سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 182

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر1:

میں نے لذات پر کنٹرول حاصل کرنے کے مقصد سے اپنے لئے مجاہدہ کے طور پر روزے رکھنا تجویز کیا تھا لیکن یہ مجاہدہ کافی شاق معلوم ہوا اور عین وقت پر فائدہ بھی نہیں ہوا۔ کیا یہ مجاہدہ غلط تھا اور اب لذات پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے جب بھی اعتدال سے باہر ہو جاؤں تو کیا آپ کو بالمشافہ اطلاع کر دیا کروں؟ کیا اپنے لئے خود مجاہدہ تجویز کرنا ٹھیک ہے؟ کیا یہ بے اعتدالی اس کا اثر تو نہیں کہ میں آج کل غض بصر والی ریاضت کر رہا ہوں۔ آپ نے تقریباً ایک مہینہ پہلے مراقبہ عبدیت تجویز فرمایا تھا جو کہ میں کر رہا ہوں۔ میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ مراقبہ کے دوران یہ تصور رکھوں کہ میں احکم الحاکمین کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ اگر یہ تصور رکھوں تو مراقبہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ کیا یہ تصور غلط ہے؟ شروع شروع میں جب میں نے یہ مراقبہ شروع کیا تھا تو اس وقت یہ کیفیت حاصل ہو جاتی تھی لیکن اب بہت کم حاصل ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ مؤمن کا آج گزرے ہوئے کل سے بہتر ہوتا ہے لیکن میری حالت تو روز بہ روز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ پتا نہیں حالات لکھنے میں بھی میں نے غلو سے کام لیا یا اخلاص سے۔ کیا ایسی بے تکی باتیں آپ کو لکھنا چھوڑ دوں؟

جواب:

میرا خیال ہے کہ روزے لذات پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے نہیں تھے۔ آپ لذات پر جس کنٹرول کی بات کر رہے ہیں وہ تو بغیر روزے کے اعتدال کے ذریعے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ روزے صرف ایک سزا کے طور پہ تجویز کئے گئے تھے کہ اگر بے اعتدالی ہو جائے تو بطور جرمانہ کے روزے رکھ لیے جائیں۔ لہذا آپ یہ ذہن میں نہ لائیں کہ روزے رکھنے سے آپ کو لذات پر کنٹرول حاصل ہو جانا چاہیے۔ لذات پر کنٹرول آپ کے ارادے سے ہوگا۔ اس کے لئے جو تدابیر ہیں وہ اختیار کرنے سے کنٹرول ہوگا۔ مجاہدہ اس لئے نہیں تھا۔ آپ اس کی فکر چھوڑ دیں کہ روزوں کی وجہ سے کنٹرول حاصل نہیں ہو گا۔ کنٹرول آپ کی قوت ارادی سے حاصل ہو گا۔ اس کے لئے آپ کو اپنی قوت ارادی استعمال کرنی پڑے گی۔ جیسے ہم نے ساتھیوں کے لئے ترتیب رکھی ہے کہ اگر کسی کی ایک نماز قضا ہو جائے تو وہ تین روزے رکھے۔ تو کیا تین روزے رکھنے سے نماز پڑھنا آسان ہو جائے گا۔ نہیں، نماز پڑھنا ویسے ہی رہے گا، کیونکہ نماز تو پڑھنی ہے اور اپنے ارادے کے ساتھ پڑھنی ہے۔ اگر اس ارادے میں کمزوری آ جائے تو اپنے نفس کو سزا دینے کے لئے ہم تین روزے تجویز کرتے ہیں تاکہ نفس دوبارہ اڑی نہ کرے۔

مراقبہ عبدیت کے بارے میں آپ نے کہا ہے کہ میں یہ تصور کرتا ہوں کہ احکم الحاکمین کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ میرے خیال میں‘ میں نے عرض کیا تھا کہ آپ یہ تصور کریں کہ میرے جسم کا ذرہ ذرہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ ہم اکثر یہ مراقبہ دیا کرتے ہیں، اسی کو مراقبہ عبدیت کہتے ہیں۔ واقعتاً اگر ایک انسان اللہ پاک کی عظمت کو یاد رکھے کہ اللہ پاک کتنے عظیم ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے محسن ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر فضل فرماتے ہیں، ساری چیزیں اللہ تعالیٰ ہمیں دیتے ہیں، اگر دنیا میں کسی کا کوئی محسن ہو تو اس کے لئے سجدہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن اللہ پاک کے لئے تو حکم ہے، لہذا انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ میں ایسی ہستی کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں۔ اس کیفیت کا آپ پر اثر ہونا چاہیے۔ آپ یہی تصور کیا کریں کہ میری کیا حیثیت ہے میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، میں اللہ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا، میں بس یہ کر سکتا ہوں کہ اپنے آپ کو اس کے سامنے جھکا دوں، میرا ذرہ ذرہ اللہ تعالی کے سامنے جھک جائے۔ اس کیفیت کے ساتھ آپ کو یہ مراقبہ کرنا چاہیے۔

یقیناً ہمارا آئندہ دن ہمارے گذشتہ دن سے بہتر ہونا چاہیے، لیکن تصوف کا معاملہ ایسا ہے کہ تصوف کی راہ میں انسان کے اندر جو ترقی ہوتی ہے اُس کا پتا انسان کو خود نہیں چلتا، یا شیخ کو پتا چلتا ہے یا پھر دوسرے لوگوں کو پتا چلتا ہے، خود انسان اپنے آپ کو برا ہی سمجھتا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ جن کو آج ہم بہت بڑے بڑے بزرگ سمجھتے ہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما سے بڑا بزرگ کون ہو سکتا ہے، وہ تو خلیفہ راشد ہیں لیکن وہ اپنے بارے میں منافق ہونے کا گمان کر رہے ہوتے تھے۔ انہیں اپنی حالت پر اطمینان نہیں ہوتا تھا وہ ہر دم خوف اور امید کے درمیان معلق رہتے تھے۔

ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت کوئی ایسا حل بتا دیں کہ مجھے اطمینان ہو جائے، فرمایا: کفر کی بات کرتے ہو؟ اس دنیا میں اپنے اوپر مطمئن ہو جانا تو کفر ہے۔

اس لئے آپ یہ بات بھول جائیں کہ آپ کو اس معنی میں اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ میں اچھا ہوں۔ یہ جو آپ کو نظر آ رہا ہے کہ میں بُرا ہوں، یہی اصل میں وہ کھاد ہے جو آپ کو فائدہ دے گی۔ اس میں آپ جو ذکر کے بیج ڈالیں گے یہ تصور اس کے لئے کھاد کا کام کرے گا اور اصلاحِ نفس کے پھل پھول کھلیں گے۔ آپ غم نہ کریں اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے آپ کو بہت کچھ نصیب فرمائیں گے۔ آپ اپنی کوشش جاری رکھیں۔ قوت ارادی سے کام لینا سیکھیں، یہ بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز ہمیں جو عطا فرمائی ہے یہ بہت قیمتی ہے۔ ہر چیز اپنے ارادے اور نیت پر منحصر ہے لہذا ہمیں اپنے ارادے کو مضبوط کرنا چاہیے، اپنی نیت کو درست کرنا چاہیے۔ ارادہ حرکت کی چابی ہے اور نیت سمت ہے۔ نفس کی گاڑی کی چابی بھی اپنے ساتھ رکھیں اور اپنی نیت بھی درست رکھیں تاکہ سمت صحیح رہے۔ ان ہدایات پہ عمل کریں گے تو ان شاء اللہ کامیابی دور نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے (آمین)۔

