اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
مرید کو شیخ سے نفع باطنی حاصل ہونے کی یہ بھی شرط ہے کہ اس کو شیخ سے اعتقاد ہو اور شیخ کو اس مرید کی طرف سے تکدر نہ ہو۔ یہ ’’انفاس عیسی‘‘ کا ملفوظ ہے۔ اس کی وضاحت کریں۔
جواب:
بالکل یہ تو ضروری ہے۔ نفع باطنی سے مراد یہ ہے کہ انسان کا دل صحیح ہوجائے اور نفس ماننا شروع کر لے، اس کو نفع باطنی کہتے ہیں۔ لیکن اگر شیخ کے ساتھ اعتقاد نہ ہو تو قدم قدم پر ذہنی طور پر لڑائی ہوگی کہ یہ بات اس نے کی ہے، یہ ٹھیک ہے اور یہ غلط ہے۔ چونکہ ظاہری چیز میں تو آپ کسی کتاب سے بھی پڑھ سکتے ہیں اور وہ ٹھیک ہوجاتا ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن جو باطنی چیزیں ہوتی ہیں ان میں تعلق زیادہ تر شیخ کے فیض سے ہوتا ہے، یعنی شیخ کے قلب سے جو چیزیں آتی ہیں وہ مرید کے قلب کو متأثر کرتی ہیں اور اس کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ لہٰذا اگر تکدر ہوگا تو پھر یہ چیز نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے رکاوٹ بن جائے گی۔ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ شیخ کے ساتھ پہلے سے اعتقاد ہو اور مرید کو اس سے کوئی تکدر نہ ہو اور شیخ کو بھی اس سے کوئی تکدر نہ ہو، یعنی یہ دونوں طرف سے ہے۔ ایک دفعہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے۔ حضرت نے ان سے پوچھا: صوفی! کتابوں میں لکھا ہے کہ شیخ کے مصلے پر پیر نہیں رکھنا چاہئے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے عرض کیا کہ حضرت! چونکہ یہ فیض سے تعلق رکھتا ہے اور فیض بڑی باریک چیز ہے، لہٰذا اگر شیخ کو مرید سے کوئی تکدر ہوگیا تو اس میں رکاوٹ پڑ جائے گی، اس وجہ سے یہ ضروری ہے۔ اور بعض دفعہ شیخ کو پتا بھی نہیں ہوتا یعنی اس کو تکدر نہیں ہوتا، صرف گمان ہوتا ہے کہ شاید ایسا ہے، لیکن چونکہ معاملہ بہت نازک ہے، گویا ہماری روحانی زندگی کا مدار اس پر ہے، اس وجہ سے اس میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پتا بھی نہ ہو اور اس کی وجہ سے نقصان ہوجائے۔ یہ بات حدیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت وحشی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے یہ فرمایا تھا:
’’فَهَلْ تَسْتَطِيْعُ اَنْ تَغِيْبَ وَجْهَكَ عَنِّيْ‘‘۔ (بخاری: 4072)
ترجمہ: ’’(اے وحشی) تو یہ کرسکتا ہے کہ مجھے اپنا چہرہ نہ دکھائے؟‘‘۔
یہ اس لئے فرمایا کہ آپ کے سامنے بیٹھنے سے مجھے اپنے چچا یاد آتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آپ ﷺ نے اپنے قلب کے بارے میں نہیں فرمایا تھا کہ شاید آپ ﷺ برداشت نہیں کرسکتے، کیونکہ آپ ﷺ تو برداشت کے پہاڑ تھے، اس لئے آپ تو برداشت کرسکتے تھے، لیکن ان کو روحانی نقصان پہنچ رہا تھا تو ان کو بچانے کے لئے یہ فرمایا کہ میرے سامنے آپ نہ بیٹھیں بلکہ پیچھے بیٹھیں تاکہ مجھے تکدر نہ ہو۔ لہٰذا ان کے اوپر گویا شفقت فرما کر یہ فرمایا کہ میرے سامنے آپ نہ بیٹھیں۔ اور پھر مشائخ میں تو یہ بات بھی ہوتی ہے کہ ایک کے ساتھ اگر مناسبت نہیں تو دوسرے کے پاس چلے جائیں گے یعنی یہاں یہ بات ممکن ہے کیونکہ مشائخ تو کئی ہوتے ہیں لیکن پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ یہ بات نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ پیغمبر ﷺ تو ایک ہی تھے، اگر ان سے کوئی نہیں ہے تو پھر کہیں بھی نہیں ہے، اس وجہ سے یہ چیز بتا دی گئی۔ لہٰذا اگر کسی کو اپنے شیخ کے ساتھ اعتقاد ہو تو ایسا کام نہیں کرنا چاہئے، جس سے اعتقاد متأثر ہوجائے۔ مثلاً حضرت نے یہ بھی لکھا ہے کہ انسان کو شیخ کے اتنا قریب بھی نہیں ہونا چاہئے جس سے انسانی عوارض اس کے اوپر کھل جائیں، جس کی وجہ سے پھر اس کا اعتقاد اٹھ سکتا ہے اور اس کو نقصان ہوسکتا ہے، کیونکہ انسانی عوارض ہر کسی میں ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ دوسروں کے عوارض پر نظر پڑتی ہے اور اپنے عوارض پر نظر نہیں پڑتی، یہ انسان کا گویا کہ فطری مسئلہ ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ ایک limit میں رہنا چاہئے، یہ بھی صرف اسی وجہ سے کہ انسان کی طبیعتیں ہوتی ہیں اور شیخ بھی انسان ہے، تو وہ بھی ایسی چیزوں سے متأثر ہوسکتا ہے اور مرید بھی انسان ہے، وہ بھی متأثر ہوسکتا ہے۔ لہٰذا احتیاط پر بات چلتی ہے اور اس مسئلے میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
سوال نمبر 2:
مختلف معاملات میں دماغ سوچتا رہتا ہے اور چل چل کے سوچنے کی عادتیں ہیں Thinking while walking in circles اس عادت کا کیا علاج ہے؟
جواب:
یہ بھی آج کل کے دور کا تحفہ ہے کہ انسان بہت زیادہ مصروف ہوگیا ہے۔ مصروفیت سے مراد یہ ہے کہ بہت ساری چیزیں اس کی طرف information flood ہو رہی ہیں یعنی ملنا تو الگ بات ہے بلکہ یہاں تو flood ہو رہی ہیں۔ موبائل کے ذریعے سے، internet کے ذریعے سے، media کے ذریعے سے، اخبارات کے ذریعے سے اور آپس میں discussion کے ذریعے سے۔ یہ ایک طوفان ہے جو information کا آرہا ہے۔ ایسی صورت میں انسان کا دماغ بھی ایک گھن چکر بن جاتا ہے، وہ بھی سوچنے لگتا ہے۔ لیکن کچھ چیزوں کو انسان کنٹرول کرسکتا ہے۔ مثلاً انسان چلتے چلتے نہ سوچے اور determine کرے کہ میں نے راستے میں صرف ذکر کرنا ہے اور کچھ نہیں کرنا۔ تاکہ اس کو اس کا نقصان نہ ہو، کیونکہ چلتے چلتے سوچنے سے بعض دفعہ انسان اتنی گہرائی میں چلا جاتا ہے کہ اس کو آس پاس کی خبر بھی نہیں رہتی اور پھر اس سلسلے میں accident بھی ہوسکتا ہے اور کوئی اور بات بھی ہوسکتی ہے، بالخصوص driving کے دوران تو بالکل نہیں سوچنا چاہئے۔ یہ ساری چیزیں احتیاط کے زمرے میں آتی ہیں کہ چلتے چلتے نہیں سوچنا چاہئے اور سوچنے کا جب موقع ملے تو پھر ٹھیک ہے، اور جو مفید چیزیں ہیں وہ سوچنی چاہئیں اور غلط چیزیں نہیں سوچنی چاہئیں۔
سوال نمبر 3:
میں نے سنا ہے کہ شیخ سے راہ چلتے یا مسجد آتے جاتے بات نہیں کرنی چاہئے۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟
جواب:
ٹھیک سنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راہ چلنے میں بعض دفعہ اگر خیال نہ ہو اور نیچے کوئی چیز پڑی ہو یعنی پتھر وغیرہ یا پھر نالی ہو اور خیال سوچ کی طرف چلا گیا یا بات کی طرف چلا گیا اور ان کی طرف خیال نہ رہا تو پاؤں میں موچ آسکتی یا کچھ اور بات بھی ہوسکتی ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ راہ چلتے کوئی چیز نہ پوچھیں۔ یہاں تو اتنی سختی میں نے نہیں کی ہے، البتہ ’’خیابان‘‘ میں جب ہم تھے تو وہاں اس پر کافی سختی کرتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں پر روڈ تھا، اور جب روڈ cross کر رہے ہوتے تھے تو اس دوران اگر کوئی سوال پوچھ لیتا تو میں بہت سختی کرتا تھا کہ یہ کوئی پوچھنے کا وقت ہے؟ وہاں جا کر یہ پوچھیں۔ کیونکہ وہاں risk زیادہ تھا اور یہاں risk اتنا زیادہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ راستہ چلتے ہوئے نہ سوچیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ راستہ چلتے ہوئے ذکر کیا جائے۔ کیونکہ ذکر میں اس طرح محویت راستے چلتے ہوئے نہیں ہوتی یعنی باقی چیزوں کو تو انسان سے کاٹ دے گا، لیکن خود اس میں اتنی زیادہ محویت نہیں ہوگی کہ جس کی وجہ سے کوئی زیادہ خطرہ ہو۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ میں نے تقریباً کافی عرصے پہلے کسی سے بیعت کی تھی۔ لیکن اب تقریباً 10 مہینے سے آپ کے بتائے ہوئے ذکر اور طریقے پر اللّٰہ کے فضل سے بلا ناغہ عمل کر رہا ہوں اور الحمد للّٰہ! قلب میں کچھ اطمینان حاصل ہے۔ کیا اس سلسلے کی تمام برکات اسی طرح حاصل ہوں گی یا آپ سے بیعت کی جائے؟ رہنمائی فرمائیں۔ آپ کی صحت اور درازیٔ عمر کے لئے دعا گو ہوں۔
