اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 1:
Honorable شیخ,
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی
It’s really painful to tell you that my فجر prayer got قضا on 17th of May because I couldn’t wake up on time. Then just as you advised, I offered صلوۃ قضا and صلوۃ توبہ and kept fast for three days also but حضرت جی it's sorrowful that again on 24th I couldn’t wake up for ۔فجر
اِنَّا لِلهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ
جواب:
یہ کہہ رہے ہیں کہ 17 مئی کو ان کی فجر کی نماز رہ گئی تھی، اس کے بعد انہوں نے قضا نماز پڑھی اور تین روزے بھی رکھے تھے۔ لیکن پھر 24 تاریخ کو دوبارہ نماز قضاء ہو گئی، اس کے بارے میں وہ پوچھ رہے ہیں۔ یقیناً اب جو راتیں شروع ہوئی ہیں یہ چھوٹی راتیں ہیں۔ چھوٹی راتوں میں نمازوں اور نیند کے بارے میں بڑا محتاط ہونا پڑتا ہے۔ نہ نیند کم ہونی چاہیے اور نہ نمازیں چھوڑنی چاہئیں کیونکہ نیند کی کمی سے خشکی آتی ہے اور اس سے پھر مسائل اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور نماز کا چھوڑنا تو ایسا ہے جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی کی نماز رہ جائے تو ایسا ہے جیسے کسی کا سارا مال اور سب اہل و عیال تباہ ہو جائیں۔ ایک روحانی نقصان ہے اور ایک جسمانی نقصان ہے۔ اس کے لئے کچھ منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ نہ جسمانی نقصان ہو اور نہ روحانی نقصان ہو۔ چنانچہ وقت پر سویا جائے بالخصوص خواتین کو چونکہ عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھنی ہوتی تو جیسے ہی وقت داخل ہو، ان کو فوراً نماز پڑھ کے سونا چاہیے۔ مرد حضرات کو بھی کھانا عشاء کی نماز سے پہلے کھانا چاہیے تاکہ عشاء کی نماز کے فوراً بعد سونے کے لئے وقت مل جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ صبح جب اٹھیں تو نماز پڑھ کے اشراق کے بعد پھر سو سکتے ہیں۔ یہی ٹائم جو رات کو پورا نہیں ہو سکا وہ یہاں پورا ہو جائے گا۔ اگر کوئی ڈیوٹی پے یا کالج وغیرہ جانے والا ہو تو اس کا ٹائم بھی تقریباً سات بجے کے لگ بھگ ہو گا۔ اس سے پہلے پہلے گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ آرام کیا جا سکتا ہے۔ اگر صبح ڈیڑھ گھنٹہ آرام ہو جائے اور رات میں ساڑھے چار گھنٹے ہو جائے تو یہ چھ گھنٹے بن جاتے ہیں جو نیند کی کم سے کم مقدار ہے۔ بعد میں اگر دفتر سے آئے یا کالج سے اگر کچھ آدھا پونا گھنٹہ آرام کا مل گیا تو مزید بونس ہے۔ لیکن چھ گھنٹے سے کم نیند نہیں ہونی چاہیے اور آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جہاں تک الارم لگا کے اٹھنے کی بھی بات ہے تو آج کل بڑے اچھے اچھے الارم مارکیٹ سے مل جاتے ہیں۔ صرف موبائل کے الارم پر اکتفا نہ کریں۔ موبائل کا الارم نسبتاً کم آواز کا ہوتا ہے۔ الارم ایسا ہو جس کی آواز کرخت اور تیز ہو جس سے انسان کی نیند جلدی کھل جاتی ہو کیونکہ اگر میٹھی سریلی آواز ہو تو اس کا بعض دفعہ انسان عادی ہو جاتا ہے اور پھر نیند نہیں کھلتی بلکہ مزید آتی ہے۔ چنانچہ کرخت اور تیز آواز ہو جو کانوں میں پہنچے تو دوبارہ آدمی نہ سو سکے۔ اس کو پانچ پانچ منٹ کے وقفے سے پورے گھنٹے کے لئے لگائیں تاکہ بار بار بجتے رہیں۔ اگر ہزار روپے کا بھی مل جائے تو سستا سودا ہے، نماز سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ نماز بہت بڑی چیز ہے۔ بہر حال اس کے اوپر خرچ کر لیں ان شاء اللہ آپ کو اللہ تعالیٰ بہت اجر دیں گے۔ جو دوبارہ قضا ہوئی ہے اس پر بھی تین روزے رکھ لیں۔ تین روزے ہم اس لئے رکھواتے ہیں تاکہ نفس کو سرزنش ہو اور دوبارہ ایسی جرأت نہ کرے اور اگر شیطان یہ سوچے کہ یہ ایک دفعہ رکھے گا دوبارہ نہیں رکھے گا اور دوبارہ قضا کروا دے گا۔ لہٰذا یہ روزے نفس کی سرزنش ہیں اور صلوۃ توبہ شیطان کے لئے سرزنش ہے۔ اس طریقے سے ہم اس نقصان سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ اگر کسی کا تہجد کا مسئلہ ہو تو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد کم از کم چار رکعت پڑھ لیا کرے کہ اگر تہجد کے لئے نہ اٹھ سکے تو کم از کم اس کی تہجد ضائع نہ ہو۔ یعنی اس کو ان شاء اللہ کم از کم minimum درجے میں شامل کر دیا جاتا ہے۔
