20141102_QA203
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔
آج اتوار ہے اور اتوار کے دن ہماری خانقاہ میں سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔ عموماً یہ سوال و جواب عصر کے بعد خانقاہ میں ہوتے ہیں، لیکن مدینہ منورہ میں ہونے کی وجہ سے اور اوقات آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے اس وقت کرنا پڑ رہا ہے، لہٰذا پاکستان کے لیے مغرب کے وقت کے بعد ہو رہا ہے۔ یہ چونکہ اپ لوڈ ہو جائے گا تو جن کے سوالوں کے جوابات ہوں گے تو وہ سن لیں گے۔ اگر باہر سے سوالات نہ آئے ہوں تو پھر حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں، حاضرین میں سے کسی کا سوال ہو تو پوچھ سکتے ہیں۔
سوال 01:
تعمیرِ شخصیت اور اصلاحِ نفس، یہ علیحدہ علیحدہ شعبے ہیں یا ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں؟
جواب:
دیکھیں! ایک مسلمان کی سوچ ہوتی ہے اور ایک سیکولر سوچ ہوتی ہے۔ سیکولر سوچ میں مذہب کو نہیں داخل کیا جاتا، وہ ہر چیز کو دنیا کے لحاظ سے دیکھتے ہیں، سب کے لیے وہ برابر ہوتے ہیں، اس لحاظ سے اگر ہم کہیں گے تو تعمیر شخصیت ان کے لیے بہت اہم ہے، وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کیونکہ معاشرے کی فلاح و بہبود تعمیر شخصیت پر منحصر ہے، اگر تعمیر شخصیت ہو گی اور اچھی شخصیات ہوں گی تو لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ مثلا ایک شخص بے جا غصہ کرتا ہے، فراڈی ہے، کرپشن کرتا ہے، مال کی محبت میں مبتلا ہے، leg pulling کرتا ہے، شہرت کا دلدادہ ہے، اب ظاہر ہے جس معاشرے میں بھی وہ ہو گا اس معاشرے کو نقصان پہنچائے گا، لہٰذا اگر یہ چیزیں اس سے نکال دی جائیں تو اس کو تعمیر شخصیت کہا جائے گا، اگر وہ سیکولر معاشرہ میں ہو۔ اور اگر مسلمانوں کے معاشرہ میں ہے تو اس کو اصلاح نفس کہا جائے گا۔ تو اس لحاظ سے یہ دونوں ایک ہو جاتی ہیں۔ البتہ "اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات" تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، لہذا اگر کسی کی نیت دنیا کی چیزوں کی ہو گی تو اس کو صرف دنیا کی چیزیں اچھی مل جائیں گی، باقی اس کا اجر نہیں ملے گا۔ لیکن اگر کوئی اس کو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق کرتا ہے اور اس کو اپنی ذمہ داری اس لیے سمجھتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور اللہ پاک نے اس کا حکم دیا ہے اور مجھے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے تو اس کو ایک فرض پورا کرنے کا اجر ملے گا، اور یقیناً اس میں اس کی تعمیر شخصیت بھی ہوتی جائے گی۔ تو نیت کے لحاظ سے different ہے، لیکن output کے لحاظ سے دونوں ایک ہیں۔
سوال 02:
نفس اور شیطان کی موجودگی میں نیت ہر وقت کیسے درست رکھی جائے؟
جواب:
نفس اور شیطان کی موجودگی میں سب کچھ کرنا پڑتا ہے، نفس ہمارے ساتھ ہے اور شیطان ایک حقیقت ہے اس کا خارجی وجود ہے، لیکن ہمارے اندر ایسے ہی تصرف کرتا ہے جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جیسے رگوں میں خون دوڑتا ہے۔ اس طرح شیطان بھی ہمارے اندر ہی تصرف کرتا ہے، وساوس ڈالتا ہے، لہٰذا ان کی موجودگی میں ہی ہم لوگوں کو اصلاح نفس کا سوچنا چاہیے اور نیتوں کو درست کرنا، اور درست رکھنا چاہیے۔ اول میں عرض کروں گا کہ دیکھیں کام تو کرنا ہی ہے، لیکن اگر اچھی نیت سے کیا جائے تو اس کا فائدہ ہو جاتا ہے اور اگر بری نیت سے کیا جائے گا تو نقصان ہو گا اور اگر بغیر نیت کے کیا جائے تو نہ فائدہ ہو گا نہ نقصان۔ تو جب ایک کام کرنا ہی ہے تو پھر اس کو اچھی نیت سے کیوں نہ کیا جائے۔؟ اس لیے فرماتے ہیں کہ اچھی اچھی نیتیں کر لیا کرو، بلکہ فرماتے ہیں کہ صبح جب اٹھو تو اچھی اچھی نیتیں کر کے اٹھو کہ میں نے یہ کرنا ہے، یہ کرنا ہے، وہ کرنا ہے۔ اس میں جن چیزوں پر عمل ہو جائے گا اس کا تو پورا اجر مل جائے گا، دس گنا یا اس سے زیادہ اور اگر عمل نہیں ہوسکے گا تو اس عمل کی نیت کا ایک گنا جو اجر ہے وہ تو کہیں نہیں گیا، وہ تو تمہیں مل ہی جائے گا۔ لہذا فرماتے ہیں کہ اچھی اچھی نیتیں کر لیا کرو، نیتیں اچھی کرنا ہمارے لیے تو کوئی مشکل نہیں ہے، ہاں البتہ یہ ہے کہ استحضار کے لیے کوئی نظام بنا لیا جائے کہ انسان کو کم از کم یاد رہے کہ میں نے اچھی نیت کرنی ہے۔ مثال کے طور پر کسی دوست سے ملنا ہے تو اس میں یہ نیت کرے کہ مسلمان کا حق ادا کرنا اور اچھے تعلقات کو دین کے لیے استعمال کرنا اور اس کے لیے خیر خواہی کرنا اور اس کو اچھی باتوں کی تلقین کرنا اور برائی سے بچانا، یہ ساری نیتیں کی جا سکتی ہیں، اس کا آپ کو اجر بھی مل جائے گا اور ساتھ ملاقات بھی ہو جائے گی۔ بہرحال اس میں زیادہ تر بات استحضار کی ہے وہ انسان کو کرنا چاہیے، لیکن کرنا سب کچھ نفس اور شیطان کی موجودگی میں ہی ہے۔
سوال 03:
حضرت جی! معمولات میں جب سستی ہونے لگتی ہے تو دل میں یہ خیال آتا ہے کہ نفس کا مجاہدہ آپ کو کرنا پڑے گا اس کا زیادہ اجر ملے گا۔ سستی ہونے کے باوجود بندے کے دل میں یہ خیال آ رہا ہوتا ہے کہ آپ کو اس چیز کا اجر مل رہا ہے، تو سستی پر بندہ sustain کرنے لگتا ہے تو یہ بندہ کیسے identify کرے گا کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے؟
جواب:
یہ بے وقوفی کی طرف سے ہے۔ یعنی انسان یہ کیسے کر سکتا ہے! سستی کو تو اتارنے کا حکم ہے، لہذا اس حکم پر عمل ہی نہیں ہو رہا، جس چیز کا حکم ہے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے اور سستی انسان کو روک رہی ہے۔
یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ حاضر وقت میں آپ کو اگر اس سے تکلیف ہو رہی ہے تو اس پر آپ کو اجر بھی مل رہا ہے، لیکن یہ نہیں کہ اس اجر کو حاصل کرنے کے لیے آپ مزید سستی پیدا کر لیں۔ یہ تو ایسا ہے جیسے مسجد سے آپ پچاس قدم کے فاصلے پر ہیں اور آپ دو سو قدم پیچھے چل کر واپس جائیں کہ ہمیں 250 قدم کا اجر مل جائے گا، پوچھا جائے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ سیدھا مسجد کیوں نہیں آئے؟ تو بہرحال نیتیں بنا بنا کے اپنے لیے سستی کا کوئی راستہ پیدا کرنا، اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس کو بے وقوفی کہا جائے گا جیسے کہ مسجد سے پیچھے چلنا بے وقوفی ہے۔
سوال 04:
جیسا کہ اعتدال کے بارے میں بتایا جاتا ہے که ہمارے اخلاق میں اعتدال ہونا چاہیے ہر ایک خلق میں، تو اس میں افراط کا علاج ہے جیسے غضب زیادہ ہو تو اس کو کنٹرول کرنے کی بات ہوتی ہے۔ اگر کسی کو feel ہو کہ کسی جائز چیز کی خواہش کم ہے، تو وہ شیخ ہی بتا سکتا ہے؟ کیونکہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ آدمی کہے کہ اس طرح کی خاص رغبت کم ہے تو اس کو بڑھانے کے لیے وہ خود extra لذات میں پڑے۔
جواب:
بہت اچھا سوال ہے، ماشاء اللہ موقع محل کے مطابق بھی ہے، اس میں میں عرض کروں گا کہ یقیناً زیادہ تر تو شیخ ہی بتاتا ہے، لیکن شریعت کا اصول سمجھنا چاہیے جو بھی حکم ہو گا وہ اعتدال کا متقاضی ہو گا، لہذا جب بھی شریعت کے ساتھ تصادم آئے گا یا تو افراط ہو گا یا تفریط ہو گی۔ آپ اپنے عمل کو شریعت پر پیش کریں کہ آیا وہ شریعت کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے یا نہیں کر رہا، اگر شریعت کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے تو اعتدال ہے، نہیں پورا کر رہا تو اگر شریعت کے تقاضے سے زیادہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے فساد آرہا ہے، اور شریعت کی مخالفت لازم آرہی ہے تو پھر یہ افراط ہے اور اگر شریعت کے حکم کے جتنے تقاضے ہیں اس سے کم ہورہا ہے اور اس سے شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی کا ارتکاب ہورہا ہے، تو یہ تفریط ہے۔ ایسی صورت میں جو ہمارے سامنے حد فاصل ہے، وہ شریعت ہے، شریعت کو دیکھنا چاہیے۔ مثلاً ایک شخص عورتوں کے پیچھے بھاگا پھر رہا ہے تو یہ افراط ہے اور ایک شخص ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ بھی بات نہیں کرتا اس سے بھی بچا رہتا ہے تو یہ تفریط ہے، کیونکہ شریعت کا حکم ٹوٹ رہا ہے، بیوی کے تو اس کے ساتھ اپنے حقوق وابستہ ہیں، اور اتنی فرقت سے شریعت کا حکم ٹوٹ رہا ہے، تو کس reference سے ٹوٹ رہا ہے؟ جتنا ہونا چاہیے اتنا نہیں ہے تو اتنا کرنا چاہیے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ وَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ وَّ لِعَیْنِكَ عَلَیْكَ حقٌّ" تفریط ہی کی طرف نشاندہی فرمائی ہے، تو یقینا اس کا زیادہ تر حصہ شیخ ہی بتاتا ہے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا، البتہ خود بھی اگر انسان اپنے اعمال نامہ پر غور کرے تو اس میں انسان کو پتا چل سکتا ہے۔