سوال نمبر2:

سننے میں آیا ہے کہ انسانوں سے کٹ کے رہنا ایک نعمت ہے۔ میں پوری زندگی الگ تھللگ رہنا چاہتا ہوں، چپ رہنا چاہتا ہوں، لوگوں سے نہ کچھ لینا چاہتا ہوں نہ کچھ دینا چاہتا ہوں، محبت تو دور کی بات بلکہ نفرت کرتا ہوں۔ مجھے اپنے اندر کے یہ احساسات بغض، کینہ اور تکبر کا مجموعہ لگتے ہیں، کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ احساس کمتری ہے۔ آپ بہتر بتا سکتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں بیٹھ جانے کو تیار ہوں، پوری زندگی میں بڑی بری طرح ناکام اور مایوس ہوتا رہا۔ جسمانی بیماری لگ گئی، اپنی پہچان کھو دی، دوسروں کی اور اپنی نظروں میں آخری درجے سے بھی نیچے گرنے کے باوجود مر نہیں رہا تھا جو کوئی بھی غیرت مند شخص کبھی سہ نہیں سکتا، غلط اعمال میں نجات ڈھونڈنا شروع کر دی، حیوان مجھ سے بہتر مخلوق ثابت ہو گئی، ڈپریشن میں پی ایچ ڈی کر لی، دنیا میں ایم فل اور ایمان کو ٹھکرانے اور ضائع کرنے میں ڈبل گریڈ لیا، نفس اس دوران مجھ سے خوش رہا یا ناراض، پتا نہیں۔ روح کو غلط طرف لگانے میں ٹرپل ڈاکٹریٹ اور اللہ کو خوش کرنے میں راہ حق سے ٹاپ آؤٹ کر لیا۔ دعوت و تبلیغ کرنا میرے خاندان میں ایسا تھا جیسے بڑوں کے سامنے بچوں کی کہانیا ں سنانا اور اپنی کیفیت بیان کرنا ذہنی طور پر مفلوج کرنا۔

یہ خط لکھتے ہوئے شرم محسوس کر رہا ہوں۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ ناخوش ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے یا شاید یہ میرا وہم تھا، ابھی حقیقت کا پتا نہیں ہے۔ آپ سے بیعت ہونے کے بعد یہ کیفیات اتنے سالوں کے بعد پھر زندہ ہو رہی ہیں۔ اب میں کیا کروں۔ اگر یہ نعمت ہے تو اسے کس طرح استعمال کروں۔ جوڑ سے پہلے کافی سارے جوابات دل کی تسلی کے لئے تو مل ہی گئے تھے لیکن مکمل تفصیلی حالات اس خط میں لکھ رہا آپ یہ پڑھ کر تفصیلی رہنمائی فرما دیں۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔

جواب:

یہ جو باتیں آپ نے کی ہیں، کچھ آپ کے اپنے احساسات ہیں اور کچھ ڈپریشن کے اثرات ہیں۔ ایسے کیسوں میں دو طرح کا علاج کرنا پڑتا ہے۔ جب تک مریض Psychological range میں ہوتا ہے تب تک مشورے سے کام لیا جاتا ہے، جس میں وظیفہ جات بھی شامل ہیں لیکن جب مریض Psychological range سے آگے نکل کر Psychiatric range میں چلا جائے تو پھر Medical treatment ضروری ہوتا ہے۔ میر ا اپنا خیال یہ ہے کہ آپ کو Medical treatment کی ضرورت ہے اور آپ کے لئے کسی اچھے ڈاکٹر کا بندوبست کرنا چاہیے جو آپ کو اس بیماری کے مطابق درست Medical treatment دے سکے، جب Medical treatment پورا ہو جائے گا تو اس کے بعد ان شاء اللہ Psychological treatment شروع ہو گا تب آپ کو وظائف وغیرہ بھی دے دیں گے لیکن اس سے پہلے آپ کو اپنا Psychiatric treatment کروانا پڑے گا۔ آپ فکر نہ کریں، یہ قابل علاج چیز ہے۔ البتہ آپ کی طرف سے تعاون ضروری ہے۔

سوال نمبر3:

ایک خاتون نے خط بھیجا ہے جس میں انہوں نے اپنا پورا روحانی postmortem کیا ہے، اپنے رذائل کی تعداد لکھی ہے کہ جھوٹ، غیبت، لڑائی جھگڑا وغیرہ کتنی دفعہ ہوا ہے اور کافی تفصیل سے سب کچھ لکھا ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ۔ یہ فکر کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے ثمرات و برکات بھی نصیب فرما دیں۔ البتہ علاج کے لحاظ سے یہ عرض کروں گا کہ وظیفہ ہر چیز کا علاج نہیں ہے۔ اللہ پاک نے جو قوت ارادی دی ہوئی ہے اسے استعمال کرنا ضروری ہے۔ شیخ کا کام یہ بتانا ہے کہ کونسا راستہ اختیار کیا جائے، ابتدا کہاں سے کی جائے۔ آپ نے جو رذائل بتائے ہیں، ان کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ سب سے پہلے نمبر پر لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ اگلا پورا مہینہ ایسے گزرنا چاہیے جس میں آپ نے کوئی لڑائی جھگڑا نہ کیا ہو۔ اپنی قوت ارادی سے اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھیں اگر کوئی لڑائی جھگڑے کی صورت بنتی ہو، تو وہ جگہ چھوڑ دیا کریں۔ فی الحال یہ ضروری ہے۔ باقی جو چیزیں آپ نے لکھی ہیں ان شاء اللہ وقت آنے پر ان کے بارے میں عرض کروں گا، کہ آپ نے کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے۔

سوال نمبر4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ معظم و محترم شیخ۔ عرض یہ ہے کہ آپ نے جھوٹ کی بیماری کا علاج یہ بتایا تھا کہ سات دن کا چارٹ بنانا ہے۔ میں سات دن بعد ارسال نہیں کر سکی اب دس دن کا بنا کر بھیج رہی ہوں۔ چودہ، پندرہ، سولہ، سترہ کو روزہ رکھا تھا۔ پورے دن کوشش کر کے جھوٹ نہیں بولا۔ رات کو عشاء کے بعد پھر کبھی کوئی نہ کوئی بات جھوٹ بول دیتی ہوں، کسی دوست سے بات ہو جائے تو بول دیتی ہوں، اس وقت احساس نہیں ہوتا بعد میں خیال آتا ہے۔ جھوٹ کے ساتھ غیبت اور لڑائی جھگڑے کا بھی بتا دیا تاکہ حال معلوم ہو جائے اور صحیح رہنمائی ہو سکے۔ حضرت میں اذان توجہ سے نہیں سنتی، کبھی کبھی جواب بھی نہیں دیتی۔ پہلے اذان سنتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ابھی تو اور بہت سی مسجدوں میں اذانیں ہونی ہیں، بعد میں جواب دے دوں گی۔

معمولات: صبح 4 سے 5 سورہ یٰس، سورہ رحمٰن اور پھر نماز۔ 5 سے 10 تک اپنی پڑھائی۔ دس سے گیارہ تک سونا ہے اور 11 سے 4 پھر پڑھنا ہے۔ اس کے بعد نماز اور کھانے کا معمول ہے۔ 5 سے ساڑھے 7 تک نماز، قرآن مجید، مراقبہ، تسبیحات۔ ساڑھے 7 سے 8:45 تک پڑھنا، اور 8:45 سے 9 بجے تک عشاء کی نماز۔ اس کے بعد کھانا کھا کے 10 بجے تک سو جاتی ہوں۔ کبھی کسی دوست سے نیٹ پر بات کرتی ہوں یا کوئی نعت سنتی ہوں پھر 11 بجے سوتی ہوں۔

جواب:

آج کل بہتر یہی ہے کہ عشاء کی نماز کے فوراً بعد سو جایا کریں۔ باقی معمولات بالکل ٹھیک ہیں۔ اللہ تعالیٰ استقامت نصیب فرما دے۔

٭٭٭٭٭

(لاہور یونیورسٹی میں سیرت کے موضوع پر ہمارا ایک پروگرام ہوا تھا اس پروگرام میں بہت سارے سوالات کئے گئے تھے۔ وہاں سب سوالوں کے جوابات دینا ممکن نہیں تھا اس لئے ہم نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ جو سوال رہ گئے ہیں ان کے جوابات ان شاء اللہ پیر کے دن سوال و جواب کی مجلس کے دوران وقتاً فوقتاً دیئے جائیں گے۔ اس لئے اب ان سے میں جتنے سوالوں کے جوابات دینا ممکن ہے ان کے جواب بات دے دیتے ہیں۔

سوال نمبر5:

آپ ﷺ کی سنتیں بتا دیجیے جن پر عمل کرنا چاہیے۔

جواب:

آپ ﷺ کی سنتوں پر تو پوری زندگی عمل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ آپ حضرت ڈاکٹر عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”اسوہ رسول اکرم ﷺ“ لے لیں، پہلے اس کو پڑ ھیں پھر اُس کے اوپر عمل شروع کر لیں۔ اس پہ عمل کا طریقہ یہ ہے کہ ایک سال کے 52 ہفتے ہوتے ہیں۔ آپ ہر ہفتے کوئی ایسی سنت منتخب کریں جس پہ پہلے آپ کا عمل نہیں تھا، باقی سنتوں کو برقرار رکھتے ہوئے اس پہ عمل کرنا شروع کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر ہفتے مسنون دعاؤں میں سے ایک دعا یاد کر لیا کریں۔ اس طریقے سے آپ سال کے 52 ہفتوں میں 52 دعائیں یاد کر لیں گے، اور 52 سنتیں بھی زندہ ہو جائیں گی۔ اس ترتیب پر عمل شروع کر لیں اور اس کے لئے ڈاکٹر عبد الحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”اسوہ رسول اکرم ﷺ“ ہدیہ کر لیں اور اس کو اپنے ساتھ رکھیں۔ بہت مفید کتاب ہے اس کو پڑھتے بھی رہیں اور اس پر عمل بھی کیجئے گا۔

سوال نمبر6:

آج کل کے دور میں یونیورسٹیوں کا ماحول دیکھتے ہوئے کیا ہم اپنی بیٹیوں کو اس نظام تعلیم سے منسلک کر سکتے ہیں؟ اس بارے میں اسلام کیا پابندی لگاتا ہے۔ جو عورتیں باہر نکلتی ہیں اُن کے بارے میں نبی پاک ﷺ کا کیا فرمان ہے۔

جواب:

ویسے تو اس بارے میں ساری باتیں کلئیر ہیں۔ اگر آپ کا مقصد میری زبان سے یہ باتیں سننا ہے تو علیحدہ بات ہے۔ اگر آپ مجھے اس کا ثواب دینا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے میں بھی اس ثواب میں حصہ لے لیتا ہوں۔

ایک اصول ذہن میں رکھیں۔ بے حیائی کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس نظام تعلیم میں بے حیائی ہے تو پھر اس کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس نظام تعلیم میں بے حیائی نہیں ہے تو پھر یہ نظام تعلیم درست ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی تعلیم پردے کے ساتھ اور حیا کے ساتھ حاصل ہو سکتی ہے تو سبحان اللہ وہ بالکل ٹھیک ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھیں کہ عورتوں کے لئے ساری تعلیموں کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ خاص علوم و فنون ہیں جن کا خواتین کو فائدہ ہوتا ہے مثلاً اگر میڈیکل ایجوکیشن پردے اور حیا کی حفاظت ساتھ حاصل کرنا ممکن ہو تو خواتین یہ تعلیم ضرور حاصل کریں۔ کیونکہ عورتیں بھی بیمار ہوتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں عورتوں کی تعداد پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ اُن کا بھی حق ہے، اُن کے لئے لیڈی ڈاکٹرز کی ضرورت ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری معلومات کے مطابق بہت کم خواتین ایسی ہیں جو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پریکٹس کرتی ہیں۔ آج کل میڈیکل کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد تقریباً ستر اسی فیصد کے قریب ہوتی ہے۔ اس کے باوجود آپ مارکیٹ پہ نظر دوڑائیں تو لیڈی ڈاکٹرز بہت کم ملتی ہیں۔ میرے خیال میں بیس فیصد سے زیادہ لیڈی ڈاکٹرز نہیں ملیں گی۔ تو پھر یہ بتائیں کہ باقی 60 فیصد خواتین جنہوں نے پریکٹس نہیں کرنی وہ میڈیکل کی تعلیم کس لئے حاصل کرتی ہیں۔ ان کی تعلیم کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے لئے علیحدہ یونیورسٹی بنائے۔ لیکن جب تک حکومت ایسا نہیں کرتی تب تک خواتین انہی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کریں لیکن اپنے پردے اپنے حجاب اور اپنی حیا کا مکمل خیال رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کرتے ہوئے تعلیم ضرور حاصل کریں۔ حصول تعلیم کی تکمیل کے بعد پردے کے ساتھ ہی پریکٹس لازمی کریں تاکہ لیڈیز کو فائدہ ہو۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی خاتون میڈیکل سیٹ حاصل تو کرلے لیکن بعد میں پریکٹس نہ کرے۔ اس سے ملک اور قوم کا سرمایا بھی ضائع ہوتا ہے اور ضرورت بھی پوری نہیں ہوتی۔

میڈیکل کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں بھی بچیوں کے لئے خواتین اُستانیوں کی ضرورت ہے لہٰذا عورتیں اس شعبے میں ضرور تعلیم حاصل کریں اور خواتین کو پڑھائیں۔ لیکن انجینئرنگ یا Law وغیرہ جیسے شعبوں میں خواتین کا کوئی کام نہیں، خواہ مخواہ اپنے آپ کو خراب کرنا ہے۔ میری بات بہت سی لیڈیز کو پسند نہیں آئے گی، لیکن در اصل یہ میری بات نہیں ہے، یہ بات قرآن و سنت سے لی گئی ہے۔ اس بات کو سمجھیں کہ بنیادی طور پر نہ میری بات صحیح ہے نہ کسی اور کی بات صحیح ہے بلکہ اصل میں تو اللہ اور رسول ﷺ کی بات صحیح ہے۔ اگر میں اللہ اور رسول کی بات کر رہا ہوں تو میری بات صحیح ہو جائے گی، اور اگر آپ اللہ و رسول کی بات کر رہے ہیں تو آپ کی بات صحیح ہو جائے گی۔ عمل میری یا آپ کی بات پر نہیں بلکہ اللہ اور رسول ﷺ کے حکم پر ہو گا۔ آپ اس مسئلے میں بس اللہ کا حکم معلوم کر لیں اور رسول اللہ ﷺ کا حکم معلوم کر لیں پھر اُسی پہ چلیں۔