سوال 2:
My parents didn’t accept my request to allow me to spend four months in خانقاہ. My father talked to امام of masjid and the امام said that I am useless and strain on the name of اہل اللہ in hidden words. Listening to this truth about myself, I got hurt badly and cried a lot. The truth is I am بیکار . I have no education, no job, no good deeds. I don’t allow sharia in my ظاہر and in my باطن. Yet I am stain on the name of the سلسلہ. I got so desperate that I wanted to commit suicide if it was not حرام. I am منافق as I desired for higher ranks in front of اللہ but I don’t even act on the single step. Million times I have broken my توبہ and useless in the eyes of the people useless in the eyes of اللہ. What should I do? Where should I go? There is no place for me. I have no other choice but to submit and surrender completely in front of you حضرت. I have hurt you many times. I am on my knees in front of you. Take me out of this cruel world. I’ve had enough of this impurity حضرت. Make me yours! I don’t deserve even to ask this. Give me a place in your shoes. My heart is filled with garbage. My نفس is like a pig. My last and only refuge in this world is you. I am of no use to you, not even better than your scarf that is so lucky to be with you all the time. My tears in front of اللہ are not of any use and I am not yours.حضرت Jews and Hindus are better than me. At least their ظاہر and باطن are the same. I will burn the last step of hell if not saved by اللہ. Nine years of my life after meeting you I have wasted. I could have had many of your blessings that time after I got to the destination. I am loser of this world and ۔آخرۃ
نفس and شیطان have made it very difficult. I swear to اللہ this is not because of my depression as the Doctor says to me. I am Ok and should I wait for the time when my family will throw me out of home and I will lose the shed of my head ۔حضرت
جواب:
یہ آج کل کے دور کے گھمبیر مسائل ہیں کیونکہ خیر کے ذریعے سے والدین روکتے ہیں۔ اگر بچے ویلنگ کرتے ہیں تو ان کو نہیں روکتے، اگر سینما اور غلط جگہوں پہ پھرتے ہیں تو ان کو نہیں روکتے، لیکن کسی خانقاہ میں جانے سے روکتے ہیں یا کسی دینی سرگرمی سے روکتے ہیں۔ ظاہر ہے شیطان اس کے پیچھے ہوتا ہے۔ ہم اس میں اس لئے کچھ نہیں کر سکتے کہ والدین کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو والدین سے چھین نہیں سکتے البتہ ان کے لئے دعا کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس اس پر ہوتا ہے کہ والدین کو جاننا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ جس میں بچوں کی خیر ہو ان کو وہ کرنے دیا جائے۔ آج کل نہ خود تربیت کر سکتے ہیں نہ تربیت کرنے دیتے ہیں۔ خود تربیت کر سکتے تو بڑی اچھی بات تھی پھر کسی اور کی ضرورت ہی نہ تھی۔ لیکن اگر خود تربیت نہیں کر سکتے تو جہاں اس کی مناسبت ہو اور تربیت ہو سکتی ہو وہاں کیوں نہیں چھوڑا جاتا؟ یہ آج کل ایک مشکل مسئلہ ہے لیکن بہر حال اس کو ہم لوگ حل نہیں کر سکتے کیونکہ والدین کا مقام اونچا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔ ایک نفسیاتی ماہر نے کہا تھا کہ معاشرے میں اگر کوئی پاگل ہے تو اس کو پاگل نہ کہو بلکہ اصلی پاگل اس کے پیچھے کوئی اور ہوتا ہے جس نے اس کو پاگل بنایا ہوتا ہے۔ یعنی ان کو اتنا زیادہ hurt اور پریشان کیا ہوتا ہے کہ وہ برداشت نہیں کر پاتا اور پاگل ہو جاتا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ کیسے والدین ہیں جو بچوں کو اچھائی سے روکتے ہیں۔
ایک کیپٹن صاحب میرے پاس آیا کرتے تھے ما شاء اللہ بڑی اچھی طبیعت کے تھے۔ ان کے والدین ان کے سخت خلاف تھے وہ ان سے کہتے تھے کہ جینز پہنیں یا American punks کی طرح کا لباس پہنیں حیرت ہوتی کہ ایسے بھی والدین ہوتے ہیں جو بچوں سے ایسے کہیں؟ لیکن بہر حال یہ میڈیا کے اثرات اور کافرانہ نظاموں کے اثرات آج کل ہمارے معاشرے کے ناسور ہیں۔ بچوں میں احساس ہو جاتا ہے چونکہ فریش مائنڈ ہوتا ہے تو ان کو سمجھ آ جاتی ہے کہ ہمارا فائدہ کس چیز میں ہے اور نقصان کس چیز میں ہے؟ لیکن بوڑھے لوگ جو بگڑ چکے ہوتے ہیں ان کی اصلاح بڑی مشکل ہوتی ہے اور ان کو سمجھانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید نوجوان بچہ تھا۔ اس کے والدین مولانا صاحب کے پیچھے پڑ گئے۔ کبھی کہتے مولانا! اس سے یہ کہہ دو، اس سے وہ کہہ دو۔ مولانا صاحب آخر تنگ ہو گئے حالانکہ مولانا صاحب بڑے سینہ کے بزرگ تھے اور بہت ہی زیادہ نرم دل تھے اور آخری حد تک لوگوں کے ساتھ جانے والے تھے لیکن ایک حد ہوتی ہے۔ اخیر میں حضرت نے ان سے فرمایا کہ میں نے یہ کبھی نہیں سنا کہ کسی شیخ سے اگر کوئی لڑکا بیعت ہو جائے تو اس لڑکے کے والد سے اس کا شیخ بیعت ہو جائے۔ لہٰذا آپ اپنے بیٹے کو لے جائیں، آ گے آپ کے بچے کی قسمت ہے۔
ایک نوجوان کا میرے ساتھ تعلق ہو گیا۔ ان کے والد صاحب نے چونکہ دوسری شادی کی تھی تو ان کی بچوں کے ساتھ ان بن تھی۔ جب دوسری شادی ہوتی ہے تو معاشرے میں مسائل ہوتے ہیں۔ وہ لڑکا میرے پاس آتا تھا الحمد اللہ اس کو بڑا فائدہ ہوا۔ اس کے والد میرے پیچھے پڑ گئے کہ آپ اس کو یہ کہیں اور آپ اس کو وہ کہیں، وہی مولانا صاحب والی سٹوری دہرائی جانے لگی۔ مولانا صاحب کے اس واقعہ سے مجھے چونکہ اندازہ تھا تو اس تجربے سے میں نے فائدہ اٹھایا۔ میں نے اس کے والد سے کہا: میرے پاس آنے سے اس کو فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا: بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ میں نے کہا: تھوڑا انتظار کر لیں ان شاء اللہ اور بھی ہو جائے گا۔ اگر وہ میرے ساتھ آپ کو دیکھے تو چونکہ آپ کا آپس میں مسئلہ ہے تو اس کا مجھ پر بھی اعتماد ختم ہو جائے گا اور اس کے ٹھیک ہونے کا امکان ختم ہو جائے گا۔ کیا آپ مجھ سے اس کو کاٹنا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا: میں یہ نہیں چاہتا۔ میں نے کہا: بس پھر صبر کریں اور مجھے جو کرنا ہے وہ کرنے دیں یا پھر خود کر لیں۔ اگر مجھ سے کروانا ہے تو پھر میں اپنے طریقے سے کروں گا، آپ کے طریقے سے نہیں کروں گا۔ اگر آپ بچے کو لے جانا چاہتے ہو تو لے جاؤ۔ الحمد اللہ اس کو بات سمجھ آ گئی۔ اللہ جل شانہ نے اس لڑکے کو بہت فائدہ پہنچایا ما شاء اللہ اب وہ والد اسی بچے پہ فخر کر رہے ہیں۔ اس طرح shortsightedness زیادہ ہوتی ہے۔
در اصل ہر انسان کا IQ level مختلف ہوتا ہے۔ اب ایک IQ سیکنڈ ڈویثنر کا ہے وہ جہاں پر بھی ہو گا سیکنڈ ڈویژن لے گا، آپ اس کو زیادہ بہتر کر سکتے ہیں۔ لیکن جتنا IQ اس کا ہے اتنا ہی IQ اس کا ہو گا، اس سے آپ بڑھا نہیں سکتے کیونکہ IQ can never change وہ جتنا اللہ نے دیا ہے اتنا ہی ہو گا۔ اس کا تجربہ اور اس کی سٹڈی بڑھا سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص سیکنڈ ڈویژنر IQ کا ہو اور وہ کسی اللہ والے کے پاس آ جائے تو والدین کی توقع یہ ہوتی ہے کہ اب وہ ٹاپ کرے ورنہ پھر یہ بزرگ ٹھیک نہیں ہے۔ چلو اس کی Previous history دیکھو، اسی کے اوپر فیصلہ کر لو۔ اگر اس سے کچھ improve ہوا ہے تو شکر کرو۔ یعنی اس وقت آپ کیسے unnaturally توقعات لگا لیتے ہیں۔ اگر کوئی سیکنڈ ڈویژنر ہے تو اس کو آپ فرسٹ ڈویژنر کیسے لا سکتے ہیں؟ اور فرسٹ ڈویژنر ہے تو اس کو ٹاپ کیسے کروا سکتے ہیں؟ ہر ایک کا اپنا اپنا حساب ہوتا ہے۔ Previous history دیکھو اگر اس سے improvement ہے تو شکر ادا کرو۔ لیکن شیطان ان کو اس طرح نہیں کرنے دیتا۔ وہ کہتا ہے: اگر یہ اللہ والوں کے پاس آتا ہے تو یہ تب ممکن ہے جب وہ اس کو کوئی کام وغیرہ دے دیں۔ اسی لڑکے کی بات ہے کہ ان کو والدین نے کہا: اگر شیخ صاحب آپ کو وہاں ملازم رکھ لیں اور پیسے دیتے ہوں تو ٹھیک ہے پھر چلے جاؤ۔ جب کسی سپیشلسٹ کے پاس جب جاتے ہیں تو ان کو فیس دیتے ہیں اور ہم سے فیس لیتے ہیں۔ یہ الٹی گنگا بہہ رہی ہے یا نہیں؟ لیکن شیطان ایسے ہی کراتا ہے۔ میں نے یہ بات اس لئے کی کہ دوسرے لوگوں کے لئے عبرت ہو جائے۔ ان کے ساتھ ہم کچھ نہیں کرتے، ان کے لئے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔ اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں اور پھر افسوس کرتے ہیں اور روتے ہیں۔ پھر رونا فضول ہے۔ خیر کی صورتیں اگر آپ خود ہی بند کر لیں تو پھر جتنا مرضی روتے رہیں۔ انسان کو practical ہونا چاہیے، جس چیز سے فائدہ ہو اس کو حاصل کرتے رہنا چاہیے اور جس چیز سے فائدہ نہ ہو اس کو چھوڑنا چاہیے۔
سوال 3:
اگر کوئی کسی کی کسی بے بنیاد بات کو دلیل بنا کر اس کی بے عزتی کر دے اور جس کی بے عزتی کر رہا ہو وہ اس کی توقع بھی نہ کرتا ہو کیونکہ بے عزتی کرنے والا خاندان سے باہر کا ایسا بندہ ہو جس کے ساتھ ابھی کوئی معاملہ طے ہونا ہو۔ ایسی صورت میں بندے کو غصہ آتا ہے لیکن اس وقت تکلیف کی وجہ سے وہ کوئی بات نہیں کر سکتا کیونکہ اس وقت سوچ اور سمجھ متاثر ہوئی ہوتی ہے لیکن بعد میں انسان کو تکلیف کے ساتھ یہ بھی خیال آتا ہے کہ میں اس وقت یہ کہہ دیتا وہ کہہ دیتا تو اس کی بھی بے عزتی ہو جاتی۔ کیا یہ کینہ کہلائے گا؟ اس حال میں کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
کسی کی بھی بے عزتی نہیں کرنی چاہیے اور بے بنیاد بات پہ بے عزتی کرنا بہت ہی خطرناک بات ہے لیکن جب غصہ آ جاتا ہے تو پھر انسان جائز و نا جائز کو نہیں دیکھتا اور عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ اس وجہ سے پھر یہ کام ہو جاتا ہے۔ باقی اگر کسی بے بنیاد بات پر کسی کی بے عزتی ہو رہی ہو تو دکھ اور تکلیف یقیناً ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿لَا یُحِبُّ اللهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ (النساء: 148)
ترجمہ: ”اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے، الا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو“
جس پر ظلم کیا جاتا ہے اس کو بولنے کا حق ہے۔ اگر وہ اس حق کو حاصل کر رہا ہے تو اس کو کوئی ملامت نہیں کرے گا۔ اس سے زیادتی نہ کرے زیادتی سے مراد جتنا اس کے ساتھ برا ہوا ہے اتنا وہ اپنی صفائی میں کہہ سکتا ہے یا اس کے برابر جواب دے سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ معاف کر دے تو یہ عظمت کی علامت ہے اور اس کو اس معاف کرنے کا اجر ملے گا۔ بہر حال اگر اس کو یہ خیال آتا ہے تو یہ کینہ نہیں ہے۔ کینہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان اس کو نقصان پہنچانے کے لئے پلاننگ شروع کر دے۔ مثال کے طور پر دل میں نقصان پہنچانے کا ارادہ کر لے کہ اب اگر ایسا موقع آیا تو میں اس کے ساتھ یہ معاملہ کروں گا۔ اس کو ہم کینہ کہتے ہیں۔ لیکن دل میں نا راض ہو جانے کا اور اس کے بارے میں بولنے کا اس کو حق حاصل ہے اور اگر وہ برابر کا بدلہ لے سکتا ہے تو اس کا حق بھی حاصل ہے لیکن ایسی چیزوں میں برابری کی کیلکولیشن بڑی مشکل ہے۔ چنانچہ انسان اس کے ساتھ معاملہ صاف کر لے۔ اس کو صورت حال بتا دے، اس کو سمجھا دے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی تھی، اصل بات ایسی نہیں تھی اور آپ کو excuse کرنا چاہیے۔ یا کسی سے کہلوا دے تاکہ اس کو احساس ہو جائے کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔
سوال 4:
اگر موت کا خوف زیادہ ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
زیادہ ہونے سے کیا مراد ہے؟ اس کو برداشت کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر اس کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس کی anxiety اتنی بڑھ جائے کہ اس کے لئے جسمانی نقصان کا باعث بن جائے تو اس کا وہ علاج کر سکتا ہے کیونکہ یہ اعصاب کی کمزوری کی علامت ہے۔ بعض لوگوں کے اعصاب کمزور ہوتے ہیں وہ چھوٹے خوف کو بھی برداشت نہیں کر سکتے اور بعض کافی بڑی بڑی چیزوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ اس کے لئے ان کو کچھ ایسے minerals اور vitamins لینے چاہئیں جو ان کے اندر resistance کو پیدا کریں کیونکہ موت کا خوف براہ راست برا نہیں ہے بلکہ اچھا ہے، اس میں انسان کے اندر آخرت کی تیاری کی صورت بنتی ہے۔ لیکن اگر اس سے برداشت نہ ہو رہا ہو اور اگر اس نے موت کا کوئی مراقبہ وغیرہ کیا ہے تو پھر اس کے لئے یہ منع ہے بلکہ وہ مراقبہ حیات کرے۔ مراقبہ حیات اس کو کہتے ہیں کہ آخرت کی زندگی کے بارے میں سوچے کہ وہ کیسی مزیدار ہو گی۔ اگر اس نے مراقبہ موت نہیں کیا بلکہ خود ہی کسی خواب وغیرہ کی وجہ سے ہو گیا تو پھر وہ minerals وغیرہ اور vitamins لے اور بالخصوص ڈاکٹر سے بھی consult کر سکتا ہے۔ میں ڈاکٹر نہیں ہوں کہ میڈیسن suggest کر دوں لیکن ڈاکٹروں سے جو سنا ہے وہ بتا دیتا ہوں۔ lexotanil کی ایک ٹیبلٹ اس کے لئے مفید ہے جس سے اس کی anxiety کنٹرول میں آ جائے اور اس کو کم از کم damage نہ کرے کیونکہ اس سے adrenaline release ہوتا ہے اور adrenaline کا زیادہ release ہونا صحت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ چنانچہ adrenaline بچانے کے لئے اس کو وہ lexotanil لینی چاہیے۔ تیسری بات جو بہت بہترین ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی محبت کے اشعار سنیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہو جائے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات مشکل نہ رہے۔ یعنی اس کے ساتھ محبت ہو جائے۔ یہ تین کام میں نے بتا دیئے ہیں کہ ایک تو مراقبہ موت نہ کرے بلکہ مراقبہ حیات کرے۔ دوسرا اس کا کچھ علاج کرے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کو پیدا کرنے والے اشعار سنیں اس سے ما شاء اللہ کیفیت اعتدال پے آ جائے گی۔
سوال 5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت میرا نام فلاں ہے اور میں عرصہ سات سال سے آپ سے بیعت ہوں۔ ان سات سالوں میں بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ لائف کبھی tract پر اور کبھی detract ہوتی رہی۔ البتہ پچھلے ایک سال سے ما شاء اللہ کافی بہتری ہے۔ میں نے آپ سے فلاں جگہ پر بیعت کی تھی۔ چند مرتبہ خیابان بھی آنے کا موقع ملا لیکن لائف میں consistency نہیں بن پا رہی۔ بہت سی اور باتیں بھی ہیں جو آپ سے ڈسکس کرنا چاہتا ہوں مگر آپ کے معمولات میں خلل نہ آئے اس لئے مختصر کروں گا۔ دعاؤں کا طالب۔
جواب:
صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔ بہر حال اگر ان کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ میں نے بہت وقت ضائع کیا ہے تو یقیناً مزید ضائع نہیں کرنا چاہیے اور یہاں پر موقع تو ہر وقت ہوتا ہے الحمد للہ خانقاہ ہوتی ہی اس لئے ہے لہٰذا وہ خانقاہ میں آ جائے۔ البتہ اپنی مرضی کے مطابق کام نہ کریں یہاں خانقاہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کر لیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بیمار ہوتا ہے اور اپنے علاج کے لئے ہسپتال جاتا ہے۔ ہسپتال والوں پہ وہ اپنی مرضی مسلط نہیں کرتا بلکہ ہسپتال کے قوانین اور قواعد کے مطابق اپنا علاج کرواتا ہے۔ اگر اس کے لئے کوئی تیار ہے تو خانقاہ کے دروازے ہر وقت اس کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ ہمارے پروگرام عصر سے لے کر مغرب تک روزانہ کی بنیاد پر گرمیوں میں چل رہے ہیں۔ ایسے موقعہ پہ آ جائیں کہ ملاقات بھی ہو جائے اور مناسب موقعہ ملنے پر ان شاء اللہ بات بھی ہو جائے گی۔ یہ سارے مواقع available ہیں۔ بس صرف ایک موٹی سی بات ہے کہ خانقاہ میں کوئی اپنی مرضی مسلط نہ کرے کہ آپ مجھے اس وقت ٹائم دے دیں، کیونکہ خانقاہ میں اور معمولات ہوتے ہیں، ان کے مطابق سارا نظام چلتا ہے۔ کسی ایک آدمی کے لئے تمام نظام تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔ اگر ہر ایک نظام تبدیل کروانا چاہے گا تو کوئی کام ممکن ہی نہیں رہے گا۔
انسان کی لائف بہت اہم ہے اور لائف میں The life hereafter بہت ہی زیادہ اہم ہے۔ اگر خدا نخواستہ وہ لائف خطرے میں پڑ جائے تو اس کے لئے یہاں کی لائف میں بہت کوشش کرنی ضروری ہے۔ اس کے لئے اولین فرصت میں آپ یہاں تشریف لائیں ان شاء اللہ العزیز آپ کی مناسب طریقے سے خدمت کی جائے گی۔
سوال 6:
السلام علیکم, I hope you are enjoying good health and may اللہ سبحانہ و تعالیٰ shower his unending blessings upon you! حضرت جی from the last one week I have been having very strange feelings and شیطان وساوس which are consistently giving me very uneasy feelings. I’m not paying much attention to them but still deep down, I am very scared. Whenever they come, I recite درود پاک and استغفار. I need your urgent guidance. Please tell me how to overcome these. Please remember me in your prayers. I badly need them. Waiting desperately for your reply وعلیکم.
