سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 184

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال نمبر1:

حضرت لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح میں دس اور پندرہ منٹ کا تصور کرتے ہوئے مطلوبہ وقت میں کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ مطلوبہ وقت کا صحیح طریقہ کیسے اختیار کیا جائے، وضاحت فرما دیں۔

جواب:

آج کل موبائل ہر ایک کے پاس ہوتا ہے، آپ کے پاس بھی ہے، آپ موبائل پہ مطلوبہ وقت کا ٹائمر لگا لیا کریں، جیسے ہی ٹائمر ختم ہو گا موبائل کی گھنٹی بج اٹھے گی، آپ ٹائمر کے ختم ہونے سے پہلے مراقبہ نہ ختم کریں اور گھنٹی بجنے کے بعد جاری نہ رکھیں۔ اس طرح مراقبہ میں وقت کی کمی بیشی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

(جب ہم لاہور یونیورسٹی گئے تھے تو وہاں طلباء نے کچھ سوالات کئے تھے، وقت کی کمی کی وجہ سے وہاں جواب دینا ممکن نہ تھا اس لئے ہم نے ان سے وعدہ کیا کہ اپنے ہفتہ وار سوال و جواب کے سیشن میں آپ کے سوالات کے جوابات دے دیں گے۔ بعض ساتھی بالکل نئے تھے، ان کو سوال کرنے کا طریقہ نہیں آتا تھا، انہوں نے ایسے سوالات کیے جن کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا ہم ان سوالات کے جواب دینے کے پابند نہیں ہیں، کیونکہ ایک تو سوال و جواب کا یہ سیشن صرف تصوف کے لئے مخصوص ہے، دوسری بات یہ کہ ہم مفتی نہیں ہیں، فقہ سے متعلق سوالات کے جوابات دینا ہمارا کام نہیں ہے۔ لہٰذا ہم صرف ان سوالات کے جوابات دیں گے جن کا تعلق تصوف سے ہے)

سوال نمبر2:

نماز پڑھنے اور نماز قائم کرنے میں کیا فرق ہے۔

جواب:

نماز پڑھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ وضو کرکے نماز ادا کر لینا۔ جبکہ نماز قائم کرنے کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس کا مطلب ہے، نماز کا باقاعدہ اہتمام کرنا، پہلے سے ارادہ کرنا، وقت معلوم کرنا، اپنے آپ کو یکسو کرنا، اپنے آپ کو نمازی بنانے کے بعد اپنے گھر اور پھر آہستہ آہستہ معاشرے تک نماز کا پیغام عام کرنا، اس میں مسجدوں کا قیام اور ساری چیزیں شامل ہیں۔ نماز قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کو اپنی زندگیوں میں لازمی جزو کے طور پر شامل کر لیں اور ایسا اہتمام کریں، اتنی اہمیت دیں کہ وہ ضائع نہ ہو سکے، قضا نہ ہو سکے۔ اس طرح نماز کا اہتمام کرنے کو نماز قائم کرنا کہتے ہیں۔ حکم تو یہی ہے کہ نماز قائم کریں، نماز پڑھنا اسی قائم کرنے کی ایک صورت ہے۔

سوال نمبر3:

استخارہ کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے اور کیسے کرنا چاہے؟

جواب:

بہشتی زیور میں ”استخارہ کی نماز“ کے عنوان کے تحت استخارہ کا طریقہ مکمل تفصیل کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ اس کے مطابق استخارہ یوں کیا جائے کہ عشاء کی نماز کے بعد دو رکعت صلوۃ استخارہ پڑھی جائے، جس کی نیت یہ ہو کہ دو رکعت نماز صلوۃ استخارہ پڑھتا ہوں۔ اس نیت سے کہ نفل ہے بس اس میں استخارہ کی نیت کر لے اس کے بعد مناسب ہے کہ 100 دفعہ تیسرا کلمہ پڑھے، 100 دفعہ درود شریف پڑھے، اس کے بعد استخارہ کی دعا پڑھے۔ اس دعا میں ”ھٰذَا اْلْاَمْر“ کا لفظ آتا ہے وہاں اپنے اس کام کو ذہن میں لائے جس کے لئے استخارہ کر رہا ہے۔ نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کے بعد غور کرے کہ اُس کے دل میں کس طرف کا خیال مضبوط ہے، اگر ایک دو دن میں پتا نہ چلے تو سات راتوں تک یہی عمل کرے، پھر اس کے دل میں جو بھی چیز مضبوطی سے آ جائے اسی پہ عمل کرے۔ یہ استخارہ کا طریقہ ہے۔

سوال نمبر4:

جہیز ایک سماجی اور معاشرتی برائی ہے، برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جہیز کے معاملہ کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

در اصل اپنی بچیوں کو جہیز دینا کوئی برائی نہیں ہے، البتہ غلط طریقے سے جہیز کا لین دین برائی ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ جیسے شریعت میں نماز کا حکم ہے، اب اگر کوئی غلط طریقے سے نماز پڑھے گا تو ہم نماز کو غلط نہیں کہیں بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ اس نے غلط طریقے سے نماز پڑھی۔

جہیز والدین کی اپنی بیٹی کے ساتھ محبت کا ایک اظہار ہے جس کے عنوان سے وہ اپنی بچیوں کو جہیز دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جہیز دیا تھا، ہم اس چیز کو برائی کیسے کہیں گے جو سنت سے ثابت ہو، اس کو ہم غلط نہیں کہہ سکتے ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جو لوگ نام و نمود کے لئے جہیز دیتے ہیں لوگوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر دکھاوا کر کے دیتے ہیں، یہ برائی ہے۔ اسی طرح جہیز مانگنا بھی برائی ہے۔ جہیز مانگنا نہیں چاہیے، اور اگر کوئی خوشی سے اپنی بیٹی کو دے تو اسے روکنا بھی نہیں چاہیے۔ اسی طرح جہیز دینا شادی کے موقع کے ساتھ بھی خاص نہیں ہے، کوئی آدمی پہلے بھی دے سکتا ہے بعد میں بھی دے سکتا ہے۔ عین شادی کے وقت سب لوگوں کو دکھا دکھا کے جہیز دینا ریا کاری ہے اور ایک کبیرہ گناہ ہے۔

