سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 207

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی ، پاکستان











اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ

فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال 01:

Respected and honourable Sheikh! Assalam o Alaikum. Hazrat Ji I want to collect all letters and emails along with your replies in my diary, want your kind permission for barka. Hazrat Ji if any mamool can’t be done on that day is it possible to do that next day before zawal? Alhamdulillah offering six days qaza-e-umri per day and offering nafal namaz only two rakat each as per your advice. Guide me kindly what to do with salat tasbeeh?

محتاج دعا۔

جواب:

سوال کیا گیا ہے کہ کیا میں آپ کے خطوط اور emails کو کسی ڈائری میں جمع کر سکتا ہوں؟

جی بالکل اس کی اجازت ہے، یہ مستحسن ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے جو جوابات دیے جاتے ہیں بعد میں بھی کام آتے ہیں۔ ملتی جلتی صورت اگر کوئی آ جائے تو اس میں انسان دیکھ لیتا ہے کہ مجھے اس سلسلے میں کیا جواب دیا گیا تھا، لہٰذا ایسا کیا جا سکتا ہے۔

سوال 02:

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی معمول کسی دن رہ جائے تو کیا اس کو اگلے دن صبح زوال سے پہلے پہلے کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

کوئی معمول عشاء کے بعد کا ہو، اگر وہ رہ جائے تو اس کو اگلے دن صبح زوال سے پہلے پہلے کرنا چاہیے، لیکن وہ اتنا مؤثر نہیں ہو گا جتنا اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ باالفاظ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں که گزارے والی بات ہے، گزارے کے لحاظ سے تو قابل قبول ہے، لیکن اپنے وقت پہ کرلے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح کرنے سے بے برکتی ہوتی ہے اور اگر زیادہ وقفہ ڈالا جائے تو پھر بے برکتی بڑھ کے تعطل تک بات پہنچ سکتی ہے۔ اس وجہ سے اس سے اجتناب کیا جائے تو اچھی بات ہے، اور ناغہ نہ کیا جائے۔

سوال 03:

روزانہ چھ قضاء نمازیں پڑھنی پڑھتی ہیں، پانچ نمازیں، اور تین وتر۔

جواب:

جن کے ذمے قضاء نمازیں ہوں ان کے لیے مستحسن یہی بتایا جاتا ہے کہ وہ نفلوں کی جگہ قضاء نماز ہر نماز کے ساتھ پڑھیں۔ لیکن بالکل نوافل چھوڑنے سے شیطان انسان کو یہ دکھاتا ہے کہ وہ تو بعد میں بھی پڑھ سکتے ہیں، اس وقت پڑھنا ضروری تو نہیں؟ اور آہستہ آہستہ اس کو دوبارہ چھڑا دیتا ہے۔ اس وجہ سے ہم وقت کے اندر دو رکعت صلوۃ نفل پڑھنے کا کہتے ہیں جیسے اوابین اور تہجد ہے۔ ان کے پڑھنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ کم از کم اس سے دل لگا رہے گا اور اس کا موقع مل جائے گا۔ لہذا ایک انتظامی امر ہے اور یہ اچھی بات ہے۔

سوال 04:

السلام علیکم ورحمۃ‌ اللہ وبرکاتہ

حضرت جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ صبح کے وقت اچھی اچھی نیتیں کرنی چاہئے اور رات کو سونے سے پہلے صلوٰۃ التوبہ پڑھنا چاہئے تو اس کے لئے میں نے ایک چارٹ مرتب کیا ہے. اس کو دیکھ لیں اگر مفید رہا تو ساتھیوں کو بھی یہ دیا جا سکتا ہے.والسلام


جواب 04:

بہت مبارک چیز ہے، چونکہ میں نے کسی بیان میں کہا تھا که صبح کے وقت اچھی نیتیں کرنی چاہئیں، اٹھتے وقت اور رات کو سونے سے پہلے دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھنا چاہیے۔ صلوۃ التوبہ سے گناہ معاف ہوں گے اور اچھی نیتوں سے یہ ہو گا کہ موقع مل گیا اور توفیق ہو گئی تو دس گنا اجر ہو گا۔ ورنہ نیت کی برکت سے ایک گنا اجر مل ہی جائے گا۔ الحمد اللہ اس کو بعض لوگوں نے لیا ہے اور اس طرح کرتے ہیں۔

انہوں نے ایک چارٹ بنایا ہے اور propose کیا ہے کہ اگر ساتھیوں کو دے دیا جائے تو مفید رہے کیوں کہ صبح کی اٹھنے کی نیت ہے، رات کو صلوۃ التوبہ ہے، جیسے ہمارا معمولات کا چارٹ ہوتا ہے۔ اس سے یہ ہو گا کہ انسان کو خیال رہے گا کہ میں نے کیا ہے یا نہیں؟ اور اپنے شیخ کو بھیجا بھی جا سکے گا۔ ماشاء اللہ اچھی کوشش ہے، اللہ تعالیٰ ساتھیوں کو اس پر عمل کی توفیق دے۔ اس چارٹ کو نمونے کے طور پہ نکال بھی دیں گے، جیسا کہ انہوں نے کیا ہے۔

سوال 05:

ایک خاتون کا ای میل آیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جو دھرنے ورنے ہو رہے تھے تو بہت سارے لوگوں کو خبروں کا شوق ہو گیا تھا۔ ان خاتون کی والدہ کو بھی شوق ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنی والدہ کے لیے ٹی وی تو نہیں، البتہ کمپیوٹر پہ خبروں کو دکھانا شروع کر دیا جس کی وجہ سے وہ غیر شرعی چیزوں میں involve ہو گئیں۔ پہلے صرف آواز تھی تو videos تک بات چلی گئی۔ وہ خاتون بہت پریشان تھی کہ میری وجہ سے یہ سب کچھ ہو گیا اور کافی guilty محسوس کر رہی تھی، اسی کے بارے میں ای میل ہے۔

حضرت جی!

It was not possible for me to reactivate the internet connection. But Alhamdulilah I offered salat hajat for the solution of the problem. Alhamdulilah, the next day, laptop charger got damaged for more than forty days. We have neither bought a charger nor watched Geo News. It's only due to your dua and barka. All praise and thanks to Allah subhan watalah.

جواب:

جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالی ان کا ساتھ دیتے ہیں، یہ اللہ تعالی کا فضل ہوتا ہے۔ یہ کوشش کر رہی تھی کہ میں اس کو deactivate کر دوں، یہ مجھ سے نہیں ہوا تو پھر میں نے دعا کی، دعا کی برکت سے الحمد للہ اللہ تعالی کی طرف سے ایسا ہوا کہ وہ لیپ ٹاپ ہی damage ہو گیا، نتیجتاً اس چیز سے اللہ تعالی نے حفاظت فرمائی۔ اس سے پتا چلا کہ ہمیں دعا بھی کرنی چاہیے اور جتنا نقصان ان کو نظر آیا تو پہلے سے ان چیزوں سے حفاظت ہو تو بہت زیادہ بہتر ہے، بلکہ ان چیزوں پر جائے ہی نہیں۔ ہمارے سلسلے کے ساتھ اللہ تعالی کی بہت بڑی مدد ہے، اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ تو الحمد للہ جو بعد میں ہونا ہوتا ہے وہ دکھا دیا جاتا ہے۔ ٹی وی کے بارے میں بھی آپ لوگوں کو پتہ ہو گا کہ اللہ تعالی نے چیز دکھا دی تھی، ابھی بھی ماشاء اللہ اس کے بارے میں کافی چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ اسی طرح جو نقصان، گناہ اور غلطیاں ہوتی ہیں، ان کے بارے میں بھی ساتھیوں کو بتا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بات طریقے سے سمجھ میں آ جاتی ہے تو یہ اللہ تعالی کا شکر ہے۔ اللہ تعالی مدد فرما رہے ہیں، اللہ تعالی اس مدد کو جاری رکھیں۔

سوال 06:

السلام علیکم حضرت جی مجھے ہر وقت دل میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں کوئی غلطی کر رہا ہوں۔ کچھ دیر کے لیے دنیاوی کاموں میں گم ہو جاتا ہوں۔ لیکن جب قبر یاد آتی ہے تو کئے ہوئے گناہ سامنے آتے ہیں اور محسوس کرتا ہوں کہ میری معافی نہیں ہوئی۔ ڈر لگتا ہے کہ میرے بار بار کئے ہوئے گناہ پہ اللہ تعالیٰ معاف کریں گے یا نہیں۔

جواب:

ہر چیز کی اپنی ایک حد ہوتی ہے۔ خوف کی بھی ایک حد ہے، امید کی بھی ایک حد ہے۔ اتنی امید بھی نہیں ہونی چاہیے کہ آدمی اتنا بے خوف ہو جائے که اس کو کوئی پرواہ ہی نہ رہے اور اتنا خوف نہیں ہونا چاہیے کہ امید قطع اور ختم ہو جائے بلکہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ ہوں۔ لہذا خوف اتنا ہونا چاہیے کہ گناہ کرے ہی نہ اور امید اتنی ہونی چاہیے کہ میں توبہ کر لوں گا تو گناہ معاف ہو جائے گا۔ لہذا توبہ میں دیر نہیں کرنی چاہیے، گزشتہ گناہوں سے تو توبہ فوراً کرنی چاہیے، اور آئندہ اس ڈر کی وجہ سے گناہوں سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالی سے نا امید نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالی معاف فرماتے ہیں ﴿لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللہِ إِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا﴾ (الزمر:53) لہٰذا جب بھی اپنے گناہ یاد آئیں، فوراً سے توبہ کر لیا کریں، اور بہتر یہ ہے کہ دو رکعت صلاۃ التوبہ پڑھ لیا کریں، اس سے شیطان گناہوں سے خود ہی بچانے کی فکر کرنا شروع کر دے گا۔

سوال 07:

محمد احمد شاہ نے حضرت کی خدمت میں انبیاء کرام علیہم السلام کا شجرہ بھیجا ہے۔


جواب:

جزاکم اللہ ٹھیک ہے، شجرہ قبول ہے۔ البتہ انبیاء کرام کا جو شجرہ ہے وہ بظاہر اتنا زیادہ مستند نہیں لگتا۔ اس کے بارے میں ہم کچھ کہ نہیں سکتے، "لَا نُصَدِّقُ وَلَا نُکَذِّبُ" ”نہ ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ اس کی تکذیب کرتے ہیں“۔

سوال 08:

مولانا رومؒ کے لیے طریقہ جذب اللہ پاک نے منتخب فرمایا۔ کیا کوئی شخص اپنے لیے خود کوئی طریقہ منتخب کر سکتا ہے؟

جواب:

شیخ کے بغیر طریقِ جذب ممکن نہیں، کیونکہ یہ تو jump لگانا ہے اور اگر شیخ نہ ہو تو اپنا سر پھاڑ دو گے۔ مثلاً کسی جگہ جمپ لگانا ہو تو جگہ معلوم ہونی چاہیے۔ لہٰذا شیخ کے بغیر طریقِ جذب ممکن نہیں، پر خطرہ ہے۔ اور سلوک میں تین طریقے بتائے جاتے ہیں، اخیار کا، ابرار کا اور شطاریہ کا۔ شطاریہ کا طریقہ، طریقۂ جذب ہے۔ اور طریقۂ ابرار کو عرف عام میں سلوک کہتے ہیں۔ اور اخیار کا بھی طریقہ سلوک ہے، لیکن شیخ اس میں نہیں ہوتا، اس میں انسان کے اوپر بوجھ زیادہ آتا ہے، کیونکہ سب ذمہ داری اپنے اوپر ہوتی ہے، اور ہر وقت ہمت رکھنی پڑتی ہے، تجربہ بھی نہیں ہوتا، لہٰذا اپنا نقصان بھی کر سکتا ہے، زیادہ تر لوگوں کا طریقہ یہی ہے۔ لیکن اس میں فائدہ کم ہوتا ہے بنسبت ابرار کے طریقہ کے۔ کیوں کہ اس میں شیخ کا تجربہ اور برکت شامل ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ سلوک کا نسبتاً ان سے اچھا اور تیز طریقہ ہے۔ اور شطاریہ کا طریقہ بھی جذب کے ساتھ مل جاتا ہے۔

اب اگر شیخ کو منتخب کر لیا اور شیخ نے آپ کے لیے طریقۂ جذب منتخب کر لیا تو ٹھیک ہے۔ لیکن خود انسان کو کم از کم کوئی شیخ منتخب کرنا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے۔

سوال 09:

کل کے مثنوی کے درس میں بات ہوئی کہ روحانی طاقت اللہ تعالی جس کو جتنی عطا فرما دے تو اس کے استعمال کرنے کے لیے ہمت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ بعض لوگ اس ہمت کو استعمال کر لیتے ہیں اور بعض لوگ اس ہمت کو برداشت نہیں کر سکتے، اس کی تھوڑی سی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

اصل میں اللہ جل شانہ بعض دفعہ صلاحیتیں نصیب فرما دیتے ہیں، لیکن ان صلاحیتوں کا استعمال لوگ چونکہ جانتے نہیں ہیں، اس وجہ سے بعض دفعہ انسان اس کو پورے طور پر استعمال نہیں کر سکتا۔ شیخ تو ہوتا ہی اس لیے ہے که ان کی صلاحیتوں کو discover کر کے ان کو اس طریقہ پر لے آئے۔ اگر شیخ ہو تو پھر محفوظ ہے۔ البتہ اگر اللہ تعالی اپنے کرم سے کسی کو خاص چیز عنایت فرما دے، اور اکثر ایسی چیزیں مشائخ کو ملتی ہیں، تو اللہ تعالی طریقہ بھی سکھا دیتے ہیں کہ اس کو کیسے استعمال کرنا ہے۔

سوال 10:

شیخ کو اپنے مسائل پیش کیے بغیر بھی انسان کی ترقی ہو سکتی ہے؟ شیخ کو میں اپنا مسئلہ نہ پیش کروں اور پھر بھی کچھ نہ کچھ تربیت ہوتی رہے؟

جواب:

اس میں یہ طریقہ ہو سکتا ہے کہ انسان شیخ کے بہت قریب ہو اور اس کے حالات شیخ کے سامنے ہوں۔ بعض دفعہ مرید کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے، اور شیخ کو پتہ چل جاتا ہے، جب شیخ کے ساتھ اس کی کافی interaction ہوتی ہے۔ جیسے کسی ڈاکٹر کے ساتھ آپ کا رابطہ ہے اور آپ weekly ,weekly اس کے پاس visit کرتے رہتے ہیں، تو آپ کے بارے میں وہ جانتا رہتا ہے، جانتا رہتا ہے، حتی کہ اتنا جان لیتا ہے کہ بعد میں آپ اس کے سامنے جیسے ہی آتے ہیں، تو وہ read کر لیتا ہے کہ آپ کو کتنا فائدہ یا کتنا نقصان ہوا، کوئی مسئلہ ہو تو فوراً اس کو اطلاع ہو جاتی ہے۔

ایک دفعہ مجھے رائیونڈ میں بہت سخت زکام ہو گیا تھا۔ وہاں ڈاکٹر اسلم صاحب ہوتے تھے، کسی نے مجھے کہا ان کے پاس علاج کے لیے جاؤ۔ جب میں وہاں گیا تو وہ اپنی کوٹھری میں کچھ دوائیاں ڈھونڈ رہے تھے۔ میں نے کہا السلام علیکم جی مجھے زکام ہے۔ کہتے ہیں: آپ ہی کے لیے دوائی نکال رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے دیکھا کہ اتنا تیز زکام تھا کہ وہ مسلسل بہہ رہا تھا کہ کسی بتانے والے کے بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ انہوں نے مجھے بہت ساری گولیاں دے دیں۔ اور کہا: یہ آپ کھا لیں۔ میں نے پوچھا که پرہیز کیا ہے؟ کھاؤں کس چیز سے؟ انہوں نے کہا که دہی کھا لو بہت اچھا ہے، دہی مجھے پسند بھی بہت ہے۔ میں نے سوچا سبحان اللہ یہ تو بڑی عیش ہو گئی۔ بازار سے میں نے آدھا کلو دہی لے لیا۔ ان کی دوائی میں نے کھا لی تھی اور پھر دہی بھی کھا لیا۔ تو زکام ایک ڈیڈھ دن میں ختم ہو گیا۔

تو بعض دفعہ اس قسم کی evident چیز ہو یا آپ کے contact کی وجہ سے وہ چیز اتنی ظاہر ہو کہ ہر ایک کو نظر آتی ہو تو اس سلسلے میں اس سے مدد مل سکتی ہے۔ لیکن عموماً ڈاکٹر کو پتہ چل بھی جائے، تو مریض کی خواہش ہوتی ہے کہ میں بتاؤں، بعض دفعہ ڈاکٹر روک بھی دیتا ہے کہ بس مجھے پتا ہے، تم چپ ہو جاؤ۔ وہ دوائی لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اور مریض کی پھر بھی تسلی نہیں ہوتی، کہتا ہے: دوربین لگا کے آپ دیکھیں، اس طرح ہوتا ہے۔ لیکن مشائخ کے ساتھ ایسا نہیں کرتے، کہتے ہیں خود ہی سب کچھ کر لیں۔ اسی دو رنگی چال کے بارے میں اکثر مقامات پر لوگوں کو بتاتا رہتا ہوں کہ دنیاوی چیزوں میں سوچ الگ ہوتی ہے، دینی چیزوں میں سوچ الگ ہوتی ہے۔ دینی چیزوں میں یہ ہوتا ہے کہ بس خود بخود سب کچھ ہو جائے، اور دنیاوی چیزوں میں یہ ہوتا ہے کہ جب تک انسان کو پوری تسلی نہ ہو تو اس وقت تک وہ کوشش کرتا رہتا ہے۔

سوال 11:

حضرت مسجدوں میں اکثر مسنون دعائیں آویزاں ہوتیں ہیں تو اس کے لیے کیا شیخ سے رہنمائی لینی ہوتی ہے یا اجازت لینی ہوتی ہے یا ویسے بھی پڑھ سکتے ہیں؟

جواب:

کر سکتے ہیں، لیکن حدیث شریف میں آتا ہے کہ دین تمہیں تھکا دے گا، تم دین کو نہیں تھکا سکو گے، اس لیے قریب رہو، خوشخبری حاصل کرو۔ مطلب یہ ہے کہ فضائل بہت ساری چیزوں کے ہیں۔ آپ مسنون دعاؤں کی کتاب لے لیں اس میں ہر ہر دعا کی فضیلت لکھی ہو گی تو کیا آپ ساری مسنون دعائیں روزانہ پڑھ سکتے ہیں؟ مشکل ہوتا ہے، آپ کو select کرنا پڑے گا، کچھ لینا پڑے گا اور کچھ چھوڑنا پڑے گا۔

ایک انسان کی اپنی selection ہے اور ایک ذرا اچھے تجربہ کار آدمی کی selection ہے، جس کو بہت ساری چیزوں کا پتہ ہو اور اس کو آپ کا بھی پتہ ہو کہ آپ کے لیے کون سا suitable ہے، تو فائدہ اسی میں ہوتا ہے کہ کسی سے انسان اپنے لیے منتخب کروائے۔ دوسرا بڑا فائدہ (جو مجھے ملا ہے وَاللہُ اَعْلَمْ، میں سب کو justify کر سکوں گا یا نہیں، لیکن میرا جو تجربہ ہے وہ بتا دیتا ہوں) کہ جو چیزیں مولانا صاحب دے دیتے تھے ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق ہو جاتی تھی اور جو چیزیں ہم خود کہیں سے لے لیتے تھے تو وہ رہ جایا کرتی تھیں، کبھی کبھی آگے پیچھے ہو جاتی تھیں۔ مشائخ کے ساتھ اللہ تعالی نے برکت رکھی ہوتی ہے، تو میں یہ suggest کروں گا کہ ایسی چیزیں اگرچہ خود بھی انسان منتخب کر سکتا ہے، لیکن بہتر اس میں بھی یہی ہے کہ کسی سے کروائے۔ ایک تو اپنے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈالا جائے، جو بعد میں برداشت نہ ہو سکے اور دوسری بات یہ ہے کہ چننا ہی ہے تو کسی ماہر سے چنوایا جائے، کیونکہ انسان سارا نہیں کر سکتا۔

سوال 12:

کوئی شخص اگر شیخ کا کوئی کام خراب کر دے تو اس صورت میں وہ شیخ کا سامنا نہیں کر سکتا اور اپنے احوال بھی نہیں بتا سکتا اور شیطان بھی اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

یہ جو آخری بات ہے کہ شیطان اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے یہ بالکل understood ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ باقی میں ایسی چیزوں کو عموماً دنیاوی terminology میں translate کرتا ہوں، کیونکہ دنیاوی terminology انسان کو آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے، تجربہ ہوتا ہے، ہر ایک کے سامنے ہوتا ہے۔

اگر انسان کا کسی کے ساتھ کوئی ایسا کام ہو کہ جو اس کے علاوہ کسی اور کے ساتھ نہ ہوتا ہو، اور اس کے ساتھ اس کا بہت بڑا فائدہ attached ہو اور اس کے ناراض ہونے سے بہت بڑا نقصان ہوتا ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو تو اس وقت وہ کیا کرے گا؟ very simple یہی چیز ہوتی ہے۔ دنیا میں یہی ہوتا ہے، جیسے bosses کے ساتھ لوگ کرتے ہیں، کاروبار میں بھی یہ چلتا ہے۔ وہاں تو ادھر ادھر جانے کا چانس بھی ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں اور معاملہ آ رہا ہے، کیوں کہ اللہ تعالی کے سامنے سب کچھ ہوتا ہے۔ وہاں انسان اتنی احتیاط بھی کرتا ہے، لیکن پھر معافی مانگنے میں دیر نہیں لگاتا۔

تو یہ ساری چیزیں سمجھ میں آنے والی ہیں کہ انسان ایک تو گزشتہ پر معافی مانگے اور اس چیز کو trace کرے کہ ایسا ہوا کیوں ہے؟ اس کو دور کرے کیونکہ کسی وجہ سے غلطی ہوتی ہے، اگر صرف غلطی کو غلطی کہا جائے تو میرے خیال میں صرف ایک part complete ہو گا، لیکن غلطی کا reason معلوم کر لیں کہ reason کیا ہے؟ تو یہ دوسرا part ہے۔ تیسرا part یہ ہے کہ اس کی بیخ کنی کی جائے اور پھر ایسا نہ ہونے دیا جائے، پھر انسان بچ سکتا ہے۔ اگر سرسری طور پر معافی مانگے گا تو پھر وہی غلطی ہو گی، کیونکہ شیطان اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دے گا که دوبارہ معافی مانگ لوں گا، تو معافی کے ساتھ resistant کر لے گا، اور اس کو معافی منگوانے پہ لگا دے گا۔

معافی مانگنا تو بہت آسان کام ہے اور کام کو ٹھیک کرنا مشکل ہے۔ تو کیا معافی ہی مانگتا رہے گا؟ حالانکہ اس کو چاہیے که جس reason سے ہوا ہے اس کو تلاش کرے، آیا کسی چیز کی misunderstanding تھی یا کسی چیز کا نہ جاننا تھا یا کسی چیز کے بارے میں misguided تھا یا اپنے نفس کا کوئی جال تھا یا کوئی اور بات تھی۔ اس طریقے سے کام چل سکتا ہے۔

اور جب شیخ کے ساتھ معاملہ ہو تو پھر بہت clear انداز میں ان کے سامنے سارے facts and figures رکھ دے، انہی پر فیصلہ چھوڑ دے کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ معافی تو بہرصورت مانگ لے۔ اس سے یہ discover ہو جائے گا کہ کیا چیز ہے۔ کیونکہ شیخ کس لیے ہوتا ہے؟ خود بھی انسان تلاش کر کے بتا دے کہ میرے خیال میں یہ مسءلہ ہے۔ اور پھر شیخ پر چھوڑ دے وہ بتا دے گا کہ اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے، اس سے پھر کام بن جائے گا۔ اور ماشاءاللہ فائدہ ہو جاتا ہے۔ بہرحال اس مسئلے میں شیطان کو موقع نہیں دینا چاہیے کیونکہ شیطان تو موقع دیکھتا ہے، ایسے موقع سے وہ ضرور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اللہ تعالی سے بھی معافی مانگے اور شیخ سے بھی معافی مانگے اور ساتھ اپنی ساری صورت حال بتا دے کہ اس وجہ سے ہوا تھا، آئندہ اس طرح نہیں ہو گا۔ تو اگر اس میں کوئی ammendment کی ضرورت ہو گی تو شیخ خود ہی کرلے گا۔