جواب:
وساوس دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وساوس اعتقادی ہوتے ہیں اور ایک وساوس کسی برے عمل کی طرف دعوت ہوتے ہیں۔ اعتقادی وساوس کے بارے میں انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی طرف توجہ بالکل نہ کرے، ان کا یہی علاج ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بجلی کی تار کو کوئی ہٹانے کے لئے بھی ہاتھ لگائے گا تو وہ اس کو پکڑ لے گی۔ لہٰذا ان کے لئے نہ وظائف کی ضرورت ہے، نہ کسی اور چیز کی بس ان کو نظر انداز کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے بندھا ہوا کتا بھونک رہا ہو تو انسان کو کچھ نہیں کہہ سکتا، آرام سے اس کے پاس سے گزر جائے اور اس کی پرواہ نہ کرے۔ لیکن اگر برے اعمال کی طرف وساوس ہوں تو پھر ان کی بات نہ مانی جائے نہ سنی جائے۔ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم پڑھا جائے اور اپنے آپ کو کسی اچھے کام کے اندر مصروف رکھا جائے۔ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم پڑھنا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ان وساوس کے شر سے محفوظ رکھے کیونکہ وساوس اگر نفس کی بنیاد پر ہوں تو وہ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ انسان کو عمل پر مجبور کرتے ہیں۔ نفس کی کسی خواہش کو انگیخت کرنا، شیطان اس کے لئے کچھ راستہ بناتا ہے اور اس کی طرف کوئی اشارہ دیتا ہے۔ ایسے موقعہ پہ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم کہہ کر کسی اور طرف سوچنا شروع کر دے، اس کے لئے کوئی ایسی چیز انسان کے پاس ہر وقت ہونی چاہیے جس میں انسان گم ہو سکے۔ مثلاً میرے پاس Mathematics ہے جس میں پناہ لیتا ہوں، اس کا کوئی کلیہ اپنے لئے ڈھونڈا ہوتا ہے اس کے اندر گھس جاتا ہوں۔ اس طریقے سے اپنے لئے کوئی چیز ڈھونڈے۔ مستحب امور میں ہو تو بہت اچھی بات ہے لیکن اگر مباح چیز ہو تو بھی کافی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز پھر وساوس نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ بہر حال میں دعا کرتا ہوں اللہ جل شانہ آپ کی مدد فرمائے اور اس مسئلہ میں آپ کو پریشانی سے بچائے۔
سوال 7:
کچھ دنوں سے میرے ذہن میں یہ بات آ رہی ہے کہ میرے معمولات اور خانقاہ اور آپ کے ساتھ رابطہ اصل ہے اور ان پر میرے باقی کاموں کا انحصار ہے۔ اگر ان کی طرف توجہ کم ہو گی تو باقی کام بھی متاثر ہوں گے۔ اس وجہ سے مجھے ان پر بھر پور توجہ رکھنی چاہیے لہٰذا میں اس وقت سے کوشش کر رہا ہوں کہ اپنے معمولات کے اندر جان ڈالوں اور آپ کے ساتھ رابطہ اور خانقاہ کے ساتھ رابطہ بڑھاؤں لیکن تقریباً اسی وقت سے تہجد کے لئے اٹھنے میں کوتاہی ہو رہی ہے اور کافی ناغہ ہو چکا ہے۔ میرا یہ خیال اگر غلط ہے تو صحیح خیال کی طرف کیسے جاؤں؟ ذکر اور لطیفہ قلب اور لطیفہ روح کے مراقبہ میں توجہ اچھی ہوتی ہے جب کہ مراقبہ عبدیت میں شروع شروع میں توجہ ہوتی تھی لیکن اب بہت کم ہوتی ہے۔ آپ کے فرمائے ہوئے طریقے کے مطابق مراقبہ عبدیت کر رہا ہوں۔ ایک دفعہ مراقبہ کے اندر محسوس ہوا کہ جیسے میرے ارد گرد سانپ گھوم رہا ہے۔ میں نے سانپ محسوس کیا کہ وہ سانپ میرے دل میں ہے یا غالباً مراقبہ لطیفہ قلب کے وقت اور 13 مئی کو جب مراقبہ عبدیت کر رہا تھا تو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ میرے پاس ایک پیالہ ہے جس کی ایک طرف ٹوٹی ہوئی ہے۔
جواب:
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ معمولات اور خانقاہ کے ساتھ رابطہ اصل چیز ہے اور ان پر باقی کاموں کا انحصار ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور اگر اس کی طرف توجہ کم ہوتی ہے تو باقی اچھے کام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان پر توجہ رکھنی چاہیے۔ لیکن جیسے انہوں نے ارادہ کیا تو شیطان نے اس کو اس چیز سے منع کرنے کے لئے پورا زور لگا دیا۔ اگر وہ زور لگاتے ہیں تو پھر ہمیں بھی زور لگانا چاہیے اور اس کے لئے بندوبست کرنا چاہیے تاکہ وہ ہمیں گمراہ نہ کر سکے۔ اسی سے انسان کو اندازہ کرنا چاہیے کہ شیطان کو کس چیز کی زیادہ فکر ہے؟ یہی فکر ہے کہ کسی طریقے سے اصلاحی کام کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ یعنی اس کو آپ کی تہجد کی بھی پرواہ نہیں ہے، اس کو آپ کی نمازوں کی بھی پرواہ نہیں، اس کو آپ کے حج کی بھی پرواہ نہیں۔ وہ ان کو کسی وقت بھی کسی طریقے سے بھی خراب کر سکتا ہے۔ لیکن آپ کے اصلاحی تعلق کی اس کو بہت پرواہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اگر آپ وہ کام کر بھی لیں پھر بھی خراب ہو جائیں گے اور اگر خانقاہ میں رہیں گے یا خانقاہ کے ساتھ تعلق ہو گا یا معمولات ٹھیک کریں گے تو ما شاء اللہ جتنا بھی ہو گا بچے رہیں گے۔ اس وجہ سے وہ اس طرف آنے نہیں دیتا۔ بہر حال آپ اس کو واپس نہ کریں لیکن اس کا سد باب کر لیں۔ ذکر اور لطیفہ قلب اور لطیفہ روح کے مراقبہ میں جو توجہ اچھی ہوتی ہے، تو یہ ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ اور بہتر فرمائے۔ آپ نے کہا کہ: مراقبہ عبدیت میں شروع شروع میں توجہ ہوتی ہے لیکن بہت کم ہوتی ہے۔ اصل میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہم اللہ کے سامنے surrender کر لیں۔ یعنی ہم اللہ تعالیٰ پر اپنا کوئی حق نہ سمجھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے اوپر حق سمجھیں اور یہی مراقبہ عبدیت ہے، اسی کے بارے میں غور کرنا ہے۔ باقی مراقبات کے کشفوں کے بارے میں ہمیں اتنا زیادہ deep میں نہیں جانا چاہیے بلکہ depth میں جانا چاہیے۔ البتہ ہمارے دل کے اندر جو سانپ ہے جس کا مطلب دنیا کی محبت ہے اس کو دور کرنا چاہیے۔ اور ایک طرف ٹوٹے ہوئے پیالے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز ہے جہاں سے آپ کے پاس جو روحانی material آتا ہے وہ slip ہو جاتا ہے۔ یعنی کوئی ایسی کمزوری ہے جس کو آپ maintain نہیں کر سکتے، اس کی حفاظت کا بندوبست کریں اور اپنی روحانیت کا بندوبست کریں جتنی بھی روحانیت ملے وہ drain نہ ہو۔ میرے خیال میں یہی اس کا مطلب ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اپنا تعلق نصیب فرمائے۔
سوال 8:
شرعی احکامات اور قوانین پر ہم سوچ و بچار کر سکتے ہیں یا فوراً عمل کرنا چاہیے؟ اگر سوچیں گے تو کیا گناہ گار ہوں گے؟ اسی طرح ٹریفک کے قوانین پر عمل نہ کرنے سے گناہ ملتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح ملکی قوانین جیسے ٹیکس کے قوانین پر عمل نہ کرنا کیسا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں اگر دے دیں گے تو ٹھیک ہے اگر نہ دیں تو کوئی مسءلہ نہیں ہو گا۔ یعنی کہ دل میں اس کے لیے کوئی اور ایسی چیز۔ تو اس میں اس کے ساتھ کوئی تعلق بنتا ہے۔
جواب:
شرعی قوانین میں دوسری بات ہو ہی نہیں سکتی، بس عمل کرنا چاہیے۔ مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھ سکتے ہیں کہ اس مسئلے کا کیا جواب ہے؟ جہاں تک ملکی قوانین جو مفاد عامہ کے لئے ہوں جیسے ٹریفک کے قوانین، ان پہ بالکل عمل کرنا چاہیے کیونکہ ان پے عمل نہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کسی کو تکلیف دیں گے۔ کسی کو بھی تکلیف دینا جائز نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ٹریفک کا قانون ہے کہ آپ اشارے کو کراس نہ کریں، اگر آپ اشارے کو کراس کرتے ہیں تو ایکسیڈنٹ ہو سکتا ہے اور ایکسڈنٹ صرف آپ کا نہیں ہو گا دوسرا بھی متاثر ہو گا۔ اول اپنی جان کو بھی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اللہ کا فرمان ہے: ﴿وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ﴾ (البقرۃ: 195)
ترجمہ: ”اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو۔“
اپنی جان کو بھی ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیے چہ جائیکہ آپ کسی اور کو بھی ہلاکت میں ڈال دیں۔ ٹریفک قوانین کی کچھ مینجمنٹ ہے جو ایکسیڈنٹ سے بچنے کے لئے کچھ نظام ہیں، ان پر عمل کرنا چاہیے۔ جہاں تک ملکی قوانین کی بات ہے جن کا مفاد عامہ سے تعلق ہو ان کے خلاف بھی نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ بعض ظالمانہ ٹیکسز کے بارے میں بعض مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ ان کو اگر کوئی ادا نہ کرے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس کے بارے میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ مجھے اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ کسی مفتی صاحب سے معلوم کرنا چاہیے جو ان تمام چیزوں سے واقف ہو۔ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تھا کہ سمگلنگ کیسی ہے؟ اور پوچھنے والا غالباً ایس ایس پی تھا۔ مولانا صاحب نے فرمایا کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو حکومت جائز کہتی ہے اور شریعت نا جائز کہتی ہے جیسے سود۔ اور بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو حکومت نا جائز کہتی ہے اور شریعت جائز کہتی ہے جیسا کہ سمگلنگ۔ سمگلنگ اصل میں تجارت ہے، آپ نے تجارت کا راستہ روک لیا شریعت نے نہیں روکا۔ آپ اس پہ ٹیکس لگا سکتے ہیں لیکن اس کو روک نہیں سکتے۔ ایسے ظالم لوگ ہیں کہ پشاور کے صدر کی دکان میں سمگلنگ کی چیزیں پڑی ہوں گی، دکان دار کو نہیں پکڑتے۔ آپ نے دکان سے خرید لی اور باہر آ گئے تو پکڑ لیتے ہیں۔اس کی کیا تک ہے؟ اس کی کوئی justification ہے؟ یہ خواہ مخواہ لوگوں کو خراب کرنے والی بات ہے۔ ان دکانوں کو بند کر دو۔ صرف میں نے مثال دی ہے۔ باقی details کا مجھے علم نہیں ہے اور ظاہر ہے میری فیلڈ بھی نہیں ہے۔ اس وجہ سے میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن بہر حال There are some things which can be traced۔
سوال 9:
مثبت اندا میں اللہ کی ذات کے حوالے سے سوچنے میں کہاں تک گنجائش ہے؟
جواب:
اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام جس ترتیب سے ثابت ہیں اس ترتیب سے ماننا، بس یہ کافی ہے اس سے زیادہ گہرائی میں نہیں جانا چاہیے۔ اللہ کی ذات کے بارے میں تو ہم کچھ کہہ ہی نہیں سکتے، جتنا قرآن نے بتایا ہے انتا ہی ماننا ضروری ہے۔ جیسے: ﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ﴾ (الشورٰی: 11)
ترجمہ: ”کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے۔“
اس لئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر آپ کے ذہن میں اللہ کے بارے میں کوئی خاکہ آ گیا کہ اللہ ایسے ہیں تو کہہ دو کہ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی مثال ہی نہیں ہے۔ "لَا مِثْلَ لَہٗ وَ لَا مِثَالَ لَہٗ" آپ کو وہ چیز سمجھ آئے گی جس کی مثال ہو گی، جس کی مثال ہی نہیں ہے تو کیسے سمجھ آئے گی؟ اس وجہ سے اللہ کی ذات میں غور نہ کرو بلکہ اللہ کی صفات میں غور کرو اور اللہ پاک کی قدرتوں میں غور کرو جتنا بتایا گیا ہے۔ لیکن ذات وراء الوراء ہے، کوئی بھی شخص اپنے خالق کے بارے میں تفصیلات نہیں معلوم کر سکتا۔
سوال 10:
ذات باری تعالیٰ کے استحضار کی بھی مثال نہیں ہو سکتی؟
جواب:
ذات باری تعالیٰ کا استحضار یہ ہے کہ اللہ جل شانہ مجھے دیکھ رہے ہیں جو ایک صفت ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں جیسے آپ ﷺ نے فرمایا: "اَنْ تَعْبدَ اللہَ کَانَكَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاكَ" (بخاری شریف، حدیث نمبر: 50)
ترجمہ: ”تو ایسے عبادت کر جیسے خدا تجھے دیکھ رہا ہے اگر ایسا نہیں کر سکتا تو وہ تجھے دیکھ ہی رہ ہے۔“
اللہ پاک سب کو دیکھ رہا ہے۔ آپ نے صرف یہ یاد رکھنا ہے۔ بس یہ اثر ہے، آپ اس کو از خود پیدا نہیں کر رہے بلکہ وہ چیز پہلے سے موجود ہے۔
Just you want to try to remember it all the time
اس میں آپ مزید کچھ نہیں کر رہے بلکہ اللہ پہلے سے سن رہے ہیں، اس کا مراقبہ آپ کر سکتے ہیں کہ اللہ بول رہے ہیں، اللہ دیکھ رہے ہیں، اللہ پاک نے تمام چیزوں کو تھاما ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جو صفات ثابت ہیں ان کا مراقبہ کرنا، ان کا استحضار کرنا شریعت کے مطابق ہے، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن ذات کے بارے غور سے روکا گیا ہے۔
وَ مَا عَلَيْنَآ إلَّا البَلَاغُ