سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 206

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


01. Respected and honourable Sheikh, Aslam o Alaikum! Hazrat Ji, kindly explain how to take treatment of different razeelas (evil traits) one by one ? Should I take treatment of one razeela and start working on it? Then after islah, we should consult for the next razeela or we should take treatment of razeelas one by one and work simultaneously on each one?

یہ سوال پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں کہ مہربانی فرما کر یہ بتا دیں کہ کیا ہم ہر رذیلہ، جو نفس کے رزائل ہوتے ہیں، کا علاج ایک ایک کرکے کروائیں؟ یا ہم صرف ایک رذیلہ کا علاج کروائیں اور باقی سب کے اوپر کام جاری رکھیں؟

جواب: اس میں جاننے کی بات یہ ہے کہ سلوک، چونکہ باری باری تمام رذائل کی اصلاح کا نام ہے، لہذا اس میں ایک ایک کرکے اصلاح ہوتی ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ اپنے جتنے رذائل ہیں، وہ لکھ کر شیخ کو بتا دئیے جائیں اور پھر اس کی مرضی پہ چھوڑ دے کہ وہ کون سے رذیلہ کو پہلے لیتے ہیں، کس کو بعد میں اور کس طریقہ سے اس کی اصلاح کرواتے ہیں۔ مثلا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک رذیلہ پر کام کروائیں۔ باقی کے بارے میں ان کو کہیں کہ ان سے عمومی طور پر بچتے رہیں، لیکن اصلاح کا کام صرف ایک پر ہی ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی کے کان میں بھی تکلیف ہو، آنکھ اور پیر میں بھی تکلیف ہو تو ان کا سب کا علاج اگر ایک وقت میں ممکن نہ ہو، تو ایک ایک کر کے علاج کروایا جاتا ہے۔ لیکن دوسروں کو نقصان سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مزید بگڑیں نہیں۔ پس اسی طریقہ سے، اس میں بھی کوشش ہو سکتی ہے کہ ہر ایک کی الگ الگ اصلاح کرواتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک، اور باقی کے ساتھ عمومی معاملہ کرتے ہیں کہ وہ مزید بگڑیں نہیں۔ البتہ یہ ہے کہ اپنی باری پر ان کی بھی اصلاح ہوجاتی ہے۔

02. Hazrat Ji Alhamdulilah, these neyats (intentions) advised by you are conveyed to all who attend jore. walaikum salam! you can add the following two. I will perform muraqaba for islah with patience and determination. I will learn what is required. I will bear what is required and will donate what is required. I will stop what is required. I will try to get love from Allah jala shanahu and Prophet (s.a.w).


جواب: یہ کسی کی مجھے ای میل آئی تھی، جس میں انہوں نے کہا کہ آپ نیتوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ صبح اچھی اچھی نیتیں کر کے اٹھیں۔ میں یہ یہ نیتیں کرتا ہوں، تو مزید کیا کروں؟ پھر میں نے ان سے یہ کہا کہ آپ یہ نیت کریں کہ میں ذکر اذکار یا مراقبہ، باقاعدہ تصور اور determination کے ساتھ کروں گا اور جو جاننے کی بات ہو گی، وہ میں جانوں گا؛ یعنی علم حاصل کروں گا۔ جو عمل کرنے کی چیز ہو گی، اس پر عمل کروں گا۔ جس پر صبر کرنے کی ضرورت ہو گی، اس پر صبر کروں گا اور جب مال خرچ کرنے کی ضرورت ہو گی، تو خرچ کروں گا۔ جس کے روکنے کی ضرورت ہو گی، اس سے رکوں گا۔ اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو حاصل کروں گا۔ یہ نیتیں آپ ساتھ کر لیا کریں۔ ان شاءاللہ العزیز، ان نیتوں کا ثواب آپ کو مل جائے گا۔

سوال03- سعودی عرب سے ایک ای میل آئی ہے۔ صورتحال تو افسوس ناک ہے، لیکن بہرحال اس کا جواب دینا ضروری ہے۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی، مجھے تبلیغی جماعت کے اسی ساتھی نے موبائل پر ایک میسج بھیجا ہے۔ کہتے ہیں کہ پیر بننا بہت آسان ہے اور داعی بننا بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے بہت قربانی دینی پڑتی ہے۔ ابدال یا قطب بننا بہت آسان ہے، لیکن حاجی عبدالوہاب بننا بہت مشکل ہے۔ صحابہ، پیر یا مرید نہیں ہوتے تھے بلکہ سب کے سب داعی تھے۔ اپنی خانقاہوں میں نہیں بیٹھ گئے بلکہ اللہ کا دین پھیلانے پوری دنیا میں پھیل گئے تھے اور اپنی زندگیاں دے دیں۔ یہ آج امت کی ضرورت ہے۔ تبلیغ والے، چلتی پھرتی خانقاہ اور چلتا پھرتا مدرسہ ہے۔ اللہ ہمیں داعی بنا دے۔ آپ غصہ نہ کرنا، یہ میرے اکابر کا قول ہے۔ حضرت جی یہ اس کا میسج ہے۔ مجھے اس کو پڑھ کر بڑا غصہ آ گیا۔ میں نے اسے جواب میں میسج بھیجا کہ میرے شیخ بلکل اس بات سے متفق نہیں، اس لئے میں بھی متفق نہیں۔ میرے ساتھ آئندہ اس موضوع پر بات مت کرنا۔ مرید کا مطلب آپ کو پتہ ہے؟ آپ کی بات کا یہی مطلب ہے کہ صرف جماعت کے ساتھ لگ کر عالم بھی بن جاؤ گے اور اصلاح بھی ہو جائے گی۔ یہ بات جو بھی کہے گا، غلط کہے گا۔ خود مولانا الیاسؒ، حضرت گنگوہیؒ سے بیعت تھے اور مولانا زکریا صاحبؒ کے بھی پیر کا آپ کو پتہ ہے۔ یہ سب لوگ خانقاہ میں وقت کیوں گزارتے تھے؟ جیسے آپ تنگ نظری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، حضرت شاہ صاحب اس کے خلاف ہیں۔ آئندہ میں آپ کے ساتھ تعلیم میں نہیں بیٹھوں گا کہ اس سے مجھے نقصان ہوتا ہے۔ مجھے جتنا بھی فائدہ ہوا، شاہ صاحب کی برکت سے ہوا ہے۔ اپنے الفاظ پر دوبارہ غور کرنا۔ مجھے بتائیں ہمارے اکابر میں کون کون ہیں جو پیر نہیں گزرے؟ خود، مولانا الیاسؒ بھی صوفی تھے۔ حضرت جی، میں اس کو یہ جواب بھیجا۔ غلط کیا یا ٹھیک کیا، آپ بتائیں؟

جواب: جواب تو صحیح بھیجا ہے۔ اصل میں اصولی بات ہے کہ تبلیغی جماعت، اچھی بات کو دوسروں تک پہنچانے کا ایک انتہائی موثر پلیٹ فارم ہے۔ جہاں تک خیر کی بات ہے، جہاں سے بھی ملے، اس کا دوسروں تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس کے پہنچانے کا بھی بہترین پلیٹ فارم ہے، جس میں عوام بھی استعمال ہو سکتے ہیں، خواص بھی کام کر سکتے ہیں۔ شیطان کو یہ بات پسند نہیں آئی، لہذا شیطان کو فکر ہو گئی۔ شیطان کو طریقے آتے ہیں۔ وہ اچھی چیز کو خراب کر سکتا ہے اور خراب کو اچھی چیز بنا کر دکھا سکتا ہے۔ یہ اس کی ایک بہت بڑی خاصیت ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ تم جو کچھ کر رہے ہو، صحیح کر رہے ہو۔ اس کے علاوہ اور کوئی صحیح نہیں ہے۔ ایسے بعض لوگ ہیں، سارے نہیں ہیں۔ ماشاءاللہ، تبلیغی جماعت میں بھی ایسے حضرات ہیں، جو حق پر ہیں اور حق کی بات کرتے ہیں۔ خود بھی بیعت ہیں، بعض لوگ پیر بھی ہیں اور بیعت بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حضرات، رائیونڈ میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے بھی ایک بزرگ نے، جو رائیونڈ میں مقیم تھے، بیعت کی اجازت دی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حضرات ادھر موجود ہیں، تو جو لوگ اس بات کا دعوی کرتے ہیں، وہ اپنی ذمہ داری پر یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ اصل میں ان کا ظرف بہت چھوٹا ہے۔ ظرف چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ورنہ جن کا ظرف بڑا ہوتا ہے، وہ سب کو اہم سمجھتے ہیں۔ مثال دیتا ہوں کہ معاشرہ میں ایک ہوشیار آدمی ہوتا ہے، جو سمجھدار ہوتا ہے، ہر چیز سے واقف ہوتا ہے۔ وہ بھی اپنا علاج کرتا ہے اور ایک دیہاتی آدمی، جو بالکل ہی اجڈ ہے، جسے کسی طرح کی بھی سمجھ نہیں ہے، کچھ بھی نہیں جانتا۔ وہ بھی اپنا علاج کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جو بے وقوف لوگ ہوتے ہیں، اگر ان کو کسی جگہ سے شفا ہو جائے تو کہتے ہیں کہ بس شفا اسی میں ہے اور سب کو بتاتے ہیں کہ دیکھو! مجھے اس سے شفا ہوئی ہے، یہ بہت اچھی چیز ہے۔ کسی کو اگر دم دارو سے شفا ہو جائے، تو اس کا ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں۔ کسی کو کسی خاص ڈاکٹر سے شفا ہو جائے، تو وہ اس کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک خاندان تھا، وہ ایک لیڈی ڈاکٹر کے بہت معتقد تھے اور وہ کہتے تھے کہ بس اس کا علاج ہی صحیح علاج ہے۔ یہ جو بتائے، وہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس خاندان کے ساتھ میرے بڑے مراسم تھے۔ پتہ چلا کہ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ ان حضرات میں، خاندان کے ایک حکیم صاحب تھے۔ ان حکیم صاحب کو دوائیاں کوٹتے ہوئے، ہاتھ کی الرجی ہو گئی تھی۔ ہاتھوں میں پھنسیاں سی نکل آئیں اور کافی تکلیف کا شکار ہوئے۔ اس کا علاج، ان حکیم صاحب کے پاس نہیں تھا۔ تو ہوتے ہوتے، اس لیڈی ڈاکٹر کے پاس پہنچے، اپنے گھر والوں کی وساطت سے شاید پہنچے ہوں گے۔ انہوں نے اس کو ایول کا انجکشن لگا دیا، جو اینٹی الرجی انجکشن ہے۔ اس سے وہ ٹھیک ہو گئے۔ یہ بالکل ایک نارمل بات ہے کہ کسی کو الرجی ہو جائے، ایول کا انجکشن لگانے سے وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹری میں کوئی نا ممکن بات نہیں ہے، بالکل عام بات ہے، لیکن وہ پورا خاندان ان کا ایسا معتقد ہو گیا کہ بس ان کے علاوہ اور کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اس طرح، ناواقفیت، نا سمجھی اور عقل کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے، جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ورنہ جو ہوشیار لوگ ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہاں، یہ بات ٹھیک ہے، یہ صحیح ہے کہ آپ کو فائدہ ہوا لیکن اس کے علاوہ، اور بھی ہیں۔ ان کو ان سے بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جس کو، جس سے فائدہ ہوا ہے تو وہ ضرور بتائے کہ اس سے مجھے فائدہ ہوا ہے۔ لیکن وہ یہ نہ کہے کہ دوسرے سے فائدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف آپ کا تجربہ ہے اور آپ کو اس سے ہوا ہے، تو ٹھیک ہوا ہے۔

اس طرح جماعت میں جو اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں، بے وقوف ہوتے ہیں۔ وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ چاہے وہ عمر میں بڑے ہوں، لیکن بے وقوف ہوتے ہیں۔ ایسے بے وقوفوں کی بات نہیں ماننی چاہئے اور ان کی وجہ سے عمومی طور پر، جماعت سے بھی متنفر نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ فکر کی بات ضرور ہے کہ اس جماعت میں ایسے بے وقوفوں کی اب کثرت ہو رہی ہے۔ جو جماعت کے بڑے ہیں، ان کو اس کی فکر کرنی چاہئے کہ ایسوں کو سمجھائیں۔ کیوںکہ وہ جماعت کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے بے وقوفوں کو سمجھانے کی پوری ایک مہم چلائیں تاکہ ان کا علاج ہو جائے۔ ان کو ذرا پتہ چل جائے تاکہ وہ جماعت کی بدنامی کا زیادہ باعث نہ بنیں۔ یہ اب انہوں نے جو بات کی ہے کہ خانقاہ کی ضرورت نہیں ہے، تو کمال کی بات ہے کہ ہمارے مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ، باقاعدہ چلہ لگانے والوں کو خانقاہ بھیجا کرتے تھے۔ رائے پور شریف یا سہارن پور شریف بھیجا کرتے تھے۔ خود بھی فرماتے تھے کہ میں جب گشت کے لئے جاتا ہوں، صلحاء کی جماعت کے ساتھ جاتا ہوں۔ اس کے باوجود بھی لوگوں سے ملنے کا مجھ پر اثر ہوتا ہے۔ اس کے بعد میں رائے پور شریف یا سہارن پور شریف جاتا ہوں، یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ تو آپ اندازہ کر لیں کہ یہ کیا بات ہے۔ حضرت کو تو اپنی اتنی فکر ہے۔ اس کام میں؛ گشت میں، اِن لوگوں کی تو اصلاح ہوجاتی لیکن حضرت کو فکر ہو جاتی تھی۔ یہ بالکل عین اسی طرح ہے، جو عقل مند کو سمجھ آ سکتی ہے۔ بے وقوفوں کو سمجھ ہی نہیں آ سکتی۔ اگر نالی میں کوئی لعل گرا ہو تو لعل تو اٹھانا ضروری ہے۔ اگر کوئی ہوشیار آدمی ہو، تو ضرور اس کو اٹھائے گا لیکن اپنے لئے پانی کا، تولیہ اور صابن کا بندوبست ضرور کرے گا۔ لعل اٹھا لے گا، اس کو دھو لے گا، صاف کر کے پھر نہائے گا، کپڑے بدلے گا، تولیہ، صابن سے صفائی کرے گا۔ اس کے بعد لعل بھی اس کو مل جائے گا اور نالی کے نقصان سے بھی بچ جائے گا۔ اسی طریقہ سے جماعت میں چلنے والوں کا ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ جن کے دل میں دنیا کی بڑی محبت ہوتی ہے، بے حیائیاں ہوتی ہیں اور کوئی مختلف چیزیں ہوتی ہیں، ان سے مل کر وہ چیزیں انسان کی طرف آتی ہیں۔ جتنے نفسیاتی ماہرین ہیں، وہ اس پر متفق ہیں کہ ہر آدمی، دوسرے آدمی سے چوری کرتا ہے۔ یعنی جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے عادتیں لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اتنی بڑی جماعت چل رہی ہوتی ہے، تو جن جن کے ساتھ یہ ملاقاتیں ہوں گی، ان کے اثرات تو ان پر ہوں گے۔ اب یہ جو اثرات ہیں، اگر ان میں اچھے ہیں، تو اچھی بات ہے، اللہ کا فضل ہے۔ اگر اچھے نہیں ہیں، تو ان کو دھونا پڑے گا اور ان سے اپنے آپ کو بچانا پڑے گا۔ ایسی صورت میں پھر خود ہی کہتے ہیں کہ ہم تو صلحاء کے پاس اپنی اصلاح کی نیت سے تو نہیں جاتے، دوسروں کی اصلاح کی نیت سے جاتے ہیں۔ دوسروں کی اصلاح کی نیت سے، اپنے سے اچھے لوگوں کے پاس تو نہیں جائیں گے، اپنے جیسے لوگوں کے پاس جائیں گے۔ برے لوگوں کا اثر کیا بنے گا؟ پھر ظاہر ہے اس کا اثر تو پڑے گا۔ اس اثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے خانقاہ میں جانا پڑتا ہے، تو خانقاہوں کی تو ان کو بھی ضرورت ہے۔ خانقاہیں تربیت گاہیں ہیں، ان میں تربیت ہوتی ہے اور اپنی تربیت بہت ضروری ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس سے منکر ہیں، وہ ایک اصلاحی نظام سے منکر ہیں۔

دیکھئے دین کی کسی بھی بات سے انکار کرنا جرم ہے. دین کی کسی بھی بات سے انکار کرنا جرم ہے کیونکہ حلال اور حرام، اچھے برے کی تمیز، یہ صرف اللہ تعالی کے پاس ہے اور اللہ نے جو بتایا ہے، وہ درست ہے۔ ہمارے پاس ایک ہی criteria ہے؛ قرآن و سنت۔ قرآن پاک میں جو چار صفات انبیاء کرام کی بتائی گئی ہیں: یَتْلُوْا علَیْھِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُہُمْ الْکِتَاب وَ الْحِکْمَةَ وَ یُزَکِّیْہِمْ کہ قرآن پاک کی تلاوت لوگوں کو سکھاتے ہیں۔ کتاب کی تعلیم اور کتاب کے حکمت اور حکمت کی تعلیم لوگوں کو بتاتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔ یہ چار شعبے تو نبی کے ہو گئے، یہ تو قرآن سے ثابت ہیں۔ اب جو حضرات قرآن پاک پڑھا رہے ہیں، وہ بھی ایک نبوت والے شعبہ میں کام کر رہے ہیں۔ جو لوگ درسیات میں لگے ہوئے ہیں، وہ بھی ایک نبوت کے شعبہ میں کام کر رہے ہیں اور جو حکمت کی چیزیں لوگوں کو سکھاتے ہیں، حکمت سے مراد طبابت نہیں، مطلب ہے کہ دین کی حکمت، وہ بھی نبوت کے شعبہ میں کام کر رہے ہیں۔ جو تزکیہ کی لائن پر، جیسے خانقاہوں میں بیٹھے ہیں، وہ بھی نبوت کے شعبہ میں کام کر رہے ہیں۔ یہ تو بنص قرآن ہے، لہذا اس کا انکار کرنا بہت خطرناک بات ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ایسے بے وقوفوں کا علاج جلدی کرنا چاہئے، کیونکہ یہ خوارج کی طرح ہیں۔ جیسے خوارج نے دین کی بنیادی تمام باقی چیزوں سے انکار کر لیا تھا، وہ صرف اپنے آپ کو صحیح کہتے تھے۔ باقیوں کو، حتی کہ صحابہ کو بھی صحیح نہیں کہتے تھے۔ نتیجتا، صحابہ کو ان کے ساتھ لڑنا پڑا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ جس وقت ہم نے حملہ کیا، ان کے خیموں سے قرآن کی تلاوت کی ایسی آواز آرہی تھی، جیسے مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ ان کے ماتھوں پر سجدوں کے نشان ہوتے تھے۔ وہ روزہ رکھتے تھے، سارے دین کے کام کرتے تھے، لیکن صرف اپنے آپ کو صحیح کہتے تھے۔ باقیوں کو صحیح نہیں کہتے تھے۔ جو جماعت میں پھرنے والے ہیں، چاہے وہ بہت ہی عبادت کرتے ہوں، بہت کام کرتے ہوں لیکن ان کی سوچ اگر یہ ہے کہ صرف وہی صحیح ہیں، باقی غلط ہیں، تو یہ خوارج ہیں، خوارج کے طریقہ پر ہیں۔ لہٰذا ان بے وقوفوں کو سمجھانا چاہئے کہ خوارج کے طریقے پر نہ چلیں بلکہ اپنے اکابر کے طریقہ پر چلیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ ورنہ اپنے آپ کو تباہ کر دیں گے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرما دے۔(آمین) ہمارا کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں، ہم کسی سے حسد نہیں کرتے، ہم کسی سے عناد بھی نہیں کرتے۔ ہم کسی کے بارے میں کچھ بات بھی نہیں کرتے لیکن جو ہمارے اکابر کے خلاف یا ہمارے طریقہ کے خلاف بات کرے گا، تو ایسے ہے کہ جیسے کوئی چاند پر تھوک رہا ہو۔ چاند پہ تھوکا اپنے منہ پہ آتا ہے۔ پس یہ خود ہی خراب ہوں گے۔ اگر کوئی اس قسم کی بات کرتا ہے، تو یہ خود ہی خراب ہوں گے۔ لہذا مدارس کی بھی ضرورت ہے، خانقاہوں کی بھی ضرورت ہے اور اس طریقہ سے دینی سیاست اور جہاد کی بھی ضرورت ہے۔ اس جماعت کے کام کی اللہ تعالی حفاظت فرمائے۔ اللہ نہ کریں کہ سارے لوگ ایسے ہوجائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ سارے ایسے نہیں ہیں، لیکن اگر جس طرح ان میں تیزی کے ساتھ یہ لوگ پڑھ رہے ہیں، اس کا تدارک نہیں کیا گیا تو ایک وقت ایسا آ سکتا ہے کہ وہ نیک لوگ ان کو بالکل چھوڑ دیں یا ان کو نکال دیا جائے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ پھر سارے کے سارے یہی باقی رہ جائیں، تو یہ ساری کی ساری جماعت باطل پہ رہ جائے گی۔ اس وقت خطرناک صورت حال ہو گی۔ اس وجہ سے جو جماعت کے بڑے ہیں، ان سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ان کو توفیق بھی دے دے اور ہمت اور بصیرت بھی دے دے کہ وہ ایسے بے وقوفوں کا علاج کریں اور اس قسم کی باتوں سے ان کو روکیں۔ یہ باتیں میں نے اس لئے سخت کیں کہ صرف اس کی بات نہیں ہے، اس کے بارے میں تو جماعت والے اکثر کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو بس صرف سادہ لوگ ہیں، یہ جو آئے ہوتے ہیں، دکان سے اٹھ کے آئے ہوتے ہیں۔ ہم نے امیروں سے یہ باتیں سنیں ہیں یعنی گھس گئے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ ہیں جنھوں نے امیروں سے ایسی باتیں سنی ہیں۔ امیر لیول سے اس قسم کی باتیں، تو اب امیر کو تو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اگر امیر کو معاف کیا جا سکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پھر حق اور باطل کی کوئی تمیز ہی نہیں۔ پھر جو کوئی جو مرضی کرے۔ تو یہ باتیں میں نے سخت اس لئے کیں کہ ہم نے امیر لیول کے لوگوں سے یہ باتیں سنی ہیں اور وہ اپنے طریقہ پر نہیں رہے۔ وہ اب یہ کھلم کھلا کہتے ہیں کہ ہم تربیت بھی کر سکتے ہیں۔ کمال کی بات ہے، مجھے بتائیں کہ جماعت میں، سوائے 6 نمبر اور 12 کے، کہاں علم سکھایا جاتا ہے؟ وہ کون سی چیز ہے، جو سکھائی جاتی ہے؟ کیا جماعت میں زکوۃ دینے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے؟ کیا حج کا طریقہ سکھایا جاتا ہے؟ کیا معاشرت کے طریقے سکھائے جاتے ہیں؟ کیا وہ قرآن پاک کی تفسیر پڑھاتے ہیں؟ کیا حدیث شریف پڑھاتے ہیں؟ کہاں پر علم سکھاتے ہیں؟ لہٰذا یہ چلتا پھرتا مدرسہ تو نہیں ہے۔ مدرسوں کی اپنی اہمیت ہے۔ اس طریقہ سے خانقاہوں میں جس طرح تربیت ہوتی ہے، کہاں پر جماعت میں اس طرح کی تربیت ہوتی ہے؟ وہ یکسوئی، جس کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں پر ہے؟ آخر مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ خانقاہوں میں جاتے تھے، گشت کرنے کے بعد جاتے تھے۔ ان کو کیوں ضرورت پڑتی تھی؟ ہمارے بہت سارے جماعت کے حضرات، بڑے بڑے صوفیوں سے بیعت ہیں، وہ کیوں بیعت ہیں، اس کی کیا ضرورت تھی؟ تو مقصد یہ ہے کہ یہ بیوقوفی ہے، لیکن یہ بے وقوفی صرف چند افراد تک نہیں ہے کہ جن کو ہم سادہ کہیں اور معاف کر لیں۔ یہ معاملہ ذرا دور تک چلا گیا ہے۔ لہذا اب حق اور باطل کا باقاعدہ مقابلہ ہے۔ جماعت کے اندر کچھ ایسے لوگ ہیں، جو باطل پر ہیں۔ کچھ ایسے لوگ ہیں، جو حق پر ہیں۔ ہم ان حق والوں کے ساتھ ہیں، باطل والوں کے ساتھ نہیں۔ ہم ان سے بری ہیں، وہ ہمارے نہیں ہیں اور نہ ہم ان کے ہیں۔ نہ ہمارا، ان کے ساتھ تعلق ہےاور نہ ان کا ہمارے ساتھ تعلق ہے۔ اللہ تعالی ان کو ہدایت عطا فرما دے تا کہ وہ جلد از جلد اپنی اصلاح کر لیں۔ یہ کچھ ایسے لوگ ہیں، جو مرکزوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جھوٹ کو ثواب سمجھ کر جھوٹ کہتے ہیں؛ یعنی ایسے لوگ بھی ہیں جو جھوٹ کو ثواب سمجھتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اس طرح واسطہ پڑا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جھوٹ گھڑ کے بولتے تھے۔ پھر جب میں نے ان کو صاف بات بتائی تو کہتے ہیں، اچھا ہوا کہ آپ نے ہماری اصلاح کردی۔ جب ہم واپس آگئے، تو پھر وہی باتیں کرنے لگے۔ اب بتاؤ، اصلاح ہو گئی تو پھر دوبارہ وہی باتیں کیوں کرتے ہو؟ اس کا مطلب شرارت ہی ہے، شرارتی ذہن ہے۔ اور مرکز میں بیٹھا ہوا ہے۔ ان کو تو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ان کو بھی معاف کیا جا سک، تو پھر مجھے بتاؤ کہ حق اور باطل کی پہچان کا کون سا طریقہ ہے؟ تو بہرحال اللہ تعالی ان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنا احتساب کریں اور اچھے لوگوں کو آگے لائیں اور اس قسم کی جو کالی بھیڑیں ہیں، پتا نہیں کہاں سے آئی ہیں، ان کو جلد از جلد جماعت سے دفع کریں۔ اسی میں جماعت کا فائدہ ہے اور اسی میں جماعت کی خیر ہے۔


04. Someone has sent an email, who is not urdu speaking so I shall answer in English. I want to ask you the first thing that my every friend, on their birthday, gives toffees to the whole class and teachers. They wear shalwar kurta and come to school with any type of hair style. His birthday is on 18th December. Can I also distribute toffees to the whole class and teachers? Can we also wear school dress and come with plated hair as a normal school girl? Last year I didn’t make my birthday in class, but from class KG to 5th,I have made my birthday in class. The second thing I have to ask, is becoming an air hostess bad? I am not thinking of the future. I am just asking you. Third thing, when our music test comes, our music Ma’am makes us sing songs from movies. I don’t watch movies and I don’t want to sing as my voice is bad. So our music Ma’am said “those who don’t sing, don’t have craze”. I don’t want to be in boys and girls school. I want to be in a school, where only girls study. My friend was also ringing that she is also trying to go to a girls school but there is only one girl school named Saint Francis School, which is a girls school but It has much tougher studies than our school. So, it is difficult to get admission in that school. I have tried many times but I won't get admission in that school. My friend also wants to go to that school. My brother has studied in a boys school and I also want to study in the girls school. Please tell me that can I distribute toffees to the whole class and teachers? I write this mail by myself. My mother doesn't see. I just asked her that can I write? because I am not allowed to open the internet myself.

جواب:

As for as birthday is concerned, Muslim don't celebrate it because it is not our custom. When I was in Germany, our office secretary knew my date of birth because she had seen it in the papers. So at that date, she congratulated me and said, happy birthday to you! So I said It is not my birthday because we have a different year system. So in that way, I avoided that. She was very surprised but I told her that we have a different year system and we are not following this year's system. Therefore alhamdulillah, it was avoided. So you can avoid this also in the same manner and tell them that it is not our way to celebrate. Our way to celebrate birthdays is this that we should think that our one year has ended. We have lost one year to work. So we should be very careful to do good things in the future to compensate for the bad things done in the past. So we should say it in this way. In this way, it will be a message to others also. So I think this should be done. You should continue the effort for getting admission in girls school. For that purpose, if you have to study too much, ok do the study. In this way you will get admission and in that way you will get sawab too because you will be avoiding bad things through this. So I think you will understand what I have said about the birthday and about admission in the school.

05۔ ایک مولانا صاحب نے لکھا ہے کہ عرض خدمت ہے کہ ہماری مسجد انتظامیہ کا اصرار ہے کہ آپ ذکر کرائیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ حضرت صاحب کی اجازت کے بغیر میں نہیں کرا سکتا۔ وہ برا مان گئے کہ اللہ کا ذکر کرنے کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ وہ لوگ بریلوی مسلک کے ہیں، تو جو حکم آپ فرمائیں۔ بندہ حکم

جواب: اصل میں وہ بے چارے اس چیز کو جانتے نہیں ہیں کہ یہ ذکر اصلاحی اور تعلیمی ہے۔ یہ ذکر عام ذکر نہیں ہے۔ عام ذکر کی تو اجازت ہے، وہ تو کسی نے نہیں روکا۔ کوئی کونے میں بیٹھ جائے، جتنا بھی ذکر کرے، اس کے اوپر کس کی پابندی ہے؟ درود شریف جتنا مرضی پڑھیں، اس کے لئے بھی کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ جو تعلیمی یا اصلاحی ذکر ہے، اس کے لئے شیخ کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ ایسے حالات آجاتے ہیں، جس میں شیخ کی اس وقت ضرورت ہوتی ہے۔ مطلب بعض دفعہ کچھ لوگ ہوتے ہیں، جن پہ حال طاری ہو جاتا ہے۔ اب اس کو کنٹرول کرنے کے لئے اگر نہ ہو تو پھر کیا ہو گا؟ جس طرح E.T.T ٹیسٹ ہوتا ہے، تو E.T.T ٹیسٹ کے پاس ڈاکٹر کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حالانکہ technician کراتا ہے، ٹیسٹ technician کا کام ہوتا ہے لیکن اس وقت ڈاکٹر کا ہونا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اگر کسی کو اس وقت دل کا عارضہ تھا اور وہ بگڑ گیا، تو اس وقت technician تو نہیں کنٹرول کر سکتا۔ اسی طریقہ سے یہ ایک اصلاحی چیز ہے۔ تو اجازت اس کے ساتھ نہیں ہے۔ کوئی اپنا انفرادی ذکر کر رہا ہو یا اپنا اپنا ذکر کر رہا ہو، کوئی پابندی نہیں ہے۔ ان شاءاللہ، میں وہاں اس مسجد میں جاکر بیان کروں گا اور پھر یہ چیز میں ان کو سمجھا دوں گا، ان شاءاللہ۔

06۔ ذکر