جہیز دینا غلط نہیں ہے، غلط طریقہ سے جہیز دینا غلط ہے لہٰذا غلط طریقہ سے جہیز نہیں دینا چاہیے۔ دکھاوا کرکے دینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس دولت و ثروت نہ ہو ان کی بچیاں لمبے عرصے تک کنواری بیٹھی رہ جاتی ہیں، کیونکہ ان کے پاس مروجہ طریقہ سے دکھاوا کرکے جہیز دینے کو کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے طریقہ سے جہیز لینا دینا ایک سماجی اور معاشرتی برائی ہے لیکن بذاتِ خود جہیز برائی نہیں ہے، یہ سنت سے ثابت ہے اس کو ہم غلط نہیں کہہ سکتے۔

سوال نمبر5:

سر میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آج کل جو ویڈیو فلمیں پیغمبروں پر بنائی گئی ہیں کیا انہیں دیکھنا چاہیے یا نہیں؟

جواب:

بالکل نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ پیغمبروں کے تقدس کے خلاف ہے۔ ناپاک لوگ پیغمبروں کے کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لوگ جیسا دیکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں وہی تاثر بنتا ہے۔ ویسے بھی فلم دیکھنا نا جائز ہے اور نا جائز چیز کو اس کام کے لئے استعمال کرنا بھی گناہ ہے۔ جیسے لیٹرین میں قرآن پڑھنا حرام ہے حالانکہ قرآن پڑھنے پہ تو ثواب ہے لیکن لیٹرین میں قرآن پڑھنا گناہ ہے، اسی طریقے سے پیغمبروں کا تذکرہ کرنا انہیں یاد کرنا ثواب کا کام ہے لیکن اس طریقے سے کرنا کہ اس کی فلمیں بنا دی جائیں پھر اس کو دیکھا جائے یہ گناہ ہے۔ نہ اس کو دیکھا جائے نہ بنایا جائے۔ جو بناتا ہے وہ بھی گناہ گار ہے جو دیکھتا ہے وہ بھی گناہ گار ہے۔

سوال نمبر6:

تین اوقات میں عبادت سے منع کیا گیا ہے، طلوع، غروب اور زوال کے وقت۔ سوال یہ ہے کہ ان تین اوقات میں عبادت کی ممانعت کیوں ہے؟

جواب:

یہ سوال فقہ سے متعلق ہے۔ بہرحال اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اللہ جل شانہ کا حکم ہے، ہمیں بس اس پہ عمل کرنا ہے خواہ ہمیں اس کی وجوہات معلوم ہوں یا نہ ہوں۔

کسی نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ مغرب کی نماز میں طاق رکعتیں ہیں اور باقی نمازوں میں جفت ہیں، اس میں کیا حکمت ہے۔ ایسے لوگوں کو حضرت عجیب طریقے سے جواب دیتے تھے، فرمایا تو پہلے یہ بتا کہ تیری ناک آگے کو لگی ہے پیچھے کو کیوں نہیں لگی۔ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی بنائی ہے۔ فرمایا: تیرے سوال کا یہی جواب ہے کہ بس اللہ پاک نے ایسے ہی حکم دیا ہے۔

آپ کے سوال کا بھی یہی جواب ہے کہ اللہ کی منشا ہوئی اور اس نے ہمیں یہ حکم دے دیا، اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہے۔

سوال نمبر7:

موجودہ معاشرے میں عورتوں کے لئے اسلامی طریقے کے مطابق پردے کی اہمیت کے بارے میں کچھ فرما دیجیے۔

جواب:

صرف موجودہ معاشرے میں ہی نہیں بلکہ ہر معاشرے میں عورتوں کو پردے کی ضرورت ہے، بلکہ موجودہ معاشرے میں تو عورتوں کے لئے پردے کی اور زیادہ ضرورت ہے۔ آج کل کے لباسوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ جو چزیں چھپانی چاہئیں وہ اور زیادہ ابھاری جاتی ہیں، اگر عورتیں بے پردہ آئیں گی تو ان کی طرف پلید نگاہوں سے دیکھا جائے گا، اس میں دیکھنے والوں کا بھی نقصان ہو گا اور عورتیں بھی لعنتی بنیں گی۔ ایسی عورتوں پہ فرشتے لعنت بھیجتے ہیں اس وجہ سے عورتوں کو مکمل پردے میں رہنا چاہیے۔ جو عورتیں یورپ اور امریکہ میں مسلمان ہوتی ہیں ان کو اسلام کی سب سے زیادہ اچھی چیز یہی پردہ لگتا ہے کیونکہ انہوں نے بے پردگی کے بھیانک نتائج کو دیکھا ہوتا ہے، انہیں خوب معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس لئے جب وہ پردے میں ہوتی تو خوش ہوتی ہیں کہ ہم ان غلط نگاہوں سے بچ گئی ہیں۔

سوال نمبر8:

آج کل کے دور میں لڑکیاں باہر بھی نکلتی ہیں، کام کرتی اور پڑھتی پڑھاتی بھی ہیں۔ میرا سوال ہے کہ آج کل کے زمانے میں اسلام کے مطابق رہنے کے لئے کونسی چند ایسی باتیں ہیں جن پر ایک لڑکی کو سختی سے عمل کرنا چاہیے۔

جواب:

سب پہلے یہ سمجھیں کہ ایک کام کرنا فیش کے لئے ہوتا ہے اور ایک کسی مجبوری کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔ جب تک سخت ضرورت نہ ہو عورتوں کے لئے اپنے گھر کو چھوڑ کر کام کے لئے باہر نکلنا مناسب نہیں ہے۔ میرے خیال میں کوئی شریف آدمی یہ اچھا نہیں سمجھتا کہ اس کی بیوی، بیٹی یا بہن دوسرے مردوں کے ساتھ مخلوط جگہوں پر رہے اور ان کی خدمت کرتی رہے لیکن اگر کسی کی مت ہی ماری جائے تو علیحدہ بات ہے اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ہاں یہ ضرورت ہے کہ مجبوری کے تحت عورتوں کا باہر جا کر کام کرنا جائز ہے۔ جیسے مجبوری کی حالت میں وقتی ضرورت کے تحت حرام کھانا جائز ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر ایسی ضرورت اور مجبوری ہو کہ باہر جا کر کام کیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر مکمل پردے کے ساتھ عورت کے لئے باہر جانا جائز ہو جاتا ہے اس کے باوجود اسے باہر جا کر بھی وہی کام کرنے چاہئیں جو عورتوں کے مناسب ہیں ایسے کاموں میں نہیں جانا چاہیے جو عورتوں کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ مجبوری کے علاوہ عام حالات میں عورتوں کے باہر نکلنے میں سب کا نقصان ہے۔

سوال نمبر9:

نماز تہجد کا طریقہ اور اس کی رکعات بتا دیں۔

جواب:

تہجد کی رکعت 2 سے بارہ تک ہوتی ہیں۔ وقت کم ہو تو دو بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ طریقہ اس کا عام نماز کی طرح ہی ہے، تہجد کے وقت اٹھ کر وضو کرکے تہجد کی نیت کر کے نماز پڑھنا شروع کر دیں، اور دو سے بارہ رکعات تک جتنی پڑھ سکیں، پڑھ لیں۔ اس کو عربی میں قیام اللیل کہتے ہیں قیام اللیل کی نمازیں ویسے تو پوری رات میں کسی بھی پڑھی جا سکتی ہیں البتہ اس کا زیادہ ثواب رات کے آخری حصے میں پڑھنے پر ملتا ہے۔ پوری رات یعنی مغرب سے لے کر صبح صادق تک کے وقت کو اگر چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو آخری چھٹے حصہ کے وسط والا وقت تہجد کی نماز کے لئے بہترین وقت ہے۔ باقی اس کا طریقہ عام نفل نماز کی طرح ہے، صرف وقت اور نیت کا فرق ہے۔

سوال نمبر10:

اللہ پاک نے بندوں کی ہدایت کے لئے بے شمار پیغمبر بھیجے لیکن کبھی کسی عورت کو بطور پیغمبر مبعوث نہیں کیا۔ کیا اللہ نے عورتوں کو سیکنڈ پوزیشن پر رکھا ہوا ہے، اس میں رب تعالیٰ کی کیا حکمت ہے؟

جواب:

اللہ ہمیں معاف کرے کیونکہ یہ سوال‘ سوال کم اور جرات زیادہ ہے۔ خوب سمجھ لیں کہ نبوت کسے دینی ہے، کسے نہیں دینی یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے۔ نبوت انسان کے چاہنے پہ نہیں ملتی، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتخاب ہوتا ہے۔ اس میں سوال کی کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ پاک نے مردوں میں سے نبی کیوں بنائے اور عورتوں میں سے کیوں نہیں بنائے، بلکہ بس اتنی بات ہے کہ جن کو اللہ جل شانہ نے نبی بنانا تھا ان میں مردوں کو منتخب کر لیا، اور بہت سارے مردوں کو بھی منتخب نہیں کیا صرف چند مردوں کو منتخب کیا، جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس سوال کا اصل جواب تو یہی ہے کہ اللہ پاک کا انتخاب ہے، جس کو چاہا نبوت دی جس کو چاہا نہیں دی یہ صرف اس کی منشا ہے۔ ہمارا کام حکمتیں ڈھونڈنا نہیں ہے بلکہ ہمارا کام صرف عمل کرنا ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ مردوں کو پیغمبر بنانے اور عورتوں کو پیغمبر نہ بنانے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پیغمبر کو ہر جگہ جا کر تبلیغ کرنی ہوتی ہے اور عورتیں ہر جگہ نہیں جا سکتیں انہیں اپنے گھروں میں رہنا ہوتا ہے اس وجہ سے یہ ذمہ داری ان کو نہیں دی گئی۔ باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں کیا کیا حکمتیں ہیں۔

تصوف میں شیخ مرد ہی ہوتے ہیں اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ان کو جو ذمہ داری دی جاتی ہے وہ اسے پورا کرنے کے اہل ہوتے ہیں وہ ہر جگہ جا سکتے ہیں لوگوں سے مل جل سکتے ہیں، لیکن خواتین یہ سب کچھ نہیں کر سکتیں۔

اللہ تعالیٰ نے اگر خواتین میں کوئی نبی نہیں بنایا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سیکنڈ پوزیشن پر ہیں، بلکہ ان کا اپنا ایک الگ درجہ ہے جس کی اپنی اہمیت ہے۔

سوال نمبر11:

حضرت اللہ کا جیسا ڈر اور خوف صحابہ کرام کے قلوب میں تھا، ہمارے دلوں میں ویسا ڈر کیوں نہیں ہے؟ ہماری نمازوں کا وقت گزر رہا ہوتا ہے لیکن ہمیں کوئی بے چینی نہیں ہوتی، اگر ہم نماز پڑھتے بھی ہیں تو صرف فرض پورا کرنے کے لئے پڑھتے ہیں، اس خوف، امید اور محبت کی وجہ سے نہیں پڑھتے جس وجہ سے اللہ کے پیارے بندے پڑھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

جواب:

اگر انسان اپنے اوپر محنت کرے تو اب بھی ایسا خوف پیدا ہو سکتا ہے، یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ اس کے لئے ہمت اور کوشش کر کے شیخ کامل کی نگرانی میں سلوک طے کرنے کی ضرورت ہے، جب نفس مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے اس کے بعد انسان نماز چھوڑنے کی جرات نہیں کر سکتا، اس کے بعد سب سے بڑی تکلیف نماز رہ جانے سے ہوا کرتی ہے۔ اس کے لئے محنت درکار ہے۔ ہم صحابہ کرام نہیں بن سکتے، وہ والی بات تو ہم میں نہیں آ سکتی لیکن جتنی ہماری استطاعت ہے اس کے مطابق کوشش کرنا ضروری ہے۔ اسی کوشش اور محنت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نماز کے جو فضائل قرآن اور احادیث شریفہ میں ذکر کیے گئے ہیں اور نماز چھوڑنے پر جو وعیدیں آئیں ان کا بار بار مطالعہ کیا جائے، تاکہ ان کے ذریعہ دل میں نماز کی رغبت پیدا ہو، آخرت پر یقین پختہ ہو، اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر ہمارا ایمان مضبوط ہو جائے تو خود بخود یہ کیفیت آ جائے گی۔

سوال نمبر12:

اگر ہم غیر مسلموں کی کسی بات کو اپناتے ہیں یا ان کے کسی event کو مناتے ہیں، کیا نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے؟ حدیث کے مطابق جواب دیجئے۔ کچھ مسلم لڑکیاں سیندور لگاتی ہیں انہیں منع کرو تو کہتی ہیں کہ اس کا گناہ نہیں ہے، اس بارے میں بھی وضاحت فرما دیجیے۔

جواب:

اس بارے میں واضح حدیث شریف موجود ہے کہ جس نے کسی کی مشابہت کی تو وہ انہی میں سے ہے۔ اب اگر کوئی غیر مسلموں کی مشابہت کرے گا تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ ان میں سے اٹھایا جا سکتا ہے۔ غیر مسلموں کی مشابہت نہ کرنے کی اتنی وجہ بھی کافی ہے، ان کی مشابہت سے آخرت میں ان کے ساتھ اٹھائے جانے کا خدشہ ہے۔

دیوالی، ہولی اور تلک لگانا یہ ہندوؤں کا شعار ہے، اس سے بچنا چاہیے اپنے آپ کو بچانا چاہیے کیونکہ یہ چیز مشابہت میں آتی ہے اور مشابہت بہت خطرناک بات ہے۔ خدانخواستہ اگر اس وجہ سے ان کے ساتھ اٹھایا گیا تو پھر کتنی مشکل بات ہوگی۔

سوال نمبر13:

سر آپ سے یہ سوال ہے کہ اگر اولاد ایک کام کرنا چاہتی ہے، اسلام بھی اس کی اجازت دیتا ہے لیکن والدین اس سے راضی نہ ہوں تو کیا وہ کام کر سکتے ہیں؟

جواب:

یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ کونسا کام ہے۔ اگر specifically بتا دیا جائے تو پھر اس کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔

سوال نمبر14:

کیا تصویر بنانا گناہ ہے؟ اگر گناہ ہے تو خانہ کعبہ اور روضۂ رسول کریم ﷺ پہ موویز کیوں بنائی جاتی ہیں؟

جواب:

جی ہاں بالکل۔ تصویریں بنانا گناہ ہے کیونکہ اس کے بارے میں وضاحت کے ساتھ احادیث شریفہ مروی ہیں، قیامت کے دن مصور کو کہا جائے گا کہ ان تصاویر میں جان ڈالو جب وہ ایسا نہیں کر سکے گا تو اسے سزا دی جائے گی لہٰذا تصویر بنانا ناجائز ہے، گناہ ہے۔ لیکن یہ بات جاندار کی تصاویر کے بارے میں ہے، جاندار کی تصویر بنانا حرام ہے، بے جان چیزوں کی تصاویر بنانا بالکل جائز ہیں۔ خانہ کعبۂ اور روضہ رسول ﷺ کی تصاویر اسی لئے جائز ہیں کہ یہ جاندار کی تصویریں نہیں ہیں۔ ہاں اگر جاندار کی تصویر میں سے سر والا حصہ مٹا دیں، تو پھر اس کی ممانعت بھی نہیں ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اس بات کو سمجھانے کے لئے ایک کبوتر کی تصویر لگی ہوئی تھی جس کے سر کے اوپر ٹیپ لگا دی گئی تھی۔ لیکن یہ بات عورت کی تصویر پہ صادق نہیں آ سکتی، عورت کی تصویر کسی حالت میں بھی ناجائز ہے کیونکہ اس کے جسم کا ہر حصہ ستر ہے، اس کے علاوہ باقی جاندار چیزوں کا سر کا حصہ ہٹا دیا جائے تو وہ جائز ہو جاتی ہیں۔

سوال نمبر15:

کیا نعت پڑھتے ہوئے بیک گراؤنڈ میں ذکر کرنا صحیح ہے؟

جواب:

مجھے نہیں معلوم کہ نعت کے ساتھ کون سا ذکر کیا جاتا ہے، نعت بذات خود بھی آپ ﷺ کا ذکر ہے۔

سوال نمبر16:

اگر ایک شخص اللہ اور اس کے آخری نبی ﷺ کو اتنا چاہتا ہو کہ اس کا دل چاہتا ہو کہ ان کا بوسہ لے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب:

ہر شخص اور ہر چیز کے ساتھ محبت اس انداز سے کی جانی چاہیے جس انداز سے مشروع ہو۔ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا انداز یہ ہے کہ آپ ﷺ کی پیروی کی جائے آپ ﷺ کی ہر نسبت کے ساتھ پیار کیا جائے یہ آپ ﷺ سے محبت کا انداز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا انداز یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو وحدہ لاشریک سمجھا جائے، تمام صفات کمال کا مالک مانا جائے اور مخلوق والی تمام صفات سے پاک و منزہ سمجھا جائے، اس کے ہر حکم کو پورا کیا جائے، اس کے مقابلے میں کسی اور کی بات کو سامنے نہ لایا جائے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ محبت کا یہ طریقہ درست نہیں ہے جیسے عام لوگوں کے ساتھ محبت کی جاتی ہے کیونکہ اس میں بعض چیزیں جائز اور بعض ناجائز ہوتی ہیں۔ اس لئے اللہ پاک اور رسول ﷺ کی محبت کے اظہار یا انداز میں بوسہ وغیرہ نہیں ہوتا، یہ درست نہیں ہے۔

سوال نمبر17:

السلام علیکم۔ ہم گناہ سے بچنے کا ارادہ کرتے ہیں مگر اس ارادہ پر قائم نہیں رہ پاتے۔ اس کی وجہ کیا ہے، اس کا حل بتائیں۔ آج کل لوگ نا محرموں سے تعلقات بناتے ہیں۔ اس کا شرعی حکم بتائیں۔ کیا یہ جائز ہے؟

جواب:

یہ تو بالکل واضح چیزیں ہیں، اتنی واضح کہ ان کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

گناہ سے بچنے کا ارادہ کرنا تو بڑا مفید ہے ہاں اس پر قائم نہ رہنا ایک گناہ ہے اور غلط ہے لہٰذا ہمیں ہمت کرنی چاہیے کہ ہم گناہ سے بچنے کا ارادہ اس طرح کر لیں کہ اس کے اسباب سے بچنے کی کوشش کریں۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے۔ ؎

جن کو ہو جان و دل عزیز ان کی گلی میں جائے کیوں

گناہ کے اسباب سے بچیں تو گناہ سے خود بخود بچ جائیں گے۔ مثلا جو چیز بری ہو اس کی طرف دیکھیں مت، اس کی طرف جائیں نہیں، اس کے بارے میں خود سے سوچیں مت، اگر خود بخود خیال آئے تو اپنے ذہن کو کسی اور طرف متوجہ کر لیں۔

اس طریقے سے انسان ان چیزوں سے بچ سکتا ہے۔ لیکن آدمی کہتا ہے کہ کوشش نہ کرنی پڑے اور بس خود بخود بچ جاؤں، لیکن بات یہ ہے کہ خود بخود کچھ نہیں ہوتا ہمت کر کے کرنا پڑتا ہے۔

سوال نمبر18:

نماز کے دوران اگر ذہن میں ولی یا صحابی کا خیال آ جائے تو کیا کیا جائے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

خیال آنے اور خیال لانے میں فرق ہے۔ نماز کے دوران خود کسی اور طرف خیال نہیں لے جانا چاہیے، کیونکہ نماز صرف اللہ کے لئے ہے اس میں صرف اللہ پاک کا خیال لانا چاہیے۔ اگر از خود خیال آ جائے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ اس خیال پہ سوچ مت جمائے، اپنا دھیان واپس نماز کی طرف موڑ لے۔

سوال نمبر19:

بہترین جہاد کون سا ہے؟

جواب:

جب اسلام کو کسی چیز سے نقصان پہنچ رہا ہو اس نقصان سے بچنے یا بچانے کے لئے اس چیز اور اس کے محرک لوگوں کی مخالفت کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔ یہ قلمی بھی ہو سکتا ہے، زبانی بھی ہو سکتا ہے اس کے علاوہ کئی دوسرے طریقوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کی سب سے اعلیٰ قسم قتال فی سبیل اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو اس کی توفیق دے دے تو یہ بہت بڑی چیز ہے، اس میں اگر کوئی کامیاب ہو جائے تو غازی اور اگر جان دے دے تو شہید ہے۔ اسی کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَات (البقرۃ: 154)

ترجمہ: ”اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو، دراصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا“۔

بہرحال، بہترین جہاد قتال فی سبیل اللہ ہی ہے۔

سوال نمبر20:

جہیز کیا واقعی لعنت ہے؟

جواب:

نہیں، جہیز لعنت نہیں ہے البتہ جہیز کو غلط طریقے سے دینا ضرور غلط ہے مثلاً نام و نمود اور دکھاوے کے لئے دے دے، لوگوں کے سامنے دے اور اس پہ فخر کرے، جو نہ دے اس کو برا سمجھے۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں، در اصل جہیز لعنت نہیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ لعنتی چیزیں شامل ہو گئی ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی اچھی اور پاک چیز کو پاخانے میں لپیٹ دیں تو پاخانہ ناپاک ہی رہے گا، اس چیز کو غلط نہیں کہیں گے وہ اپنی اصل میں پاک تھی، لیکن ہم نے اس کو ناپاک کر دیا۔ جہیز کی مثال ایسی ہی ہے، یہ اپنی اصل میں کوئی لعنت نہیں ہے بلکہ مسنون کام ہے، آپ ﷺ نے بھی اپنی بیٹی کو جہیز دیا ہے۔ لہٰذا اس کو لعنت نہیں کہا جا سکتا، ہاں اس کے ساتھ کچھ ایسی چیزیں ضرور شامل ہو گئی ہیں جنہیں لعنت کہا جا سکتا ہے، ان چیزوں کو ختم کرنا چاہیے۔

سوال نمبر21:

اگر وضو کے بعد کوئی لوشن وغیرہ لگائیں تو کیا وضو باقی رہتا ہے؟

جواب:

جی ہاں، اگر لوشن پاک ہو تو اس کے لگانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، البتہ یہ بات یاد رہے کہ اگر بے وضو ہونے کی حالت میں لوشن لگایا تھا پھر وضو کیا، اور اعضاء پہ لوشن لگے ہونے کی وجہ سے پانی اعضا کو نہیں لگا، لوشن کے اوپر سے ہی بہہ گیا تو پھر وضو نہیں ہوتا۔

سوال نمبر22:

کیا وضو کرنے کے بعد اعضائے وضو کو کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

جی بالکل! تولیہ سے پانی کو صاف کیا جاتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال نمبر23:

آج کے نوجوان کو نفس پر قابو پانے کا آسان سے آسان طریقہ بتا دیں۔

جواب:

نفس پر قابو پانا ہی تصوف ہے۔ سارا تصوف یہی ہے کہ نفس پر قابو پا لیا جائے۔ اب یہ نفس پر قابو پانا کیسے ہو؟ اس کا آسان طریقہ کیا ہو؟ اس سوال کا جواب ایک لفظ یا ایک فقرہ میں نہیں دیا جا سکتا۔ نفس پر قابو پانا یہ بہت بڑا کام ہے، اگر کوئی اس پہ قابو پا لے تو وہ بڑا خوش نصیب ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاھَا (الشمس: 9)

ترجمہ: ” فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔“

سارے پاپڑ اسی لئے بیلنے ہوتے ہیں کہ نفس قابو میں آ جائے، نفس امارہ ختم ہو جائے اور نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے۔ ؎

صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے

بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے

صوفی اُس وقت تک صافی نہیں بن سکتا جب تک عشق کا جام نہ کھینچے ورنہ خام سے پختہ ہونے میں بہت لمبا راستہ ہے۔

سوال نمبر24:

آج کل کے مسلمان اپنے اندر مکمل مومن والی خصوصیات کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟

جواب:

جب شخصیات کو بنایا جاتا ہے تو ان میں موجود غلط چیزیں ختم کی جاتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ آدمی تصوف کو اپنائے شیخ کامل سے اپنی اصلاح کرائے تاکہ اس میں مومنوں والی صفات پیدا ہو جائیں، وہ نفس کے شر سے بچ جائے اس کے دل کی اصلاح ہو جائے۔ جب یہ چیزیں حاصل ہو جائیں تب انسان کامل مومن بن سکتا ہے۔

سوال نمبر25:

بندۂ ناچیز کی آپ سے التجا ہے کہ نفس کے خلاف جہاد کا کوئی طریقہ بتا دیں، موسیقی کی عادت ترک کرنا چاہتا ہوں۔

جواب:

آپ کسی بھی صحیح السلسلہ شیخ سے بیعت ہو جائیں اور اُن کی ہدایات پہ عمل کرنا شروع کر لیں۔ کوشش کریں کہ آپ کو ان کے ساتھ اتنی محبت ہو جائے کہ آپ اُس کی بات سے انکار نہ کر سکیں۔ اگر یہ چیز حاصل ہو گئی تو آپ بہت جلدی نفس پہ قابو پا جائیں گے، موسیقی کی عادت ترک کرنے میں یہی چیز معاون ہو سکتی ہے۔ اصل میں تو ہم ہم لوگ شریعت کے مکلف ہیں، پہلے تو یہ ہونا چاہیے کہ شریعت جس سے چیز سے روک رہی ہو اسے فورًا چھوڑ دیں، چاہے ہمارا دل چاہتا بھی ہو، جتنا زیادہ دل چاہے گا، اس کام کو چھوڑنے پر اتنا ہی اجر ملے گا۔ ؎

تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

شیخ ایک ایسا ذریعہ ہوتا ہے جس سے شریعت کے احکامات پر عمل کرنے میں مدد ہوتی ہے اور نفس پر قابو پانے کی منزل جلدی حاصل ہو جاتی ہے۔

سوال نمبر26:

حضرت وسوسے بہت آتے ہیں، ڈر ہے کہیں ایمان نہ ضائع ہو جائے۔

جواب:

یہ بہت اچھا ڈر ہے۔ آپ ﷺ نے ایسے موقعہ پر فرمایا تھا:

”ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَان“ (صحیح مسلم: 340)

ترجمہ: ”یہی تو اصل ایمان ہے۔“

لہٰذا اگر کسی کو وسوسے آتے ہوں اور وہ انہیں پالنے کی بجائے ان سے ڈرتے ہوں اور وسوسوں سے بچنا چاہتے ہوں، خود سے وسوسے نہ لاتے ہوں تو ماشاء اللہ یہ ایمان کے حاصل ہونے کی علامت ہے، لہٰذا اس پر خوش ہونا چاہیے، البتہ وساوس پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔

سوال نمبر27:

نماز پڑھتے ہوئے مختلف خیالات آتے ہیں، اُن کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

جواب:

اس کا یہ طریقہ ہے کہ اُن خیالات کی پروا نہ کی جائے، توجہ نماز کی طرف رکھی جائے ان خیالات پہ توجہ نہ دی جائے۔

سوال نمبر28:

”یا رسول اللہ“ کہنا چاہیے یا نہیں؟ ایک تو اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے، دوسرا یہ بتا دیجئے کہ آج کل ایک انسان بُرائی سے کیسے بچ سکتا ہے، جب کہ بے حیائی بہت بڑھ چکی ہے۔

جواب:

اگر کوئی آدمی ”یا رسول اللہ“ اس کیفیت میں پڑھے کہ میں اُدھر ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر آدمی سمجھے کہ میں وہاں موجود ہوں اور وہاں مدینہ منورہ میں روضۂ اقدس کے پاس ”یا رسول اللہ“ کہہ رہا ہوں تو یہ ایک کیفیت ہے۔ جیسے کوئی کہتا ہے ”ہائے میری ماں“، حالانکہ اس کی ماں تو اُدھر نہیں ہوتی۔ لیکن ظاہر ہے، اس کو کوئی گناہ نہیں کہتا، لیکن اگر وہ یہ وہ کہے کہ ماں حاضر ناضر ہے تو پھر اس کا ایسا کہنا غلط ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی یا رسول اللہ حاضر ناظر ہونے کے لحاظ سے کہتا ہے تو یہ غلط ہے، ایسا نہیں کہنا چاہیے۔

آج کل ایک انسان برائی سے کیسے بچ سکتا ہے جیسے کہ بے حیائی بہت بڑھ چکی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بے حیائی کی جگہوں پہ نہ جایا جائے، بے حیائی کی چیزوں کو نہ پڑھا جائے، بے حیائی کی چیزوں کو نہ دیکھا جائے، اور بے حیائی کے بارے میں جو وعیدیں آئی ہیں اُن کو سامنے رکھیں اور اپنی تربیت کسی شیخ سے کروائیں۔ ان شاء اللہ برائی سے بچ جائیں گے۔

سوال نمبر29:

نبی ﷺ کی کچھ سنتیں بیان فرمائیں۔

جواب:

اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”اسوۂ رسول ﷺ“ اپنے گھر میں رکھیں اور اس کو باقاعدہ پڑھنا شروع کریں۔ ان شاء اللہ آپ کو آپ ﷺ کی سنتیں اچھی طرح سمجھ میں آ جائیں گی۔

سوال نمبر30:

کیا داڑھی رکھنے کے لئے والد کی اجازت لازم ہے؟

جواب:

نہیں، داڑھی رکھنے کے لئے والد کی اجازت بالکل ضروری نہیں ہے، کیونکہ ڈارھی نہ رکھنا گناہ ہے، اور گناہ اور ثواب کے معاملات میں اللہ کا حکم ماننا ضروری ہے مخلوق کا حکم نہیں۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:

”لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِی مَعْصِیَہِ الْخَالِق“ (مشکاۃ المصابیح: 3624)

ترجمہ: ”مخلوق کی ایسی اطاعت جس سے خالق کی نافرمانی ہو جائز نہیں ہے۔“

لہٰذا والد کی اس بات کو نہیں مانا جائے گا۔ اگر وہ ناراض ہو جائے تو اُس کو برداشت کرے۔

سوال نمبر31:

اگر کسی عورت کی لاوارث لاش ملتی ہے تو کیسے پتا چلے کہ وہ عورت مسلمان ہے یا غیر مسلم ہے۔

جواب:

میرے خیال میں یہ صاحب ہمارا امتحان لینا چاہتا ہے، ہمیں ان کو امتحان دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور میری ان سے درخواست ہے کہ مجھے سرٹیفیکیٹ نہ دے کہ میں عالم ہوں۔ مجھے آپ کا سرٹیفیکیٹ نہیں چاہیے۔ اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں اگر کچھ سیکھنا ہے تو سیکھ لیں اور نہیں سیکھنا تو آرام سے بیٹھ جائیں۔

سوال نمبر32:

اگر انسان نماز پڑھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کا حق تھا وہ میں نے ادا نہیں کیا، کیا اس کا یہ سوچنا درست ہے؟

جواب:

دیکھیں، انسان کو اسی چیز پر پریشان ہونا چاہیے جس میں اختیار استعمال نہ کیا ہو، غیر اختیاری چیز پہ پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ مثلاً صحت مند آدمی کو کھڑا ہو کے نماز پڑھنے کا حکم ہے، قیام فرض ہے، اگر کوئی آدمی کھڑا ہی نہیں ہوسکتا، تو وہ اس پر پریشان مت ہو کہ میں کھڑا نہیں ہو سکا، بلکہ یہ سمجھے کہ اس وقت اللہ کا یہ حکم ہے کہ مجھے ایسے ہی پڑھنی چاہیے۔ پریشانی کی بات تب ضرور ہو سکتی ہے جب کوئی کام اختیار میں تھا لیکن اس میں کوتاہی کر دی، اس کی فکر ہونی چاہیے اور اس پہ توبہ بھی کرنی چاہیے، مگر غیر اختیاری امور پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال نمبر33:

I’m فلاں, your مرید. Something is happening to me and it's not normal. It's during this time when I am not willing to do ذکر and مراقبہ. At first my ذکر got less and then totally left and since last month my مراقبہ also and now my prayers. How are they left? Answer! because I try to speak but my mouth becomes shut like my lips are being shut with force or I don’t know. It’s like I want to do it but at the same time I don’t want to. Please شاہ صاحب I’m so afraid because اللہ is my only destiny. My studies are also getting bad. This is happening from January and February. And the other thing is, my sister is doing a house job. She passed her 5 year degree but now she is having a panic attack. According to the psychiatrist she has social phobia. She is unable to do her work from February. Today the same thing happened. We are doing her both spiritual and medical treatment. For spiritual treatment we went to Mr. فلاں in atomic energy commission. He just gave us hints and not clearly told us that our father is behind my sister's hurdles. I know my father, that he is doing magic. Please حضرت please help me to get out of this. I'm afraid of becoming permanently mute. I want to do ذکر but my tongue isn’t working please. I only cry when I go to offer prayers when I stand on نماز but can’t speak.

جواب:

کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا جواب اتنا دور سے نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں کوئی علمی بات ہے نہیں جس کو واضح کیا جائے۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے آپ یہاں تشریف لے آئیں پھر ہم دیکھیں گے کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر34:

I hope you are in the best of health and spirit. Sir, my ذکر and 2, 4, 6 and 15 مراقبہ has ended. Please assign me a new ذکر.

My حال is below,

I missed the ذکر three to 4 times. I tried to offer prayers but I miss them. I don't stress myself with it. I have a big problem with some sin and I committed it three times. I also felt like doing these things. Somehow managed not to know that. I don’t feel stressed about my sins. I feel relaxed and energized and can perform my اعمال. I want to do my اعمال. I have left the thinking about distance realms and my only focus is to achieve 5 times prayers with the continuation of ذکر and the recitation of سورہ یٰس، سورہ رحمٰن، سورہ واقعۃ and سورہ ملک on daily basis.

جواب:

قرآن پاک میں وضاحت کے ساتھ آیا ہے کہ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ جنت میں جائے گا۔

﴿فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَأُمُّهٗ هَاوِيَةٌ (القارعۃ: 6-9)

ترجمہ: ” اب جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے۔ تو وہ من پسند زندگی میں ہوگا۔ اور وہ جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ تو اس کا ٹھکانا ایک گہرا گڑھا ہوگا۔“

یہ معاملہ ہر ہر گناہ کے بارے میں ہے، ہر ہر حکم کے بارے میں ہے پس جس جس حکم پر عمل کیا جائے گا وہ plus ہے اور جس جس حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا وہ minus ہے جس جس گناہ کو کیا جائے وہ minus ہے جس گناہ سے بچا جائے گا وہ plus ہے۔

لہٰذا اگر آپ اس پر مطمئن ہیں تو یہ مطمئن ہونا خطرناک ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے، اعمالنامہ مسلسل تیار ہو رہا ہے، جس حکم پہ عمل ہو رہا ہے اس پہ آپ کو شکر کرنا چاہیے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس پر عمل ہو رہا ہے اور جس پر عمل نہیں ہو رہا اس کی فکر کرنی چاہیے کہ مجھے اس سے بچنا ہے۔ اس فکر کے ساتھ جتنا جتنا بچیں گے اس پر مزید شکر کریں۔ اس طرح ان شاء اللہ آپ کے لئے رستہ کھل جائے گا کیونکہ برائی پر مطمئن ہونا اچھی علامت نہیں ہے، اس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرما دے۔

سوال نمبر35:

Please find attached sheet on daily معمولات. I have started to record these معمولات on the 7th april, 2014. الحمد للہ ذکر and other معمولات as advised are regular. However, I’m trying my best to be punctual in فجر. There is calmness in life and no more anxiety. Please remember me in your prayers.

جواب:

الحمد للہ اللہ پاک آپ کو مزید توفیقات سے نوازے اور استقامت کے ساتھ دین پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر36:

حضرت جی کچھ عرصے سے نماز میں توجہ نہیں رہتی۔ جسم پوری طرح پرسکون ہوتا ہے لیکن خیال بار بار بھٹک جاتا ہے، خاص طور پر ”غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن“ اور درود شریف کے وقت توجہ نہیں رہتی۔ فضائل اعمال میں نماز کے فضائل کے حصۂ سوم میں درج ہے کہ نماز در حقیقت اللہ پاک سے مناجات کا نام ہے اور مناجات توجہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی، جو نماز توجہ کے بغیر پڑھی جائے اس کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی شخص خواب میں باتیں کر رہا ہو، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح اللہ جل شانہ بھی ایسی نماز کی طرف التفات و توجہ نہیں فرماتے جو بلا ارادہ پڑھی جائے۔

جواب:

اپنی نماز کو ہمیشہ قابلِ اصلاح سمجھنا چاہیے، لیکن اتنا بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ انسان مایوس ہو جائے رہا سہا عمل بھی ختم ہو جائے اور انسان frustration اور depression میں چلا جائے۔

اپنی نماز اور اعمال کی بہتری کے لئے انسان کو مسلسل کوشش کرنا چاہیے۔ واقعتاً نماز مناجات ہی ہے، اسے ہم عملی مناجات کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی مناجات ہے جو الفاظ اور اعمال کا مجموعہ ہے۔

جب ہم سجدہ میں جاتے ہیں تو یہ مناجات کی صورت ہے، جب ہم قیام کی حالت میں ہوتے ہیں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، جب رکوع میں جاتے ہیں تو اللہ کے سامنے جھک رہے ہوتے ہیں۔ انسان کو دھیان رکھنا چاہیے کہ اسی سے نماز کی قدر و قیمت بنتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ جتنی خشوع و خضوع اور توجہ حاصل ہے اس پہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، کہ اللہ پاک نے کم سے کم اتنی توفیق دی ہے، بالکل نہ ہونے سے یہ بہتر ہے کہ کم سے کم نماز پڑھ تو رہے ہیں، باغیوں میں شامل نہیں ہیں۔ نماز نہ پڑھنے والا باغی ہے، اور کمزور نماز پڑھنے والا باغی نہیں ہے۔ لہٰذا جتنی توجہ اور دھیان حاصل ہے اُس پہ اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور مزید کی کوشش کرنی چاہیے، بالخصوص نماز میں توجہ کو بڑھانا چاہیے۔

سوال نمبر37:

نوجوانی کے زمانہ میں شادی سے پہلے جب آدمی فارغ ہوتا ہے اس زمانہ میں جو کام بھی کرتا ہے یکسوئی کے ساتھ سوچ کر کرتا ہے۔ جب یہ وقت گزر جائے، ضائع ہو جائے زندگی کے باقی تقاضے سامنے آ جائیں، تب کیا کیا جائے؟

جواب:

دوبارہ جوان ہونے سے تو رہا، اب صرف یہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمت کر کے کم از کم زندگی کا باقی حصہ ضائع نہ کرے، جتنا زیادہ سے زیادہ وقت کام میں لگا سکے لگا لے۔ گزرا وقت تو کبھی واپس نہیں آ سکتا، وہ تو گیا۔ اب موجودہ وقت کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، گزشتہ کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر موجودہ وقت کو بچایا جائے، اور صحیح چیز کے لیے استعمال کیا جائے۔ اگر صحیح نیت، صحیح ارادے اور ہمت سے ایسا کیا جائے تو گذشتہ نقصان کی تلافی بھی ہو سکتی ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَْمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن