سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 204

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

20141109_QA204



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَم النَّبِیِّینَ اَماَّ بَعْدُ

فَاَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔

سوال 01:

کل کا جو درس ہوا، اس کے آخر میں تکبر اور حسد کے بارے میں ایک بات آئی تھی کہ حضرت نے فرمایا تھا کہ اپنے انفس کی اتباع کرنے سے یہ چیز آگئی ہے اس کی کچھ detail کچھ لکھی ہوئی تھی اور ایک پروسیجر سا تھا تو اس کی اگر تھوڑی سی تفصیل بیان ہوجائے تو میری تشنگی دور ہو جائے گی۔

جواب:

نفس ہی کی خواہش ہوتی ہے کہ میں بڑا بن جاؤں، نفس ہی کی خواہش ہوتی ہے کہ میں زیادہ اچھی لذیذ چیز کھاؤں یا لذیذ چیز استعمال کروں، نفس کی خواہش ہوتی ہے کہ میں زیادہ مال جمع کروں، یہ نفس کی خواہشات ہیں۔ اب جب نفس کی خواہش ہوتی ہے اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے تو جیسا کہ اب سارے لوگ موجود ہیں، ان میں، میں بھی موجود ہوں، تو میں جب بڑا ہونا چاہوں گا تو باقیوں کو چھوٹا کروں گا، اس کو کیا کہیں گے؟ نفس کہیں گے۔ اسی طریقہ سے میں سب سے زیادہ اچھی چیز لینا چاہوں گا اور وہ میرے پاس نہیں ہے کسی اور کے پاس ہے تو پھر کیا ہو گا؟ حسد ہو گا، تو یہ ساری نفسانی خواہشات ہیں اور نفسانی خواہشات تین قسموں پر بتائی گئی ہیں: حب جاہ، حب باہ اور حب مال، broad way میں اگر آپ دیکھیں۔ باقی اس کے بعد تفصیلات ہیں۔ تو کچھ روحانی بیماریاں حب جاہ کے ذریعہ سے ہوتی ہیں، کچھ حب باہ کے ذریعے سے ہوتی ہیں، کچھ حب مال کے ذریعہ سے ہوتی ہیں۔ حب باہ والی جو ہوتی ہیں وہ instant ہوتی ہیں یعنی فوری، لہذا اس کے اوپر انسان یہ یقین نہیں کر سکتا کہ میں دوبارہ اس کو نہیں کروں گا کوئی وقت بھی instantly ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کو انسان پھر دوبارہ کر لے۔ مثلاً کوئی لذیذ چیز آگئی پرہیز توڑ دیا، کسی غیر محرم کی طرف اچانک نظر کرلی، یہ حب باہ ہے۔ لیکن اس سے توبہ بھی جلدی نصیب ہوتی ہے، کیونکہ instant ہوتا ہے، تو فوراً instantly اس پر توبہ کی تحریک آسکتی ہے الا یہ کہ بالکل ہی بگڑ گیا ہو اور اس کا مزاج ہی بالکل وہی بن چکا ہو تو اس وجہ سے یہ حب باہ والی بیماریاں زیادہ کثیر الوقوع ہوتی ہیں۔

حب مال کی بیماری ایک مسلسل persistant چیز ہوتی ہے، مسلسل آدمی انیس بیس کے چکر میں لگا رہتا ہے. تو یہ مال مسلسل چلتا رہتا ہے۔ حب جاہ جو ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ سخت ہوتا ہے، یہ بہت مشکل سے نکلتا ہے، اس لیے بزرگ زیادہ تر اصلاح اسی کی کرتے ہیں، کیونکہ یہ بہت مشکل سے نکلتی ہے جیسا کہ تکبر وغیرہ۔ چونکہ یہ حب جاہ کی قبیل سے ہوتی ہیں، تو ان کا نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ جیسا شیطان کے ساتھ ہوا، آپ اندازہ کریں اس کو ابھی تک پتا ہے کہ کتنا عرصہ گزر گیا اور ساری چیزیں جانتا ہے، لیکن یہ سب حب جاہ کا مسئلہ ہے۔ یہود کے ساتھ بھی یہی حب جاہ والا مسئلہ ہے، اس کا نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اس کی وجہ سے بزرگوں کے بھی لوگ مخالف ہو جاتے ہیں، انہوں نے اپنی جاہ بنانی ہوتی ہے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ابوجہل ہو گیا اور عبداللہ بن ابی کی میں نے مثال دی تھی، تو وہ مخالف ہو گیا تو یہ چیز بڑی سخت ہوتی ہے اور بہت دور تک لے جاتی ہے لہذا اس سے انسان کو بہت زیادہ پناہ مانگنی چاہیے۔ ایک دعا ہے "اَللّٰہُمَّ اِجْعَلْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْراً وَّ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْراً" ”اے اللہ مجھے اپنی نظروں میں چھوٹا کردے اور دوسروں کی نظروں میں بڑا کر دے“ تو اس میں گویا علاج بھی مانگ لیا اور عافیت بھی مانگ لی، صرف علاج اگر مانگتے تو یہ اس طرح ہوتی "اَللّٰہُمَّ اِجْعَلْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْراً" یہ بات کافی تھی اور "وَ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْراً" عافیت ہے کیونکہ اگر آپ دوسروں کی نظروں میں بھی چھوٹے ہو گیے تو پھر بڑا مشکل ہو جاتا ہے، اور پھر لوگ فٹ بال بنا لیتے ہیں، تو اس وجہ سے فوراً مانگ لیا کہ "وَ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْراً" یہ بھی آج مولانا صاحب نے تقریباً اسی context میں بات کی۔ اگر اس کو اسی سیاق میں لے جائیں تو امت کے لیے تعلیم ہے، اور امت برداشت نہیں کر سکتی۔ بہرحال یہ ہے کہ خطرناک بیماری ہے اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائے۔

سوال 02:

حضرت آپ نے عروج کی کچھ مثالیں دی تھیں، نزول کی عملی شکل کی کچھ مثالیں بیان فرمادیں۔

جواب:

آج کل کے عام تبلیغی عروج کی مثال ہیں اور مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نزول کی مثال ہیں۔ ایسے اپنے آپ کو مٹایا ہوا تھا، ایسے اپنے آپ کو گرایا ہوا تھا، سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ حال تھا کہ کوئی آۓ تو بتانا پڑتا تھا کہ میں کس لیے آیا ہوں، تو پوچھا کس لیے آئے ہو تو اس نے کہا حضرت بزرگوں کی خدمت میں کچھ وقت لگانے کے لیے آیا تھا، فرمایا: بڑی لغو نیت کر کے آئے ہو! اب اگر میں قسم کھاؤں کہ تم مجھ سے بڑے بزرگ ہو تو پھر کیا کرو گے؟ بس یہ کہو کہ اپنی اصلاح کے لیے آیا ہوں تو کبھی کبھی کسی فاسق و فاجر سے بھی اللہ تعالی اصلاح کروا دیتا ہے۔ یہ بات ویسے آپ کو ہضم نہیں ہو گی، اور یہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ نہیں آئے گی، لیکن ابھی راستے میں ہم بڑی تفصیل سے اس پر بات کر چکے ہیں، یہ آپ لکھ لینا جو ہم بات کر چکے ہیں۔ وہ یہ ہے که ہمارے جتنے بھی مشائخ ہیں ان کے اوپر یہ چیز کھلی ہوتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرتے، کرنے والی ذات اللہ کی ہے، ہمیں تو صرف استعمال کیا جا رہا ہے، puppet کے طور پہ، اور کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، کام تو سارا وہی کرا رہے ہیں، وہ اس system کے سامنے نہیں آتے، اس کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں، ورنہ وہ اپنے آپ کو ہرگز قابل نہیں سمجھ رہے ہوتے۔ اب کہاں مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سوچ اور کہاں پیری کرنا، یہ تو نا ممکن ہے! اگر حضرت کے اپنے بارے میں خیالات کو جان لیا جائے تو کیا وہ پیری کر سکتے تھے؟ نہیں کر سکتے تھے، لیکن یہ ان کو پتا تھا کہ بس مجھے تو ذریعہ بنایا جا رہا ہے، مجھے تو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک دفعہ اپنے خلیفہ سے فرمایا کہ کبھی کبھی محبت کی نظر اپنے مریدوں پر ڈال لیا کرو، اس سے ان کو فائدہ ہوتا ہے، اب یہ اس system کے بارے میں بات بتائی کہ system ایسا ہے۔ چونکہ مشائخ کے ذریعے اللہ تعالی دیتے ہیں، جن کا جو شیخ ہوتا ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالی دیتے ہیں، تو اس کو ایسا کرنا چاہیے، اپنے اوپر نظر نہیں ڈالنی کہ میں کیسا ہوں! میں تو جیسا بھی ہوں، لیکن اللہ تعالی تو کر رہا ہے، اللہ تعالی تو دینا چاہتے ہیں۔ تو دونوں چیزیں ان کے اوپر اللہ تعالی ایسی کھول دیتے ہیں که اپنی کم مائیگی کا احساس بھی ان کے اوپر بدرجہ اتم آچکا ہوتا ہے اور ظاہر ہوچکا ہوتا ہے اور جو سارا system ہے اور یہ جو کام ہو رہا ہے سارا کام اللہ تعالی لے رہے ہیں، اور کام کروا رہے ہیں تو وہ بھی ان کے اوپر بہت کھلا ہوتا ہے، لہذا ان کو ذرا وسوسہ بھی نہیں آتا کہ دیکھو میرے ساتھ یہ کام ہو رہا ہے کہ فلاں کو فائدہ ہو گیا۔ ان کی نظر اپنی بزرگی کی طرف نہیں جاتی، بلکہ بعض دفعہ تو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرید کے ساتھ ایسا معاملہ کرتے جیسے پیر چلپئی رحمۃ اللہ علیہ کہ آپ تو ایسے ہیں اور آپ تو ایسے ہیں، مسلسل مثنوی میں آرہا ہے۔ اس بات کی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تشریح فرمائی ہے۔ لوگوں نے غالباً پوچھا ہے کہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا اصل میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اپنے شیخ پر عاشق تھے، بنیادی طور پر یہ بات تھی۔ خود انسان کو اپنے اندر وہ صفات نظر نہیں آتیں، چونکہ اللہ تعالی جب صفائی فرماتے ہیں تو اپنے اندر وہ چیز نظر نہیں آتی چنانچہ ان کو بھی اپنے شیخ کی صفات اپنے اندر نظر نہیں آ رہی تھیں، لیکن اپنے مرید کے اندر نظر آ رہی تھیں، اپنے خلیفہ کے اندر نظر آرہی تھیں، تو بس پھر وہ ان کے عاشق ہو گیے۔ یہ بات نزول کے بعد ہی ہو سکتی ہے، ورنہ عروج ہی عروج ہو تو ایک دفعہ تیر کمان سے نکل گیا تو بس نکل گیا، نزول بہت ضروری ہوتا ہے۔


سوال 03:

حضرت کل آپ نے فرمایا تھا کہ جب علماء کے سامنے ہم جائیں تو سنبھل کے بات کیا کریں، لیکن جب مشائخ کے سامنے جائیں تو دل پہ قابو رکھنا چاہیے، لیکن کچھ خیالات ایسے ہوتے ہیں کہ نا چاہتے ہوئے بھی آ جاتے ہیں، بندہ چاہتا ہے کہ یہ نہ آئیں، لیکن خود بخود آ جاتے ہیں جیسے وسوسہ، تو پھر اس صورتحال میں کیا کریں؟

جواب:

وسوسوں کے بارے میں مشائخ بھی یہی بتاتے ہیں کہ ان کی پرواہ نہ کرو، وسوسہ وہ ہوتا ہے جس پر آپ کا اختیار نہ ہو۔ مثال کے طور پر ایک تو وسوسہ ہے کہ فلاں ایسا ہے، فلاں ایسا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ میں کسی دنیا کے کام کی وجہ سے کسی شیخ کی مجلس میں بیٹھا ہوں اور میں نے صورت ایسی بنائی ہو جیسے میں دین کے لیے آیا ہوں تو بزرگوں سے تو یہ چیز نہیں چھپے گی، اگر اللہ تعالی نے ان کو استعمال کرنا ہے تو وہ ان کے اوپر کھول دے گا، اس چیز سے ڈرایا گیا ہے کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ نہ کرو، آپ کا کوئی دنیا کا معاملہ ہے اور آپ نے صورت بنائی ہوئی ہے دین کی بات کی تو یہ بات ان پر کھل جائے گی۔ لہٰذا اس طرح نہیں کرنا چاہیے اور بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں، ہمارے ساتھ تو کرتے ہیں، بعض دفعہ ٹیلی فون کر لیں گے، وہ آپ نے وظیفہ دیا تھا دو سال پہلے، میں آپ سے بیعت ہو گیا تھا تو وہ کیا تھا؟ میں کرنا چاہتا ہوں، درمیان میں سستی ہو گئی تھی تو وہ اب بتا دیجئے۔ تو میں وظیفہ بتا دیتا ہوں، جب وظیفہ بتا دیتا ہوں تو پھر وہ اصلی بات پر آتا ہے کہ آج کل کاروبار میں بڑا مسئلہ ہو گیا ہے، تو آپ دعا کر لیں کہ ہمارا کاروبار ٹھیک چلے۔ چونکہ میرے بارے میں مشہور ہو گیا ہے کہ ذرا ان چیزوں پر تھوڑی سی ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے، تو لوگوں نے پھر technique سیکھ لی ہیں۔ اب بتاؤ کہ یہ صورت حال اچھی ہے؟ ظاہر ہے اس سے نقصان ہو جاتا ہے اور شیخ کے اوپر بات کھل جائے گی تو بجائے فائدہ کے نقصان ہو جائے گا۔ شیخ کے ساتھ معاملہ تو خیر ہے ہی، باقی بزرگوں کے ساتھ معاملے میں یہ لائن clear رکھو، یہ معاملہ ان کے ساتھ نہ کرو! اللہ تعالی ان کے اوپر بات کھول دیتے ہیں۔ یہ وسوسے کی بات نہیں ہے، وسوسے تو پتا نہیں کیا کیا آتے ہیں، کفر کے وسوسے بھی اگر آ جائیں تو ان سے کچھ نہیں ہوتا، وسوسوں کا مسئلہ نہیں، کیونکہ وسوسہ انسان کا فعل نہیں ہے، وہ شیطان کا فعل ہے اور شیطان اس کا جواب دے گا، انسان اس کا مکلف نہیں ہے۔


سوال کرنا جرم نہیں ہے، سمجھنے کے لحاظ سے کرنا اچھی بات ہے، دیکھیں! یہاں پر بھی ہمیں پتا ہے کہ میں جواب نہیں دے رہا لہذا مجھے کوئی پرواہ نہیں حالانکہ واقعی instantly سوالوں کے جوابات دینا کوئی آسان بات نہیں ہوتی، بڑے بڑے لوگوں کو گھبراہٹ ہوتی ہے، لیکن الحمد اللہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ہم نہیں دے رہے۔ الفریڈ جو ہمارے جرمن دوست تھے اسلام پر لیکچر دیا کرتے تھے، ایک دفعہ میں نے ان سے کہا:

?I will prepare for it کہتے ہیں، no میں نے کہا ?why کہتے ہیں:

Allah will send right word at the right time or send right silence at the right time

یعنی اللہ تعالیٰ یا صحیح الفاظ بھیج دے گا یا صحیح خاموشی بھیج دے گا چونکہ اللہ کی طرف سے نظام ہے تو اس وجہ سے اللہ پاک چلا رہے ہیں، وہ اپنے نظام کی لاج رکھتے ہیں۔

سوال 05:

کافی پہلے کی بات ہے ایک بیان میں آپ نے کہا تھا کہ کسی کے سامنے یا لوگوں کے سامنے اس طرح سے ذکر وغیرہ نہیں کرنا چاہیے کہ لوگ بزرگ سمجھیں، اگر دل میں ریا وغیرہ نہ ہو اور دل صاف ہو تو اس سے کیا نقصان ہے؟

جواب:

بالکل یہ بات صحیح ہے۔ natural انداز میں کوئی ذکر کر لے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن بعض بزرگوں کا معروف انداز ہوتا ہے تو اس انداز کو اگر کوئی pose کرنا شروع کر دے تو اس کی ممانعت ہے۔ لوگوں میں بعض ذکر پسند کیا جاتا ہے، جو لاؤڈ سپیکروں پر ذکر ہوتے ہیں تو ان میں پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح ذکر کیا جائے جس طرح لوگ پسند کرتے ہیں تو وہ دنیا کی بات ہو گئی، دین کی بات نہیں ہوئی، اس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ ذکر سے منع کیا گیا ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ بے شک لوگوں کے سامنے کھل کر کریں، ہمیں لوگ کیا دیں گے؟ یا لوگ ہم سے کیا لیں گے؟ اس سے تو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ذرا بھر بھی ہمارے اندر یہ بات نہ ہو کہ ہم کسی ایسے طریقے سے ذکر کریں جو ہمارا natural style نہیں ہے بلکہ کسی demanding style کے مطابق کرنا شروع کر دیں، یہ ٹھیک نہیں ہے، اس سے نقصان ہوتا ہے۔

سائل: اگر لوگ دیکھ رہے ہوں، مسجد میں بھی۔

حضرت: کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں جو بھی ذکر دیتا ہوں تو بتاتا ہوں کہ کوئی پرواہ نہ کریں، بس جس جگہ پر بھی موقع ملے کر لیں، ہاں البتہ بعض دفعہ اگر tension بنتی ہو اور اس سے خواہ مخواہ کی ایک بات بنتی ہو، اس سے اپنے آپ کو بچائیں، کیونکہ وہ فتنے میں پڑنے والی بات ہے۔ پھر وہ علیحدہ جگہ پر کر لیا کریں، لیکن اگر ایسا نہیں ہے لوگ مخالف نہیں ہیں صرف لوگ دیکھ رہے ہیں تو پھر پروا نہیں کرنا چاہیے۔

سوال06:

حضرت پوچھنا یہ ہے کہ جب آدمی کے دل میں ریاکاری وغیرہ آ بھی رہی ہو، اگر وہ دعوت کے کام میں منسلک ہے تو دعوت کا کام چھوڑ دے یا پھر کرتا رہے؟

جواب:

خیالات آ رہے ہیں آپ نے کہا ہے، یہ صیغہ ہے وسوسوں کا۔ خیالات لائے جا رہے ہیں یہ صیغہ ہے غلط خیالات کا۔ مطلب یہ ہے کہ خود اپنی مرضی سے۔ جو اپنے آپ کو بزرگ نہیں کہتا دنیا بھر کے لوگ اس کو بزرگ کہیں تو کوئی نقصان نہیں ہے، جو اپنے آپ کو بزرگ کہتا ہے سارے لوگ اس کو زندیق کہیں اس کو نقصان ہو گا، کیونکہ یہی تو دعا ہے "اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیٌرًا" ”یا اللہ مجھے اپنی نگاہوں میں چھوٹا کر دے“۔ دعوت کے کام پر بھی ممانعت نہیں ہے دعوت تو ہمارا طریقہ ہے، اب یہ میں دعوت دے رہا ہوں یا نہیں دے رہا؟ دعوت ہی ہے۔ تو کیا خیال ہے میں اس وجہ سے رک جاؤں؟ نہیں! دعوت تو دینی ہے، موذن بھی دعوت دیتا ہے، مجاہد بھی دعوت دیتا ہے، علماء بھی دعوت دیتے ہیں، مشائخ بھی دعوت دیتے ہیں اور حضرات بھی دعوت دیتے ہیں، دعوت کی ممانعت نہیں ہے، ممانعت یہ ہے کہ کسی چیز کا دعوی کرنا کہ میں بزرگ ہوں، دعوی کی ممانعت ہے، دعوت کی ممانعت نہیں ہے۔

مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا تھا کہ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف: 2) ”اس بات کو کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو“ تو اگر ہم خود ایسے نہیں ہیں تو دعوت کس طرح دیں گے۔ فرمایا: اس میں دعوت سے انکار نہیں ہے، اس میں دعوی سے انکار ہے یعنی تم اپنے بارے میں جو position claim کر رہے ہو، اگر اس طرح نہیں ہو تو پھر کیوں claim کرتے ہو۔

اس وقت ہماری تبلیغی جماعت میں جو حضرات ہیں جن کا تعلق کسی شیخ کے ساتھ ہے، اور وہ اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ یقین جانیں یہ تبلیغی جماعت ہی ان کی اصلاح کروا رہی ہے، اگر کسی شیخ کے ساتھ تعلق ہے، کیونکہ سلسلہ میں آنے کے بعد اللہ تعالی کا اصلاح کا غیبی نظام ان کے ساتھ ہو جاتا ہے، لہذا وہ پتھر سے بھی اصلاح کروا لیں گے، درختوں سے بھی اصلاح کروا لیں گے، کتابوں سے بھی اصلاح کروا لیں گے، لوگوں سے بھی کروا دیں گے، یعنی لوگ ان کو تکلیف دیں گے تو اس سے ان کی اصلاح ہو گی۔ لیکن اگر کسی اصلاحی نظام کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں پھر ان کے اندر عجب آئے گا جتنے جتنے لوگ ان کے راستہ سے دین پر آئیں گے وہ کہیں گا کہ دیکھو! میری وجہ سے اتنے لوگ لگ گیے، یہ عجب ہے، پہلے نزول کو لانا ہوتا ہے اور نزول اصلاح سے آتا ہے، ورنہ یہ ساری عجب کی لائن ہے، جیسے میری بات سن رہے ہیں لوگ، میری کتابیں آ رہی ہیں اور لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں، یہ ساری عجب کی لائن ہے۔ اب اگر وہ چیزیں انسان کے اوپر نہ کھلی ہوں تو یہ عجب کے ذرائع ہیں۔ یہ وہی بات ہے، جو بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے اس دور کے کسی صاحب نے پوچھا تھا کہ حضرت آپ بھی وہی اعمال کر رہے ہیں جو ہم کر رہے ہیں کوئی فرق نہیں ہیں، لیکن آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں کیا وجہ ہے؟ تو حضرت نے فرمایا کہ تمہارا سارا کچھ تمہارا نفس کھا جاتا ہے، جو تم اعمال کرتے ہو وہ تمہارا نفس کھا جاتا ہے۔ مثلاً یہ جو میں اعمال کر رہا ہوں اس پر مجھے عجب ہو رہا ہو تو میرے نفس نے کھا لیا۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو بھیڑیوں کو اگر بکریوں میں چھوڑ دیا جاۓ تو وہ اتنا فساد نہیں کرتے جتنا کہ یہ حجاب نفس ہے اور یہ حب مال جو نقصان کرتے ہیں۔ ان کو نکالنے کے بعد اگر آپ یہ کام کریں گے تو پھر تو اصل بات یہی ہے کہ دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن اگر صرف یہ طرف رہے تو اس کے اندر پھر واقعتاً حجاب نفس بہت زیادہ ہے، سب سے خطرناک بات اس کے اندر یہ ہے کہ چونکہ دین کا کام ہے، دین کا کام لوگ بھی سمجھتے ہیں وہ خود بھی سمجھتا ہے، بلکہ بعض لوگ تو صرف اسی کو دین کا کام سمجھتے ہیں کسی اور کام کو دین کا کام سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ اب یہ جو دین کا کام کر رہا ہے اور باقی لوگ اس کو دین کا کام کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے تو تکبر آ جائے گا۔ تو تکبر آئے، عجب آئے، مجھے بتاؤ وہ کیا کرے گا؟ مسائل ہوں گے۔ تو اگر کسی شیخ کے ساتھ اصلاحی سلسلہ ہوتا ہے تو ایک تو ان کو اطلاع کر رہا ہوتا ہے، وہ ساتھ ساتھ علاج کر رہے ہوتے ہیں، دوسرا اللہ کا غیبی نظام بھی سلسلہ کی برکت سے ہو جاتا ہے۔ مجھے خود اس کا تجربہ ہے دو سال جو میں نے جرمنی میں گزارے میرا شیخ کے ساتھ ٹیلی فون کا اور خط کا رابطہ اتنا نہیں تھا، جتنا اللہ پاک مجھے دکھا رہے تھے کہ کیسے حفاظت ہو رہی تھی اور کس طریقے سے اللہ تعالی اس سلسلے کی برکات سے نواز رہے تھے، اس وقت پتہ چل رہا تھا۔

تو یہ اس وجہ سے میں عرض کر رہا ہوں کہ اگر کسی کا اصلاحی لائن کے ساتھ تعلق ہو تو تبلیغ میں خوب جائے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، حفاظت ہو جائے گی، حفاظت کا سلسلہ ایک دفعہ کروا دو، پھر چلتے رہو، پھر کس نے روکا ہے۔ صرف مسئلہ یہ ہے کہ شیطان نے نظام بنایا ہوا ہے کہ چونکہ ان کی بچت اس پر ہے تو اسی چیز کے مخالف بناتا ہے کہ یہ نہیں ہونی چاہیے، ساری دنیا کے کام ہوں لیکن یہ نہ ہو، تو یہ سارے مسائل ہیں جس کی وجہ سے اور مسائل آرہے ہیں۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ جماعت کام کرنے کا بہت بڑا پلیٹ فارم ہے، لیکن اس پہ working line بہت clear ہونی چاہیے۔