہم سوالات کے جوابات دے دیتے ہیں
سوال: ایک خط ہے معظم و محترم شیخ السلام علیکم و رحمۃ اللہ بصد تعظیم عرض ہے کہ احوال میں تغیر بہت تیزی سے آ رہا ہے آدھے ماہ پہلے یہ حال تھا کہ نماز میں احسان والا حال پہلے درجے کا حاصل ہو رہا تھا اس کے باوجود اگر کوئی کوتاہی ہو جاتی تو سلام کرنے سے پہلے دعا میں دعائے یونس دعائے آدم اور دعائے ابراہیم پڑھنے کی توفیق ملتی اور اپنی نماز پر بے تحاشا پشیمانی ہوتی اس کے علاوہ دعاؤں میں انہماک بہت بڑھ گیا دین اور دنیا اور عزیز و اقارب اور سب کے لئے خوب دعا مانگنے کی توفیق ملتی لیکن اب کیفیت یہ ہو رہی ہے (((۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔))) میں انہماک اس قدر بڑھ گیا ہے کہ رکعتوں تعداد بھی بھول جاتی ہے اسی وجہ سے نماز میں، نماز دہرانی پڑتی ہے دعا میں بھی دل نہیں لگ رہا ہاتھ اٹھا کر رکھ لیتا ہوں، الفاظ مختصر بول کر دعا مانگتا ہوں (((۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔))) دعا کے حال پر خوب رونا آتا ہے اور نماز کے بعد سر چھپا کر دل گریہ و زاری کرتا ہے کہ میں عاجز ہوں ضعیف ہوں دنیا کی محبت میں گرفتار ہوں پر تیرا سچا عاشق ہوں مجھے اپنے لئے قبول فرمائیں آنکھیں بھی آنسؤوں سے بھر جاتی ہیں لیکن زبان سے دعا بہت کم ہوتی ہے باقی دل کے (((۔۔۔۔۔۔))) قبولیت اور مغفرت طلب کرتا ہوں، اور اپنے (((۔۔۔))) کی کوتاہیوں پر ندامت ہوتی ہے، پریشانی یہ مجھے اس قسم کے عجیب متضاد (((۔۔۔۔۔))) خیال سے کہ عام طور پر دل متوجہ ہوتا ہے لیکن نماز میں یہ خیال نہیں ہوتا کہ رکعت کونسی ہے، الحمد اللہ اختیاری طور پر معمولات کئے جا رہے ہیں حضرت نے فرمایا تھا کہ انسان آوارہ ہو تو نماز بھی ایسی ہوتی ہے تو صرف ذکر سے مانوس ہو تو ایسا نہیں ہوتا، ذکر سے دل کو کس طرح مانوس کرنا چاہیے حضرت جی میں انتہائی معذرت کے ساتھ اپنا حال بیان کر گیا کہ حضرت سے رابطہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ حضرت اس کی وجہ سے ناراض (((۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔))) اس وجہ سے بھی اپنے اوپر بہت پشیمانی ہوتی ہے، اپنی نادان طبیعت کے با وجود بعض (((۔۔۔۔۔))) ان سب پر معافی کی درخواست ہے۔
جواب: یہ جو سوال ہے اصل میں سوال نہیں ہے خط ہے یہ ہر سالک کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے وجہ یہ ہے کہ انسان جس وقت بھی اللہ کی طرف آتا ہے تو اللہ جل شانہ کم از کم اس کو اپنی منزل دکھاتا ہے کہ تمھیں کیا کرنا چاہیے اور کہاں پہنچنا چاہیے تو اس کو اپنی منزل کا پتا چل جاتا ہے تو پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں کہ پھر وہ اپنی کوشش اور محنت اور اسباب اختیار کرنے کے ذریعے سے اس چیز کو حاصل کر لے، جس کو وہ دیکھ چکا ہوتا ہے، یقیناً اس لحاظ سے یہ اچھا حال ہے کہ دل پہ عجب نہیں طاری عجب بہت خطرناک چیز ہے عجب اس کو کہتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہو اپنے آپ کو اچھا سمجھنا یہ بہت مطلب نقصان والی بات ہے انسان جس وقت بھی اپنے آپ کو اچھا سمجھ لیتا ہے، سمجھ رہا ہوتا ہے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بقول وہ اللہ تعالیٰ سے اس وقت دور ہو رہا ہوتا ہے اس وجہ سے اپنے آپ کو اچھا تو نہیں سمجھتا نہیں سمجھنا چاہیے لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک ہوتا ہے اختیاری عمل اور ایک ہوتا ہے غیر اختیاری عمل اختیاری عمل میں انسان اپنے اختیار کا مکلف ہے اور جتنے اللہ پاک نے اس کو اختیار دیا ہے اعمال پر اس میں اپنے اختیار پر عمل کرنا ضروری ہے مثلاً یہ ہے کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں ابھی بھی میں تفصیل سے عرض کر لیتا ہوں نماز میں اختیاری اعمال ہیں اور کیفیات غیر اختیاری ہوتے ہیں تو جو اختیاری اعمال کی طرف توجہ دے اور کیفیات بالکل بھی نہ ہوں تو وہ اچھا ہے بمقابلہ اس کے کہ جس کے کیفیات بہت سارے ہوں لیکن اختیاری اعمال نہ ہوں ہاں جی اختیاری عمل کیا ہیں وہ بتا دیتا ہوں مثلاً ہمارے ارکان ہیں اس میں قیام ہے رکوع ہے سجدہ ہے اور قرأت ہے اور اس طریقے سے مطلب سارے اعمال ہیں اب انسان اگر اتنا کر لے کہ اتنا جانے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں اور جو مطلب پڑھ رہا ہوتا ہے اس کی طرف اس کو توجہ ہوتی ہے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں اس کو اتنا پتا ہو اور اس کے لحاظ سے جو ہے ناں مطلب جو عمل کا حق ادا کرنا ہوتا ہے وہ اس کو کر رہا ہو مثلاً قیام کی حالت میں کیا کر سکتا ہے قیام کی حالت میں یہ کر سکتا ہے کہ جیسے بندہ اپنا حال کسی کے سامنے بیان کر رہا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی اپنے آپ کو ایسے سمجھے کہ میں اپنا حال بیان کر رہا ہوں سورۃ فاتحہ یہ بہت مطلب حال کو اچھا بیان کرنے کا طریقہ ہے سب سے پہلے انسان اللہ کے ساتھ اپنا توجہ اپنے تعلق کا اظہار کرتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (2) مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ (3) اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ (4) (الفاتحۃ) پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے انسان اپنے لئے دعا کرتا ہے کہ مجھے ہدایت دے دے تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ میں کیا مانگ رہا ہوں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (5) صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ (6) (الفاتحۃ) اے اللہ مجھے سیدھا راستہ عنایت فرما دے راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ ان لوگوں کا راستہ نہیں جن کے اوپر تیرا غصہ ہے وَلَا الضَّالِّينَ یا وہ گمراہ ہیں تو اب یہ الفاظ میں وہ ترجمہ نہیں آنا چاہیے ترجمہ تو انسان کو معلوم ہونا چاہیے لیکن یہ الفاظ میں نہیں آنا چاہیے البتہ یہ ہے کہ concept جاننا چاہیے کہ میں کیا مانگ رہا ہوں یعنی یہ چیز معلوم ہو پھر اس کے بعد ظاہر ہے قرآن پاک کی تلاوت ہے وہ جتنا بھی انسان کرے تو کم از کم یہ سمجھے کہ میں اللہ کو سنا رہا ہوں میں اللہ کو سنا رہا ہوں یہ بات کم از کم یہ ذہن میں رکھے اس بعد جس وقت وہ رکوع میں جاتا ہے تو یہ تصور کرے کہ میں اللہ کے سامنے جھک رہا ہوں ہاں جی اور پھر اس کے بعد جب کھڑا ہوتا ہے تو کھڑا ہونے کے لئے یہ کرے کہ میں اللہ کے حکم سے کھڑا ہو رہا ہوں اللہ کے حکم سے کھڑا ہو رہا ہوں پھر اس کے بعد جب سجدہ میں جائے تو پھر اس کے بعد انسان یہ ذہن میں رکھے کہ یا اللہ ساری شرافت اور ساری بزرگی تو تیری ہے میں اپنا سب کچھ surrender کر رہا ہوں یعنی انسان کی جو سجدہ کی حالت ہے وہ اصل میں surrender کی حالت ہے یعنی میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ بھی ہے تیرا ہے میں اپنا سب سے اشرف ترین جگہ جو ماتھا ہے وہ تیرے سامنے surrender کر رہا ہوں اے اللہ تو اس کو قبول فرما تو اس میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی یہ اسی کیفیت میں پڑھنا چاہیے کہ میرا رب اعلیٰ ہے سب سے بلند ہے سب سے برتر ہے تو میں اس کے سامنے جھک رہا ہوں اس طریقے سے مطلب التحیات میں تمام چیزوں میں یہ خیال رکھنا چاہیے جس وقت انسان اس طرح نماز پڑھ رہا ہو بے شک اس کی کیفیت کچھ بھی نہ ہو یہ بس یہ کیفیت ہے اصل کیفیت یہی ہے مطلب وہ باقی جو غیر اختیاری کیفیات ہیں کہ آنسو کا بہنا دوسری چیزیں وہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے وہ تو اللہ کی طرف سے آئے گا تو آئے گا اللہ کی طرف سے نہیں آئے گا تو نہیں آئے گا بعض لوگوں کو آتا ہے بعض لوگوں کو نہیں آتا لیکن یہ کم از کم یہ جو اختیاری اعمال ہیں وہ ہم لوگوں کو کرنا چاہیے اور اس کے بارے میں ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ اختیاری میں سستی نہ کرو اور غیر اختیاری کے درپے نہ ہو انسان کو زیادہ تر پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب انسان غیر اختیاری کے درپے ہو جاتا ہے مثلاً مجھے اچھے اچھے خواب کیوں نظر نہیں آتے میری آنکھوں سے آنسو کیوں نہیں بہ رہے وغیرہ، ہاں جی یہ ساری چیزیں ہمارا کام نہیں ہے یہ غیر اختیاری چیزیں اللہ تعالیٰ کا کام ہے اللہ تعالیٰ چاہیں تو لے آئیں اللہ تعالیٰ چاہیں تو نہ لائیں ہاں جی اس میں ہمارا کوئی کام نہیں ہے لیکن ہم لوگ جو اختیاری کام کرتے ہیں وہ مطلب ہمیں ضرور کرنا چاہیے اس میں اور پھر بھی جتنا ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل سمجھ کر اللہ کا فضل سمجھ کر اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس پر استغفار کرنا چاہیے کہ یا اللہ اتنی بڑی نعمت جو تو نے دی ہے میں اس کی نا قدری میں کر رہا ہوں مجھ سے اس کا قدر نہیں ہو سکا ہے اے اللہ مجھے معاف کر دے یہی اصل میں نماز کا شایان شان ہے نماز بہت بڑی اونچی عبادت ہے بہت اونچی عبادت ہے یعنی وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ (البقرۃ: 45) اس کا حکم ہے اور اس طریقے سے مطلب اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے تھے کہ جس وقت میرا دل چاہتا ہے کہ میں اللہ پاک کی سنوں تو میں قرآن پڑھتا ہوں اور جس وقت میں چاہتا ہوں کہ اللہ کو سناؤں اپنی بات تو میں نماز پڑھتا ہوں تو یہ تو اللہ تعالیٰ کو سنانے والی بات ہے تو جس کیفیت سے بھی انسان اللہ تعالیٰ کو سنا رہا ہوتا ہے تو بالکل ٹھیک ہے باقی یہ ہے کہ ماشاء اللہ اس لحاظ سے مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کو اپنی فکر ہے اور اپنی فکر بہت بڑی بات ہے بہت بڑی بات ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو فکر نصیب فرما دے اور باقی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کی نمازیں درست فرما دے (آمین) اور جیسے کہ ہونی چاہییں اس طریقے سے ہمیں دعا، ہمیں نماز نصیب فرما دے تو یہ تو یہ خط تھا تو ابھی جو ہے ناں میرے خیال میں اگر کوئی اور سوال ہوں تو وہ کر لیں اس کے بعد ان شاء اللہ العزیز باقی بات ہو گی
جی ہاں کھولیں اس کو ذرا
اس کو ذرا کھول دیں
ٹھیک ہے ہو گیا
بہت نازک نازک ہو گیا
اس کا کالر مائیک نہیں ہو سکتا چلو آپ ادھر قریب آ جائیں اور دعا۔ وہ وہ کر لیں۔ ہاں قریب جی ہاں۔ ٹھیک ہے۔
سوال: اپنے (زور سے) اپنے شیخ کے علاوہ کسی اور بزرگ کی مجلس میں اگر انسان بیٹھا ہو اور وہاں پہ ذکر ہو یا مراقبہ کسی اور طریقے سے کیا جا رہا ہو تو اس وقت پھر کیا کرے، کہ اسے بھی پھر پوری طرح وہاں پر (((۔۔۔۔)))
جواب: اصل میں اپنے کسی اور شیخ کی مجلس میں بیٹھنے کی جو نیت ہے وہ یہ ہے صحبت صالحین کی نیت مطلب انسان صحبت صالحین کی نیت کرتا ہے اگر وہ سلسلہ صحیح ہے تو اجتماعی ذکر اگر ہو تو انہی کے طریقے پہ بے شک کر لے اس میں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ذکر سارا ذکر ہے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ مراقبات میں تو چونکہ یہ پابندی نہیں ہوتی وہ تو کسی اور کو پتا ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں ناں اپنے اپنے طریقے سے انسان مراقبہ کر سکتا ہے تو جس مجلس میں بیٹھا ہو آپ اپنے طریقے پہ مراقبہ کر لیں جس طریقے سے آپ کو بتایا گیا ہے
اور کوئی سوال کسی کا ہو تو بتائیں
کوئی سوال
ان ان کو دے دیں۔ ٹھیک ہے منہ کے ساتھ لگا کر سوال کریں۔
سوال: حضرت میرا سوال یہ ہے کہ ایک آیت ہے اَللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (النور: 35)، (جی ہاں) اللہ ہی آسمان اور زمین کا نور ہے (جی ہاں) حضرت اس کا کیا مطلب ہے
جواب: یہ علماء کرام نے جو تفسیر میں جو لکھا ہے اس کا اَللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (النور: 35) یعنی اللہ ہی منور کرنے والا ہے تمام کائنات کو یعنی منور کرنے والے کے مراد میں کیونکہ نور جو کس چیز کو کہتے ہیں وہ روشنی پہنچاتا ہے ناں نور جو بھی ہے مطلب بلب ہے تو وہ بھی تو باقی چیزوں کو منور کرتا ہے ناں ٹھیک ہے ناں تو اللہ جل شانہ یعنی اس طرح تو نہیں جیسے بلب ہے ہاں لیکن اللہ پاک مختار ہیں اللہ پاک فاعل ہیں اللہ جل شانہ فاعل حقیقی ہے اللہ جل شانہ ہی سب کو روشنی دینے والا ہے تو اس مطلب میں ہے کہ اَللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (النور: 35) اللہ پاک پوری کائنات کو روشنی پہنچانے والا ہے منور کرنے والا ہے اس کا مطلب یہ ہے
ٹھیک ہے
سوال: حضرت یہ بتائیے گا کہ موت کو کن الفاظ میں یاد کرنا چاہیے۔
(موت کو کن الفاظ میں یاد کرنا چاہیے) جی، احادیث میں کثرت سے آیا ہے کہ
جواب: ہاں وہ ٹھیک ہے ناں اَللّٰھُمَّ بَاركْ لَنَا فِی الموت و فِی مَا بَعْدَ الْمَوت مسنون دعا ہے اَللّٰھُمَّ بَاركْ لَنَا فِی الموت و فِی مَا بَعْدَ الْمَوت یہ کہتے ہیں کہ ہر نماز کے بعد پانچ پانچ دفعہ پڑھنا چاہیے تو پچیس دفعہ ہو جاتا ہے تو ماشاء اللہ وہ شرط پوری ہو جاتی ہے اَللّٰھُمَّ بَاركْ لَنَا فِی الموت و فِی مَا بَعْدَ الْمَوت
ہاں جی۔ اور کوئی سوال۔ میجر صاحب آپ کا کوئی سوال۔ ہاں جی
سوال: کیفیات جو ہیں مطلب اس کو ہم driving force بھی کہہ سکتے ہیں یعنی کہ (((۔۔۔۔۔۔۔))) اتنی زیادہ اہمیت (((۔۔۔۔۔۔۔))) لیکن جب یہ نہیں ہوتیں تو پھر بہت زیادہ پھر (((پریشانی))) ہوتی ہے
جواب: اصل میں کیفیات کو driving force تو exactly کہنا مشکل ہے کیونکہ ارادہ driving force ہے جس کو ہم کہتے ہیں قوت ارادی ہاں جی تو driving force تو ارادہ ہے البتہ کیفیات یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس کے ساتھ enhancement ہے اس چیز کے ساتھ enhancement ہوتی ہے مثال کے طور پر دیکھیں دو قسم کی چیزیں ہیں آپ نماز پڑھ رہے ہیں آپ نماز پڑھ رہے ہیں آپ کا نماز پڑھنے کو جی چاہ رہا ہے یہ کیفیت ہے تو آپ کے لئے نماز بہت آسان ہو جائے گی اور آپ کا دل چاہے گا کہ میں بہت زیادہ نماز میں مشغول رہوں یہ کیفیت ہے تو اس نے آپ کے اس قوت ارادی جو نماز پڑھنے کے لئے اس کو سپورٹ کر لیا آپ کے لئے نماز کو زیادہ آسان بنا دیا اس کا دوسرا opposite بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا دل نماز پڑھنے کو نہیں چاہتا یہ بھی کیفیت ہے آپ کا دل صرف اچھی کیفیات تو نہیں ہوتیں بری کیفیات بھی تو ہوتی ہیں ناں یا یوں کہہ سکتے ہیں مزاحمتی کیفیات بھی ہوتی ہیں بری اس کو کہنا ضروری نہیں ہے مزاحمتی کیفیات بھی ہوتی ہیں اب دیکھیں آپ کا جو ہے ناں جس وقت دل پڑھنے کو نہیں چاہتا ہو تو پھر آپ پڑھتے ہیں اس کے ذریعے سے آپ کو دو چیزیں ملتی ہیں ایک کی بجائے یعنی جب انسان ذکر کرتا ہے اور نماز بھی ذکر ہے تو جب انسان ذکر کرتا ہے تو ذکر کے ذریعے سے دل بنتا ہے دل کی اصلاح ہوتی ہے اور نفس کے مجاہدے کی مجاہدے کے ذریعے سے نفس کی اصلاح ہوتی ہے اب جب آپ کا دل نہیں چاہتا ہو گا نماز پڑھنے کو اور آپ پڑھیں گے تو مجاہدہ ہے تو اس کے ذریعے سے آپ کے نفس کی اصلاح بھی ہو گی تو بیک وقت آپ کے نفس کی بھی اصلاح ہو گی دل کی بھی اصلاح ہو گی اگر نہیں پڑھنے کو چاہتا اور اگر پڑھنے کو جی چاہتا ہے تو آپ کے صرف دل کی اصلاح ہو گی ٹھیک ہے ناں تو لہٰذا دونوں صورتوں میں آپ کا فائدہ ہے اس وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے مجھے نہیں پتا کہ شکر کے ذریعے، شکر کی اونٹنی پر بیٹھ جاؤں یا صبر کی اونٹنی پر بیٹھ جاؤں دونوں اونٹنیاں میرے لئے اچھی ہیں دونوں کے اوپر جو ہے ناں مطلب میں اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہوں لہٰذا چاہے اچھے حالات ہوں تو اس کے ذریعے سے شکر کے ذریعے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور اگر مشکل حالات ہوں supporting نہ ہو بلکہ discouraging ہو ہاں جی تو اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ صبر کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (البقرۃ: 153) بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور یہ بھی فرماتا ہے و اللہ یحب الشاکرین اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے تو لہٰذا دونوں چیزیں اچھی ہیں اصل چیز driving force انسان کی قوت ارادی ہے ہاں جی وہ driving force ہے البتہ جیسے ہوا کے رخ پہ جانا اور ہوا کے مخالف رخ پہ جانا یہ ایک الگ بات ہوتی ہے آپ اگر ہوا کے رخ پہ جاتے ہیں تو ظاہر ہے آپ کی جو driving force ہے اس کو سپورٹ ملتی ہے اور ہوا کے مخالف رخ پہ جاتے ہیں تو retardation ملتی ہے اس کے ذریعے سے آپ کو مزید کام کرنا پڑتا ہے وہ جو کہتے ہیں
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
اچھا
حضرت (پشتو)
جی و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سوال: سر اکثر طاعات میں سستی ہوتی ہے بیماری کے دوران اکثر طاعات میں (سستی ہوتی ہے) سستی ہوتی ہے تو اس سے پہ مطلب قابو رکھنے کے لئے صحت کے وقت اس کے ساتھ کیا چیز کرنی چاہیے
جواب: دیکھیں بیماری میں طاعات میں سستی جو ہوتی ہے وہ معاف ہے البتہ اس وقت جو اللہ کا حکم ہے اس پر عمل کرنا چاہیے مثلاً ایک شخص ہے اس وقت کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا بیٹھ کر پڑھے گا تو اس کے لئے وہ بیٹھ کر پڑھنا کافی ہے اس کے لئے کھڑے ہونے کے برابر ہے کوئی بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا ہے لیٹ کے پڑھے گا تو اس کے لئے لیٹ کے پڑھنا کافی ہے کیونکہ اس اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بس یہی اس وقت کا حکم بنایا ہوا ہے لہٰذا چھوڑے تو نہیں لیکن اس وقت جس طریقے سے جتنا ہو سکتا ہے جتنے کا وہ مکلف ہے اس پر عمل کرنا چاہیے اور کمی کوتاہی پر استغفار کرنا چاہیے
سوال: اس طرح اور بزرگوں کو دیکھا ہے کہ ان کی بیماری بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ ہم سے زیادہ عمل کر لیتے ہیں لیکن ہم میں تھوڑی سی بیماری آ جائے تو ہماری سستی آ جاتی ہے اس کے لئے ہم کیا کریں
جواب: تو عموماً بزرگوں کے راستے پہ چلنا چاہیے جیسے وہ کرتے ہیں ہمیں بھی اس طرح کرنا چاہیے
اور کوئی سوال اگر ہے میں ذرا منگوا لوں اپنا لیپ ٹاپ نہیں وہ کیا ٹیبلٹ
(پشتو)
اچھا یہ عبید صاحب کو بلائیں عبید صاحب کو
سوال کریں۔
حضرت جی ایک سوال ہے
جی ضرور بتائیں
پوچھیں
سوال: حضرت حقیقت کیا ہے کبھی کبھی انسان کو ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ فضول سا ہے اور مطلب انسان کو کبھی ایسا لگتا ہے کہ بس مطلب ہر چیز (((۔۔۔۔))) ہے بس انسان ہی، زندگی کچھ نہیں ہے، فضول ہے سب، کچھ اس طرح کہ (((۔۔۔۔۔۔))) تو حقیقت اصل میں مطلب یہ
جواب: دیکھیں آپ جو پوچھ رہے ہیں کہ حقیقت کیا ہے تو اصل میں ایک تو اس کا جواب ہے کہ آپ جس کو کہتے ہیں جیسے فیکٹس کو انسان ڈھونڈتا ہے اس طرح ہے ایک یہ ہے کہ حقیقت کو جاننے کا نظام کیا ہے مطلب دو مختلف چیزیں ہیں تو جو نظام ہے وہ اس طرح ہے کہ سب سے پہلے انسان اللہ کا حکم مانتا ہے پھر اس کے اندر جان ڈالتا ہے اس کو ماننے میں جان ڈالتا ہے یعنی یوں سمجھ لیجیے کہ اللہ پاک کو حاضر سمجھ کر اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ َفَاِنَّہٗ یَراك اس پر عمل کر کے کیفیت احسان حاصل کرتا ہے وہ طریقت ہے اس کو حاصل کرنے کا طریقہ یعنی شریعت کے اوپر دل سے چلنے کا جو کوشش ہے وہ طریقت ہے پھر اس کے ذریعے سے پھر چیزیں منکشف ہوتی ہیں یہ حقیقت ہے ہاں جی مثلاً چیزیں کیسے منکشف ہوتی ہیں انسان کو کوشش کرتا ہے وہ کوشش کامیاب نہیں ہوتی تو آدمی سمجھتا ہے کہ میں کرنے والا نہیں ہوں میں کرنے والا نہیں ہوں کرنے والا کوئی اور ہے یہ حقیقت ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مشہور مطلب ملفوظ ہے عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِم میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا تو اس قسم کی چیزیں پھر چیزوں کی کھلتی ہیں انسان کے اوپر اور اپنی بے بسی چیزوں کا مطلب اللہ کے سامنے کچھ نہ ہونا طاقتوں کا اللہ کے سامنے بے بس ہونا نظاموں کا اللہ کے سامنے بے بس ہونا یہ ساری چیزیں کھلتی ہیں تو یہ تو حقیقت ہے مطلب ایسا تو ضروری ہے اس سے پھر انسان اللہ پاک کو پہچانتا ہے اللہ کی بزرگی اللہ کی بڑائی اللہ کی طاقت اللہ تعالیٰ کی مہربانی مثلاً میں بہت کچھ نہیں کر سکتا لیکن اللہ کرتا ہے مثلاً میرے جسم کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اس میں میرا کیا کنٹرول ہے کچھ کنٹرول نہ ہونے کے با وجود سارا کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے تو اللہ کی مہربانی ہے ناں تو یہ اللہ کی مہربانی انسان پر کھلتی ہے ناں پھر یہ ڈاکٹروں کو زیادہ پتا ہوتا ہے لیکن اس کی حقیقت کھلتی ہے صوفیوں پر کیونکہ پتا ہونا کافی نہیں ہوتا وہ اور چیزوں میں پھنس جاتے ہیں وہ اسباب کے گورکھ دھندے میں رہ جاتے ہیں اور صوفی مسبب الاسباب تک پہنچ جاتے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ اسباب تو بس اللہ کے سامنے کچھ نہیں یعنی جو نظام ہے اللہ جو چلا رہے ہیں وہ تنہا چلا رہے ہیں اس میں جتنا کنٹرول ہمیں دیا ہے ناں وہ بھی اگر ہمارے اوپر کھل جائے تو ہمارے ہاتھ پیر پھول جائیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے کس طرح ہو رہا ہے ہاں جی یہ تو مطلب یہ ہے کہ جیسے میں چلا رہا ہوں گاڑی اور میں سمجھ رہا ہوں کہ میں چلا رہا ہوں پھر مجھے بعد میں چل جائے افوہ یہ سسٹم تو اس طرف جا رہا ہے یہ سسٹم اس طرف یہ پھر بھی ٹھیک چل رہا ہے اوہو یہ کیسے چل رہا ہے انسان پر کھل جاتی ہے ناں کہ بھئی یہ تو میرے بس میں کچھ نہیں ہے میں تو صرف سٹیرنگ، تو سٹیرنگ کے کنٹرول میں ساری چیزیں ہوں تو پھر وہ کریں گے ناں وہ سٹیرنگ سے disconnected ہوں مثلاً اور پھر بھی ٹھیک چل رہے ہوں تو آپ کو عجوبہ لگے گا یا نہیں لگے گا آپ گھبرا بھی جائیں گے کہ بھائی یہ تو میرے بس میں نہیں ہے اور پھر اللہ پاک کے ساتھ تعلق بھی بڑھ جائے گا کہ دیکھو اللہ پاک اس کے باوجود چلا رہے ہیں تو یہ اللہ کی مہربانی ہے تو پھر اللہ پہ آپ 100% depend ہو جائیں گے تو حکم پر عمل کریں گے ٪100 کیونکہ اللہ کی مہربانی ہے تو مہربانی کی وجہ سے محبت کی وجہ سے آپ عمل کریں گے یہ نہیں کہ مطلب یہ ہے کہ وہ آپ جو ہے ناں آپ سمجھیں کہ اسی سے ہوتا ہے آپ کہیں گے ہوتا تو اللہ سے ہے لیکن چونکہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں نے یہ کرنا ہے تو میں حکم پہ عمل کر رہا ہوں یہاں پر فرق پتا چلتا ہے یہاں پر جو عارف ہوتا ہے وہ بھی وہی کرتا ہے جو غیر عارف ہوتا ہے لیکن اصل میں دل کی کیفیت کا فرق ہوتا ہے غیر عارف ان چیزوں کو مؤثر سمجھ کے کر رہا ہوتا ہے غیر عارف اور عارف ان تمام چیزوں کو نہیں غیر عارف ان کو مؤثر سمجھ کے کر رہا ہوتا ہے اور عارف ان تمام چیزوں کو غیر مؤثر سمجھ کر اللہ کا حکم سمجھ کر کر رہا ہوتا ہے بس یہی فرق ہے تو جتنی جتنی معرفت بڑھتی ہے ان کو وہ جو ہے ناں مطلب اللہ تعالیٰ کے صفات زیادہ جاننے لگتا ہے اللہ تعالیٰ کی مہربانی اللہ پاک کے احسانات اللہ پاک کے کرم اللہ پاک کے وہ سارے زیادہ جاننے لگتا ہے تو اللہ پاک کے ساتھ تعلق محبت کا بھی بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر جو ہے ناں وہ dependence بھی بڑھتا ہے اب دیکھو یَا حَیُّ یَا قَیُّوْم بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِیْث اَصْلِحْ لِیْ شَانِیْ کُلَّہ وَ لَا تَکلْنِیْ اِلیٰ نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَین کیسی دعا ہے حی یا قیوم پہلے سے ہی کہہ دیا اللہ کے دو صفات یہ دو صفات ہیں جو جاری و ساری ہیں ہاں جی مطلب اور پھر جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ تمام چیزوں کو تھامنے والی ہاں جی پھر کہتے ہیں بِرَحْمَتِكَ اَستَغِیثُ تیری رحمت کے ذریعے سے میں تجھ سے واسطہ تیری رحمت کا میں تجھے واسطہ دیتا ہوں کہ میری مدد فرما اَصْلِحْ لِیْ شَانِیْ کُلّہٗ میری ہر حالت کو درست کر دے ادھر ادھر جو ہو رہا ہے یا اللہ میری ہر حالت کو درست کر دے وَ لَا تَکِلْنِی اِلیٰ نَفْسِی اور مجھے میرے نفس کے ایک لمحہ کے لئے بھی حوالے نہ کرنا کیونکہ یہ تو اتنی خطرناک چیز ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی حوالہ ہو گیا تو سب کچھ ختم ہو جائے گا میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں میرے ساتھ ہوا ہے یہ میرے ساتھ personally ہوا ہے ہوا یہ ہے کہ ہم آ رہے تھے کراچی سے نہیں sorry ادھر سے جا رہے تھے کراچی لاہور سے ملتان خانیوال تک وہ electric train کا سلسلہ ہے ناں اس وقت speed اچھی خاصی بڑھی ہوتی ہے ٹریک صاف اس پر بڑا smooth جا رہا ہوتا ہے گاڑی اتنی smooth ہوتا ہے کہ جیسے جہاز کا پتا نہیں چلتا جہاز کے اندر بیٹھے ہوؤوں کو پتا نہیں چلتا ناں کہ جہاز چل رہا ہے وہ سمجھتا ہے کہ جیسے جہاز کھڑا ہے حالانکہ جہاز کتنی رفتار سے جا رہا ہوتا ہے ہاں جی لیکن آدمی سمجھتا ہے کہ جیسے جہاز کھڑا ہے یہ اصل میں اس کی جتنی frequency مطلب وہ باریک ہوتی جاتی ہے ناں اتنی مطلب اس کا احساس پھر معلوم ہونا ختم ہو جاتا ہے کم سپیڈ سے جانی والی چیز زیادہ پتا چلتا ہے زیادہ سپیڈ سے جانے والی چیز کا پتا پھر اگر Road smooth ہے یا Track smooth ہے تو میں نیچے اتر رہا تھا سیڑھیوں پر اچانک میں نے اوپر دیکھا تو بالکل وہ لائٹ بہت تیزی سے Opposite direction میں جا رہی تھی گاڑی چل رہی تھی وہ چل رہی تھی اور میں سمجھا کہ وہ کھڑا ہے یک دم مجھے چھٹکا لگا پیچھے گرا دیا اپنے آپ کو میں نے کہا افو میں تو ابھی گر چکا ہوتا اب بتاؤ کہ اس سے میں اگر سپیڈ سے گرا ہوتا تو میرا کیا کچھ کچھ بچتا ہاں جی لیکن مجھے یعنی بالکل پتا نہیں چلا تو وَ لَا تَکِلْنِی الی نَفْسِی طرفۃ عین ایک لمحہ کے لئے بھی اگر میں تیرے نظر سے مطلب تیرے اس سے کنٹرول جو تو چاہتا ہے کہ مجھے بچائے اگر اس سے نکل گیا تو بس گیا پھر میرے ساتھ کیا ہو جائے مجھے کچھ پتا نہیں ہے تو اس طرح نفس انسان کو بہت خطرناک جگہوں پہ لے جاتا ہے یہ جو لڑائیاں جھگڑے ہوتے ہیں اس میں انسان سے قتل ہو جاتے ہیں ہاں جی زبان سے ایسی بات نکال لیتے ہیں اس پہ خون خرابا ہو جاتا ہے یہ سب ایک لمحہ کی چیز ہوتی ہے پھر بعد میں انسان بھگتتا رہتا ہے تو اب اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کہ اللہ مجھے ایک لمحے کے لئے بھی یہ معرفت ہے ناں ہے تو سب کے ساتھ ایسے لیکن ہر ایک کو پتا نہیں اور عارف کو پتا ہوتا ہے تو بس یہی اصل میں بات یہ ہے کہ انسان اس طریقے سے جائے کہ شریعت ہے اس کے اوپر طریقت ہے طریقت کے بعد حقیقت ہے حقیقت کے بعد معرفت ہے ٹھیک ہے
یہ دیکھیں ناں اسی چیز کا انسان کو عاجزی حاصل ہوتی ہے جب انسان ان تمام چیزوں کو جاننے لگتا ہے پھر عاجزی صحیح معنوں میں حاصل ہوتی ہے پھر پتا چلتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہاں جی اور یہ عاجزی بہت ضروری ہے
خود کو خدا کی دین سے جدا نہ کریں ہم
غلطی سے کبھی بھی کوئی دعویٰ نہ کریں ہم
(ہاں جی دعویٰ بہت بڑی چیز ہے ناں)
خود پر کوئی کہیں نہ کرے بند عاجزی
ہر حال میں اللہ کو ہے پسند عاجزی
کرتا ہے اس لئے ہر عقل مند عاجزی
خود کو کہیں اچھا کبھی کہا نہ کریں ہم
اپنی نظر میں آئے ہمیش ہم بہت حقیر
گو حسن ظن سے دوسرے سمجھیں ہمیں کبیر
اور شہرتوں کے آپ نہ بن جائیں ہم اسیر
سوچ اپنی بڑھائی کی تو پیدا نہ کریں ہم
ہم جانتے ہیں ہم ہیں گناہ گار بہت جب
ہم دائرۂ سوچ میں لائیں گے اسے کب
احساس گناہ بنتا تو توبہ کا ہے سبب
کیوں اس کے باوجود بھی توبہ نہ کریں ہم
عابد بھی تھا عالم بھی تھا عارف بھی تھا شیطان
ہو جائے گا مردود وہ رکھتا تھا کب گمان
وہ اپنی عبادات اور علم پر تھا جو نازاں
ڈرنا ہے ہمیں اب کہیں ایسا نہ کریں ہم
دل میں کہیں نظر آئے تیری خود پسندی
بچنا ہے اس سے خوب کہ یہ چال ہے گندی
کر اپنے نفس کو پست کہ ملے تجھ کو بلندی
خود رائی میں ہاں خود کو مبتلا نہ کریں ہم
اعمال میں رہ جائے نہ ہم سے کوئی کمی
بندے ہیں ہم خدا کے یہ حق بندگی
اعمال پہ تکیہ مگر نہ ہو اس پہ ہی
(دیکھیں بات آ گئی ناں)
اعمال پہ تکیہ
اعمال میں رہ جائے نہ ہم سے کوئی کمی
(خدا کا حکم سمجھ کر)
اعمال میں رہ جائے نہ ہم سے کوئی کمی
بندے ہیں ہم خدا کے یہ حق بندگی
(ہم جب خدا کے بندے ہیں تو حکم تو پورا کرنا ہے)
اعمال پہ تکیہ مگر نہ ہو اس پہ ہی
شبیر اپنی مرضی پہ چلا نہ کریں ہم
تو یہ عاجزی اس طرح
ایک اور نظم ہے اس سلسلہ میں کہ انسان یہ چیزوں کی علتیں جانتا ہے کہ یہ اس لئے ہونا چاہیے یہ اس لئے ہونا چاہیے تو جب اللہ کا حکم ہے پھر علتوں کی باتیں کہاں سے آ گئیں وہ تو غیر مسلم کے لئے یہ باتیں ہیں ان کو سمجھانے کے لئے مسلمان جب ہو گیا تو پھر اس کے بعد ان کو علت کی کیا ضرورت ہے
سب کچھ ہمیں قبول ہیں ہم حکم کے غلام
علت کے جاننے سے ہے بندے کا کیا کام
بندے کا ہے یہ فخر کہ آقا کہیں بندے
کیوں تیری نگاہ میری علاوہ بھی کہیں ہے
ہم کو نظر آتے ہیں مشکل کام جب تیرے
تیرے لئے کیا ہے یہ سارا ہی اہتمام
علت کے جاننے سے ہے بندے کا کیا کام
بندے کا ہاتھ نیچے ہے اوپر ہے اس کا ہاتھ
ہم چھوڑ نہ جائیں یہ نہیں ہے چھوڑتا وہ ہاتھ
سنتا ہے ہر اک حال میں دن ہو یا پھر ہو رات
بن جائے کوئی اس کا تو ہوتا نہیں ناکام
علت کے جاننے سے ہے بندے کا کیا کام
کس پیار سے بھیجا ہے ہمارا نبی پیارا
ہم جیسے گناہ گاروں کا مضبوط سہارا
اپنا کلام پیارا بھی اس پر اتارا
موجود اس میں سارے ہدایت کے احکام
علت کے جاننے سے ہے بندے کا کیا کام
(یعنی ہمیں محروم نہیں چھوڑا بلکہ اللہ پاک نے پیغمبروں کا سلسلہ بھی رکھا ہے کتابوں کا سلسلہ بھی رکھا ہے جس سے ہمیں ہدایت ملتی ہے)
ہم ہیں جب گناہ گار تو توبہ کا در کھلا
دروازہ شان دار دعا کا ہمیں ملا
اچھا ہوا جو کام دس گنا ملا صلہ
سب خود سے ہی دیتا ہے ہے وہاب اس کا نام
علت کے جاننے سے ہے بندے کا کیا کام
لے ہم بھی ذرا دل سے اب نکال صنم لیں
(یہ جو بت بنے ہوئے ہیں)
لے ہم بھی ذرا دل سے اب نکال صنم لیں
رک کر گناہ سے خیر کی جانب قدم ہم لیں
اس مہرباں کے ذکر سے ہم خوب کرم لیں
ہم بھی شبیر پی لیں محبت کا اس کا جام
علت کے جاننے سے ہے بندے کا کیا کام
مطلب یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم لوگ علتیں ڈھونڈیں یہ کام اس وجہ سے کرنا چاہیے یہ کام اس لئے یہ کام اس لئے کرنا چاہیے کہتے ہیں جی نماز بہت بڑی بہت اچھی exercise ہے خدا کے بندے کیا کہتے ہو تم exercise کے لئے نماز پڑھتے ہو اپنی نیت کیوں خراب کرتے ہو اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اگر تمھارا ارادہ اس سے Exercise کا ہوا تو بس پھر Exercise ہو گیا ناں اس کے بعد پھر کیا چیز چاہیے خطرناک بات ہے ناں تو اس وجہ سے روزے سے وہ جی روزے سے صحت بڑی اچھی ہو جاتی ہے خدا کے بندے کیا کہتے ہو جو ہونی ہے وہ ہو جائے گی لیکن تم اس کی نیت کیوں کرتے ہو ہاں جی یہ ساری باتیں کیا ہیں اصل میں شیطان ہمارے اندر یہ باتیں ڈالتا ہے یہ ہمارا کام نہیں ہے یہ کام ہے غیر مسلموں کا ان کو سمجھانے کے لئے ان کو سمجھانے کے لئے ہم کر سکتے ہیں ٹھیک ہے
میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے
جو ملے گا وہاں اس کے کیا کہنے
(یہ نوجوانوں کے لئے ہے)
یہ حسیں عورتیں یہ مکان عالی شان
ان کے نخرے بھی خوب اور تو بھی جواں
چلتی پھرتی تیرے سامنے گاڑیاں
تو زمیں چھوڑ لے دیکھ لے آسماں
تیرا دل تو امانت ہے اس کی ارے
میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے
یہ موبائل کی دنیا یہ میسج کا دھن
کھارہے ہیں تجھے سارے یہ مثلِ گھن
تیرا وقت قیمتی جارہا ہے یہ سن
کیسے سمجھے گا تو جب نشے میں ہو ٹن
جس کی کوئی سنے نہ تجھے کیا کہے
میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے
(یہ جو لگے رہتے ہیں ناں مطلب ان چیزوں میں مست تو ان سے یہ بات ہو رہی ہے)
پوسٹوں گریڈوں کے چکر میں آئے ہو تم
تو سنے گا نہیں قسم کھائے ہو تم
ارض جنت یہاں آج پائے ہو تم
بوجھ کتنا یہاں کا اٹھائے ہو تم
تجھ کو پروا نہیں کیا وہاں کا بنے
میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے
چاہتیں تیری سبھی وہاں ہوں گی پوری
تو یہاں چاہتا ہے یہاں ہیں ادھوری
شکر کر کچھ ملے جو یہاں پہ ضروری
کم کرو اپنے رب سے جو ہے تیری دوری
ہاں وہاں سرخرو ہو کے کر پھر مزے
میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے
اس کا بن تو یہاں تو جنت جائے گا
ہو گا جنت میں سب کچھ جو تو چاہے گا
وہ ملے گا تجھے جو کہ تو مانگے گا
اہل جنت پہ یہ دور ضرور آئے گا
ہو گا بے خوف وہ جو یہاں پر ڈرے
میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے
اپنی خواہش یہاں پر تو کنٹرول کر
جس سے ڈرنا ضروری ہے تو اس سے ڈر
ہے جہاں باغ جنت وہاں تو بھی چر
اپنے دل پر طلب سے تو لے لے اثر
سن نصیحت کے اشعار شبیر کے
میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے
ٹھیک ہے جی اصل میں کیا کریں جی آج کل ہمارے ارد گرد یہ ساری چیزیں اس طرح ہیں کہ انہوں نے ہمیں جکڑ لیا ہے جکڑ لیا ہے ان سے نکلنے کے لئے بہت بڑی فورس کی ضرورت ہے اور وہ فورس اللہ کی محبت کی ہو سکتی ہے ہاں جی وہ اتنی زیادہ ہو کہ اس کے سامنے یہ ساری چیزیں ٹک نہ سکیں پھر جو ہے ناں اس سے نکلنا ہو سکتا ہے ورنہ ہم جتنا آگے بڑھتے ہیں پیچھے کھنچتے جاتے ہیں ایک قدم ہم آگے چار قدم ہم پیچھے ایک قدم آگے چار قدم پیچھے ہاں جی یہ بہت attractive چیزیں ہیں تو ہم لوگ اس کے اندر گم ہو جاتے ہیں یہ تب مطلب ان سے بچیں گے ہم کہ ہمارا اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط ہو جائے ہاں جی شیطان کی اپنی فکر ہے ظاہر ہے وہ ہمیں ورغلاتا ہے ان چیزوں کو استعمال کرتا ہے تو کیا ہے
مجھے خوب یاد ہے آدم پیدا ہوئے تھے جب
سجدہ اس کو نہ کیا جب تھا نکالا مجھے تب
اس وقت سے مری چھاتی پہ مونگ دلتی ہے
کڑھن آنتوں میں میری بار بار ابھرتی ہے
میرے غصہ کی کیفیت مجھ میں آگ بھرتی ہے
میری نفرت مجھے مجبور اس پہ کرتی ہے
اس کی اولاد کو کامیاب نہ ہونے دوں میں
ان کو تکلیف دوں آرام سے نہ سونے دوں میں
(یہ شیطان کا فکر ہے)
ہر اچھے کام سے ٹوکوں نہ کرنے دوں گا انہیں
ہر برا کام جو ہو گا اس پہ ڈالوں گا انہیں
آخری دم تک کسی حال میں نہ چھوڑوں گا انہیں
کسی ترکیب سے کافر میں بناؤں گا انہیں
پھر بھی فارغ رہوں ان سے اگر مومن نہ رہیں
اور اگر ہوں تو یہ تو ہو میرے دشمن نہ رہیں
یہ ہوں مومن میں گناہوں پہ ان کو ڈالوں گا
ان کی نگاہ میں گناہ ہلکا کر دکھاؤں گا
تفرقے کی راہ پر ان کو چلاؤں گا
ان کو ایک دوسرے کا دشمن میں بناؤں گا
ہے کوشش اپنے بڑوں سے ان کو کاٹ دوں میں
پھر تر نوالہ سمجھ کر ان سب کو چاٹ دوں میں
(ہاں جی پہلے اپنے بڑوں سے کاٹو پھر اس کے بعد جو ان سے پھر کیا کر سکیں گے ہاں جی)
عورت شراب مال و دولت کے یہ رسیا ہو کر
عقل و خرد سے کٹ کر بے دست و پا ہو کر
اپنے کپڑوں سے یہ باہر ہوں بے حیا ہوکر
گندے خیالات اور رسومات میں مبتلا ہو کر
میری جھولی میں پکے پھل کی طرح گر جائیں
ہر طرف میں ہی رہوں ان کے پھر کدھر جائیں
ہاں جی
میں ان کے دین کے دریچوں میں جا کے بیٹھ جاؤں
میں مسجدوں میں خانقاہوں میں جا کے بیٹھ جاؤں
ان کے میں علمی مدرسوں میں جا کے بیٹھ جاؤں
میں ان کے سکولوں کالجوں میں جا کے بیٹھ جاؤں
کہ حق کی بات کبھی بھی یہ نہ سمجھے کوئی
یہ سب ظلمت میں رہیں نور نہ پائے کوئی
جو میرے داؤ میں نہ آئے ان کو چھوڑوں گا کہاں
وہاں پہ لاؤں پیاسا، پانی نہیں ہو گا جہاں
میرے لشکر سے بچ سکے نہ ان کے پیر و جواں
ان کے بال بال کو باندھوں نہ ملے ان کو اماں
میرے یہود و نصاریٰ ہنود کس لئے ہیں
ان مومنوں کو پریشان کریں اس لئے ہیں
(ہاں جی مطلب یہ پوری planning ہے ناں)
ان کو میں اپنے فائدوں سے یوں جدا کر لوں
کہ دین کے کاموں کے غلوں میں مبتلا کر لوں
حق پہ ہیں صرف وہ یہ خیال ان میں پیدا کر دوں
(اب دیکھیں کیسے آج کل یہ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا)
حق پہ ہیں صرف وہ یہ خیال ان میں پیدا کر دوں
باہم وہ لڑپڑیں، پھر مفت میں کیا سے کیا کردوں
یہ حق پہ ہوتے ہوئے حق پہ نہ رہیں گے پھر
یہ خوارج کی طرح میرے ہی بنیں گے پھر
(ہاں جی کیسی پلاننگ ہے ہاں جی)
کچھ کو سنت کی اہمیت میں خوب جتلاؤں گا
محبت آپؐ کی ان کے دل سے نکالوں گا
کچھ کو میں آپ کی محبت پہ ایسے لاؤں گا
سنت چھڑا کے بدعتوں پہ میں چلاؤں گا
(یعنی دونوں کے ساتھ اپنا اپنا کام کچھ کو سنتوں پہ لاؤں گا لیکن محبت نہیں ہو گی ان میں کچھ کو محبت کے اوپر لاؤں گا لیکن سنتوں پہ نہیں چلیں گے ہاں جی
ٹھیک سے غلط ہی نتیجہ برآمد کرنا ہے
کون جانے میرا ان کے دلوں پہ دھرنا ہے
ہاں جی
کچھ کو میں شرک کی مذمت پہ یوں لگاؤں گا
تعظیم شعائر کی میں شرک باور کراؤں گا
مسلمانوں کو کافر ان سے کہلواؤں گا
بغض یہود و نصاریٰ ان سے چھپاؤں گا
(یہود و نصاریٰ سے مخالف، وہ نہیں ہوں گے، مخالفت نہیں کریں گے مسلمانوں کے پیچھے پڑیں گے یہ کافر ہے یہ کافر ہے)
پھر خوارج کا رستہ خود ہی اپنا لیں گے
جوش میں آ کے خود ہی دین سے نکل جائیں گے
سر چڑھ کے بولے جو جادو تو وہ جادو ہے مرا
مرا جادو یوں بعض لوگوں پہ کچھ ایسا چڑھا
کہ اپنے آپ کو انہوں نے میرے بندے کہا
میں ہوں جیسا بھی انہوں نے مگر مجھے چاہا
میں کامیاب ہوں کامیاب ہوں اور خوش ہوں اب
آگ میں ناچوں گا عذاب ان کو ہو گا جب
(ہاں جی یہ اب شیطان کا فکر ہے)
اب فضل رحمٰن (اللہ پاک نے اس کا توڑ کیسے کیا)
کہا شیطان کو خدا نے بس نہ چلے تیرا
ان پہ کسی طرح کہ جو کہ بندہ ہے میرا
میں مومنوں کا ہوں دوست اور ہوں مہرباں ان پر
ہر اچھا کام جو کریں یہ کروں میں اس کی قدر
سارے گناہ کروں معاف توبہ کریں یہ اگر
بات شیطان کے بھائیوں کی مختلف ہے مگر
شیطان اور ساتھ جو اس کے ہیں، سے جہنم بھر دوں
ان سے کٹ کر جو آئے، ان پہ فضل میں کر دوں
نفس میں فجور ہیں تقویٰ کی قابلیت بھی ہے
کتاب اللہ میں ان کے واسطے ہدایت بھی ہے
راستہ دکھلانے کو رسول کی سنت بھی ہے
نمونہ واسطے صحابہ کی جمعیت بھی ہے
مرے رسول و صحابہؓ کے طریقے پہ ہوں جو
ہوں مطمئن نہیں چھو سکتا ہے شیطان ان کو
جو کہ کوشش کرے محکم مجھ کو پانے کے لئے
کھول دوں ان کے لئے میں ہدایت کے رستے
میرے محبوب کی سنت کے مطابق جو چلے
وہ میرا بندۂ خاص وہ میرا محبوب بنے
جو چاہے، نام سے مرے کر دے روشن اپنا دل
میں آساں کر دوں ان کے واسطے اپنی منزل
سورۃ شمس میں اللہ نے کیا ہے یہ خطاب
نفس کیا پاک جس نے ہے وہ یقیناً کامیاب
یہ اگر پاک ہے، شیطان کا ہے بے باک حساب
نہ کرسکا اگر یہ تو اس کی حالت ہے خراب
نفس ہو پاک اور اللہ سے محبت بھی رہے
مکرِ شیطان ہے ضعیف، شبیرؔ کیوں اس سے ڈرے؟
ہاں جی مطلب یہ ہے کہ ٹھیک ہے شیطان کا بڑا کہ مکر بہت زیادہ ہے لیکن اس کے سارے مکر ہمارے نفس کے ارد گرد چل رہے ہیں اگر ہمارا نفس پاک ہو جائے شیطان بالکل فیل ہو جائے گا شیطان کچھ بھی نہیں کر سکے گا تو اصل روٹ کیا ہے ان کے ہاتھ سے گیم نکالو اس کے ہاتھ سے گیم نکالو اپنے نفس کی اصلاح کر لو بس پھر شیطان کچھ نہیں کر سکتا ہاں جی تو یہ اصل میں اس بات کا لب لباب ہے تو اب اگر کوئی سوال ہو تو بے شک کر لو ہاں جی سوال کوئی نہیں ہے تو پھر ہم ذکر کریں گے۔
جی ہاں ہاں ۔۔۔۔۔ بالکل ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں جی
ایک سوال
سوال: مطالعہ کے بارے میں ایک سوال تھا ذاتی طور پر مجھے پہلے یعنی مطالعہ سے فائدہ ہوا میں (((۔۔۔۔۔۔۔))) تو اس وقت پہلے سے پھر صحیح لوگوں اور صحیح تصوف کو، اس کی طرف ہوا اس وقت سے فائدہ بھی (((۔۔۔۔۔۔۔۔))) ابھی آپ سے تعلق کے بعد مجھے مطالعہ کا شوق تو ہے وہ یعنی بہت زیادہ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ اس سے مجھے فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس سے کبھی ضروری چیزیں رہ جاتی ہیں کبھی یعنی (((۔۔۔۔۔۔))) یا (((۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔))) معمولات اور ذہن بھی زیادہ ہو تو تو ویسے اس یعنی نفس جو ہے وہ خیال آتا ہے کہ اس سے یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ (((۔۔۔۔۔۔))) وقت زیادہ اچھی طرح (((۔۔۔۔۔۔))) تصور میں لائیں، کچھ پڑھا ہو اس کے بغیر جو ہے، تو اس کے علاوہ کوئی مطالعہ کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں ویسے ہی،
جواب: دیکھیں ہم نے جو بزرگوں سے سنا ہے وہ عرض کر لیتا ہوں باقی تو ظاہر ہے ہر ایک کا اپنا اپنا حال ہے مطالعہ دو قسم کا ہے ایک معلوماتی مطالعہ ہے مطلب یہ ہے کہ انسان معلومات کرتے ہیں جیسے اپنے انجینئرنگ کے ڈاکٹری کے دوسری چیزوں کے معلومات کرتے ہیں اور دنیا کے معاملات اس سے اپنے سنبھالتے ہیں یا یوں سمجھ لیں اپنے شرعی امور کا معلومات کرتے ہیں جیسے نماز کیسے پڑھیں روزہ کیسے رکھیں شرعی چیزوں میں یہاں تو مطالعہ بہت ضروری ہے مطلب ظاہر ہے وہ تو ہماری requirement ہے جب تک ہم جانتے نہیں ہوں تو ہم کیسے عمل کر سکیں گے جہاں تک concepts کے clear کرنے کی بات ہے اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ دین کو سمجھنے کی بات ہے اصل اس میں یہ ہے کہ اگر کسی کا اپنے شیخ کے ساتھ تعلق اور اس کے ساتھ اپنا رابطہ مضبوط ہو ان کا تو وہ اس کے لئے best چیز ہوتی ہے کیونکہ شیخ کے دل پر وہ چیز مرید کے لئے طاری کر دی جاتی ہے جو اس کے لئے best ہوتی ہے وہ آپ لاکھوں مطالعوں سے بھی نہیں حاصل کر سکتے جتنا کہ اس شیخ کی مجلس سے آپ کو جس وقت مطلب اللہ تعالیٰ چاہیں تو حاصل ہو جاتا ہے ٹھیک ہے ناں
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
جیسے فرماتے ہیں ناں تو وہ تو وہ ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ اگر ایسا میسر نہ ہو مثلاً کسی وقت یا ایسا وقت میں جس وقت وہ میسر نہ ہو تو شیخ کی guidance میں جو مطالعہ ہوتا ہے کہ وہ بتائے جو کہ یہ یہ کرو تو اس میں پھر وہ نورانیت آ جاتی ہے یعنی اس کے کوشش سے آجائے، جب وہ بتائے ناں کہ اب یہ پڑھو کیونکہ اس میں بھی اللہ کی طرف سے رہنمائی ہوتی ہے کہ اس کے لئے کون سی چیز زیادہ بہتر ہے جیسے مجھے حضرت نے تمام چیزیں پڑھنے سے روک دیا تھا فرمایا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے مواعظ و ملفوظات کی اجازت ہے باقی کسی چیز کی اجازت نہیں ہے یعنی دینی جو سمجھنے کی جو چیزیں ہیں ناں حالانکہ بڑی اچھی چیزیں موجود تھیں اور پھر یہ بھی فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ غلط ہے یہ چیزیں غلط ہیں نہیں کبھی کبھی ڈاکٹر ملائی بھی روک دیتے ہیں مریض کے لئے تو پتا چلا کہ مسئلہ مجھ میں تھا تو اسی طریقے سے مطلب یہ ہے کہ جب شیخ بتاتا ہے تو اس میں اس کے لیے maximum فائدہ ہوتا ہے تو مطالعہ یا تو کرے شیخ کے پاس یا پھر یہ کرے کہ یعنی مطالعہ سے مراد یہ ہے کہ ان کی باتیں سنیں وہ نہیں تو پھر وہ اس کی جو guiding system ہے اس کے تابع ہو کر اپنا مطالعہ کرے تو ٹھیک ہے پھر وہ صحیح ہے اور جتنا کہے، جتنا کہے اور جیسا کہے اس کے مطابق رہے تو پھر ان شاء اللہ العزیز اس کے برکات بھی حاصل ہو جاتے ہیں
اچھا تو پھر ذکر کرتے ہیں کیونکہ میرے خیال میں معاملہ ذرا لمبا ہو گیا