جواب:
حضرت نے جو فرمایا ہے، یہ بھی آج کل کا ایک مسئلہ ہے کہ جس وقت لوگ بیعت ہوتے ہیں تو عموماً بیعت کے مقاصد سے واقف نہیں ہوتے اور بیعت کے بارے میں یہ جانتے بھی نہیں کہ مناسبت کیا چیز ہوتی ہے اور اس کے کیا کیا مسائل ہوتے ہیں۔ عموماً لوگ بیعت ہوجاتے ہیں، لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ ان کے ساتھ مجھے مناسبت نہیں ہے۔ اور یہ ایک المیہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی stuck ہوجاتا ہے، کہیں کا نہیں رہتا، نہ ادھر کا اور نہ ادھر کا۔ اس سے پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ میں خود پہلے یہی کرتا تھا کہ جو کسی اور سے بیعت ہوتے تھے انہیں بیعت نہیں کرتا تھا۔ اصول بھی یہی ہے۔ لیکن حالات کے بدلنے سے جب نئی چیزیں سامنے آجائیں تو پھر علاج بھی نیا آجاتا ہے۔ یہ ایک مجبوری ہے۔ یہ چیز اتنی زیادہ میرے سامنے آئی کہ مجبوراً مجھے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ دراصل کچھ حضرات بہت زیادہ تعداد میں بیعت کر لیتے ہیں، مثلاً کسی بیان کے بعد ہزاروں لوگوں کو بیعت کر لیا، اب اس وقت بیچاروں کو کچھ بھی پتا نہیں ہوتا یعنی جو بیعت ہو رہے ہیں کہ بیعت کیا چیز ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں اور مناسبت کیا ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ لوگ بیعت تو ہوجاتے ہیں، لیکن بعد میں اس شیخ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوتا یا وہ حضرات رابطے کا سوچتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ وہ شیخ اتنا زیادہ مصروف ہوتا ہے کہ ان سے رابطہ محال ہوتا ہے۔ اور ایسی صورت میں یہ لوگ lock ہوجاتے ہیں، نہ ادھر کے رہتے ہیں اور نہ ادھر کے رہتے ہیں۔ یہ المیہ چونکہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اس وجہ سے مجبوراً جو شخص ایسے حالات میں پھنس جائے تو پہلے میں ذرا check کرتا ہوں کہ واقعی ان کا یہ مسئلہ genuine ہے۔ یعنی یہ اگر اپنے شیخ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر لے اور پھر رابطہ ہوسکتا ہو اور مناسبت بھی ممکن ہو تو پھر ہم ان کو بتاتے ہیں کہ آپ اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ کر لیں، تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری یعنی کوئی مسئلہ ہی نہ ہو، صرف ایک غلط فہمی کی وجہ سے اگر رکاوٹ ہے تو رکاوٹ دور ہوجائے اور بات چل پڑے۔ یہ سب سے زیادہ اسلم (محفوظ) صورت ہے۔ لیکن ایسی صورت میں کہ جب اس قسم کی بات ممکن نہ ہو، (اس کی کئی ساری وجوہات ہیں) مثلاً جس شیخ سے بیعت ہے اس سے رابطہ ممکن نہ ہو، اور ایسے لوگ ہمارے سامنے ہیں، یعنی کچھ حضرات ہیں جو بیرون ملک ہیں لیکن پہلے ادھر تھے۔ ان کے ساتھ رابطے کی کوئی صورت نہیں ہے، لوگ try کر کر کے تھک جاتے ہیں، خطوط کے ذریعے سے، Email کے ذریعے سے اور ٹیلی فون کے ذریعے سے لیکن کچھ بھی response نہیں ملتا تو ایسی صورت میں بلا تعمل میں بیعت کر لیتا ہوں۔ چونکہ ان کی genuine بات ہے۔ اسی طرح ہمارے ڈاکٹر اشرف صاحب کے ساتھ بھی یہ مسئلہ ہوا تھا۔ ڈاکٹر اشرف صاحب ماشاء اللّٰہ! خود بڑے ذہین اور تصوّف میں مجھ سے زیادہ senior ہیں۔ اس وجہ سے میں ان کی بڑی قدر کرتا ہوں۔ یہ انگلینڈ میں حضرت مولانا اسعد احمد مدنی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بیعت ہوئے تھے، اب حضرت مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ تو انتہائی درجے کے مصروف اور بڑے بزرگ ہیں اور پھر ہندوستان کے ساتھ جو مسائل ہیں وہ بھی اپنے طور پر ہیں۔ لہٰذا انہوں نے جتنی بھی ان کے ساتھ contact کی کوششیں کیں وہ کوششیں fail ہوگئیں، خطوط لکھے، Email کیے اور ٹیلی فون بھی کیے لیکن کچھ بھی راستہ نہیں بن پایا۔ ان کو جب کوئی مشکل حال پیش آتا تھا تو بار بار مجھے Email کرتے تھے کہ میرا مسئلہ آپ حل کریں۔ میں کہتا کہ میں معذور ہوں، میں کیسے حل کروں؟ بھائی! آپ جس سے بیعت ہیں ان سے رابطہ کرو اور پھر یہ اتنے بڑے شیخ ہیں کہ میں جرأت بھی نہیں کرسکتا، میں ان کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان سے بیعت ہوئے میں ان کو کچھ بتاؤں۔ میں جتنا انکار کرتا تھا تو ان کا تقاضا اتنا بڑھتا تھا۔ اب مسئلہ بھی تھا اور مشکل مسئلہ تھا۔ بالآخر جب انہوں نے بہت ہی زیادہ مجھے stress کیا تو ان دنوں مفتی مختار الدین شاہ صاحب اتفاق سے مسجد میں تشریف لائے تھے۔ حضرت سے میں نے مشورہ کیا کیونکہ حضرت ڈاکٹر صاحب کو جانتے تھے، اس لئے میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب بڑے پریشان ہیں اور مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ میرے مسئلے کو حل کریں لیکن میں اس مسئلے میں جرأت نہیں کرسکتا۔ ان کے شیخ بہت بڑے شیخ ہیں اور ہمارے بزرگ ہیں، اس لئے یہ میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ کیا 2 مہینے میں رابطہ ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا حضرت! وہ تو 6 مہینے سے رابطہ کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2 مہینے کی کیا بات! 2 مہینے تو کب کے گزر گئے ہیں۔ فرمایا پھر ٹھیک ہے، پھر کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر میں نے ان کو Email کردیا اور ان کو کہا کہ اب آپ رابطہ کرسکتے ہیں۔ چنانچہ پھر انہوں نے مجھے اپنا حال بھیج دیا۔ اللّٰہ کا شکر ہے کیونکہ جواب تو اللّٰہ تعالیٰ دیتے ہیں نہ کہ انسان۔ تو اللّٰہ جل شانہٗ نے میرے قلم پر وہ چیز جاری فرما دی اور میں نے لکھ دیا۔ اور الحمد للّٰہ ہفتے میں ان کا جواب آگیا کہ مسئلہ ٹھیک ہوگیا۔ اس کے بعد سے پھر ان کا طریقہ یہی رہا کہ اب وہ مجھے ہی لکھتے ہیں۔ پھر بعد میں اجازت بھی میں نے دے دی۔ لہٰذا مسئلہ clear ہوگیا۔ بہرحال اس قسم کے Particular cases جو ہوتے ہیں جس میں رابطہ ہو ہی نہ سکے تو میں پھر مجبوراً اس طرح کرتا ہوں۔ لیکن جن کے ساتھ رابطہ ہوسکتا ہو مثلاً جو پاکستان میں ہیں، ان سے رابطہ ہوسکتا ہے تو اب صرف یہی صورت ہوسکتی ہے کہ ان کی ان سے ملاقات کی frequency کیا ہوسکتی ہے اور رابطہ کس طریقے سے ہوسکتا ہے۔ اور مناسبت بھی چونکہ بہت بڑی بات ہے اس لئے مناسبت ہے یا نہیں ہے یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ مناسبت سے مراد یہ ہے کہ دیکھیں! کسی جگہ پر انسان بیٹھے اور اس کو خود بخود بغیر کسی تردد کے پتا چل جائے کہ مجھے کچھ فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں۔ اگر اس کو کچھ محسوس ہونے لگے کہ مجھے فائدہ ہو رہا ہے تو اگر کئی جگہوں پر ایسا ہو رہا ہو تو دیکھا جائے کہ کہاں پر زیادہ فائدہ ہو رہا ہے، تو جہاں زیادہ فائدہ ہو رہا ہو تو وہاں زیادہ مناسبت ہے۔ اب جب مناسبت ہو تو پھر اس میں ہم یوں کرتے ہیں کہ اگر اس بزرگ کے ساتھ ہمارا سلسلہ کسی بھی طریقے سے ملتا ہو یعنی اوپر خانوں میں اگر سلسلہ ملتا ہو تو پھر ہم یہ کرتے ہیں کہ ان کی بیعت کو رہنے دیتے ہیں کہ آپ بیعت اپنی باقی رکھیں، لیکن تربیت کا تعلق ان کا اپنے ساتھ شروع کر لیتے ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ 2 صورتیں ہیں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جس سے وہ بیعت ہے وہاں کوئی اعتقاد کا مسئلہ ہے یا کوئی اور اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں فی الفور بیعت کر لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ پھر ہمارے اوپر لازم ہے کہ اگر ہم تک یہ پہنچ گیا تو اب ہم سے پوچھا جاسکتا ہے کہ تمہارے پاس بھیجا تھا، تو تم نے پھر کیوں نہیں بیعت کیا؟ اس لئے فی الفور بیعت کر لیتے ہیں۔ اور اگر ایسی بات ہو کہ جس میں اس صاحب کو بالکل مناسبت نہ ہو اور وہ خود کہہ دے کہ میری مناسبت نہیں ہے اور میں ان سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتا، تو پھر اس صورت میں تجدید بیعت ہوسکتی ہے، اس کی گنجائش بھی موجود ہے، یہ علماء نے لکھا ہے۔ لہٰذا مجھے نہیں معلوم کہ ان کی کیا position ہے؟ یہ اپنا معاملہ میرے ساتھ discuss کر لیں، میرے خیال میں یہ ادھر ہی ہوتے ہیں، اس لئے یہ یہاں پر آجائیں اور یہ معاملہ میرے سامنے بالمشافہ بیان کر دیں۔ تاکہ مجھے پتا ہو کہ ان کا شیخ کون تھا؟ ان کا اس کے ساتھ کیسا رابطہ تھا؟ پہلے فائدہ کیوں نہیں ہو رہا تھا، اس میں ان کی غلطی تھی یا مناسبت نہیں تھی یعنی یہ ساری چیزیں دیکھ لیں گے ان شاء اللّٰہ! اس کے بعد پھر اس کے بارے میں فیصلہ کرسکیں گے کہ بیعت کرنا ضروری ہے یا صرف تربیت کرنا ضروری ہے۔ جو صورت ہوگی ان شاء اللّٰہ! اس کے بعد کچھ عرض کر لیں گے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ الحمد للّٰہ میرا دوسرا ذکر مکمل ہو چکا ہے اور تیسرے ذکر کے بارے میں پوچھنا تھا کہ شروع کرسکتے ہیں یا پھر اسی کو ابھی جاری رکھوں؟ حضرت جی! ذکر اگر سری آواز سے کیا جائے تو اس کا کیا طریقہ ہوگا؟ اور کس چیز پر دھیان دینا چاہئے تلفظ پر یا الفاظ پر؟ اور ضرب لگانے کا طریقہ بھی بتا دیجیئے۔
جواب:
ٹھیک ہے، آپ تیسرا ذکر شروع کرسکتے ہیں یعنی internet کے اوپر چونکہ ہمارے یہ طریقے دیے ہوئے ہیں تو انہوں نے ادھر سے ہی یہ لیا ہے۔ خیر تیسرا ذکر شروع کیا جاسکتا ہے اگر دوسرا ذکر پورا ہوگیا۔ سری آواز سے ذکر کیا جائے، سری آواز سے مراد یہ ہے کہ مثلاً انسان ایسی آواز میں قرآن پاک پڑھتا ہے جس کی آواز صرف وہ سنتا ہے، مثلاً اگر بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم میں اس طرح پڑھوں کہ جو صرف میں ہی سنوں، کوئی اور نہ سنے تو اس کو ہم سری آواز کہتے ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے ’’آواز‘‘ نہ لکھا ہوتا تو پھر سری ذکر اور چیز ہے یعنی سری آواز سے ذکر اور چیز ہے اور سری ذکر اور چیز ہے۔ سری آواز سے تو یہی مراد ہے جو میں نے بتایا کہ اس میں صرف انسان خود سنتا ہو لیکن سری ذکر سے مراد یہ ہوتا ہے کہ انسان دل میں محسوس کرے کہ وہ ذکر کر رہا ہے یا کسی اور لطیفے کو محسوس کرے کہ وہ ذکر کر رہا ہے۔ اس کو ہم سری ذکر کہتے ہیں، اور اس کو بعض لوگ قلبی ذکر بھی کہتے ہیں۔ لیکن سری ذکر اس کو کہنا بہتر ہے، اس لئے کہ صرف قلب کے اوپر یہ نہیں ہوتا بلکہ اور جگہوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کو سری ذکر کہنا بہتر ہے۔ اگر سری ذکر سے مراد یہی ہے تو اس میں طریقہ یہ ہے کہ انسان تصور کر لے کہ میرے دل میں زبان بن گئی ہے اور وہ زبان ذکر کر رہی ہے۔ یعنی ’’اَللہ اَللہ اَللہ اَللہ اَللہ‘‘ وہ کر رہی ہے اور میں سن رہا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں یعنی اس کو سن رہا ہوں۔ یہ 3 باتیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ زبان انسان کی اپنی زبان نہیں ہے اور یہ کان بھی انسان کے اپنے کان نہیں ہیں یعنی سر کے کان نہیں ہیں بلکہ یہ دل کی زبان اور دل کے کان ہیں۔ لہٰذا یہ انسان محسوس تو کرسکتا ہے لیکن بتا نہیں سکتا، بس جس پر گزرتی ہے وہی اس کو محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا اپنے طور پر ہی انسان کو محسوس ہوجاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ فوراً ہوجائے بلکہ بعض دفعہ دیر بھی لگ جاتی ہے۔ اس کی وجہ آج کل انتشار ذہنی ہے۔ جیسے کہ آج کل انتشار ذہنی بہت زیادہ ہے اور خواتین کو نسبتاً کم انتشار ذہنی ہوتا ہے۔ لہٰذا اکثر خواتین کا جلدی یہ ذکر شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن جو مرد ہیں ان کا انتشار ذہنی نسبتاً زیادہ ہوتا ہے اس لئے ان کو ذرا مشکل ہوجاتی ہے۔ لیکن بہرحال ان کو بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ ہمارے کئی ساتھیوں کو الحمد للّٰہ یہ حاصل ہے۔ ضرب لگانے کا طریقہ (یہ ہمارے جہری ذکر میں ہوتا ہے، اس کی صورت) یہ ہے کہ جیسے دل والی جگہ پر دل کا ہم ذکر کرتے ہیں، کیونکہ ضرب اپنی جگہ پر لگ سکتی ہے، لہٰذا دل پر جو ضرب ہم لگاتے ہیں، یہ کیونکہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ میں ہوتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے، مثلاً ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر جو ہم کرتے ہیں اس میں تصور یہ کرتے ہیں کہ ’’لَا اِلٰہَ‘‘ کے ساتھ دل سے دنیا کی محبت نکل گئی یعنی آپ تصور میں ’’لَا اِلٰہَ‘‘ کے ساتھ دنیا کی محبت کو کھینچ لیں، پھر ’’اِلَّا اللہُ‘‘ پر ضرب لگاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد صرف ’’اِلَّا اللّٰهُ‘‘ میں بھی یہی بات ہے یعنی ’’اِلَّا اللہُ‘‘ پڑھتے ہوئے دل کے اوپر ضرب محسوس کریں۔ یہ ہمارے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا طریقہ ہے۔ ورنہ ہمارے اور بزرگوں کا جو طریقہ تھا وہ اس طرح ہی تھا جیسے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ میں ہوتا ہے ’’اِلَّا اللہُ، اِلَّا اللہُ، اِلَّا اللہُ‘‘ یعنی یہ باہر سے گویا ضرب لگاتے ہیں۔ لیکن ہمارے مولانا صاحب کا طریقہ اس میں اندرونی ضرب کا تھا یعنی ’’اِلَّا اللہُ، اِلَّا اللہُ‘‘ کہتے وقت سر کو جھٹکا نہیں ہوتا تھا، البتہ صرف اندرونی جو عضلات ہیں یعنی جو مسلز ہیں ان کے ذریعے سے جھٹکا لگتا ہے۔ پھر ’’اَللّٰهُ اَللّٰهُ‘‘ کے بڑے طریقے ہیں۔ ایک محفوظ طریقہ یہ ہے کہ دائیں اور بائیں سے دل پر چوٹ ماریں اور اس میں تصور یہ کریں کہ ’’اَللّٰهُ‘‘ کا بھی جھٹکا دل پر لگتا ہے اور پھر ’’اَللّٰهُ‘‘ دائیں سے اور ’’اَللّٰهُ‘‘ کا جھٹکا بائیں سے، بالکل اس کی مثال ایسی ہے جیسے سکول کی گھنٹی ہو، جسے آپ دائیں سے بھی ٹنگ مارتے ہیں اور بائیں سے بھی ٹنگ مارتے ہیں۔ بس اسی تصور سے انسان وہ ٹیلی محسوس کرے اور ’’اَللّٰهُ اَللّٰه‘‘ کی چوٹ لگائیں۔ ابتدا میں ہم اس طرح کرواتے ہیں کہ دائیں اور بائیں سر کو خفیف سی حرکت ہوتی ہے، لیکن بعد میں اس کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ پھر انسان ’’اِلَّا اللّٰهُ‘‘ کی طرح تصور بھی کرسکتا ہے۔ ’’اَللّٰهُ اَللّٰهُ‘‘ اس میں 2 طریقے ہیں ایک اوپر سے بھی ہوتا ہے اور نیچے سے بھی ہوتا ہے۔ جس طریقے سے بھی آسانی سے ہوجائے تو وہ کرسکتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ’’اَللّٰهُ‘‘ کا ذکر ہے اور یہ ’’اَللّٰهُ‘‘ ذکر ذرا تھوڑا سا مختلف ہے، اس میں ضرب نہیں ہے بلکہ یہ فوارہ کی طرح ہوتا ہے، جیسے فوارہ ابلتا ہے اور پانی اس سے نکلتا ہے مثلاً ’’اَللّٰهْ اَللّٰهْ‘‘ جیسے اللّٰه کا نام اس طرح چشمے کی صورت میں باہر آرہا ہے۔ البتہ ’’ھُوْ‘‘ کا ذکر ہم ساتھ کرتے ہیں۔ پھر اس میں ’’ھُوْ‘‘ اندر اور اَللّٰه باہر ’’اَللّٰهُ اَللّٰهُ اَللّٰهُ‘‘ اس طریقے سے۔ یہ ضرب لگانے کا طریقہ ہے۔ امید ہے ان شاء اللّٰہ اس کے سننے کے ساتھ ان کو اس کے بارے میں اندازہ ہوجائے گا۔
سوال نمبر 6:
حضرت جی!
Many people are reluctant to do بیعت just because they fear that if they would not give up committing sins then it would be against their promise. How to wash the brains of such people?
جواب:
کتنے معصوم وسوسے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اللّٰہ کے ساتھ وعدہ نہیں کر چکے کہ ہم گناہ نہیں کریں گے؟ پھر کسی شیخ کے ساتھ وعدہ کرتے ہیں۔ کیا شیخ کے ساتھ وعدہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ وعدے سے زیادہ اہم ہے؟ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ شیخ سے میں بیعت تو کرتا ہوں لیکن میں نے گناہ نہیں چھوڑنے، یہ تو بالکل اس کی نیت نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں انسان کی یہ نیت ہونی چاہئے کہ ٹھیک ہے شیخ سمجھدار ہوتا ہے، وہ اناڑیوں کی طرح تو نہیں ہوتا جو آپ کو سارا کچھ ایک روز میں بتا دے گا کہ یہ بھی چھوڑو اور یہ بھی چھوڑو۔ بلکہ وہ اس طرح نہیں کرتا۔ اسی لئے شیخ کے پاس جاتے ہیں کہ چھوڑنا تو مجھے ہے، لیکن ذرا طریقے کے ساتھ چھوڑ دوں گا۔ لیکن یہ نہیں کہ نیت ہی یہ ہو کہ میں نے چھوڑنا ہی نہیں ہے، اس صورت میں پھر بیعت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر تو بیعت کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے یعنی اگر چھوڑنے کی نیت ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر چھوڑنے کی نیت ہے، تو بس صرف طریقہ معلوم کرنے کی بات ہے کہ آسان طریقے سے بھی چھوڑا جاسکتا ہے اور مشکل طریقے سے بھی چھوڑا جاسکتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ شیخ کے بتائے ہوئے طریقے سے زیادہ آسان طریقے سے بھی گناہ نہیں چھوٹتا اور بار بار انسان اس میں پڑتا ہے اور اس کو شاید کامیابی بھی نہ ہو کیونکہ شیطان درمیان میں مرمرنگ کرتا ہے، جس کی وجہ سے پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں اور نفس بھی درمیان میں حائل ہوتا ہے۔ لیکن شیخ کو ان کے بارے میں چونکہ ذرا تجربہ ہوتا ہے اور سلسلے کی برکت بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ کچھ وظائف وغیرہ جو دیتے ہیں اس سے دل کی آبیاری ہوتی ہے اور پھر جس سے دل میں نرمی آتی ہے۔ اور صحبت اور رابطے کی وجہ سے پھر اس میں اثرات آتے ہیں، جس سے آہستہ آہستہ گناہوں سے نفرت ہونے لگتی ہے اور گناہ چھوٹنے لگتے ہیں اور احساس بھی ہونے لگتا ہے۔ یہ شیخ کی صحبت یا شیخ کے تعلق کی برکات ہوتی ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہ نعوذ باللّٰہ من ذالک ہم نے گناہ چھوڑنے کا ارادہ ہی نہ کیا ہو، یہ بات غلط ہے اور یہ طریق کے اصول کے بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ شیخ سے بیعت اس لئے کی جاتی ہے کہ ہم نے گناہ چھوڑنے تو ہیں، لیکن ان کی تجربہ کاری اور اس سلسلے کی برکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں ذرا اس مسئلے میں کامیابی ہوجائے۔ اس طریقے سے پھر آہستہ آہستہ سب کچھ بہتر ہوجاتا ہے۔ ایک آدمی ڈاکٹر کے پاس جائے اور یہ کہے کہ مجھے سارے پرہیز کرنے پڑیں گے تو پھر آپ بتائیں کہ کیا کریں گے؟ مثال کے طور پر وہ شوگر کا مریض ہے اور کسی ڈاکٹر کے بارے میں اس کو پتا ہو کہ وہ بڑا اچھا ڈاکٹر ہے، وہ شوگر کا علاج کرتا ہے، لیکن یہ کہتا ہے کہ یار یہ ڈاکٹر تو بڑا اچھا ہے، لیکن یہ چیزیں رکوا دے گا کہ فلاں چیز نہ کھانا اور فلاں چیز نہ کھانا۔ اب اس طرح تو علاج مشکل ہوجائے گا۔ جیسے علامہ اقبال کے بارے میں مشہور ہے۔ (پتا نہیں یہ بات جھوٹ ہے یا سچ واللّٰہ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ) کہ یہ آخری عمر میں شوگر کا patient تھا اور آم کھانے کا بہت شوق تھا اور آم علامہ صاحب کو بہت مرغوب تھے۔ ڈاکٹر نے آم سے منع کیا تھا تو ایک دفعہ آئے اور ڈاکٹر صاحب سے بڑی منت سے کہا کہ آم کا مجھے بہت شوق ہے اور آم شوگر کے لئے یقیناً بہت زیادہ نقصان دہ ہیں کیونکہ آم میں بہت زیادہ شوگر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ چلو ایک آم کھا سکتے ہیں۔ اب ڈاکٹر صاحب جب اگلے دن آئے تو ان کے سامنے آدھا کلو کا آم پڑا ہوا تھا، ڈاکٹر نے ان سے کہا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا ایک ہی تو ہے۔ لہٰذا یہ انسان کی کمزوریاں ہیں، لیکن بہرحال علاج تو ایسے ہی ہوتا ہے یعنی اگر کسی نے اپنے آپ کو صحت مند کرنا ہے تو اس کے لئے اسباب کے درجے میں ڈاکٹر کے پاس جانا بھی پڑے گا اور ڈاکٹر کی ماننی بھی پڑے گی۔ اور بیعت بھی روحانی علاج اور روحانی صحت کے لئے ہے۔ لہٰذا نیت تو یہ کرنی چاہئے کہ میں سب مانوں گا۔ لیکن شیخ تجربے سے جس طرح بتاتے ہیں اس طریقے سے الحمد للّٰہ عمل کی توفیق ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے کسی کو یہ نہ کہیں کہ شیخ کچھ کہے گا نہیں، بلکہ طریقے سے کہے گا۔ جیسے ہماری پشتو میں کہتے ہیں ’’وخوره اؤ وغوره‘‘ یعنی کھانے کے دو نام ہیں جیسے اردو میں کہیں پیٹ بھر لو اور کھانا کھا لیجیئے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ لہٰذا طریقے سے بات کرنے سے فائدہ ہوتا ہے اور علاج بتانے میں بھی طریقے ہوتے ہیں اور ان طریقوں سے پھر زیادہ فائدہ ہوجاتا ہے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ۔ حضرت جی!
aRespected and honourable, I remain highly sad for many days. I see myself as a failure when I see my chart of معمولات, my way of dealing with others and my academic performance. I also feel that I have lost the love and respect which I had from others. My tolerance level has decreased. I lose my temper easily and if I cannot express my anger then I start weeping. Now I weep on two little things and get embarrassed much easily. I want to die but the only hindrance is the right of اللّٰہ پاک and his creation. I am telling you because I'm supposed to tell you my حال. Alhamdulillah I'm doing my معمولات but some of them either get late or left. For instance most of the prayers are offered by me in delayed time and with the least interest. But الحمد للّٰہ they do not get قضاء. Sometimes either ’’مناجات مقبول‘‘ and چہل درود شریف do not get complete or sometimes مراقبۂ. Same is the case with تسبیحات. I am feeling shame due to my extreme sense of ناشکری while writing these lines because I know الحمد للّٰہ اللّٰہ پاک has blessed me with all of these توفیقات. He made me Muslim and made me stay away from many misdeeds which are badly polluting the society but what to do with the حال which remains in power on me most of the time. Sorry I have taken much of your precious time.
انہوں نے یہ لکھا ہے کہ آج کل میں بہت زیادہ اداس ہوں کیونکہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک ناکام شخص ہوں۔ جب میں اپنے معمولات کے چارٹ کو دیکھتا ہوں اور لوگوں کے ساتھ میرے جو معاملات ہوتے ہیں یا میری جو Academic performance ہے۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ میں نے کافی سارے لوگوں کی محبت اور respect کو ضائع کردیا ہے۔ میرا Tolerance level کم ہوگیا ہے۔ اور میں بہت جلدی غصے ہوجاتا ہوں اور میں اپنا غصہ قابو نہیں کرسکتا اور جب قابو نہ کرسکوں تو پھر میں رونا شروع کر لیتا ہوں۔ آج کل میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو پڑتا ہوں اور میں مرنا چاہتا ہوں، لیکن یہ اللّٰہ تعالیٰ کے حقوق کے خلاف ہے۔ اس وجہ سے میں مر نہیں سکتا اور میں الحمد للّٰہ اپنے معمولات کرتا ہوں البتہ بعض ان میں سے late ہوجاتے ہیں یا پورے نہیں ہو پاتے، لیکن قضا کی نوبت نہیں آتی۔ کبھی کبھی ’’مناجات مقبول‘‘ اور ’’چہل درود شریف‘‘ یہ مکمل نہیں ہو پاتا اور کبھی کبھی مراقبے کے ساتھ بھی ایسا ہوجاتا ہے۔ اور البتہ آج کل میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ مجھ میں ناشکری بہت آگئی ہے، جبکہ اللّٰہ پاک نے مجھ پر بڑی مہربانی کی، بہت توفیقات دی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میری یہ حالت ہے، اس وجہ سے حال بتانے کے لئے میں نے آپ کو یہ بتایا۔
جواب:
اصل میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں مثلاً چھوٹے چھوٹے ذرے اگر کسی چیز کے ساتھ الجھنے لگیں یعنی ہوا چل رہی ہو، جس کی وجہ سے وہ ذرے آہستہ آہستہ رکاوٹ کی وجہ سے جمع ہونے لگیں تو وہ پھر اچھی خاصی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد اگر آندھی تیز چل رہی ہو تو وہ اس صورت میں بڑی پہاڑی بھی بن سکتی ہے۔ ایسے ہی کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی ہمتیں نہ کرنے سے وہ بڑا پہاڑ بن جاتا ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اپنے آپ کو یہ سمجھانا چاہئے کہ جہاں پر ہمت کی ضرورت ہے اور کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے تو وہاں اپنا جی نہیں ہارنا چاہئے بلکہ ہمت کرنی چاہئے۔ جیسے نماز کا مسئلہ ہے، اس میں صرف اور صرف ہمت کی بات ہے یعنی بعد میں بھی پڑھنی تو ہے ہی، تو کیوں نہ وقت پر پڑھ لیں۔ کل ایک ملفوظ مجھے بڑا پسند آیا۔ ایک صاحب تھے جو کہ لوہار تھے، اگر انہوں نے ہتھوڑا اوپر اٹھایا ہوتا اور نیچے لوہے پر مارنا ہوتا لیکن جیسے ہی انہیں اذان کی آواز آجاتی، تو اذان شروع ہوتے ہی وہ ہتھوڑا رکھ دیتے، اور کہتے بس اب اللّٰہ کا حکم آگیا، اب میں نے کام نہیں کرنا۔ کہتے ہیں بعد میں اللّٰہ تعالیٰ نے اسی بات پر اس کو بخش دیا یعنی وہ جو اذان کا احترام کرتا تھا اس کی وجہ سے۔ دیکھیں! یہ ہمت ہے۔ لیکن اکثر لوگ یوں کرتے ہیں کہ بس ابھی جاتا ہوں، ابھی جاتا ہوں اور ابھی جاتا ہوں۔ لہٰذا بعض دفعہ تو نماز قضا بھی ہوجاتی ہے اور اگر قضا نہیں ہوتی تو late تو ہو ہی جاتی ہے۔ خواتین کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے، یہ بھی بس کہتی ہیں کہ ابھی پڑھتی ہوں تو ابھی پڑھتی ہوں۔ اسی میں نماز قضا ہوجاتی ہے یا قضا نہیں ہوئی تو بہت late ہوجاتی ہے یعنی مکروہ ہوجاتی ہے۔ لہٰذا میں اکثر خواتین کو کہا کرتا ہوں کہ آپ کو جماعت میں تو جانا نہیں ہوتا، لہٰذا جیسے ہی وقت داخل ہوجائے، فوراً سب سے پہلے نماز پڑھیں، چاہے آپ کچھ بھی کر رہی ہوں، لیکن اس وقت آپ سب کچھ چھوڑ کر بس نماز پڑھیں اور پھر دوبارہ آکر وہ کام شروع کر لیں۔ ورنہ پھر آپ کے ساتھ شیطان کھیلتا رہے گا۔ یہ تو نماز کی بات ہے۔ جہاں تک معمولات کی بات ہے، تو معمولات میں جو postpone کرنے والی بات ہوتی ہے کہ تھوڑی دیر بعد کر لوں گا، اس سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ایک وقت اس کا مقرر کر لیں اور اس وقت چاہے انسان کا دل پہاڑ جیسا ثقیل ہو اور دل بالکل نہ چاہتا ہو لیکن پھر بھی آدمی معمولات کرے اور وہ کہے کہ بس میں نے یہ کرنا ہے، دل چاہے یا نہ چاہے۔ بعد میں پھر دل چاہنے لگتا ہے اور پھر اس کے ساتھ عادی ہوجاتا ہے۔ البتہ ابتدا میں ذرا مشکل ہوتا ہے، لیکن بعد میں پھر وہ آسان ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس کے لئے بس ہمت کر کے جو وقت مقرر کیا جائے تو بس اس مقررہ وقت پر عمل کر لیں۔ اور جو ناشکری کی بات ہے، تو یقیناً بہت ناشکری ہو رہی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ اس میں آپ کو معاف کر دے۔ ناشکری نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے بہت توفیقات دی ہیں اور پھر ماشاء اللّٰہ! ایک سلسلے کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ لہٰذا اس پر شکر کرنا چاہئے اور شکر یہ ہے کہ جو کام بتائے گئے ہیں اس کے اوپر عمل کرنا چاہئے۔ اور یہ بات کہ بار بار جھل جھلاہٹ سی ہوتی ہے۔ یہ کوئی physical بیماری بھی ہوسکتی ہے، اس لئے ڈاکٹر سے علاج کروا لیا جائے کیونکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انسان کے اوپر جھل جھلاہٹ کی کیفیت آتی ہے۔ لہٰذا اس کے لئے پھر medicine ہے، آپ medicine استعمال کریں۔ میرے خیال میں Lexotanil غالباً اس قسم کی چیزوں کے لئے ہوتا ہے، وہ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کر کے مناسب مقدار میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ میں نہیں بتاؤں گا اس لئے کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں، لیکن کسی ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ وہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس میں بڑا role ہمت کا ہے۔ پشتو میں ایک نظم ہم نے دوسری جماعت میں غالباً پڑھی تھی۔
کوم شې چې درته ګران شی داسې ګران ٸې مه پریږده
کوم شې چې درنه ورن شی داسې وران ٸې مه پریږده
همت کوه همت کوه همت کوه همت
یعنی جو چیز تیرے لئے مشکل ہوجائے، اس کو اس طرح مشکل نہ چھوڑو۔ اور وہ چیز جو تم سے بگڑ جائے، اس کو اس طرح بگڑا ہوا نہ چھوڑو۔ ہمت کرو، ہمت کرو، ہمت کرو اور ہمت کرو۔ لہٰذا ہمت بڑی چیز ہے اور ہمت سے آسانی بنتی ہے۔ اس لئے ہمت کرنی چاہئے۔ امید ہے ان شاء اللّٰہ! مسئلہ حل ہوجائے گا۔
سوال نمبر 8:
Respected and honourable شیخ is it required to do everything keeping Islamic rules in mind, even related to education and occupational life. حضرت I am blessed with a very sincere friend الحمد للّٰہ. So I was criticised by my friend that I mostly do not pay شکر rather I do نا شکری on my performance in tests, exams and presentation. So I tried to change my habit الحمد للّٰہ but I have noticed that verbally I pay شکر but inwardly I feel dissatisfaction and start comparing myself with others. This dissatisfaction often displays from my facial expression and people start asking what happened? What to do to get rid of this?
جواب:
یہ ایک واقعی practical چیز ہے۔ اس کے بارے میں بات کی جاسکتی ہے۔ دراصل انسان اپنے آپ کو دوسروں کے ساتھ compare کرتا ہے۔ یہ نہ تو ہر حالت میں ٹھیک ہے اور نہ ہر حالت میں غلط ہے بلکہ اس کا ایک balance ہے، وہ حاصل کرنا چاہئے۔ کیونکہ اگر بالکل چھوڑ دیا تو ترقی کے مواقع ختم ہوجائیں گے یعنی جب انسان دوسرے کے ساتھ compare نہیں کرتا تو راستہ کیسے ملے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کو پتا ہی تب چلے گا کہ میں ٹھیک جا رہا ہوں یا غلط جا رہا ہوں، اور مجھے کیا کرنا چاہئے۔ جیسے کہتے ہیں کہ صحت مند مقابلہ جاری رہنا چاہئے۔ تو یہ بالکل صحیح ہے۔ البتہ اس کو بیماری نہیں بنانا چاہئے۔ بیماری اس کو کہتے ہیں کہ جس وقت انسان دوسرے کے ساتھ compare کرتا ہے، اور اس میں اپنے حالات اور capabilities کو اگر ignore کر دے، تو Non-realistic situation ہوجائے گی۔ نتیجتاً انسان کے اوپر بلا وجہ tension آئے گی اور وہ متأثر ہوسکتا ہے۔ روحانی طور پر بھی اور physically طور پر بھی۔ لہٰذا اب اس میں اپنے حالات کو دیکھ لیں کہ میرے حالات میں کون سا position ممکن ہے۔ اسی وجہ سے اپنے آپ کو دوسروں کے ساتھ compare کرتے وقت حالات کو بھی دیکھنا چاہئے کہ میرے حالات کیا ہیں اور ان کے حالات کیا ہیں۔ مثلاً ایک شخص بہت ذہین ہے اور دوسرا اتنا ذہین نہیں ہے۔ اب یہ قدرتی بات ہے۔ ذہین تھوڑی سی محنت سے کافی performance بہتر کرے گا اور جو کم ذہین ہوگا اس کو محنت زیادہ کرنی پڑے گی۔ لہٰذا جو کم ذہین ہے اس کو محنت کا طریقہ اس طرح اپنانا چاہئے جس سے وہ کم وقت میں زیادہ بہتر performance لے سکے۔ اس میں مشورہ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن جتنا ممکن ہو اگر وہ ہوجائے تو پھر اس کے بعد فکر چھوڑ دیں، کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر انسان ایک جیسی performance دے۔ بس جتنا زیادہ سے زیادہ انسان کے لئے کسی وقت میں ممکن ہے، تو بس اس کو دیکھا جائے گا کہ اس نے صحیح perform کیا یا نہیں۔ اکثر ہمارے جو students ہوتے ہیں ان کے ساتھ یہ باتیں پیش آتی ہیں کہ وہ Unnatural competition شروع کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اپنے ذہن پر بڑی tension لے آتے ہیں اور کافی نقصان اٹھاتے ہیں۔ ہمارے ایک class-fellow تھے اور وہ میرے roommate بھی تھے۔ مجھے ان کی یہ بات بہت پسند تھی کہ ان کی study کا اپنا style تھا۔ جب میں ان کو کہتا کہ تم یہ study کیوں کرتے ہو؟ تھوڑی سی اور بھی کرسکتے ہو۔ تو وہ کہتا کہ میں نے تیری طرح top تھوڑا کرنا ہے۔ بس میں pass ہوجاؤں یہ کافی ہے۔ کیونکہ اس کے لئے یہ بالکل fit بات تھی۔ لہٰذا جب بھی میں اس سے یہ کہتا تو وہ مجھے یہی بات کہتا کہ میں نے تمہاری طرح top نہیں کرنا، بس میرے لئے یہی کافی ہے۔ لہٰذا وہ اس پر مطمئن تھا۔ paper کے لئے 10 سوال ہوتے تھے۔ اس میں 5 کرنے ہوتے تھے، وہ 2 یا 3 سوالوں کی تیاری کرتے اور اس سے زیادہ نہیں کرتے تھے، بس جب اتنی تیاری ہوجاتی تو سب کچھ رکھ کر سو جاتے۔ پھر وہ نہیں سوچتے تھے، بس کہتے کہ میں یہی کرسکتا ہوں۔ پس اس کا style یہی تھا۔ باقی یہ debateable ہے کہ وہ اسے کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے، یہ علیحدہ بات ہے۔ لیکن اس نے کم از کم اپنا ایک جائزہ لیا تھا کہ میں یہ کرسکتا ہوں اور اتنا کرسکتا ہوں، اس سے زیادہ میرے لئے مسئلہ ہوگا، لہٰذا اپنے آپ کو اور اپنی tension کو اس طریقے سے relief کیا ہوا تھا۔ اس وجہ سے ہمیں ایک Realistic behaviour اپنانا چاہئے۔ تیسرا غیر صحت مندانہ طریقہ اس کے علاوہ یہ ہے کہ انسان حسد شروع کر لے۔ حسد ایسی چیز ہے جو انسان کی نیکیوں کو ختم کرتا ہے، چونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ پر اعتراض ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت پر اعتراض ہے کہ اللّٰہ پاک نے کسی کو ایک نعمت دی ہے اور آپ کو وہ نہیں دی۔ جبکہ آپ کو اور چیزیں دے دی ہوں گی، آپ ان چیزوں کو تلاش کر لیں۔
میرے پاس ایک psychiatrist آئے ہوئے تھے یعنی psychiatry میں وہ specialisations کر رہے تھے، اس نے اپنے بڑے مسائل بتائے کہ مجھے یہ مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ ہے، فلاں مسئلہ ہے، فلاں مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے تمام points لکھیں، جو آپ کے ساتھ پیش آرہے ہیں اور پھر اس میں دیکھو کہ positive کونسے ہیں اور آپ کے favour میں کون سے جاتے ہیں۔ ان کو ذرا تلاش کر لیں، یہ آپ کا علاج ہے۔ مطلب یہ تھا کہ ایک انسان کو بہت ساری چیزیں اللّٰہ تعالیٰ نے ایسی دی ہوتی ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہوتیں۔ لہٰذا اس پر اللّٰہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ لیکن عموماً ہم لوگ شکر نہیں کرتے۔ مثال کے طور میرے ہاتھ میں درد ہے اور مجھے تکلیف ہے جس وجہ سے میں پریشان ہوں کہ باقی لوگوں کے ہاتھ میں درد نہیں ہے، جبکہ اگر میں دیکھوں تو کسی کے دانت میں درد ہوگا، کسی کے ناخن میں درد ہوگا اور کسی کے کان میں درد ہوگا۔ اب آپ کو کیا پتا کہ کسی کو کیا پریشانی ہوگی۔ لہٰذا اللّٰہ پاک نے یہ چیزیں تقسیم کی ہوئی ہیں، اس لئے ان کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ میرے جوتے چوری ہوگئے تو مجھے بہت تکلیف ہوگئی اور مجھ میں چڑچڑا پن آگیا کہ یہ کیا ہوگیا؟ لوگ ایسے اور لوگ ویسے۔ پھر کہتے ہیں کہ میں باہر ننگے پاؤں آیا تو دیکھا کہ ایک شخص ہے جس کا پاؤں نہیں تھا، میں نے کہا اللّٰہ! تیرا شکر ہے کہ میرا پاؤں تو ہے۔ اگرچہ یہاں جوتے نہیں ہیں لیکن جوتے پھر بھی مل سکتے ہیں۔ تو یہ positive ہے۔ اس وجہ سے ہمیں یہ چیزیں بھی دیکھنی چاہئیں کہ اللّٰہ پاک نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے (اور ہمارے کچھ جاننے والے ایسے ہیں) کہ کسی کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے، لیکن اس کے پیر کام نہیں کر رہے ہوتے، اور آنکھیں اس کی کام نہیں کر رہی ہوتیں، اب وہ کہتا ہے کہ دیکھو! میرے پاس یہ نہیں ہے۔ لیکن جن کے پاس یہ آنکھیں اور پیر ہیں، کیا کبھی انہوں نے شکر کیا اس پر؟ لہٰذا اس پر شکر کرنا چاہئے۔ اب اگر یہ کہتا ہے کہ سارے پیسے مجھ سے لے لو لیکن مجھے یہ مل جائیں تو اس کے لئے میں تیار ہوں۔ لیکن آپ کو اللّٰہ پاک نے یہ ساری چیزیں جو دی ہیں، کیا کبھی اس پر شکر کیا ہے؟ ایک lever کا جب مسئلہ ہوجائے تو اس کے لئے پتا نہیں کتنے لاکھ transplantation کے لئے دینے پڑتے ہیں، لیکن وہ بھی اس طرح نہیں ہوتا۔ پتا نہیں lever اور کڈنی اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں ہیں؟ جس کے transplantationکے لئے اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں بچایا ہوا ہے، یہ شکر کے مواقع ہیں، اس پر شکر کرنا چاہئے۔ انسان اپنے آپ کو صرف ناشکرا کہے تو یہ حل نہیں ہے بلکہ شکر شروع کرنا چاہئے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروع کرنا چاہئے تاکہ بڑی چیزوں کی پھر ہمت ہوجائے۔ لہٰذا چھوٹے چھوٹے شکر شروع کر لیں اور حقیقی معنوں میں شروع کر لیں۔ امید ہے جو بڑے بڑے شکر ہیں اس تک ان شاء اللّٰہ پہنچ جاؤ گے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔ حضرت جی!
All my family members think that I am very pious. Sometimes, they ask me for دعا as though I am a very pious person. However I know for sure that I am very sinful and when they praise me I feel very ashamed. But I do not tell them anything about my sins. What should I do if they say such things to me?
یہ کہہ رہے ہیں کہ میری ساری فیملی members وہ میرے بارے میں سمجھتے ہیں کہ میں بہت پرہیزگار ہوں۔ اور کبھی کبھی مجھے دعا کے لئے بھی کہتے ہیں، جیسے میں بہت نیک آدمی ہوں۔ حالانکہ مجھے پتا ہے کہ میں بڑا گناہ گار آدمی ہوں، اس لئے جب وہ میری تعریف کرتے ہیں تو میں بہت شرمندہ ہوتا ہوں لیکن ان کو اپنے گناہوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتا۔ مجھے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
آپ کو یہی کرنا چاہئے جو آپ کر رہے ہیں۔ یہ بالکل ٹھیک کر رہے ہیں اور اس پر اللّٰہ کا شکر ادا کریں کہ اللّٰہ پاک نے میرے گناہوں کو ان پر ظاہر نہیں کیا۔ کیونکہ اگر گناہ ظاہر ہوجائیں تو بعض دفعہ انسان برداشت نہیں کرسکتا اور یہ بڑا امتحان ہوجاتا ہے۔ لہٰذا گناہوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ پھر دوسرا گناہ ہے۔ باقی اگر کوئی آپ کو متقی سمجھے تو شرمندہ ہونا تو ضروری ہے کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ ہم ایسے نہیں ہوتے۔ لیکن شرمندگی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم اپنے گناہ ظاہر کردیں، بلکہ ان سے یہ کہہ دیں کہ بھائی جیسے آپ مجھے سمجھ رہے ہیں، آپ میرے لئے دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے ویسا ہی کردے۔ اور اگر کوئی آپ کو دعا کے لئے کہے تو ضرور ان کے لئے دعا کریں اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو بھی شامل کر لیں کہ اے اللّٰہ! میرے لئے بھی اس کو قبول فرما۔ اور ویسے فرشتے بھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں جو کسی اور کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اس لئے یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ لہٰذا آپ ان کے لئے دعا ضرور کر لیں۔ لیکن اس سے اپنے آپ کو پرہیزگار سمجھنا ضروری نہیں کیونکہ گنہگار آدمی بھی دعا کرسکتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادۡعُوۡنِىۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَـكُمۡؕ﴾ (الغافر: 60)
ترجمہ1: ’’اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔
اور یہ حکم پرہیزگاروں کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ عام حکم ہے۔ لہٰذا گناہ گار بھی دعا کرسکتے ہیں اور پرہیزگار بھی دعا کرسکتے ہیں۔ بلکہ اللّٰہ تعالیٰ تو کافروں کی بھی دعائیں سن لیتا ہے اور بعض دفعہ اللّٰہ تعالیٰ قبول بھی فرماتے ہیں۔ لہٰذا اس کے لئے پرہیزگار ہونا ضروری نہیں ہے۔ بس اگر کوئی آپ سے توقع رکھتے ہیں اور آپ کو نیک گمان کرتے ہیں تو اس پر اللّٰہ کا شکر ادا کریں۔ اور شرمندہ ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ ہم حقیقت میں ویسے نہیں ہوتے۔ البتہ اس پر بھی شکر کریں کہ اللّٰہ پاک نے میرے گناہوں کو ان پر کھولا نہیں ہے۔
سوال نمبر 10:
I think that I'm lagging behind a lot in the process of my اصلاح. I feel that all others are getting اصلاح faster as compared to me. What should I do to remove this and improve the process of my اصلاح?
کہتے ہیں کہ میرا خیال یہ ہے کہ میں اپنی اصلاح کے کام میں کافی سست ہوں اور میں بہت پیچھے رہ گیا ہوں۔ جب میں دوسروں کے ساتھ compare کرتا ہوں تو وہ زیادہ بہتر چل رہے ہوتے ہیں۔ میں اس کی بہتری کے لئے کیا کرسکتا ہوں؟
جواب:
یہ بات تو میرے خیال میں صحیح ہے کہ اپنے بارے میں ایسا ہی گمان کرنا چاہئے۔ البتہ اس میں حسد نہیں آنا چاہئے، بلکہ ان کے اوپر نیک گمان کرنا چاہئے کہ واقعی وہ اچھے ہیں اور مجھ سے آگے ہیں۔ اور پھر اگر اصلاح کی کمی کسی اختیاری چیز کی وجہ سے ہے تو اس چیز کو دور کرنا چاہئے، کیونکہ انسان اختیاری امور کا مکلف ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اختیاری امور میں سستی نہ کرو اور غیر اختیاری امور کے پیچھے نہ پڑو۔ لہٰذا اگر اختیاری چیزوں میں کمی ہے تو اس کمی کو دور کرنا چاہئے اور غیر اختیاری کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔
سوال نمبر 11:
حضرت جی! کیسے ہیں؟ اللّٰہ پاک آپ کو صحت اور تندرستی عطا فرمائے۔ حضرت جی! جو ذکر آپ نے دیا ہے وہ میں کر رہا ہوں۔ اس میں کبھی کیفیات آتی ہیں اور کبھی نہیں آتیں۔ حضرت جی! میں آفس میں 5 دن کام کرتا ہوں لیکن وہ دینی لوگ نہیں ہیں۔ میں وہاں شلوار قمیض بھی نہیں پہن سکتا، بلکہ paint میں رہتا ہوں، البتہ چھٹی کے دن میں شلوار قمیض میں ہوتا ہوں۔ شیطان جب وساوس ڈالتا ہے تو وہ مجھے محسوس ہوتے تھے، اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے injection ہو رہے ہیں۔ مجھ سے گناہ بھی سرزد ہوتے ہیں لیکن میں نے اللّٰہ پاک سے معافی مانگی کہ وہ مجھے معاف فرمائیں۔ لیکن اب وہ کیفیت نہیں ہے۔ میں آنکھوں کے گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرتا ہوں، کبھی کامیابی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔ میرا اپنی فیملی سے مذہبی اختلاف بہت ہے، وہ سب میرا مذاق اڑاتے ہیں اور مذاق اڑانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جب میں ان کو تبلیغ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے ایک cousin ہیں جن کا جھکاؤ قادیانیوں کی طرف ہے، بلکہ یوں کہیں کہ وہ جاوید غامدی کے influence میں ہیں مگر سب ان کے ساتھ ہیں جو گمراہ لوگ ہیں۔ اس لئے مجھے غصہ آتا ہے۔ حضرت جی! میں نسوار بھی منہ میں رکھتا ہوں، مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ چھوڑ دوں، سگریٹ تو میں نے چھوڑ دی ہے۔ میں اپنے آپ کو ناکارہ سمجھتا ہوں اور میں بہت سست ہوں۔ حضرت جی! جب میں اجتماع پر گیا تھا تو میں جس بس میں واپس آرہا تھا، اس بس میں کنڈیکٹر میری منگیتر تھی۔ اب مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں؟ اس سے شادی کر لوں یا نہ کروں۔ آپ اس میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں؟ مجھے سو فیصد sure تو نہیں ہے لیکن میری آنکھ دھوکہ نہیں کھا سکتی۔ حضرت جی! آپ دعا فرمائیں کہ اللّٰہ پاک مجھ سے راضی ہوجائے۔ اور میرے اندر جو negativity تھی میں اس کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مثلاً کسی کو مارنے کا دل کرتا ہے تو وہ چیز جو محسوس ہوتی ہے میں اس کو جھٹک دیتا ہوں۔ معمولات پورے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں البتہ کبھی رہ بھی جاتے ہیں۔
جواب:
ٹھیک ہے، اس نے اپنا حال صحیح بتایا ہے۔ اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جن میں انسان جبری ہوتا ہے اور کچھ باتیں ایسی ہیں جن میں انسان قدری ہوتا ہے۔ جبری سے مراد یہ ہے کہ کچھ ہمارے حالات ایسے ہیں جن میں ہم مجبور ہوتے ہیں، مثلاً کسی خاندان میں پیدا ہونا، اب یہ ہماری مجبوری ہے، کیونکہ ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے کہ ہم کونسے خاندان میں پیدا ہوجائیں۔ مثلاً جیسے انہوں نے اپنی خاندانی مشکلات بتائی ہیں، یہ اس کے لئے ایک جبری چیز ہے، اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ البتہ جو اختیاری چیزیں ہیں، اس میں کوشش کرنی چاہئے۔ جبری چیزوں میں یہ ہوتا ہے کہ اگر انسان کے ارد گرد ماحول میں مشکلات ہوں لیکن وہ حق پر قائم رہے تو اس کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً اگر normal کام ہے، مثال کے طور پر حضرت مولانا صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ’’ٹھیلے والے کی نماز‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی retired ہے اور وہ بڑے آرام سے اور اطمینان سے نماز پڑھ رہا ہے، لیکن دوسرا آدمی جس نے ٹھیلا کھڑا کیا ہوا ہے اور اس کو خطرہ ہے کہ کوئی بچہ نہ آجائے جو میری چیزوں کو disturb کر دے یا پیچھے کردے، اب اس کی نماز میں بڑے وسوسے آرہے ہوں لیکن وہ اسی طرح نماز پوری کر لیتا ہے۔ اور دوسرا آدمی جو retired ہے وہ بڑے اطمینان سے نماز پوری کرتا ہے۔ حضرت نے فرمایا اس retire آدمی کی اطمینان والی نماز اس ٹھیلے والے کی نماز تک نہیں پہنچ سکتی۔ کیونکہ یہ جبری چیز ہے، اور اس کے بس میں نہیں ہے۔ بلکہ اس بیچارے کی ساری اثاث ہی یہی ہے، یہ جو آیا ہے، یہ بھی اس نے بڑی ہمت کی ہے، اور اس کو ہمت کر کے چھوڑا ہے۔ لہٰذا اس سے پتا چلا کہ کچھ اوقات ایسے ہوتے ہیں جس میں انسان مجبور ہوتا ہے۔ لیکن اس مجبوری کی وجہ سے اس کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا یہ گھبرائیں نہیں، بلکہ جن حالات میں یہ ہے، انہیں حالات میں اپنے آپ کو صحیح رکھے۔ اور دوسروں کو فی الحال تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جب انسان کے اندر اتنی روحانی طاقت آجائے کہ وہ تبلیغ کرسکے تو پھر بتا دیا جائے گا۔ فی الحال یہ اپنے آپ کو بچائے، بس یہی کافی ہے۔ کیونکہ ماحول ان کے لئے کافی خطرناک ہے، اس وجہ سے بس اپنے آپ کو ہی بچائیں۔ اور اپنے معمولات بالکل نہ چھوڑیں اور اپنا رابطہ بھی بالکل نہ چھوڑیں، یہ بات ضروری ہے۔ باقی آفس کے اندر اگر یہ paint وغیرہ پہنتا ہے تو یہ بھی اس کی مجبوری ہے، کیونکہ یہ اس کو پسند نہیں کرتے۔ اور پھر جب چھٹی کے بعد واپس آتے ہیں تو پھر وہ نہیں پہنتے جیسا کہ انہوں نے کہا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی نے tie والے سے پوچھا کہ آپ کو tie کی کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا اتارتے وقت اس میں بڑا مزا آتا ہے۔ یعنی (دیکھا جائے تو tie کا ویسے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، لیکن یہ فائدہ ہے کہ) جب اس کو اتارتے ہیں تو اس وقت بڑا مزا آتا ہے۔ جس طرح میں کہتا ہوں کہ paint والے بھی بیچارے بڑی پریشانی کی زندگی گزارتے ہیں، جس وقت وہ پہن رہے ہوتے ہیں تو بڑے تنگ ہوتے ہیں، لیکن جس وقت اتار رہے ہوتے ہیں تو ان کو بڑی فرحت محسوس ہوتی ہو گی، کیونکہ وہ relax ہو رہے ہوں گے۔ خیر چلو ٹھیک ہے۔ یہ مزے کرتے رہیں، روزانہ اپنے آپ کو relax کرتے رہیں، یہ فرق محسوس کرتے رہیں۔ لیکن بہرحال اس کی مجبوری ہے اور اس کو مجبوری کی وجہ سے ان شاء اللّٰہ اجر ملے گا۔ اور باقی معمولات اپنے پورے کرتے رہیں۔ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جیسے میں نے کہا کہ دوسروں کو تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر کچھ نہیں کرسکتا تو اپنے آپ کو کسی اور چیز میں مصروف کرے تاکہ کسی کی وجہ سے tension نہ آئے، بس اپنے آپ کو ٹھیک رکھیں۔ باقی جو اس نے special مسئلہ منگیتر والا بتایا ہے، یہ چونکہ ابھی تشنہ ہے، پوری تفصیلات نہیں دے سکا اور واقعتاً اس مختصر Email میں اس کی تفصیلات آبھی نہیں سکتی تھیں۔ لہٰذا بالمشافہ اس میں گفتگو کر لے۔ امید ہے ان شاء اللّٰہ جو بات سمجھ میں آئے گی، تو ان شاء اللّٰہ اس کے بارے میں عرض کر لیں گے۔
سوال نمبر 12:
اپنی اصلاح کس points سے شروع کی جائے؟ مجھے اپنے اندر یہ غلطیاں نظر آتی ہیں۔ نمبر ایک، شوہر پر غصہ آنا، جس کی وجہ اکثر شوہر کی بہت زیادہ بے انتظامی ہوتی ہے اور شاہ صاحب! اتنی کہ سر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ اور رونا بھی آتا ہے۔ خانقاہ میں اس کا بہت زیادہ انہماک ہے۔ اس وجہ سے reaction کے طور پر تنگ آکر میں اپنے معمولات بھی چھوڑ دیتی ہوں۔ پہلے جتنا دین سیکھنے یا درس attend کرنے کا شوق تھا، اب وہ نہیں رہا۔ اپنے بارے میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ میں غلط کر رہی ہوں۔ ایک دن پھر ٹھیک رہتی ہوں اور پھر منفی جذبات attitude پیدا ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ قرآن پاک کی تعلیم و درس کو مفید سمجھتے ہیں۔ بزرگوں کے جو درسِ ملفوظات ہوتے ہیں، ان میں بعض اوقات اولیاء کرام کا تذکرہ اور ان کے ملفوظات زیادہ ہوتے ہیں، ان کی افادیت اور ضرورت کیا ہے؟
جواب:
چونکہ یہ خاتون نے خط لکھا ہے۔ لہٰذا خاتون کو ذہن میں رکھ کر اس کا جواب دینا ہوگا۔ دیکھیں! خواتین کی بڑی اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو گھر میں بڑی ذمہ داریاں دی ہوتی ہیں بالخصوص بچوں کی تربیت وغیرہ اور گھر کا سکون زیادہ تر خواتین کے ساتھ وابستہ ہے۔ لیکن ان کا جو بنیادی structure ہے کہ ان کی طبیعت انفعالی ہوتی ہے، انفعالی سے مراد یہ ہے کہ یہ بہت جلدی اچھائی کے ساتھ اچھی ہوجاتی ہیں اور برائی کے ساتھ بری ہوجاتی ہیں۔ اور یہ جذباتی مخلوق ہے، جس کے بڑے فوائد بھی ہیں، لیکن مسائل بھی ہیں۔ اگر اس کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ ساری باتیں natural نظر آتی ہیں۔ پہلی بات شور پر غصہ آنا، یقیناً بے انتظامی سے انسان کو غصہ تو آتا ہے، لیکن اگر وہ اس کے بس سے باہر ہو، مثلاً بعض لوگ قدرتی طور پر بے انتظام ہوتے ہیں۔ اگرچہ انتظام آنا چاہئے کیونکہ بغیر انتظام کے کام ٹھیک نہیں ہوتا۔ لیکن کچھ لوگ اپنا بھی نقصان کر لیتے ہیں، لہٰذا ایسے لوگوں کو معذور سمجھتے ہیں۔ البتہ اگر کسی اور کا نقصان کر لیں اور اپنے آپ کو بچا لیں تو پھر ذرا معاملہ الگ ہوتا ہے، لیکن جس کے اپنے نقصانات بھی بے انتظامی کی وجہ سے ہوتے ہوں یعنی ذاتی نقصانات بھی ان کے ہوتے ہوں تو یہ معذور کے حکم میں ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے ساتھ adjustment کرنی ہوتی ہے کیونکہ مخالفت سے وہ ٹھیک نہیں ہوگا بلکہ اس کا ساتھ دینے سے ٹھیک ہوگا یعنی اس کی help کی جائے کہ کسی طرح بے انتظامی دور ہوجائے۔ مثلاً اگر ان کو زیادہ کام بتا دیا جائے تو اس میں سے کچھ خراب ہوگا، تو پھر ان کو زیادہ وقت کا کام ایک وقت میں نہ بتایا جائے بلکہ ان کو اس طرح کام بتا دئیے جائیں جو وہ آسانی کے ساتھ کرسکیں۔ اکثر یہ بات ہوتی کہ بعض شوہر بہت busy ہوتے ہیں، ان کے Style of living ایسی ہوتی ہے کہ جیسے وہ PHD وغیرہ کر رہے ہوں یا اس میں research اتنی زیادہ ہوجاتی ہے، اور کچھ باتیں اسی طرح اور ہوجاتی ہیں کہ پھر وہ لطیفے بن جاتے ہیں۔ جن کو ہم پروفیسر mind کہتے ہیں۔ تو ان کی غلطیاں بھی بڑی زبردست interesting ہوتی ہیں۔ لیکن وہ ان کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں، اس لئے ان کے ساتھ ہی گزارا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں گزارا ہی بہتر ہے جبکہ اس میں مزید improvement کا امکان نہ ہو۔ لیکن اگر improvement کا امکان ہو تو پھر اس کا ساتھ دے دیا جائے اور اس improvement کو ہونے دیا جائے۔ اور اس کے لئے انسان اپنے اوپر جبر کرے۔ مثلاً اگر کوئی شخص گرتا ہے تو naturally انسان کو ہنسی آتی ہے، لیکن کیا اس وقت ہنسنا چاہئے؟ نہیں بالکل نہیں ہنسنا چاہئے، بلکہ ہنسی کو کنٹرول کرنا چاہئے۔ اسی طریقے سے ایک شخص جو پروفیسر mind کا ہے، اس کے بس میں نہیں ہے، اس پر انسان کو غصہ بھی آتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ لیکن نہ غصہ کرنا چاہئے اور نہ ہنسا چاہئے۔ کیونکہ اس سے وہ مزید خراب ہوگا، جبکہ مزید خراب تو نہیں کرنا چاہئے۔ لہٰذا ہمیں اس مسئلے میں کچھ طریقۂ کار adopt کرنا ہوگا اور اس پر جو اجر ملے گا وہ یقیناً بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ شوہر اور بیوی کا رشتہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہاں بہت valuable ہے، اس میں اگر کسی کے اندر کمی ہے اور دوسرا اس پر صبر کرتا ہے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ بہت زیادہ اجر دیتے ہیں۔ جیسے Brett Cecil کی جو بیوی تھی وہ بڑی خوبصورت تھی اور Brett Cecil بہت بد صورت تھا، ایک دن Brett Cecil نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہم دونوں جنتی ہیں۔ بیوی نے کہا کیسے؟ کہتا دیکھیں! تو مجھے دیکھتی ہے تو صبر کرتی ہے کیونکہ میں بدصورت ہوں، اس پر تجھے اجر ملے گا اور تو جنت جائے گی۔ اور میں جب تمہیں دیکھتا ہوں تو میں شکر کرتا ہوں کہ مجھے اتنی خوبصورت بیوی ملی ہے تو مجھے اس پر جنت ملے گی، اس لئے ہم دونوں جنتی ہیں۔ تو یہ ایک adjustment ہے۔ لہٰذا اس میں انسان کو خیال رکھنا چاہئے اور Positive sense میں بات کرنی چاہئے، ورنہ پھر معاملات خراب ہوتے جاتے ہیں۔ ایسی وجوہات کی وجہ سے میں نے بہت گھروں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ اگر تھوڑا سا ان کے اندر برداشت کا مادہ پیدا کیا جائے تو گھر بسنے لگتے ہیں۔ اور جھگڑے اکثر اس قسم کی عادتوں پر ہوتے ہیں جو انسان کے اندر رچ بس جاتی ہیں۔ لہٰذا اس میں اصلاح کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ جو اختیاری ہیں ان کو کرنا چاہئے اور جو غیر اختیاری ہیں ان کو برداشت کرنا چاہئے۔ اور برداشت بھی دونوں طرف سے ہونی چاہئے، اس طریقے سے گھر آباد ہوجاتے ہیں۔ اپنے معمولات چھوڑنا ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی کسی اور بیمار کو دیکھ کر اپنا علاج چھوڑ دے۔ ڈاکٹر صاحب! (مخاطبین موجود ہیں) کیا آپ نے کوئی ایسا patient دیکھا ہے جو کسی اور کی بیماری کو دیکھ کر اپنا علاج چھوڑ دے؟ لہٰذا اپنا علاج چھوڑنے والی بات میرے خیال میں اس میں یہ حق پر نہیں ہے۔ اس میں اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اگرچہ کوئی آدمی بالکل بھی اصلاح کے قابل نہ ہو، پھر بھی اس کے لئے اپنی اصلاح کو چھوڑنا جائز نہیں ہوگا۔ اس لئے اس میں کوشش کرنی چاہئے۔ باقی جو دین سیکھنے کا شوق ہے، وہ جاری رہنا چاہئے۔ درس attend کرنے کا جو شوق تھا وہ اب نہیں رہا تو کوئی بات نہیں ہے، شوق نہ ہو، لیکن attend کریں، کیونکہ یہ علاج ہے اور علاج تو علاج ہوتا ہے، وہ شوق کی وجہ سے نہیں ہوتا یعنی دوائی کوئی شوق کی وجہ سے نہیں کھا رہا ہوتا، بلکہ جو شوق کی وجہ سے دوائی کھاتا ہے وہ بچہ ہوتا ہے کیونکہ بچے شوق کی وجہ سے دوائی کھاتے ہیں لیکن بڑے کبھی شوق سے دوائی نہیں کھاتے۔ میرے خیال میں بچہ نہیں بننا چاہئے، اس لئے دوائی کو دوائی سمجھ کے کھانا چاہئے۔ لہٰذا اگر آپ سمجھتی ہیں کہ اس درس کو attend کرنے میں فائدہ ہے تو پھر اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے۔
سوال نمبر 13:
کچھ لوگ قرآن پاک کی تعلیم اور درس کو مفید سمجھتے ہیں۔ لیکن بزرگوں کے یہاں جو درسِ ملفوظات ہوتے ہیں ان میں بعض اوقات اولیاء کرام کا تذکرہ اور ان کے ملفوظات زیادہ ہوتے ہیں، ان کی افادیت کیا ہے؟
جواب:
سبحان اللّٰہ! بہت Interesting question ہے۔ میں اکثر اس پر بات کرتا ہوں کہ قرآن اللّٰہ کی کتاب ہے اور اللّٰہ کی کتاب کو باقی چیزوں پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسا کہ اللّٰہ کو باقی چیزوں پر فضیلت حاصل ہے۔ لہٰذا یہ تو ہم کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے کہ باقی چیزوں کو ہم قرآن کے مقابلے میں پیش کردیں، یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ قرآن قرآن ہے اور حدیث حدیث ہے۔ لیکن قرآن اور حدیث سے جو ماخوذ چیزیں ہوتی ہیں اور وہ علاج کی چیزیں ہوں تو وہ قرآن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں مثلاً کسی کا دل صحیح نہیں ہے بلکہ گڑبڑ ہے تو جب تک دل صحیح نہ ہو، اس کو قرآن سمجھ نہیں آئے گا، یہ قرآن کہہ رہا ہے کہ اسے فائدہ نہیں ہوگا۔
﴿اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَذِكۡرٰى لِمَنۡ كَانَ لَهٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَى السَّمۡعَ وَهُوَ شَهِيۡدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔‘‘
لہٰذا قرآن کہہ رہا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے دل کا ٹھیک ہونا ضروری ہے۔ اور دل کے ٹھیک ہونے کے لئے اصلاح کا جو procedure ہے اس میں رجال اللّٰہ کا بڑا role ہے۔ اب رجال اللّٰہ کے ساتھ یا Direct interaction ہوتا ہے یا پھر Direct interaction نہ ہو تو ان کے ملفوظات اور کتابوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ ان کے تجربات ہوتے ہیں۔ اب اگر رجال اللّٰہ کی یہ کتابیں پڑھائی جاتی ہوں، جس میں دل پر محنت ہو اور دل ٹھیک ہوتا ہو تو یہ قرآن کے اسباق کو سمجھنے کے لیے معاون کا کام دیں گے کیونکہ یہ اسی کے لئے استعمال ہوگا۔ اگر آپ ان چیزوں کو چھوڑ دیں تو گویا کہ آپ نے قرآن کی مخالفت کی، لہٰذا آپ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ تو یہ ساری چیزیں آپس میں interconnected ہیں۔ اور جو اصلاحی چیزیں ہوتی ہیں یہ رجال اللّٰہ کے ذریعے سے ہوتی ہیں۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس پر ’’سورہ بقرہ‘‘ کی ابتدا میں اور ’’سورہ فاتحہ‘‘ کے آخر پر بڑی خوبصورت بحث کی ہے۔ معارف القرآن جلد اول کے اندر یہ موجود ہیں۔ اس کے اندر حضرت نے فرمایا ہے کہ ’’سورہ فاتحہ‘‘ میں رجال اللّٰہ کی بات ہے اور ’’سورہ بقرہ‘‘ کی ابتدا میں کتاب اللّٰہ کی بات ہے۔ اور فرمایا کتاب اللّٰہ سے تمسک ضروری ہے کیونکہ یہ ہدایت کے لئے ہے اور رجال اللّٰہ کے پیچھے چلنا ضروری ہے کیونکہ عملی طور پر یہ راستہ انہیں سے ملے گا۔ تو فرمایا 2 گروہ ہوگئے، کچھ لوگوں نے رجال اللّٰہ کو لیا اور کتاب اللّٰہ کو چھوڑا، وہ بھی گمراہ ہوگئے اور کچھ لوگوں نے کتاب اللّٰہ کو لیا اور رجال اللّٰہ کو چھوڑا، وہ بھی گمراہ ہوگئے۔ پھر فرمایا کہ جنہوں نے رجال اللّٰہ کو بھی لیا اور کتاب اللّٰہ کو بھی لیا، وہ ہدایت پر رہ گئے۔ کیونکہ رجال اللّٰہ سے انہوں نے تربیت حاصل کی اور کتاب اللّٰہ سے علم حاصل کیا۔ اور وہ علم تربیت کی وجہ سے سمجھ میں بھی آگیا اور فائدہ بھی ہوگیا۔ اس وجہ سے یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ اور جو بزرگوں کے ملفوظات ہوتے ہیں، یہ اصل میں رجال اللّٰہ کی وجہ سے ہیں۔ اور میں عرض کرتا ہوں کہ انگلینڈ میں اگر آپ ہیں تو انگلینڈ کے حالات کے مطابق آپ کی اصلاح ہوگی اور اگر امریکہ میں ہیں تو امریکہ کے مطابق اصلاح ہوگی، اور اگر سعودی عرب میں ہیں تو سعودی عرب کے مطابق اصلاح ہوگی۔ تو کیا خیال ہے! کیا قرآن پاک میں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ سعودی عرب والوں کے لئے ہے اور یہ انگلینڈ والوں کے لئے ہے اور یہ امریکہ والوں کے لئے ہے؟ یہ تو نہیں بتایا جاتا۔ تو یہ کون بتائے گا؟ یہ رجال اللّٰہ بتائیں گے۔ رجال اللّٰہ امریکہ والے امریکہ والوں کے لئے مفید ہوں گے، برطانیہ والے برطانیہ والوں کے لئے مفید ہوں گے، سعودی عرب والے سعودی عرب کے لئے مفید ہوں گے۔ مقصد یہ ہے کہ رجال اللّٰہ عملی طور پر جس چیز کی practice رکھتے ہیں اور علاج کرسکتے ہیں تو ان کے ساتھ رابطہ رکھنے سے ان شاء اللّٰہ جو دل بنے گا، وہ قرآن پاک کے سمجھنے کے لئے کام آئے گا اور احادیث شریف کے سمجھنے کے لئے بھی کام آئے گا۔ ورنہ پھر یہ ہوگا کہ قرآن پڑھیں گے لیکن سمجھ نہیں آئے گی بلکہ بعض دفعہ تکبر آئے گا، عجب آئے گا، اور کہیں گے کہ ہم قرآن والے ہیں۔ اور باقی کیا ہے؟ باقی کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا یہ تباہ ہوجائیں گے۔ جیسے خوارج تباہ ہوگئے۔ کیونکہ خوارج نے یہی کیا تھا کہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے۔ صحابہ سے بھی انکار کردیا، نتیجتاً گمراہ ہوگئے۔ اور آپ ﷺ نے ان کے لئے پیشنگوئی فرمائی:
’’قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (یَذْکُرُ) قَوْمًا يَتَعَبَّدُوْنَ، يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهٗ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصَوْمَهٗ مَعَ صَوْمِهِمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ‘‘۔ (مسلم: 2455)
ترجمہ: ’’آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک قوم جو ایسی عبادت کرے گی جن کی نماز کے سامنے تمہیں اپنی نماز، ان کے روزے کے سامنے اپنے روزے حقیر لگیں گے، لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے‘‘۔
لہٰذا اگر کوئی صرف قرآن کی بات کرتا ہے اور تربیت والی بات نہیں کرتا تو وہ پھر خوارج کے طریقے پر چلتا ہے، جس کا نقصان ہوجاتا ہے۔ اور جو صرف رجال اللّٰہ کی بات کرتے ہیں لیکن کتاب اللّٰہ کی بات نہیں کرتے تو وہ فاطمین کے طریقے پر چل پڑے، اور وہ بھی گمراہ ہوگئے۔ ہم دونوں کی باتیں کرتے ہیں الحمد للّٰہ، اللّٰہ کا شکر ہے ہمارا ہر وعظ قرآن کی آیت سے شروع ہوتا ہے اور پورا وعظ وہ قرآن کی اسی آیت کی تفسیر ہوتا ہے، اس وجہ سے وہ قرآن ہی ہوتا ہے۔ مثلاً اگر آپ قرآن پاک کی اس آیت کی تفسیر کریں تو کیا آپ کے اوپر پابندی ہے کہ صرف 1 صفحہ تفسیر کرنی ہے؟ ممکن ہے 50 صفحے تک پہنچ جائے اور پورا بیان ہی اس پر ہوجائے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مواعظ کو آپ دیکھیں 2 2 گھنٹے کا ایک وعظ ایک آیت کریمہ پر ہوتا تھا۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اس کی قدر کرنی چاہئے۔ ان شاء اللّٰہ فائدہ ہوگا اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