آپ نے پوچھا کہ اس بارے میں اسلام کیا پابندی لگا تا ہے؟

اسلام بے حیائی پہ پابندی لگاتا ہے اور بلا ضرورت باہر نکلنے پہ پابندی لگاتا ہے۔ عورت باہر نکل سکتی ہے اگر بے حیائی نہ ہو اور نکلنا ضرورت کے تحت ہو۔ جو عورتیں باہر نکلتی ہیں اُن کے بارے میں نبی پاک ﷺ کا فرمان سب کو معلوم ہے کہ بے حیا عورت شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے جب وہ خوشبو لگا کر باہر جاتی ہے تو اس کے گھر واپس آنے تک فرشتے اس پہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب باتیں میری طرف سے نہیں ہیں، نبی پاک ﷺ نے ایسا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور صحیح بات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر7:

!Sir آپ غیب کا علم کس حد تک جانتے ہیں۔ اس پر کوئی دلیل دے دیں۔

جواب:

پتا نہیں ان کو کس طرح یہ غیب کا علم ہو گیا کہ میں غیب کا علم جانتا ہوں۔ بھئی غیب کا علم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ غیب کا علم صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔ البتہ غیب کی خبریں ہوتی ہیں جو کبھی کبھی کسی کسی کو کسی ذریعے سے مل جاتی ہیں۔ یہ ذرائع سانئیٹیفک بھی ہو سکتے ہیں اور روحانی بھی ہو سکتے ہیں۔ ان خبروں کو ”انباء الغیب“ ”غیب کی خبریں“ کہتے ہیں، علم الغیب نہیں کہتے۔ مثلاً میں ادھر بیٹھا ہوں اور میں نے انٹرنیٹ کے ذریعے سے یہ خبر معلوم کر لی کہ امریکہ میں یہ ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے میں امریکہ میں نہیں ہوں لیکن مجھے ایک ذریعے سے پتا چل گیا کہ امریکہ میں یہ ہو رہا ہے۔ یہ تو سائنٹیفک ذریعے کی مثال تھی۔ اسی طرح کسی کو کشف کے ذریعے سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ فلاں جگہ یا فلاں وقت کیا ہو رہا ہے، خواب کے ذریعے سے بھی پتا چل سکتا ہے، لیکن وہ صرف جزوی خبریں ہوتی ہیں۔ دنیا میں بہت ساری چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں سب کا پتا نہیں چل سکتا۔ جزوی طور پر کبھی کبھی کوئی خبر ضرور معلوم ہو سکتی ہے لیکن ہر وقت اور کلی طور پہ ایسا نہیں ہوتا اور یہ ذاتی طور پر نہیں ہوتا بلکہ عطائی طور پر ہوتا ہے۔ جب اللہ پاک چاہیں تب کسی کو کچھ چیزوں کا پتا چل جاتا ہے۔ جیسے عمر رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ اُن پر اللہ پاک نے ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو جہاد کے لئے گئے ہوئے تھے اُن) کی حالت کھول دی کہ اُن کے پیچھے دشمن آ رہا ہے اور یہ جنگ بہت دور سینکڑوں میل دور ہو رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہیں منبر پر بیٹھے بیٹھے نعرہ لگایا: یَا سَارِیةُ الْجَبَلَ یَا سَارِیةُ الْجَبَلَ“ اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو، اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو۔ جہاں حضرت ساریہ جنگ کر رہے تھے وہاں صورت حال یہ تھی کہ پہاڑ کی طرف سے حملہ ہونے والا تھا۔ نہ صرف یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا پتا چل گیا، انہوں نے جان لیا بلکہ ان کی آواز بھی اللہ تعالیٰ نے اُدھر پہنچا دی اور حضرت ساریہ نے سُن بھی لیا اور اُس پر عمل بھی کیا۔ جب جنگ سے واپس آئے تو انہوں نے یہ واقعہ بیان بھی کیا۔ اب یہ کرامت ہے۔ معلوم ہوا کہ كَرَامَاتُ الْأَوْلِيَاءِ حَقٌّ ”اولیاء کی کرامات حق ہیں“۔ لیکن ایک بات یاد رہے کہ کرامت ولی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ اللہ کا فعل ہوتا ہے بس اسے ظاہر ولی کے ہاتھ پہ کیا جاتا ہے۔ جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ کرامت در اصل اللہ کا فعل ہوتا ہے تو پھر اللہ پاک کی قدرت تو لا محدود ہے، جیسے وہ خود کچھ بھی کر سکتا ہے ایسے ہی کسی کے ہاتھ سے کچھ بھی کروا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ پاک کسی کو غیب کی باتیں بتانا چاہے تو اللہ پاک کے لئے اس میں کوئی مشکل نہیں ہے، لیکن یہ بات مسلَّم ہے کہ یہ ہوتا اللہ کا کام ہے اور اللہ اس علم میں سے کسی بھی انسان کو وقتی طور پر محدود پیمانے پر جو چاہے علم دے سکتا ہے۔

سوال نمبر8:

سوال: محرم اور غیر محرم کے بارے میں تفصیل سے بتا دیں۔

جواب:

محرم وہ ہوتا جس سے عمر بھر میں کسی طریقے سے کسی صورت میں نکاح ممکن نہ ہو اور جس سے کسی بھی صورت میں نکاح ممکن ہو وہ غیر محرم ہوتا ہے۔ اس تعریف کے مطابق کزن غیر محرم ہے، بھابھی غیر محرم ہے، چچی غیر محرم ہے اور پھوپھیاں خالائیں، بھانجیاں، بھتیجیاں، بیٹیاں، بہنیں، ماں، سوتیلی ماں یہ سب محرم ہیں۔ اس کی مکمل تفصیلات فقہ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔

سوال نمبر9:

قرآن اور حدیث کی روشنی میں یہ بتا دیں کہ ہمارا نظام تعلیم کیسا ہونا چاہیے۔

جواب:

نظام تعلیم ایسا ہونا چاہیے، جس میں ضروری درجے کا علم دین بھی حاصل ہو جائے، جسے فرض عین علم کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جس فن میں آدمی کمال حاصل کرنا چاہے، اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم توڑے بغیر اُس فن میں کمال بھی حاصل کر سکے۔ مختصر طور پر تو اس سوال کا جواب یہی ہے، تفصیلات بہت ہیں جو مخلتف حالات پہ منحصر ہیں۔

سوال نمبر10:

کیا اسلام میں عید میلاد النبی منانا بدعت ہے، یہ بات کسی حدیث یا روایت سے ثابت ہے؟

جواب:

دیکھیں میں اس پر حتمی فیصلہ نہیں دیتا بلکہ چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ان کی روشنی میں آپ خود سوچ لیں کہ عید میلاد النبی منانا کیسا ہے۔

ایک بات بتائیے۔ آپ ﷺ کے ہم زیادہ عاشق ہیں یا صحابہ کرام زیادہ عاشق تھے؟ ظاہر ہے صحابہ کرام زیادہ بڑے عاشق تھے، اس میں کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی۔

دوسری بات یہ بتائیے کہ آپ ﷺ کی پیدائش اور آپ ﷺ کی وفات کا دن ہمیں زیادہ معلوم تھا یا صحابہ کو زیادہ معلوم تھا؟ اس کا جواب بھی ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کو ہی زیادہ معلوم تھا۔ ہمیں تو یقینی طور پر پتا نہیں ہے، اسی لیے تو اس میں اختلاف ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ 9 ربیع الاول کو ہے، کچھ کہتے ہیں 8 ربیع الاول کو ہے، 12 کا قول تو بہت زیادہ اختلافی ہے۔ اسی طرح یوم وفات میں بھی اختلاف ہے۔ کچھ لوگ یکم ربیع الاول کا کہتے ہیں بعض کا قول 2 ربیع الاول کا بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں تاریخ کا حتمی طور پر پتا نہیں ہے، صحابہ کرام کو اس کا صحیح علم تھا۔

تیسری بات یہ بتائیں کہ کیا صحابہ کے پورے دور میں میلاد النبی منانا ممکن تھا یا نہیں تھا؟ اگر وہ منانا چاہتے تو ممکن تھا یا نہیں تھا اور اگر ممکن تھا تو کیا انہوں نے منایا؟ اس کا جواب بھی بالکل ظاہر ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی نے نبی پاک ﷺ کی ولادت کا دن نہیں منایا، تابعین میں سے بھی کسی نے نہیں منایا، جن میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی آتے ہیں۔ تبع تابین میں بھی کسی نے نہیں منایا، جن میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، اور بہت سے بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ ابتدائی چار پانچ صدیوں میں کسی نے نہیں منایا۔ غالباً اب سے کوئی چھ سو سال پہلے ایک اوباش قسم کا حکمران تھا جس کے خلاف بغاوت ہو رہی تھی، بغاوت سے بچنے کے لئے اس نے عوام کی دکھتی رَگ پہ ہاتھ رکھا کہ میں کوئی ایسا کام کر لوں جس سے عوام کو میرے ساتھ محبت ہو جائے۔ اس کے لئے اس نے یہ میلاد منانے کا طریقہ رائج کیا۔

امید ہے یہ تفصیل جاننے کے بعد مزید جواب کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ جو کام صحابہ نے نہیں کیا، تابعین نے نہیں کیا، تبع تابعین نے نہیں کیا۔ ایسی بات نہیں کہ وہ کام ان کے زمانے میں ہو نہیں سکتا تھا، بالکل ہو سکتا تھا، اس کے باوجود انہوں نے نہیں کیا۔ ایسے کسی کام کو اگر دین کی نیت سے کیا جائے تو وہ بدعت ہوگا۔ میں نے جو سوالات اٹھائے ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سوالات درست ہیں تو پھر یہ نتیجہ بھی درست ماننا پڑے گا کہ کوئی کام جو اُس وقت ہو سکتا تھا اور نہیں ہوا، اب اگر کوئی اُس کو دین کے نام سے کرے گا تو وہ کام بدعت کہلائے گا۔ اکثر لوگ اس پر کہتے ہیں کہ بھئی اُس وقت تو ہوائی جہاز بھی نہیں تھا، اس لحاظ سے تو جہاز کا استعمال بھی بدعت ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے جہاز کے استعمال کو بدعت اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اسے دین سمجھ کر استعمال نہیں کیا جاتا جبکہ ہم اس کام کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو قرون اولیٰ میں کیا جا سکتا تھا لیکن اسے دین کی نیت سے نہیں کیا گیا، ایسا کوئی کام اگر دور حاضر میں دین سمجھ کر کیا جاتا ہے تو وہ بدعت ہوگا اور جہاز کا استعمال اس تعریف پہ پورا نہیں اترتا، اس لئے اس کو بدعت نہیں کہا جائے گا۔ اتنی سی بات ہے، اگر یہ بات سمجھ میں آ گئی تو امید ہے سوال کا جواب بھی سمجھ میں آ گیا ہو گا۔

سوال نمبر11:

رفع یدین کے بارے میں بتا دیجئے کہ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔

جواب:

یہ بتائیے کہ میرا علم زیادہ ہے یا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا علم زیادہ تھا؟ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا علم زیادہ تھا یا میرا علم زیادہ ہے؟ یقیناً ان دونوں حضرات کا علم زیادہ تھا۔ اِس سوال کا جواب انہوں نے بھی دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رفع یدین غیر اولی ہے، یعنی نہ کرنا اچھا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رفع یدین کرنا اچھا ہے۔ رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، دونوں کاموں کو فرض کسی نے بھی نہیں کہا، نہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے رفع یدین کا کرنا فرض قرار دیا نہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے رفع یدین نہ کرنا فرض قرار دیا۔ یہ صرف اولیٰ اور غیر اولیٰ کا اختلاف ہے، کسی کے نزدیک کرنا زیادہ اچھا ہے اور کسی کے نزدیک نہ کرنا زیادہ اچھا ہے۔ آج کے دور میں بھی اگر اتنا ہی اختلاف رکھا جائے تو گنجائش ہے، کوئی آدمی کہے کہ کرنا زیادہ اچھا ہے اور دوسرا آدمی کہے کہ نہ کرنا زیادہ اچھا ہے۔ جو رفع یدین کے اثبات کو زیادہ اچھا کہے گا، ہم کہیں گے کہ یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا پیروکار ہے اور جو کہے گا کہ رفع یدین نہ کرنا زیادہ اچھا ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا زیادہ پیروکار ہے یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا زیادہ پیروکار ہے۔ باقی اس مسئلہ پہ لڑائی کرنا، پوسٹر نکالنا اور انعام مقرر کرنا یہ سب جہالت اور سفاہت و حماقت کی باتیں ہیں، صرف اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ یہ چیزیں لڑائیوں کی نہیں ہیں، لڑائیوں کی چیزیں اور ہیں۔ اپنے بھائیوں کے خلاف فتویٰ لگانا اپنے آپ کو ہی خراب کرنا ہے۔ دشمن کے ایجنٹ ہی ایسے کام کر سکتے ہیں جو اُمت کے اندر تفرقہ ڈالتے ہیں۔ بھائی جس چیز کی گنجائش ہے اس میں تم بھی گنجائش سمجھو۔ جو چیز نہ فرض و واجب ہے نہ اس میں ممانعت کا صراحۃً حکم ہے تو تم بھی اسے ویسا ہی سمجھو، اسے فرض اور واجب نہ سمجھو اور اس سے حرام یا مکروہ کے درجے میں منع بھی نہ کرو، اسے اولیٰ اور غیر اولیٰ کے درمیان رکھو۔

ہم لوگ اپنی سہولت اور کامیابی اس میں سمجھتے ہیں کہ ہم کسی ایک امام کے پیچھے جائیں اور کہیں کہ بس جو فیصلہ وہ کر دے وہ ہمارے لئے ٹھیک ہے۔ جیسے ہم ایک فیملی ڈاکٹر رکھ لیں تو اس میں زیادہ آسانی اور زیادہ فائدہ ہے۔ کیونکہ ساری تحقیق کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ میں رفع یدین کے اوپر پانچ سال ریسرچ کروں پھر کہوں کہ میری تحقیق یہ ہے کہ رفع یدین کرنا چاہیے، میری اس تحقیق کا کیا فائدہ جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کئی سو سال پہلے ہی تحقیق کر کے یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ رفع یدین کرنا چاہیے۔ دوسری صورت میں اگر پانچ سال کی تحقیق کے بعد مجھے پتا چلے کہ رفع یدین نہ کرنا اچھا ہے تو کیا فائدہ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تو یہ بات پہلے سے ہی ثابت کر چکے ہیں، میں نے کیا نیا کمال کیا ہے۔ بالخصوص تب جب یہ تحقیق بھی اولیٰ غیر اولیٰ کے بارے میں ہو، ایسا مسئلہ جس کے بارے میں نہ میرے بیٹے پہ پابندی ہے کہ وہ میرے فیصلے پہ عمل کریں نہ میری ماں کے اوپر، نہ میری بیوی کے اوپر، نہ میرے بھائی کے اوپر الغرض کسی کے اوپر یہ تحقیق حجت نہیں ہو گی کہ شبیر صاحب کی یہ ریسرچ ہے اس کے اوپر عمل کرو، تو پھر میں ایسا کام کیوں کروں۔ اگر کچھ کرنا ہی ہے تو مجھے آج کل کے مسائل پہ تحقیقی کام کرنا چاہیے۔ بینکنگ سسٹم کا مسئلہ حل کرنا چاہیے کہ غیر سودی بینکنگ کیسے ہو سکتی ہے، رویت ہلال کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے، اسی طرح اور بہت سے مسائل ہیں۔ کونسی دوائی ٹھیک ہے کونسی نہیں، کونسی چیز کھانا ٹھیک ہے کونسی نہیں۔ ایسی چیزوں پہ تحقیق کرنی چاہیے جو آج کل کے مسائل ہیں۔ یاد رکھیے کہ جب آپ اولیٰ غیر اولیٰ جیسے مسائل میں پڑیں گے، تو پھر اِن چیزوں کے لئے وقت نہیں رہے گا جو آپ کو کرنی چاہئیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جو کرنا چاہیے وہ تو کرنا نہیں ہے، اور جو نہیں کرنا چاہیے اسے کئے جانا ہے۔ ایسے آدمی کو کیا کہیں گے، یا وہ بے وقوف ہو گا یا دشمن کا ایجنٹ ہو گا۔ اگر وہ ایسے مسائل پر لوگوں کو لڑاتا ہے تو دشمن کا ایجنٹ ہے اور اگر اپنا وقت ضائع کرتا ہے تو بے وقوف ہے۔

سوال نمبر12:

حضرت صاحب یہ بتائیں کہ سنت رسول ﷺ کے مطابق آج کے زمانے میں کیسے شادی کروائی جا سکتی ہے۔

جواب:

یہ ایک عملی سوال ہے اور اچھا سوال ہے۔

کیا خیال ہے ایک سو سال کے بعد حضور ﷺ کی سنت بدل جائے گی؟ پانچ سو سال پہلے کوئی اور سنت تھی، اب کوئی اور سنت ہونی چاہیے؟ جواب ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ چونکہ آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں، اس لئے آپ ﷺ کی سنت متعین ہو چکی ہے، اب اُس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ یہ جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ چیزیں اُس دور کے لئے تھیں، یہ ایک غلط سوچ ہے، سنت میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ البتہ کچھ مسائل ایسے ہیں جن میں کچھ گنجائش آ سکتی ہے لیکن اسے ہم سنت نہیں کہیں گے بلکہ اسے جائز یا مباح کہیں گے۔ مباح میں بڑی گنجائش ہوتی ہے، جہاں تک اس میں کوئی غیر شرعی امر نہ آ جائے وہاں تک مباح میں گنجائش ہوتی ہے لیکن سنت تو سنت ہی رہے گی۔

ایک باورچی کا انٹرویو ہو رہا تھا۔ اس سے سوال ہوا کہ آپ فلاں کھانا پکا سکتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں بالکل پکا سکتا ہوں لیکن سالن تو آلو گوشت ہی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اُس سے کسی اور چیز کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا آپ یہ پکا سکتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں بالکل پکا سکتا ہوں لیکن سالن تو آلو گوشت ہی ہوتا ہے۔ الغرض پانچ چھ چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا اور اس نے ہر بات کے جواب میں یہی کہا کہ پکا سکتا ہوں لیکن سالن تو آلو گوشت ہی ہوتا ہے۔

بات یہ ہے کہ آپ گنجائشیں تو بہت نکال سکتے ہیں لیکن سنت تو سنت ہی ہے وہ تبدیل نہیں ہو سکتی اگر سنت کے مطابق کرنا ہے تو طریقہ وہی ہے جو آج سے پندرہ سو سال پہلے تھا، اُس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔

نکاح کے بارے میں سنت طریقہ یہ ہے کہ:

نکاح مجمع میں ہونا چاہیے، مسجد میں کر لیں تو اور بہتر ہے۔

نکاح کا انتظام سادگی والا ہو جس میں بہت زیادہ دھوم دھام نہ ہو۔

نکاح کے بعد اپنی حیثیت کے مطابق چھوارے وغیرہ تقسیم کر سکتے ہیں۔

نکاح میں مہر اتنا زیادہ نہ ہو کہ لڑکا ادا نہ کر سکے اور اتنا کم نہ ہو کہ لڑکی کی توہین ہو بلکہ معتدل طریقے پر مہر مقرر کیا جائے۔

نبی ﷺ کے دور میں نکاح میں مہندی مایوں وغیرہ جیسی فضول رسمیں نہیں ہوتی تھیں صرف نکاح ہوتا تھا اور نکاح کے بعد رخصتی ہو جاتی تھی۔ رخصتی کے لئے بھی کوئی دھوم دھام نہیں ہوتی تھی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی یوں ہوئی تھی کہ نکاح کے بعد آپ ﷺ نے ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھیج دیا تھا۔

نکاح سے اگلے دن ولیمہ ہوتا ہے، اور یہ حسبِ حیثیت ہونا چاہیے۔ آپ ﷺ نے ایسا ولیمہ بھی کیا ہے جس میں بکری کا گوشت پکایا گیا اور ایسا ولیمہ بھی کیا ہے جس میں صرف ایک پیالہ دودھ کا تھا اسی میں سے سب لوگوں نے پی لیا۔

بس یہی ہے سنت کے مطابق شادی۔ نبی پاک ﷺ کے دور میں ایسے ہی ہوتی تھی، اور آج کے دور میں سنت کے مطابق وہی شادی ہو گی جو اس طریقہ کے مطابق ہوگی۔

سوال نمبر13:

Sir میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ گانا اسلام میں حرام ہے لیکن حضرت داود علیہ السلام بھی تو گایا کرتے تھے۔

جواب:

بھئی مزامیر کے ساتھ گانا اور بات ہے، کسی چیز کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا اور بات ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام ایسے ہی گاتے تھے جیسے آج کل ہم خوش الحانی کے ساتھ نعتیں پڑھتے ہیں اور اس میں کوئی ناجائز یا حرام والی بات نہیں ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ گانوں کی طرز پر نعت پڑھنا بالکل غلط ہے، کیونکہ اس میں گوئیوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ اس کے علاوہ مزامیر یعنی موسیقی کے آلات کے ساتھ کوئی بھی چیز گنگنانا اور گانا غلط اور حرام ہے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں آلات مزامیر کو توڑ نے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ ایک بار آپ ﷺ نے جب مزامیر کی آواز سنی تو دونوں اُنگلیاں اپنے کانوں میں دے دیں اور پھر یہ دیکھنے کے لئے کہ آواز آنا بند ہوئی ہے یا نہیں، خود کانوں سے انگلیاں نہیں نکالیں بلکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جو اُس وقت بچے تھے اُن سے پوچھا کہ اب تو آواز نہیں آ رہی؟ جب انہوں نے بتایا کہ اب آواز نہیں آ رہی تب کانوں سے اُنگلیاں نکالیں۔

لہٰذا اگر طرز گانوں والی نہیں، کوئی موسیقی کے آلات بانسری باجا وغیرہ نہیں ہیں تو پھر آپ خوش الحانی کے ساتھ کوئی بھی شعر پڑھ لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ بالکل جائز ہے۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ جن کی طرف سماع کی ساری باتیں منسوب ہیں اُن کے ملفوظات ”فوائدالفوائد“، میں حضرت کا ایک ملفوظ ہے، فرماتے ہیں: اگر سماع میں یہ چار شرطیں ہوں تو جائز ہے، ورنہ نہیں۔

کلام عارفانہ ہو،

پڑھنے والے عارفین ہوں، سننے والے بھی عارفین ہوں

محفل میں کوئی عورت اور بچہ نہ ہو

موسیقی کے آلات جیسے مزامیر ہے یہ نہیں ہونے چاہئیں۔

اگر یہ شرائط پوری ہوں تو یہ جائز سماع ہے، لیکن آج کل ان شرائط کو پورا نہیں کیا جاتا اور کہتے ہیں کہ بزرگ بھی تو سماع کرتے تھے اور ہم بھی سماع ہی کرتے ہیں۔ بھئی یہ دیکھو کہ وہ کس طرح کا سماع کرتے تھے اور آپ کس طرح کا کرتے ہیں۔

لہٰذا اگر آپ گانا گانا چاہتے ہیں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اسے جائز مت کہیں، کیونکہ حرام کو جائز کہنے میں کفر کا اندیشہ ہے، ہاں حرام کہہ کر کرنے میں کفر کا اندیشہ نہیں ہے بلکہ گناہ گار ہونا ہے اور گناہ گار کافر سے تو اچھا ہی ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں دلائل نہ دیا کریں، یہ آپ کے فائدے کی بات ہے۔ باقی جس نے خود کشی کا فیصلہ کیا ہو اُس کو کون روک سکتا ہے۔

سوال نمبر14:

مولانا کیا دین میں داڑھی ہے یا داڑھی میں دین ہے ؟

جواب:

یہ بہت گستاخانہ سوال ہے، یہ سنت کا مذاق اُڑانا ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ چونکہ داڑھی سنت رسول ﷺ ہے اس لئے ہم تو اس کو سنت کہیں گے۔ ہوشیار لوگ وہی ہیں، جو سنت پر عمل کرتے ہیں اور سنت پر عمل کرنے والے اللہ پاک کے محبوب لوگ ہیں:

﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)

ترجمہ: ” (اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“۔

نص قرآنی کے ذریعے سے ثابت ہوا کہ جو سنت پر عمل کرتے ہیں وہ اللہ کے محبوبین ہیں اور سنت پر عمل نہ کرنے والے اللہ کے محبوب نہیں ہیں۔ سنت کی مخالفت کرنے والوں کے تو ایمان پر بھی شبہ ہے کہ جانے ان کا ایمان بھی باقی ہے یا نہیں۔ لہٰذا اپنے آپ کو کم از کم ایمان سے باہر نہیں نکالنا چاہے۔

باقی میں یہ کہوں گا کہ دین میں بھی داڑھی ہے اور داڑھی میں بھی دین ہے۔ دین میں تو داڑھی ہے سنت کی حیثت سے اور داڑھی میں دین ہے اس لحاظ سے کہ اگر اس کی مخالفت کی جائے تو انسان دین سے نکل جائے گا۔ یہ اس کے بارے میں معتدل فیصلہ ہے کہ دین میں سنت کی حیثیت سے داڑھی ہے اور سنت بھی ایسی مؤکد ہے کہ اس پہ وجوب کا شبہ ہوتا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے غیر مسلم قاصدوں کو (جبکہ قاصد کے ساتھ ہر مذہب میں رواداری کا سلوک کیا جاتا ہے) جن کی داڑھی نہیں تھی‘ دیکھنا بھی گوارا نہیں فرمایا، چہرہ موڑ لیا، پھر پوچھا کہ تمہیں اپنا چہرہ مسخ کرنے لئے کس نے کہا ہے؟ انہوں نے کہا: ہمیں اپنے رب نے حکم دیا ہے۔ وہ اپنے بادشاہ کو رب کہتے تھے۔ نبی ﷺ فرمایا: مجھے تو میرے رب نے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کتروانے کا حکم دیا ہے۔ اب اس سے اندازہ کرلیں کہ آپ ﷺ کی منشا اس بارے میں کیا ہے۔

اہل کشف حضرات کہتے ہیں: اب بھی روضۂ اقدس پر جب وہ لوگ سلام پڑھتے ہیں جن کی داڑھی نہیں ہوتی تو آپ ﷺ اُن کی طرف سے چہرہ موڑ لیتے ہیں، اُن کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتے۔ یہ کشف کی بات ہے آپ اسے نہ بھی مانیں تو حرج نہیں لیکن اس حدیث سے تو انکار نہیں کر سکتے جو میں نے سنائی ہے۔ داڑھی نہ رکھنا گناہ ہے، لیکن اُس کا مذاق اڑانا کفر تک لے جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے اس مسئلے میں بہت محتاط رہنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرما دے۔ (آمین)

میں نے اپنے بیان میں شیخ کامل کی جو آٹھ نشانیاں بتائی تھیں ان میں ساتویں نشانی یہ تھی کہ وہ کھری کھری سنا سکتا ہو۔ یعنی کوئی کام غلط ہو تو اس کے بارے میں صاف صاف بتا سکتا ہو کہ یہ غلط ہے۔ لہٰذا اگر مجھ سے کسی کام کے بارے میں سوال ہو گا اور وہ کام غلط ہے تو پھر مجھ سے یہ توقع نہ کی جائے کہ میں کسی کا دل رکھنے کے لئے صحیح بات نہیں کروں گا۔

سوال نمبر15:

کیا موجودہ دور میں متعہ حلال ہے یا جائز ہے؟ کیونکہ آپ ﷺ کے دور میں یہ حرام نہیں تھا۔

جواب:

اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے، یہ تو بہت لمبی بات ہے اس مختصر وقت میں اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن بہرحال اگر آپ اہل سنت ہیں تو یہ سوال نہ کرتے، اگر آپ شیعہ ہیں تو میں آپ کو جواب کے قابل نہیں سمجھتا۔ اگر آپ سنی ہیں تو آپ کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ سنیوں کے نزدیک متعہ حرام ہے، اور اگر آپ شیعہ ہیں تو میرے خیال میں آپ سے بات کرنا فضول ہے، کیونکہ آپ میری بات سمجھیں گے بھی نہیں اور میری بات مانیں گے بھی نہیں، جس بات کے ماننے کی امید نہ ہو اور سامنے والا اسے سمجھنے کو تیار نہ ہو اُس بات کو کرنے کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ میں ایسی چیز پر وقت کیوں لگاؤں، جس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اہل سنت کا اس میں کوئی اختلاف نہیں، وہ کہتے ہیں کہ متعہ حرام ہے اور جو اہل سنت نہیں ہیں اُن کے ساتھ اس موضوع پر بحث کرنا فضول ہے۔ میرے خیال میں اتنی بات کافی ہے۔

سوال نمبر16:

یہ جو کہتے ہیں کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ بعض اوقات کسی کے ہاتھ سے کسی کو ایذاء پہنچتی ہے، بعد میں اس کی تلافی بھی نہیں ہو سکتی لیکن وہ اس پر توبہ کر لیتا ہے تو کیا اب اس کا گناہ معاف ہو جائے گا؟

جواب:

جس نے توبہ کر لی اُس کی حالت تبدیل ہو گئی، برف پگھل جائے تو پھر وہ برف نہیں رہتی پانی بن جاتا ہے، اب اُس پہ پانی کے احکامات لاگو ہوتے ہیں۔ پس جس نے توبہ کر لی اس کا گناہ ہی ختم ہو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نمازِ استسقا والے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا: ایک شخص نے مجھے چالیس سال سے ناراض کیا ہوا ہے جب تک یہ ان لوگوں میں موجود ہے تب تک میں بارش نہیں دوں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اعلان کیا کہ اس مجمع میں کوئی ایسا شخص ہے تو نکل جائے تاکہ باقی لوگوں کو بارش نصیب ہو جائے۔ ابھی کوئی آدمی نہیں نکلا تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ حضرت موسیٰ کو بڑی فکر ہو گئی کہ میں نے وحی سے معلوم شدہ بات بتائی تھی اگر اس کے پورا ہوئے بغیر بارش ہو گئی ہے تو وحی مشکوک ٹھہرے گی۔ انہوں نے اللہ پاک سے درخواست کی کہ اے اللہ میں نے تو اعلان بھی کر دیا کہ مجھے وحی ہوئی ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ اُس شخص نے میرے ساتھ صلح کر لی ہے۔ یہ جان کر موسیٰ علیہ السلام بہت خوش ہوئے کہ ایسا آدمی تو ولی اللہ ہے۔ انہوں نے عرض کی: یا اللہ اگر مجھے پتا چل جائے تو میں اُن کی زیارت کر لوں۔ اللہ پاک نے فرمایا: اے موسیٰ میں نے اتنا عرصہ جب وہ میرے خلاف کام کر رہا تھا تب اُس کا پردہ نہیں اُٹھایا، اب جبکہ وہ میرا دوست بن گیا ہے تو میں اُس کا پردہ کیوں اٹھاؤں۔ لہذا جب کوئی توبہ کر لے تو پھر وہ گناہ گار رہتا ہی نہیں، اس کے ساتھ گناہ گاروں والے حساب کتاب بھی نہیں ہوتے۔ البتہ اگر وہ پکی توبہ نہ کرے دوبارہ گناہوں میں مبتلا ہو جائے تو پھر اس کا معاملہ گناہ گاروں والا ہی رہے گا۔ رحمان بابا کہتے ہیں:

کوہیں مہ کنہ د ہ بل سڑی پہ لار کیں

چرے ستا بہ ده کوہیں پہ غاڑ ہ لاڑ شی

تہ چہ بل پہ غشو اولے ھسے پوہہ شہ

چرے دغه غشے بہ ستا پہ لور گزار شی

تو یہ کہہ رہا ہے کہ کسی کی طرف تیر نہ پھینکو ممکن ہے تیر تیری طرف پھینکا جائے، کسی کے راستے میں کنواں نہ کھودو ممکن ہے تیرے اس کنویں کے اوپر راستہ بن جائے۔ ایسا تو ہوتا رہتا ہے۔ اگر بعض لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے وہاں کے لئے زیادہ سخت سزا رکھ دی ہے تو ان کا معاملہ الگ ہے ورنہ عموماً یہاں پر ہی معاملہ ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر16:

میرا سوال یہ ہے کہ شخصیت پرستی اور پیری مریدی میں کیا فرق ہے؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے۔ دیکھیں شخصیت پرستی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی شخص کے پیروی بغیر دلیل کے کر رہے ہوں، ایسی پیروی جس میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی بھی ہو رہی ہو تو یہ شخصیت پرستی ہے۔ اس میں آپ نے شخص کو اصل بنا لیا، دین کو اصل نہیں بنایا۔ جبکہ پیری مریدی اس لئے ہوتی ہے کہ آپ نے دین پر چلنا ہے اور دین پر چلنے کے لئے آپ نے کسی کو راہبر بنانا ہے، اُس سے عملی طور پر سیکھنا ہے۔ اس کو کون غلط کہہ سکتا ہے، یہ تو سہولت ہے، یہ ہر شخص کی ضرورت ہے، جب بھی آدمی کوئی کام کوئی کرتا ہے تو اسے ڈھنگ سے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام کے جاننے والے سے رہنمائی لے کر اس کی ہدایت میں کام کرے۔ اللہ پاک نے بھی فرمایا ہے:

﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل: 143)

ترجمہ: ”اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو۔“۔

پیری مریدی کی بات اور ہے، شخصیت پرستی کی بات اور ہے۔ جیسے رہبانیت اور ریاضت میں فرق ہے۔ رہبانیت اسلام میں نہیں ہے کیونکہ انسان اس میں اپنے آپ کو تکلیف دینے میں اجر محسوس کرتا ہے۔ اپنے آپ کو دین پر لانے کے لئے نفس کی مخالفت کو ختم کرنے کے لئے کوشش کرنا ریاضت ہے۔ جیسے آرمی والے ٹریننگ کرتے ہیں اسی طرح ریاضت بھی ایک ٹریننگ ہے۔ ریاضت اسلام میں ہے، صحابہ کرام بھی کرتے رہے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے سر پر بوجھ اُٹھا کے لے جا رہے تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ حضرت آپ کی تو اتنی حیثیت ہے کہ آپ خادم رکھ سکتے ہیں تو آپ خود بوجھ اٹھا کے کیوں لے جارہے ہیں۔ اُنہوں جواب دیا: میں نے آپ ﷺ سے سُنا ہے کہ جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا، میں اس بوجھ کے ذریعے تکبر کا علاج کر رہا ہوں۔ اس طرح کی کوشش اور محنت کرنا ریاضت ہے اور یہ ریاضت صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ معلوم ہوا ریاضت اور چیز ہے رہبانیت اور چیز ہے۔ رہبانیت جائز نہیں ہے جبکہ ریاضت تو مجبوری ہے اور ہماری ضرورت ہے۔

میرے خیال میں یہ سوال نا سمجھی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ پیری مریدی اور چیز ہے، یہ تو اللہ پاک کا بن جانے کے لئے ہے جبکہ شخصیت پرستی میں اللہ پاک کی بات چھوڑ دی جاتی ہے کیونکہ اُس میں شخص اصل مقصود بن جاتا ہے آدمی بس اسی کے پیچھے چلتا ہے جائز ناجائز کو نہیں دیکھتا۔ ایسی شخصیت پرستی کی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔

سوال نمبر17:

اگر کوئی کھلاڑی اپنے کھیل کی وجہ سے پسند ہو تو کیا اس میں کوئی قباحت ہے؟

جواب:

اول تو یہ جاننا جاننا چاہیے کہ کھیل کی حیثیت کیا ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی بات نہیں ہے۔ آپ ایک غیر مسلم ڈاکٹر کو ڈاکٹری کے لحاظ سے پسند کر سکتے ہیں، اس پہ کوئی پابندی نہیں ہے کیونکہ آپ اس کو اچھا ڈاکٹر مان رہے ہیں کوئی ولی اللہ تو نہیں مان رہے۔ یہی معاملہ یہاں پر بھی ہے۔ کھیل کی حیثیت کا تعین ضرور کرنا چاہیے کہ وہ کھیل کس حد تک ہمارے لئے ٹھیک ہے۔ بعض لوگ اپنا سب دین و دنیا چھوڑ کر کھیل کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے، بس صرف تفریح کی حد تک ہو تو گنجائش ہے۔ تفریح کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ اپنا کام کر رہا ہو درمیان میں تھوڑی دیر relax کرنے کے لئے تفریح کر لے۔ اگر کوئی اتنا ہی کرتا ہے اور اس میں اچھا کھیلتا ہے تو اس کے پسند ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن کسی کھیل اور اس کے کھلاڑیوں میں اتنا مگن ہو جانا کہ آدمی غیر شرعی چیزوں میں لگ جائے، حلال و حرام اور صحیح غلط کا فرق بھول جائے، یہ درست نہیں ہے۔ صحیح غلط، حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔ باقی صرف اچھا کھلاڑی ہونے کی وجہ سے کسی کھلاڑی کو پسند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک کوئی غیر شرعی کام نہ ہو رہا ہو اور وہ کھلاڑی نا محرم بھی نہ ہو۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن